|
220
ظالموں كى مدد مت كرو
'' بنى اميہ كى حكومت ايك غاصب اور ظالم حكومت ہے ميں تمھيں اجازت نہيں ديتا كہ ظالم حكومت كى خدمت كرو اور اپنے عمل سے ان كى تائيد كرو''
( امام صادق عليہ السلام)
يہ بات امام جعفر صادق عليہ السلام نے اس شخص كے جواب ميں كہى تھى كہ جس نے آپ سے سوال كيا تھا '' كيا ميں بنى اميہ كے خلفاء كى خدمت كرسكتا ہوں؟ كيونكہ ميں ايك مدت سے بنى اميہ كے دربار ميں كرتا ہوں اور بہت كافى مال ميں نے حاصل كيا ہے اور اس كے حصول ميں بہت زيادہ احتياط و دقّت سے بھى كام نہيں ليا ہے لہذا اب كيا كروں؟
اس مال كا جو ميرے پاس موجود ہے كيا حكم ہے حلال ہے يا حرام؟ كيا ميں اس كام ميں مشغول رہ سكتا ہوں؟ ميرا ہونا يا نہ ہونا ان كى حكومت ميں كوئي اثرانداز نہيں ہوسكتا؟ اگر ميں نے وہ كام انجام نہ ديا تو دوسرے موجود ہيں جو اس كام كو انجام دے ديں گے''
امام جعفر صادق عليہ السلام نے اس كے جواب ميں فرمايا:
'' اگر بنى اميہ كو مدد گار نہ ملتے تو وہ لوگوں پر ظلم نہ كرتے كيونكہ حكومت خودبخود تو نہيں چلتى بلكہ اس كے لئے وزير، معاون، مدير و كام كرنے والے ضرورى ہوتے ہيں يہى لوگ حكوت كو چلاتے ہيں اگر تم اور تم جيسے دوسرے لوگ بنى اميہ كى مدد نہ كرتے تو
221
وہ كس طرح لوگوں كو ہمارى الہى حكومت سے محروم كرسكتے تھے؟ كس طرح وہ فتنہ اور فساد برپا كرسكتے تھے؟ اگر لوگ ظالموں كى تائيد نہ كريں اور ان كے اجتماعات و محافل ميں شريك نہ ہوں تو وہ كس طرح اپنے مقاصد تك پہونچ سكتے ہيں؟
نہيں ہرگز نہيں ميں كسى مسلمان كو اجازت نہيں ديتا كہ وہ ظالموں كى حكومت ميں نوكرى كرے اور اپنے كام سے ان كى مدد كرے''
سائل نے چونكہ امام عليہ السلام كے حكم كى اطاعت كرنے كا مصمّم ارادہ كيا تھا سوچنے لگا اور اپنے سے كہا كہ كيا ميں اس گناہ سے اپنے آپ كو نجات دے سكتا ہوں؟ كاش ميں ظالموں كى مدد نہ كرتا اب كس طرح توبہ كروں؟
امام جعفر صادق عليہ السلام توبہ كے آثار كو اس كے چہرہ پر مشاہدہ كر رہے تھے آپ نے فرمايا:
' ' ہاں تم اس سے توبہ كرسكتے ہو اور خداوند عالم تيرى توبہ قبول بھى كرے گا ليكن يہ كام بہت مشكل ہے كيا اسے انجام دے سكوگے؟
جوان نے كہا كہ:
'' ہاں ميں حاضر ہوں اور خداوند عالم سے اپنے ارادہ كى تكميل ميں مدد چاہتا ہوں''
امام جعفر صادق عليہ السلام تھوڑا سا روئے اور پھر فرمايا:
'' جو مال تو نے بنى اميہ كى غاصب و ظالم حكومت سے غير شرعى طريقہ سے حاصل كيا ہے وہ تيرا مال نہيں ہے اور اس ميں تيرا تصرف
222
كرنا حرام ہے وہ تمام كا تمام اس كے مالكوں كو واپس كردو_
اگر مالكوں كو پہچانتے ہو تو خود انھيں كو واپس كرو اور اگر انھيں نہيں پہچانتے تو ان كى طرف سے صدقہ دے دو تو ميں تمھارے لئے بہشت كى ضمانت ليتا ہوں''
وہ سوچنے لگا كيونكہ سارى دولت فقراء كو دينى ہوگى ليكن اس نے سوچا كہ دنيا كى سختيوں كو برداشت كياجاسكتا ہے اس لئے كہ يہ ختم ہوجانے والى ہيں ليكن آخرت كى سختى اور عذاب دائمى ہے لامحالہ ان دو ميں سے ايك كو اختيار كرنا ہوگا لہذا بہتر ہے دنيا كى تكليف و رنج كو قبول كرلوں اور اپنے آپ كو آخرت كے دائمى عذاب سے چھٹكارا دے دوں اس نے اپنا سرا اوپر اٹھايا اور امام عليہ السلام سے عرض كيا كہ:
'' ميں آپ كے حكم كى تعميل كروں گا''
اس كے بعد وہ وہاں سے اٹھا اور امام (ع) سے رخصت ہوكر چلاگيا_ على بن حمزہ جو اس كا دوست اور ہمسفر بھى تھا وہ كہتا ہے كہ:
'' جب ہم كوفہ پہونچے تو ميرا يہ دوست سيدھا گھر گيا مجھے كئي دن تك اس كى خبر نہ ہوئي يہاں تك كہ مجھے اطلاع ملى كہ اس نے اپنى سارى دولت كو لوگوں كے درميان تقسيم كرديا ہے_ جس كو پہچانتا تھا اس كا مال اسے واپس كرديا ہے اور جسے نہيں پہچانتا تھا تو اس كى طرف سے فقراء اور ناداروں كو صدقہ دے ديا ہے يہاں تك كہ اس نے اپنے بدن كے لباس كو بھى دے ديا ہے اور پہننے كے لئے كسى سے لباس عارية ليا ہے اب تو اس كے پاس لباس ہے اور نہ خوراك_
223
ميںنے تھوڑى خوراك و لباس اس كے لئے مہيا كيا اور اس كى ملاقات كے لئے اس كے پاس گيا اس سے مل كر بہت خوش ہو اور اس كے اس عمدہ عمل كى تعريف كي_ ميرى ملاقات كو تقريباً ايك مہينہ گزرا تھا كہ مجھے خبر ملى كہ وہ جوا ن بيمار ہوگيا ہے ميں اس كى عيادت كے لئے گيا اور وہ جب تك بيمار رہا اس كى عيادت كو جاتا تھا اور اس كے نورانى چہرہ كو ديكھ كر خوشحال ہوتا تھا_
ايك دن ميں اس كے سر ہانے بيٹھا تھا كہ اس نے ميرى طرف نگاہ كى اور بلند آواز ميں كہا: '' بھائي امام (ع) نے اپنے عمدہ كو پورا كرديا ہے ميں ابھى سے بہشت ميں اپنى جگہ ديكھ رہا ہوں''
اس كے بعد اس نے كلمہ شہادتين پڑھا اوردنيا سے رخصت ہوگيا''
توضيح اور تحقيق:
خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے:
'' ظالم ايك دوسرے كے دوست و مددگار ہوتے ہيں اور ان كے بعض دوسرے كى مدد كرتے ہيں ليكن اللہ پرہيزگاروں كا يار و مددگار ہے''_
نيز ارشاد ہوتا ہے:
'' جو لوگ ظلم كرتے ہيں ان كى طرف ہرگز ميلان نہ كرو اور ان
224
پر ہرگز اعتماد نہ كرو كہ وہ بالآخر دوزخ كى آگ ميں ڈالے جائيں گے''_
پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا ہے كہ:
'' قيامت كے دن اللہ تعالى كى طرف سے منادى ندا دے گا; ظالم كہاں ہيں؟ ظالموں كے مددگاركہاں ہيں؟ تمام ظالموں اور ان كے مددگاروں كو حاضر كرو يہاں تك كہ ان لوگوں كو بھى كہ جنھوں نے ظالموں كى حكومت ميں سياہى اور قلم سے ان كى مد كى ہے يا ان كے لئے خطوط لكھے ہيں يہ تمام لوگ حاضر ہوں گے اور خداوند عالم كے حكم سے انھيں ظالموں كے ساتھ دوزخ ميں ڈالا جائے گا'' _
كيونكہ ظالم اكيلے قادر نہيںہوتا كہ وہ لوگوں كے حقوق كو غصب كرے اور ان پر ظلم و ستم كرے اپنے غير انسانى اور پليد اہداف و اغراض تك پہونچنے كے لئے دوسروں سے مدد ليتا ہے كسى كو رشتہ اور عہدہ دے كر دھوكہ ديتا ہے اور كسى كو ما ل و دولت دے كر اپنے اردگرد اكٹھا كرتا ہے اور كسى كو ڈرا دھمكا كر اپنى طرف لاتا ہے اس طرح سے اپنى طاغوتى طاقت كو محكم و مضبوط بناتا ہے پھر خون پسينہ سے جمع كى ہوئي دولت كو غصب كرتا ہے اور دوسروں پر تجاوز كرتا ہے_
ظالم حكومت كے مامورين، طاغوت انسانوں كے لئے دوسرے لوگوں پر تجاوز اور خيانت كا راستہ ہموار كرتے ہيں وہ اس طرح سے محروم و زحمت كش افراد پر ظلم كرنے كا دروازہ كھول ديتے ہيں_ مدّاح قسم كے لوگ دوسروں كو دھوكہ ديتے ہيں اور طاغوت كے مكروہ چہرے كو محبوب اور پسنديدہ ظاہر كرتے ہيں، روشن فكر قسم كے خائن لوگ ان طاغوتى قوانى كو مرتب كرتے ہيں اور خائن قسم كے وزير، طاغوتى قوانين جو لوگوں كے ضرر كے لئے بنائے جاتے ہيں ان پر عمل كراتے ہيں اور مسلّح فوج كے حاكم و كمانڈر افراد
225
اس قسم كے طاغوتوں كى حكومت سے دفاع كرتے ہيں_
ان كى مدد كرنے والوں كى حمايت و مدد كے بغير ظالم طاغوت كس طرح لوگوں كے حقوق كو ضائع اور ان پر ظلم كرسكتے ہيں؟ پس جتنے لوگ ظلم و ستم كى حكومت ميں ان كى مدد كرتے ہيں وہ خود بھى ظالم ہوتے ہيں اور ظلم و خيانت ميں شريك ہوتے ہيں اور اخروى عذاب و سزا ميں بھى ان كے شريك ہوں گے_
برخلاف ان لوگوں كے جو اسلامى حكومت اور اسلام كے قوانين جارى كرنے اور عدل و انصاف قائم كرنے اور محروم طبقے كے حقوق سے دفاع كرتے ہيں تو يہ اللہ تعالى كے ثواب كى جزاء ميں شريك ہوں گے_
قرآن كى آيات:
و انّ الظّالمين بعضہم اولياء بعض و اللہ وليّ المتّقين (1)
'' ظالم ايك دوسرے كے دوست ہوتے ہيں اور اللہ پرہيز گاروں كا ولى ہے''
و لا تركنوا الى الّذين ظلموا فتمسّكم النّار (2)
'' خبردار تم لوگ ظالموں كى طرف جھكاؤ اختيار نہ كرنا كہ جہنم كى آگ تمھيں چھوئے گى ''_
--------
1) سورہ جاثيہ آيت 19
2) سورہ ہود آيت 113
226
سوالات
يہ سوالات سوچنے، بحث كرنے اور بہتر ياد كرنے كے لئے كئے جا رہے ہيں
1)___ جب اس جوان نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے (حكومت بنى اميہ ميں) كام كرنے كے متعلق پوچھا تھا تو امام (ع) نے اس كا كيا جواب ديا تھا اور امام (ع) نے اس كے لئے كيا دليل دى تھي؟
2)___ امام (ع) نے اس جوان كو نجات كا راستہ كيا بتايا تھا اور اسے كس چيز كى ضمانت دى تھي؟
3)___ وہ جوان توبہ كرنے سے پہلے كيا سوچ رہا تھا اور اس مدت ميں اس نے كيا سوچا؟
4)___ اس جوان نے كس طرح توبہ كى اور كس طرح اپنے آپ كو اس گناہ سے نجات دى ؟
5)___ اس بيمارى جوان نے آخرى وقت ميں اپنے دوست سے كيا كہا تھا؟
6)___ خداوند عالم نے قرآن مجيد ميں ظالموں كى مدد نہ كرنے كے بارے ميں كيا فرمايا ہے؟
7)___ قيامت كے دن منادى كيا ندا دے گا اور خداوند عالم كى طرف سے كيا حكم ملے گا؟ كون لوگ ظالموں كے ساتھ دوزخ ميں جائيں گے؟
|
|