امام هادي(ع) اور تقيہ
امام هادي(ع) کا دوران امامت (۲۲۰ ـ ۲۵۴ھ)بھی سخت ترین دور تھا ، جس کی سب سے بڑی دلیل یہ هے کہ بنی عباس کے خلفاء اور حکمران، آپ پر ہر وقت پہرہ لگائےرکھتے تھے . چنانچہ متوكل(۲۳۲ـ۲۴۷)نے شدت کے ساتھ امام(ع)کی فعاليت کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا .اس کے لئے متوكل مجبور ہوا کہ آپ کو شدیداً كنٹرول میں رکھنے کیلئے مدينه سے سامرا (دارالخلافہ) منتقل کیاجائے .جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عباسیوں کے ایک گروہ نے متوکل کو خط لکھا کہ لوگ امام ہادی کے گرویدہ ہورہے ہیں جو تمھاری حکومت کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے . اوراگر تم مكہ اور مدينه چاہتے ہو تو علي ابن محمدکو مدينه سے نکال کر کہیں اور منتقل کردے . (20 )
امام(ع) کے سیاسی اوضاع کی شناخت کیلئے اتنا ہی کافی ہے . اور اب اس دور میں اجتماعی تقیہ کے پائے جانے پر ہمارے پاس جو دلیل ہے ،انہیں بیان کروں گا :روایتوں میں ذکر ہوا ہے کہ علی ابن مہزیار نے امام سے پوچھا : کیا ہم اہل سنت کے احکام کے مطابق اموال پر مالک ہوسکتے ہیں جبکہ مکتب اہل بیت کے احکام کے مطابق اس مال پر مالک نہیں بن سکتے؟جیسے ارث وغیرہ کے احکام ہیں ،جب کہ وہ لوگ اپنے احکام کے مطابق ہم سے اموال لیتے ہیں ؟
تو امام(ع) نے فرمایا: يجوز لكم ذالك انشاءالله اذا كان مذهبكم فيه التقية منهم والمداراة لهم(21 ) يعني ہاں تمھارے لئے ایسا کرنا جائز ہے انشاءالله اگر تقيہ اور مدارات کی حالت میں ہو .
امام جواد(ع) اور تقيہ
امام جواد(ع) کا دور امامت سن ۲۰۳سے ۲۲۰ ھ تک ہے جو مامون اور اس کے بھائی معتصم کی حكومت کا دور ہے. امام نے بیشتر وقت مدینہ اور مرکزی حکومت سے دور رہ کر گذارا . لیکن پھر بھی مامون اور معتصم ،ام الفضل جو آپ کی زوجہ اور مامون کی بیٹی ہے ، کے ذریعے امام(ع) کے گھریلو معاملات میں جاسوسی کرنے لگے ؛ لیکن وہ قابل ذکر موارد جہاں آپ نے تقیہ کیا ہے وہ یہ ہیں:
1. امام(ع) کا نماز میں قنوت نہ پڑھنا .: اذا كانت التقية فلا تقنت وانا اتقلد هذا. (22 )
2. ایک دفعہ يحي بن اكثم کے ساتھ مناظرہ ہوا ، جب یحی نے ابوبکر اور عمر کی شان میں جعلی احادیث کو بیان کیا تو امام(ع) نے فرمایا: میں منكر فضائل نہیں ہوں ، اس کے بعد منطقي دلائل کے ذریعے ان احادیث کے جعلی ہونے کو ثابت کرنے لگا . (23 )
امام حسن العسكري(ع) اور تقيہ
امام عسكري(ع) کا دور امامت اگرچہ بہت ہی مختصر ہے (۲۵۴ ـ ۲۶۰) لیکن اپنے بابا کے دور امامت سے کئی درجہ زیادہ سخت اور مشکل ہے .اس دور کے آغاز میں معتز(۲۵۲ ـ ۲۵۵) نے آپ کو آل ابوطالب (ع)کے کچھ افراد کے ساتھ قید کئے . اس کے بعد مهدي(۲۵۵ـ۲۵۶)عباسی نے بھی یہی رویہ اختیار کیا ، یہاں تک کہ آپ کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی گئی . (24 )
لیکن وہ اس مکروہ ارادے میں کامیاب نہیں ہوا . لیکن آخر کار معتمد(۲۵۶ـ۲۷۹) جس نے یہ سن رکھا تھا کہ امام عسكري(ع) کی اولاد میں سے ایک فرزند آئے گا جو ظلم و بربریت کو ختم کرے گا ؛امام اور ان کے خاندان پر کڑی نظر اور پہرہ ڈال رکھا تھا ، تاکہ وہ فرزند اس دنیا میں نہ آنے پائے . آخرکار اس نے امام(ع) کو شهید کیا .
لیکن امام(ع) نے اپنے بیٹے کی ولادت کو مخفی رکھا ، یہاں تک کہ بہت سارے شیعوں کوبھی ان کی ولادت کا علم نہیں تھا جو سن ۲۵۵ه میں متولد ہوا تھا (25 ) کیونکہ بہت زياده خطر تھا . اسی لئے امام (ع) کی شہادت کے بعد آپ کا بھائی جعفر جو ایک بےایمان انسان تھا ، آپ کی ساری میراث اپنے نام کردیا .کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ امام کا کوئی وارث بھی ہے . (26 )
امام(ع) کے کچھ سیاسی تقیہ کے موارد اپنے چاہنے والوں کے نام لکھا ہوا خط سے واضح ہوتا ہے، فرماتے ہیں کہ:
۱ـ جب میں تمھارے سامنے سے گذرے تو مجھے سلام نہ کرنا .اور اپنے ہاتھوں سے میری طرف اشارہ نہ کرنا ، کیونکہ تم لوگ امان میں نہیں ہو .ممکن ہے اس طرح اپنے آپ کو درد سر میں ڈالنے سے محفوظ رکھیں .
۲ـ امام(ع) جب اپنے اصحاب سے ملاقات کرتے تھے تو ان کیلئے مخفی طور پر پیغام بھیجتے تھے کہ فلان جگہ جمع ہو جائیں ، تاکہ ایک دوسرے کی دیدار ہو سکے . .امام(ع) سخت سياسي دباؤ کی وجہ سے اپنے چاہنے والوں کو تقیہ کرنے پر زیادہ زور دیتے تھے .جیسا کہ فرمایا:
وسع لهم في التقيہ يجاهرون باظهار موالاة اولياءالله و معادات اعداءالله اذا قدروا و يسترونها اذا عجزوا.
خدا تعالی نے شیعیان حیدر کرار کو تقیہ میں راحت اور آرام کو پوشیدہ رکھا ہے کہ اپنی طاقت اور قدر کو آشکار کرنے کا وقت آتا ہے تو اللہ کے چاہنے والوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کا اعلان کریں، اور جب بھی دوسرے گروہ کے مقابلے میں کمزور واقع ہوجائے تو اس دوستی اور دشمنی کو چھپائیں ؛ پھر فرمایا: أَلَا وَ إِنَّ أَعْظَمَ فَرَائِضِ اللَّهِ عَلَيْكُمْ بَعْدَ فَرْضِ مُوَالاتِنَا وَ مُعَادَاةِ أَعْدَائِنَا اسْتِعْمَالُ التَّقِيَّةِ عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَ إِخْوَانِكُمْ وَ مَعَارِفِكُمْ وَ قَضَاءُ حُقُوقِ إِخْوَانِكُمْ فِي اللَّهِ أَلَا وَ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ كُلَّ ذَنْبٍ بَعْدَ ذَلِكَ وَ لَا يَسْتَقْصِي فَأَمَّا هَذَانِ فَقَلَّ مَنْ يَنْجُو مِنْهُمَا إِلَّا بَعْدَ مَسِّ عَذَابٍ شَدِيدٍ إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ مَظَالِمُ عَلَى النَّوَاصِبِ وَ الْكُفَّارِ فَيَكُونَ عَذَابُ هَذَيْنِ عَلَى أُولَئِكَ الْكُفَّارِ وَ النَّوَاصِبِ قِصَاصاً بِمَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ مِنَ الْحُقُوقِ وَ مَا لَهُمْ إِلَيْكُمْ مِنَ الظُّلْمِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَ لَا تَتَعَرَّضُوا لِمَقْتِ اللَّهِ بِتَرْكِ التَّقِيَّةِ وَ التَّقْصِيرِ فِي حُقُوقِ إِخْوَانِكُمُ الْمُؤْمِنِينَ. (27 )
آگاہ رہو ! ہمارے ساتھ دوستی اور ہمارے دشمنوں کے ساتھ نفرت اور دشمنی کے بعد خدا تعالی کے واجبات میں سے سب سے بڑا واجب تقیہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنے دوستوں کی حفاظت کرے اور اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرے ، آخر میں فرمایا: تقوی الہی کو اپنا پیشہ قرار دو اور اپنے آپ کو تقیہ نہ کرکے اور اپنے مؤمن بھائیوں کے حقوق ادا نہ کرکے غضب الہی کا مستحق نہ بنیں .
۳ـ آپ کے اصحاب میں سے ایک چاہتا تھا کہ آپ اعلانیہ طور پر حجت خدا کی حیثیت سے معرفی ہوجائے .لیکن امام(ع) نے فرمایا:خاموش رہو ! یا اسے چھپا ئے رکھو یا آشکار کرکے موت کیلئے تیار ہوجاؤ .(28 )
حضرت حجت(عج) اور تقيہ
آنحضرت(عج) کی امامت کاپہلا دور جو غيبت صغري کا دورکہلاتا ہے اور سنہ (۲۶۰ ـ ۳۲۹)ھ پر مشتمل ہے .اس دوران میں امام اپنے چار خاص نائبین کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے . ان چار نائبین کے نام لیتے ہوئے امام کے ساتھ ان کا ارتباط اور تقیہ کے موارد کو بیان کریں گے:
۱. ابو عمرو عثمان ابن سعيد عمري
وہ امام حسن العسكري (ع) کے وكيل بھی تھے جو روغن فروشي کے شغل کو اپنی فعاليتوں کیلئے وسیلہ قرار دیتے ہوئے امام تک ان کے اموال کو پہونچاتے تھے .یہی وجہ تھی کہ ابوعمرو عثمان عمری ”سمان“ يعني روغن فروش کے نام سے معروف تھا. (29 )
۲. ابو جعفر محمد بن عثمان
اس زمانے میں شیعیان حیدر کرار کا زیادہ اصرار تھا کی امام(ع)کا نام مبارک معلوم ہوجائے. اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ اس قدر سری تھا کہ بہت سارے شیعوں کو ان کا نام بھی معلوم نہ تھا . لیکن آنحضرت نے ایک خط میں جو محمد بن عثمان کے ذریعے بھیجے ؛ جس میں یوں لکھا تھا : ليخبر الذين يسالون عن الاسم،اما السكوت و الجنة و اما الكلام و النارفانهم اوقفوا علي الاسم اذاعوہ و ان وقفوا علي المكان دلوا عليه. (30 )
ضروی ہے کہ ان لوگوں کو جو میرا نام جاننا چاہتے ہیں ،بتادوں کہ اس بارے میں خاموش رہیں جس میں بہشت ہے اور اگر اس بارے میں بات کرے تو اس میں جہنم ہے . کیونکہ جو میرا نام جاننے کے بعد اسے افشا کرے اور اگر میرے رہنے کی جگہ معلوم ہوجائے اور دوسروں کو خبر دے .
۳. ابو القاسم حسين بن روح
حسين بن روح جو بہت ہی محتاط انسان تھا، امنیت اور حفاظت کے تمام اصول اور قواعد وضوابط کو بروی کار لاتے تھے . چنانچہ محمد بن عثمان کے بعد نائب امام آپ ہی کو بننا تھا، جب ایک مؤمن نے آپ سے سوال کیا کہ کیوں یہ نیابت آپ کو نہیں ملی ؟
تو کہا : میں ایک ایسی موقعیت اور حالت میں تھا کہ اگر اس بارے میں مجھ پر سختی کرتے اور شاید میں آنحضرت(ع) کے مكان اور جائیگاہ کو فاش کر لیتا . (31 )
ان کے تقیہ کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے کہ ایک مجلس میں تینوں خلیفوں کو علي(ع) سے افضل اور برتر توصیف اور تمجید کرنے لگے اور لوگوں کو اپنے اوپر راضی کرانے لگے تو ایک صحابی جو آپ کے عقیدے سے باخبر تھا ، ہنسنے لگے . جب مجلس اختتام پذیر ہوا تو اس شخص کے پاس گئے اور اسے خوب ڈھانٹ دیا اور اگر دوبارہ کبھی ایسا کیا تو قطع رابطہ کر نے کی دھمکی دی .(32 )
۴ـ علي ابن محمد السمري(رہ)
ان کی وفات کے وقت ایک خط جو آنحضرت(عج)نے آپ کو دیا تھا جس میں نائب خاص کے منقطع اور اس کے ادعا کرنے والوں کی تکذیب کی ہوئی تھی . اسی طرح آپ کی سیاسی تقیہ کے موارد میں شیعیان سے وجوہات لینے کے بعد ان کو کوئی رسید نہ دینا بھی شامل ہے (33 )
..............
(20 ) . بحار الانوار،ج۵۰،ص۲۱.
(21 ). وسائل الشيعه،ج۱۸، ص۱۶۵.
(22 ). همان،ج۴،ح۱ .
(23 ). بحار الانوار،ج۵۰،ص۸۰.
(24 ). همان ،ص ۳۰۸.
(25 ) .همان ج ۵۱، ص .۱۵ .
(26 ). الارشاد ، ج ۲، ص ۳۳۰.
(27 ) . همان ، ج ۷۵، ص۴۰۹ .
(28 ). همان ، ج ۵۰، ص ۲۹۰.
(29 ). همان ، ج ،۵۱،ص۳۴۴.
(30 ). همان ، ص ۳۵۱.
(31 ). همان ، ص۳۵۹.
(32 ). همان ، ص۳۵۶.
(33 ). همان ، ص۳۵۴.
|