تقيہ ايک قرآني اصول
 

حضرت موسي(ع)اورتقيہ
قرآن كريم نے حضرت موسي(ع) کی شجاعت کے بارے میں کئی دفعہ اشارہ کیا ہے کہ کس طرح فرعون کے ساتھ روبرو ہوا ، حضرت موسیٰ کو بہت سے پیغمبروں پر فضیلت حاصل ہے : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ.(1 )
یہ سب رسول (ع)وہ ہیں جنہیں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے. ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں .
ان تمام شجاعت اور فضیلتوں کے باوجود اپنی زندگی میں کئی موقعوں پر لوگوں کو رسالت کی تبلیغ کے دوران تقیہ کئے ہیں .اور یہ تقیہ اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ باطل کا حق پر غلبہ پانے کے خوف سے کئے ہیں .جب خدا نے موسي اور هارون (ع) کو حکم دیا :
اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى .(2)
تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے . اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خوف زدہ ہوجائے .
اورفرعون کے ساتھ نرم اور میٹھی زبان میں بات کرنا اور اعلان جنگ نہ کرنا ، جبکہ وہ طغیان اور نافرمانی کے عروج پر تھا ؛ ایک قسم کا تقیہ ہے .البتہ یہ تقیہ مداراتی تھا نہ خوفی . لیکن اصحاب موسي(ع) کے بارے میں قرآن مجيد اشاره کرتا ہے : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ.(3 )
فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنادیا وہ لڑکوں کو ذبح کردیا کرتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھا کرتا تھا. وہ یقینا مفسدین میں سے تھا . یہ خوف لوگوں کا تھا نہ اپنی جان کا .لیکن ولادت حضرت موسي(ع) کے بارے میں قرآن کہہ رہا ہے کہ جنہوں نے حضرت موسیٰ (ع)کی دعوت کو قبول کرلی تھی ، اپنے ایمان کو دلوں میں چھپائے رکھے تھے ، جب تک موسیٰ(ع) نے علیٰ الاعلان دعوت کرنا شروع کیا . تاریخ میں آپ کے بعض اصحاب اور مؤمنوں کی تاریخ کو قرآن نے ثبت کیا ہے ؛ جو درج ذیل ہیں :

مؤمن آل فرعون اور تقيہ
قرآن فرما رہا ہے : وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبہ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ.(4 )
اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا ،یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے .
ابن كثيرلکھتا ہے : یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا اور اپنا ایمان کو اپنی قوم سے چھپا رکھا تھا . جس کے نام میں مورخین نے اختلاف کیا ہے ؛ کسی نے کہا آپ کا نام شمعان تھا ، کسی نے کہا حزقیل تھا .بہر حال جب فرعون نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنے حواریوں سے مشورت کرنے لگا ، تو مؤمن اس ناپاک سازش سے آگاہ ہو ا تو سخت فکر مند ہوا ، فرعون کو یوں مشوره دیا : وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىّ‏َِ اللَّهُ ؟! اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے .
: قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى‏.(5) فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں .
ثعلبي نے لکھا ہے اس شخص کا نام حزقیل ہے اور یہ اصحاب فرعون میں سے تھااور وہی ترکھان تھا جس نے حضرت موسیٰ (ع)کی ماں کیلئے وہی صندوق بنا کر دیا تھا جس میں ڈال کر موسیٰ کو دریای نیل میں ڈال دیا گیا تھا .
قَالَ الصادق(ع):إِنَّ مَثَلَ أَبِي طَالِبٍ مَثَلُ أَصْحَابِ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الشِّرْكَ فَآتَاهُمُ اللَّهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ .(6 )
امام صادق (ع)نے فرمایا: بے شک ابوطالب کی مثال اصحاب کہف کی مثال ہے ، انہوں نے اپنا ایمان چھپائے رکھا اور شرک کا اظہار کیا ، خدا تعالیٰ انہیں قیامت کے دن دو دفعہ ثواب عطا کریگا .
امام حسن العسکری (ع)نے فرمایا: ان ابا طالب كمؤمن آل فرعون يكتم ايمانه.(7 ) فرماتے ہیں : حضرت ابوطالب (ع)بھی مؤمن آل فرعون کی طرح اپنا ایما ن کفار قریش سے چھپا رکھا تھا .

آسيہ بنت مزاحم اور تقيہ
آپ فرعون کی بیوی ہے قرآن نے آپ کے بارے میں فرمایا:وَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبّ‏ِ ابْنِ لىِ عِندَكَ بَيْتًا فىِ الْجَنَّةِ وَ نجَِّنىِ مِن فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نجَِّنىِ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ .(8 ) اور خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار !میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے.
روايات اهلبيت(ع) میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت آسیہ بہشت میں نبی کی بیویوں میں سے ہونگی.(9 )

اصحاب كهف او رتقيہ
قطب راوندي نے شيخ صدوق سے امام صادق(ع) کي روايت کو نقل کي هے : فَقَالَ لَوْ كَلَّفَكُمْ قَوْمُكُمْ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ فَافْعَلُوا فِعْلَهُمْ فَقِيلَ لَهُ وَ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ قَالَ كَلَّفُوہمُ الشِّرْكَ بِاللَّهِ فَأَظْهَرُوہ لَهُمْ وَ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ حَتَّى جَاءَهُمُ الْفَرَجُ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ كَذَبُوا فَآجَرَهُمُ اللَّهُ إِلَى أَنْ قَالَ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الْكُفْرَ فَكَانُوا عَلَى إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ أَعْظَمَ أَجْراً مِنْهُمْ عَلَى إِسْرَارِهِمُ الْإِيمَانَ وَ قَالَ مَا بَلَغَتْ تَقِيَّةُ أَحَدٍ تَقِيَّةَ أَصْحَابِ الْكَهْفِ ... فَأَعْطَاهُمُ اللَّهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ .(10) اگر تمهاري قوم کفر کا اظهار کرنے پر مجبور کرے تو اظهار کرنا اوراپنا ايمان آرام آنے تک چھپا رکھنا. پھر فرمايا اصحاب کهف نے بھي ظاهراً جھوٹ بولا اور الله تعالي نے بھي ان کو جزاے خير دي اور کها اصحاب کهف نے اپنے ايمان کو چھپائے اور کفر کا اظهار کئے.پس کفر کا اظهار کرنے کا ثواب ايمان کے چھپانے سے زياده هے . اور فرمايا: اصحاب کهف سے زياده کسي اور نے تقيہ نهيں کيا ...الله تعالي نے بہي ان کو دو مرتبہ اجر اور ثواب عطا کيا.
امير المؤمنين(ع)سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے : وَ عَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِحَبْلِ اللَّهِ وَ عُرْوَتِهِ وَ كُونُوا مِنْ حِزْبِ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ الْزَمُوا عَهْدَ اللَّهِ وَ مِيثَاقَهُ عَلَيْكُمْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيباً وَ سَيَعُودُ غَرِيباً وَ كُونُوا فِي أَهْلِ مِلَّتِكُمْ كَأَصْحَابِ الْكَهْفِ وَ إِيَّاكُمْ أَنْ تُفْشُوا أَمْرَكُمْ إِلَى أَهْلٍ أَوْ وَلَدٍ أَوْ حَمِيمٍ أَوْ قَرِيبٍ فَإِنَّهُ دِينُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ الَّذِي أَوْجَبَ لَهُ التَّقِيَّةَ لِأَوْلِيَائِهِ فَيَقْتُلَكُمْ قَوْمُكُمْ الْخَبَرَ .(11 )
امام حسن العسكري (ع) کی روايت اس بات کیلئے مؤيدہے: قال قال رسولالله(ص) : ان الانبياء انما افضلهم علي خلقه اجمعين بشدة مداراتهم لاعداء دين الله و حسن تقيتهم لاجل اخوانهم في الله.(12 )
رسول خدا (ص ) نے فرمایا: بیشک انبیای الہی کو دوسرے لوگوں پر اس لئے فضیلت ملی ہے کہ خدا کے دشمنوں کے ساتھ مدارات کیا کرتے تھے اور نیک لوگوں کے ساتھ خدا کے خاطر اچھا تقیہ کیا کرتے تھے .
یہ اسلام سے پہلے کے تقیہ کے کچھ موارد تھےجو آیات ، احادیث اور شیعہ سنی کتابوں میں مرقوم تھے . اور یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے .
..............
(1 ) . سوره بقره۲۵۳.
(2 ) . سوره طه۴۳،۴۴.
(3 )سورہ قصص ۴ .
(4 ). غافر۲۸ .
(5 ). غافر۲۹ .
(6 ) . الكافي باب مولد النبي ص و وفاته‏،ج 1، ص 448.
(7 )۸۳ . . وسائل الشيعه ،ج۱۱، ص .
(8 ). سوره تحريم ۱۱.
(9 ) . تفسير نور الثقلين . ج۵ ، ص۲۷۷.
(10 ) . مستدرك‏الوسائل ،ج 12 ،ص 272.
(11 ). مستدرك، باب وجوب التقية مع الخوف إلى خر.
(12 ) . همان ، با ب دوم .