آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ چہارم
  76
جنّت اوراہل جنّت; دوزخ اور اہل دوزخ
جناب ابوذر غفارى سے كسى نے سوال كيا كہ ہمارے لئے مرنا كيوں تكليف دہ ہوتا ہے___؟
حضرت ابوذر نے جواب ديا:
'' اس لئے كہ تم نے اپنى دنيا كو آباد كيا ہے اور آخرت كو خراب و ويران كيا ہے_ اس دنيا ميں اپنى خواہشات نفس كى پيروى كى ہے اور گناہوں ميں مبتلا رہے ہو اور جو كچھ تمہارے پاس تھا اسى دنيا ميں خرچ كرديا ہے اور آخرت كے لئے كوئي توشہ و زاد راہ روانہ نہيں كيا_ اسى لئے تمہارے لئے ايك آباد مكان سے خراب و ويران مكان كى طرف منتقل ہونا تكليف دہ ہوتا ہے_
اس نے پھر سوال كيا كہ ا بوذر ہمارى حالت آخرت كے جہان ميںداخل ہوتے وقت كيسى ہوگي؟

77
جناب ابوذر نے فرمايا:
لوگ دوقسم كے ہوتے ہيں_ نيك اور برے _ نيك لوگ، ان لوگوں كى طرح ہوں گے جو طويل مدّت اپنے گھر بار سے اوراپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے دور ہوں اوراب وہ اپنے گھر پہنچنے والے ہوں اور اپنے رشتہ داروں كا ديدار كرنے والے ہوں تو انھيں كتنى خوشى اور مسرّت محسوس ہوگي؟ وہ كتنے خوشحال خوشنود ہوں گے؟ نيك لوگ اس طرح اپنے مہربان خدا كے نزديك اور اس كى خوبصورت بہشت ميں داخل ہوں گے_ ملائكہ و پيغمبران و اولياء خدا ان كا استقابل كريں گے اور وہ بہشت كى ختم ہونے والى نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے ليكن گناہگار اور برے اعمال كے مرتكب اس مجرم اور باغى ى طرح ہو گے جو اپن گناہو كے خوف سے فرار ہوگيا ہو اور جب اسے گرفتار كے لايا جائے اور اس كے جرائم كى سزا سنائي جائے تو اس كى كيا حالت ہوگي؟
اعمال بد انجام دينے والا اپنے آپ كو اپنے اعمال ميں گرفتار ديكھ رہا ہوگا تمام گناہگارو كى يہى حالت ہوگي، وہ خود كو خدا كے غيظ و غضب اور عذاب ميں مبتلا ديكھ رہے ہوں گے_ وہ ديكھ رہے ہو گے كہ اب وہ اس پروردگار كے سامنے كھڑے ہيں جو بدلہ لينے والا ہے_ جس كے فرامين و احكامات كى انہوں نے خلاف ورزى كى ہے_ ان پر پانى پانى كردينے والى شرمندگى طارى ہوگى اور وہ اپنے آپ كوعذاب كامستحق ديكھ رہے ہوں گے اوربالآخر ان كوكھينچ كر جہنّم ميں لے جايا جائے گا_''
اس شخص نے پھر سوال كيا_ اے ابوذر بتايئےہ ہمارى حالت

78
خداوند عالم كے سامنے كيسى ہوگي؟ جنّتى ہوں گے يا جہنّمي؟
حضرت ابوذر نے فرمايا كہ:
اپنے اعمال كو اللہ تعالى كى كتاب كے سامن ركھو اورديكھو كہ خدائے تعالى قرآن مجيد ميں كيا فرماتے ہے اور تمہارى كيا حالت ہے_ خدائے تعالى قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ نيك اور صالح جنّتى ہوں گے اور فاسق و فاجر جہنّمي''_
ابوذر نے فرمايا:
اللہ تعالى كى رحمت نيك لوگوں سے زيادہ قريب ہے''_
آخرت ميں انسان لامحالہ ان دو مقامات ميں سے ايك ميں قيام كرے گا_ جنّت ميں يا جہنّم ميں_

جنّت
جنّت نيك اور ديندار اور خداپرست لوگوں كى رہائشے اور مكان ہے، پيغمبروں اور ان كے پيروكاروں كے ہميشہ رہنے كى چگہ ہے_
بہترين اور خوبصورت ترين مقام ہے جسے مہربان خالق نے اپنے نيك بندوں كے لئے بنايا ہے_ نہايت وسيع اور كشادہ ہے، زمين ماور آسمان كى وسعتوںكے مساوى بلكہ ان سے بھى وسيع و عريض ہے، روشن و پرنور ہے_ غرض انسان اس كى تعريف سے عاجز ہے_
اسے بہشت بھى كہتے ہيں_ قرآن اسے جنت سے تعبير كرتا ہے

79
''جنّت'' يعنى سر سبز و شاداب درختوں سے بھرا ہوا باغ
جنت كے سر سبز و شاداب درختوں كے نيچے صاف اور شفاف اورٹھنڈے پانى كى نہريں جارى ہوں گي_ ان كى شاخوں پر رنگ برنگ اور مزے دار پھل لٹكے ہوئے ہوں گے اور معطر ہوا كے جھونكوں سے جھوم رہے ہوں گے_
جنّت ميں كسى قسم كى برائي اور نقص كا وجود نہ ہوگا_ نيك لوگ وہاں جس چيز كى تمنّا كريں گے ان كے لئے حاضر كردى جائے گي_ جب كسى پھل كى خواہش كريں گے تو مدرختوں كى خوبصورت ٹہنياں ہواكے چلنے سے حركت كريں گى اور اس نيك بندے كے نزديك پہنچ كر پھل اس كے ہاتھوں پر ركھ ديں گي_
جنّت ميں مومنين كے لئے نہايت عايشان اور آسائشےوں سے پر، محل بنائے گئے ہوں گے، ان پر عمدہ اور بہترين فرش بچھے ہوئے ہوں گے مومنين بہترين اور خوش رنگ لباس زيب تن كئے ہوئے، آرامدہ مندوں پر پيغمبروں، ائمہ اطہار، شہداء اور دوسرے جنتيوں سے محو گفتگو ہوں گے_
پيغمبر (ص) فرماتے ہيں كہ:
ميں نے جنّت ميں ديكھا كہ فرشتے جواہرات اور انيٹوں سے ايك خوبصورت محل بنا رہے ہيں_ كبھى تيزى سے اور زيادہ كام كرنے لگتے اور كبھى كام چھوڑ كر بيٹھ جاتے ہيں مسں نے ان سے پوچھا: كيا كام كر رہے ہو؟ كيوں كبھى كام كرنا چھوڑ ديتے ہو؟ انہوں نے جواب ديا كہ ہم يہ

80
محل ايك مومن كے لئے بنا رہے ہيں_ آپ(ص) نے سوال كيا: پھر بناتے بناتے رك كيوں جاتے ہو_ فرشتوں نے جواب ديا كيونكہ محل بناتے ميں استعمال ہونے والا سامان ختم ہوجاتا ہے_ آپ(ص) نے پوچھا: محل بنانے كا سامان كيا ہے؟ فرشتوں نے كہا يہ سامان اللہ اكبر لا الہ الا اللہ ہے جو ان جواہرات اور سونے كى دانيٹوں ميں تبديل ہوجاتا ہے اس محل كوبنانے كا سامان، اللہ تعالى كا ذكر اور وہ نيك اعمال ہيں جو خود مومن دنيا سے ہمارے لئے روانہ كرتا ہے جب تك مومن كار خير اور اللہ تعالى كى ياد ميں مشغول رہے، ہم تك سامان پہنچتا رہتا ہے اور اگر مومن غافل ہوجائے اور كار خير انجام نہ ديے تو ہم تك سامان نہيں پہنچتا اور ہم بھى مجبوراً كام ر وك ديتے ہيں_''
جنّت ميں نعمتيں ہمارے دنياوى اعمال سے بنائي جاتى ہيں اور جنّت كى بعض نعمتيں اتنى خوبصورت ہيںكہ كبھى آنكھ نے ان جيسى خوبصورتى كو نہ ديكھا ہوگا ان كے دل پسند اور صاف كوكسى كان نے نہ سنا ہوگا بلكہ ان كا خيال بھى كسى كے ذہن ميں نہيں آسكتا_ مختصر يہ كہ جنت كى نعمتيں ہمارى فكروں سے بھى زيادہ بلند و بالا ہيں_ اور بہشت كى تعريف و توصيف ميں جو كچھ بھى بيان كيا گيا ہے وہ ہمارى ذہنى سطح كے مطابق بيان كيا گيا ہے_ ورنہ بہشت كى عظمت اور اس كى حقيقى خوبصورتى اور زيبائي ناقابل بيان ہے_

81
ليكن خدا نے بيان كے لئے كہ بہشت رہنے كے لئے كتنى عمدہ جگہ ہے اس كى كچھ صفات كو ہمارى زبان اور ہمارى ذہنى سطح كے مطابق بيان كيا ہے اور فرمايا ہے كہ :
متقين كے لئے جس جنّت كا وعدہ كيا گيا ہے اس كى شان يہ ہے كہ اس كے نيچے نہريں بہہ رہى ہيں اس كے پھل ہميشہ رہنے والے ہيں اور اس كا سايہ لازوال ہے يہ تو انجام ہے متقى لوگوں كا ليكن كافروں كا انجام يہ ہے كہ ان كے لئے دوزخ كى آگ ہے_''
(سورہ رعد 13_ آيت 35)
بہشت ميں جس چيز كى خواہش كروگے تيار ہوگى اور جو چاہو گے وہ موجود ہوگا_''
(سورہ فصلّت 41_ آيت 35)
''ان مومن مردوں اور عورتوں سے خدا كا وعدہ ہے كہ انھيں ايسے باغ دے گا جن كے نيچے نہريں بہتى ہوں گى اور وہ ان ميں ہميشہ ہيں گے_ ان سدا بہار باغوں ميں ان كے لئے پاكيزہ قيام گا ہيں ہوں گى اور سب سے بڑھ كريہ كہ اللہ كى خوشنودى انھيں حاصل ہوگى اور يہى سب سے بڑى كاميابى ہے_
(سورہ توبہ 9 آيت 72)
جنت ميں تمام رہنے والے لوگ ايك مرتبے اور ايك درجے كے نہيں ہيں بلكہ اپنے ايمان اور خلوص اور اعمال صالح كى مقدار كے لحاظ سے ان كے مر اتب ميں فرق ہوگا بہشت ميں موت، غم، بيماري، فكر، مصيبت كا كوئي

82
وجود نہ ہوگا_ بلكہ جنّتى افراد ہميشہ خداوند عالم كے لطف و عنايات كے زير سايہ ہوں گے اور ہميشہ خدا كى ظاہرى اور باطنى نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور سب سے زيادہ يہ كہ اللہ تعالى ان سے راضى ہوگا اور وہ بھى اللہ اور اس كے الطاف اور عنايات سے راضى ہوں گے_

دوزخ
دوزخ ظالموں اور بدكاروں كاٹھكا نہ ہے اور مشركوں اور منافقوں كى قيام گاہ ہے_
دوزخى نہايت سخت اور بہت دردناك زندگى سے دوچار ہوں گے ان كے برے اعمال اور اور كفر و نفاق، عذاب اور سخت سزا كى صورت ميں تبديل ہوكر ان كے لئے ظاہر ہوں گے اور انھيں درد و رنج پہنچاتے رہيں گے_ آگ كا لباس ان كے جسم پر اور گلے ميں طوق، ہاتھ اور پاؤں ميں زنجير پہنائي جائے گي_ آتش دوزخ كے شعلے ان كے جسم سے اٹھ رہے ہوں گے ان كے گوشت اور ہڈيوں كو جلا رہے ہوں گے_ ساتھ ہى ساتھ ان كے باطن ميں قلب و روح ميں بھى نفوذ كر رہے ہوں گے_
جہنّميوں كا كھانا اور پينا، گندا، بدبودار، غليظ اور جلادينے والا ہوگا جو پيپ سے بدتر ہوگا_ جس كى بدبو مردار سے زيادہ ہوگي_
جہنّم كا عذاب جو كفر و نفاق ظلم و ستم اور برے اعمال كا نتيجہ ہے اتنا سخت اور دردناك ہے كہ جس كا ہم تصوّر بھى نہيں كرسكتے_ اس دردناك

83
عذاب كى جھلك خداوند عالم اس بيان كى صورت ميں ہميں يوں دكھاتا ہے كہ :
ہم نے ظالموں كے لئے ايك آگ تيار كر ركھى ہے جس كى لپٹيں انھيں گھيرے ميں لئے ہوئے ہوں گى وہاں گر وہ پانى مانگيں گے تو ايسے پانى سے ان كى تواضع كى جائے گى جو تيل كى تلچھٹ جيسا ہوگا اور ان كا منہ بھون ڈالے گا بدترين پينے كى چيز اور بدترين رہائشے گاہ _''
(سورہ كہف 18 آيت 29)
جن لوگوں نے ہمارى آيات كو ماننے سے انكار كرديا انھيں يقينا ہم آگ ميں ڈاليں گے اور جب ان كے بدن كى كھال گل جائے گى تو اس كى جگہ دوسرى كھال پيدا كرديں گے تا كہ وہ خوب عذلاب كا مزا چكھيں_ يقينا اللہ بڑا قادر اور حكيم ہے_''
(سورہ نساء 4_ آيت 55)
''دردناك سزا كى خبر دو انھيں جو سونا اور چاندى جمع كر كے ركھتے ہيں اور انھيں خدا كى راہ ميں خرچ نہيں كرتے ايك دن آئے گا كہ اسى سونے چاندى سے جہنّم كى آگ دہكائي جائے گى اور پھر اسى سے ان لوگوں كى پيشانيوں اور پہلوؤں اور پيٹھوں كو داغا جائے گا_ يہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع كيا تھا، لواب اپنى اس دولت

84
كا مزا چكھو جسے تم نے ذخيرہ كيا تھا_''
(سورہ توبہ 9 آيت 35)
يقينا آپ كا دل بھى چاہتا ہوگا كہ معلوم كريں كہ روز قيامت ہمارا انجام كيا ہوگا؟ آخرت ميں ہمارا ٹھكانا كہاں ہوگا؟ جنّت يا جہنّم؟
اگر ہم غور سے پيغمبر اكرم(ص) كے اس قول كا جائزہ ليں تو شايد اندازہ ہوجائے كہ ہمارا انجام كيا ہوگا؟
پيغمبر اكرم(ص) نے فرمايا ہے:
بہشت مصائب اور آلام ميں پوشيدہ ہے جو شخص دنيا كى مشكلات اور رنج و الم كو برداشت كرے گا وہ بہشت ميں داخل ہوگا_ اور جہنّم لذّت و شہوت اور ہوس رانى ميں پوشيدہ ہے، جو شخص شہوت اورہوس رانى ميں مبتلا ہوگا وہ جہنّم ميں جائے گا_

آيت قرآن
مثل الجنّة الّتى وعد المتّقون تجرى من تحتہا الانہر اكلہا دائم و ظلّہا تلك عقبى الّذين اتّقوى و عقبى الكفرين النّار''

85
ساسالہ استعمال كرتے ہيں؟ اور كيوں فرشتے كام چھوڑ كر بيٹھ جاتے ہيں؟
7) ___دوزخ كن كاٹھكا نہ ہے اور جہنم كا عذاب كس چيز كانتيجہ ہوا ہے؟
8) ___قرآن مجيد كى آيات سے استفادہ كرتے ہوئے جہنّم كے عذاب كى كوئي مثال بيان كيجئے؟

86
متقيوں كے لئے جس جنّت كا وعدہ كيا گيا ہے اس كى شان يہ ہے كہ اس كے نيچے نہريں بہہ رہى ہيں_
اس كے پھل ہميشہ رہنے والے ہيں اور اس كا سايہ لازوال ہے_ يہ تو انجام ہے متقى لوگوں كا_ ليكن كافروں كا انجام يہ ہے كہ ان كے لئے دوزخ كى آگ ہے_''
(سورہ رعد 13 آيت 35)

سوچيے اور جواب ديجيے
1)___ حضرت ابوذر- نے اپنے كلام ميں نيك لوگوں كوكن لوگوں سے تشبيہ دى ہے اور گناہ گاروں اور برے لوگوں كوكن سے؟
2)___ حضرت ابوذر كے قول كى روشنى ميںبتا يئےہ اللہ تعالى كے نزديك ہمارى حالت كيا ہوگي؟
3) ___اللہ تعالى كى رحمت كہاں گئي؟ جناب ابوذر نے اس سوال كا كيا جواب ديا تھا،اوراس جواب سے كيا مقصد تھا؟
4) ___اس سبق كو ملحوظ ركھتے ہوئے بہشت كى تعريف كيجئے؟
5) ___بہشت كى نعمتوں ميں سے كون سى چيز سب سے برتر اور بالاتر ہے؟
6) ___جنّت ميں مومنين كا مكان بنانے كے لئے ملائكہ كون