تقيہ ايک قرآني اصول
 

پيامبر اكرم(ص) ا ور تقيہ
پيامبر اسلام (ص) کےتقيہ كرنے کے موارد میں سے ایک مورد آپ کا بعثت سے تین سال پہلے سری طور پر دعوت دینا تھا .
اسی طرح صلح حدیبیہ کےموقع پرسهيل بن عمرو مشركون کانماينده تھا ، کے درخواست پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بجائے 'باسمک اللهم' لکھنا اور رسول اللہ (ص) کے عنوان کو حذف کرکے محمد بن عبداللہ لکھنا بھی ایک قسم کا تقیہ ہے . (1 )
آنحضرت(ص) کا عبد الله بن ابي پر نماز ميت پڑھنا اور بجائے دعا کے آہستہ سے نفرین کرنا جبکہ وہ منافقين مدينه کا سردار تھا ؛ موارد تقيہ میں سے تھا . (2 )

علي(ع) اور تقيہ
آپ کا سقیفہ والوں کے انتخاب پر ظاہرا ً ۲۵ سال تک خاموش رہنا جبکہ آپ کو معلوم تھا کہ قرآن اور فرمان رسول خدا ﷺ کے مطابق خلافت آپ کا حق تھا ، لیکن مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتحاد کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے خاموش رہنا ،تقیہ تھا . جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی مصلحتوں کو محفوظ کیا . اگر آپ خاموش نہ رہتے تو اس وقت روم والے مسلمانوں کے سر پر کھڑے تھے کہ کوئی موقع ہاتھ آجائے تاکہ مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کو نابود کرسکیں ، جو مسلمانوں کی وحدت کی وجہ سے ناکام ہوا .آپ کا اپنے زمانے کے حاکموں کے پیچھے نماز پڑھنا بھی تقیہ کے موارد میں سے ہے .

حسنين و زين العابدين (ع) اور تقيہ
یہ دوره زمان خلافت امام حسن(ع) ۲۱ رمضان ۴۱ھ سے لے کر وفات امام سجاد(ع) سن ۹۵ ھ تک تاريكترين اور وحشت ناكترين دوران ہے كه ائمه طاهرين (ع) پرگذری ہے
صلح امام حسن(ع) ربيع الاول سال ۴۱ھ کے بعد اور حكومت اموي کے مستقر ہونے کے بعد ، شيعه اور ان کے پيشواوں کوشدید دباؤ ميں رکھے. معا ويه نے دستور دیا كه خطيب لوگ علي(ع) اور ان کے خاندان کی شان میں گستاخی کریں اور منابر سے ناسزا اور لعن طعن کرے . شهادت اما م حسين(ع) سن ۶۱ھ کے بعد مزید سختی کرنے لگے . حضرت علي(ع) اپني خاص روشن بینی کی وجہ سے اپنے بعد آنے والی تمام واقعات کی پیشگوئي فرمائی . اور اس دوران میں اپنے دوستوں سے تقیہ کرنے کا حکم فرمارہے تھے .کہ جب بھی ان کے مولا کے بارے میں گستاخی کرنے پر مجبور کیا جائے تو اپنی جان بچائیں اور ان کی بات قبول کریں. (3 )
اس دوران میں ائمه(ع) کے سياسي تقيہ کے واضح ترين مصداق ،صلح امام حسن(ع) کوقراردے سکتے ہیں . كه جو خود مهمترين علل اور اسباب میں سے ایک ہے جس کے ذریعے سے مسلمانوں خصوصاً شیعیان حیدر کرار کے خون کی حفاظت تھی . (4 )
اسی طرح امام حسين(ع) کا معاويه کے خلاف جنگ نہ کرنا بھی تقیہ شمار ہو تا ہے .اور اس دوران امام حسن و امام حسين(ع) کا مروان بن حكم ، حاكم مدينه کے پیچھے نماز پڑھنا بھی سياسي و اجتماعي تقيہ کے مصاديق میں سے ہے . (5 )
جب بررسي کرنے لگتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام سجاد(ع)تقیہ کرنے کا ایک خاص طریقہ اپناتے ہیں اور وہ دعا کی شکل میں اسلامی معارف اور تعلیمات کا عام کرنا ہے . جس کا مجموعہ صحیفہ سجادیہ کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے .

امام باقر(ع) او رتقيہ
امام باقر(ع) کا دور بنی امیہ کے کئی خلفاء(وليد بن عبد الملك ، سليمان بن عبد الملك،عمر بن عبد العزيز، هشام بن عبد الملك) مصادف تھا اس دوران میں سخت گيري نسبتاً كم ہوا . یہی وجہ تھی کہ آپ نے شيعه مکتب کے مختلف کلامي، فقهي اور فرهنگي امور کو تدوين کرکے اسلامي مکاتب کے سامنے رکھ ديا ، اور بہت سے شاگردوں کي تربيت کي .
امام (ع)کے سیاسی تقیہ کے موارد میں سے درج ذیل توریہ والی روایات کو شمار کر سکتے ہیں کہ امام نے ہشام کی مجلس میں اسے یوں خطاب کرنا : يا امير المؤمنين الواجب علي الناس الطاعه لامامهم و الصدق له بالنصيحه.(6 ) اے امير مؤمنین! لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے امام کی اطاعت کرے اور نصیحت اور خیر خواہی کے وقت اسے قبول کرے .اس روایت میں لفظ امام ،غاصب حاكمون ا ور ائمه اهل بيت(ع) دونوں پر قابل تطبيق ہے .بنی امیہ کے بادشاہوں سے تقیہ کرتے ہوئے شاہین اور عقاب کے ذریعے شکار کرنے کو حلال قرار دیا ؛ ان دو پرندوں کے ذریعے خلفای بنی امیہ بہت زیادہ شکار کیا کرتے تھے .امام باقر(ع) کاتقیہ کرنے پر یہ روایت صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے . (7 )

امام صادق(ع) اور تقيہ
امام صادق(ع) کي۳۴ ساله مدت امامت ( ۱۱۴ھ سے لیکر ۱۴۸ ھ تک) ائمه طاهرين (ع) کي طولاني ترين مدت امامت شمار ہوتا ہے كه جسے تین بخش میں تقسيم کرسکتے ہیں:
پہلابخش:یہ هشام بن عبد الملک( ۱۰۵ ـــ ۱۲۵) کادور تھا ، جو سياسي لحاظ سے قدرت مند خليفه شمار ہوتا تھا اور مملكت اسلامي کے او ضاع پرمسلط تھا . امام اور ان کی فعالیتوں کو سخت کنٹرول میں رکھتا تھا .
دوسرا بخش : یہ دوره سن ﴿۱۲۵ _ ۱۴۵﴾ھ کو شامل کرتا ہے كه بني اميه کي حكومت روبہ زوال تھي اور بنی عباس کے ساتھ جنگ وجدال میں مشغول ہوگئے تھے آخرکار ان کے ہاتھوں شکست کھا کران کي حکومت سرنگون ہوئي .
تیسرا بخش: سن(۱۴۵ ـ ۱۴۸)ھ کوشامل کرتا ہے كه اس وقت منصور نے شدت کے ساتھ امام (ع)ا ور ان کی فعاليتوں کو مختلف جوانب سے كنٹرول کررکھا تھا.
بحارالانوار میں آن حضرت کے تقيہ سے مربوط ۵۳ روايت جمع آوري کي گئي هے (8 ) كه جن میں سے زیادہ تر اس کتاب کے مختلف صفحات پر ذکر ہوا ہے .
جب منصور نے امام کو ان کی حکومت کے خلاف قیام کرنے سے ڈرايا تو امام (ع) فرمايا: میں نے بنی امیہ کے زمانے میں کوئي ایسا قيام نہیں کیا ہے جب کہ وہ سب سے زیادہ ہمارے ساتھ دشمنی کرنے والے تھے ، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے چچا زاد بھائی کے خلاف قیام کروں جب کہ رشتے کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہے ، اور اب سے زیادہ میرے اوپر مہربان اور نیکی کرنے والا ہے .. (9 )
امام صادق(ع) کی وصيت بعنوان تقیہ ہم بیان کر سکتے ہیں کہ جب امام صادق(ع) رحلت فرماگئے تو منصور نے مدينه کے گورنر کو خط لکھا : جس کو بھی امام نے اپنا جانشین اوروصی بنایا، اسے اپنے پاس لا کر اس کا سر قلم کرو.
جب مدینے کا گورنر اس ماجرا کی تحقیق کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ امام(ع) کئی افراد کو اپنا جانشین کے طور پر معین کرچکے هيں، جیسے موسی ابن جعفر(ع)، اپنی زوجہ حميدہ اور اپنا دوسرا فرزند عبدالله خود امام(ع).جن میں سے ایک خود منصور اور مدینہ کا گورنر بھی ہے .
دوسرے دن جب منصور کو یہ خبر دی گئی تو وہ چیخ اٹھا اور کہنے لگا : اے گورنر اس صورت میں کسی کو بھی قتل نہیں کرسکتا . (10 )
الْإِمَامُ الْعَسْكَرِيُّ(ع)فِي تَفْسِيرِهِ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً قَالَ الصَّادِقُ ع قُولُوا لِلنَّاسِ كُلِّهِمْ حُسْناً مُؤْمِنِهِمْ وَ مُخَالِفِهِمْ أَمَّا الْمُؤْمِنُونَ فَيَبْسُطُ لَهُمْ وَجْهَهُ وَ أَمَّا الْمُخَالِفُونَ فَيُكَلِّمُهُمْ بِالْمُدَارَاةِ لِاجْتِذَبہمْ إِلَى الْإِيمَانِ فَإِنِ اسْتَتَرَ مِنْ ذَلِكَ يَكُفَّ شُرُورَهُمْ عَنْ نَفْسِهِ وَ عَنْ إِخْوَانِهِ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ الْإِمَامُ ع إِنَّ مُدَارَاةَ أَعْدَاءِ اللَّهِ مِنْ أَفْضَلِ صَدَقَةِ الْمَرْءِ عَلَى نَفْسِهِ وَ إِخْوَانِهِ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ فِي مَنْزِلِهِ إِذِ اسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي سَلُولٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ ائْذَنُوا لَهُ فَأَذِنُوا لَهُ فَلَمَّا دَخَلَ أَجْلَسَهُ وَ بَشَرَ فِي وَجْهِهِ فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قُلْتَ افِيهِ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ بہ مِنَ الْبِشْرِ مَا فَعَلْتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَا عُوَيْشُ يَا حُمَيْرَاءُ إِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ يُكْرَمُ اتِّقَاءَ شَرِّهِ وَ قَالَ الْإِمَامُ ع مَا مِنْ عَبْدٍ وَ لَا أَمَةٍ دَارَى عِبَادَ اللَّهِ بَأَحْسَنِ الْمُدَارَاةِ وَ لَمْ يَدْخُلْ بہا فِي بَاطِلٍ وَ لَمْ يَخْرُجْ بہا مِنْ حَقٍّ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ نَفَسَهُ تَسْبِيحاً وَ زَكَّى أَعْمَالَهُ وَ أَعْطَاهُ لِصَبْرِهِ عَلَى كِتْمَانِ سِرِّنَا وَ احْتِمَالِ الْغَيْظِ لِمَا يَحْتَمِلُهُ مِنْ أَعْدَائِنَا ثَوَابَ الْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. ...(11)
امام عسکري (ع)اپني تفسير ميں امام صادق (ع)سے اس آيه شريفه کے ذيل ميں نقل فرماتے هيں :که هر انسان کے ساتھ نيک گفتار هونا چاهئے ، خوہ وہ مؤمن هو يا ان کا مخالف هو.مؤمنوں کے ساتھ خوش روئي کے ساتھ پيش آئے،ليکن ان کے مخالفين کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آئيں تاکه ان کوايمان کي طرف جلب کرسکيں. اگر يه لوگ ان سے چھپائے تو ان کے شر سے اپنے آپ کو ، اپنے مؤمن بھائيوں کوبچا سکتے هيں .امام نے فرمايا : دشمنوں کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آنا؛ اپني جان، اور اپنے بھائيوں کا بہترين صدقه دينا هے.رسول خدا ﷺايک دن اپنے گھر ميں تشريف فرما تھے که عبدالله بن ابي سلول نے دستک دي ، تو رسول الله ﷺ نے فرمايا: قوم کا سب سے برا انسان هے ، اسے اندر آنے کي اجازت دي جائے . جب وہ اندر داخل هواتو آپ نے خنده پيشاني سے اس کا استقبال کيا . جب وہ نکل گيا تو عائشه نے سوال کيا : يا رسول الله ! آپ نے کيا کچھ ، اور کها کچھ؟تو رسول خدا ﷺ نے فرمايا:اے عويش اے حميرا! الله کے نزديک قيامت کے دن سب سے برا انسان وہ هوگا، جس کے خوف سے لوگ اس کي عزت کريں .
امام نے فرمايا : کسي بھي مرد اور عورت ميں سے کوئي بھي الله کے بندوں کيساتھ نيکي کرے ،در حاليکه وہ اس حالت سے بہر بھي نهيں نکلتا،مگر يه که الله تعالي اس کے سانسوں کو اپني تسبيح پڑھنے کا ثواب لکھ ديتا هے . اور اس کے سارے اعمال کوخالص نه بنائے اور اسے همارے اسرار کو چھپانے ، اور دشمن کے غم وغصے کو برداشت کرنے کي وجه سے، اس شخص کا ثواب عطا کرے گا ، جو الله کي راه ميں جهاد کرتے هوئے اپنے خون ميں غلطان هوچکا هو.اور اس مداراتي تقيہ کے نتائج کو بھی بیان فرمایا.
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع ... قَالَ مَنْ كَفَّ يَدَهُ عَنِ النَّاسِ- فَإِنَّمَا يَكُفُّ عَنْهُمْ يَداً وَاحِدَةً- وَ يَكُفُّونَ عَنْهُمْ أَيَادِيَ كَثِيرَة(12 ) جو بھی لوگوں کے ساتھ مدارات اور مہربانی کرے اور ان کےساتھ سختی سے پیش نہ آئے تو حقیقت میں ایک ہاتھ کو كسي دوسرے کو اذیت اور آذار پہنچانے سے باز رکھا لیکن بہت سے ہاتھوں کو اپنے اوپر ظلم و تعدی کرنے سے دور رکھا ہے .

امام موسي كاظم(ع) اور تقيہ
امام كاظم(ع) اپنے ۳۵ساله دور امامت (۱۴۸ ـ ۱۸۳)ه میں جو حضرت حجت(عج) کی امامت کے علاوہ طولاني ترين اورسخت ترين دور شمار ہوتا ہے .
یہ دور،بنی عباس کے سرسخت اورسفاک خلفاء جیسے منصور ، مهدي ، هادي اور هارون کی حکومت سے مصادف تھا .کہ ان میں سے ہر ایک امامت کی نسبت بہت زیادہ حساس تھے ، یہاں تک کہ امام کے بعض چاہنے والوں ، جیسے محمد ابن ابي عمير کو کئی عرصے تک جیل میں ڈالے گئے . اسی دور میں حسين ابن علي ابن حسن جو شهيد فخ کے نام سے معروف تھے ، ۱۶۹ه میں حکومت کے ساتھ ان کي جنگ هوئي ،جو ان کی شهادت پر جا کر ختم ہوئي. اور هادي عباسي یه تصور كررہا تھا کہ یہ جنگ ،امام(ع) کے فرمان کے مطابق کي گئي ہے، اس لئے ان کے اوپر زیادہ سخت گيري کرنا شروع کیا .

اس دورمیں تقيہ امام(ع)کے بعض موارد
۱ـ جب خلیفہ موسي الهادي اس دنيا سے چلے گئے تو امام(ع) نے ان کی ماں خیزران کو تسليتي پیغام دیتے ہوئے خلیفہ کو امير المؤمنين کا عنوان دے کر ياد کرنا اور اس کیلئے رحمه الله کہہ کر طلب مغفرت کرنا اور پھر هارون کی خلافت کو بھی امير المؤمنين کے عنوان سے ياد کرتے ہوئے ان کو مبارک باد کہنا ،
مرحوم مجلسي(رہ) نے اس خط کے ذیل میں لکھا ہے کہ ، آنحضرت کے زمانے میں شدت تقيہ کا نظاره كر سکتے ہیں كه انہیں ایک فاسق اور جابر حاکم کے لئے ایسےالقابات لکھنے پر مجبورکرديا تھا. (13 )
۲ـ يحي بن عبد الله بن حسن نے ایک خط امام(ع) کے نام لکھا ،کہ آنحضرت کو حكومت عباسي کے خلاف قیام کرنے سے روکتے ہوئے سزا دیا جائے .لیکن امام(ع) نے ان کے جواب میں خط لکھا جس کے ضمن میں اسے بطورخلیفہ یاد کیا . امام(ع) کا یہ خط هارون کے ہاتھوں میں پہونچ گیا .جسے دیکھ کر انہوں نے کہا: لوگ موسي ابن جعفر(ع) کے بارے میں مجھے بہت سی چیزیں بتا تے ہیں ، اور مجھے ان کے خلاف اکساتے ہیں جب کہ وہ ان اتہامات سے پاک هیں . (14 )
۳ـ علي ابن يقطين جو هارون کی حکومت میں مشغول تھا ؛ ایک خط امام کو لکھتے ہیں کہ اور امام سے وضو کے بارے میں سوال کرتے ہیں. امام(ع)اس کے جواب میں اهل سنت کے وضو کا طریقہ اسے تعلیم دیتے ہیں کہ تو انہیں کی طرح وضو کیا کرو . اگرچه علي ابن يقطين کو بڑاتعجب ہوا ، لیکن حکم امام(ع) کی اطاعت ضروری تھی . هارون كو بھی علي ابن يقطين پرشك ہو چکا تھا ، سوچا کہ اس کے وضو کرنے کے طریقے کو مشاہدہ کروں گا . اگر اس نے مذهب شيعه کے مطابق وضوکیا تو اسے بہت سخت سزادوں گا . لیکن جب ان کے وضوکرنے کے طریقے کو دیکھا تو اسے اطمنان ہواکه ان کے بارے ميں لوگ جھوٹے تھے ، تو علی ابن یقطین کی عزت اور مقام ان کے نزدیک مزید بڑھ گيا .بلا فاصله اس ماجرا کے بعد امام(ع) کی طرف سے علي ابن یقطین کو دستور ملا کہ وضو اب مذهب شيعه کے مطابق انجام دیا کریں . (15)

امام رضا(ع)اور تقيہ
امام رضا(ع)کی امامت کا دور (۱۸۳ ـ۲۰۳)تک ہے ، جسے تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
پہلا دور :۱۸۳ سے لیکر ۱۹۳ سال تک کا دور ہے . اس دور میں ہارون الرشید حاکم تھا ؛ يه دورشیعیان حیدر کرار پر بہت سخت گذرا.اس ملعون نے قسم کھا یا ہوا تھا کہ موسي ابن جعفر(ع) کے بعد جو بھی امامت کا ادعی کرے گا اسے قتل کیا جائے گا . لیکن اس کے باوجود امام رضا(ع) نے بغیر کسی خوف اور وہم و گمان کے اپنی امامت کو لوگوں پرآشکار کیا امام کا تقیہ نہ کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس وقت خواہشات نفسانی اور مال و زر کے اسیروں نے آپ کی امامت کا انکار کرکے فرقہ واقفیہ کی بنیاد ڈالی تھی . امام موسی (ع) کے زندہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے . چنانچہ کہنے لگے : الامام الکاظم لم یمت ولایموت ورفع الی السماء وقال رسول الله فی شانه:ویملأالارض قسطاً وعدلاً کماملئت ظلماً وجوراً.(16 ) امام کاظم فوت نہیں ہوا ہے اور نہ فوت ہوگا ، انہیں خدا تعالی نے آسمان کی طرف اٹھایا ہے . اور رسول خدا (ص) نے ان کی شان میں فرمایا :زمین کو وہ عدل و انصاف سے اسي طرح پر کرے گا جس طرح ظلم و جور سے پر ہو چکی ہے .
اس ماجرے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے ہاتھوں مال خمس اور زکوۃ کا کچھ رقم موجود تھا . کیونکہ حضرت امام موسی بن جعفر قید و بند میں تھے ؛ جس کے بعد آپ کی شہادت ہوئی تو جو مال ان کے ہاتھوں میں موجود تھا ،ضبط کر لئے اور ان کے فرزند ارجمند علی ابن موسی الرضا (ع)کی امامت کے منکر ہوگئے . (17 )
اے میرے بیٹے ! خدا تعالیٰ نے فرمایا: میں روی زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کروں گا ، اور خدا جو بھی فرماتا ہے وہ اسے انجام دے گا . زياد بن مروان قندى جو گروہ واقفيه میں سے تھا کہتا ہے میں ابو ابراہیم عليه السّلام کی خدمت میں تھا کہ ان کے بیٹے علی ابن موسیٰ الرضا (ع)بھی ان کی خدمت میں حاضر تھا ؛ مجھ سے فرمانے لگا: اے زیاد ! یہ میرا بیٹا ہے اس کا قول میرا قول ہے اس کی کتاب میری کتاب ہے اس کا رسول میرا رسول ہے ، اور جو بھی وہ زبان پر جاری کرے گا و حق ہوگا. (18 )
بہر حال امام(ع) نے اپنی امامت کا اظہار کیا تو آپ کے ایک صحابی نے اصرار کیا کہ آپ مزيد لوگوں کو اپنی امامت کے بارے میں وضاحت کریں ؛ توفرمایا: اس سے بڑھ کر اور کیا وضاحت کروں ؟! کیا تم چاہتے ہو کہ میں ہارون کے پاس جاکر اعلان کروں کہ میں لوگوں کا امام ہوں اور تیری خلافت اور تیرا منصب باطل ہے ؟! ایسا توپيامبراكرم(ص) نے بھی اپنی رسالت کے اولین بار اعلان کرتے وقت نہیں کیا ہے ، بلکہ آغاز رسالت میں اپنے دوستوں ، عزیزوں اورقابل اعتماد افراد کو جمع کرکے اپنی نبوت کا اظہار کیا .(19 )
..............
(1 ). ابن هشام؛ السنة النبويه،ج۳، ص۳۱۷ .
(2 ). وسائل الشيعه،ج۹ ، ص۳۲۸ ـ ۳۲۹.
(3 ) . بحار الانوار،ج۷۵ ، ص۳۹۳.
(4 ) . همان ، ص ۴۴۷ا.
(5 ). ہمان ،ج۸۸.
(6 ) . همان ، ج ۴۶، ص ۳۱۶.
(7 ) . وسائل الشيعه ، ج ۱۶ ،ص ۲۶۴.
(8 ) . بحار الانوار،ج ۷۵، ص ۳۹۳ .
(9 ). ہمان ، ص،۱۹۶.
(10 ) . مهدي پيشوائي ؛ سيره پيشوايان ، ص۴۱۴.
(11 ) . مستدرك‏الوسائل، ج9، ص 36، باب استحباب مداراة الناس .
(12). بحار الأنوار، ج‏72، باب التقية و المداراة،ص : 393
(13) . بحار الانوار،ج۴۸.ص۱۶۶.
(14 ) . همان،ص۳۸.
(15 ) . رياض ، ناصري ، الواقفيه.
(16 ) . بحار الانوار، ج۴۶، ص ۱۱۴.
(17 ) . زندگانى چهارده معصوم (ع)، ،امامت حضرت رضا(ع), ص424.
(18 ) . ہمان ، ص425.
(19 ) . بحار الانوار، ج۴۶، ص ۱۱۴.