87
قيامت كا خوف
خدا كے شائستہ بندوں كى ايك صفت
خدا كے شائستہ بندوں كے متعلق حضرت على (ع) فرماتے ہيں كہ:
خداوند عالم نے اپنى ياد كو دلوں كے منور ہونے كا سبب قرار ديا ہے ياد خدا دلوں كوسماعت بخشتى ہے، خدا كى ياد تاريك و مردہ اور افسردہ دلوں كوروشن، بينا اور زندہ كرتى ہے، خدا كى ياد سركش اور گنہكار دلوں كو خدا كى بندگى اور اس كے حضور سجدہ ريز ہوجانے كا سبق ديتى ہے_
ہر دور ميں خدا كے ايسے منتخب بندے ہوتے ہيں جو خدا كى ياد ميں مشغول رہتے ہيں اور اس سے مناجات كرتے ہيں اور دل كى گہرائيوں سے اس سے راز و نياز كرتے ہيں_
خدا كى ياد سے ان كى دلوں ميں بيدارى اور آگاہى كا نور چمكتا ہے_ ان كى آنكھ، كان اوردل اس سے منور ہوجاتے ہيں_
88
خدا كے يہ منتخب بندے لوگوں كو ''ايام اللہ'' كى ياد دلاتے ہيں اور اس كے ارفع و اعلى مقام سے ڈراتے ہيں_ يہ باخبر رہنما بھولے بھنكے ہوؤں كو ہدايت ديتے اور رہنمائي كرتے ہيں_ جو بھى ميانہ روى اور صحيح راستہ اختيار كرے اس كى حوصلہ افزائي كرتے ہيں اور اسے نجات كى خوش خبرى ديتے ہيں_ جوكجروى اختيار كرے اس كى مذمّت كرتے ہيں اور ہلاكت و تباہى سے ڈراتے ہيں_
يہ لائق احترام اور ياد خدا ميں مشغول رہنے والے بندے اندھيروں كا اجالا اور گم كردہ راہوں كے رہنما ہوتے ہيں_
جى ہاں اس قسم كے شائستہ لوگوں نے دنيا كى محبت كى جگہ اللہ كى ياد كو اپنے دل ميں جگہ دى ہے_ دنياوى كام كاج اورتجارت انہيں ياد خدا سے غافل نہيں كرتے_
وہ اس عمدہ سامان سفر سے اپنى زندگى كا سفر طے كرتے ہيں اور راہ طے كرتے وقت غفلت ميں ڈوبے ہوئے انسانوں كو بيدار كرتے اور انہيں گناہوں سے روكتے ہيں_ لوگوں كو عدل و انصاف كا حكم ديتے ہيں اور خود بھى عدل و انصاف كے مطابق سلوك كرتے ہيں_ لوگوں كو برے كاموں اورمنكرات سے منع كرتے ہيں اور خود بھى برے كاموں كى طرف ہاتھ نہيں بڑھاتے_
گويا وہ راہ دنيا طے كر كے آخرت تك پہنچ چكے ہيںاوروہاں سكونت اختيار كر كے ماوراء دنيا كا مشاہدہ كر رہے ہيں_ قيامت كے وعدے انكے لئے ثابت ہوچكے،وہ لوگوں كے لئے ان حقائق پر سے پردہ ہٹاتے ہيں اورقيامت وبرزخ كے حالات كو لوگوں كے لئے بيان كرتے ہيں_
89
اس طرح كہ جيسے اس عالم كى جن چيزوں كا مشاہدہ وہ كر رہے ہيں لوگوں كى نگاہيں انھيں نہيں ديكھ پاتيں اور جن صداؤں كويہ سنتے ہيں لوگ نہيں سن پاتے_
اے كاش
تم اپنے ذہن ميں ان كے بلند مرتبہ اورروحانيت كو ديكھ پكاتے اور ان كے مقام محمود كا مشاہدہ كر تے_ گويا انہوں نے اپنے اعمال ناموں كو اپنے سامنے كھول ركھا ہے_ اوراپنے نفس كے (محاسبہ ميں) اورچھوٹى بڑى كوتاہيوں اور خطاؤں پر نظر ركھے ہوئے ہيں_
خدا كے عذاب كے خوف سے آہ و فغان اور گريہ و زارى كر رہے ہيں_ اپنى خطاؤں كا اقرار كرتے ہوئے ندامت اورپشيمانى كا اظہار كر رہے ہيں اور اپنے رب سے عفو و بخشش كے طلبگار ہيں_
اگر ان منتخب بندگان خدا كو غور سے ديكھا جائے تو يہ ہدايت كے پرچم اور روشنى پھيلانے والے چراغ نظر آئيں گے كہ جن كے ارد گرد اللہ كى رحمت كے فرشتوں نے احاط كر ركھا ہے، آسمان كے دروازے ان پركھلے ہوئے ہيں اورفرشتے آرام واطمينان سے ان پر نازل ہوتے ہيں_
ان كے لئے امن و كرامت كے مقامات تيار كئے گئے ہيں_ اس امن كے مقام ہيںكہ جہاں خدا ان سے آگاہ، ان كى سعى وكوشش سے راضى اور ان كى راہ و رسم سے خوش ہے_
يہ بندے اپنى مناجات كے ذريعہ نسيم رحمت اورپروردگار عالم كى بخشش كو جوش ميں لاتے ہيں_ ان كے دل اللہ تعالى كے فضل و كرم كے
90
گرويدہ اور اللہ كى عظمت و بزرگى كے سامنے خاضع اور خاكسار ہوتے ہيں_
آخرت كے عذاب كے خوف سے ان كے دل زخمى اور شكستہ ہيں اور خوف خدا كے سبب كيے جانے والے طويل گريہ سے ان كى آنكھيں آزردہ اور خستہ ہوچكى ہيں ...
(نہج البلاغہ سے ايك اقتباس)
اميرالمومنين عليہ السلام كہ جو خود خدا كے شائستہ بندوں ميں سے ہيں خدا كے صالح اور شائستہ بندوں كے اس طرح قيامت سے خوفزدہ ہونے كى صفت كا تذكرتے ہيں_ كتنا اچھا ہو كہ حضرت على (ع) كے قول كے ساتھ ساتھ ان كے عمل ميں بھى خدا كے شائستہ بندوں كى نشانيوں كو ديكھيں_
امام(ع) كے دو نہايت نزديكى اصحاب سے امام(ع) كى مناجات كى كيفيت ان كى آہ و زاري، پر سوز نالوں اور قيامت كے خوف كے متعلق سنيں_
حبّہ عرفى اور نوف بكالى كہتے ہيں:
ايك دن ہم دارالامارة كے صحن ميں سوئے ہوئے تھے كہ آدھى رات كو ايك دردناك آواز نے ہميں بيدار كرديا_ يہ ہمارے مولا اميرالمومنين (ع) كى آواز تھي_ آپ نے ايك ديوار سے نيك لگائي تھي_ پھر آہستہ آہستہ قدم بہ قدم چلنے لگے_ ستاروں سے پر آسمان كوديكھتے اور تھوڑى دير ٹھہرجاتے اور اچانك رونے كى آواز بلند كرتے اور آنسو بہاتے اور پر درد ودلگدار لہجے ميں ان آيات كى تلاوت فرماتے تھے:
يقينا زمين و آسمان كى خلقت اور دن و رات كى منظم گردش ميں عقلمندوں كے لئے واضح نشانياں موجود ہيں، وہ عقلمند كہ جو خدا كو ہر حال ميں ياد كرتے ہيں چاہے بيٹھے
91
چاہے كھڑے اور چاہے پہلو پر بستہ ہيں ليٹے ہوئے ہوں زمين و آسمان كى خلقت پر غور و خوض كرتے ہيں_
اے پروردگار تو نے اس عظيم كارخانہ كو بے كار و بے مقصد خلق نہيں كيا ہے تو عيب سے پاك ہے بس تو ہم كو آگ كے عذاب سے بچا
پروردگار يقينا جس كو تونے آگ ميں داخل كرديا ضرور اسے رسوا كرديا اور ظالموں كا كوئي مددگار نہيں اے ہمارے رب ہم نے سنا ہے كہ ايك منادى ندا كرتا تھا ايمان كے لئے كہ ايمان لاؤ، پس ہم ايمان لے آئے_ اے ہمارے رب پس بخش دے ہمارے گناہوں كو اور دور كردے
ہم سے ہمارى بديوں كو اور ہميں نيكيوں كے ساتھ موت دے_
اسے پروردگار جو كچھ تونے اپنے رسولوں كے ذريعہ سے ہم سے وعدہ كيا ہے ہميں عطا كر اور ہم كو روز قيامت رسوا نہ كرنا_ يقينا تووعدہ خلافى نہيں كرتا_''
(سورہ آل عمران 3_ آيت 19 تا 194)
اميرالمومنين عليہ السلام بار بار ان آيات كى تلاوت كر رہے ہے تھے اشك بہاتے تھے اور ہاتھ آسمان كى طرف اٹھا كر مناجات اورراز و نياز كرتے تھے حبّہ كہتا ہے:
92
ميں حيرت زدہ اپنے مولا كى حالت كو ديكھ رہا تھا كہ آپ(ع) ميرے بستر كے نزديك آئے اور فرمايا:
''حبّہ سوئے ہوئے ہو يا جاگ رہے ہو؟''
ميں نے عرض كى :
مولا،اے اميرالمومنين عليہ السلام جاگ رہا ہوں جب آپ(ع) ، خدا كے خوف سے اس قدر لرزاں اور نالہ كناں ہيں تو افسوس ہم بے چاروں كى حالت پر:
اميرالمومنين عليہ السلام كچھ دير سرجھكا كر روتے رہے پھر فرمايا:
اے حبّہ ايك دن سب خدا كے سامنے اپنا حساب دينے كے لئے كھڑے كئے جائيں گے_ خدا اپنے بندوں كے اعمال سے باخبر ہے اور كوئي چيز اس سے چھپى ہوئي نہيں ہے_ وہ ہمارى شہ رگ سے بھى زيادہ ہم سے نزديك ہے اور كوئي چيز ہمارے اور خدا كے درميان حائل نہيں ہوسكتى اس كے بعد نوف كے بستر كے پاس گئے اور فرمايا:
اے نوف سو رہے ہو يا جاگ رہے ہو؟
نوف جو كہ اميرالمومنين (ع) كى حالت كو ديكھ كر رو رہے تھے بولے:
''يا على (ع) جاگ رہا ہوں اور آپ كى اس روحانى حالت كو ديكھ كر گريہ كر رہا ہوں_''
اميرالمومنين (ع) نے فرمايا:
اے نوف اگر آج خوف خدا سے اشك بہاؤ گے تو قيامت ميں تمہارى آنكھيں روشن ہوں گى _ تمہارى آنكھوں سے گرا ہوا آنسو كا ہر قطرہ آتش جہنّم كو
93
بجھادے گا_ جو انسان اللہ كے خوف سے ڈرے، گريہ كرے اور اس كى دوستى خدا كے لئے ہو تو بہشت ميں اس كا درجہ سب سے بلند و بالا ہوگا_
اے نوف جو شخص خدا كو دوست ركھتا ہو اور جسے بھى دوست ركھتا ہو خدا كے لئے ہو، كبھى بھى خدا كى دوستى پر كسى اور كى دوستى كو ترجيح نہيں دے گا جو شخص جس سے بھى دشمنى ركھتا ہو خدا كيلئے ہو اس دشمنى سے خير و خوبى كے علاوہ كچھ اور نہ پہنچے گا_
اے نوف جس وقت تم اپنى دوستى اور دشمنى ميں اس درجہ پر پہنچو كمال ايمان پر پہنچو گے_ خدا سے ڈوركہ ميں تمہيں نصيحت كر رہا ہوں'' يہ كہہ كہ امام (ع) ہم سے دور چلے گئے_ اور خدا سے مناجات شروع كردى اشك بہاتے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ اس دعا كى تلاوت كرتے تھے_
پروردگار اے كاش مجھے علم ہوتاكہ جس وقت ميں تجھ سے غافل ہوں تو مجھ سے ناراض ہوتا ہے اور منھ پھير ليتا ہے يا پھر بھى مجھ پہ لطف و كرم ركھتا ہے؟ اے كاش مجھے علم ہوتا كہ ميرى طويل نيند، سستى و كوتاہى كے سبب ميرى حالت تيرے نزديك كيسى ہے
اس رات اميرالمومنين (ع) تمام رات جاگتے رہے اور اپنے خالق سے ر از و نياز كرتے رہے_ بے قرارى كے عالم ميں چہل قدمى كرتے تھے_
اميرالمومنين (ع) يوں ہى راتوں كو بيدار رہتے، مناجات كرتے اور خوئف خدا اور قيامت كے حساب و كتاب كا ذكر كر كے رويا كرتے تھے_
94
آيت قرآن
'' ربّنا ما خلقت ہذا باطلا سبحنك فقنا عذاب النّار''
پروردگار تو نے اس جہان اور زمين و آسمان كو باطل پيدا نہيں كيا ہے تيرى ذات پاك و پاكيزہ ہے پس ہميں جہنّم كى آگ سے محفوظ ركھ_''
(سورہ آل عمران 3 آيت 191)
سوچيے اور جواب ديجيے
1) ___اميرالمومنين (ع) نے اپنے اس خطبہ ميں اللہ كے نيك اور صالح بندوں كى بہت سى صافت بيان كى ہيں_ آپ ان ميں سے دو صفات كو بيان كريں؟
2) ___يہ صالح بندے كس راہ كى تعريف اور كس كى مذمت كرتے ہيں؟
3)___ ان كا ڈر اور خوف كس چيز سے ہے؟ ان كا طويل گريہ كس خوف كے نتيجہ ميں ہے؟
4) ___اميرالمومنين (ع) نے جن آيات كى تلاوت كى ان كا ترجمہ كيجئے؟
5)___ ان آيات ميں كن باتوں كا تذكرہ ہے كہ جس كے سبب
95
اميرالمومنين (ع) كى يہ حالت ہوگئي تھي؟
6) ___جب اميرالمومنين (ع) نے حبّہ سے دريافت كيا كہ سو رہے ہو يا جاگ رہے ہو تو حبّہ نے آپ (ع) كو كيا جواب ديا؟
آپ (ع) نے قيامت كے دن كے بارے ميں حبّہ سے كيا فرمايا؟
7)___اميرالمومنين (ع) نے نوف سے قيامت كى ياد اور خوف خدا سے رونے كے متعلق كيا فرمايا؟
8)___ اميرالمومنين (ع) نے ايمان كامل ركھنے والے انسان كى كيا تعريف كي؟ كامل ايمان ہونے كے لئے كيا علامتيں بيان كيں؟
|