اصول دين سے آشنائی
 

٢۔انسان کو دينِ حق کی ضرورت :
انسان کا وجودجسم وروح اور عقل وہوس کا مرکب هے اور اسی کا اثر هے کہ اس کی فطرت
مادی ومعنوی سعادت اور کمال مقصد تخليق کو پانے کی جستجو ميں هے۔
ادهر انسان کی زندگی کے دو پهلو هيں، فردی او ر اجتماعی،بالکل ايسے هی جيسے انسانی بدن
کا هر عضو اپنی ذاتی زندگی سے قطع نظر دوسرے اعضاء کے ساته بهی متقا بلاًتاثير و تا ثر رکهتا هے۔
لہٰذا ، انسان کو ايسے قانون وآئين کی ضرورت هے جو اسے مادی ومعنوی سعادت اور پاک
وپاکيزہ انفرادی اوراجتماعی زندگی کی ضمانت دے اور ايسا آئين، دين حق هے کہ جس کی انسان کو
فطری طور پر ضرورت هے <فَا قَِٔمْ وَجْهَکَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا> ١
--------------
1 سورہ روم، آيت ٣٠ ۔ ”پس (اے نبی!) تم خالص دل سے دين کی طرف اپنا رخ کئے رہو خدا کی بنائی هوئی سرشت
جس پر اس نے انسانوں کو پيدا کيا هے “۔

۴
هر موجود کے لئے ايک کمال هے جس تک رسائی،اس کے مربوطہ تکامل وتربيت کے لئے
معين کردہ قاعدے و قانون کی اتباع کے بغير ناممکن هے اور انسان بهی اس عمومی قاعدے و قانون سے
مستشنیٰ نهيں <قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْ ا عَْٔطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ هَدیٰ> ١

٣۔انفرادی زندگی ميں دين کا کردار
انسان کی زندگی متن وحاشيہ اور اصل وفرع پر مشتمل هے۔متن واصل، خود اس کا اپنا وجود هے
اور حواشی وفروع وہ چيزيںهيں جو اس انسان سے تعلق رکهتی هيں جيسے مال،مقام،شريک حيات،اولاد
اور رشتہ دار۔
اپنی ذات اور اس سے متعلق اشياء کی محبت نے انسانی زندگی کو دو آفتوں،غم واندوہ اور خوف
وپريشانی کا آميزہ بنا رکها هے۔جو کچه اس کے پاس نهيں هے اسے حاصل کرنے کا غم واندوہ اورجو کچه
اس کے پاس هے،حوادث زمانہ کے تحت اسے کهو دينے کا خوف و اضطراب۔
خداوندِ متعال پر ايمان ان دونوں آفتوں کو جڑ سے اکهاڑ پهينکتا هے،کيونکہ عالم وقادر اور حکيم
ورحيم پروردگار پر ايمان، اسے اپنی مقررہ ذمہ داريوں سے عهدہ بر آہونے پر ابهارتا هے اور فرائض
بندگی پر عمل پيرا هو کر وہ جان ليتا هے کہ خداوندِمتعال اپنی حکمت ورحمت کے وسيلے سے، خير
وسعادت کا باعث بننے والی چيزيں اسے عنايت فرمائے گا اور اسبابِ شر و شقاوت کو اس سے دور
فرمائے گا۔
بلکہ، اس حقيقت مطلق کو پا لينے کے بعد، کہ جس کے مقابلے ميں هر حقيقت مجاز هے اور جس
کے علاوہ باقی سب بظاهر پانی دکهائی دينے والے سراب هيں،اس نے کچه کهويا هی نهيں اور اس امر پر
يقين و ايمان رکهتے هوئے کہ<مَا عِنْدَکُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَاللّٰہِ بَاقٍ> ٢
کسی بهی فانی وناپائدار چيز ميں اس کے لئے جاذبيت هی نهيں کہ اس کے نہ هونے سے غمگين
اور چهن جانے سے مضطرب هو<ا لَٔاَ إِنَّ ا ؤَْلِيَاءَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ ہُمْ يَحْزَنُوْنَة الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ کَانُوْا
يَتَّقُوْنَةلَہُمُ الْبُشْریٰ فِی الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَ فِی اْلآخِرَةِ لاَ تَبْدِيْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ> ٣
اس زندگی ميں انسانی اعصاب کو کهوکهلا کر دينے والی چيز، مادی خواهشات کو پانے کی
خوشی اور انهيں نہ پانے کے دکه سے حاصل هونے والی اضطرابی وهيجانی کيفيت هے اور لنگر ايمان
هی ان طوفانی امواج ميں مومن کو آرام واطمينان عطا کيا کرتاهے <لِکَيَلاَ تَا سَْٔوْا عَلیٰ مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا
بِمَا ا تََٔاکُمْ> ٤
<اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ا لَٔاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ> ٥

۴۔اجتماعی زندگی ميں دين کا کردار
زيادہ سے زيادہ پانے کی هوس کے غريزئہ افزون طلبی کی بدولت انسان ميں موجود شہوت
وغضب کسی حد تک محدود نهيں۔اگر مال کی شہوت اس پر غلبہ کر لے تو زمين کے خزانے بهی اسے
قانع نهيںکر سکتے اور اگر مقام کی شہوت اس پر سوار هو جائے تو روئے زمين کی حکومت و بادشاهی
--------------
1 سورہ طہٰ، آيت ۵٠ ۔”موسیٰ نے کها همارارب وہ هے جس نے هر شئے کو اس کی خلقت عطا کی هے اور پهر
هدايت بهی دی هے“۔
2 سورہ نحل، آيت ٩۶ ۔”جو کچه تمهارے پاس هے وہ سب تمام هو جائے گا اور جو کچه الله کے پاس هے وهی باقی
رهنے والا هے“۔
۶۴ ۔”آگاہ هو جاو کہ اولياء خدا پر نہ خوف طاری هوتا هے اور نہ وہ محزون اور ،۶٣ ، 3 سور ہ يونس ، آيت ۶٢
زنجيدہ هوتے هيں۔يہ وہ لوگ هيں جو ايمان لائے اور خدا سے ڈرتے رهے ۔ان کے لئے زندگانی دنيا اور آخرت دونوں مقامات
پر بشارت اور خوشخبری هے اور کلمات خدا ميں کوئی تبديلی نهيں هو سکتی هے اور يهی در حقيقت عظيم کاميابی هے“۔
4 سورہ حديد ، آيت ٢٣ ۔ ”جو چيز تم سے جاتی رهی تو تم اس کا رنج نہ کيا کرو اور جب کوئی چيز (نعمت) تم کو خدا
دے تو اس پر نہ اِتريا کرو“۔
5 سورہ رعد ، آيت ٢٨ ۔”يہ وہ لوگ هيں جو ايمان لائے هيں اور ان کے دلوں کو ياد خدا سے اطمينان حاصل هو تا
هے اور آگاہ هو جاو کہ اطمينان ياد خدا سے هی حاصل هو تا هے“۔

۵
اس کے لئے ناکافی ثابت هوتی هے اور وہ چاہتا هے کہ دوسرے سياروں پر اپنی قدرت و حاکميت کا پرچم
لهرائے<وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَاهَامَانُ ابْنِ لِیْ صَرْحاً لَعَلِّیْ ا بَْٔلُغُ اْلا سَْٔبَابَة ا سَْٔبَابَ السَّمَاوَاتِ> ١
انسان کا سر کش نفس، شکم ودامن، مال و مقام کی شہوت اور کبهی ختم نہ هونے والی اندهی
هوس کے لئے قوتِ غضب کو کام ميں لانے کے بعد کسی حدو حدود کو خاطر ميں نهيں لاتا اور کسی بهی
حق کو پامال کرنے سے گريز نهيں کرتا۔ ايسی نفسانی شہوت کا نتيجہ بربادی اور ايسے غضب کا انجام
خونريزی اور خاندانوں کے اجڑنے کے علاوہ کچه اور نهيں هو سکتا، کيونکہ انسان اپنی قوتِ فکر کے
ذريعے اسرار طبيعت کے طلسم کو توڑنے اور اس کی قوتو ں کو اپنا غلام بنا کر اپنی نامحدود نفسانی
خواهشات کو پا نے کے لئے حيات، بلکہ کرہ ارض کو جو انسانی حيات کا گہوارہ هے،نابودی کی طرف
لے جا رها هے <ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ ا ئَْدِی النَّاسِ> ٢
مبدا ومعاد اور ثواب وعقاب پر ايمان کی طاقت هی اس سر کش نفس کو مهار،انسانی شہوت
وغضب کو تعادل اور فردی واجتماعی حقوق کی ضمانت فراهم کر سکتی هے،کہ ايسے خدا پر اعتقاد جو
<وَهُوَ مَعَکُمْ ا ئَْنَ مَا کُنْتُمْ> ٣
اور اعمال کی ايسی جزا وسزا جو <فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَےْرًا ےَّرَہة وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا
يَّرَہ> ٤ پر ايمان کی وجہ سے، انسان هر خير کی جانب گامزن اور هر شر سے دور هو گا اور ايک ايسا
معاشرہ وجود ميں آئے گا جس کی بنياد بقاء کے لئے ٹکراو کے بجائے بقاء کے لئے مصالحت کے فلسفے
پر هوگی۔

۵۔اصول دين سے آگاهی کی فضيلت و عظمت
فطری طور پر انسان علم کا پياسا هے، اس لئے کہ جو چيز انسان کو انسان بناتی هے،عقل هے
اور عقل کا پهل علم هے۔ يهی وجہ هے کہ جب کسی جاهل کو جاهل کها جائے تو يہ جاننے کے باوجود
بهی کہ جاهل هے غمگين هو جاتا هے اور اگر اسے علم سے نسبت ديں تو خوش هوجاتا هے۔
اسلام نے، جو دين فطرت هے،علم کے مقابلے ميں جهالت کو وهی مقام ديا هے جو نور کے
مقابلے ميں ظلمت اور زندگی کے مقابلے ميں موت کو حاصل هے ((إنما هو نور يقع فی قلب من يريد اللّٰہ
تبارک وتعالی ا نٔ يهديہ)) ٥((العالم بين الجهال کا لحی بين الا مٔوات)) ٦
ليکن يہ جاننا ضروری هے کہ علم ذاتی طور پربا فضيلت هونے کے باوجود مختلف مراتب کا
حامل هے،مثال کے طور پر علم کی فضيلت ميں اس کے موضوع،نتيجے اور اس علم سے متعلق استدلال
کی روش کے لحاظ سے تفاوت پايا جاتا هے، جيسا کہ نباتات شناسی کی نسبت انسان شناسی اسی قدر افضل
هے جس قدر نباتات پر انسان کو فوقيت و فضيلت حاصل هے۔انسانی زندگی کو سلامتی عطا کرنے والا علم
اس کے مال کی حفاظت کرنے والے علم سے اتنا هی اشرف و با فضيلت هے جتنا انسانی زندگی کو اس
کے مال پر برتری وفضيلت حاصل هے اور وہ علم جس کی بنياد دليل و برهان پر قائم هے فرضی نظريات
کی بنياد پر قائم شدہ علم سے اتنا هی زيادہ باشرف هے جتنا گمان کے مقابلے ميں يقين کو برتری وشرافت
حاصل هے۔
لہٰذا، تمام علوم ميں وہ علم اشرف وافضل هے جس کا موضوع خالقِ کائنات کی ذات هے، ليکن يہ
بات مدّنظر رهے کہ غيرِ خدا کو خدا کے مقابلے ميں وہ نسبت بهی حاصل نهيں هے جو قطرے کو اقيانوس
اور ذرے کو سورج کے مقابلے ميں حاصل هے۔ ان کے درميان لا متناهی او رمتناهی کی نسبت هے،بلکہ
--------------
٣٧ ۔”اور فرعون نے کها کہ (هامان) ميرے لئے ايک قلعہ تيار کر کہ ميں اس کے اسباب تک ، 1 سورہ غافر، آيت ٣۶
پهنچ جاو ںٔ۔ اور جو آسمان کے راستے هيں“۔
2 سورہ روم ، آيت ۴١ ۔”خود لوگوں هی کے اپنے هاتهوں کی کارستانيوں کی بدولت خشک و تر ميں فساد پهيل گيا“۔
3 سورہ حديد ، آيت ۴ ۔”اور وہ تمهارے ساته هے تم جهاں بهی رہو“۔
4 سورہ زلزلة ، آيت ٧،٨ ۔”پهر جس شخص نے ذرہ بهر برابر نيکی کی هے وہ اسے ديکهے گا۔اور جس نے ذرہ
برابر برائی کی هے وہ اسے ديکهے گا“۔
5 بحار الانوار،جلد ١، صفحہ ٢٢۵ ۔”بے شک صرف وہ ”علم “نور هے کہ خدای متعال جس کی هدايت چاہتا هے اس
کے دل ميں ڈال ديتا هے“۔
6 بحارالانوار جلد ١، صفحہ ١٧٢ ۔”جاهلوں کے درميان ايک عالم ايسا هے جيسے مردوں ميں زندہ“۔

۶
دقيق نظر سے ديکهيں تولا شئی اور فقير بالذات کا غنی بالذات سے کوئی مقابلہ هی نهيں<وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ
لِلْحَیِّ الْقَيُّوْمِ> ١
اور اس علم کا ثمر ونتيجہ ايمان وعملِ صالح هيں جن کی بدولت انسان کو دنيوی اور اخروی
سعادت کے علاوہ انفردی و اجتماعی حقوق حاصل هوتے هيں <مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ ا ؤًْ اُنْثٰی وَهُوَ
مُو مِْٔنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہ حَيَاةً طَيِّبَةً> ٢ اور اس علم کی بنياد،يقين و برهان پرهے،ظن وگمان کی پيروی پر نهيں۔<اُدْعُ
إِلیٰ سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ> ٣ <وَلاَ تَقْفُ مَالَيْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ> ٤ <إِنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا> ٥
اب تک کی گفتگوسے اس حديث کے معنی واضح هو جاتے هےں کہ ((إن ا فٔضل الفرائض
وا ؤجبها علی الإنسان معرفة الرّب والإقرار لہ بالعبودية)) ٦

۶۔ايمان ومعرفتِ پر وردگار تک رسائی کی شرط
انسان، هر اثر کے مؤثر کی تلاش وجستجو ميں هے اور فطرتِ انسانی، سر چشمہ وجود کو پانے
کی پياسی هے۔
ليکن يہ جاننا ضروری هے کہ گوهرِ ايمان اور معرفت پر وردگارِعالم، جو گنجينہ علم ومعرفت
کے انمول جواهر هيں، عدل وحکمت کے قاعدے وقانون کے مطابق کسی ايسے شخص کو نصيب نهيں هو
سکتے جو ايمان و معرفتِ پروردگار عالم کے حق ميںظلم سے آلودہ هو، کيونکہ نا اهل کو حکمت عطاکرنا
حکمت کے ساته ظلم هے اور اهل سے دريغ کرنا اهل حکمت کے ساته ظلم وزيادتی هے۔
اور يہ جاننا نهايت ضروری هے کہ خدا اور قيامت کا انکار اس وقت تک ممکن نهيں جب تک
انسان تمام هستی کا احاطہ کر نے اورعلل ومعلولات کے تمام سلسلوں تک پهنچنے کے بعد بهی مبدا
ومعادکو نہ پا سکے اور جب تک مذکورہ امور پر محيط فهم وادراک پيدا نہ هوگا، مبدا ومعا د کے نہ هونے
کا يقين محال هے، بلکہ جو ممکن هے وہ مبدا ومعاد کو نہ جاننا هے۔
لہٰذا، عدل وانصاف کا تقاضا يہ هے کہ جس کسی کو بهی الله کے وجود کے بارے ميں شک هے
اسے چاہئے کہ قولی اور عملی طور پر مقتضائے شک پر عمل کرے۔مثال کے طورپر اگر کوئی شخص
ايسے خدا کے وجود کا احتمال دے کہ جس پر ايمان کی بدولت ابدی سعادت اور ايمان نہ هونے کی صورت
ميں ابدی شقاوت اسے نصيب هو سکتی هے،عقلی نکتہ نظر سے اس کی ذمہ داری يہ هے کہ وہ دل وزبان
سے اس کے وجود کا انکار نہ کرے اور عملی ميدان ميں جس قدر ممکن هو اس حقيقت کی تلاش و جستجو
ميں کوشاں رهے اور منزلِ عمل ميں احتياط کا دامن نہ چهوڑے کہ کهيں ايسا نہ هو کہ اس پروردگا رکی
ذات موجود هو جس کے احکامات سے سر تابی ابدی شقاوت کا باعث هو، بالکل اسی طرح جيسے لذيذ ترين
کهانے ميں زهر کا احتمال دينے پربحکم عقل اس کهانے سے پرهيز ضروری هے۔
خدا کے وجود ميں شک کرنے والا هر شخص، اگرعقل کے اس منصفانہ حکم کے مطابق عمل
کرے تو بغير کسی شک وترديد کے، معرفت وايمانِ خدا کو پالے گا <وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا> ٧
ورنہ اس حقيقت کی ظلم سے آلودگی کے ساته اس قدوس و متعال ذات کی معرفت حاصل نہ هوگی <يُو تِْٔی
الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَمَنْ يُّو تَْٔ الْحِکْمَةَ فَقَدْ ا ؤُْتِیَ خَيْرًا کًثِيْراً> ٨<وَيُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِيْنَ وَيَفْعَلُ اللّٰہُ مَا يَشَاءُ> ١
--------------
1 سورہ طہ ، آيت ١١١ ۔”اس دن سار ے چهرے خدائے حی وقيوم کے سامنے جهکے هوں گے“۔
2 سورہ نحل ، آيت ٩٧ ۔” جو شخص بهی نيک عمل کرے گا وہ مرد هو يا عورت بشرطيکہ صاحب ايمان هوهم اسے
پاکيزہ حيات عطا کريں گے“۔
3 سورہ نحل، آيت ١٢۵ ۔”آپ دعوت ديں اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت سے“۔
4 سورہ اسراء، آيت ٣۶ ۔”اور جس چيز کا تمهيں علم نهيں اس کی پيروی مت کرنا“۔
5 سورہ يونس، آيت ٣۶ ۔”بے شک گمان حق کے بارے ميں کوئی فائدہ نهيں پهنچا سکتا“۔
6 بحارالانوار، جلد ۴،صفحہ ۵۵ٔ ۔”سب بڑا واجب انسان پر يہ هے کہ وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرے اور اس
کی عبوديت (بندگی) کا اقرار کرے“۔
7 سورہ عنکبوت، آيت ۶٩ ۔”اور جن لوگوں نے همارے حق ميں جهاد کيا هے هم انهيں اپنے راستوں کی هدايت کريں
گے“ ۔
8 سورہ بقرة، آيت ٢۶٩ ۔”وہ جس کو چاہتا هے حکمت عطا کرديتا هے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اسے گويا
خير کثير عطا کرديا گيا “۔