آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ چہارم
  46
زمين اور آسمان كا خالق
اپنى عمركے گزرہے ہوئے دور كاتصور كرتاہوں، اپنے بچپن كوذہن ميںلاتا ہوں،گوكہ اپنے شيرخوارگى كے زمانے كوتوپردہ ذہن پر نہيں لاپاتا ليكن اپنے اس دور كے معصوم چہرے كواپنى ماں كى آغوش ميںديكھ سكتاہوں__ اپنى بہن كے چہرے كو جومجھ سے چھوٹى ہے اورحال ہى ميں دنيا ميںآئي ہے ديكھتا ہوں_
وہ اپنى خوبصورت ننّھى منّى آنكھيں كھولتى ہے،جيسے آسمان سے ابرب كا پردہ ہتا رہى ہے_ ہونے ہولے اپنے نازك بسوںپرمسكراہٹ بكھيرتى ہے اپنى چھوٹى چھوٹى انگليوں سے چيزيں پكڑ كراپنے منہ كے قريب لے جاتى ہے_
ميں گھنٹوں اس كے پاس بيٹھا سوچاكرتاہوں كہ___:
ماںكے پيٹ ميں اسى طرح كس نے تيرى پرورش كى ہے؟ وہ كيسا بہترين مصوّر ہے كتنا زبردست مجسمہ ساز ہے اوروہ كتنى اچھى طرح جانتا

47
ہے كہ تجھے كن كن چيزوں كى ضرورت ہے، نہ صرف يہ بلكہ اس نے تيرى يہ تمام ضروريات پورى بھى كى ہيں_
اس كائنات كے نظارے كے لئے خوبصورت آنكھيں، طرح طرح كى آواز ميں سننے كے لئے كان، اپنى ضروريات پورى كرنے كے لئے ہاتھ اورچلنے پھرنے كے لئے پير عطافرمائے_
تيرى محبت كوماں كے دل ميںجگہ دى اوراس نے تيرى اچھى طرح تربيت كي___
سچ بتا تيرا پروردگار كون ہے___؟
ميںبھى تيرى طرح ايك نوزائيدہ بچّہ تھا_ اس سے پہلے اپنے وجود كى كوئي شكل توكيا نشان بھى نہ ركھتا تھا، ايك قدرت منہ مصوّر نے مجھے يہ شكل و صورت اور رنگ وروپ عطا كيا اورايك طاقت ور وجود نے مجھے اس طرح بنايا ہے_
پھر ميں بھى كيوں نہ پوچھوں كہ ميرا پروردگاركون ہے___؟
تمام انسان اس طرح كاسوال اپنے آپ سے كرتے ہيں_ اپنے وجود كى ضروريات پرنظر ڈالتے ہيں_ اپنے بچپن،شيرخوارگى كازمانہ اور اس سے بھى پہلے جب كہ وہ اپنى ماںكے پيٹ ميں تھے، تصور ميں لاتے ہيں_ اپنى ضروريات اور ان كى تكميل كومحسوس كرتے ہيں اور اس حقيقت كوپاليتے ہيں كہ
ايك بے نياز اورطاقتور وجود نے انھيں خلق كيا ہے اور ان كى اس طريقہ سے پرورش كى ہے_ اورخود سے پوچھتے ہيںكہ:
ہمارا پروردگار كون ہے؟
ان كى پاك فطرت،ان كى اپنے بزرگ پروردگار كى طرف رہنماتى كرتي

48
ہے اور ان كا واضح ادارك انھيں اس ذات كى ستائشے اور عبادت كى طرف راغب كرتا ہے_
ہميشہ سے اور ہر دور ميں انسان اپنے پروردگار (بے نياز اور قادرمطلق) سے آشنا تھے اور صرف اسى كى پرستش كرتے تھے_ البتہ كبھى غلطى اور گمراہى كا شكار ہوجاتے اور بے جان بتوں، ناتواں مجسموں اور سورج چاند اورستاروں كو اپنا پروردگار سمجھتے لگتے تھے، ان كى تمام پريشانيوں اوربدبختيوں كا سبب يہى غلطى و گمراہى تھي_
اسى گمراہى كى وجہ سے وہ ہر قسم كى ذلّت كو برداشت كرليتے تھے اور ہر قسم كے ظلم و ستم سہہ ليتے تھے_ جہالت اور گمراہى كے گہرے غار ميں گرپڑتے تھے اور تاريكيوں كے اسير ہوجاتے تھے_
ليكن مہربان خدا كہ جس نے ان كى پرورش كا وعدہ كيا ہے انھيں يوں ہى نہيں چھوڑ ديتا تھا_ انھيںبيدار اور آگاہ كرنے كے لئے پيغمبر بھيج ديتا تھا تا كہ ان كو اپنے پيغامات كے ذريعہ شرك كى تاريكيوں اورانحراف سے نجات دلاسكے_
پيغمبر ان كوبيدار كرنے كى كوشش كرتے تا كہ خداپرستى اور توحيد كى طرف بلائيں اور شرك اوربت پرستى سے (جو تمام مشكلات اور پريشانيوں كا سبب ہے) مقابلہ كريں_
حضرت ابراہيم عليہ السلام خدا كے بڑے پيغمبروں ميں سے ايك ہيں كہ جنھيں خداوند عالم نے لوگوں كى نجات اورہدايت كے واسطے بھيجا تھا تا كہ اپنى قوم كو بيدار اور آگاہ كريں اور ان كى عقلوں كے چراغ كو روشن كريں_ ان كے دلوں كو اپنے پروردگار كے عشق اوراميد سے لبريز كرديں_ نيكيوں اوراچھائيوں كى ان كوتعليم

49
ديں اور برائيوں سے انھيں روكيں_
اس زمانے ميں اكثر لوگ بت پرست تھے_ لكڑى اور پتّھر سے مجسمے بناتے تھے اور ان كے سامنے سجدہ كرتے تھے_
يا سورج،چاند اور ستاروں كى پرستش كرتے تھے_
خداوند عالم نے ان لوگو كى ہدايت اورنجات حضرت ابراہيم عليہ السلام كے ذمّے ڈال دى اور آپ كو دورجوانى ميں اپنى قوم كے پاس بھيجا ليكن چونكہ وہ لوگ بت پرستى ميں برى طرح مبتلا تھے اس لئے ان كى رہنمائي بہت شكل تھي_ اس كے باوجود حضرت ابراہيم عليہ السلام نے اللہ تعالى كے حكم سے ان لوگوں كى ہدايت كے لئے كمر ہمّت باندھي_
آپ وقتاً فوقتاً ان كى عبادت گاہ ميں جاتے اورجب موقع ملتا ان سے گفتگو كرتے_ خوش اخلاقى اورمہربانى كے ساتھ خالق كائنات (جو پورى دنيا كا خالق و پروردگار ہے) كے متعلق ان سے تبادلہ خيالات اوربحث و مباحثہ كرتے واضح اورروشن دليلوں كے ذريعہ لوگوں كوخداشناسى كى طرف راغب كرتے_
آپ(ع) جانتے تھے كہ لوگوں كو شرك اور ذلّت اور ظلم سے نجات دلانے كے لئے پہلے مرحلہ ميں ان كى عقل اور فكر كوبيدار كيا جائے_ لہذا آپ(ع) ان كى خوابيدہ عقلوں كوبيدار كرنے كى كوشش كرتے تھے_
جب آپ(ع) بت پرستوں كوديكھتے كہ بتوں كے سامنے سجدے ميں گرے ہوئے ہيں توان سے پوچھتے:
كيا انہيں پوجتے ہو كہ جن كہ تم نے خود اپنے ہاتھ سے بنايا ہے؟ يعنى تمہارے ہاتھ كا بنايا ہوا يہ بت تو خود تمہارى مخلوق ہے پھر وہ كيسے تمہارا پروردگار

50
اور خالق ہوسكتا ہے؟
وہ مجسمہ كہ جسے ميں خود بناؤں كيسے ميرا پروردگار ہوسكتا ہے؟ ايك مرتبہ آپّ ستارہ پرستوں كے عبادت خانے كے قريب سے گزرے، ديكھا كہ ايك جماعت اپنى آنكھيں آسمان كى طرف لگائے انتظار ميں بيٹھى ہے_ آپ(ع) نے ان سے پوچھا_ كس كے انتظار ميں بيٹھے ہوئے ہو_
انھوں نے كہا كہ رات كے انتظار ميں، تا كہ ہمارا خدا طلوع ہو اور ہم اس كى عبادت اور پرستش كريں_
غروب آفتاب كا وقت تھا،حضرت ابراہيم عليہ السلام بھى ان كے پہلو ميں انتظار كرنے بيٹھ گئے، يہاں تك كہ تاريكى چھاگئي اور خوبصورت ستارہ زہرہ افق سے نمودار ہوا_ ستارہ پرست سجدے ميں گر گئے اور ايك خاص قسم كى عبادت اور ديگر رسوم ادا كرنے لگے_
حضرت ابراہيم عليہ السلام نے زہرہ ستارے كى بلندي، خوبصورتى اورروشنى كو ديكھا اور كہا: كيا يہ ميرا پروردگار ہے؟
اس گفتگو كے دوران ستارہ آہستہ آہستہ غروب ہوئے لگا_ اور افق كے نزديك ہوتے ہى مكمل طور پرغروب ہوكر عبادت كرنے والوں كى نگاہوں سے اوجھل ہوگيا_
حضرت ابراہيم (ع) نے فرمايا كہ:

51
كس طر ح اس ستارے كو جوغروب ہوگيا ہے اپنا پروردگار سمجھتے ہو؟ كيونكہ اس ستارہ كى حركت اوراس كاطلوع و غروب ہونا خوداپنى زبان حال سے كہہ رہا ہے كہ ميں ايك قادر مطلق پروردگار كے فرمان كے ماتحت ہوں جومجھے حركت ميں لاتا ہے اور طلوع و غروب ہونا ميرے مقدر ميں لكھ ديا گيا ہے_
نہيں ... ميںكسى ايسى چيز كو جو غروب ہوتى اور پستى كى طر ف جاتى ہے اپنا پروردگار نہيں مان سكتا ... اس لئے كہ ايسى محتاج اور نيازمند چيز ميرا پروردگار نہيں ہوسكتي_
ستارہ پرستوں نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كى يہ گفتگو سنى اور گہرى فكر وتذبذب ميںڈوب گئے_ وہ حضرت ابراہيم عليہ السلام كى دليل كا كوئي جواب نہ دے سكے_
خوبصورت اور چمكدار چاند طلوع ہوا_ حضرت ابراہيم عليہ السلام نے فرمايا كہ كيايہ ميرا پروردگار ہے؟
چاندپرستوں نے آپ(ص) سے يہ سوال سنا تو آپ(ع) سے بحث شروع كردي_ ليكن چند گھنٹے گزرنے كے بعد چاند بھى ڈوب گيا_
نہيں ... نہيں، يہ بھى ميراپروردگار نہيں ہے_ يہ بھى نكلتا اور ڈوبتا ہے_ يہ بھى حركت كرتا ہے اور اس ميں بھى تغير رونما ہوتا ہے اور زمان
و مكان كا محتاج ہے ... يہ موجود ميرا پروردگار نہيں ہوسكتا_ كيونكہ يہ خود محتاج اورنيازمند ہے_
چاندپرستوں نے جب يہ بات سنى تو سوچنے لگے كيونكہ ان كے پاس

52
بھى حضرت ابراہيم عليہ السلام كى اس واضح دليل كا كوئي جواب نہيں تھا_
چاند سے بھى زيادہ روشن اوربڑا سورج طلوع ہوا_ حضرت ابراہيم (ع) نے سوال كيا: كيا يہ ميرا پروردگار ہے؟
ليكن سورج بھى مغارب ميںپہونچا اور غروب ہوگيا_
نہيں ... سورج بى ميرا پروردگار نہيں ہے يہ خود حركت اور تغير ميں ہے_ يہ خود محتاج اور نيازمند ہے_
حضرت ابراہيم عليہ السلام اس وقت مشركوں كے درميان سے اٹھے اورفرمايا:
ميں ان چيزوں سے كہ جن كى تم پرستش كرتے ہو بيزار ہوں اور ان كى پرستش نہيں كرتا ہوں_ يہ سورج اور چاند اور يہ ستارے تمام كے تمام كسى دوسرے كے پيدا كئے ہوئے ہيں مں اس ذات كى طرف ديكھتا ہوں كہ جس نے آسمان اور زمين كوپيدا كيا_ وہى ميرا پروردگار ہے_ وہى عبادت وپرستش كے لائق ہے منتہا وہى وہ ذات ہے جو اس كائنات پرحاكم ہے اسى پر ايمان لاؤ اوراپنے ايمان كوظلم وستم سے آلودہ نہ كرو تا كہ امن او ر ہدايت كا راستہ پاؤ_

53
توضيح اور تحقيق
يہ اللہ تعالى كى طرف سے دليل تھى جو حضرت ابراہيم عليہ اسلام كو تعليم كى گئي تا كہ وہ اپنى قوم كى بيدار اور آگاہ كر سكيں اور انہيں موحوم تصورات اور غلط عقائد سے نجات دلا سكيں _ يہ دليل تمام انسانوں كى اس فطرت پر مبنى ہے جسكے تحت وہ جانتے ہيں كہ ہر موجود كے لئے علت ضرورى ہے اور ہر مخلوق كا كوئي خالق ہے_
اس فطرت كى بنا پر حضرت ابراہيم عليہ السلام ى قوم اس سلسلہ ميںكسى شك و شبہ كا شكار نہ تھى كہ وہ كسى دوسرى ذات كى پروردہ اور مخلوق ہيں اور ايك قادر و توانا ہاتھ ہے جوان كى اس طرح پرورش كر رہا ہے اور در حقيقت ايك خالق پرروردگار موجود ہے_
ليكن وہ اپنے اس پروردگار كى پہچان كے سلسلے ميں لغزش كا شكار ہوگئے تھے _ايك گروہ بتوں كى پرستش كرتا تھا اور دورسرا گروہ سورج كو پوجتا تھا، ايك گروہ چاند اور بعض ستاروں كو اپنا پروردگار سمجھتا تھا_
حضرت ابراہيم عليہ السلام اپنے مختصر سوالوں سے ان كى سوئي ہوئي دعقلوں مو جھنجھوڑتے اور انھيں آگاہ كرتے تھے تا كہ وہ بيدار ہوجائيں اور شرك كى بدنمائي كو ديكھ كر توحيد اور خداپرستى كى طرف آجائيں_
حضرت ابراہيم عليہ السلام ان كے درميان بيٹھتے تھے اور ان سے محبت اور مہربانى سے گفتگو كرتے تھے اور ان كے ساتھ بحث و مباحثہ كے دوران ان باتوں كو ترجيح ديتے تھے جو فطرت سے ہم آہنگ اور ان كے لئے قابل قبول ہوا

54
كرتى تھيں _ اور كوشش كرتے تھے كہ ان كے تاريك ذہنوں روشنى كا ايك دريچہ كھول ديں _ اور انہيں بتاتے تھے كہ جن چيزوں كى تم پرستش كرتے ہو وہ خود مخلوق اور اپنے كے لئے كس دوسرے كے محتاج ہيں_ وہ كبھى طلوع ہوتے ہيں اور كبھى غروب _ اور مجبور ہيں كہ اپنے وجود كے لئے كسى بے نياز سرچشمہ پر تكيہ كريں_
اور وہى بے نياز سرچشمہ ہے كہ جس نے انھين پيدا كيا ہے وہى زمين اور آسمان كا خالق ہے اور وہى تمہارا پروردگار بھى ہے_ ميں حق پسنديدہ اور حنيف ہوں، مين اسى ذات كى طرف متوجہ ہوں اور وہى زمين اور آسمانوں كا خالق ہے اور اس كا كسى كو شريك قرار نہيں ديتا_ اس كے سوا كى حكومت اور ولايت كو قبول نہيں كرتا اور اس كے سوا كسى اور كى عبادت و اطاعت نہيں كرتا
خداوندعالم نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كے ان كلمات كو قرآن مجيد ميں بيان كيا ہے اور تمام حق پسند اور حنيف انسانوں سے چاہا ہے كہ آپ كى اقتدار كريں اور حضرت ابراہيم عليہ السلام يك طرح تمام چيزوں سے دل خالى كريں اور زمين اور آسمان كے خالق سے وابستہ ہو جائيں، اسے محبت كريں اور اس سے مانوس اور آشنا ہوجائيں_

آيت قرآني
انّى وجّہت وجہى للّذى فطر السّموت و الارض حنيفا وّ ما انا من المشركين''

55
ميںنے اپنا رخ اس ذات كى طرف كرليا ہے جس نے زمين اور آسمانوں كوپيداكياہے ميںحق پسند ہوں،مشركين ميںسے نہيںہوں''
''سورہ انعام 6 آيت 79''

سوچيئےور جواب ديجيے
1)___ ہم اپنى ضروريات سے كس طرح بہتر طريقہ سے واقف ہوسكتے ہيں؟ اوراس واقفيت كا كيا نتيجہ نكلے گا؟
2)___ حضرت ابراہيم (ع) بت پرستوں كى خوابيدہ عقل كو بيدار كرنے كيلئے كيافرماتے تھے؟ اوركس طرح ان سے گفتگو كرتے تھے؟ اوركس طرح دليل ديتے تھے؟
3) آپ نے ستارہ پرستوں سے كياكہا اوركس طرح ستارے كے غروب ہوجانے سے بے نياز خالق كيلئے دليل لائے؟
4)___ چاند پرستوں سے كياكہا اور ان كيلئے واضح دليل كس طرح بيان كي؟
5) ___ سورج پرستوں سے كيا كہا اور جب مشركوں كے درميان سے اٹھے توان سے كيا كہا؟
6)___ حضرت ابراہيم (ع) كى گفتگوكيا چيز بيانكرتى ہے_ برہان نظم اوربرہان علّيت كى وضاحت كيجيئے؟
7) ___ حنيف كسے كہتے ہيں؟ خداتعالى مومن انسان سے كياچاہتاہے؟
اوران سے كس شخص كى اقتدا چاہتا ہے اوركس طرح؟