آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ چہارم
  108
پيغمبروں كا الہى تصور كائنات
دنيا كے متعلق ان كا نظريہ كيا ہے__؟
انسان كس طرح كا موجود ہے__؟
ان سوالوں كے جواب ميں دو نظريے واضح طور پر دكھائي ديتے ہيں_ ايك خدائي اور الہى نظريہ اور دوسرا مادى اور دہرى نظريہ_ پہلے كو الہى تصور كائنات دوسرے كو مادى تصوّر كائنات كے نام سے تعبير كيا جاتا ہے_

مادى تصوّر كائنات
اس نظريہ كے مطابق كائنات ايك مستقبل وجود ہے_ ايسا موجود

109
ہے جس كے وجود ميں آنے ميں شعور و ارادہ كارفرما نہيں_
اس نظريہ كے مطابق جہان ايسا مجموعہ ہے كہ جو كوئي خاص مقصد يا ہدف نہيں ركھتا يہ جہان عناصر مادى سے تشكيل ہوا ہے كہ جن كى كوئي غرض و ہدف نہيں_ كائنات كے تمام كے تمام اجزاء و عناصر بے ہدف اور بے فائدہ ہيں_ كائنات كے اس عظيم مجموعہ كا ايك حصہ انسان ہے جو ايك بے مقصد موجود ہے جو نابودى كى طرف جارہا ہے_ اس كے كام بے مقصد ہيں اور اس كى انتہا نااميدي، ياس و حسرت ، تاريكى اور نيستى و عدم ہے_
انسام كے لئے كوئي پناہ گاہ اور كوئي اس كا ملجا و ملولى نہيں وہ ايك بے انتہا تاريك وحشت ناك اور بے اميد دنيا ميں زندگى گذار رہا ہے_
مادّى تصوّر كائنات كے مطابق انسان كى زندگى بے قيمت اور بے معنى ہے كوئي ايسى ذا نہيں جس كے سامنے انسان جوابدہ ہو_ كوئي ايسا عالم اور برتر وجود نہيں جو انسان كے اچھے برے سلوك و عمل كو سمجھتا اور جانتا ہوتا كہ اسے سزا يا جزاء دے سكے_ انسان كے اعمال كى قدر و قيمت اور انسان كے اچھے اور برے كردار كا كوئي معيار موجود نہيں ہے_

الہى تصوّر كائنات
اس نظريے كے مطابق كائنات ايك مستقبل وجود نہيں ركھتى بلكہ اسے ايك مخلوق او ركسى سے وابستہ جانا جاتا ہے_
اس نظريہ كے مطابق كائنات ايك ايسى مخلوق ہے كہ جسے بہت

110
گہرے حساب_ خاص نظم و ضبط اور خاص ہم آہنگى كے ساتھ كسى خاص_ مقصد اور ہدف كے لئے خلق كيا گيا ہے_
يہ كائنات ايك قدرت مند خالق كى قدرت كے باعث قائم ہے اور اس كا ارادہ اور اس كا علم اور قدرت ہميشہ اس كائنات كے مددگار محافظ اور نگہبان ہيں_
اسى الہى نظريے كے مطابق اس كائنات كى كوئي بھى چيز بے فائدہ اور بے غرض و مقصد نہيں ہے_ اس كائنات كے موجودات ميں انسان ايك خاص فضيلت و اہميت ركھتا ہے_ اس كا ہدف سب سے بالا ہے جس كى طرف وہ تمام عمر بڑھتا رہتا ہے_
انسان كا انجام نا اميدى و ياس نہيں ہے_ بلكہ اميد شوق اور موجود رہنا ہے انسان ايسا وجود ہے جسے فنا نہيں، بلكہ وہ اس فانى اور راہ گزر جہان سے ايك دوسرے جہان كى طرف سفر كر جائے گا جو باقى اور ہميشہ رہنے والا ہے_
اس الہى نظريے كے مطابق انسان اپنے پروردگار مطلق اور اپنے خالق رحمن و رحيم كے سامنے جوابدہ ہے_ انسان اپنے خدا كے سامنے مكمل جوابدہى كا ذمہ دار ہے كيونكہ خداوند عالم نے اسے خلق فرمايا اور اسے اختيار عنايت فرمايا ہے اور اسے مكلف اور ذمہ دار بنايا ہے_
الہى نظريے كے مطابق انسان كا ايك خالق ہے جو خبير و بصير ہے اور اس كے اعمال كا حاضر و ناظر ہے_ جو اچھے برے كا تعين كرتا ہے اور صالح افراد كو جزا اور برے اور شرير كو سزا ديتا ہے_

111
پيغمبروں كا الہى تصوّر كائنات
پيغمبروں كا نظريہ كائنات و انسان كے بارے ميں وہى ہے جو خدا كا نظريہ ہے_

كائنات كے بارے ميں
تمام پيغمبر اس كائنات كو اس كى تمام موجودات كو محتاج اور مربوط جانتے ہيں_ ان تمام موجودات كو خداوند عالم كى عظمت كى نشانياں اور علامتيں شمار كرتے ہيں_ تمام پيغمبر اور ان كے پيروكار اس بات پر يقين ركھتے ہيں كہ خدائے رحمن و رحيم اس كائنا كا خالق ہے اور تما خوبياں اسى كى طرف سے ہيں_ كائنات كو چلانا اور باقى ركھنا اس كے ہاتھ ميں ہے_ كائنات لغو اور بيكار كھيل نہيں كہ جو كسى خاص ہدف اور غرض كے لئے پيدا نہ كى گئي ہو_

انسان اور سعادت انسان كے بارے ميں
تمام پيغمبر انسان كے بارے ہيں ايك خاص فكر و نظر ركھتے ہيں، اسے ايك ايسا محترم، بلند و بالا اور ممتاز موجود جانتے ہيں كہ جو دو پہلو ركھتا ہے_ اس كا جسم خاك سے بنايا گيا ہے اور روح و جان اللہ تعالى كے خاص حكم اور عالم ربوبيت سے خلق كى گئي ہے_ اسى وجہ سے يہ ايك برتر اور ہميشہ

112
رہنے والا موجود ہے كہ جو اللہ تعالى كى امانت قبول كرنے والا اور اس كى جانب سے مكلّف اور اس كے سامنے جوابدہ ہوتا ہے_
اس نظريہ كے مطابق انسان كى سعادت واقعى اور ارتقا اللہ كى معرفت اور اس كے ارادے كى معرفت اور اس كے ارادے كے تحت چلنا اور اس كى رضا كے مطابق عمل كرنے ميں ہے_ كيونكہ تمام قدرت اور خوبى اسى ذات كى جانب سے ہے_ اسى كى طرف توجہ كرنا انسان كى تمام خوبيوں اور كمالات انسانى كى طرف متوجہ رہنا ہے_
تمام پيغمبروں كى پہلى دعوت اللہ تعالى كى عبادت، اس كى وحدانيت كا اقرار اور اس سے ہر قسم كے شرك كى نفى كرنا تھي_ اللہ كے پيغمبر، انسان كى شرافت و اہميت كى بنياد خدا كى عبادت اور اس كى وحدانيت كے اقرار كو قرار ديتے ہيں اور تمام بدبختيوں كى جڑ، خدا كو بھولنے اور اس كى ياد سے روگرانى كو قرار ديتے ہيں_ غير خدا سے لگاؤ كو تمام تباہيوں، برائيوں اور بدبختيوں كى جڑ اور بنياد شمار كرتے ہيں_

انسان كے مستقبل (معاد) كے بارے ميں
پيغمبروں كى نگاہ ميں انسان كا مستقبل ايك كامل، روشن اور اميدبخش و خوبصورت مستقبل ہے_ پيغمبروں كا يہ عقيدہ ہے كہ صالح اور مومن انسان كا مستقبل درخشاں اور روشن ہے_ وہ اس كائنات سے ايك دوسرے وسيع اور برتر جہان كى طرف جائے گا اور وہاں اپنے تمام اعمال كا نتيجہ ديكھے گا_

113
تمام پيغمبر انسان، كائنات اور سعادت انسان اور اس كے مستقبل كے لئے ايك واضح اور برحق نظريہ ركھتے تھے اور خود بھى اس بلند و برحق نظريہ پر كامل ايمان ركھتے تھے_

پيغمبروں كى دعوت كى بنياد
پيغمبروں كى دعوت كى اساس و بنياد اسى مخصوص تصوّر كائنات پر مبنى تھي_ وہ خود بھى اپنے دين و شريعت كو اسى اساس پر استوار كرتے تھے_
حضرت نوح كى اپنى قوم سے پہلى گفتگو يہ تھى كہ ...
خدا كے سوا كسى كى پرستش نہ كرنا كہ مجھے ايك پر درد عذاب كے دن كا تم پر خوف ہے''
جناب ہود(ع) كا اپنى قوم سے پہلا كلام يہ تھا ...
اے ميرى قوم خدا كى پرستش كرو كہ تمہارا اس كے سوا كوئي اور معبود نہيں ہے_
حضرت صالح پيغمبر كى بھى اپنى قوم سے اسى قسم كى گفتگو تھي_ آپ نے فرمايا:
اے ميرى قوم خدا كى عبادت كرو كہ تمہارا اس كے سواكوئي اور معبود نہيں ہے وہ ذات ہے كہ جس نے تمہيں زمين سے پيدا كيا اور تمہيں حكم ديا كہ زمين كو آباد كرو اس سے درخواست كرو كہ تمہيں بخش دے اور اسى كى طرف رجوع كرو اس سے توبہ كرو_ ہاں ميرا رب

114
بہت قريب اور اجابت (جواب دينے والا) كرنے والا ہے_ حضرت شعيب(ع) نے اپنى رسالت كے آغاز پر لوگوں سے اس طرح خطاب كيا_
اے ميرى قوم خدا كى پرستش كرو كہ تمہارا سوائے اس كے اور كوئي خدا نہيں او ركبھى وزن و پيمائشے ميں كمى نہ كرو كہ ميں تمہارى بھلائي كا خواہاں ہوں اور تم پر قيامت كے عذاب سے ڈرتا ہوں_
اے ميرى قوم وزن و پيمائشے كو پورے عدل سے بناؤ او رلوگوں كى چيزوں كو معمولى شمار نہ كرو اور زمين ميں ہرگز فساد برپا نہ كرو_''
خداوند عالم نے حضرت موسى (ع) كى رسالت كے بارے ميں يوں فرمايا ہم نے موسى كو واضح اور محكم دلائل اور آيات دے كر فرعون اور اس كے گروہ كى طرف بھيجا_ فرعون كے پيروكار اس كے امر كو تسليم كئے ہوئے تھے ليكن فرعون كا امر ہدايت كرنے اور رشد دينے والا نہ تھا_ فرعون قيامت كے دن آگے آگے اپنى قوم كو جہنّم ميں وارد كرے گا جو براٹھكانا اور مكان ہے اس دنيا ميں اپنے اوپر لعنت او رنفرين ليں گے اور آخرت ميں بھى يہ كتنا برا ذخيرہ ہے ان آيات كے ساتھ ہى قرآن ميں اس طرح سے آيات ہے ... ايك دن آنے والا ہے كہ كوئي شخص اس دن اپنے

115
پروردگار كى اجازت كے بغير بات نہ كرسكے گا_ اس دن ايك گروہ بدبخت اور شقى ہوگا اور ايك گروہ خوش بخت اور سعادت مند، وہ جو بدبخت اور شقى ہوں گے انہوں نے خدا كے سوا دوسروں سے اپنا دل لگا ركھا تھا اور خدا كى ياد اپنے دل سے نكال چكے تھے غير خدا كى عبادت كرتے تھے وہ آگ ميں گريں گے جو بہت شعلہ ور، بلند قد اور رعب دار ہوگى يہ لوگ اس آگ ميں ہميشہ رہيں گے جب تك كہ زمين و آسمان قائم ہيں مگر سوائے اس كے كہ تيرا پروردگار كچھ اور چاہے اور جو كچھ تيرا خدا چاہتا ہے اسے يقينا آخر تك پہنچا كر رہتا ہے ليكن وہ لوگ جو خدائے واحد پر ايمان لانے اور عمل صالح انجام دينے كى وجہ سے سعادت مند ہوئے ہيں بہشت ميں داخل ہوں گے اور اس ميں جب تك زمين و آسمان قائم ہيں زندگى گزاريں گے مگر يہ كہ خدا اس كے علاوہ كچھ اور چاہے البتہ خدا كى يہ عنايت اختتام پذير نہيں_
اگر تمام پيغمبروں كى دعوت پر غور كريں تو نظر آتا ہے كہ تمام پيغمبروں كى دعوت ميں اپنى نبوت كے اثبات اور بيان كے علاوہ دو ركن، دو اصل اور دو اساس موجود ہيں_
پہلا: خدائے واحد كى پرستش و عبادت: توحيد_
دوسرا: انسان كا مستقبل سعادت يا شقاوت: معاد ...

116
ان دو بنيادى اصولوں پر ايمان لانا، انبياء عليہم السلام كى دعوت كى بنياد و اساس ہے_ پيغمبر دليل و برہان اور معجزات و بينات كے ذريعہ پہلے انسانوں كو ان دو اصولوں پر ايمان لانے كى دعوت ديتے تھے_
كائنات كے اسرار و عجائب ميں غور و فكر كى ترغيب دلا كر انسانوں كو ان دو اصولوں پر عقيدہ ركھنے كى دعوت ديتے تھے_ انسان ميں جو خداپرستى اور خداپرستى كى فطرت موجود ہے انبياء اسے بيدار كرتے تھے تا كہ وہ خدا كى وحدانيت كو مان ليں اور اس كى پرستش كريں اور اپنے الہى نظر يے كے ذريعے سے اس كى قدرت كے آثار اور اس كى عظمت كا كائنات كے ہرگوشہ ميں مشاہدہ كريں انسان كى خلقت كى غرض و غايت كو سمجھ سكيں اور موت كے بعد كى دنيا سے واقف ہوجائيں اور اپنى آئندہ كى زندگى ميں بدبختى اور خوش بختى سے متعلق ہوچيں_
ابتداء ميں تمام پيغمبر لوگوں كے عقائد كى اصلاح كرتے تھے كيونكہ اسى پر لوگوں كے اعمال، رفتار و كردار كا دار و مدار ہے_ ابتدا ميں لوگوں كو ان دو اصولوں (توحيد اور معاد) كى طرف دعوت ديتے تھے_
اس كے بعد احكام، قوانين و دساتير آسمانى كو ان كے سامنے پيش كرتے تھے_ كيونكہ ہر انسان كا ايمان، عقيدہ اور جہان بينى اس كے اعمال اخلاق او رافكار كا سرچشمہ ہوا كرتے ہيں_
ہر انسان اس طرح عمل كرتا ہے جس طرح وہ عقيدہ ركھتا ہے ہر آدمى كا كردار و رفتار ويسا ہى ہوتا ہے جيسا اس كا ايمان و عقيدہ ہوتا ہے ہر انسان كے اعمال و اخلاق اس كے ايمان و اعتقاد كے نشان دہندہ ہوتے ہيں

117
صحيح اور برحق ايمان و عقيدہ عمل صالح لاتا ہے اور نيكوكارى كا شگوفہ بنتا ہے اور برا عقيدہ نادرستي، تباہى اور ستمگرى كا نتيجہ ديتا ہے_ اس بنا پر ضرورى ہے كہ لوگوں كى اصلاح كے لئے پہلے ان كے عقائد اور تصور كائنات كے راستے سے داخل ہوا جائے_
پيغمبروں كا يہى طريقہ تھا_
اللہ تعالى پر ايمان اور قيامت كے دن كے عقيدے كو لوگوں كے دل ميں قوى كرتے تھے تا كہ لوگ سوائے خدا كے كسى اور كى پرستش نہ كريں اور اس كى اطاعت كے سوا كسى اور كى اطاعت نہ كريں_

پيغمبروں كا ہدف
تمام پيغمبروں اور انبياء كا ہدف خدائے واحد پر ايمان لانا، اس كا تقرب حاصل كرنا، دلوں كو اس كى ياد سے زندہ كرنا اور اپنى روح كو خدا كے عشق و محبت سے خوش و شاد ركھنا ہوتا ہے اور تمام احكام دين، اجتماعى و سياسى قوانين يہاں تك كہ عدل و انصاف كا معاشرے ميں برقرار ركھنا اپنى تمام ترضرورت و اہميت كے باوجود دوسرے درجے پر آتے ہيں_
پيغمبر، انسان كى سعادت كو اللہ تعالى پر ايمان لانے ميں جانتے ہيں اور چاہتے ہيں كہ لوگوں كے اعمال و حركات اللہ كى رضا اور اس كے تقرّب كے حاصل كرنے كے لئے ہوں_ كائنات كے آباد كرنے ميں كوشش كريں_ خدا كے لئے مخلوق خدا كى خدمت كريں اور انہيں فائدہ پہنچائيں _

118
خدا كے لئے ظالموں سے جنگ كريں_ خدا كے لئے عدل و انصاف كو پھلائيں اور مظلوموں اور محروموں كى مدد كريں_ يہاں تك كہ اپنے سونے اور كھانے پينے كو بھى خدا اور اس كى رضا كے لئے قرار ديں اور خدا كے سوا كسى كى بھى پرستش نہ كريں اور اگر وہ ايسا كريں تو سعادتمند ہوجائيں گے_

آيت قرآن
'' ان لّا تعبدوا الّا اللہ انّى اخاف عليكم عذاب يوم اليم''
خدا كے سوا كسى كى پرستش نہ كرو كہ ميں تم پر اس دن كے دردناك عذاب سے ڈرتا ہوں (سورہ ہود آيت 26)

سوچئے اور جواب ديجئے
1) ___ مادى نظر يے كے مطابق انسان كا مستقبل كيا ہے؟ كيا اس نظريے ميں انسان جوابدہ و ذمہ دار سمجھا جاتا ہے؟ آيا اس نظريے ميں اعمال انسانى كے لئے كوئي معيار موجود ہے كہ جس سے اس كے اچھے اور برے اعمال كو معين كيا جاسكے؟
2)___ مادّى تصوّر كائنات ميں كائنات كو كس قسم كا موجود سمجھا جاتا ہے؟

119
3) ___ پيغمبروں كا نظريہ انسان كے متعلق كيا ہے؟ اور وہ اسے كس قسم كا موجود تصور كرتے ہيں؟
4)___ پيغمبروں كا تبليغ كے سلسلہ ميں پہلا كلام كيا ہوتا تھا؟
5)___ پيغمبروں كى نگاہ ميں انسان كى شرافت كى بنياد كيا ہے؟
تمام بدبختيوں كى بنياد كيا ہے؟ اور كيوں؟
6)___ پيغمبروں كى نظر ميں صالح اور مومن انسان كا مستقبل كيا ہے؟
7)___ تمام پيغمبروں كى دعوت اور تبليغ كا محور اور اساس كون سے اصول ہيں مثال ديجئے؟
8)___ پيغمبروں كى نگاہ ميں لوگوں كى اصلاح كس راستے سے ضرورى ہے؟
9)___ پيغمبروں كا مقصد و ہدف كيا ہے؟ اور وہ اس عالى ہدف تك پہنچنے كے لئے لوگوں سے كيا چاہتے تھے؟