152
استقامت اور كاميابي
پيغمبر اسلام(ص) اور ان كے وفادار ساتھيوں نے شعب ابى طالب(ع) ميں تين سال بہت سختيوں اور تكليفيں اٹھائيں يہ انتہائي سخت اور صبر آزما عرصہ تھا دن كو حجاز كى گرمى او رچلچلاتى ہوئي دھوپ اور رات كو دشمن كے اچانك جملہ كا خوف بچّوں كے دلوں كو لرزاتى تھي_ پانى اور غذا كى قلت اور بھوك پياس كى تكليفيں جان ليوا تھيں، بچّے بھوك پياس كى شدّت سے تنگ آكر نالہ و فرياد كرتے اور اپنے ماں باپ سے خوراك طلب كرتے تھے_
گو ان تمام مصائب كا برداشت كرنا مشكل و دشوار تھا ليكن ان غيور اور بہادر جان نثاروں نے تمام مصائب كو برداشت كيا اور تيار نہ ہوئے كہ اپنى انسانى شرافت اور عزت سے دستبردار ہوجائيں اور رسول خدا(ص) كے دفاع سے ہاتھ اٹھائيں_ انہوں نے اتنے صبر و تحمّل كا مظاہرہ كيا كہ پيغمبر(ص)
153
كے دشمن ظلم كرتے كرتے تھك گئے بچّوں كى آہ و بكا اور ان كى فرياد و فغان نے ان ميں سے بعض كے دل پر آہستہ آہستہ اثر كرنا شروع كرديا اور وہ اس برے طرز عمل پر پشيمان ہونے لگے_
كبھى وہ ايك دوسرے سے پوچھتے كيا ہم انسان نہيں ہيں ؟ كيا ہم صلہ رحمى اور مروّت و ہمدردى كى ايك رمق بھى باقى نہيں رہي؟
ہم نے كيوں اس ظالمانہ معاہدہ پر دستخط كئے؟
ہمارے اہل و عيال تو بڑے آرام سے گھروں ميں سو رہے ہيں ليكن بنى ہاشم كے بچّے بھوك و پياس سے آہ و بكار كر رہے ہيں اور انہيں آرام و سكون سے سونا تك نصيب نہيں_
اس اقتصادى بائيكاٹ كا كيا فائدہ؟
كيا يہ اقتصادى بائيكاٹ اور دباؤ ان بہادر جانبازوں كو سر تسليم خم كرنے پر آمادہ كرسكے گا؟ ہرگز نہيں بلكہ اگر وہ تمام كے تمام بھوك كى شدت كے سبب موت كے نزديك بھى پہنچ جائيں تب بھى نہيں جھكيں گے _
مشركين كا ايك گروہ جو نادم ہوچكا تھا كسى مناسب موقع كى تلاش ميں تھا تا كہ اس ظالمانہ معاہدے كو ختم كرسكے اور حضرت محمد(ص) اور ان كے اصحاب كو اقتصادى محاصرے سے نجات دلاسكے_
ليكن قريش كے سردار اب بھى مصر تھے كہ دباؤ اور بائيكاٹ كو جارى ركھا جائے_
154
ابوطالب (ع) مشركين كے مجمع ميں
رسول اكرم (ص) نے حضرت ابوطالب(ع) سے كوئي بات كہى اور خواہش ظاہر كى كہ اس كو مشركين تك پہنچاديں_ حضرت ابوطالب(ع) اپنے چند عزيزوں كے ساتھ مسجدالحرام كى طرف روانہ ہوئے اور سيدھے مجلس قريش ميں آئے_
قريش كے سردار حضرت ابوطالب (ع) كو وہاں آتا ديكھ كر حيران ہوئے اور سوچنے لگے كہ شايد ابوطالب (ع) اقتصادى بائيكاٹ اور اس كى سختيوں سے تنگ آگئے ہيں اور اس لئے آئے ہيں كہ محمد(ص) كو ہمارے حوالے كرديں_
سب كے سب بہت خوش ہوئے اور ابوطالب(ع) كو نہايت احترام سے صدر مجلس ميں بٹھايا اور خوش آمديد كہا: اور كہنے لگے اے ابوطالب (ع) تم ہمارے قبيلے كے سردار تھے اور ہو، ہم نہيں چاہتے تھے كہ تمہارى تھوڑى سى بھى بے حرمتى ہو ليكن افسوس تمہارے بھتيجے كے رويے نے اس قسم كا ماحول پيدا كرديا_ كيا تم كو ياد ہے كہ ہم محمد(ص) كے سامنے درگزر كرنے اور صلح كرنے پر آمادہ تھے اور اس نے ہميں كيا جواب ديا تھا؟ تم سے ہم نے خواہش كى تھى كہ محمد(ص) كى حمايت سے دستبردار ہوجاؤ تا كہ ہم محمد(ص) كو قتل كرسكيں ليكن تم نے اسے قبول نہ كيا اور اپنے رشتہ داروں اور قبيلے كو اپنى مدد كيلئے بلايا اور محمد(ص) كى حفاظت او رنگرانى كرنا شروع كردي_ كيا قطع رابطہ اور
155
اقتصادى بائيكاٹ كے علاوہ ہمارے پاس اور كوئي صورت باقى رہى تھي؟ ہميں يہ علم ہے كہ يہ مدت تم پر اور تمہارے اہل و عيال پر بہت سخت گزرى اور تمہيں سخت و دشوارى كا سامنا كرنا پڑا ليكن اب ہم خوش ہيں كہ تم اب ہمارے پاس آگئے ہو اگر تم اس سے پہلے آجاتے تو تمھيں اور تمہارے اہل و عيال اور شتہ داروں كو يہ تكاليف اور مصائب نہ ديكھنے پڑتے_
جناب ابوطالب (ع) اس وقت تك خاموش تھے اور حاضرين كا گہرى نظر سے جائزہ لے رہے تھے آپ (ع) نے فرمايا:
كيا تم يہ سمجھتے ہو كہ اقتصادى بائيكاٹ كى سختى اور دباؤ سے تنگ آگيا ہوں؟ كيا تم يہ سمجھ رہے ہو كہ ميں اپنے مقصد تك پہنچنے كے راستے پر چلنے سے تھك گيا ہوں اور اب مجھے دشوارياں برداشت كرنا مشكل ہو گيا ہے؟ اطمينان ركھو كہ معاملہ ايسا نہيں ہے اور جب تك ميں زندہ ہوں محمد(ص) اور ان كى روش كى حمايت كرتا رہوں گا ان كے عظيم ہدف كے حصول كے لئے سعى و كوشش سے كبھى نہ تھكوں گا ميں اور ميرے جوان ايك مضبوط پہاڑ كى مانند ان تمام مشكلات كے سامنے ڈٹے رہيں گے اور جان لو كہ ہم يقينا كامياب ہوں گے كيونكہ صبر و استقامت كا نتيجہ كاميابى ہوا كرتا ہے
156
ميں نے محمد(ص) كى حمايت سے ہاتھ نہيں كھينچا اور نہ اس اور نہ اس لئے تمہارے پاس آيا ہوں كہ محمد(ص) كو تمہارے سپرد كردوں بلكہ ميں محمد(ص) كا ايك پيغام تمہارے لئے لے كر آيا ہوں''
پيغمبر خدا(ص) كا پيغام
يہ پيغام تمہارے عہدنامہ سے متعلق ہے تم پہلے عہدنامہ والے صندوق كو لاؤ اور اس مجمع كے سامنے ركھو تا كہ ميں محمد(ص) كا پيغام تم تك پہنچاؤں''
وہ صندوق لے آئے_
جناب ابوطالب (ع) نے گفتگو كو جارى ركھا اور فرمايا كہ: جو فرشتہ اللہ تعالى كا پيغام محمد(ص) كے پاس لے كر آيا كرتا ہے اب اس نے يہ پيغام ديا ہے كہ تمہارے عہد نامہ كى تحرير كو ديمك چاٹ گئي ہے اب صرف اس كا تھوڑا حصّہ باقى رہ گيا ہے صندوق كھولو اور عہدنامہ كو ديكھو اگر ان كا پيغام صحيح ہوگا تو ثابت ہوجائے گا كہ وہ اللہ تعالى كى طرف سے پيغمبر(ص) بنا كر بھيجے گئے ہيں اور محمد(ص) خدا كى طرف (جو تمام چيزوں كا علم ركھتا ہے) پيغام حاصل كرتے ہيں اور واقعاً وحى كا فرشتہ ان كے لئے خبر لاتا ہے صندوق كھولو، اور محمد(ص) كى بات كى صداقت كو ديكھو اگر محمد(ص) كى بات
157
صحيح ہوئي تو تم پانى سركشى اور ظلم و ستم سے باز آجاؤ اور ان كى نبوت و خدا كى وحدانيت پر ايمان لے آؤ تا كہ دنيا و آخرت ميں فلاح پاؤ اور اگر ان كى بات صحيح نہ ہوئي تو ميں بغير كسى قيد و شرط كے محمد(ص) كو تمہارے سپرد كردوں گا، تا كہ جس طرح چاہو ان سے سلوك كرو''
بعض افراد نے كہا: يہ كيسے ممكن ہے كہ محمد(ص) نے صندوق كے اندر ديكھ ليا ہو، يقينا يہ بات غلط ہے_ جلدى سے مہر توڑو اور اسے كھولو تا كہ ان كے دعوے كا غلط ہونا سب پر ظاہر ہوجائے انہوں نے صندوق كھولا او رعہد نامہ كو باہر نكالا بڑے تعجب سے ديكھا كہ عہد نامہ كى تحرير كو ديمك چاٹ چكى ہے اور صرف تھوڑا سا حصّہ باقى رہ گيا ہے_
جناب ابوطالب (ع) بہت خوش نظر آرہے تھے آپ نے ان لوگوں سے كہا:
اب جبكہ تم نے محمد(ص) كى صداقت كو جان ليا تو ان كى دشمنى اور سركشى سے باز آجاؤ اور اللہ كى وحدانيت رسول (ص) كى پيغمبرى اور روز جزا كى حقانيت پر ايمان لے آؤ تا كہ دنيا و آخرت كى فلاح پاؤ''
بعض افراد بہت غصّے ميں آگئے اور ايك گروہ سوچ و بچار ميں غرق ہوگيا اسى وقت كچھ لوگ اٹھے اور كہا:
تم پہلے دن سے ہى اس عہد نامہ كے مخالف تھے
انہوں نے عہدنامہ كا باقى حصہ جو ديمك كے كھانے سے بچ گيا تھا
158
قريش كے ہاتھ سے لے ليا اور وہيں پھاڑ ديا اور فوراً جناب ابوطالب (ع) كے ساتھ شعب كى طرف روانہ ہوگئے_
اور يوں رسول خدا(ص) كى زندگى ميں دعوت اسلام كے لئے ايك نئے دور كا آغاز ہوا_
آيت قرآن
'' انّہ من يّتّق و يصبر فانّ اللہ لا يضيع اجر المحسنين''
جو شخص تقوى اختيار كرے اور صبر كرے تو اللہ تعالى نيكيوں كے اجر كو ہرگز ضائع نہيں كرتا''
سورہ يوسف آيت 90''
سوچئے اور جواب ديجئے
1)___ پيغمبر اسلام(ص) اور آپ كے اعزاء و اقارب كتنى مدت شعب ميں محصور رہے؟ يہ مدّت ان پر كسى گزرى ان تمام سختيوں كو وہ كس مقصد اور غرض كے لئے برداشت كرتے رہے؟
2)___ قريش كے سرداروں نے جناب ابوطالب (ع) كو ديكھ
159
كركيا سوچا؟ انہوں نے كس لئے صدر مجلس ميں جگہ دي___؟
3)___ جناب ابوطالب (ع) نے جوانوں كے صبر و استقامت كى كس طرح تعريف كي؟
4)___ مشركين نے پيغام كے سننے اور صندوق كے كھولنے سے پہلے كيا سوچا تھا؟
5)___ ابوطالب (ع) كى ملاقات اور پيغام كا كيا نتيجہ نكلا___؟
|