آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ چہارم
  160
انسانوں كى نجات كيلئے كوشش
بعثت كے دسويں سال اقتصادى بائيكات ختم ہوگيا پيغمبر(ص) خدا اور آپ(ص) كے باوفا ساتھى تين سال تك صبر و استقامت سے صعوبتوں كو برداشت كرنے كے بعد شعب كے قيدخانہ سے آزاد ہوئے اور اپنے گھروں كى طرف گئے_ خداوند متعال نے ان سے وعدہ كيا تھا كہ اگر وہ خدا كى راہ ميں سعى و كوشش كريں اور صبر و استقامت كا مظاہر كريں تو خدا ان كى مدد كرے گا اور خدا نے اپنا كيا ہوا وعہ پورا كيا_
حضرت ابوطالب(ع) كہ جنہوں نے رسول خدا(ص) كى حفاظت كى ذمہ دارى كو قبول كيا تھا، كفار كى طاقت اور كثرت سے نہ گھبرائے اور آپ نے پورى قوت كے ساتھ رسول(ص) خدا كا دفاع كيا_
آخر كار خدا كى نصرت آپہنچى اور انہيں اس جہاد ميں كاميابى نصيب

161
ہوئي اور ان كے احترام، سماجى مرتبے اور عظمت ميں اضافہ ہوگيا بنى ہاشم اپنى اس كاميابى پر بہت خوش ہوئے اور تمام تكاليف اور سختيوں كے بعد دوبارہ اپنى زندگى كا آغاز كيا_
بت پرست اور قريش كے سردار اپنى شكست پر بہت پيچ و تاب كھارہے تھے ليكن ان حالات ميں بے بس تھے لہذا كسى مناسب موقع كا انتظار كرنے لگے ان حالات ميں پيغمبر اسلام(ص) كو تبليغ دين كا نہايت نادر موقع ہاتھ آيا وہ بہت خوش تھے كہ اس طرح اپنے چچا كے سماجى رتبہ اور حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہايت آزادى سے اپنے الہى پيام كو پہنچانے ميں كاميابى حاصل كرسكتے ہيں اس لئے آپ(ص) بہت زيادہ لگن سے تبليغ ميں مشغول ہوگئے_
آپ(ص) نے لوگوں سے كہا
اے لوگو
وہ كون ہے جو زمين و آسمان سے تمہارے لئے روزى پہنچاتا ہے؟ كون ہے جس نے تمھيں آنكھ اور كان عنايت فرمائے؟ كون ہے جس كے ارادے سے جہان خلق ہوا اور اس كا نظام چل رہا ہے؟ لوگو تمہارے اس جہان كا پيدا كرنے والا خدا ہے وہى تمہارى اور اس جہان كى پرورش كرتا ہے اور روزى ديتا ہے وہ تمہارا حقيقى پروردگار ہے پس كيوں اس كا شريك قرار ديتے ہو اور اس كے علاوہ كسى اور كي

162
اطاعت كرتے ہو؟ صرف خدا كى پرستش كرو اور صرف اسى كى اطلاعت كرو كہ يہى صحيح راستہ ہے اور حق كا ايك ہى راستہ ہے اور اس كے سوا سب گمراہى ہے_ پس جان لو كہ كسى طرف جارہے ہو؟ اے لوگو
جو لوگ نيكى اور حق كا راستہ اختيار كرتے ہيں خدا انہيں بہترين جزا عنايت فرماتا ہے اور زيادہ اور بہتر بھى ديتا ہے نيكوں كے چہرے پر كبھى ذلّت و خوارى كى گرد نہيں بيٹھتي، ايسے لوگ جتنى ہيں اور ہميشہ اس ميں رہيں گے ليكن وہ لوگ جو برائي اور گناہ كا راستہ اختيار كرتے ہيں انہيں سخت سزا دى جائے گي''
ليكن افسوس كہ يہ حالات اور آزادنہ تبليغ و گفتگو كا سلسلہ زيادہ مدت تك برقرار نہ رہ سكا_ ابھى اقتصادى بائيكاٹ كو ختم ہوئے نو ماہ بھى نہ گزرے تھے كہ حضرت محمد(ص) كے چچا حضرت ابوطالب (ع) وفات پاگئے اور يوں رسول خدا(ص) اپنے بہت بڑے مددگار، مہربان و ہمدرد اور جانثار سے محروم ہوگئے_
مشركين اس بات سے خوش ہوئے اور پھر مخالفتوں كا سلسلہ شروع كرديا ابھى زيادہ وقت نہ گزار تھا كہ حضرت محمد(ص) كى زوجہ محترمہ جناب خديجہ كہ جنہوں نے صداقت و وفادارى كے ساتھ حضرت محمد(ص) كے ساتھ

163
ايك طويل عرصہ گزارا تھا اور جو كچھ بھى ان كے پاس تھا اسے تبليغ دين اور اسلام كى مدد پر خرچ كرديا تھا وفات پاگئيں_
اس حساس موقع پر ان دو حادثات كا واقع ہونا پيغمبر خدا(ص) كے لئے انتہائي تكليف دہ اور رنج و غم كا باعث تھا آپ نے اس سال كا نام غم و اندوہ كا سال يعنى عام الحزن ركھا_
حضرت ابوطالب(ع) كى وفات كے بعد بنى ہاشم نا اتفاقى كا شكار ہوگئے، اپنے اتحاد كى طاقت كو ہاتھوں سے كھو بيٹھے اور اس كے بعد وہ پہلے كى طرح رسول خدا(ص) كى حمايت نہ كرسكے''
كفار و مشركين نے جو ايسے ہى كسى موقع كى تلاش ميں تھے رسول خدا(ص) كو تكليف اور ايذا پہنچانے كا سلسلہ پھر شروع كرديا اور آپ كے كاموں ميں مداخلت كرنے لگے_
كوچہ و بازار ميں پيغمبر اسلام(ص) كا مذاق اڑاتے اور آپ(ص) كو آزادانہ طور پر قرآن كى آيات كو لوگوں كے سامنے پڑھنے نہ ديتے اور نہ ہى لوگوں سے بات چيت كرنے ديتے اور آپ كو ڈراتے دھمكاتے_
آخر كار نوبت يہاں تك آپہنچى كہ كبھى كبھار آپ كے سر مبارك پر كوڑا كركٹ ڈال ديتے اور آپ خاك آلودہ ہوكر گھر واپس آتے آپ كى كم عمر صاحبزادى جناب فاطمہ (ص) آپ(ص) كے استقبال كے لئے آگے بڑھتيں_ آپ(ص) كو اس حال ميں ديكھ كر ان كا دل دكھتا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ كے سرمنہ كو صاف كرتيں اور بے اختيار دوپڑتيں ليكن رسول(ص) خدا فاطمہ (ع) سے نہايت شفقت كے ساتھ

164
فرماتے''
ميرى پيارى بيٹي پريشان نہ ہو، خدا كى راہ ميں ان مصائب كا برداشت كرنا بہت آسان ہے''
اس طرح جناب ابوطالب (ع) اور حضرت خديجہ كى وفات سے پيغمبر اسلام(ص) كى اندرونى اور بيرونى زندگى تہ و بالا ہوكر رہ گئي كيوں كہ آپ اپنے سب سے بڑے حامى و مددگار اور جانباز سے جو قريش كے قبيلے كا سردار تھا محروم ہوگئے اس لئے آپ كو اس معاشرے اور اجتماع ميں آزادى اور سكون حاصل نہ رہا ہر وقت آپ كى جان خطرے ميں رہتى تھى آپ كا گھر بھى ايك جان نثار و وفا شعار، دوست و مددگار اور غم گسار بيوى سے خالى ہوچكا تھا جب آپ ان مصائب اور تكاليف كو جو باہردى جاتى تھيں برداشت كرتے ہوئے گھر واپس لوٹتے تو اپنى بيوى اور ہمسر كا كشادہ اور مسكراتا چہرہ نہ ديكھ پاتے بلكہ چھوٹى سى بچّى كے روتے ہوئے چہرے پر نگاہ پڑتي، وہ آپ كے استقبال كے لئے آتى اور اپنى والدہ كے پوچھتى اور سوال كرتي''
بابا ماں كہاں ہيں؟
رسول خدا(ص) اپنى بيٹى كا چہرہ چومتے اسے پيار كرتے اور اس كے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں كے قطروں كو صاف كرتے اور فرماتے:
بيٹى رؤومت، تمہارى ماں بہشت ميں گئي ہيں اور وہاں جنّت كے پاك فرشتے ان كى مہمان نوازى كر رہے ہيں
اس قسم كے حالات ميں پيغمبر اسلام(ص) نے كس طرح اپنى رسالت كے كام كو انجام ديا؟ آيا ممكن تھا كہ حضرت ابوطالب (ع) جيسا كوئي اور شخص تلاش

165
كريں كہ جو ان كى تبليغ اور دعوت كى حمايت كرے؟
كيا اس قسم كے حامى اور مددگار كے بغير اپنى دعوت اور لوگوں كى ہدايت كا اہم فريضہ انجام دے سكتے تھے؟

طائف كا سفر
جب پيغمبر اسلام(ص) پر وہ وقت آيا كہ آپ مكہ كے لوگوں كى حمايت اور ان كے ايمان لانے سے مايوس ہوگئے تو آپ(ص) نے ارادہ كيا كہ طائف (1) كا سفر كريں اور وہاں كے لوگوں كو دين اسلام كى دعوت ديں اس اميد كے ساتھ كہ وہ اسلام كو قبول كرليں گے اور قريش كے سرداروں كے مقابلہ ميں ان كى حمايت كريں گے_
پيغمبر(ص) خدا نے اپنى بيٹى فاطمہ(ص) كو اپنے عزيزوں ميں سے ايك كے سپرد كيا اور تھوڑى سى خوراك اور پانى لے كر خفيہ طور پر مكہ سے باہر نكلے اور بندگان خدا كو ظلم و ستم، شرك و پليدى اور گناہ سے نجات دلانے اور انہيں اللہ كى اطاعت اور بندگى كى طرف دعوت دينے كى غرض سے طائف كا رخ كيا_
مكّہ اور طائف كا درميانى راستہ نہايت دشوار گزار اور كٹھن
... ... ... ... ...
1) طائف ايك ٹھنڈا شہر ہے جو مكّہ سے بارہ فرسخ كے فاصلہ پر واقع ہے اور ثقيف قبيلہ جو قريش كا سب سے بڑا قبيلہ تھا وہاں سكونت پذير رہا ہے
166
تھا آپ خستہ حال ليكن ايمان كامل اور بھر پور اميد كے ساتھ شہر ميں داخل ہوئے وہاں آپ بالكل اجنبى اور ناآشنا تھے_
اگر چہ طائف كے اكثر لوگوںنے آپ كا نام اور آپ كے دين كے متعلق تھوڑا بہت سن ركھا تھا ليكن لوگوں نے آپ كو نزديك سے نہيں ديكھا تھا اور وہ آپ كو نہيں پہچانتے تھے_
آپ شہر ميں داخل ہوئے اور گلى كو چوں كا رخ كيا كہ شايد كوئي شناسا مل جائے ليكن آپ كو كوئي شناسا نظر نہين آيا كہ جو شہر كے رؤسا اور بزرگوں كے گھروں تك رہنمائي كرے اور آپ(ص) سے آپ كى مدد كے متعلق دريافت كرے كہ آپ(ص) اس شہر ميں كيوں تشريف لائے ہيں؟
آخر كار كوئي صورت آشنا نہ پا كر رسول (ص) خدا نے خود اپنى پہچان كروائي اور اپنے سفر كے مقصد كو بيان كيا:
ميں محمد بن عبداللہ، اللہ كا رسول(ص) ہوں، ميں اللہ كى طرف سے تمہارى ہدايت و نجات كا پيغام لايا ہوں تم لوگ شرك و بت پرستى اور ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لو اور خدا كى اطاعت كرو اور تقوى اختيار كرو اور ميرى پيروى كرو تا كہ تمہيں دنيا و آخرت كى پاكيزہ زندگى اور دائمى و نيك زندگى كى طرف راہنمائي كروں ميں تمہيں قيامت كے دن حاضر ہونے سے ڈراتا ہوں اور آخرت كے عذاب سے خوف دلاتا ہوں ڈرو اس وقت سے جب كام تمام ہوجائے اور تم كافر و مشرك

167
دنيا سے چلے جاؤ كہ پھر قيامت كے دن حسرت و عذاب ميں گرفتار ہوگے ميرى دعوت كو قبول كرلو تا كہ دنيا و آخرت ميں فلاح پاؤ ميرى اور ميرى آسمانى دعوت كى حمايت كرو تا كہ ميں تمام لوگوں كو دين اسلام كى طرف بلا سكوں''
ليكن قبيلہ ثقيف كے سرداروں كے دل ظلم و ستم كى وجہ سے سخت اور تاريك ہوچكے تھے انہوں نے آپ كى آسمانى ندا كو قبول نہ كيا بلكہ آپ(ص) كے ساتھ بے جا اور ناروا سلوك كيا_ رسول (ص) خدا بہت زيادہ ملول ہونے كہ يہ لوگ كيوں اپنى گمراہى پر اصرار كر رہے ہيں؟ كيوں بتوں كى عبادت كرتے ہيں؟ كيوں ايسى چيزوں كى عبادت كرتے ہيں جو نہ سنتى ہيں اور نہ ديكھتى ہيں اور نہ ہى وہ ان كو كچھ دے سكتى ہيں؟
كيوں لوگ ميرے نور پيغمبر(ص) كى جو اللہ نے مجھے عنايت كيا ہے پيروى نہيں كرتے؟ كيوں خدا كى وحدانيت كا اقرار نہيں كرتے؟
كيوں اپنى برائيوں اور ظلم پر باقى رہنا چاہتے ہيں؟
كيوں يہ لوگ اپنے ان برے اعمال سے دنيا و آخرت كى ذلت و خوارى ميں اپنے آپ كو گرفتار كرنا چاہتے ہيں؟ ...؟
رسول (ص) خدا افسردہ اور بے قرار ہوگئے اور مجبور ہوكر ان كے گھر سے باہر نكل آئے اور دوسرے لوگوں كودعوت دينا شروع كرديں_ تقريباً ايك مہينہ تك آپ(ص) نے اس شہر ميں قيام كيا اور لوگوں سے جو كوچہ و بازار سے گزرتے تھے گفتگو اور آخرت كى دنيا____ ميں انسانى اعمال كي

168
قدر و قيمت اور زندگى كى غرض و غايت اور صحيح راہ و رسم كے بارے ميں لوگوں كو بتايا اور انہيں خداپرستى اور خدا دوستى اور اللہ كى اطاعت كى طرف دعوت دى اور آخرت كے عذاب سے ڈرايا_ ليكن آپ(ص) كے وعظ و نصيحت اور تبليغ نے ان كے تاريك دلوں پر كوئي زيادہ اثر نہ كيا گو كہ ان ميں سے بعض كے دلوں ميں كہ جو بہت زيادہ آلودہ نہيں ہوئے تھے ايك نور سا چمك اٹھا تھا اور آہستہ آہستہ تاريكى اور برائي چھٹتى چلى گئي_
ليكن مستكبرين اور سردار كہ جو اپنى قدرت اور منافع كو خطرے ميں ديكھ رہے تھے انہوں نے تدريجاً خطرے كا احساس كرليا اور بعض نادان اور كمينے انسانوں كو ابھارا كہ وہ جناب رسول(ص) خدا كى راہ ميں زحمتيں اور روكاوٹيں پيدا كريں آپ(ص) كا مذاق اڑائيں اور آپ كى گفتگو كے درميان شور و غل مچائيں اور انہيں ناسزا كہيں اور پتھر ماريں_
آخر كار ايك دن جب آپ(ص) لوگوں كے درميان تقرير فرما رہے تھے كہ اوباش قسم كے انسانوں اور دھوكہ ميں آئے ہوئے نادانوں نے كہ جنہيں مستكبرين نے بھڑكايا تھا آپ كے گرد گھيرا ڈالا اور آپ كو پتھر مارنے شروع كردئے اور كہنے لگے كہ ہمارے شہر سے نكل جاؤ_

طائف سے خروج
پيغمبر اسلام(ص) نے مجبور ہوكر شہر سے باہر كا رخ كيا_ بے وقوف اور نادان لوگ اب بھى آپ(ص) كا پيچھا كر رہے تھے اور پتھر مار رہے تھے آپ(ص)

169
كا جسم مبارك برى طرح زخمى ہوچكا تھا اور آپ(ص) كے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا آپ(ص) تھكے ماندے خون آلود جسم اور غم و اندوہ كے ساتھ طائف سے نكل گئے_
آپ(ص) ان لوگوں كى ہدايت اور نجات كے لئے تنہا اور اجنبى ہوتے ہوئے اس شہر ميں داخل ہوئے تھے جو ظلم كے اسير تھے اور اب زخمى اور خستہ بدن كے ساتھ اس شہر سے باہر جا رہے تھے بالآخر طائف كے احمق اور كمين لوگوں نے آپ(ص) پر پتھر برسانا بند كئے اور آپ(ص) كا پيچھا چھوڑ كر اپنے ظلم اور تاريكى سے مغلوب شہر كى طرف واپس لوٹ گئے_
پيغمبر(ص) جو زخموں سے چور تھے اور تھكن كى وجہ سے مزيد چلنے كى طاقت نہيں ركھتے تھے ايك ايسے درخت كے سايہ ميں بيٹھ گئے جس كى شاخيں ايك باغ كى ديوار سے باہر نكلى ہوئي تھيں اور اپنے خدا سے يوں مناجات كرنے لگے اے پروردگار ميں اپنى كمزورى و ناتوانى اورناتوان لوگوں كے ظلم و ستم كو تيرے سامنے بيان كرتا ہوں اے مہربان خدا اور اے مستصعفين كے پروردگار مجھے كس كے آسرے پر چھوڑا ہے؟ كيا مجھے بيگانوں كے لئے چھوڑديا ہے؟ تا كہ وہ اپنے سخت اور كرخت چہرے سے مجھے ديكھيں؟ كيا تجھے پسند ہے كہ دشمن مجھ پر مسلط ہوجائے؟
خدايا ميں ان تمام مصائب كو تيرے لئے اور تيرے بندوں كى خاطر برداشت كر رہا ہوں_

170
باغ كا مالك آپ(ص) كى يہ حالت دور سے ديكھ رہا تھا اس كا دل پيغمبر اسلام(ص) كى اس حالت پر دكھا انگور سے بھرى ايك ٹوكرى غلام كے حوالہ كى جس كا نام ''عداس'' تھا كہ پيغمبر اسلام(ص) كو دے آئے_
عداس نے ٹوكرى كو اٹھايا اور پيغمبر(ص) خدا كے نزديك لايا_ پيغمبر(ص) كا تھكا ہوا نورانى چہرہ، زخمى جسم، اور خون ميں آلودہ پاؤں اس كے لئے تعجب خيز تھے_ اس نے انگوروں كى ٹوكرى پيغمبر(ص) كى خدمت ميں پيش كى اور ادب سے بولا:
شوق فرمايئےان انگوروں ميں سے كھا ليجئے''
اور خود ايك طرف جاكر كھڑا ہوكيا اور حيرت سے اللہ كے پيغمبر كى جانب ديكھنے لگا_
رسول خدا(ص) نے كہ جو بھوك و پياس سے نڈھال تھے ايك خوشہ انگور كا اٹھايا اس كے صاف شفاف دانوں پر نظر ڈالنا شروع كرديا_
كتنى بر محل اور موقع كى مناسبت سے رسول خدا(ص) كى مہمانى كى گئي آپ(ص) كا خشك گلاتر ہوگيا''
عداس جو بڑى توجہ سے رسول خدا(ص) كى طرف ديكھ رہا تھا جب اس نے_ بسم اللہ الرحمن الرحيم كا كلمہ رسول (ص) خدا سے سنا تو سخت تعجب ہوا اور پوچھا:
اس كلمہ سے كيا مراد ہے؟ اس كلمہ كو آپ نے كس سے سيكھا ہے؟

171
رسول خدا(ص) نے عداس كى صورت كو محبت آميزنگاہ سے ديكھا اور پھر اس سے پوچھا:
تم كہاں كے رہنے والے ہو؟ تمہارا كيا دين ہے؟
اس نے جواب ديا_
نينوا كا رہنے والا ہوں اور مسيحى دين ركھتا ہوں''
اچھا نينوا كے ہو جو اللہ كے نيك بندے يونس (ع) كا شہر ہے_
يونس جو متى كے فرزند ہيں''
عداس كى حيرانى ميں اور اضافہ ہوا اور پوچھا كہ:
آپ(ص) يونس (ع) كو كس طرح جانتے ہيں؟ اور ان كے باپ كا نام كس طرح معلوم ہے؟ خدا(ص) كى قسم جب ميں نينوا سے باہر نكلا تو اس وقت دس لوگ بھى نہيں تھے جو جناب يونس (ع) كے باپ كو جانتے ہوں آپ(ص) ان كو كس طرح پہچانتے ہيں؟ اور كس طرح ان كے باپ كا نام جانتے ہيں؟ اس خطّے كے لوگ جاہل ہيں اور آپ(ص) نے يونس (ع) كے باپ كا نام كس سے معلوم كيا ہے_
رسول خدا(ص) نے فرمايا:
يونس ميرا بھائي اور خدا كا پيغمبر(ص) تھا اور ميں بھى خدا كا پيغمبر ہوں خدا نے مجھے حكم ديا ہے كہ اپنے تمام كاموں كا آغاز اس كے نام اور اس مقدس كلمہ ''بسم اللہ الرحمن الرحيم'' سے كروں جانتے ہو كس لئے؟
عداس كہ جس كا دل روشن اور حق كو قبول كرنے پر راغب تھا بہت خوش ہوا اور پيغمبر خدا(ص) كى دعوت اور آپ(ص) كى پيغمبرى كے

172
متعلق بہت سے سوالات كئے پيغمبر اسلام(ص) باوجود اسكے كہ بہت تھكے ہوئے تھے اس كے تمام سوالات كا بہت صبر و حوصلہ سے جواب ديتے رہے_ عداس كى گفتگو پيغمبر اسلام(ص) كے ساتھ كئي گھنٹوں تك جارى رہى اور آخر كار پيغمبر اسلام(ص) كى رسالت كى دعوت كى حقيقت اس پر واضح ہوگئي وہ آپ(ص) پر ايمان لے آيا اور مسلمان ہوگيا_
پيغمبر اسلام(ص) بھى اس كے اسلام لانے سے بہت خوش ہوئے اور اس بات پر اللہ كا شكر ادا كيا كہ اس سفر ميں ايك محروم اور ستم رسيدہ انسان كى ہدايت كى _
آپ(ص) نے عداس كو خداحافظ كہا اور مكّہ كى طرف روانہ ہوگئے اس مكّہ كى جانب كہ جسكے رہنے والے مشركين تلواريں نكالے آپ(ص) كے انتظار ميں بيٹھے ہوئے تھے راستہ بہت سخت اور دشوار تھا_ ليكن اللہ كى طرف سے ذمہ دارى اور ماموريت اور سول (ص) خدا كا ہدف زيادہ اہم تھا آپ(ص) نے چلنا شروع كيا آپ(ص) كے پاك و پاكيزہ خون كے قطرے آپ كے ايمان راسخ اور خدا كے بندوں كى ہدايت كى راہ ميں_ استقامت كو راستے كے سخت پتھروں پر نقش كى صورت ميں چھوڑ رہے تھے_

آيت قرآن
''لقد جاء كم رسول مّن انفسكم عزيز عليہ ما عنتّم حريص

173
عليكم بالمؤمنين رء وف رّحيم''
سورہ توبہ آيت 128''
تم ميں سے رسول ہدايت كے لئے آيا ہے تمہارى پريشانى اور رنج اس پر سخت ہے وہ تمہارى ہدايت كے لئے حريص و دلسوز ہے اور مومنين پر مہربان اور رحيم ہے''

سوچئے اور جواب ديجئے
1)___ پيغمبر خدا(ص) اپنى تبليغ و گفتگو ميں لوگوں كو كن اصولوں كى طرف دعوت ديتے تھے؟
2)___ حضرت ابوطالب (ع) كى وفات نے پيغمبر اسلام(ص) كى تبليغ اور دعوت پر كيا اثر ڈالا؟
3)___ پيغمبر(ص) نے طائف كا سفر كس غرض سے كيا تھا؟ كتنى مدّت طائف ميں رہے اور اس مدّت ميں آپ(ص) كى تبليغ كا كيا پروگرام تھا؟
4)___ شہر كے بزرگوں اور سرداروں نے كس طرح پيغمبر(ص) كى تبليغ كى مزاحمت كي؟ اور كيوں؟
5)___ رسول خدا(ص) نے طائف كے شہر سے نكلنے كے بعد اللہ سے كيسى مناجات كى اور خدا سے كيا كہا؟
6)___ اس حالت ميں كس نے آپ(ص) كى مہمان نوازى كي؟

174
7)___ عداس نے كس چيز كے سبب تعجب كيا؟ اور رسول (ص) سے كيا سوال كيا؟
8) كس چيز كو سن كر عداس كے تعجب ميں اضافہ ہوا؟
9)___ عداس كس طرح مسلمان ہوا پيغمبر اسلام(ص) عداس كے مسلمان ہونے سے كيوں خوش ہوئے؟