تقيہ ايک قرآني اصول
 

امام شافعی اور تقیہ
دو جگہوں پر امام شافعی نے تقیہ کیا ہے اور دونوں مورد ہارون الرشید کے ساتھ اتفاق ہوا:
۱.سارے تاریخ دانوں کے ہاں مشہور ہے کہ امام شافعی نے ایک مدت یمن میں اپنی زندگی گذاری اور یمن کے اکثرلوگ علوی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے . اور شافعی بھی علویوں کی طرف مائل ہوئے اور یہاں سے اس پر قسم قسم کی مشکلات آنا شروع ہوا . یہاں تک کہ ان کے اپنے قبیلے میں وہ شیعہ متہم ہوا . یہ ہارون الرشید کے جاسوسوں پر مخفی نہ رہا ، حماد بربری یمن سے ہارون الرشید کو ایک خط لکھا اور اسے علویوں کی طرف سے احساس خطر دلایا ، اور شافعی کے وجود کو ان کیلئے بہت ہی خطرناک بتایا اور کہا کہ شافعی کی زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ تلوار سے زیادہ تیز ہے . اس لئے ہارون نے یہ دستور دیا کہ شافعی کو بعض علوی اکابرین کے ساتھ بغداد بھیجا جائے .جب یہ لوگ بغداد پہونچے تو ہارون نے سارے علویوں کے قتل کا حکم دیا اور بے چون و چرا سب کو قتل کیا گیا . لیکن شافعی نے تقیہ کے طور پر ایک جملہ کہا جو حقیقت پر مشتمل نہیں تھا ، اس نے ہارون سے کہا : کیا میں اس شخص کو ترک کروں جو کہتا ہے ، میں ان کے چچا زاد بھائی ہوں ؟! اور اس شخص کی جانب داری کروں کہ جو کہتا ہے کہ میں اس کا خادم اور غلام ہوں ؟!! (1 )
شافعی کا یہ جملہ مؤثر ہوا اور ان کی جان بچ گئی .
۲. تقیہ کا دوسرا مورد پہلا مورد سے زیادہ واضح تر اور آشکار تر است : ایک دن شافعی کو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہارون کے دربار میں لایا گیا .جس میں ان کے کچھ دشمن بھی موجود تھے ؛ جن میں سے ایک بشر مریسی معتزلی (ت۲۱۸ھ)تھا .اس نے حکم دیا کہ شافعی کو اور سخت سزا دی جائے جسے ہارون الرشید سن رہا تھا ؛ شافعی سے کہنے لگا: تو اجماع کا مدّعی ہے کیا کوئی ایسی چیز کا علم ہے جس پر لوگوں کا اجماع قائم ہوا ہو ؟ شافعی نے جواب دیا : اسی امیرالمؤمنین پر لوگوں نے اجماع کیا ہے . جو بھی ان کی مخالفت کرے ، وہ مارا جائے گا ؛ ہارون ہنس پڑے ، پھر حکم دیا کہ زنجیروں کو کھول کر اسے آزاد کر دیا جائے ،پھر ان کو اپنے پاس بٹھاکر ان کا احترام کرنے لگا. (2 )

امام مالك او رتقيہ
جب تک بنی عباس کا حکم ظاہر نہیں ہوا اس وقت تک بنی امیہ کے دور میں مالک نے امام صادق(ع) سے روايت نقل نہیں کی .یہ اپنی جان و مال کے خوف اور تقیہ کے سواکچھ نہیں تھا .
پس ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیسے آپ کے اماموں کیلئے تقیہ کرنا جائز ہوا اور ہمارے لئے تقیہ جائز نہیں ؟ اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ تعصب کی بنا پر يه لوگ ایک جائز اور قرآنی حکم کا مزاق اڑا رهے هيں.

ابو بكرا ور تقيہ
مكہ اور مدينه کے درمیان میں پيامبراسلام(ص) کے همراه ا يك اونٹ پر سوار تھا .اور اس سے پہلے بھی ابوبکر کا مکہ اور مدینے میں آنا جانا رہتا تھا .راستے سے بخوبی واقف تھا ... جب ابوبکر سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ کون ہے ؟ تو اس نے کہا : یہ میرا راہنما ہے .
واقدي کہتا ہے :رسول خدا(ص) ابو بكر کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے اور جس سے بھی ملاقات کرتے تھے اور پوچھے جاتے تھے کہ یہ کون ہے تیرے ساتھ؟ تووہ کبھي نہیں کہتے تھے که: یہ رسول خدا(ص) ہے بلکہ وہ کهتا تھا کہ یہ میرا راہنما ہے . (3 )

امام احمد بن حنبل اور تقيہ
مامون کے بعدمعتصم عباسي نے دوسری مرتبہ احمد حنبل کا امتحان لیا اور پوچھا: تيرا قرآن کے بارے میں کیا عقيده ہے ؟
چونکہ اس وقت عرب اور یونان کے فلاسفروں اور دانشمندوں کے درمیان قرآن کے قدیم یا حادث ہونے میں اختلاف پایا جاتا تھا ؛ احمد بن حنبل نے کہا: میں ایک دانشمند انسان ہوں لیکن اس مسئلے کو نہیں جانتا . خلیفہ نے سارےعلماء کو جمع کیا تاکہ اس کے ساتھ علمی بحث شروع کرے . عبد الرحمن نے احمد کے ساتھ بحث شروع کی ، لیکن قرآن کے مخلوق ہونے کا اعتراف نہیں کیا ،جب اسے کئی کوڑے لگے تو اسحق نے خلیفہ سے اجازت مانگی کہ وہ ان کے ساتھ مناظرہ شروع کرے گا .خلیفہ نے بھی اجازت دے دی .
اسحاق: یہ جو علم تیرے پاس ہے اسے کیا کسی فرشتے کے ذریعے سے تم پر الہام ہوا ہے یالوگوں سے حاصل کیا ہے ؟
احمد: دانشمندوں سے سیکھا ہے .
اسحاق: تھوڑا تھوڑا کرکے حاصل کیا ہے یا ایک ہی مرتبے میں؟
احمد:تھوڑا تھوڑا اور بتدریج حاصل کیا ہے .
اسحاق:کیا مزید علم باقی ہے جو تو نے نہیں سیکھا ہے؟
احمد: ہاں ضرور باقی ہے .
اسحاق: قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ اسی علم کی وجہ سے ہے جو ابھی تک نہیں سیکھا ہے اور امير المؤمنين تجھے سکھائے گا.
احمد: امير المؤمنين کے اسی بات کو قبول کرتا ہوں .
اسحاق :کیا قرآن کے مخلوق هونے میں؟
احمد: ہاں قرآن کے مخلوق هونے میں.
ان کے اس اعتراف پر گواہ رکھ کر اسے شاہی لباس تحفہ دیا .اور آزاد کردیا.(4 )
امام اهل سنت احمد بن حنبل کے اس مناظره پر مشهور ومعروف اديب اور دانشمند ”جاحظ“نے ایک اچھی تفسیر لکھی ہے . جاحظ اپنے اس رسالے میں اہل سنت سے مخاطب ہے کہ تمھارا امام احمد بن حنبل نے رنج اور امتحان کے بعد اعتراف کرلیا ہے : سوائے کافرستان کے کہیں اور تقیہ جائز نہیں ہے . ليکن ان کا قرآن کے بارے میں مخلوق ہونے کا اعتراف کرنا تقیہ کے سوا کچھ اور تھا ؟! اور کيا یہ تقیہ دار الاسلام میں انہوں نے نهيں کیا جو اپنے عقیدے کی تکذیب کررہا ہے ؟! اگر ان کا اقرار صحیح تھا تو تم ان سے اور وہ تم سے نہیں ہے .
شيعه ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ حجر بد عدی اور يزيد بن صوحان عبدي جو علی (ع)کے ماننے والےتھے ان کا معاویہ کا ظالمانہ اور جابرانہ دربار میں علی کا مدح کرنا کیا تقيہ تھا ؟!
بس يه ماننا پڑے گا که شيعه هر جگه تقيہ کو روا نهيں سمجھتے ، بلکه جهاں جائز هو وہاں تقيہ کرتے هيں.

حسن بصری (ت۱۱۰ھ)اور تقیہ
یہ تابعین میں سے تھا کہتا ہے کہ تقیہ قیامت تک کيلئے جائز هے(5 ) یہ ان لوگوں میں سے تھا جو صحابہ کےحالات سے واقف تھے.اس قول کو یا ان سے سنا ہے یا اس نے اس مطلب کو قرآن سے لیا ہے . (6 )

بخاری (ت۲۵۶ھ) اور تقیہ
مشروعیت تقیہ پر لکھي هوئي کتاب "الاکراہ " میں مختلف روایات کو دلیل کے طور پر نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کا نظریہ کیا ہے ؟اس آیہ شریفہ کو نقل کرتا ہے :
ومَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبہ مطْمَئنِ‏ُّ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ(7 ) جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے .... علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ....اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے.
اور: لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَن يَفْعَلْ ذَالِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فىِ شىَ‏ْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَئةً (8 )
(خبردار صاحبانِ ایمان .مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے . (9 )

وہابی مذہب کے علمائےرجال اور تقیہ
وہابی مذہب کے علمائےرجال تقیہ کا انکار نہیں کرتے ، بلکہ آشکارا تمام مسلمانان عالم کے سامنے تقیہ کو بروي کار لاتے ہیں جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بڑے بڑے اولیا اور صالحین کے قبور کو گرانا ، لیکن قبر مبارک پیامبر (ص) اور ابوبکراور عمر کے قبور کو باقی رکھنا تقیہ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے . ان کا قبر پیامبر (ص) اور اصحاب کے قبور کو باقی رکھنا کئی ملین مسلمانوں کے دلوں کو آزار پہونچنے سے بچانا ہے اور یہی تقیہ ہے . (10 )

اسلامی فرقے اور ان کے فقہ میں تقیہ
اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ اختیاری طور پر بغیر کسی جبر و اکراہ کے جائز نہیں .اس بات پر سارے علماء کا اتفاق ہے کہ تقیہ صرف اجبار اور اکراہ کی صورت میں جائز ہے .یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب اسلامی کے فقہی کتابوں میں باب الاکراہ کے نام سے الگ باب ہے .

فقہ مالکی اورتقیہ
امام مالک بن انس ( ت ۲۷۹ھ)کے تقیہ بارے میں پہلے بیان کرچکا ؛ جس میں ان کا کہنا تھا : کوئی بھی ایک بات جو جابر حکمران کے دو کوڑے سے بچنے کا باعث ہو ، اسے میں اپنی زبان پر جاری کروں گا. (11 )
اسی طرح مالکی مذہب کے علماء بھی جبر اور اکراہ کے موقع پر کفر آمیز کلمات کا زبان پر لانے کو ، جب کہ اس کا دل ایمان سے پر ہو ؛جائز قرار دیتے ہیں .
ابن عربی مالکی (ت۵۴۳ھ) کہتا ہے کہ تقیہ کرکے کافر ہوجائے لیکن ایمان سے اس کا دل مطمئن اور استوار ہو تو اس پر مرتد کا حکم جاری نہیں ہوگا . وہ دنیا میں معذور اور آخرت میں بخشا جائے گا .
پھر صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے .اسی کے ذیل میں مالکی مذہب کے ہاں اکراہ اور اجبار کے موقع پر قسم کھانااور اس میں تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؛ اس مورد میں تقیہ کے جواز پر حکم لگاتا ہے .(12 )

فقہ حنفی اورتقیہ
فقہ حنفی میں تقیہ کا مفہوم بہت وسیع ہے .ان کے فقہاء بڑے دقت اور اہتمام کے ساتھ تقیہ کو جائز قرار دیتے ہیں . ہم یہاں صرف ایک کتاب جس میں تقیہ کے کئی مورد بیان کیا گیا ہے جو حنفی عالم دین فرغانی (ت ۲۹۵ھ)نے قاضی خان کے فتاوا کو جمع کرکے لکھی ہے .
پہلا مورد: جب کسی شخص کو کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرنے پر مجبور کرے ، اور اگر نہ مانے تو اسے خود قتل کیا جائے گا یا اس کے بدن کا کوئی عضو کاٹا جائے گا ؛ تو کیا ایسے مورد میں اس پر اکراہ صدق آتا ہے ؟ اور کیا وہ ایک مسلمان کو قتل کرسکتا ہے ؟اگر جائز نہیں ہے تو کیا اس پر قصاص ہے ؟
ابوحنیفہ اور محمد کہتے ہیں کہ اکراہ اس پر صدق آتا ہے اور قصاص مجبور کرنے والے سے لیا جائے گا نہ مجبور ہونے والے سے .
ابو یوسف کہتا ہے کہ اکراہ صحیح ہے اور قصاص کسی پر بھی واجب نہیں ہے لیکن مقتول کا دیہ مجبور کرنے والے پر واجب ہے کہ تین سال کے اند ر مقتول کے وارث کو دیا جائے !!!
امام مالک اور امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اکراہ کرنے والا اور مجبور کئے جانے والا ، دونوں کو قتل کرناچاہئے (13 ) اس کا مطلب يه هے که ابوحنيفه ،امام مالک،امام شافعياور محمد اس بات کے قائل هيں که مجبور شخص دوسرے انسان کو قتل کرسکتے هيں . جب که شيعوں کےنزديک شخص مجبور ، خود قتل هوتو هو سکتا هے ليکن کسي کو وہ قتل نهيں کرسکتا .
دوسرا مودر:کسی فعل کا انجام دینا اس کے ترک کرنے سے بہتر ہے تو ایسی صورت میں تقیہ جائز ہے . اور جب بھی اس فعل کے ترک کرنے سے وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے تو اس پر تقیہ کرنا واجب ہے .جیسے اگر کسی کوخنزير کا گوشت کھانے ، یا شراب پینے پر مجبور کرے تو مجبور ہونے والے کو کھانا اور شراب کا پینا جائز ہے . اسی طرح کوئی پیامبراسلام(ص) کی شان میں گستاخی کرنے اور زبان پر کفر آمیز الفاظ کے استعمال کرنے پر مجبور ہو جائے تو جائز ہے ، جب کہ اس کا دل رسول خدا (ص) پر ایمان اور ان کی محبت سے پر ہو.
تیسرا مورد: اگر کسی عورت کو قید کرکے اسے زنا کرنے پر مجبور کیا جائے تو اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگا . (14 )
جب که شيعوں کے نزديک مجبوري کي حالت ميں بھي زناجائز نہیں ہے .
چوتھا مورد : اگر کسی مرد کو مجبور کرے کہ ماہ رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے یا کوئی چیز کھائے یا پئے ، تو اس پ کوئی کفارہ نہیں ہے لیکن اس روزے کی قضا اس پر واجب ہوگا. (15 )

فقہ شافعی اورتقیہ
فقہ شافعی(ت،۲۰۴) ،میں تقیہ وہاں جائز اور مباح ہے، جهاں مجبور ہونے والے کيلئے جائز ہو ؛جيسے: کفر آمیز کلمات کا زبان پر جاری کرنا ، جبکہ اس کا دل ایمان سے پر ہے .شافعی کے نزدیک وہ شخص ایسا ہے جیسا اس نے زبان پر ایسا کوئی کفر آمیز کلمہ جاری ہی نہیں کیا ہے .اس بات کو عطاء بن ابی ریاح (ت۱۱۴ھ)کی طرف نسبت دی گئی ہے جو بڑے تابعین میں سے ایک ہے .(16 )
اسی طرح ابن حجر عسکلانی شافعی (ت۸۲۵ھ) نے بھی مجبور کرنے کی صورت میں تقیہ کرنے اور کفر آمیز الفاظ زبان پر جاری کرنے کی اجازت دی ہے . (17 )
تقیہ کے ایک اور مورد جسے سیوطی شافعی (ت۹۱۱ھ) نے بیان کیا ہے : وہ صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اگر جب بھی زبان پر کفر کا اظہار کرنے پر مجبور ہوجائے تو اپنی جان بچانے کے خاطر زبان پر کفر کا اظہار کرنا افضل ہے .آگے لکھتا ہے کہ اسی طرح جب بھی مجبور کرے شراب پینے پر ، پیشاب پینے پر ،خنزیر کا گوشت کھانے پر ، دوسرے کے مال تلف کرنے پر، دوسرے کے غذا کھانے پر، جھوٹی گواہی دینے پر، رمضان میں روزہ کھانے پر، واجب نماز کے ترک کرنے پر ،... تو اس کے لئے جائز ہے وہ انہیں انجام دے .ان کی تعبیر یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو خدا کی بارگاہ میں توبہ کے ذریعے ساقط ہو سکتی ہے ، اکراہ کے ذریعے بھی ساقط ہوسکتی ہے . (18 )

فقہ حنبلی اورتقیہ
ابن قدامہ حنبلی (ت ۶۲۰ھ) حالت اکراہ میں تقیہ کے مباح ہونے پرتصریح کیا ہے کہ مجبور شخص کا فعل تہدید اور اکراہ کی وجہ سےجائز ہوجائے گا اور مجازات بھی نہیں ہوگا . (19 )
فقہ حنبلی میں تقیہ کے موارد میں ذکر ہوا ہے کہ کفرمیز کلمہ پر اگر اکراہ کیا جائے تو اس کیلئے جائز ہے حنبلی مذہب کے مفسروں نے لکھا ہے :
ابن جوزی نے تصریح کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کفر پر مجبور کرنے کی صورت میں تقیہ کرنا جائز ہے .(20 )
احمد بن حنبل (ت۲۴۱ھ) کا اس بارے میں نظریہ یہ ہے کہ اگر مجبور شخص اس فعل کو انجام نہ دے تو اسے قتل کرے گا یا اس کےجسم کا کوئی حصہ کاٹ دے گا ، دونوں صورتوں میں تقیہ کرنا اس کیلئے جائز ہے .
ابن قدامہ کا نظریہ یہ ہے کہ اگر کسی کو کفر آمیز کلمہ کو زبان پر لانے پر مجبور کیا جائے تو تقیہ کرے اور اس پر مرتد کا حکم نہیں لگے گا . ان کا کہنا ہے کہ مالک، شافعی اور ابوحنیفہ کا بھی یہی رای ہے .
ابن قدامہ اپنے نظرئے کی تائید کیلئے قرآن کریم اور سنت نبوی (ص) سے استدلال کرتا ہے . (21 )
..............
(1 ) . بیھقی ؛ مناقب الشافعی ، ج۱،ص ۱۱۲.
(2 ) . ابونعیم، حليۃ الاولیاء ؛ ج ۹ ، ص ۸۲.۸۴
(3 ). محب الاسلام، شيعه مي پرسد،ج۲،ص ۲۷۴.
(4 ). تاريخ يعقوبي، ج ۳، ص ۱۹۷.
(5 ) . طبری ؛ جامع البیان ، ج۶، ص ۳۱۶.
(6 ) . تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرقہ ہای اسلامی غیر شیعی،ص۱۲۶.
(7 ) . نحل ۱۰۶.
(8 ) . آلعمران ۲۸.
(9 ) . صحیح بخاری، کتاب الاکراہ .
(10 ) . تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرق اسلامی غیر شیعی، ص ۱۶۶.
(11 ) . مالک بن انس؛ المدونہ الکبری ، ج۳،ص۲۹، کتاب الایمان بالطلاق.
(12) . ابن عربی؛ احکام القرآن ،ج۳، ص۱۱۷۷.۱۱۸۲.
(13 ) . فرغانی؛ فتاوی قاضی خان؛ ،ج ۵،ص ۴۸۴.
(14 ) . ہمان ، ج ۵،ص ۴۹۲.
(15 ) . ہمان ، ج ۵ ، ص ۴۸۷.
(16 ) . امام شافعی ؛ احکام القرآن ، ج۲، ص ۱۱۴.۱۱۵.
(17) . ابن حجر عسکلا نی ؛ فتح الباری ،ج۱۲، ص ۲۶۳.
(18 ) .سیوطی؛ الاشباہ و النظایر فی قواعد و فروع الفقہ الشافعی ، ص ۲۰۷ .۲۰۸
(19 ) . ابن قدامہ ، المغنی ،ج ۸ ،ص ۲۶۲.
(20 ) . ابن جوزی؛ زاد المسیر ، ج۶ ، ص ۶۹۶.
(21 ). ابن قدامہ ؛ المغنی ؛ ، ج۱۰، ص ۹۷.