آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ سوم
  243
شہيدوں كے پيغام
'' شہاد'' كتنى اچھى چيز ہے پورے شوق اور ايثار كى دنيا اس لفظ شہادت ميں مخفى ہے_ جانتے ہو ''شہيد'' كون ہے؟
شہيد وہ بلند پايہ انسان ہے جو اللہ پر ايمان و عشق اور انسانى قدر و قيمت كے زندہ كرنے كے لئے اپنى عزيز جان كو قربان كرے_ يہ مادّى دنيا شہيد كى بزرگ روح كے لئے چھوٹى اور تنگ ہے_
شہيد اپنى فداكارى و بہادرى سے اپنے آپ كو دنياوى قفس سے رہا كرتا ہے اور آخرت كى نورانى وسيع دنيا كى طرف پرواز كرجاتا ہے وہ ہميشہ زندہ رہتا ہے اور اپنے رب سے رزق پاتا ہے_
شہيد كا نام، اس كى فداكاري، اس كا اپنى جان سے ہاتھ دھو بيٹھنا اور اس كى خلق خدا كى خدمات كا سننا يہ تمام كے تمام ايك مفيد درس ہيں_
شہيد كى قبر كى زيارت ، اس كے پيغام كا سننا اور اس كى وصيت كو سننا كتنا جوش و خروس لاتا ہے_
شہيد كے آثار كا مشاہدہ كرنا انسان كے لئے كتنا ہى بيدار انسان كى جان ميں جوش پيدا كرديتا ہے اور شہيد كى ياد ايك آگاہ انسان كے لئے كتنى گرمائشے پيدا كرديتى ہے يہاں تك كہ شہيد پر رونا آسمانى اور روحانى گريہ

244
ہوتا ہے_
ذلّت و خوارى كا گريہ نہيں ہوا كرتا بلكہ عشق و شوق كے آنسو ہوا كرتے ہيں_ واقعا كوئي بھى نيك عمل، شہادت سے بالاتر اور قيمتى نہيں ہوا كرتا_ پيغمبر اسلام (ص) نے شہيد كى عظمت كو كس خوبصورتى سے بيان كيا ہے آپ(ص) نے فرمايا ہے:
'' ہر نيك عمل كے اوپر كوئي نہ كوئي نيك عمل موجود ہوتا ہے مگر خدا كى راہ ميں شہادت كہ جو ہر عمل سے بالاتر و قيمتى تر ہے اور كوئي عمل بھى اس سے بہتر و بالاتر نہيں ہے''
اسى عظيم مرتبہ و مقام تك پہونچنے كى علت تھى كہ جب حضرت على عليہ السلام كے سر مبارك پر تلوار لگى تو آپ (ع) نے فرمايا كہ:
' ' مجھے ربّ كعبہ كى قسم كہ ميں كامياب ہوگيا ہوں''
اب جب كہ تمھيں شہادت و شہيد كے مقام و رتبہ سے كچھ آگاہى ہوگئي ہے ہو تو بہتر ہوگا كہ چند شہيدوں كے پيغام كو يہاں نقل كرديں كہ جن سے عشق اور آزادگى كا درس ملتا ہے_
1)__ _ حضرت على عليہ السلام جو ہميشہ شہادت كى تمنّا ركھتے تھے جب آپ كى پيشانى تلوار سے زخمى كردى گوئي اور آپ اپنى عمر كے آخرى لمحات كو طے كر رہے تھے تو آپ نے اس وقت يہ وصيّت فرمائي:
'' متقى و پرہيزگار بنو، دنيا كو اپنا مطمع نظر و ہدف قرار نہ دينا، دنيا كى دولت كى تلاش ميں مت رہنا، دنيا كى دولت اور مقام تك نہ پہونچنے پر غمگين نہ ہونا، ہميشہ حق كے طلبگار بنو، حق كہا كرو، يتيموں پر مہربان رہو، احكام الہى كے جارى كرنے ميں مستعد رہنا اوركبھى كسى ملامت كرنے والے كى ملامت

245
سے متاثر نہ ہونا''
2)___ جب امام حسين عليہ السلام شہادت كے لئے تيار ہوگئے تو اپنے اصحاب سے يوں فرمايا:
'' كيا نہيں ديكھ رہے ہو كہ حق پر عمل نہيں كيا جارہا ہے كيا نہيں ديكھ رہے ہو كہ باطل سے نہيں روكا جا رہا ہے_ اس حالت ميں مومن كو چاہيئے كہ اللہ تعالى كى ملاقات اور شہادت كے لئے آمادہ ہوجائے كيونكہ ميرے نزديك راہ خدا ميں مرنا سوائے سعادت و كاميابى كے كچھ نہيں ہے اور ظالموں كے ساتھ زندگى سوائے افسردگي، دل تنگي، رنج اور مشقت كے كچھ نہيں ہے''
كيا ان دو پيغاموں ميں خوف اور ڈركى كوئي جھلك ہے؟ كيا ظالموں كے سامنے سر نہ جھكانے ميں ذلّت و خوارى ہے؟ نہيں ہرگز نہيں جو شخص شہادت كو سعادت جانتا ہوگا وہ كبھى بھى ظلم و ستم كے سامنے سر نہ جھكائے گا_ نہ صرف ہمارے ائمہ عليہم السلام اس طرح كے تھے بلكہ ان كے صحيح پيروكار اور شاگرد بھى اسى طرح كے تھے ان صحيح پيروكاروں كى بعض اہم وصيتوں كى طرف توجہ كرو_
( يہ ان لوگوں كى وصيتيں نقل ہو رہى ہيں جو عراق و ايران جنگ ميں ايران كى طرف سے شہيد ہوئے ہيں)
1)___ ان ميں سے ايك حوزہ علميہ قم كے طالب علم محمود صادقى كاشانى ہيں؟
اپنے وصيّت نامہ ميں يوں تحرير فرماتے ہيں:
'' بسم رب الشّہداء اشہد ان لا الہ الّا اللہ وحدہ لا شريك لہ و اشہد انّ محمدا عبدہ و رسولہ''

246
خدا كا شكر ہے كہ ميں نے حق كى جنگ ميں جو باطل كے خلاف ہو رہى ہے شركت كرنے كى سعادت حاصل كى ہے ميرے پاس جو كچھ ہے ميں نے مخلصانہ طور پر اللہ كے سامنے پيش كرديا ہے جس چيز كے اردگرد امام حسين عليہ السلام، ان كے ياران وفادار اور صدر اسلام كے شہيد، پروانہ كى طرح چكّر لگا رہے تھے ميں نے ھى اسے پاليا ہے يعنى وہ ہے ''شہادت''
آيا كوئي شخص يہ برداشت كرسكتا ہے كہ اس كى آنكھوں كے سامنے ظالم و متجاوز اس كے اسلام و عزّت اور وطن كى طرف ہاتھ بڑھائے اور وہ خاموش ديكھتا رہے؟
اب ميں جا رہا ہوں تا كہ اپنے خدا سے ملاقات كروں اس آگ كو جو ميرے اندر جل رہى ہے اسے بجھا سكوں_ ميں بھى اب اس باصفا جنگ كے آشيانہ كى طرف پرواز كر كے اپنے جنگجو بھائيوں كے خالى مورچوں (محاذوں) كى طرف جا رہا ہوں ليكن مجھے اپنے رہبر زمانہ، حجّت عصر نائب امام آيت اللہ خمينى ( رضوان اللہ تعالى عليہ) جو آج كے بت شكن ہيں كى قدر دانى كرنى چاہيئے كيونكہ انھوں نے مجھے دنيا كے گرداب اور تاريكيوں سے كہ جن ميں گر كرہيں تباہ ہونے كے قريب تھا اور وہ ميرے ہادى و رہنما ہيں_
اے ميرے جنگجو ساتھيو اور دوستو تم بہتر جانتے ہو كہ يہ انقلاب جو ايران ميں لايا گيا ہے كس طرح كامياب ہوا ہے
كتنے على اكبر (ع) ، على اصغر (ع) اور حبيب ابن مظاہر (ع) ... كے نقش قدم

247
پر چلنے والوں كے قتل كئے جانے سے كاميباب ہوا ہے خدا نہ كرے كہ تم اس انقلاب سے بے توجہ ہوكر بيٹھ جاؤ اوردنيا كو آخرت پر ترجيح دو_ كسى غم و اندوہ كو اپنے پا سنہ آنے دو كيونكہ ہم ہى كامياب ہيں_
اے ميرے ماں باپ ميرى سمجھ ميں نہيں آتا كہ آپ كا كس طرح شكريہ ادا كروں؟ ابّا جان مجھے ياد ہے كہ جب آپ قم آئے تھے تو ميںنے دوسرے لوگوں سے كہا تھا كہ باپ كى رضا (جنگ ميں جانے كے لئے) ضرورى ہے لہذا آپ بغير كسى دريغ كے دفتر ميں گئے اور اپنے راضى نامہ پردستخط كرديا_
اے ميرى ماں مجھے ياد ہے كہ تونے ميرے بڑا كرنے ميں بڑى زحمتيں اٹھائي ہيںاور آخرى وقت جب ميں تم سے جدا ہو رہا تھا تو يوں كہا تھا كہ:
'' محمود ہوشيار رہنا اور بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''
ميرى پيارى ماںميں محاذ جنگ پر تھا تو مجھے برابر تمھارا يہ جملہ ياد آتا تھا كہ بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''_ امّاں ميرى موت پر كہيں بے قرار نہ ہونا، لباس نہ پھاڑنا اور آخرى عمر تك ناراضگى كى آگ ميں نہ جلاتے رہنا كيونكہ يہ دشمن كے طعن و تشنيع كا موجب ہوجائے گا_ ميں اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں كو وصيّت كرتا ہوں كہ اس انقلاب سے اور تمام جہان كے محروم طبقے كے رہبر انقلاب سے

248
كنارہ كشى نہ كرنا_ خدا تمھارا يار و مددگار ہو''
2)___ تہران كے شہيد سيّد على اكبر مير كوزہ گرنے اپنے بہترين اورپر مغز وصيت نامہ ميں يوں تحرير كيا ہے:
'' حقيقت كے ترازو ميں اللہ تعالى كے نزديك كوئي قطرہ اس خون كے قطرہ سے كہ جو راہ خدا ميں بہايا جائے بہتر نہيں ہوتا اور ميں چاہتا ہوں كہ اس خون كے قطرے سے اپنے معشوق تك پہونچوں كہ جو خدا ہے_
ميں وصيت كرتا ہوں كہ ميرے مرنے كے بعد گريہ و زارى نہ كرنا ميرے تمام دوستوں كومباركباد دينا اور كہنا كہ وہ اس امّت اسلامى كے رہبر اور نائب امام كا ہديہ خدا كى راہ ميںہے اسى وجہ سے سيّد، جہاد كے لئے گيا ہے اور جام شہادت نوش كيا ہے''
اس شہيد كے پيغام كو سنو كو ''جہاد'' دو چيزيں چاہتا ہے:
ايك وہ خون جو شہيد ديتا ہے_
دوسرے شہيد كا پيغام جو سب تك پہونچنا چاہيئے_
''مير باپ سے كہدينا كہ اب ہم اپنے جدّ بزرگوار كے سامنے شرمندہ نہيں ہيں كيونكہ ان كا فرزند اس راستہ پرگيا ہے كہ جس پر امام حسين عليہ السلام اوران كى اولاد گئي تھي_ ابّا جان ميرى وصيت آپ كو يہ ہے كہ ميرے مشن كو آگے بڑھائيں''
3)___ خرّم شہر (جسے خونين شہر بھى كہا جاتا ہے) كے ايك فداكار پاسدار شہيد حسين حمزہ كہ جنھوں نے صحيح طور سے قرآن اور وطن كى شجاعانہ و فداكارانہ پاسداري

249
كى تھى وہ اپنى ماں كو آخرى خط مں يوں لكھتے ہيں:
'' اب جب كہ تيس دنوں سے كفّار كے ساتھ جنگ كر رہا ہوں اور ہر دن اس اميد پر ديكھتا ہوں كہ شہادت كے درجہ پر فائز ہوں ليكن مجھے نہيں معلوم كہ اتنى طويل مدّت تك كيوں شہادت كا افتخار مجھے نصيب نہيں ہوا
ميرى پيارى ماں
ميں نے تم كو بہت ڈھونڈا تا كہ تمھارى وصيت كو سنوں ليكن تمھيں نہيں پايا_ جنگ كى ابتداء سے آج تك (يعنى 23/7/ 59 شمسي) ہميشہ تمھارى ملاقات كى فكر ميں تھا ليكن كامياب نہ ہوسكا_
امّا جان
اگر تم مجھے نہ ديكھ سكى تو مجھے بخش دينا، تم بہتر جانتى ہو كہ ميں اس انقلاب كى ابتداء سے ہميشہ چاہتا تھا كہ اس مين ميرا حصّہ رہے_ مادر جان ميرى موت كى خبر سننے كے بعد اشك نہ بہانا اور ميرى بہنون سے بھى كہنا كہ ميرى موت پر اشك نہ بہائيں كيونكہ ہمارے موالا و آقا حضرت امام حسين عليہ السلام اپنے فرزند كى موت پر اشك نہيں بہائے تھے چونكہ حضرت جانتے تھے كہ اللہ كى رضا اسى ميں ہے_
مادر گرامي
شائد ميرا قرآن و اسلام كى راہ ميں مرنا جوانوں ميں جوش پيدا كردے نہ صرف ميرى موت پر بلكہ تمام شہداء كى موت پر كہ جو

250
اللہ كى راہ ميں اسلام كے مقدس ہدف كے لئے ہوتى ہے، تم بھى خوش ہونا كہ اپنے فرزند كو راہ اسلام ميں قربان كيا ہے_ آخرت ميں حضرت فاطمہ زہرا عليہا السلام تم سے كوئي گلہ اور شكوہ نہ كريں گي_
يہ خط ايسے وقت ميں لكھ رہا ہوں كہ دشمن كے توپوں اور گوليوں كى آواز ہر طرف سے آرہى ہے_ ميں اپنے ساتھيوں كو ديكھ رہا ہوں كہ وہ تكبير كہتے ہوئے تو پوں كے گولے پھٹنے سے شہيد ہو رہے ہيں_
اے ميرے خدا تجھے تيرى وحدانيّت كى قسم ديتا ہوں اسلام كى راہ ميں مجھے شہادت نصيبت كر اور ميرے گناہوں كو بخش دے مجھے شہداء كى صف ميں قرار دے_
خدايا مجھے طاقت و قدرت عنايت فرما اور مجھ پر لطف كر كہ عمر كے آخرى لمحے تك تيرا نام ميرى زبان پر جارى رہے_ شكر ہے اس خدائے بزرگ كا كہ جس نے مجھ پر عنايت فرمائي ہے كہ ميں اپنى جان اسلام پر قربان كروں، اسلام كامياب ہو اور اسلام و قرآن كے دشمن نابود ہوں_ سلام ہو اس امت اسلامى كے رہبر انقلاب آقائے خمينى پر_ خداحافظ''
ان شہيدوں كے پيغام كا متن دوسرے ہزاروں شہيدوں كے پيغام كى طرف انقلاب اسلامى كى كتابوں كے بہترين صفحات پر لكھا جائے گا ہميشہ كے لئے رہ جائے گا اور يہ آزادى و جاودانى كا درس ہوگا_ اے پڑھنے والے طالب علمو تم اس ا بدى پيغام كو دوبار پڑھنا، شہيدوں و آزاد منشوں كے پيغام سے زندگي، آزادي، شجاعت، دليري، ايثار، مہرباني، عشق، خداپرستي، اخلاص و ايمان كا درس حاصل كرنا_

251
سوالات
سوچويے اور جواب ديجئے
1)___ پيغمبر اسلام (ص) نے شہيد كے متعلق كيا فرمايا ہے؟
2)____ اميرالمومنين عليہ السلام نے اپنى عمر كے آخرى لمحہ ميں كيا كہا تھا؟ اس وصيّت ميں كن كن چيزوں كو بيان كيا ہے؟
3)___ امام حسين عليہ السلام نے راہ خدا ميں قتل ہوجانے كے متعلق كيا فرمايا ہے؟ مومن كوكب شہادت اور فداكارى كے لئے تيّار ہوجانا چاہيئے؟
4)___ طالب علم كاشانى نے اپنے وصيت نامہ كو كن جملوں سے شروع كيا ہے؟ درج ذيل جملوں كو اس كى وصيّت كے مطالعہ كے بعد پورا كيجئے:
1)__ '' خدا كا شكر كہ مجھے توفيق ملي ...
2)__ كيا كوئي برداشت كرسكتا ہے كہ ...
3)__ ميں اب اپنے ساتھيوں كے خالى مورچے ...
4)__ اپنے رہبر، حجّت زمان، نائب امام (ع) ...
5)__ خدا كرے كہ تم كفّار ...
6)__ ابّا جان آپ كو ياد ہے جب آپ قم آئے تھے تو ...
7)__ امّا جان مجھے ياد ہے ...
8) ميرے خاندان او ردوستوں كو ...