آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ چہارم
  120
پيغمبروں كى خصوصيات
خدا كے پيغمبر لائق اور شائستہ انسان تھے كہ جنہيں اس نے انسانوں ميں منتخب كيا يہ صاحب لياقت اور صالح افراد بہت سى خصوصيات كے حامل تھے ان ميں سے بعض كو يہاں بيان كيا جاتا ہے_

خدا سے وحى كے ذريعہ ارتباط
پيغمبر(ص) خدا كے كلام اور پيغام كو سنتے تھے اور انہيں اچھى طرح سمجھتے تھے دين كے معارف اور حقائق، ہدايات اور اللہ كى گفتگ ان كے پاك دلوں پر وحى كى صورت ميں نازل ہوتى تھي_
وہ خدا كى وحى كو اچھى طرح سمجھتے تھے اور اسے اپنے پاس محفوظ

121
ركھتے تھے پھر بغير كمى و زيادتى كے لوگوں كيلئے بيان كرتے تھے بعض پيغمبر اس فرشتہ الہى كا مشاہدہ بھى كرتے تھے جو اللہ كا پيغام پہنچانے كے لئے مامور تھے جبكہ بعض صرف اس كى آواز سنتے تھے_
يہ بات تو آپ كو معلوم ہے كہ پيغمبر جسم و جان كے لحاظ سے دوسرے انسانوں كى طرح تھے غذا كھاتے تھے، باتيں كرتے تھے، لوگوں كے درميان آمد و رفت ركھتے تھے، عام انسانوں كى مانند حواس كى مدد سے چيزوں كو ديكھتے تھے، آوازوں كو سنتے تھے_
ليكن روحانى اور معنوى طور سے حقائق كو سمجھنے اور معارف دين كے سلسلہ ميں عالم انسانوں سے كہيں زيادہ بلند درجے پر ہوتے تھے _
ان كا باطن اتنا پاكيزہ ہوتا تھا كہ وہ اپنے خدا سے رابطہ پيدا كرسكتے تھے اور عالم غيب كے حقائق اور معارف كو دريافت كرسكتے تھے اور اپنى چشم بصيرت سے جہان كى حقيقت اور باطن كا مشاہدہ كرتے تھے_ اللہ تعالى كے فرشتہ كو ديكھتے تھے اس كى آواز كو دل و جان سے سنتے تھے ليكن دوسرے انسان اس قسم كى طاقت اور استعداد نہيں ركھتے_
پيغمبر اس قسم كى لياقت و قدرت ركھتے تھے كہ دين كے معارف اور حقائق كو جو اللہ تعالى كى جانب سے ان كے پاك و نورانى قلب پر نازل ہوتے ہيں سمجھ سكيں ان كى حفاظت و نگرانى كرتے ہوئے بغير كسى كمى و زيادتى كے لوگوں تك پہنچا سكيں_
اس قسم كے ربط كو دين كى لغت اور اصطلاح ميں ''وحي'' كہاجاتا ہے بہتر ہے كہ اس بات كو بھى جان ليں كہ وحى كا عمل تين طرح سے انجام

122
پاتاہے_
پہلا يہ كہ فرشتہ الہى خدا كے پيغام كو لے كر قلب پيغمبر پر نازل ہو اور صرف اس كى آواز سن سكيں_
دوسرا يہ كہ پيغمبر، فرشتے كى آواز سننے كے ساتھ ساتھ اس كا مشاہدہ بھى كرتے ہيں_
تيسرا يہ كہ پيغمبر بغير كسى واسطے كے حقائق دين كو خداوند عالم سے حاصل كرتے ہيں_

2) گناہ اور غلطيوں سے پاك كرنا
پيغمبر ہر قسم كے گناہ اور برائيوں سے پاك ہوتے ہيں اور يہ عصمت و پاكيزگى ان كے اس علم و معرفت كے سبب ہوتى ہے كہ جو خداوند عالم نے انہيں عطا كيا ہے_
چونكہ پيغمبر برائيوں اور پليدگى كو واضح طور پر سمجھتے تھے اس لئے كبھى بھى اپنے آپ كو گناہ اور معصيت سے آلودہ نہيں كرتے تھے_
پيغمبر اپنى گفتار ميں سچے اور كردار و عمل ميں كامل انسان تھے_
وحى كو سمجھنے اور بيان كرنے ميں بھى خطاؤں سے پاك تھے يعنى اللہ كے پيغام كو صحيح ___ اور مكمل طور پر سمجھتے اور پھر اسے اسى صحيح اور مكمل صورت ميں لوگوں تك پہنچاتے تھے_
لوگوں كى ہدايت و رہبرى ميں كسى قسم كى كوئي خطا غلطى اور انحراف

123
نہيں كرتے تھے___ اور خداوند عالم كى ذات ان تمام مراحل اور حالات ميں ان كى محافظ اور مددگار ہوتى تھي_

3) خدا كى راہ ميں پائيدارى اور استقامت
پيغمبر ايمان اور يقين سے سرشار ہوتے تھے اور ان كى ذمہ ارياں اور مقصد اتنا واضح ہوتا تھا كہ جس ميں وہ معمولى شك اور تردد كا بھى شكار نہ ہوتے تھے خدا اور جہان آخرت پر انہيں دل كى گہرائيوں سے يقين تھا_
وہ اپنى ذمہ داريوں سے مكمل طور پر آگاہ تھے اور اللہ تعالى كى رسالت اور اپنے فرائض كى انجام ہى ميں ثابت قدم تھے حق كو پہچان چكے تھے اور اس ميں انہيں كوئي شك و شبہ نہ تھا_
خدا كى بے پاياں قدرت پر تكيہ كرتے تھے اور دوسرى كسى طاقت سے خوفزدہ نہيں ہوتے تھے اپنے فرائض و ذمہ داريوں كو مكمل طور پر كما حقہ انجام ديتے تھے اور اپنے حاميوں اور دوستوں كى كمى سے خوفزدہ نہيں ہوتے تھے_
دشمنو كى طرف سے پيدا كى جانے والى شديد مشكلات ان كے مصمم ارادے اور فولادى عزم ميں معمولى سا بھى خلل پيدا نہيں كرپاتى تھيں اور آپ حضرات مشكلات دور كرنے ميں پائيدارى اور استقامت سے كوشش كرتے تھے_
ذيل ميں ہم بعض پيغمبروں كى سعى و كوشش كے كچھ نمونوں كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

124
حضرت ابراہيم (ع) كى استقامت
اس عظيم پيغمبر نے تن تنہا بت پرستى اور شرك كا مقابلہ كيا اپنے دور كے ظالم ترين اور طاقتور انسان نمرود كے سامنے ڈٹ گئے اس كى عظيم طاقت سے نہ ڈرے اور پورى قوت سے اس سے كہا _
خدا كى قسم تمہارے بتوں كو توڑ پھڑ ڈالوں گا''
اور پھر تن تنہا بتوں كے توڑنے كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے چھوٹے اور بڑے بت كدے كے بتوں كو توڑ كر زمين پر ڈھير كرديا_
جب نمرود كے دربار ميں آپ كو جلائے جانے كا حكم ملا تو ذرا سى بھى كمزورى اور پشيمانى كا اظہار نہ كيا اور اپنے صحيح عقيدے كے دفاع ميں مستحكم اور ثابت قدم رہے_
يہاں تك كہ اس لمحہ بھى كہ جب آپ كو آگ ميں ڈالا جارہا تھا معمولى كمزورى اور ناتوانى كا اظہار نہ كيا اور سوائے خدا كے كسى سے مدد طلب نہ كى آپ(ع) اس وقت بھى صرف اللہ كے لطف و كرم پر ايمان ركھے ہوئے تھے_
اپنے مقصد كى تكميل كے لئے اپنے گھر بار كو چھوڑ ديا اور دوسرى سر زمين كى طرف ہجرت كى اپنى بيوى اور بچے كو خشك و بے آب وادى ميں تنہا چھوڑ گئے حضرت ابراہيم (ع) كى استقامت اس حد تك تھى كہ ...
قرآن انہيں ايك امت بتا رہا ہے اور ان كى اس طرح عمدہ تعريف كرتا ہے كہ:
حضرت ابراہيم (ع) تنہا ايك امت تھے اور مكمل طور پر خدا كے فرمانبردار تھے

125
حضرت موسى (ع) و حضرت عيسى (ع) كى استقامت
حضرت موسى (ع) اپنے بھائي ہارون كے ساتھ اونى لباس پہنے اور ہاتھ ميں عصا لئے فرعون كے محل ميں داخل ہوئے اور بغير كسى وحشت و اضطراب كے اس ظالم طاقتور سے فرمايا_
ميں اللہ تعالى كى طرف سے رسول ہوں اور بجز حق اور كچھ نہيں بولتا_ اللہ تعالى كى طرف سے واضح اور روشن دلائل اور گوہياں لايا ہوں بنى اسرائيل كو ميرے ساتھ روانہ كردے_
سورہ اعراف آيت 104، 105
حضرت موسى (ع) بنى اسرائيل كو فرعون كے چنگل سے نجات دلانے كے لئے اس سے بر سر پيكار ہوگئے اور پورى استقامت سے ظالم فرعون كا خاتمہ كيا اور اس كے ظالم مددگاروں كو بھى ہلاك كرديا_
حضرت موسى (ع) نے ان مشكلات اور دشواريوں كے وقت جبكہ كسى طرف سے كوئي معمولى سى بھى اميد نظر نہيں آرہى تھى اور پھر فرعون پورى قساوت سے بنى اسرائيل كا قتل عام كر رہا تھآ اور ان كى عورتوں كو لونڈى بنارہا تھا اپنے ماننے والوں سے يوں فرمايا_
اللہ تعالى سے مدد طلب كرو، صابر و محكم و مضبوط بنو اور جان لو كہ زمين اللہ كى ہے جسے چاہے اسے دے گا اور جان لو كہ پرہيزگاروں كى كاميابى يقينى ہے_
''سورہ اعراف 7_ آيت128''

126
حضرت موسى (ع) كى قوم كا گويا صبر و حوصلہ ختم ہوچكا تھا آپ سے انہوں نے كہا: اے موسى (ع) تمہارے پيغمبرى كے لئے مبعوث ہونے اور رسالت كے لئے چنے جانے سے پہلے بھى ہم فرعون كے ظلم و ستم كے سبب اذيتيں اٹھا رہے تھے وہى مصائب اب بھى ہم پر باقى ہيں_
حضرت موسى (ع) خدا كى فتح و نصرت پر اعتماد و ايمان ركھتے ہوئے فرماتے تھے_
خداوند عالم جلدى ہى تمہارے دشمنوں كو ہلاك كردے گا اور تمہيں ان كا جانشين قرار دے گا تا كہ تمہارے كردار و عمل كا جائزہ لے سكے''
سورہ اعراف7، آيت 129
حضرت عيسى (ع) بھى اپنے دشمنوں كے ساتھ مقابلہ پر اتر آئے اور ايك شہر سے دوسرے شہر اور ايك مقام سے دوسرے مقام پر ہجرت كرتے رہے جہاں بھى گئے لوگوں كو خداوند عالم كا پيغام سنايا اور لوگوں كو ظالم و جابر حكمران كے سامنے جھكنے سے روكا يہاں تك كہ آپ كے وجود كو دشمن برداشت نہ كرسكے اور آپ كے قتل كے لئے پھانسى كا پھندا بنايا گيا ليكن آپ كو پا نہ سكے تا كہ قتل كريں_ خداوند عالم نے انہيں آسمان پر اپنے خاص بندوں كا مقام عنايت كيا ہے_

حضرت محمد مصطفى (ع) كى استقامت
حضرت محمد مصطفى (ع) نے بھى يكہ و تنہا شرك و بت پرستى سے مقابلہ كيا

127
اور پختہ و محكم ارادے سے آخرى وقت تك كوشش كرتے رہے اور لاتعداد مشكلات اور دشواريوں كے باوجود پائيدارى اور استقامت كا مظاہرہ كرتے رہے اور معمولى سى كمزورى اور تردد كا بھى اظہار نہ كيا_
اپنى كھلى دعوت كے پہلے مرحلے ميں اپنے رشتہ داروں سے فرمايا ميں االلہ كا پيغمبر ہوں اور اللہ تعالى كى طرف سے مامور ہوں كہ تمہيں گمراہى اور ضلالت سے نجات دلاؤں اور دنيا و آخرت كى خوش بختى اور سعادت تك پہنچاؤں جو شخص بھى مرى مدد كا اعلان كرے گا اور اس عظيم كام ميں ميرى نصرت كرے گا وہى ميرا وزير اور وصى ہوگا_
جيسا كہ آپ كو علم ہے كہ آپ(ع) نے اس بات كو تين مرتبہ دہرايا اور كسى نے سوائے على ابن ابى طالب (ع) كے اس دعوت اور پكار كو قبول نہ كيا پيغمبر اسلام(ص) نے پورے يقين كے ساتھ حضرت على (ع) كو اپنا وزير اور وصى چن ليا_
ايك دن حضرت ابوطالب (ع) نے پيغمبر (ص) سے كہا كہ:
قريش كے سردار ميرے پاس آئے تھے اور كہہ رہے تھے كہ تيرا بھتيجا محمد(ص) ہمارے بتوں كى توہين كرتا ہے اور ہميں اور ہمارے باپ دادا كو جو بت پرست تھے گمراہ كہتا ہے اب ہم ان باتوں كو برداشت نہيں كرسكتے انہوں نے مجھ سے خواہش كى ہے كہ تم كو سمجھاؤں تا كہ اس كے بعد تم بتوں اور بت پرستوں پر تنقيد نہ كرو''
حضرت رسول خدا(ص) اپنے مقصد پر كامل ايمان ركھتے تھے اور اپني

128
الہى ذمہ داريوں كى ادائيگى كے لئے ثابت قدم تھے لہذا اپنے چچا سے فرمايا:
چچا جان: ميں اس راہ سے ہرگز نہ ہٹوں گا اور لوگوں كو خداپرستى اور توحيد كى دعوت دينا نہيں چھوڑوں گا ميں اپنى رسالت كے پيغام كو پہنچانے ميں كوتاہى نہيں كرسكتا ميں اپنى كاميابى تك اس كام كو انجام ديتا رہوں گا_
ايك دفعہ اور قريش كے سردار، جناب ابوطالب كے پاس آئے اور كہا:
اے ابوطالب(ع) تم ہمارے قبيلہ كے بزرگ ہو تمہارا احترام ہمارے اوپر لازم ہے ليكن تمہارے بھتيجے نے ہمارى زندگى اجيرن كردى ہے_ اگر اسے اس كام كے بجالانے پر فقر و محتاجى نے مجبور كيا ہے اور وہ مال و دولت چاہتا ہے تو ہم حاضر ہيں كہ بہت زيادہ مال اس كے حوالہ كريں اور اگر اسے جاہ و جلال اور مقام كى تمنّا ہے تو ہم حاضر ہيں كہ اسے اپنا سردار اور حاكم تسليم كرليں_
مختصراً يہ كہ ہم حاضر ہيں جو بھى وہ چاہتا ہے اسے ديں تا كہ وہ ان باتوں سے دستبردار ہوجائے_
جناب ابوطالب (ع) نے حضرت رسول خدا(ص) سے جو اس موقع پر موجود تھے كہا كہ اے بھتيجے تم نے سن ليا كہ يہ كيا كہہ رہے ہيں؟
پيغمبر(ص) نے فرمايا:
چچا جان خدا كى قسم اگر يہ ميرے دائيں ہاتھ پر سورج

129
اور بائيں ہاتھ پر چاند ركھ ديں تب بھى ميں ہرگز اپنى دعوت سے دستبردار نہيں ہوں گا_
چچا جان ميں ان سے صرف ايك چيز كى خواہش كرتا ہوں كہ يہ لوگ '' لا الہ الّا اللہ'' كہيں اور نجات پاجائيں_
پيغمبر اسلام(ص) اپنى دعوت كے تمام مراحل ميں ان تمام مشكلات اور دشمنوں كى يلغا اور سختيوں كے مقابلے ميں عزم و استقلال كے ساتھ ڈٹے رہے_ آپ نے اپنے كردار و عمل سے تمام مسلمانوں اور خداپرستوں كو صبر و استقامت كا درس ديا_

آيت قرآن
'' قل انّما انا بشر مثلكم يوحى اليّ انّما الہكم الہ واحد فمن كان يرجوا لقاء ربّہ فليعمل عملا صالحا وّ لا يشرك بعبادہ ربّہ احدا''
''سورہ كہف آيت آخر''
كہدو كہ ميں تمہارى طرح كا بشر ہوں مجھ پر وحى ہوتى ہے تمہارا خدا ايك ہے جو شخص بھى اپنے پروردگار كے ديدار كا اميدوار ہوا سے چاہيئے كہ وہ عمل صالح انجاك دے اور كسى كو بھى پروردگار كى عبادت ميں شريك قرار نہ دے _

130
سوچئے اور جواب ديجئے
1)___ وحى كسے كہتے ہيں؟
2)___ كيا پيغمبر جسم و روح كے لحاظ سے دوسرے انسانوں كى طرح تھے؟
3)___ پيغمبر وحى كے حاصل كرنے اور پہنچانے ميں معصوم تھے اس جملہ كا مطلب بتايئے
4)___ اس درس ميں پيغمبروں كى جو خصوصيات بيان كى گئي ہيں انہيں بيان كيجئے؟
5)___ پيغمبروں كا اپنے ہدف پر ايمان و استقامت كا كوئي نمونہ بيان كريں؟
6)___ حضرت موسى (ع) كے زمانہ ميں طاغوت ( ظالم حكمران) كون تھا حضرت موسى (ع) كيسے اس كے ساتھ اس كے محل ميں داخل ہوئے_
7)___ حضرت موسى (ع) نے اپنے جاننے والوں كو خدا پر اعتماد اور صبر و استقامت كے بارے ميں كيا فرمايا ؟
8)___ پيغمبر اسلام (ص) نے كفار كو جو آپ كو صلح كى دعوت ديتے تھے كيا جواب ديا؟