|
203
قانون ميں سب مساوى ہيں
حضرت على عليہ السلام كوفہ كے بازار سے گذر رہے تھے ايك زرہ ايك عيسائي كے ہاتھ ميں ديكھى كہ وہ اسے فروخت كر رہا ہے حضرت على عليہ السلام اس زمانہ ميں تمام اسلامى مملكت كے ولى اور خليفہ تھے آپ اس عيسائي كے نزديك گئے اور اس زرہ كو غور سے ديكھا پھر اس بيچنے والے عيسائي سے كہا كہ:
'' زرہ تو ميرى ہے كافى دن ہوگئے ہيں كہ يہ گم ہوگئي تھى اب چونكہ يہ تمھارے پاس ہے لہذا يہ مجھے واپس كردو''_
عيسائي نے واپس دينے سے انكار كيا اور كہا كہ:
'' يہ زرہ ميرى ہے آپ سے اس كا كوئي تعلق نہيں ہے''
زرہ كو آپ سے جھٹكے سے واپس لے ليا_ لوگ اكٹھے ہوگئے تا كہ ديكھيں كہ اتنى بڑى شخصيت كا مالك كيا كردار ادا كرتا ہے اور يہ ديكھيں كہ حضرت على عليہ السلام اس عيسائي آدمى سے كيا كہتے ہيں اور كس طرح اپنے حق كو ليتے ہيں_ شايد چند آدمى آپ كى حمايت بھى كرنا چاہتے تھے اور اس عيسائي سے زرہ واپس لے كر حضرت على عليہ السلام كو دينا چاہتے تھے ليكن حضرت على عليہ السلام نے فرمايا كہ:
'' نہيں تمھيں اس سے كوئي سرو كار نہيں ہے اسلام حق اور عدالت كا دين ہے اس سلسلہ ميں قانون موجود ہے اور ميں قانون اور قاضى كے فيصلہ كو تسليم كروں گا''_
204
آپ نے اس وقت بہت نرم دلى اور خندہ پيشانى سے اس عيسائي سے فرمايا كہ:
'' مجھے يقين ہے كہ يہ زرہ ميرى ہے يہ مجھے دے دو ورنہ آؤ ہم قاضى كے پاس چلتے ہيں تا كہ وہ ہمارے درميان فيصلہ كرے''_
عيسائي نے امام عليہ السلام كى خواہش كو مانا اور آنحضرت كے ساتھ اپنے جگھڑے كے ختم كرنے كے لئے قاضى كے پاس گيا اور جو نہى قاضى نے اميرالمومنين عليہ السلام كو ديكھا تو وہ آپ كے احترام ميں كھڑا ہوگيا ليكن حضرت على عليہ السلام نے اس سے فرمايا كہ
''ہم فيصلہ كرانے كے لئے يہاں آئے ہيں اور قاضى كو چاہيئے كہ طرفين كے ساتھ ايك جيسا سلوك كرے تمھيں ايك قاضى كى حيثيت سے ميرا زيادہ احترام نہيں كرنا چاہيئے_ قاضى كو نگاہ كرنے اور توجہ كرنے ميں بھى طرفين كے ساتھ مساوات سے كام لينا چاہيئے_ آؤ اور ہمارے درميان فيصلہ كرو''_
قاضى اپنى قضاوت كى مخصوص جگہ پر بيٹھا حضرت على (ع) اور وہ عيسائي بھى قاضى كے سامنے بيٹھے_ قاضى نے اختلاف كے متعلق پوچھا_
اميرالمومنين (ع) نے فرمايا كہ:
'' يہ زرہ جو اس كے پاس ہے يہ ميرى ہے ميں نے اسے نہ كسى كو بخشا ہے اور نہ كسى كو فروخت كيا ہے چند دين پہلے گم ہوگئي تھى اور اب يہ اس كے پاس ہے''
قاضى نے اس عيسائي سے كہا كہ:
''على ابن ابيطالب (ع) ادعا كر رہے ہيں كہ زرہ ان كى ہے تم اس كے متعلق كيا كہتے ہو؟ كيا يہ زرہ تمھارى ہے؟ ليكن مسلمانوں كے
205
خليفہ كو بھى نہيں جھٹلاتا ہوں''
قاضى نے حضرت على عليہ السلام سے كہا:
'' يا على (ع) آپ مدّعى ہيں اور مدّعى كو ايسے دو گواہ كو جو قابل قبول ہوں لانے چاہئيں اگر آپ كے پاس گواہ ہيں تو انھيں عدال ميں لائيں تا كہ وہ گواہى ديں''
اميرالمومنين (ع) قاضى كو اچھى طرح پہچانتے تھے اور جانتے تھے كہ گواہى كے قبول كئے جانے كے كيا شرائط ہيں آپ نے مسكراتے ہوئے جواب ديا كہ:
'' ميں اس طرح كے گواہ نہيں ركھتا''
قاضى نے كہا:
'' جب آپ كے پاس گواہ نہيں ہيں تو شريعت كى رو سے آپ كا حق ثابت نہيں ہوتا''_
چنانچہ وہ عيسائي زرہ لے كر عدالت سے باہر گيا اور تھوڑى دور چلنے كے بعد سوچنے لگا كہ كتنا بہترين دين اور كتنى عادلانہ حكومت ہے كہ ايك مسلمانوں كے پيشوا اور ايك عيسائي آدمى كو قاضى كے سامنے برابر اور مساوى قرار ديتا ہے_ مسلمانوں كا پيشوا قاضى سے كہتا ہے كہ '' بيٹھ جاؤ تمھيں ايك قاضى كى حيثيت سے قضاوت كے وقت ميرا زيادہ احترام نہيں كرنا چاہيئے، قاضى كو نگاہ كرنے ميں بھى طرفين ميں عدالت اور مساوات برتنى چاہيئے كتنى عادلانہ قضاوت ہے كہ بغير ثبوت كے كسى كے حق ميں اگر چہ وہ مسلمانوں كا پيشوا ہى كيوں نہ ہو فيصلہ صادر نہيں كرتي_
وہ تھوڑى دير كھڑا سوچتا رہا پھر واپس لوٹا ليكن خوشحال ہوكر نہيں بلكہ پريشانى كے عالم ميں لوگوں كے سامنے قاضى سے كہتا ہے:
206
''مسلمانو ميں اس فيصلہ سے حيرت زدہ ہوں اور يقين نہيں ہوتا كہ قاضى نے ميرے حق ميں فيصلہ ديا ہے اور مسلمانوں كے پيشوا كے خلاف حكم سنايا ہے، اس عدالت كا حكم بالكل غير جانبدارانہ تھا اور اس طرح كا فيصلہ صرف پيغمبروں (ع) كے دين ميں ہى ديكھا جاسكتا ہے_
مجھے تعجب ہوتا ہے كہ اميرالمومنين (ع) و رسول خدا(ص) كا خليفہ اور ميں ايك عيسائي عدالت ميں قانون كى رو سے مساوى ہيں، جہاں اسلام كا پيشوا عدالت ميں حاضر ہوتا ہے اور اپنے اجتماعى مقام اور رتبہ سے كوئي فائدہ نہيں اٹھاتا
كيسے يہ ہوگيا كہ وہ قاضى كہ جسے وہى پيشوا معين كرتا ہے اس كے حق ميں فيصلہ نہيں ديتا؟ كس طرح مانا جائے كہ قاضى اسلام كے رہبر و اميرالمومنين كے خلاف حكم صادر كرديتا ہے اور قضاوت كے قوانين كو ہر حيثيت سے ترجيح ديتا ہے_
يہ عدالت اور يوں فيصلہ كرنا تمھارے دين و مذہب كے حق ہونے كى نشانى ہے ميں تمھارے دين كو قبول كرتا ہوں اور مسلمان ہوتا ہوں''_
اس وقت اس نے كلمہ شہادتين: اشہد ان لا الہ الّا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ''
زبان پر جارى كيا اس كے بعد حضرت على عليہ السلام كى طرف متوجہ ہوا اور كہا كہ:
'' خدا كى قسم حق آپ كے ساتھ ہے اور آپ اپنے دعوى ميں سچے ہيں يہ زرہ آپ كى ہے جب آپ مسلمانوں كے لشكر كے
207
ساتھ صفين كى جنگ ميں جا رہے تھے تو يہ زرہ اونٹ سے گرپڑى تھى اور آپ اس سے آگے نكل گئے تھے ميں نے اسے اٹھايا تھا اور اسے گھر لے آيا تھا يقينا يہ زرہ آپ ہى كى ہے اور ميں معافى چاہتا ہوں''_
اميرالمومنين (ع) لوگوں كو ہدايت كرنا بہت پسند كرتے تھے اس كے مسلمان ہونے سے بہت خوش ہوئے اور فرمايا:
'' تمھارے مسلمان ہوجانے كى وجہ سے يہ زرہ ميں تمھيں بخشتا ہوں اور يہ گھوڑا بھى تمھيں ديتا ہوں''
اس مرد نے اسلامى عالت كى عادلانہ رفتار كى وجہ سے اسلام كو محبت اور عشق سے قبول كيا اور اميرالمومنين (ع) كے خاص پيرو كاروں ميں سے ہوگيا اور وہ دين اسلام كا اتنا شيفتہ ہوگيا كہ اسلامى فوج سے منسلك ہوگيا اور بہت بہادرى سے نہروان كى جنگ ميں شركت كى ا ور اسلام كى حفاظت كى يہاں تك كہ اپنے كو اسلام اور انسانى آزادى كے لئے قربان كرديا اور شہادت كے بلند درجہ پر فائز ہوگيا_
توضيح اور تحقيق:
معاشرہ ميں عادلانہ قوانين كا ہونا اور اس پر عمل كرانا اللہ تعالى كى بہت بڑى نعمت ہے اگر معاشرہ ميں قانون كى حكومت ہو تو لوگ امن ميں رہيں گے مطمئن ہوكر كاموں ميں مشغول رہيں گے اپنى اور دوسرے لوگوں كى زندگى بہتر بنانے ميں كوشا رہيں گے كيونكہ صحيح قانون كے اجراء سے ہى اختلاف اور بد نظمى كو روكا جاسكتا ہے_ لوگوں كى جان و مال اور عزت و آبرو كى حفاظت كى جاسكتى ہے_
208
قانون كے سامنے سب برابر ہيں اور سبھى كو اللہ تعالى كے قوانين كا احترام كرنا چاہيئے اور اپنى مشكلات كو قانون كے دائرہ ميں حل كرنا چاہيئےور عدالت كے دامن كو ہاتھ سے نہيں چھوڑنا چاہيئے اگر چہ وہ حكم ان كے خلاف ہى كيوں نہ ہو_ قاضى اور قانون جارى كرنے والوں كا سب كے ساتھ ايك جيسا سلوك ہونا چاہيئے حق و عدالت كى پيروى كرنا چاہيئے اور كسى بھى موقع پر غلط حمايت نہيں كرنا چاہيئے بلكہ دوستى اور دشمنى كو مدّ نظر ركھے بغير قضاوت كرنا چاہيئے_
قرآن كى آيت:
يا ايّہا الّذين امنوا كونوا قوامين بالقسط شہداء اللہ و لو على انفسكم او الوالدين و الاقربين ان يكن غنيا او فقيرا فاللہ اولى بہما فلا تتّبعوا الہوى ان تعدلوا و ان تلوا او تعرضوا فان اللہ كان بما تعملون خبيرا (1)
'' اے ايمان والو عدل و انصاف كے ساتھ قيامت كرو اور اللہ كے لئے گواہ بنو چاہے اپنى ذات يا اپنے والدين اور قرباء ہى كے خلاف كيوں نہ ہو جس كے لئے گواہى دينا ہے وہ غنى ہو يا فقير اللہ دونوں كے لئے تم سے اولى ہے لہذا خبردار خواہشات كا اتباع نہ كرنا تا كہ انصاف كرسكو اور اگر توڑ مروڑ سے كام ليا يا بالكل كنارہ كشى كرلى تو ياد ركھو كہ اللہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے''_
-------
1) سورہ نساء آيت 135
209
سوالات
يہ سوالات اس لئے ہيں تا كہ زيادہ غور و فكر كرسكو
1)___ جب حضرت على عليہ السلام نے اپنى زرہ عيسائي كے ہاتھ ميں ديكھى تھى تو اس سے كيا كہا تھا؟
2)___ كيا اس عيسائي نے حضرت على (ع) كى بات كو مانا تھا او رجواب ميں كيا كہا تھا؟
3)___ جب اس عيسائي نے اميرالمومنين (ع) كو زرہ واپس نہ كى تھى تو اميرالمومنين (ع) نے اس سے كيا كہا تھا؟
4)___ قاضى نے اميرالمومنين (ع) كے ساتھ كون سا سلوك كيا اور حضرت على (ع) نے اس سے بيٹھنے كے لئے كيون كہا تھا؟
5)___ قاضى نے آپ كے جھگڑے ميں كس طرح قضاوت كى اور كس كے حق ميں فيصلہ ديا اور كيوں؟
6)___ وہ عيسائي كيوں مسلمان ہوگيا تھا؟ اس كے مسلمان ہونے كا سبب كيا تھا؟
7)___ اس تازہ عيسائي مسلمان كا انجام كيا ہوا تھا؟ تمھارى نظر ميں وہ اس مرتبہ تك كيسے پہونچا تھا؟
9)___ كيا بتلا سكتے ہو كہ صحيح قانون كے اجر اسے امن كا كيون احساس ہوتا ہے؟
10)___ صحيح قانون كے اجرا سے ظلم و جور كو كس طرح روكا جاسكتا ہے؟
11)____ قاضيوں كو طرفين سے كيسا سلوك كرنا چاہيئے؟
210
12)___ دو نزاع كرنے والوں ميں سے ايك كو مدّعى كہا جاتا ہے اور جانتے ہو كہ دوسرے كو كيا كہا جاتا ہے؟
13)___ خداوند عالم نے قرآن مجيد ميں عدالت و انصاف كے بارے ميں مومنين كا كيا فريضہ معين كيا ہے؟
14)___ عيسائي كے سا تھ اميرالمومنين عليہ السلام كے سلوك كو وضاحت سے بيان كرو_
15)___ كبھى تم نے دو آدميوں كے درميان فيصلہ كيا ہے؟ كيا عدالت و مساوات كى رعايت كى ہے؟ كيا تم ميں فيصلہ كرنے كے شرائط موجود ہيں؟
|
|