آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ سوم
  227
اسلام ميں جہاد اوردفاع
جہاد ہر مسلمان پر واجب ہے اور يہ انسان كو آزادى دلاتا ہے_
جہاد كرنے والا آخرت ميں بلند درجہ اور خدا كى خاص رحمت و مغفرت كا مستحق ہوتا ہے_
جہاد كرنے والا ميدان جنگ ميں آكر اپنى جان كو جنّت كے عوض فروخت كرتا ہے_
يہ معاملہ بہت سودمند ہوتا ہے اور اس كے لئے اللہ تعالى كى رضا ہر جزا سے زيادہ قيمتى ہوتى ہے_
پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا ہے كہ:
'' جو لوگ خدا كى راہ ميں اس كے بندوں كى آزادى كے لئے قيام و جہاد كرتے ہيں وہ قيامت ميں جنّت كے اس دروازہ سے داخل ہوں گے جس كا نام '' باب مجاہدين'' ہے اور يہ دروازہ صرف مجاہد مومنين كے لئے ہى كھولا جائے گا_ مجاہدين بہت شان و شوكت اور عزّت و وقار سے ہتھار اٹھائے تمام لوگوں كے سامنے اور سب سے پہلے بہشت ميں داخل ہوں گے_
اللہ تعالى كے خاص مقرّب فرشتے ان كا استقبال كريں گے اور دوسرے جنّتى ان كے مقام كو ديكھ كر غبطہ كريں گے اور جو شخص اللہ كى راہ ميں جنگ و جہاد كو ترك كردے تو خداوند عالم سے ذلّت و خوارى كا لباس پہنائے گا وہ زندگى ميں فقير و نادار ہوگا اور

228
اپنے بدن سے ہاتھ دھو بيٹھے گا اور آخرت كے دردناك عذاب ميں مبتلا ہوگا_ خداوند عالم امت اسلامى كو اسلحہ پر تكيہ كرنے اور گھوڑوںو سواريوں كى رعبدار آواز كى جہ سے عزّت و بے نيازى تك پہونچاتا ہے''_
جو مومن مجاہدين ايسے جہاد ميں جو نجات دينے والا ہوتا ہے جنگ كے ميدان ميں متّحد ہوكر صفين باندھتے ہوئے سيسہ پلائي ہوئي ديوار كر كھڑے ہوجاتے ہيں انھيں چاہيئے كہ حدود الہى كى رعايت كريں اور اس گروہ سے جس سے جنگ كر رہے ہيں پہلے يہ كہيں كہ وہ طاغوت و ظالم كى اطاعت سے دست بردار ہوجائيں اورا للہ كے بندوں كو طاغوتوں كى قيدو بند سے آزاد كرائيں اور خود بھى وہ اللہ تعالى كى اطاعت كريں، اللہ كى حكومت كو تسليم كريں اگر وہ تسليم نہ ہوں اور اللہ تعال كى حكومت كو قبول نہ كريں تو اس وقت ان سے امام عليہ السلام يا امّت اسلامى كے رہبر نائب امام (ع) كے اذن و اجازت سے جنگ كريں اور مستكبر و طاغوت كو نيست و نابود كرديں اور اللہ كے بندوں كو اپنى تمام قوت و طاقت سے دوسروں كى بندگى اور غلامى سے آزاد كرائيں_ اس راہ ميں قتل كرنے اور قتل كئے جانے سے خوف نہ كريں كہ جس كے متعلق اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں كہ:
'' سب سے بہترين موت شہادت كى موت ہے اس ذات كى قسم جس كے قبضہ قدرت ميں ميرى جان ہے كہ اگر ميدان جنگ ميں دشمن سے لڑتے ہوئے ہزار دفعہ تلوار كى ضرب سے مارا جاؤں تو يہ مرنا ميرے لئے اس موت سے زيادہ پسند ہے كہ اپنے بستروں پر مروں''_

229
وہ جہاد جو آزادى دلاتا ہے وہ امام (ع) يا نائب امام (ع) كے اذن سے ہوتا ہے اور اس طرح كا جہاد كرنا صرف طاقتور، توانا اور رشيد مردوں كا وظيفہ ہے ليكن كس اسلامى سرزمين اور ان كى شرافت و عزّت پر كوئي دشمن حملہ كردے تو پھر تمام زن و مرد پر واجب ہے كہ جو چيز ان كے قبضہ ميں ہوا سے لے كر اس كا دفاع كريں_
اس صورت ميں جوانوں كو بھى دشمن پر گولہ بار كرنى ہوگى اور لڑكيوں پر بھى ضرورى ہوگا كہ وہ دشمن پر گولياں چلائيں تمام لوگ اسلحے اٹھائيں حملہ آور كو اپنى سرزمين سے باہر نكال ديں اور اگر ان كے پاس سنگين اسلحہ نہ ہو تو پھر پتھر اور لاٹھيوں سے د شمن پر ٹوٹ پڑيں اپنى جان كوقربان كرديں، پورى طاقت سے جنگ كريں اور خود شہادت كے رتبہ پر فائز ہوجائيں اور اپنى آنے والى نسلوں و جوانوں كے لئے شرافت و عزّت كو ميراث ميں چھوڑ جائيں_
اس قسم كا جہاد كہ جس كا نام دفاع ہے اس ميں امام (ع) يا نائب امام (ع) كى اجازت ضرورى نہيں ہوتى اس لئے كہ اسلامى معاشرے كى عزّت و شرافت اتنى اہم ہوتى ہے كہ اسلام نے ہر مسلمان پر واجب كيا ہے كہ بغير امام (ع) ياا س كے نائب كى اجازت كے دفاع كرے
مندرجہ ذيل واقعہ ميں كس طرح مسلمانوں نے بالخصوص عورتوں نے كفّار كے حملہ و اسلام كى عزّت اور اسلامى سرزمين كا دفاع كيا ہے مشاہدہ كرسكتے ہيں:

فداكار اور جرى خاتون:
مدينہ ميں يہ خبر پہونچى كہ كفّار مكہ حملہ كى غرض سے چل چكے ہيں اور وہ انقلاب اسلامى كے پودے كو جڑ سے اكھاڑ پھنيكيں گے، انصار و مہاجرين كے گھروں كو تباہ كرديں گے_

230
پيغمبر اسلام(ص) نے فوراً جہاد كا اعلان كراديا اور مسلمان گروہ در گروہ ان كے مقابلہ كے لئے نكل كھڑے ہوئے دشمن مدينہ كے نزديك پہونچ چكے تھے اور مسلمان ان كے مقابلہ كے لئے صف آرا ہوگئے ان كا راستہ روك كر ان كى پيش قدمى كو روك ديا_
عورتوں كا ايك فداكار اور با ايمان گروہ بھى اپنے شوہروں اور اولاد كے ساتھ ايمان و شرف اور اپنى سرزمين كے دفاع كے لئے ميدان جنگ ميں پہونچ گيا_ يہ اكثر افواج اسلام كى مدد كيا كرتى تھيں فوجيوں كے لئے غذا و پانى مہيا كرتيں اور زخميوں كى ديكھ بھال كيا كرتى تھيں اور اپنى تقريروں سے اسلام كى سپاہ كو جہاد و جاں نثارى كے لئے تشويق دلاتى تھيں_
انھيں فداكار خواتين ميں سے ايك ''نسيبہ'' تھيں جواپنے شوہر اور دو جوان بيٹوں كے ساتھ احد كے ميدان ميں جنگ كے لئے آئي تھيں انھوں نے بہت محبت و شوق سے پانى كى ايك بڑى مشك پر كر كے اپنے كندھے پر ڈالى اور تھكے ماندہ لڑنے والے سپاہيوں كو پانى پلا رہى تھيں، دوا اور صاف ستھرے كپڑے بھى ساتھ ركھے ہوئے تھيں اور ضرورت كے وقت زخميوں كے زخم كو اس سے باندھتى تھيں، اپنى پر جوش اور اميد دلانے والى گفتگو سے اپنے شوہر، دو بيٹوں، تمام فوجيوں اور مجاہدين كو دشمن پر سخت و تابڑ توڑ حملے كرنے كى تشويق دلا رہى تھيں_
جنگ اچھے مرحلے ميں تھيں اور فتح، اسلام كے سپاہيوں كے نزديك تھى ليكن افسوس كہ پہاڑ كے درّے پر معيّن سپاہيوں كے چند آدمى كى غفلت و نافرمانى كى وجہ سے جنگ كو نوعيت بدل گئي تھى اورمسلمانوں كے سپاہى دشمن كے سخت گھيرے ميں آگئے تھے مسلمانوں كى كافى تعداد شہيد ہوگئي تھى اور ان كے چند افراد جن كا ايمان قوى نہ تھا اپنے لئے ننگ و عار كو برداشت كرتے ہوئے پيغمبر (ص) كو اكيلا چھوڑ كر ميدان سے فرار كر گئے تھے _

231
پيغمبر اسلام(ص) كے پاس صرف تھوڑے سے مومن اور فداكار سپاہى رہ گئے تھے آپ (ص) كى جان خطرے ميں پڑگئي تھي_ دشمن نے اپنا پورا زور پيغمبر اسلام(ص) كے قتل كرنے پر لگاديا تھا_ حضرت على عليہ السلام اور چند دلير سپاہى آپ كے اردگرد حلقہ باندھے ہر طرف سے حملہ كادفاع كر رہے تھے_
جنگ بہت شديد و خطرناك صورت اختيار كرچكى تھي، اسلام كے سپاہى ايك دوسرے كے بعد كينہ ور دشمن كى تلوار سے زخمى ہوكر زمين پر گر رہے تھے_ اس حالت كو ديكھنے سے جناب نسيبہ نے مشك كا تسمہ اپنے كندھے سے اتارا اور جلدى سے ايك شہيد كى تلوار و ڈھال اٹھائي پيغمبر اسلام (ص) كى طرف دوڑيں اور بپھرے ہوئے شير كى طرح دشمنوں كے گھيرے كو برق رفتارى سے اپنى تلوار كے حملے سے توڑا اپنے آپ كو پيغمبر اسلام (ص) تك پہونچا ديا اپنى تلوار كو دشمنوں كے سر اور ہاتھوں پر چلا كر انھيں پيغمبر(ص) سے دور ہٹاديا_
اسى دوران ميں انھوں نے ديكھا كہ دشمن كے ايك سپاہى كے ہاتھ ميں تلوار ہے اور وہ تيزى سے آگے بڑھ رہا ہے تا كہ پيغمبر اسلام (ص) پروار كرے_ نسيبہ اس كى طرف بڑھتى ہيں اور اس پر حملہ كرتى ہيں_ دشمن جو چاہتا تھا كہ اپنا وار پيغمبر اسلام (ص) كے سرپر كرے اس نے جلدى سے وہ وار نسيبہ پر كرديا جس سے نسيبہ كا كندھا زخمى ہوجاتا ہے اس سے خون نكلنے لگا ہے اور پورا جسم خون سے رنگين ہوجاتا ہے ايك سپاہى اس نيم مردہ خاتون كو ميدان جنگ سے باہر لے جاتا ہے_
جب جنگ ختم ہوگئي تو پيغمبر اسلام (ص) مدينہ ميں زخميوں اور مجروحين كى ملاقات كے لئے گئے اور آپ (ص) نے اس فداكار خاتون كے بارے ميں فرمايا كہ:
'' اس خوفناك ماحول ميں جس طرف بھى ميں ديكھتا تھا نسيبہ كو ديكھتا تھا كہ وہ اپنى تلوار سے ميرا دفاع كر رہى ہے''

232
اس كے بعد نسيبہ جنگ احد كى داستان اورمسلمانوں كى فداكارى كو اپنے دوستوں سے بيان كرتى تھيں اور ان كے دلوں ميں ايثار و قربانى كے جذبات كو ابھارتيں اور ان ميں جنگ كے شوق كو پيدا كرتى تھيں اور كبھى اپنى قميص اپنے كندھے سے ہٹا كر اس زخم كے نشان دوسرى عورتوں كو دكھلاتى تھيں_ جنگ احد ميں اور بھى بہت سى چيزيں پيش آئيں جن كا ذكر ہمارے لئے مفيد ہے_
قرآن كى آيت:
انّ اللہ يحب الّذين يقاتلون فى سبيلہ صفّا كانّہم بنيان مرصوص (1)
'' خدا ان لوگوں كو دوست ركھتا ہے جو اس كى راہ ميں سيسہ پلائي ہوئي ديوار كى طرح جنگ كرتے ہيں''
--------
1) سورہ صف آيت 4
233
سوالات
سوچيئے اور جواب ديجئے
1)___ مرد مجاہدين ميں اپنى جان كو كس كے ہاتھ فروخت كرتا ہے اور اس معاملہ كا نتيجہ كيا ہوتا ہے؟
2)___ مجاہدين كس طرح جنّت ميں وارد ہوں گے؟
3)__ _ جو لوگ راہ خدا ميں جہاد نہين كرتے ان كا انجام كيا ہوتا ہے؟
4)___ خداوند عالم امّت اسلامى كو كس چيز سے عزّت بخشتا ہے؟
5)___ ميدان جنگ ميں ايك مجاہد دوسرے مجاہد كے ساتھ كيسا سلوك كرے؟
6)___ شہادت كے بارے ميں اميرالمومنين عليہ السلام نے كيا فرمايا ہے؟
8)___ دفاع كسے كہا جاتا ہے؟ مسلمانوں كى سرزمين، شرف و عزّت سے دفاع كرنا كس كا فريضہ ہے؟
9)___ نسيبہ، ميدان احد ميں پہلے كيا كام كرتى تھيں اور پھر كيوں انھوں نے لڑائي ميں شركت كي؟
10)___ پيغمبر اسلام (ص) نے نسيبہ كے بارے ميں كيا فرمايا؟