|
234
ہمّت مرداں مدد خدا
اسلامى لغت ميں ''سوال'' كے دو معنى بيان كئے جاتے ہيں ايك معنى پوچھنے كے ہيں_ يعنى نہ جاننے والا كسى جاننے والے سے سوال كرتا ہے، تا كہ اس طرح وہ اپنے علم ميں اضافہ كرسكے اس لحاظ سے سوال كرنا بہت اچھا اور پسنديدہ فعل ہے_ جو شخص نہيں جانتا اسے چاہئے كہ وہ جاننے والوں سے سوال كرے تا كہ اس كے علم و آگاہى ميں اضافہ ہوجائے دين اسلام كے پيشواؤں كے كلام ميں ملتا ہے كہ علم و دانش كے بند دروازوں كى چابى ''سوال'' كرنا ہے''
سوال كے دوسرے معنى كسى سے مدد طلب كرنے اور بلامعاوضہ كوئي چيز مانگنے كے ہيں ان معنوں ميں كسى سے سوال كرنا اسلامى نقطہ نگاہ سے بہت ہى برا اور ناپسنديدہ عمل ہے_
235
ايك شخص نے پيغمبر(ص) سے پوچھا كہ:
يا رسول اللہ(ص) مجھے كوئي ايسا عمل بتايئےہ مجھے اس كے بجالانے كے بعد يقين ہوجائے كہ ميں اہل جنّت ميں سے ہوں''
پيغمبر(ص) نے اس كے جواب ميں تين چيزوں كے متعلق فرمايا كہ اگر تم چاہتے ہو كہ آخرت ميں جنتيوں كے زمرے ميں شامل ہوجاؤ تو ان تين چيزوں كى ہميشہ پابندى كرو:
1)___ بلاوجہ غصہ نہ كرو
2)___ كبھى لوگوں سے سوال نہ كرو
3)___ لوگوں كے لئے وہى چيز پسند كرو جو اپنے لئے كرتے ہو_
نيز پيغمبر(ص) نے فرمايا:
جو شخص ايك دو دن كى روزى ركھنے كے باوجود لوگوں سے سوال كرے تو خداوند عالم اسے قيامت كے دن برے چہرے سے محشور كرے گا''
پيغمبر(ص) خدا مسلمانوں كى غيرت و شرافت انسانى كے اتنے قائل تھے كہ آپ كو پسند نہ تھا كہ كوئي مسلمان اپنى عزت و آبرو كو اس كے اور اس كے سامنے رسوا كرے اور بغير ضرورت اور لاچارى كے سوال كے لئے لب كشائي كرے اور خدا كے سوا اور كسى سے حاجت طلب كرے_
آپ(ص) فرمايا كرتے تھے كہ مومن كو حق نہيں پہنچتا كہ وہ اپنے آپ كو ذليل كرتا پھرے حالانكہ آپ(ص) ضرورت كے وقت محتاجوں اور ضرورت مندوں كى مدد و نصرت بھى كيا كرتے تھے ليكن پسند نہيں كرتے كہ مومن
236
اپنى عزّت و شرافت اور آبرو كو كسى كے سامنے رسوا كرے يہاں تك كہ خود پيغمبر(ص) كے سامنے بھى اظہار حاجت اور نيازمندى كرے اور آپ(ص) تاكيد فرماتے تھے كہ:
ہر وہ شخص جو بے نيازى كا مظاہرہ كرے اور كسى سے سوال نہ كرے اور اپنے دل كے راز كو فقط اپنے خدا سے كہے تو خدا اسے بے نياز كردے گا ليكن جو شخص بلاوجہ اس سے اور اس سے سوال كرے اور اپنى عزّت نفس كو مجروح كرے، خداوند عالم بھى اس كے لئے فقر و نيازمندى كے دروازے كھول ديتا ہے''
اس مطلب كو بہتر طور پر سمجھنے اور پيغمبر خدا(ص) كى انسان ساز اور عزّت آفرين سنّت كو اچھى طرح سمجھنے كے لئے يہ واقعہ ملاحظہ فرمايئےور اس ميں حضرت رسول خدا(ص) كے اس شخص سے برتاؤ پر توجّہ ديجئے_
ايك شخص مدّت سے بے كار تھا اور بے كارى نے اسے فقير و تہى دست كرديا تھا اس كے سامنے فقر سے نجات اور ضروريات پورى كرنے كے تمام راستے بند ہوچكے تھے اور اس كا كوئي علاج دكھائي نہ ديتا تھا ايك دن اس شخص نے اس مسئلہ كو اپنى بيوى كے سامنے بيان كيا اور اس سے مشورہ طلب كيا،
اس كى بيوى نے كہا كہ رسو ل خدا(ص) ايك مہربان اور كريم و سخى انسان ہيں بہتر ہے كہ ان كى خدمت ميں جاؤ اور اپنى حالت كو بيان كرو اور ان سے مدد طلب كرو_
237
اس شخص كو يہ تجويز پسند آئي وہ اٹھا اور رسول(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا، سلام كيا اور شرم كے مارے ايك كونے ميں بيٹھ گيا_
رسول اكرم(ص) نے اس كے چہرے پر نگاہ ڈالى اور ايك ہى نگاہ ميں تمام معاملے كو سمجھ گئے اس سے پہلے كہ وہ شخص اپنى مصيبت اور تنگدستى كے متعلق كچھ كہتا اور سوال كے لئے لب كشائي كرتا پيغمبر(ص) نے گفتگو كے لئے اپنے لب كھولے اور وہاں موجود افراد سے ان الفاظ ميں خطاب فرمايا:
ہم ہر سائل كى مدد كريں گے ليكن اگر وہ بے نيازى اختيار كرے اور اپنا ہاتھ مخلوق كے سامنے نہ پھيلائے اور كام ميں زيادہ محنت و كوشش كرے تو خدا اس كى احتياج كو پورا كرے گا_
خدا كے رسول(ص) كى مختصر و پر معنى گفتگو اس محتاج انسان كے دل پر اثر كر گئي_ آپ كے مقصد كو اس شخص نے سمجھ ليا اپنى جگہ سے اٹھا آپ كو خداحافظ كہا اور اپنے گھر لوٹ آيا_ بيوى جو اس كے انتظار ميں تھى اس نے ماجرا دريافت كيا_
مرد نے جواب ديا كہ:
ميں رسول خدا(ص) كى خدمت ميں گيا تھا اس سے پہلے كہ كچھ كہتا، رسول (ص) نے فرمايا كہ جو شخص چاہے ہم اس كى مدد كريں گے ليكن اگر بے نيازى اختيار كے اور اپنا ہاتھ كسى كے سامنے نہ پھيلائے تو خدا اس كى احتياج كو دور كردے گا ميں سوچتا ہوں كہ آپ(ص) كى نظر ميري
238
حالت پر تھى اسى لئے ميں نے كچھ نہ كہا اور گھر واپس لوٹ آيا ہوں لہذا پيغمبر(ص) كے ارشاد كے مطابق ہميں خود ہى كوئي علاج سوچنا چاہئے_
اس نے ايك دودن مزيد مشكل اور پريشانى ميں كاٹے اور غور و فكر كرتا رہا ليكن تمام سوچ بچار كے باوجود كوئي مناسب كام اور كوئي ايسا علاج جو اسكے بند دروازے كو كھول ديتا اس كے ذہن ميں يہ آيا مجبوراً اس نے دوبارہ ارادہ كيا كہ پيغمبر(ص) خدا كى خدمت ميں جائے اور اپنى حالت كو بيان كرے اور آپ سے امداد طلب كرے_
دوبارہ خدمت رسول(ص) ميں پہنچا، سلام كيا اور شرمسارى كے ساتھ آپ(ص) كے سامنے بيٹھ گيا منتظر تھا كہ موقع ملے اور اپنے مقصد كو پيغمبر(ص) كے سامنے بيان كرے ليكن رسول (ص) خدا جن كے نزديك ايك انسان كى عزّت و آبرو كى بہت قيمت تھي، آپ(ص) نے اسے موقع نہ ديا كہ وہ اپنے آپ كو شرمندہ كرے اور پيغمبر(ص) كے سامنے اپنى حاجت كا اظہار كرے اس سے پہلے كہ وہ اس بات كے لئے لب كشائي كرے آپ(ص) نے دوبارہ وہى جملہ دہرايا:
ہم ہر سائل كى مدد كريں گے ليكن اگر وہ بے نيازى اختيار كرے اور اپنا ہاتھ مخلوق كے سامنے درازنہ كرے اور اپنے كام ميں زيادہ محنت و كوشش كرے تو خدا اس كى ضروريات پورى كردے گا_
پيغمبر خدا(ص) كى گفتگو نے اس شخص كے ايمان قلبى كو راسخ و قوى كرديا اور عزت نفس، آبرو اور شرافت كى اہميت كو اس كے سامنے واضح
239
كرديا اس نے سوال كرنے كا ارادہ ترك كرديا اور گھر واپس لوٹ آيا جہاں اس كى بيوى فقر و فاقہ سے عاجز، رسول(ص) خدا كى طرف سے مدد كے انتظار ميں بيٹھى تھي_ شوہر نے پيغمبر(ص) سے ملاقات كى تفصيل كو بيوى كے سامنے بيان كيا اور دونوں ايك بار پھر فقر و فاقہ كے تدارك كى فكر كرنے لگے مگر نتيجہ وہى ڈھاك كے تين پات آخر كار انہوں نے پكا ارادہ كرليا كہ رسول(ص) خدا كى خدمت ميں جائيں اور ہر حال ميں اپنے مقصد كو بيان كريں اور مدد طلب كريں_
اب تيسرى دفعہ وہ پيغمبر(ص) كى خدمت ميں شرف ياب ہوا وہ قطعى فيصلہ كرچكا تھا كہ اپنے رنج و مصيبت اور پريشانى كو آپ(ص) كے سامنے تفصيل سے بيان كرے گا اور آپ(ص) سے مدد طلب كرے گا ليكن جو نہى اس كى نگاہ پيغمبر(ص) كے چہرہ مبارك پر پڑى اس كے تمام وجود كو شرم و حيا نے گھيرليا اور كافى دير تك آرام سے ايك گوشہ ميں بيٹھا رہا اور سورچ رہا تھا كہ كيا كہے_ اسى دوران رسول(ص) خدا كى عزّت آفرين كلام كو سنا، آپ(ص) يقين و اميد كے لہجے ميں فرما رہے تھے: جو شخص مدد طلب كريگا ہم اس كى مدد كريں گے ليكن اگر وہ زيادہ محنت كرے تو خدا اس كى ضرورت و حاجت كو دور كردے گا_ وہ اپنى جگہ سے اٹھا اور محبت آميز نگاہ رسول(ص) چہرے پر ڈالى گويا وہ محسوس كرچكا تھا كہ رسول(ص) اس كى عزت و آبرو كى حفاظت كو ہر چيز پر فوقيت ديتے ہيں اور آپ نہيں چاہتے كہ وہ اپنى عزّت و آبرو كو اس آسانى كے ساتھ كھو بيٹھے اس نے رسول كو خداحافظ كہا اور گھر واپس لوٹ آيا_
خدا كے رسول(ص) كى باتوں نے اس كے دل سے سستي، شك و شبہ اور نااميدى كو پورى طرح دور كرديا اور اس كى جگہ طاقت اور يقين نے لے لي
240
اور اللہ پر اعتماد كے ساتھ اس نے پكا ارادہ كرليا كہ وہ سخت محنت و كوشش كرے گا اور ہر حال ميں كوئي نہ كوئي كام شروع كرے گا اور اس طرح اپنى محتاج اور بے سر و سامانى كو دور كرنے كى كوشش كرے گا_
ايك بار پھر وہ خالى ہاتھوں ليكن عزم و اميد سے لبريز دل كے ساتھ گھر ميں داخل ہوا اور اپنى بيوى كے سامنے پورا قصہ اور اپنا فيصلہ بيان كيا_
دوسرے دن صبح ہى صبح وہ گھر سے نكلا اور صحرا كى جانب چل پڑا صبح سے شام تك سخت محنت اور مستقل مزاجى كے ساتھ لكڑيوں كا ايك ڈھير اكٹھا كيا اور اسے كاندھے پر اٹھا كر شہر كى جانب چل ديا لكڑيوں كو بيچ كر تھوڑى سى غذا كا انتظام كيا اور خوش و خرم گھر كى طرف روانہ ہوا اس كى بيوى جو اس كے انتظار ميں بيٹھى ہوئي تھى اس كے استقبال كے لئے خوش خوشى دوڑى ہوئي آئي دونوں نے ساتھ بيٹھ كر كھانا كھايا اور محنت كوشش اور خدا پر اعتماد كے پھل كى لذّت كو چكھا''
دوسرے دن بھى صبح ہى صبح پكے ارادے كے ساتھ صحرا كى طرف روانہ ہوا اور خوب تلاش و كوشش كے بعد لكڑيوں كا ايك ڈھير اكٹھا كرليا_ كندھے پر ڈآلا اور شہر كى طرف چل پڑايوں يہ شخص ايك مدّت تك اسى طرح كام كرتا رہا_
آہستہ آہستہ كچھ رقم جمع كر كے اس نے لكڑى كاٹنے كے لئے ايك كلہاڑى اور سامان اٹھانے كے لئے ايك جانور خريد ليا اس كاكام دن بدن بہتر ہوتا چلا گيا يہاں تك كہ اپنے مال كے ايك حصّہ سے غريبوں اور سكينوں كى مدد كرنے لگا وہ لذّت اور خوشى جو اسے اپنى كوشش اور
241
كام كرنے سے حاصل ہوئي تھى دوسروں سے اس كا تذكرہ كرتا اور انہيں بھى محنت كرنے كى طرف راغب كرتا،
ايك دن اس كى رسول (ص) خدا سے ملاقات ہوئي اسے وہ سختيوں كے دن اور پيغمبر(ص) كى وہ حوصلہ افزا گفتگو ياد آگئي كہ كس طرح خدا كے رسول(ص) نے اس كى عزت و آبرو كى حفاظت كى تھي، كہنے لگا:
يا رسول(ص) خدا ميرا كام بہت اچھا چل رہا ہے_ اور ميرے حالات زندگى بھى اچھے ہوگئے ہيں''
رسول خدا(ص) مسكراے اور فرمايا:
ميں نے نہيں كہا تھا كہ جو بے نيازى كا اظہار كرے خدا اسے محتاجى سے نجات ديتا ہے_ يہ اللہ كا وعدہ ہے اور اس كا وعدہ سچا ہوتا ہے البتہ اس كے ساتھ ا جر و ثواب اور نيك انجام بھى عطا فرماتا ہے_
آپ نے ديكھا كہ پيغمبر(ص) كى نگاہ ميں انسان كى عزّت و شرافت كى كتنى قدر و قيمت ہے اور آپ(ص) سوال كرنا كتنا ناپسند فرماتے تھے؟
كام اور كام كرنے والا اسلام كى نظر ميں ايك خاص اہميت ركھتا ہے بالخصوص وہ كام جس كے ذريعہ كوئي چيز پيدا كى جائے ان كى اتنى قدر و قيمت ہے كہ عبادت ميں بلكہ بہترين عبادات ميں شمار ہوتے ہيں_
پيغمبر (ص) اكرم نے فرمايا ہے كہ:
عبادات كے ستّر اجزاء ہيں اور ان ميں سب سے بہترين كام كرنا ہے وہ كام كہ جس سے حلال روزي
242
حاصل ہو''
امام محمد(ص) باقر عليہ السلام فرماتے ہيں كہ جو شخص كام كرے اور محنت كرے تا كہ لوگوں سے سوال نہ كرنا پڑے اور اپنے خاندان كے اخراجاتن ميں وسعت دے سكے اور اپنے ہمسايوں كى مدد كرے جب وہ آخرت ميں محشور ہوگا تو اس كا چہرہ چودہويں رات كے چاند كى طرح چمكتا ہوگا،
امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا:
جو شخص اپنے خاندان كے لئے روزى حاصل كرتا ہے وہ اس شخص كى طرح ہے جو اللہ كى راہ ميں جہاد كرتا ہے''
آيت قرآن
فاذا قضيت الصّلوة فانتشروا فى الارض وابتغوا من فضل اللہ''
جب نماز ختم ہوجائے تو زمين ميں پھيل جاؤ اور اللہ كے فضل كى تلاش كرو''
243
سوچئے اور جواب ديجئے
1)___ سوال كرنے سے كيا مراد ہے؟ ان دونوں معنى كو جو سبق ميں بيان كئے گئے ہيں تحرير كيجئے؟
2)___ علم كے بند دروازے كى چابى كيا ہے؟ وضاحت كيجئے كہ كس طرح؟
3)___ پيغمبر(ص) نے اس مرد كى درخواست كے جواب ميں كيا كہا جس نے كہا تھا كہ اسے كچھ كام سكھائيں؟
4)___ جس شخص كے پاس ايك دودن كى روزى موجود ہو اس كے باوجود لوگوں سے سوال كرتا پھرے قيامت ميں كس طرح محشور ہوگا؟
5)___ پيغمبر(ص) نے اس مرد سے كيا فرمايا جو آپ(ص) سے سوال كرنے آيا تھا؟
6)___ پيغمبر(ص) كى اميد افزا گفتگو نے كس طرح ا س مرد كو كام كرنے پر آمادہ كيا؟
7)___ رسول اكرم(ص) كام كرنے اور حلال روزى كمانے كے بارے ميں كيا قول ہے؟
8)___ امام محمد باقر (ع) كا قول محنت و كوشش كے متعلق كيا ہے؟ اس كے مفہوم كى وضاحت كيجئے؟
9)___ امام جعفر صادق (ع) نے كن افراد كو جہاد كرنے والوں ميں شمار كيا ہے؟
|
|