|
175
پيغمبر اكرم(ص) كى بيعت
حج كے ايام ميں بہترين اور مناسب موقع تھا كہ پيغمبر اسلام(ص) مشركين كے كسى دباؤ كے بغير لوگوں سے گفتگو كرسكيں اور انہيں اسلام كے بارے ميں غور و فكر كى دعوت دے سكيں اور اسلام و ايمان كے نور كو لوگوں كے دلوں ميں روشن كرسكيں_
اس مرتبہ پيغمبر اسلام (ص) خزرج قبيلہ كے چھ آدميوں سے گفتگو كر رہے تھے اپنے دل نشين اور آسمانى آہنگ ميں لوگوں كے لئے قرآن مجيد كى ان آيات كى تلاوت فرما رہے تھے جو خداپرستى كى تائيد اور شرك و بت پرستى كى نفى كے بارے ميں تھيں اور بعض آيات عقل و دل كو بيدار كرنے كے بارے ميں تھيں_
ان آيات ميں سے چند ايك بطور نمونہ يہاں تحرير كى جاتى ہيں جن
176
كا تعلق سورہ نحل سے ہے''
خدا آسمان سے بارش برساتا ہے اور مردہ كو زندہ كرنا ہے، البتہ اس ميں واضح اور روشن نشانى ہے اس گروہ كے لئے جو بات سننے كے لئے حاضر ہو تمہيں چوپايوں كى خلقت سے عبرت حاصل كرنا چاہئے_ خون اور گوبر كے درميان سے پاكيزہ اور خوش مزہ دودھ تمہيں پلاتے ہيں كھجور اور انگور كے درخت كے پھولوں كو ديكھو كہ جس سے شراب بناتے ہو اور اس سے پاك و پاكيزہ روزى حاصل كرتے ہو اس ميں عقلمندوں كے لئے واضح علامت موجود ہے تيرے خدا نے شہد كى مكّھى كو وحى كى ہے كہ وہ پہاڑوں او ردرختوں ميں گھر بنائيں اور تمام ميوے كھائيں اور تيرے اللہ كے راستے كو تواضع سے طے كريں اور ديكھو كہ ہم كس طرح شہد كى مكھى سے اس طرح كا مزيدار شربت مختلف رنگوں ميں باہر لاتے ہيں كہ جس ميں لوگوں كے لئے شفا ہے اور اس ميں سوچنے والوں كے لئے واضح نشانى موجود ہے خدا ہى ہے جس نے تمہيں خلق كيا اور وہى ہے جو تمہيں موت دے گا تم ميں سے كچھ لوگ ضعيفى اور بڑھا پے كى عمر كو پہنچ جائيں گے كہ كچھ بھى نہيں سمجھ پائيں گے البتہ خدا عليم و قدير ہے ...
پس كيوں غير خدا كى پرستش كرتے ہيں وہ چيزيں كہ
177
جن كے ہاتھ ميں زمين و آسمان كى روزى نہيں ہے، كچھ نہيں اور نہ ہى ان كے ذمہ كوئي كام ہے ...
قرآن مجيد كى آيات كے معنى اور پيغمبر(ص) كى حكيمانہ اور دل نشين اور محبت بھرى گفتگو نے ان لوگوں پر بہت اچھا اثر كيا اور انہيں اسلام كا گرويدہ بناديا اس كے علاوہ انہوں نے يہوديوں سے سن ركھا تھا كہ حضرت موسى (ع) نے اپنى آسمان كتاب ميں خبر دى ہے كہ ايك پيغمبر مكہ سے اٹھے گا جو وحدانيت او رتوحيد پرستى كى ترويج كرے گا_ غرض پيغمبر خدا(ص) كى اس تمہيدى گفتگو ان كى روح پرور باتيں سن كر اور ان كا محبت بھرا انداز ديكھ كر ان ميں ايك نئي روح پيدا ہوئي اور انہوں نے اسى مجلس ميں اسلام قبول كرليا،
جب وہ لوگ پيغمبر(ص) سے جدا ہونے لگے تو كہنے لگے كہ:
ايك طويل عرصہ سے ہمارے اور اس قبيلے كے درميان جنگ جارى ہے اميد ہے كہ خداوند عالم آپ(ص) كے مذہب اور دين كے وسيلے سے اس جنگ كا خاتمہ كردے گا اب ہم اپنے شہر يثرب كى طرف لوٹ كرجائيں گے تو آپ كے آسمانى دين اسلام كو لوگوں سے بيان كريں گے_
يثرب كے لوگوں نے تھوڑا بہت حضرت محمّد اور آپ كے دين كے متعلق ادھر ادھر سے سن ركھا تھا ليكن ان چھ افراد كى تبليغ نے اسلام كى نشر و اشاعت كے لئے ايك مناسب فضا پيدا كردى اور اسلام كے لئے حالات سازگار بنادئے اور يوں كافى تعداد ميں لوگ
178
اسلام كى طرف مائل ہوگئے اور بعضوں نے اسلام قبول بھى كرليا_
تھوڑا ہى عرصہ گزرا تھا كہ يثرب كے مشہور افراد ميں سے بارہ آدمى مكّہ آئے تا كہ اپنے اسلام كو پيغمبر(ص) كے سامنے پيش كريں اور اسلام كيلئے اپنى خدمات وقف كرديں_
ان افراد كى پيغمبر(ص) سے ملاقات اتنى آسان نہ تھى كيونكہ مكّہ كى حكنومت بت پرستوں اور طاقتوروں كے زور پر چل رہى تھى اور شہر مكّہ كے رعب و دبدہ اور ظلمت و تاريكى كا شہر تھا آخر ان لوگوں سے ملاقات كے لئے ايسى جگہ كا انتخاب كيا گيا جو شہر سے باہر، پہاڑ كے دامن ميں اور مشركوں كى نظروں سے دور تھى يہ ملاقات آدھى رات كو عقبہ نامى جگہ پر ركھى گئي_
عقبہ كا معاہدہ
آدھى رات كے وقت چاند كى معمولى روشنى ميں نہايت خفيہ طور پر سعد ابن زرہ، عبادہ ابن صامت اور دوسرے دس آدمى پہاڑ كے پيچھے پر پيچ راستے سے گزرتے ہوئے پيغمبر اسلام(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے تھوڑے سے مسلمان بھى مكّہ سے پيغمبر(ص) كے ساتھ آئے _
تمام گفتگو بہت رازدارى كے ساتھ اور خفيہ طور پر ہوئي اور سپيدى صبح سے پہلے جلسہ برخاست ہوگيا اور ان تمام كے تمام حضرات نے انتہائي احتياط كے ساتھ اپنى اپنى راہ لي_ اور خوش بختى سے مكّہ كے مشركوں ميں سے كسى كو بھى اس جلسہ كى خبر نہ ہوئي_
179
مدينہ ميں مسلمانوں نے ان بارہ افراد سے پوچھا كہ رسول خدا(ص) سے ملاقات كيسى رہي___؟ ان سے كيا كہا اور كيا معاہدہ ہوا___؟
انہوں نے جواب ميں كہا كہ:
ہم نے خدا كے رسول (ص) سے معاہدہ كيا ہے كہ خدا كا كوئي شريك قرار نہ ديں گے، چورى نہ كريں گے نہ زنا اورفحشاء كا ارتكاب كريں گے، اپنى اولاد كو قتل نہ كريں گے ايك دوسرے پر تہمت نہيں لگائيں گے نيك كاموں ميں رسول خدا(ص) كى مدد كريں گے اور آپ كى نافرمانى نہيں كريں گے''
مدينہ ميں تبليغ اسلام
ايك مدّت كے بعد انہوں نے پيغمبر اكرم(ص) كو خط لكھا كہ ايك ايسا آدمى ہمارى طرف روانہ كيجئے جو ہميں اسلام كى تعليم دے اور قرآن مجيد كے معارف سے آگاہ و آشنا كرے_
پيغمبر(ص) نے ايك جوان مصعب نامى ان كى طرف روانہ كيا مصعب قرآن مجيد كو عمدہ طريقہ سے اور خوش الحانى كے ساتھ قرات كيا كرتا تھا اور بہت عمدہ اور دل نشين گفتگو كرتا تھا دن ميں مدينہ كے ايك كنويں كے نزديك درخت كے سائے ميں كھڑا ہوجاتا اور بہت اچھى آواز كے ساتھ قرآن پڑھتا،
لوگ اس كے اردگرد حلقہ بناليتے اور وہ ٹھہرٹھہر كر قرآن
180
كى تلاوت كرتا جب كوئي دل قبول كرنے كے لئے تيار ہوجاتا تو اس سے گفتگو كرتا اور دين اسلام كى اعلى تعلميات كو اس كے لئے بيان كرتا:
جن حق پرست اور حق كو قبول كرنے والے لوگوں كے دل نرم ہوجاتے تو وہ اس كى باتوں كو توجّہ سے سنتے اور اسلام كے گرويدہ ہو كر ايمان لے آتے تھے''
اسلام كى طرف اس طرح مائل ہونے كى خبر سن كر مدينہ كے بعض قبائل كے سردار سخت ناراض ہوئے اور ان ميں سے ايك مصعب كو مدينہ سے باہر نكالنے كے لئے بڑى تيزى كے ساتھ اس كى طرف بڑھا اور اس كے نزديك پہنچ كر غصہ كے عالم ميں اپنى تلوار كو نيام سے باہر كھينچ كر چلايا كہ: اسلام كى تبليغ كرنے سے رك جا اور ہمارے شہر سے باہر چلا جا ورنہ ...؟
مصعب نے اس كے اس سخت لہجہ كے باوجود نہايت نرمى اور محبت سے كہا:
كيا ممكن ہے كہ ہم تھوڑى دير كے لئے يہيں بيٹھ جائيں اور آپس ميں گفتگو كريں؟ ميرى باتوں كو سنو اگر وہ غير معقول اور غلط نظر آئيں تو ميں ان كى تبليغ سے دستبردار ہوجاؤں گا اور اس راستے سے كہ جس سے آيا ہوں واپس چلاجاؤں گا ...''
تم سچ كہہ رہے ہو، مجھے پہلے تمہارى بات كو سننا چاہئے،تمہارى دعوت كو سننا چاہيئے اس كے بعد كوئي
181
فيصلہ كرنا چاہئے''
اس سردار نے اپنى شمشير كو نيام ميں ركھا اور مصعب كے قريب بيٹھ گيا_ مصعب نے قرآن مجيد كى چند منتخب آيا ت اس كے سامنے تلاوت كيں''
اے كاش كہ تاريخ نے ہمارے لئے ان آيات كو تحرير كيا ہوتا جو اس حساس لمحہ ميں مصعب نے تلاوت كيں_ ليكن خدا كا شكر ہے كہ قرآن ہمارے سامنے ہے ہم ان آيات كے مانند دوسرى آيات كو سمجھنے كى كوشش كريں جو تقريباً وہى معنى ركھتى ہيں جن ميں خدا نے مشركين كو خبردار كيا اور انہيں اسلام كى دعوت دى ہے''___ ديكھيں اور سوچيں''
آيا جو خلق كرنے والا ہے خلق نہ كرنے والے كے برابر ہے بس تم كيوں نہيں سوچتے؟
اگر تم اللہ كى نعمتوں كو شمار كرنا چاہا ہو تو نہ كرسگو گے البتہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے اور خدا ان چيزوں كو جنہيں تم چھپاتے ہو اور انہيں جنہيں ظاہر كرتے ہو تمام كا علم ركھتا ہے،
يہ بت كہ جنہيں خدا كے مقابل پرستش كرتے ہو اور ان سے مانگتے ہو يہ كوئي چيز بھى خلق نہيں كرسكتے بلكہ خود كسى كے بنائے ہوئے ہيں''
تمہارا خدا ايك ہے وہ لوگ جو آخرت پر ايمان نہيں لاتے ان كے دل برے اور سركش و متكبّر ہيں''
خدا اس سے جو تم چھپ كر انجام ديتے ہو آگاہ ہے اور اس سے كہ جسے علانيہ بجالاتے ہو آگاہ ہے اور خدا متكبّرين كو كبھى بھى دوست نہيں ركھتا
182
قرآن كے نورانى حقائق اور آيات كى جاذبيت و زيبائي اور مصعب كے حوصلے اور اخلاق و استقامت نے اس شخص ميں تغير اور تبديلى پيدا كردي، اس كى سوئي ہوئي روح كو بيدار كرديا اور اس كى سركش اور متكبّر عداوت سرنگوں ہوگئيں اور اسے ايسا سكون و اطمينان حاصل ہوا كہ وہ جاننے اور ماننے كے لئے آمادہ ہوگيا تب اس نے انتہائي تحمل اور بردبارى سے كچھ سوالات ادب سے كئے پھر پوچھا:
اسلام كس طرح قبول كيا جاتا ہے؟ اس دين كے قبول كرنے كے آداب و رسوم كيا ہيں؟
مصعب نے جواب ديا:
كوئي مشكل كام نہيں، صرف اللہ كى وحدانيت اور محمد(ص) كى رسالت كى گواہى دى جائے، كپڑوں اور جسم كو پانى سے دھوكر پاك كيا جائے اور خدا كے بندوں سے انس و محبت كى راہ كھول دى جائے اور نماز پڑھى جائے_
عقبہ ميں دوسرا معاہدہ
مدينہ كے لوگ دين اسلام كى حقانيت دريافت كر رہے تھے اور ايك كے بعد دوسرا امر الہى كو تسليم كر رہا تھا وہ لوگ بہت ذوق و شوق سے دين اسلام كو قبول كر رہے تھے_ انتظار كر رہے تھے كہ حج كے دن آپہنچيں اور وہ سفر كريں اور پيغمبر(ص) كے ديدار كے لئے جائيں اور اپنى مدد اور خدمت
183
كرنے كا اعلان كريں''
آخر كار پانچ سو آدميوں كا قافلہ مدينہ سے مكّہ كى طرف روانہ ہوا اس قافلہ ميں ستّر كے قريب مسلمان بھى موجود تھے_ ان سب كا پروگرام پيغمبر اكرم(ص) سے ملاقات كرنے كا بھى تھا وہ چاہتے تھے كہ اس ملاقات ميں پيغمبر(ص) سے رسمى طور سے بيعت كريں اور آپ(ص) كى مدد كا اعلان كريں''
13/ ذى الحجہ كى آدھى رات كو منى ميں ايك پہاڑى كے دامن ميں ملاقات كرنے كا وقت معين كيا گيا،
وہ وقت آپہنچا اور مسلمان چھپ چھپ كر ايك، ايك، دو، دو، كر كے اس عقبہ كى طرف چل دئے اور وہاں مشركوں كى سوئي ہوئي آنكھوں سے دور جمع ہوكر پيغمبر(ص) كے گرد حلقہ ڈال ديا،
انہوں نے پيغمبر(ص) سے خواہش كى كہ آپ(ص) كچھ خطاب فرمائيں، پيغمبر(ص) نے قرآن مجيد كى كچھ آيات كا انتخاب كر كے ان كے سامنے تلاوت كى اور اسكى تشريح بيان كى اور فرمايا، اللہ سے مدد طلب كرو اور صبر و استقامت كو اپنا شيوہ بناؤ اور يہ جان لو كہ نيك انجام متقيوں كے لئے ہوا كرتا ہے اس كے بعد پيغمبر(ص) نے اپنى خواہش كاا ظہار كيا اور فرمايا:
كيا تم پسند كرتے ہو كہ ميں مدينہ كى طرف ہجرت كروں اور تمہارے ساتھ زندگى بسر كروں؟''
سبھى نے پيغمبر(ص) كى اس خواہش پر اپنى رضامندى كا اظہار كيا اور نہايت اشتياق سے ايك بولا
خدا كى قسم ميں پورى صداقت كے ساتھ آپ(ص) سے عہد
184
كرتا ہوں كہ آپ(ص) كے دفاع ميں اپنى جان كى بازى لگادوں گا اور جو كچھ زبان سے كہہ رہا ہوں وہى ميرے دل ميں بھى ہے''
دوسرے نے كہا:
ميں آپ(ص) كى بيعت كرتا ہوں كہ جس طرح اپنے اہل و عيال اور اولاد كى حفاظت كرتا ہوں، آپ(ص) كى بھى كروں گا:
تيسرے نے كہا:
ہم جنگ اور لڑائي كے فرزند ہيں اور جنگ كے سخت ميدان كے لئے تربيت حاصل كى ہے اور جان كى حد تك پيغمبر خدا(ص) كى خدمت اور دفاع كے لئے حاضر ہيں''
يہ پورا اجتماع، شوق اور محبت سے لبريز تھا اور ان ميں سے ہر ايك نے اپنے دل كى بات كہى ليكن وہ يہ بھول چكے تھے وہ مكّہ ميں اور مشركوں كى ايك خطرناك حكومت كے درميان بيٹھے ہوئے ہيں،
پيغمبر اكرم(ص) كے چچا نے جو آپ(ص) كا ہاتھ پكڑے ہوئے تھے بہت دہيمى آواز ميں جو كہ مشكل سے سنى جا رہى تھيں كہا:
مطمئن رہو، آہستہ بولو، كہيں مشركوں نے ہمارے اوپر كوئي آدمى تعينات نہ كيا ہو ...''
اس كے بعد يہ جلسہ ختم ہوا اور لوگوں نے فرداً فرداً پيغمبر(ص) كے ہاتھ پر بيعت كي، عہد كيا اور خداحافظ كہا:
ابھى دن كى سفيدى بھى نمودار نہيں ہوئي تھى كہ تمام لوگ وہاں سے عليحدہ عليحدہ روانہ ہوگئے''
185
ليكن افسوس، دوسرے دن معلوم ہوا كر مكّہ كے مشركوں كو اس جلسے كى خبر مل چكى ہے اور اہل مدينہ كى پيغمبري(ص) سے بيعت اور بہت كى گفتگو كا كافى حد تك انہيں علم ہوچكا ہے مشركين ميں اضطراب اور خوف پھيل گيا اور انہوں نے سوچا كہ اگر محمد(ص) اور دوسرے مسلمان مكّہ سے مدينہ چلے گئے اور وہاں مضبوط مركز بناليا تو كيا ہوگا؟
لہذا وہ سب دالندوہ ميں اكٹھے ہوئے اور بہت زيادہ سختى كرنے كا فيصلہ كيا اور اسلام كى جڑيں كاٹنے اور مسلمانوں كو ختم كرنے كے لئے كسى عمدہ طريقہ كو سوچنے لگے_
آيت قرآن
'' انّ الّذين قالوا ربّنا اللہ ثمّ استقاموا فلا خوف عليہم و لا ہم يحزنون''
سورہ احقاف آيت 13/''
البتہ جن لوگوں نے اقرار كيا كہ ہمارا رب خدا ہے اور پھر اس پر محكم رہے تو نہ ان پر خوف ہوگا ورنہ ہى وہ محزون ہوں گے''
سوچئے اور جواب ديجئے
186
1)___ سورہ نحل كى جن آيات كا ترجمہ اس سبق ميں بيان ہوا ہے، ان ميں خداوند عالم نے كن چيزوں كو اپنى قدرت كي_
واضح نشانياں بتايا ہے؟ اور ان نشانيوں كے ذكر كرنے سے كيا نتيجہ اخذ كيا ہے؟ يہ نشانياں دين اسلام كے اصولوں ميں سے كس اصل كو بيان كرتى ہيں _
2)___ قبيلہ خرزج كے ان چھ آدميوں نے كہ جنہوں نے پيغمبر اسلام(ص) كے سامنے اسلام قبول كيا تھا يہوديوں سے كيا سن ركھا تھا؟ اور يہوديوں كى وہ خبر كس اصول كو بيان كرتى ہے؟
3) ___ جب يہ لوگ پيغمبر اسلام(ص) سے جدا ہو رہے تھے تو كس مسئلہ كے بارے ميں اميد كا اظہار كر رہے تھے؟
4)___ پيغمبر(ص) نے كس آدمى كو مدينہ كى طرف تبليغ كے لئے بھيجا؟ اور اس ميں كيا خصوصيات موجود تھيں؟ اس كى تبليغ كا كيا طريقہ تھا؟ اور دين اسلام كو قبول كرنے كے لئے وہ كون سى چيزيں بيان كرتا تھا؟
5)___ دوسرے معاہدہ كا وقت كيا تھا؟ اس ميں كتنے افراد نے پيغمبر(ص) كا ديدار كيا؟ اور كيا كہا اور كيا سنا ؟
|
|