٧
مذکورہ بالا نکات کی وضاحت کے بعد اب هم اصول دين کی بحث شروع کرتے هيں:
خدا پر ايمان لانے کا راستہ :
خدا پر ايمان لانے کی راهيں متعدد هيں :
اهل الله کے لئے اس کی دليل ومعرفت کا ذريعہ خود اس کی ذات هے <ا ؤََ لَمْ يَکْفِ بِرَبِّکَ ا نََّٔہ عَلیٰ
کُلِّ شَیْء شَهِيْد> ٢((يا من دل علی ذاتہ بذاتہ)) ٣ ،((بک عرفتک وا نٔت دللتنی عليک)) ٤
اوراهل الله کے علاوہ بقيہ افراد کے لئے چند راہوں کی طرف مختصر طور پر اشارہ کرتے هيں :
الف):انسان جب بهی خود اپنے يا اپنے حيطہ ادراک ميں موجود، موجودات کے کسی بهی جزء
کے متعلق غور کرے تو اس نتيجے پر پهنچے گا کہ اس جزء کا نہ هونا محال نهيں هے اور اس کا هونا يا
نہ هونا ممکن هے۔اس کی ذات عدم کی متقاضی هے اور نہ هی وجود کی۔اور مذکورہ صفت کی حامل هر
ذات کوموجود هونے کے لئے ايک سبب کی ضرورت هے، اسی طرح جس طرح ترازو کے دو مساوی
پلڑوں ميں سے کسی ايک پلڑے کی دوسرے پر ترجيح بغيرکسی بيرونی عامل وسبب کے ناممکن هے، اس
فرق کے ساته کہ ممکن الوجود اپنے سبب کے ذريعے موجود هے اور سبب نہ هونے کی صورت ميں عدم
کا شکار هے اور چونکہ اجزاء عالم ميں سے هر جزء کا وجود اپنے سبب کا محتاج هے، لہٰذااس نے يا تو
خود اپنے آپ کو وجود عطا کيا هے يا موجودات ميں سے اسی جيسے موجود نے اسے وجود بخشا هے۔
ليکن جب اس کا اپنا وجود هی نہ تها تو خود کو کيسے وجود عطا کرسکتا هے او راس جيساممکن الوجود
جس چيز پر خود قادر نهيں غير کو کيا دے گا۔اور يہ حکم وقاعدہ جوکائنات کے هر جزء ميں جاری هے،
کل کائنات پر بهی جاری وساری هے۔
جيسا کہ ايک روشن فضاکا وجود،جس کی اپنی ذاتی روشنی کوئی نهيں اس بات کی دليل هے کہ
اس روشنی کامبدا ضرور هے جو اپنے هی نور سے روشن ومنور هے ورنہ ايسے مبدا کی غير موجودگی
ميں فضا کا روشن ومنور هونا ممکن هی نهيں هے، کيونکہ ذاتی طور پر تاريک موجو د کا غير ، تو
درکنار خود کو روشن کرنا بهی محال هے۔
اسی لئے وجود کائنات اور اس کے کمالات ،مثال کے طورپر حيات، علم اور قدرت، ايک ايسی
حقيقت کے وجود کی دليل هيں جس کا وجود، حيات، علم اورقدرت کسی غير کے مرهون منت نهيں<ا مَْٔ
خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَیْءٍ ا مَْٔ هُمُ الْخَالِقُوْنَ> ٥ ((عن ابی الحسن بن موسی الرضا (ع) ا نٔہ دخل عليہ رجل فقال لہ:
يا ابن رسول اللّٰہ! ما الدليل علی حدوث العالم؟ فقال (ع): ا نٔت لم تکن ثم کنت وقد علمت ا نٔک لم تکوّن نفسک
ولا کوّنک من هو مثلک)) ٦
ابو شاکر ديصانی نے چهٹے امام (ع) سے پوچها: اس بات کی کيا دليل هے کہ آپ (ع) کو کوئی
خلق کرنے والا هے؟ امام نے فرمايا: ((وجدت نفسی لا تخلو من إحدی الجهتين، إما ا نٔ ا کٔون صنعتها ا نٔا ا ؤ
صنعها غيری، فإن کنت صنعتها ا نٔا فلا ا خٔلو من ا حٔد المعنيين،إما ا نٔ ا کٔون صنعتها وکانت موجودة، ا ؤ
صنعتها وکانت معدومة فإن کنت صنعتها وکانت موجودة فقد استغنيت بوجودها عن صنعتها، و إن کانت
معدومة فإنک تعلم ا نٔ المعدوم لا يحدث شيئًا، فقد ثبت المعنی الثالث ا نٔ لی صانعاً وهو اللّٰہ رب العالمين)) ٧
--------------
1 سورہ ابراهيم، آيت ٢٧ ۔”اور ظالمين کو گمراهی ميں چهوڑ ديتا هے اور وہ جو بهی چاہتا هے انجام ديتا هے‘ ‘۔
2 سورہ فصلت، آيت ۵٣ ۔”اور کيا پروردگار کے لئے يہ بات کافی نهيں هے کہ وہ هر شئے کا گواہ اور سب کا
ديکهنے والا هے“۔
3 بحار الانوار،جلد ٨۴ ، صفحہ ٣٣٩ ، بيان مولی الموحدين عليہ السلام۔”اے وہ کہ جس کی ذات دلالت کرتی هے اس
کی ذات پر (اپنی شناخت ميں کسی کا محتاج نهيں)
4 بحارالانوار، جلد ٩۵ ، صفحہ ٨٢ ، بيان حضرت امام زين العابدين عليہ السلام۔”تجه کو تيرے هی ذريعہ پہچانا هے
اور تو خوداپنی ذات پر دلالت کرتا هے“۔
5 سورہ طور، آيت ٣۵ ۔”کيايہ بغير کسی چيز کے از خود پيدا هوگئے هيں يا يہ خودهی پيدا کرنے والے هيں“۔
6 بحارالانوار جلد ٣، صفحہ ٣۶ ۔حضرت امام علی رضا عليہ السلام سے روايت هے کہ ايک شخص آپ کے پاس آکر
پوچهتا هے : ”يابن رسول الله عالَم کے حادث هونے پر کيا دليل هے؟حضرت فرماتے هيں:تم پهلے نهيں تهے پهر تم هوگئے
باتحقيق تم جانتے هو کہ تم نے اپنے آپ کو نهيں پيدا کيا(اور يہ بهی جانتے هو کہ)جس نے تم کو وجود بخشا هے وہ تمهارے
جيسا نهيں هے“۔
. 7 سوره توحيد، صحفه ٢٩٠
٨
جو چيز نہ تهی اور موجود هوئی يا تو خود اس نے خود کو وجود عطاکيا يا کسی غير نے۔ اگر
خود اس نے خود کو موجود کيا، يا تو وہ خودپهلے سے موجود تهی اور اس نے خود کو موجود کيا يا پهلے
سے موجود نہ تهی،پهلی صورت ميں موجود کو وجود عطا کرنا هے جو محال هے اور دوسری صورت
ميں معدوم کو وجود کی علت وسبب قرار دينا هے اور يہ بهی محال هے۔ اگر کسی دوسرے نے اسے وجود
عطا کيا هے اور وہ بهی پهلے نہ تها اور بعد ميں موجود هوا هے تو وہ اسی کی مانند هے۔
لہٰذا، بحکم عقل جو بهی چيز پهلے نہ تهی اور بعد ميں موجود هوئی اس کے لئے ايسے خالق کا
هونا ضروری هے جس کی ذات ميں عدم ونابودی کا سرے سے کوئی عمل دخل نہ هو۔
اسی لئے، کائنات ميں رونما هونے والی تمام تبديلياں اور موجودات اس خالق کے وجود پر دليل
هيں جسے کسی دوسرے نے خلق نهيں کيا هے اور وہ مصنوعات ومخلوقات کا ايسا خالق هے جو خود
مصنوع و مخلوق نهيں هے۔
ب):اگر کسی بيابان ميںکوئی ايسا ورق پڑا ملے جس پر الف سے ياء تک تمام حروف تهجی
ترتيب سے لکهے هوں،هر انسان کا ضمير يہ گواهی دے گا کہ ان حروف کی لکهائی اور ترتيب، فهم و
ادراک کا نتيجہ هيں اور اگر انهی حروف سے کلمہ اور کلمات سے لکها هوا کلام ديکهے تو اس کلام کی
بناوٹ و ترکيب ميں موجود دقّت نظر کے ذريعے مو لٔف کے علم وحکمت پر استدلال کرے گانيز اگر کسی
کی گفتار ميں انهی خصوصيات کا مشاهدہ کرے گا تو مقرر کے علم وحکمت کا معترف هو جائے گا۔کيا
ايک پودے ميں موجود عناصر اوليہ کی ترکيب،کتاب کی ايک سطر کی جملہ بندی سے کم تر هے، جو
لکهنے والے کے علم پر نا قابل انکار دليل هے؟!
وہ کونسا علم اور کيسی حکمت هے جس نے پانی اور مٹی ميں بيج کے چهلکے کے لئے موت
اور بوسيدگی کا مادہ فراهم کيا هے اور اس بيج کے مغز کو پودے کی شکل ميں زندگی عطا کی هے ؟!
جڑ کو وہ قدرت وطاقت عطا کی هے کہ زمين کے دل کو چيرکر مٹی کی تاريک تہوں سے
پودے کے لئے خوراک جذب کرتی هے اور مٹی کے حصوں سے مختلف درختوں کے لئے خوراک فراهم
کی هے، تاکہ هر پودا اور هر درخت اپنی مخصوص خوراک حاصل کر سکے اور درختوں کی جڑوں کو
ايسا بنا يا هے کہ وہ اپنی مخصوص خوراک کے علاوہ جو ا س درخت کے مخصوص پهل کو جاملتی هے،
کوئی اور خوراک جذب نہ کريں اور زمين کی کشش ثقل کا مقابلہ کرتے هوئے پانی اور خوراک درخت
کے تنے اور شاخوں تک پهنچائيں۔جس وقت جڑيں زمين سے پانی اور خوراک لے کر درخت کے تنے اور
شاخوں تک پهنچانے ميں مصروف عمل هوتی هيں، اسی دوران تنا بهی فضا سے هوا اور روشنی لينے
کے عمل کو انجام دے رها هوتا هے ((کلّ ميسّر لما خلق لہ)) ١،جس قدر بهی کوشش کی جائے کہ جڑ،
جسے مٹی کے اعماق تک جانے اور تنا جسے فضا ميں سر بلند کرنے کے لئے بنا يا گيا هے،کو اس
حکيمانہ سنت سے روکيں اور اس کے برعکس جڑ کو فضا اور تنے کو مٹی ميں قرار ديں تو يہ دونوں
قانون کی اس خلاف ورزی کا مقابلہ کرتے هوئے طبيعی طريقہ کار کے مطابق اپنی نشونما جاری رکهيں
گے <وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰہِ تَبْدِيْلاً> ٢
فقط ايک درخت اور ان رگوں کی جو اس کی جڑوں سے ہزار ها پتوں تک حيرت انگيز نظام کے
ساته پهنچائی گئی هيں، بناوٹ اور پتوں کے هر خليے کو دی جانے والی قدرت وتوانائی ميں غور وفکر،
جس کے ذريعے وہ جڑو ں سے اپنی خوراک اورپانی کوجذب کرتے هيں، اس بات کے لئے کافی هے کہ
انسان لا متناهی علم وحکمت پر ايمان لے آئے <ا مََّٔنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ وَ ا نَْٔزَلَ لَکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً
فَا نَْٔبَتْنَا بِہ حَدَائِقَ ذَاتَ بَہْجَةٍ مَّا کَانَ لَکُمْ ا نَْٔ تُنْبِتُوْا شَجَرَہَا ا إِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ> ٣<ا ا نَْٔتُمْ ا نَْٔشُا تُْٔمْ
شَجَرَتَہَا ا مَْٔ نَحْنُ الْمُنْشِو نَُٔ> ٤ <وَ ا نَْٔبَتْنَا فِيْهَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ> ٥
--------------
1 بحارالانور،جلد ۴، صفحہ ٢٨٢ ۔”جو چيز جس امر کے لئے پيدا کی گئی هے اس کے لئے سهل وآسان هے“۔
2 سورہ احزاب ، آيت ۶٢ ۔”اور خدائی سنت ميں کوئی تبديلی نهيں هو سکتی هے“۔
3 سورہ نمل ، آيت ۶٠ ۔”بهلا وہ کون هے جس نے آسمان و زمين کو پيدا کيا هے اور تمهارے لئے آسمان سے پانی
برسايا هے پهر هم نے اس سے خوشنما باغ اگائے هيں کہ تم ان کے درختوں کو نهيں اگا سکتے تهے کيا خدا کے ساته کوئی اور
خدا هے نهيں بلکہ يہ قوم وہ هے جس نے حق سے عدول کيا هے۔
4 سورہ واقعہ، آيت ٧٢ ۔”اس کے درخت کو تم نے پيدا کيا هے يا هم اس کے پيدا کرنے والے هيں“۔
5 سورہ حجر، آيت ١٩ ۔”اور هر چيز کو معينہ مقدار کے مطابق پيدا کيا هے “۔
٩
نيز جس پودے اوردرخت کو ديکهيں، جڑ سے لے کر پهل تک حق تعالی کے علم،قدرت اور
حکمت کی آيت ونشانی هے اور ان کی نشونما کے لئے جو آئين مقرر کيا گيا هے اس کے سامنے سر
جهکائے هوئے هے <وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدْانِ> ١
جيسا کہ کسی بهی جاندار کی زندگی ميں غوروفکر، انسان کے لئے خدا کی طرف رهنماهے۔
ابو شاکر ديصانی نے چهٹے امام (ع) کی خدمت ميں حاضر هو کر کها :اے جعفر بن محمد
(عليهما السلام)! مجهے ميرے معبود کی جانب رهنمائی فرمائيں۔ ايک چهوٹا بچہ مرغی کے انڈے کے ساته
کهيل رها تها۔
امام (ع) نے اس بچے سے انڈا لے کر فرمايا :”اے ديصانی!اس انڈے کے گرد محکم حصار
هے، اس کا چهلکا سخت هے اور اس چهلکے کے نيچے باريک جهلی هے۔ اس باريک جهلی کے نيچے
پگهلا هوا سونا اور سيال چاندی موجود هے جو آپس ميں نهيں ملتے۔نہ تو اندر سے کوئی مصلح باهر آيا
هے جو اس کے بارے ميں اصلاح کی خبر دے اور نہ هی کوئی مفسد باهر سے اندر گيا هے جو فساد کی
اطلاع دے اور نہ هی کوئی يہ جانتا هے کہ انڈا نر کے لئے بنا يا گيا هے يا مادہ کے لئے۔“ ٢
آيا تصفيہ شدہ چونے کے ذريعے محکم حصار کو، جس ميں بے انتها اسرار پوشيدہ هيں، کس
صاحب تدبير نے مرغی کے کهائے هوئے دانوں سے جدا کر کے اس کے تخم دان ميں چوزے کی پرورش
کے لئے ايسا مقام امن بنايا اور اس کے اندر نطفے کو، صدف ميں گوهر کی مانند جگہ دی۔ چونکہ چوزہ
اس دوران ماں سے دور هے اور رحم مادر ميں نهيں هے جهاں سے اپنی خوراک حاصل کر سکے، لہٰذا
اس کے لئے اسی محکم حصار کے اندر اس کے قريب هی خوراک کا انتظام کيا۔چونے کی سخت ديوار اور
چوزے اور اس کی خوراک کے درميان نرم ونازک جهلی بنا ئی تاکہ چوزہ اور اس کی خوراک حصار کی
سختی سے محفوظ رهيں۔ اس اندهيری اور تاريک فضا ميں اس کے اعضاء وجوارح کو ہڈيوں، پٹهوں،
رگوں، اعصاب اور حواس، جن ميں سے فقط اس کی آنکه کا دقيق مطالعہ محيّرا لعقول هے، کے ذريعے
پايہ تکميل تک پهنچا کر هر ايک کو مناسب جگہ قرار ديا۔
اورچونکہ اس چوزے کو اپنی خوراک کے لئے مٹی اور پتهروں کے درميان سے دانے چننے
هيں، لہٰذا اس کی چونچ ہڈی کی ايک خاص قسم سے بنائی تاکہ زمين پر موجود پتهر وں کے ساته ٹکرانے
سے اسے کوئی نقصان نہ پهنچے۔ اورکهيں اپنی خوراک سے محروم نہ هوجائے، لہٰذااسے سنگدانہ عطا
کيا تاکہ جو بهی دانہ ملے اسے کهاکر اس ميں محفوظ کر لے اور پهر اسے بتدريج نظامِ ہضم کے حوالے
کرے۔اس کی نازک کهال کو پروں کے ذريعے ڈهانپ کر سردی،گرمی، چوٹ اور جانوروں کے آزار سے
محفوظ کيا۔ ضروريات
وواجباتِ زندگی عطا کرنے کے علاوہ ظاهری خوبصورتی جيسے مستحبات سے غفلت نهيں
برتی اور اس کے پروں کو دل موہ لينے والے رنگوں سے رنگ ديا، جيسا کہ امام (ع) نے فرمايا :((تنفلق
عن مثل ا لٔوان الطواويس)) ٣
اور چونکہ چوزے کے تکامل کے لئے مرغی کے سينے کی مناسب حرارت کی ضرورت هے،
وہ مرغی جسے فقط رات کی تاريکی هی سعی و کوشش اورحرکت سے روک سکتی هے اچانک اس کی
کيفيت يہ هوجاتی هے کہ تلاش وجستجو کو چهوڑ کر جب تک حرارت کی ضرورت هو، اس انڈے پر
بيٹهی رہتی هے۔
وہ کونسی حکمت هے جس نے مرغی پر خمار جيسی کيفيت طاری کر دی هے تاکہ وہ چوزے
ميں زندگی کی حرکت کو وجود ميں لاسکے؟! اور وہ کونسا استاد هے جس نے اسے دن رات انڈوں کے
رخ تبديل کرنا سکهايا هے تاکہ چوزے کے اعضاء ميں تعادل برقرار رهے،جو چوزے کی راهنمائی کرتا
هے کہ خلقت مکمل هونے کے بعد انڈے کے اس محکم حصار کو چونچ سے توڑدے اور اس ميدانِ زندگی
ميں قدم رکهے جس کے لئے اسے يہ اعضاء وجوارح عطا کئے گئے هيں۔اور وہ مرغی جو اپنی حيوانی
جبلّت کے تحت، فقط اپنی زندگی سے نقصان دہ چيزوں کو دور اورفائدہ مند چيزوں کو انتخاب کرنے کے
--------------
1 سورہ الرحمن، آيت ۶۔”اور ستارے اور درخت سب اسی کا سجدہ کررهے هيں“۔
2 بحارالانوار، جلد ٣، صفحہ ٣١ ۔
3 بحارالانوار، جلد ٣، صفحہ ٣٢ ۔ ”اور موروں کے رنگ کی طرح مختلف رنگ پهوٹيں گے“۔
١٠
علاوہ کوئی دوسرا عمل انجام هی نہ ديتی تهی، اچانک اس ميں ايسا انقلاب برپا هوجاتا هے کہ اس ناتوان
اور کمزور چوزے کی حفاظت کی خاطر سينہ سپر هو جاتی هے اور جب تک چوزے کے لئے محافظ کی
ضرورت هے، اس ميں يہ محبت باقی رہتی هے ؟!
کيا مرغی کے ايک انڈے کے متعلق غوروفکر، اس خالق کائنات کی رهنمائی کے لئے کافی نهيں
هے کہ <خَلَقَ فَسَوّٰية وَ الَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدیٰ> ١
اسی لئے امام (ع) نے فرمايا :((ا تٔرا لها مدبر اً؟ قال: فا طٔرق ملياً، ثم قال: ا شٔهد ا نٔ لا إلہ إلا اللّٰہ
وحدہ لا شريک لہ وا شٔهد ا نٔ محمداً عبدہ ورسولہ، وا نٔک إمام وحجة من اللّٰہ علی خلقہ وا نٔا تائب ممّا کنت
فيہ)) ٢
هاں، وهی علم و قدرت اور حکمت جو مٹی کے گهپ اندهيرے ميں بيج اور انڈے کے چهلکے کی
تاريکی ميں چوزے کو کسی هدف اور مقصد کے لئے پروان چڑهاتا هے، ماں کے پيٹ اور اس کے رحم
کی تاريکيوں ميں انسانی نطفے کو، جو ابتداء ميں خوردبين سے نظر آنے والے جاندار سے بڑه کر نهيں
هوتا اور اس ميں انسانی اعضاء و جوارح کے آثار تک نهيں هوتے، رحمِ مادر سے باهرزندگی بسر کرنے
کے لئے تمام ضروريات زندگی سے ليس کرتا هے۔
مثال کے طور پر جنين ميں، ہڈيوں کو اپنی ذمہ داری نبهانے کے لئے مختلف شکل اور حجم ميں
بنايا، مختلف حرکات کے لئے عضلات کو قرار ديا،دماغ کی حيرت انگيز بناوٹ کے ذريعے مشعلِ ادراک
کو روشن کيا اور دل کی فعاليت کے ذريعے جو هرسال کروڑوں بار دهڑکتا هے، حرارتِ حيات کو زندگی
کے اس مرکز ميں محفوظ فرمايا۔
انسانی جسم کی اس سادہ ترين ترکيب ميں غوروفکر، عزيز و عليم خدا کی تقدير پر ايمان لانے
کے لئے کافی هے۔ مثال کے طور پر انسان کے منہ ميں تين قسم کے دانت بنائے، پهلے ثنايا اس کے بعد
انياب، پهر اس کے بعد چهوٹے طواحن اور آخر ميں بڑے طواحن کو قرار ديا ٣۔اگر ثنايا، انياب اور چهوٹے
طواحن کو بڑے طواحن کی جگہ قرار ديا جاتا تو دانتوں کی ترتيب ميں يہ بگاڑ، غذا توڑنے اور چبانے
سے لے کر اس چهرے کی بد صورتی اور خوبصورتی ميں کيا کردار ادا کرتا ؟!
اگر بهنويں جو آنکهوں کے اوپر هيں، نيچے اور ناک کے سوراخ، نيچے کے بجائے اوپر کی
سمت هوتے تو کيا هوتا؟!
زمين کی آبادی اور اس پر آبا د کاری، چاهے کاشتکاری هو يا مضبوط ترين عمارت يانازک و
دقيق ترين صنعت ، سب کے سب، انگلی کی پوروں اور اس پر ناخنوں کے اگنے سے وابستہ هيں۔
وہ کونسی حکمت هے جس نے ناخن بنانے والا مادّہ، انسان کی غذا ميں فراهم کيا، اسے حيرت
انگيز طريقے سے ہضم کے مرحلے سے گزارا اورپهر رگوں ميں داخل کر کے انگليوں کی پوروں تک
پهنچايا اور اس تخليق کی غرض کو مکمل کرنے کے لئے گوشت اور ناخن ميں پيوند کے ذريعے ان دونوں
کے درميان ايسا رابطہ بر قرار کيا کہ ان دونوں کو ايک دوسرے سے جدا کرنا نهايت طاقت فرسا کام هے،
ليکن غرض ومقصد حاصل هونے کے بعد ان کو اس طرح ايک دوسرے سے جدا کر ديا کہ ناخن آسانی
کے ساته کاٹے جاسکيں؟!
تعجب آور تو يہ هے کہ جس غذا سے ناخن کا مادّہ اس سختی کے ساته تيار هوا هے، اسی غذا
سے کمالِ لطافت کے ساته ايک صاف اورشفاف مادّہ، بينائی کے لئے بهی تيا رہوا هے جو ہضم وجذب کے
مراحل کو طے کرنے کے بعد آنکه تک جا پهنچتا هے۔
اگر ان دونوں کے طے شدہ تقسيمِ رزق ميں کام الٹ جاتا اورناخن آنکه سے نکل آتا، جب کہ وہ
صاف شفاف مادّہ آنکهوں کی بجائے انگليوں کی پوروں تک جا پهنچتا، تو انسانی نظامِ زندگی ميں کتنا بڑا
خلل واقع هوجاتا ؟!
--------------
1 سورہ اعلی، آيت ٢و ٣۔”پيدا کيا اور درست بنا ياهے۔جس نے تقدير معين کی هے اور پهر هدايت دی هے“۔
2 بحارالانوار، جلد ٣، صفحہ ٣٢ ۔”حضرت فرماتے هيں:کيا اس کے لئے کسی مدبر کو ديکهتے هو:تهوڑی دير
سکوت کے بعد خدا کی وحدانيت ومحمد کی رسالت وآنحضرت کی امامت پر ايمان لے آيا اور اپنے گذشتہ عمل کی توبہ کی“۔
3 ثنايا: اوپر کے دو دانت جو سامنے کی طرف هوتے هيں، انياب: اوپر کے دو نوک دار دانت، طواحن: ڈاڑهيں۔
١١
يہ علم وحکمت کے آثار کا سادہ ترين نمونہ هے جو کسی دقّت نظر کا محتاج نهيں <وَفِیْ ا نَْٔفُسِکُمْ
ا فََٔلاَ تُبْصِرُوْنَ> ١تو انسانی خلقت کے ان عميق ترين اسرار کے بارے ميں کيا کہئے گا کہ جن کی تہہ تک
رسائی کے لئے انسان کو اپنے علم کو جديد ترين آلات کی مدد سے کام ميں لاتے هوئے،سرجری اور
اعضائے انسانی کی خصوصيات و کردار جيسے شعبوں ميں اعلیٰ مهارت بهی حاصل کرنی پڑے۔ <ا ؤََلَمْ
يَتَفَکَّرُوْا فِیْ ا نَْٔفُسِہِمْ> ٢
جی هاں، اتنی زيادہ علمی کاوشوں کے بعد اب تک جس موجود کی جلد کی حکمت هی واضح نہ
هوسکی هو، اس کے باطن اور مغز ميں کيسے عظيم اسرار پنهاں هيں، جيسے ملائمات کو جذب کرنے
والی شہوت اور ان کی حفاظت ونا ملائمات کو دفع کرنے والے غضب سے لے کر، ان دو کے عملی تعادل
کے لئے عقل اور نظری تعادل کے لئے حواس کی هدايت سے سرفراز کيا گيا هے<وَ إِنْ تَعُدُّّوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ لاَ
تُحْصُوْہَا> ٣
حکمت کی ايسی کتاب کو علم وقدرت کے کون سے قلم سے پانی کے ايک قطرے پر
لکهاگياهے؟!<فَلْيَنْظُرِ اْلإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَةخُلِقَ مِنْ مَّاءٍ دَافِقٍ> ٤ <يَخْلُقُکُمْ فِی بُطُوْنِ ا مَُّٔهَاتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِی
ظُلُمَاتٍ ثَلاَثٍ> ٥
يہ کيسا علم اور کيسی قدرت وحکمت هے کہ جس نے غليظ وپست پانی ميں تيرنے والے
خوردبينی حيوان سے ايسا انسان خلق کيا هے جس کی مشعلِ ادراک، اعماقِ آفاق وانفس کی جستجو کرے
اِقْرَا وَرَبُّکَ اْلاَکْرَمَةالَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِةعَلَّمَ اْلإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ ٦اور زمين وآسمان کو اپنی قدرت وجولان فکر کا
ميدان قرار دے؟ <ا لَمْ تَرَوا ا نََّٔ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلا رَْٔضِ وَ ا سَْٔبَغَ عَلَيْکُمْ نِعَمَہ ظَاہِرَةً
وَّبَاطِنَةً وَّمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلاَ هُدًی وَّلاَ کِتَابٍ مُّنِيْرٍ> ٧
اس علم وقدرت اور رحمت وحکمت کے سامنے انسان، خود پروردگار عالم کے اس فرمان کے
علاوہ کيا کہہ سکتا هے کہ <فَتَبَارَکَ اللّٰہُ ا حَْٔسَنُ الْخَالِقِيْنَ> ٨ اور اس کے سوا کيا کر سکتا هے کہ خاک پر
گر کر اس کے آستانہ جلال پر ماتها رگڑ کر کهے:((سبحن ربی الا عٔلی وبحمدہ))
اس آيت کريمہ <سَنُرِيْهِمْ آيَاتِنَا فِی اْلآفَاقِ وَفِی ا نَْٔفُسِہِمْ حَتّٰی يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ> ٩کے مطابق، آفاقِ
جهاں ميں بهی دقّت نظر ضروری هے کہ لاکهوں سورج،چاند وستارے جن ميں سے بعض کا نور ہزاروں
نوری سالوںکے بعد زمين تک پهنچتا هے، جب کہ نور هر سيکنڈ ميں تقريبا تين لاکه کلو ميٹر کا فاصلہ
طے کرتا هے، اور جن ميں سے بعض کا حجم،زمين کے حجم سے کروڑوں گنا زيادہ هے، ان سب کے
درميان اتنا گهرا انتظام اتنے دقيق حساب کے ساته بر قرار کيا گيا هے، ان ميں سے هر ايک کو اس طرح
اپنے معين مدار ميںرکها گيا هے اور قوتِ جاذبہ ودافعہ کے درميان ايسا عمومی تعادل برقرار هے کہ ان
--------------
1 سورہ ذاريات، آيت ٢١ ۔”اور خود تمهارے اندر بهی ۔ کيا تم نهيں ديکه رهے هو“۔
2 سورہ روم، آيت ٨۔”کيا ان لوگوں نے اپنے اندر فکر نهيں کی هے“۔
3 سورہ نحل، آيت ١٨ ۔”اور تم الله کی نعمتوں کو شمار نهيں کر سکتے هو“۔
سورہ نحل، آيت ١٨ ۔”اور تم الله کی نعمتوں کو شمار نهيں کر سکتے هو“۔
4 سورہ طارق ، آيت ۵،۶ ۔”پهر انسان ديکهے کہ اسے کس چيز سے پيدا کيا گيا هے۔وہ ايک اچهلتے هوئے پانی سے
پيدا کيا گيا هے“۔
5 سورہ زمر، آيت ۶۔ ”وہ تم کو تمهاری ماو ںٔ کے شکم ميں خلق کرتا هے ايک کے بعد ايک خلقت جو تين تاريکيوں
کے درميان هے“۔
6 سورہ علق، آيت ٣،۴،۵ ۔ ”پڑهو! اور تمهارا پروردگار بزگوار هے، جس نے قلم کے ذريعہ تعليم دی هے۔ اور انسان
کو وہ سب کچه بتا ديا هے جو اسے نهيں معلوم تها“۔
7 سورہ لقمان، آيت ٢٠ ۔”کيا تم لوگوں نے نهيں ديکها کہ الله نے زمين وآسمان کی تمام چيزوں کو تمهارے لئے مسخر
کرديا هے اور تمهارے لئے تمام ظاهری اور باطنی نعمتوں کو مکمل کر ديا هے اور لوگوں ميں بعض ايسے بهی هيں جو علم
وهدايت اور روشن کتاب کے بغير بهی خدا کے بارے ميں بحث کرتے هيں“۔
8 سورہ م ؤمنون، آيت ١۴ ۔”وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا هے“۔
9 سورہ فصلت، آيت ۵٣ ۔”هم عنقريب اپنی نشانيوں کو تمام اطراف عالم ميں اور خود ان کے نفس کے اندر دکهلائيں
گے تاکہ ان پر يہ بات واضح هو جائے کہ وہ حق هے“۔
١٢
تمام سياروں کے درميان کسی قسم کے ٹکراؤ ياتصادم کا واقع هونا، ناممکن هے <لاَ الشَّمْسُ يَنْبَغِی لَهَا ا نَْٔ
تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ يَّسْبَحُوْنَ> ١
زمين کو،جو انسانی زندگی کا مرکز هے، اس پر محيط ايک کروی فضاء کے ذريعے محفوظ کيا
جس سے دن رات ہزاروں شهاب ٹکرا کر ختم هو جاتے هيں۔
سورج اورزمين کے درميان اتنا مناسب فاصلہ برقرار کيا کہ معادن، نباتات، حيوانات اور انسانی
زندگی کی نشو نما کے اعتبار سے، روشنی وحرارت تما م شرائط کے مطابق موجود رهے۔
زمين کی اپنے مدار اور محور دونوں پر حرکت کو اس طرح منظّم کيا کہ زمين کے زيادہ تر
حصے ميں طلوع وغروب اور دن ورات هر آن موجود رهيں، آفتاب طلوع هوتے هی سورج کی روشنی
وحرارت سے نظامِ زندگی کو روشنی اور گرمی ملے اور حصولِ رزق ومعاش کا بازار گرم هوجائے اور
غروب آفتاب کے ساته هی آرام وسکون کے لئے رات کا اندهيرا، جو بقاءِ زندگی اور تجديد نشاط کے لئے
ضروری هے، اپنے ڈيرے ڈال دے تاکہ سورج کی مستقل حرارت يا اس کے مکمل انقطاع سے نظامِ حيات
ميں کوئی خلل واقع نہ هو <وَ هُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ ا رََٔادَ ا نَْٔ يَّذَّکَّرَ> ٢<وَ مِنْ رَّحْمَتِہ جَعَلَ لَکُمُ
الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْکُنُوْا فِيْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہ> ٣<قُلْ ا رََٔا ئًْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَيْکُمُ اللَّيْلَ سَرْمَداً إِلَی يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ إِلٰہٌ
غَيْرُ اللّٰہِ يَا تِْٔيْکُمْ بِضِيَاءٍ ا فًَٔلاَ تَسْمَعُوْنَ> ٤
نوروظلمت اور روز و شب دونوں، آپس کے انتها درجے کے تضادّ و اختلاف کے باوجود، مل کر
ايک هی هدف ومقصد پورا کرنے ميں مصروفِ عمل هيں اور دوسری جانب جو کچه زمين ميں هے اسے
دن اور جو کچه آسمانوں ميں هے اسے رات کے وقت انسان کی نظروں کے سامنے رکها گيا هے تاکہ دن
رات آسمانوں اور زمين کے ملک وملکوت انسان کی بصارت اور بصيرت کے سامنے موجود رهيں۔
انسان کے لئے کتابِ وجود کی دن رات ورق گردانی کی تاکہ وہ زمين وآسمان کے صفحے سے
آياتِ خدا کا مطالعہ کر سکے <ا ؤََلَمْ يَنْظُرُوْا فِی مَلَکُوْتِ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنَ
شَیْءٍ> ٥<وَکَذٰلِکَ نُرِی إِبْرَاهِيْمَ مَلَکُوْتَ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ وَ لِيَکُوْنَ مِنَ الْمُوقِنِيْنَ> ٦
وہ انسان جو ذهنِ بشر ميں قوانين واسرارِ کا ئنات کے انعکاس کو علم وحکمت کا معيار و ملاک
سمجهتا هو،کس طرح ممکن هے کہ وہ مغز،ذهن اوردانشوروں کے تفکر کو بنانے والے، کائنات پر حکم
فرما قوانين کو نافذ کرنے والے اور اسرارِ نظام هستی کو وجود عطا کرنے والی هستی کو فاقدِ علم وحکمت
سمجهے، حالانکہ تمام مفکرين کے اذهان ميں منعکس هوجانے والے قوانين کا ئنات کی نسبت ان قوانين
کے مقابلے ميں جو اب تک مجهول هيں، ايسی هے جيسے قطرے کے مقابلے ميں ايک سمندر <وَمَا
ا ؤُْتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيْلاً> ٧
اس بات پر کيسے يقين کيا جا سکتا هے کہ کتاب هستی سے چند سطروں کی نقول تيار کرلينے
والا تو عليم وحکيم هو ليکن خود کتابِ وجود کا مصنف، اس نقل تيار کرنے والے کا خالق اور نقل کے
وسيلے کو فراهم کرنے والا هی بے شعور و بے ادراک هو؟!يهی وجہ هے کہ منکر کی فطرت بهی دانا
وتوانا خالق کے وجود کی گواهی و شهادت ديتی هے وَلَئِنْ سَا لَْٔتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ وَسَخَّرَ
--------------
1 سورہ يس، آيت ۴٠ ۔”نہ آفتاب کے بس ميں هے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات کے لئے ممکن هے کہ وہ دن سے
آگے بڑه جائے ۔ اور يہ سب کے سب اپنے اپنے فلک اور مدار ميں تيرتے رہتے هيں“۔
2 سورہ فرقان، آيت ۶٢ ۔”اور وهی هے جس نے رات اور دن ميں ايک کو دوسرے کا جانشين بنايا هے اس کے لئے
جو عبرت حاصل کرنا چاہتا هے“۔
3 سورہ قصص، آيت ٧٣ ۔”يہ اس کی رحمت کا ايک حصہ هے کہ اس نے تمهارے لئے رات لے آئے گا رات اور دن
دونوں بنائے هيں تاکہ آرام بهی کر سکو اور رزق بهی تلاش کر سکو“۔
4 سورہ قصص، آيت ٧١ ۔”آپ کہئے کہ تمهارا کيا خيال هے اگرخدا تمهارے لئے رات کو قيامت تک کے لئے ابدی
بنادے تو کيا اس کے علاوہ اور کوئی معبود هے جو تمهارے لئے روشنی کو لے آسکے تو کيا تم بات سنتے نهيںہو“۔
5 سورہ اعراف، آيت ١٨۵ ۔”اور کيا ان لوگوں نے زمين وآسمان کی حکومت اور خدا کی تمام مخلوقات ميں غور نهيں
کيا“۔
6 سورہ انعام، آيت ٧۵ ۔”اور اسی طرح هم ابراهيم کو ملکوت آسمان و زمين دکهلائيں گے، اور اس لئے کہ وہ يقين
کرنے والوں ميں شامل هو جائيں“۔
7 سورہ اسراء، آيت ٨۵ ۔”اورتمهيں بہت تهوڑا سا علم ديا گيا هے“۔
١٣
الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَا نَٔیّٰ يُو فَْٔکُوْنَ> ١ <وَلَئِنْ سَا لَْٔتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَاْلا رًْٔضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ
الْعَزِيْزُالْعَلِيْمُ> ٢
منکرين خدا ميں سے ايک شخص آٹهويں امام(ع) کے پاس آيا تو امام (ع) نے اس سے فرمايا:اگر
تمهارا عقيدہ صحيح هو، جب کہ ايسا نهيں هے، تب بهی هميں نماز،روزہ،زکات اور اقرار سے کوئی
نقصان نهيں پهنچا۔ (کيونکہ دينی فرائض جو ايمان لانا،عمل صالح کرنا اور منکرات کو ترک کرنا هے،روح
کے اطمينا ن اور معاشرے کی اصلاح کا سبب هيں اور اگر بالفرض عبث اور بے کار هوں تب بهی،مبدا
ومعاد کے احتمالی وجود کے مقابلے ميں ان اعمال کے مطابق عمل کی تکليف اور نقصان نهايت کم هے،
کيونکہ دفع شر اور بے انتها خير کثير کو جلب کرنا،جو محتمل هو، عقلاًضروری هے)۔
اس شخص نے کها : جس خدا کے تم لوگ قائل هو وہ کيسا هے اور کهاں هے؟
امام (ع) نے فرمايا :اس نے اَين کو اَينيت اور کيف کو کيفيت عطا کی هے۔ (وهی اَين و مکان اور
کيف و کيفيت کا خلق کرنے والا هے، جب کہ مخلوق کبهی بهی خالق کے اوصاف و احوال کا حصہ نهيں
بن سکتی، کيوں کہ خالق ميں مخلوق کے اوصاف موجود هونے کا لازمی نتيجہ يہ هے کہ خالق مخلوق کا
محتاج هوجائے، اسی لئے خداوند متعال کو نہ کسی کيفيت يا مکانيت سے محدود کيا جاسکتا هے، نہ کسی
حس کے ذريعے محسوس کيا جاسکتا هے اور نہ هی کسی چيز کے ساته پرکها جا سکتاهے)۔
اس شخص نے کها:بنا برايں اگراسے کسی حس کے ذريعے محسوس نهيں کيا جاسکتا، تو اس کا
وجود نهيں هے۔
امام (ع) نے فرمايا : جب تيری حس اس کے ادراک سے عاجز هوئی تو تو ا س کا منکر هوا اور
جب هم نے حواس کو اس کے ادراک سے عاجز پايا تو هميں يقين هوا کہ وہ همارا پروردگا ر
هے۔(موجودات کو محسوسات تک منحصر سمجهنے والا اس بات سے غافل هے کہ حس موجود هے ليکن
محسوس نهيں، بينائی اور شنوائی موجود هے ليکن ديکهی اور سنی نهيں جاسکتی هے، انسان ادراک کرتا
هے کہ غير متناهی محدود نهيں هے جب کہ هر محسوس هونے والی چيز محدود ومتناهی هے------------
-؛کتنے هی ذهنی وخارجی موجودات ايسے هيں جو حس ومحسوسات سے ماوراء هيں، جب کہ وہ شخص
موجود کو محسوس تک محدود خيال کرنے کی وجہ سے خالق حس ومحسوس کا منکر هو ا اور امام (ع)
نے اس شخص کی اسی حقيقت کی جانب هدايت کی کہ حس ومحسوس،وهم وموہوم اور عقل ومعقول کا
خالق حس، وهم اورعقل ميں نهيں سما سکتا،کيونکہ حواس خمسہ جس چيزکا ادراک کرتے هيں اس پر
محيط هوتے هيں جب کہ يہ حواس خد اکی مخلوق هيں اور خالق اپنی مخلوق پر مکمل احاطہ رکهتاهے،
لہٰذا خالقِ حس ووهم وعقل کا خودان کے دائرہ ادراک ميں آجانا،جبکہ وہ ان پر محيط هے اور محيط کا
محاط ميں تبديل هونا ممکن هی نهيں هے اور اگر خداوندِ متعال محسوس يا موہوم يا معقول هو تو حواس
سے درک هونے والی اشياء کے ساته شبيہ وشريک قرار پائے گااور اشتراک کا لازمہ اختصاص هے، جب
کہ ترکيب مخلوق کی خصوصيت هے، لہٰذا اگر خداوندِمتعال حس ووهم وعقل ميں سما جائے تو مخلوق هوا
نہ کہ خالق)۔
اس نے پوچها :خدا کب سے هے ؟
امام (ع) نے فرمايا : تم يہ بتاو کہ کب نہ تها؟ (خداوندِ متعال جو زمان وزمانيات اور مجردات
وماديات کے لئے قيوم هے، اس کی ذات اقدس عدم، نابودی اور زمان ومکان سے مبراهے)
پهر اس نے امام (ع) سے پوچها : پس اس کے وجودکی دليل کيا هے ؟
امام (ع) نے آفاق و انفس ميں موجود آياتِ خد ا کی هدايت کی اور جسم کی بناوٹ ميں تفکروتدبر
کے ذريعے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ اپنے وجود کی اس بناوٹ ميں جن باريک نکات اور لطا
ئف حکمت کا خيال رکها گيا هے، ان کے ذريعے اس خالق کے علم وحکمت کا اندازہ لگائے۔ اسے بادلوں،
هوا، سورج،چاند اور ستاروں کی حرکت ميں غوروفکر کرنے کو کها تاکہ اجرام فلکی ميں موجود عجائب
--------------
1 سورہ عنکبوت، آيت ۶١ ۔”اور اگر آپ ان سے پوچهيں گے کہ آسمان و زمين کو کس نے پيدا کيا هے اور آفتاب و
ماہتاب کو کس نے مسخر کيا هے تو فوراً کهيں گے کہ الله، تو يہ کدهر بہکے چلے جارهے هيں“۔
2 سورہ زخرف، آيت ٩۔”اور آپ ان سے سوال کريں گے کہ زمين وآسمان کو کس نے پيدا کيا هے تو يقينا يهی کهيں
گے کہ ايک زبردست طاقت والی اور ذی علم هستی نے خلق کيا هے“۔
١۴
قِدرت وغرائب حکمت ميں تفکر وتدبر کے ذريعے عزيز و عليم کی قدرت تک پهنچ سکے اور متحرکات
آسمانی کی حرکت کے ذريعے تغير وحرکت سے منزہ محرّک پر ايمان لے آئے۔ ١
ج): مادّے و طبيعت ميں موجود تغير وتحول، اس مادّے وطبيعت سے برتر قدرت کی دليل
هيں،کيونکہ مادّہ يا اس سے منسوب کسی بهی مادّی شے ميں تاثير،وضع ومحاذات کی محتاج هے۔مثال کے
طور پر آگ جو حرارت جسم ميں تاثير رکهتی هے يا چراغ جس کی شعاع فضا کوروشن ومنور کرتی هے،
جب تک آگ يا چراغ کی اس جسم يا فضا کے ساته خاص نسبت پيدا نہ هو، ممکن هی نهيں هے کہ جسم ا
س آگ کی حرارت سے گرم يا فضا اس چراغ کے نور سے روشن و منور هوجائے، اورچونکہ معدوم کے
ساته وضع اورنسبت کا برقرار هونا محال هے، لہٰذ ا ايسے موجودات جو پهلے مادہ و طبيعت ميں نہ تهے
اور بعد ميں وجودپايا يا پائےں گے، ان موجودات ميں مادہ وطبيعت کی تاثير ممکن نهيں هے۔آسمان و زمين
ميں موجود هونے والا هر معدوم ايسی قدرت کے وجود کی دليل هے جس کو تاثير کے لئے وضع ومحاذات
کی ضرورت نهيں هے اوروہ ماورائے جسم وجسمانيات هے<إِنَّمَا ا مَْٔرُہ إِذَا ا رََٔادَ شَيْا ا نَْٔ يَّقُوْ لَ لَہ کُنْ
فَيَکُوْنُ> ٢
د):خدا پر ايمان انسان کی سرشت ميں موجود هے، کيونکہ فطری اعتبار سے انسان اپنے آپ کو
ايک مرکز سے وابستہ اور محتاج پاتا هے، ليکن اسبابِ معيشت کی مصروفيت اور خواهشات نفسانی سے
لگاؤ اس وابستگی کے مرکز کو پانے ميں رکاوٹ هيں۔
جب بے چارگی اور نااميدی اسے چاروں طرف سے گهير ليتی هے اور فکر کے تمام چراغوں کو
بجها هو ا اور تمام صاحبان قدرت کو عاجز پاتا هے، اس کا سويا هوا ضمير جاگ اٹهتا هے اور جس غنی
بالذات پر فطرتاً بهروسا کئے هوئے هے، اس سے بے اختيار مدد طلب کرتا هے<قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْکُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ
الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہ تَضَرُّعاً وَّ خُفْيَةً لَّئِنْ ا نَْٔجَاْنَا مِنْ هٰذِہ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشَّاکِرِيْنَ> ٣ <وَ إِذَا مَسَّ اْلإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا
رَبَّہ مُنِيْبًا إِلَيْہِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَہ نِعْمَةً مِّنْہُ نَسِيَ مَا کَانَ يَدْعُوْا إِلَيْہِ مِنْ قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلّٰہِ ا نَْٔدَادًا لِّيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِہ> ٤ <هُوَ
الَّذِی يُسَيِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتّٰی إِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَيْنَ بِہِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّ فَرِحُوْا بِہَا جَائَتْہَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّ
جَائَہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوا ا نََّٔہُمْ ا حُِٔيْطَ بِہِمْ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ لَئِنْ ا نَْٔجَيْتَنَا مِنْ ہٰذِہ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ
الشّٰکِرِيْنَ> ٥
ايک شخص نے امام صادق (ع) سے عرض کی : ((يا ابن رسول اللّٰہ! دلّنی علی اللّٰہ ما هو، فقد
ا کٔثر علیّ المجادلون و حيرونی۔ فقال لہ: يا عبد اللّٰہ ، هل رکبت سفينة قط؟ قال: نعم۔ قال: فهل کسر بک حيث
لا سفينة تنجيک و لا سباحة تغنيک؟ قال: نعم، قال: فهل تعلق قلبک هنالک ا نٔ شيئاً من الا شٔياء قادر علی ا نٔ
يخلصک من ورطتک؟ قال: نعم، قال الصَّادق (ع): فذلک الشی هو اللّٰہ القادر علی الإنجاء حيث لا منجي
وعلی الإغاثة حيث لا مغيث)) ٦
جيسا کہ بے چارگی کے عالم ميں دوسروں سے انقطاع مطلق کے دوران خداوندِ متعال کی يہ
معرفت اور فطری ارتباط حاصل هو جاتا هے، اختياری حالت ميں بهی اسے علم وعمل جيسے دو پروں کے
ذريعے پرواز کر کے حاصل کيا جاسکتا هے:
--------------
1 توحيد، صفحہ ٢۵٠ ۔
2 سورہ يس،آيت ٨٢ ۔”اس کا صرف امر يہ هے کہ کسی شئے کے بارے ميں يہ کهنے کا ارادہ کر لے کہ هو جااور
وہ شئے هو جاتی هے“۔
3 سورہ انعام، آيت ۶٣ ۔”ان سے کہہ ديجئے کہ خشکی اور تری کی تاريکيوں سے کون نجات ديتا هے جب تم گڑا گڑا
کر اور خفيہ طريقہ سے آواز ديتے هو کہ اگر اس مصيبت سے نجات دے دے گا تو هم شکر گذار بن جائيں گے“۔
4 سورہ زمر، آيت ٨۔”اور جب انسان کو کوئی تکليف پهنچتی هے تو پوری توجہ کے ساته پروردگار کو آواز ديتا هے
پهر جب وہ اسے کوئی نعمت ديديتا هے تو جس بات کے لئے اس کو پکاررها تها اسے يکسر نظر انداز کرديتا هے اور خدا کے
لئے مثل قرار ديتا هے تاکہ اس کے راستے سے بہکا سکے“۔
5 سورہ يونس، آيت ٢٢ ۔”وہ خدا وہ هے جو تمهيں خشکی اور سمندر ميں سيرکراتا هے يهاں تک کہ جب تم کشتی
ميں تهے اور پاکيزہ هوائيں چليں اور سارے مسافر خوش هوگئے تو اچانک ايک تيز هواچل گئی اور موجوں نے هر طرف سے
گهيرے ميں لے ليا اور يہ خيال پيدا هو گيا کہ چاروں طرف سے گهر گئے هيں تو دين خالص کے ساته الله سے دعا طلب کرنے
لگے کہ اگر اس مصيبت سے نجات مل گئی تو هم يقينا شکر گذار وں ميں هو جائيں گے“۔
6 بحارالانوارجلد ٣،صفحہ ۴١ ، ترجمہ: ايک شخص نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے عرض کيا: يابن رسول الله
! مجه کو خداکے بارے ميں بتايں کہ وہ کيا هے؟ميں نے بہت زيادہ مجادلہ کرنے والوں کو ديکها ليکن ان سب کی بحثوں نے
مجه کو پريشان کرديا هے۔
١۵
حضرت فرماتے هيں:کيا کبهی کشتی پر سوار هوئے هو؟کہتا هے :هاں حضرت فرماتے هيں :کيا
کبهی ايسا بهی هوا هے کہ کشتی ٹوٹ گئی هو اور وهاں پر کوئی اور کشتی نہ جس پر سوار هو جاو اور
نجات مل جائے اور نہ تيرنا آتا هو جس سے تم نجات پاجاو جوا ب ديتا هے :هاں حضرت نے فرمايا:
ايسے حال ميں تمهارے دل ميں کسی قادر توانا کا خيال آيا جو تم کو ابهی بهی نجات دلا سکتا هے؟کہتا هے
:هاں حضرت نے فرمايا:بس وهی خدا هے جو ايسے حالات ميں بهی تم کو نجات دے سکتا هے جب کوئی
تمهاری مدد نہ کرسکے۔
اول)يہ کہ نور عقل کے ذريعے انسان، جهالت وغفلت کے پردوں کو پاراکرے اور ديکهے کہ
موجودات کا وجود اور ان کے کمالات ذاتی نهيں، بلکہ سب کے سب ذات قدوس کی جانب منتهی هوتے هيں
<هُوَ اْلا ؤََّلُ وَاْلآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِيْمٌ> ١ <هُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِی الْمُصَوِّرُ لَہ اْلا سَْٔمَاءُ
الْحُسْنٰی> ٢
دوم)يہ کہ طهارت وتقویٰ کے ذريعے آلودگی او ر رذايل نفسانی کی کدورت کو گوهرِوجود سے
دور کرے، کيونکہ خدا اور اس کے بندے کے درميان جهالت وغفلت اور کدورت گناہ کے علاوہ کوئی
دوسرا پر دہ نهيں هے کہ جسے علمی وعملی جهاد کے ذريعے پارا کرنا ضروری هے<وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا
لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا> ٣
چهٹے امام (ع) نے ابن ابی العوجا ء سے فرمايا :
((ويلک وکيف احتجب عنک من ا رٔاک قدرتہ في نفسک؟ نشؤک ولم تکن و کبرک بعد صغرک و
قوتک بعد ضعفک و ضعفک بعد قوتک و سقمک بعد صحتک و صحتک بعد سقمک و رضاک بعد غضبک
و غضبک بعد رضاک و حزنک بعد فرحک، و فرحک بعد حزنک و حبک بعد بغضک و بغضک بعد حبک
و عزمک بعد إبائک و إباو کٔ بعد عزمک و شہوتک بعد کراہتک وکراہتک بعد شہوتک و رغبتک بعد
رهبتک و رهبتک بعد رغبتک ورجائک بعد يا سٔک و يا سٔک بعد رجائک و خاطرک بما لم يکن فی وهمک و
عزوب ما ا نٔت معتقدہ عن ذهنک و مازال يعد علی قدرتہ التی فی نفسی التی لا ا دٔفعها حتی ظننت ا نٔہ سيظهر
فيما بيني وبينہ)) ٤
--------------
1 سورہ حديد، آيت ٣۔”وهی اول هے وهی آخر وهی ظاهر هے وهی باطن هے اور وهی هر شئے کا جاننے والا
هے“۔
2 سورہ حشر، آيت ٢۴ ۔”وہ ايسا خدا هے جوپيدا کرنے والا، ايجاد کرنے والا اور صورتيں بنانے ولا هے اس کے لئے
بہترين نام هيں“۔
3 سورہ عنکبوت، آيت ۶٩ ۔”اور جن لوگوں نے همارے حق ميں جهاد کيا هے هم انهيں اپنے راستوں کی هدايت کريں
گے “۔
4 بحارالانوارجلد ٣، صفحہ ۴٣ٔ ۔ترجمہ: حضرت ابن ابی العوجاء سے فرماتے هيں:وای تجه پر وہ ذات کيسے تجه سے
چهپ سکتی جس نے خود تيرے نفس ميں اپنے وجود کا اظهار کيا هے تو نهيں تها تجه کو پيد اکيا خود تيرا چهوٹے سے بڑا هونا
، تيری قدرت و توانائی تيری عاجزی کے بعد، تيری ناتوانی قدرت کے با وجود، تيرا مريض هو نا تيری صحت مندی کے بعد،
بيماری کے بعد پهر تيراصحتياب هونا ، تيرا غصہ خوشی کے يا پهر تيری خوشی غصہ کے بعد غم شادی کے بعد و سرور غم و
حزن کے بعد تيری دوستی دشمنی کے بعد يا پهر دشمنی دوستی کے بعد، تيرا عزم وارادہ انکار کے بعديا پهر تيرا انکار کرنا
عزم و ارادہ کے بعد تيرا اشتياق تيری ناراحتی کے بعد يا پهر تيری کراہت شوق کے بعد۔
تيرا شوق و علاقہ خوف وحراس کے بعد يا تيرا ڈرنا رغبت کے بعد تيری اميدی نا اميدی کے بعد يا نااميدی اميدی کے
بعد، جس کو تونے سوچا بهی نہ وہ تمهارے خيال ميں آجائے اور جو تمهارے ذهن پر سوار تها ايک دم غائب هو جائے ۔
ابن ابی العوجا ء کہتا هے:اس طرح کی قدرت کے آثار کو ميرے وجود ميں گنوارهے تهے کہ جس کا انکار و چشم
پوشی ممکن نهيں تها يهاں تک مجه کو احساس هوا کہ عنقريب خدائے وحدہ لاشريک ميرے و امام کے درميان ظاهر هو جائے گا
۔
|