234
شہادت كا ايك عاشق بوڑھا اور ايك خاتون جو شہيد پرور تھي
موت سے كون ڈرتا ہے اور كون نہيں ڈرتا ؟
جو موت كو فنا سمجھتا ہے اور آخرت پر اعتقاد نہيں ركھتا وہ موت سے ضرور ڈرے گا اور موت سے بچنے كے لئے ہر قسم كى ذلّت و عار كو برداشت كرے گا_ اس قسم كے لوگ دنيا كى محدود زندگى كو سوچتے ہيں اور اپنى پورى كوشش كو مادّى و زود گذر خواہشات كے لئے صرف كرتے ہيں اور زيادہ تر اپنے شخصى منافع كے بارے ميں سوچتے ہيں اور حيوانوں كى طرح دن رات گذارتے ہيں پھر ذلّت و خوارى سے مرجاتے ہيں اور وہ اپنى غفلتوں، كوتاہ نظريوں و برے كردار كى سزا پاتے ہيں_
ليكن جو انسان خدا و آخرت پر ايمان ركھتا ہے وہ موت سے نہيں ڈرتا كيونكہ جانتا ہے كہ موت نيست و نابود ہونے كا نام نہيں ہے بلكہ بلند ہمّتى و بے نظير بہادرى كے ساتھ اپنى ا ور اپنے معاشرہ كى شرافت و عزّت كے لئے جنگ كرتا ہے راہ خدا اور اپنے ايمان و عقيدہ كى حفاظت كے لئے جان و مال دينے سے دريغ نہيں كرتا اپنى پورى توانائي كو خدا كى رضا اور بندگان خدا كى فلاح ميں صرف كر كے با عزّت زندگى بسر
235
كرتا ہے اور آخرت ميں الطاف الہى سے بہر ہ مند ہوتا ہے_
قبيلہ عمر و ايسے ہى مومن انسان كا ايك مجسم نمونہ تھا جو شہادت و ايثار سے عشق ركھتا تھا چنانچہ اللہ تعالى كى ذات و آخرت پر ايمان لانے كى قدر و قيمت كو پہچاننے كے لئے اس پر افتخار گھرانے كى داستان كے ايك گوشہ بالخصوص عمرو كى داستان كو ذكر كيا جاتا ہے_
مدينہ كے مسلمانوں كو پتہ چلا كہ كفّار مكہ، مدينہ پر حملہ كرنے كے لئے آر ہے ہيں، مسلمان پيغمبر اسلام(ص) كے حكم كے بعد دفاع كے لئے آمادہ ہوچكے تھے، مدينہ كى حالت بدل چكى تھى ہر جگہ جہاد و شہادت كى گفتگو ہو رہى تھى صلاح و مشورہ كے بعد يہ طے پايا كہ سب شہر كے باہر جائيں اور قبل اس كے كہ دشمن ميں پہونچيں شہر كے باہر ہى ان كا مقابلہ كيا جائے ج ان سپاہى اپنى ماؤں كے ہاتھ چومتے اور ان سے رخصت ہو رہے تھے اور گروہ گروہ ميدان جنگ كى طرف روانہ ہو رہے تھے_
مرد اپنے بچوں اور بيويوں سے رخصت ہو كر احد كے پہاڑ كى طرف روانہ ہو رہے تھے_ عمرو بن جموح كے چار بہادر بيٹے جہاد كے لئے آمادہ ہوچكے تھے يہ چاروں بہادر اس سے پہلے بھى جنگوں ميں شركت كيا كرتے تھے اور قرآن و اسلام سے دفاع كرنے ميں ہر قسم كى فداكارى كے لئے تياررہتے تھے_
عمرو ديكھ رہا تھا كہ اس كے فرزند كس شوق و محبّت سے اسلحوں سے آراستہ ہوكر ميدان جنگ ميں جانے كے لئے آمادہ ہو رہے ہيں اور مسلمان پيادہ و سوار، لباس جنگ زيب تن كئے تكبير كہتے دمشن كى طرف چلے جا رہے ہيں اسے يقين ہوگيا تھا كہ ان اسلام كے سپاہيوں كو كبھى شكست نہيں ہوسكتي، وہ جنگ كے ميدان ميں دليرانہ جنگ كريں گے اپنى عزّت و شرف كا دفاع كريں گے_
اس كے نتيجہ ميں يا دشمن پر فتح پاليں گے يا شہادت كے درجہ پر فائز ہوں گے
236
التہ اگر شہيد ہوگئے تو اللہ تعالى كے فرشتے ان كى پاك روح كو بہشت تك لے جائيں گے اور وہ بہشت كى نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور جوار الہى ميں خوش و خرّم زندگى بسر كريں گے_
اس منظر كو ديكھ كر عمرو كى آنكھوں ميں آنسو بھر آيا او ردل ميں كہا:
'' كاش ميرا پاؤں لنگڑا نہ ہوتا اور ميں بھى اپنے بيٹوں كے ساتھ جہاد كرنے جاتا''_
اسى حالت ميں اس كے چاروں نوجوان بيٹے اس سے رخصت ہونے كے لئے آئے انھوں نے باپ كا ہاتھ چو ما عمرو نے ان كى پيشانى اور چہروں كو بوسہ ديا_ اسلام كے فداكاروں كے گرم خون كو اس نے نزديك سے محسوس كيا اور اس كى حالت دگرگوں ہوگئي
'' صبر كرو صبر كرو ميں بھى تمھارے ساتھ جہاد كے لئے آتا ہوں''
اس كے بيٹے حيرت زدہ ہوكر سوچنے لگے كہ كس طرح ہمارا با ہمارے ساتھ جہاد كرے گا؟ حالانكہ وہ بہت بوڑھا ہے اور اس كا ايك پاؤں بھى لنگڑا ہے ايسے انسان پر اسلامى قانون كے رو سے تو جہاد واجب ہى نہيں ہوا كرتا_
بيٹے اسى فكر ميں كھڑے تھے كہ باپ نے لباس جنگ زيب تن كيا تلوار ہاتھ ميں لى اور چلنے كے لئے تيار ہوگيا_ بيٹوں نے باپ كو منع كيا ليكن وہ اپنے ارادہ سے باز نہ آيا مجبوزا انھوں اپنى ماں اور بعض رشتہ داروں سے باپ كو روكنے كے لئے كہا بچّوں كے اصرار پر انھوں نے عمرو سے كہا كہ:
'' تم بڑھاپے و لنگڑا پن كى وجہ سے دشمن پر حملہ نہيں كرسكتے ہو نہ ہى اپنے سے دفاع كرسكتے ہو اور خداوند عالم نے بھى تم پر
237
جہاد واجب نہيں كيا ہے لہذا بہتر يہى ہے كہ تم مدينہ ميں رہ جاؤ اور يہ چار جوان بيٹے ہيں جو ميدان جنگ ميں جا رہے ہيں كافى ہيں''
عمرون نے جواب ديا كہ:
'' تم نہيں ديكھ رہے ہو كہ كافروں كى فوج نے ہم پر حملہ كرديا ہے اسلام اور پيغمبر اسلام (ص) كو خطرے ميں ڈال ديا ہے، كيا اسلام و پيغمبر اسلام (ص) كا دفاع كرنا واجب نہيں ہے؟
كيا تم نہيں ديكھ رہے ہو كہ اسلام كے جانباز سپاہى كس شوق سے جہاد كے لئے جا رہے ہيں؟ كيا تم يہ چاہتے ہو كہ ميں يہ سارى شان و شوكت، شوق كو ديكھتا رہوں اور چپ ہوكر بيٹھ جاؤں؟
كيا تم يہ كہتے ہو كہ ميں بيٹھ جاؤں اور دوسرے لوگ ميدان ميں جائيں كافروں كے ساتھ جنگ كريں، شہادت كے فيض اور پروردگار كے ديدار سے شرف ياب ہوں اور ميں محروم رہ جاؤں؟
نہيں اور ہرگز نہيں ميں پسند نہيں كرتا كہ بستر پر مروں، ميں باوجوديكہ بوڑھا و لنگڑا ہوں ليكن يہ چاہتا ہوں كہ شہيد ہوجاؤں''_
چنانچہ انھوں نے كوشش كى كہ اس بوڑھے اور ارادے كے پكّے انسان كو جنگ سے روك ديں ليكن اس ميں انھيں كاميابى نہ ملى او ربات اس پر ٹھہرى كہ پيغمبر اسلام(ص) كى خدمت ميں جائيں اور آپ سے اس كے متعلق تكليف معلوم كريں وہ لوگ حضور كے پاس گئے اور عرض كيا:
'' يا رسول اللہ (ص) ميں چاہتا ہوں كہ اپنے بيٹوں كے ساتھ جنگ ميں شريك ہوں تا كہ اسلام و مسلمانوں كى مدد كرسكوں اور آخر ميں
238
شہا دت كے فيض سے نوازا جاؤں ليكن ميرا خاندان مجھے ادھر نہيں جانے ديتا''
پيغمبر اسلام (ص) نے جواب ديا:
'' اے عمرو جانتے ہو كہ بڑھاپے اور عضو كے ناقص ہونے كى وجہ سے تم پر جہاد واجب نہيں ہے''
عمرو نے كہا:
'' يا رسول اللہ (ص) كيا ميرے عضو كا يہ نقص مجھے اتنے بڑے فيض اور نيكى سے محروم كرسكتا ہے؟''
پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا:
'' جہاد تو تم پر واجب نہيں ليكن اگر تيرا دل چاہتا ہے كہ جہاد ميں شركت كرے تو اس سے كوئي مانع نہيں ہے''
اس وقت پيغمبر اسلام (ص) نے اس كے رشتہ داروں كى طرف نگا كى اور فرمايا كہ:
'' اس پر جہاد تو واجب نہيں ہے ليكن تم پر ضرورى نہيں كہ اصرار كرو اور اسے اس نيكى سے روكو اسے اپنے اختيار پر چھوڑ دو اگر وہ چاہے تو جہاد ميں شركت كرے اور اس كے عظيم ثواب سے بہرہ مند ہو بلكہ ہوسكتا ہے كہ اسے شہادت نصيب ہوجائے''
عمرو نے خوش ہوتے ہوئے پيغمبر اسلام (ص) كا شكريہ ادا كيا اور اپنى بيوى (ہند) اور دوسرے رشتہ داروں سے رخصت ہوكر ميدان جنگ كى طرف روانہ ہوگيا_ اس نے ميدان جنگ ميں بڑى بہادرى سے جنگ لڑى اپنے بيٹوں كے ساتھ داد شجاعت لى دشمنوں كى كافى تعداد كو بلاك كيا اور آخر ميں اپنے بيٹوں كے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوگيا_
239
اس جنگ ميں چند لوگوں كى دنيا ظلم و كم صبرى اور نافرمانى كى وجہ سے شہداء كى تعداد زيادہ تھى جنگ كے خاتمہ پر شہر مدينہ كى عورتيں اپنے فرزندوں اور رشتہ داروں كے لئے ميدان جنگ ميں آئيں تا كہ اپنے رشتہ داروں كا حال معلوم كريں_ ہند سب سے پہلے ميدان ميں پہونچى اپنے شوہر، بھائي اور ايك فرزند كى لاش كو اونٹ پر ركھ كر مدينہ كى طرف روانہ ہوگئي تا كہ وہاں ان كو دفن كردے ليكن جتنى وہ كوشش كرتى تھى اس كا وہ اونٹ مدينہ كى طرف نہيں جاتا تھا بہت مشكل سے كئي قدم اٹھاتا پھر ٹھہر جاتا اور واپس لوٹ جاتا گويا وہ چاہتا تھا كہ احد كى طرف ہى لوٹ جائے اسى حالت ميں چند عورتوں سے اس كى ملاقات ہوگئي جو ميدان جنگ كى طرف جا رہى تھيں_ ان ميں پيغمبر اسلام (ص) كى ايك زوجہ بھى تھيں آپ نے ہند سے احوال پرسى كى اور سلام كيا:
كہاں سے آرہى ہو؟
احد كے ميدان سے
كيا خبر ہے؟
الحمد اللہ كہ پيغمبر اسلام (ص) صحيح و سالم ہيںمسلمانوں كا ايك گروہ شہيد ہوگيا ہے اور چونكہ ہمارے پيغمبر(ص) سالم ہيں لہذا دوسرى مصيبتوں كو تحمّل كيا جاسكتا ہے خدا كا شكر ہے_
اونٹ پر كيا لادا ہے؟
تين شہيدوں كے جسم كو ايك ميرا شوہر، ايك بيٹا اور ايك ميرا بھائي ہے انھيں ہميں لے جا رہى ہوں تا كہ مدينہ ميں سپرد خاك كروں نہ جانے كيا بات ہے كہ جتنى كوشش كرتى ہوں كہ اونٹ كو مدينہ كى طرف لے چلوں اونٹ مدينہ كى طرف نہيں جاتا گويا اونٹ احد كى طرف واپس لوٹنا چاہتا ہے لہذا بہتر ہے كہ پيغمبر اسلام (ص) كے پاس جائيں اور اس واقعہ كو آپ سے بيان كريں اور اس كا سبب پوچھيں_
240
پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں گئيں اور پورے واقعہ كو آپ (ص) سے بيان كيا_ پيغمبر اسلام نے فرمايا كہ:
'' شايد جب تيرا شوہر جہاد ميں جانے كے لئے رخصت ہو رہا تھا تو آخرى كوئي بات كہى تھى اس نے كوئي دعا كى تھي؟ يا رسول اللہ (ص) كيوں نہيں آخرى وقت اس نے اپنا سر آسمان كى طرف بلند كيا تھا اور كہا تھا: '' اے خدا مجھے شہادت كے فيض سے شرفياب فرما اور پھر مجھے مدينہ واپس نہ لے آنا''
پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا:
''خداوند عالم نے اس كى دعا كو قبول كرليا ہے رہنے دو كيونكہ ہم تمھارے شہيدوں كو دوسرے شہداء كے ساتھ يہيں دفن كرديں گے''
ہند نے قبول كيا پيغمبر اسلام (ص) نے ان تين شہيدوں كو دوسرے شہداء كے ساتھ وہيں دفن كرديا اور فرمايا كہ:
'' يہ بہشت ميں ابھى اكھٹے ہوں گے''
ہند نے رسول خدا (ص) سے دعا كرنے كى خواہش كى اور كہا:
'' يا رسول اللہ (ص) دعا كيجئے كہ خداوند عالم مجھے بھى ان تينوں شہيدوں كے ساتھ محشور كرے''
پيغمبر اسلام (ص) نے دعا كے لئے ہاتھ اٹھائے اور اس صابرہ اور شہيد پرور خاتون كے لئے دعا فرمائي_ خدا كرے كہ پيغمبر اسلام (ص) كى يہ دعا تمام شہيد پرور ماؤں كے
241
پيغمبر اسلام (ص) كى حديث شريف:
و فوق كل بر بر حتّى يقتل الرّجل فى سبيل اللہ فاذا قتل فى سبيل اللہ فليس فوقہ بر
'' اور ہر نيكى كے اوپر ايك نيكى ہے يہاں تك كہ كوئي شخص راہ خدا ميں قتل كرديا جائے اور جب كوئي راہ خدا ميں قتل كرديا جائے تو پھر اس كے اوپر كوئي نيكى نہيں ہے''
242
سوالات
سوچيئےور جواب ديجئے
1)___ كيا مسلمان ننگ و عار اورذلّت كو قبول كرسكتا ہے؟ كيا كسى ظالم سے صلح كرسكتا ہے؟
2)___ مومن، وعدہ الہى كو پيش نظر ركھتے ہوئے كس اميد پر ميدان جنگ ميں شركت كرتا ہے؟ آخرت ميں اس كى جزاء كيا ہے؟
3)___ دو ميں سے ايك كون ہے؟
4)___ كس چيز نے عمرو كو ميدان جنگ ميں شريك ہونے پر ا بھارا تھا؟
5)___ عمرو نے ميدان جنگ ميں شريك ہونے كے لئے كون سے دلائل ديئےھے؟
6)___ عمرو نے جناب رسول خدا (ص) سے كيا گفتگو كى اور آخرى ميں اس نے كيا ارادہ كيا تھا؟
7)___ ہند كى گفتگو ان عورتوں سے جو ميدان احدم يں جا رہى تھيں كيا تھي؟
8)____ پيغمبر اسلام (ص) نے ہند سے كيا پوچھا تھا اور اس كے جواب دينے كے بعد اس سے كيا كہا تھا؟
|