182
پيغمبر (ص) اور مستضعف
مسجد نبوى كے نزديك ايك بر آمدہ تھا كہ جس كى ديواريں گارے اور مٹى كى انيٹوں سے بنائي گئي تھيں اور اس كى چھت خرما كے پتوں كى تھى اور اسے صفّہ كہا جاتا تھا_ مسلمانوں كا ايك نادار گروہ كہ جن كا مدينہ ميں كوئي گھر نہ تھا اسى صفّہ ميں رہا كرتے تھے_ پيغمبر خدا (ص) ان سے بہت مانوس تھے ان كے پاس بيٹھتے اور گفتگو كيا كرتے تھے آپ انھيں دوست ركھتے تھے اور اپنے اصحاب سے كہا كرتے تھے كہ ان كى مہمان نوازى و دلجوئي كيا كريں_ آپ كبھى انھيں اپنے گھر لے آتے اور بہت احترام سے ان كى مہمان نوازى كيا كرتے تھے اور كبھى ان كے پاس كھانا لے جايا كرتے تھے_
يہ اللہ كے نيك بندے پيغمبر اسلام (ص) كے اردگرد بيٹھا كرتے تھے اور آپ سے مانوس تھے دين كے احكام پوچھتے اور قرآن و احاديث ياد كيا كرتے تھے_ جب پيغمبر اسلام (ص) مدينہ ميں ہوا كرتے تھے تو اكثر يہى لوگ اور مدينہ كے دوسرے فقراء پيغمبر(ص) كے اردگرد بيٹھتے اور آپ كى باتوں كو سنتے تھے اہل وطن بھى ان كا احترام كيا كرتے تھے_
پيغمبر اسلام (ص) كى معاشرہ كے تمام محروم اور مستضعف طبقے سے اسى قسم كى رفتار ہوا كرتى تھى ليكن بعض لوگ پيغمبر اسلام (ص) كى اس رفترا كو ناپسند كرتے تھے اور كبھى كبھار آپ پر اعتراض بھى كرتے تھے اور كہتے تھے آپ كيوں اتنى اس فقير اور چھوٹے طبقے سے آمد و رفت ركھتے ہيں اور ان سے اچھا سلوك كرتے ہيں ؟ آپ انھيں اپنے پاس بيٹھتے كى كيوں اجازت ديتے ہيں؟
183
فقراء كے سا تھ بيٹھنا آپ كے مقام و مرتبہ كو كم كر رہا ہے يہى وجہ ہے كہ اشراف و مالدار لوگ آپ سے دورى كرتے ہيں كيونكہ وہ فقراء كے ساتھ زانو ملاكر بيٹھنا پسند نہيں كرتے بلكہ اس فعل كو وہ اپنے لئے كسرشان سمجھتے ہيں اگر آپ انھيں اپنے سے دور كرديں تو ثروتمند اور اشراف اسلام كى طرف زيادہ رغبت كريں گے اور ان كى توجہ و مدد سے اسلام مضبوط ہوگا ليكن اعتراض كرنے والے ايسے لوگ نہيں جانتے تھے كہ پيغمبر اسلام (ص) كا مبعوث ہونا انھيں جاہليت كے رسوم اور وقار كو بدلنے كے لئے ہوا كرتا ہے_
اللہ تعالى نے اپنے پيغمبر(ص) كا بھيجا تا كہ آپ اپنى گفتار و رفتار سے صحيح وقار كو قائم كريں اور لوگوں سے كہيں كہ شرافت و تقوى اللہ پر ايمان لانے ميں ہے_ اسلام كى نگاہ ميں اسے شريف كہا جاتا ہے جو متقى و مومن ہوا اور جو لوگ اللہ اور اس كے رسول (ص) پر ايمان لے آتے ہيں وہى در حقيقت شريف و بزرگوار ہيں_
انھيں مستضعفين ميں سے ايك خدا اور رسول (ص) اور آخرت پر ايمان لانے والے جناب سلمان فارسى تھے ان كے پاس ايك اون كى عبا تھى كہ وہى ان كا دسترخوان و بستر تھا اور اسى كو رات ميں اوڑھتے اور دن ميں اس كو لباس بناتے تھے_ پيغمبر اسلام (ص) سلمان فارسى سے بہت محبت كرتے ت ھے اور انھيں شرافت و تقوى سے متصف بيان كرتے تھے اوراپنے اہلبيت (ع) ميں شمار كيا كرتے تھے_
ايك دن جناب سلمان فارسى پيغمبر اسلام (ص) كے پاس بيٹھے ہوئے تھے كہ انھيں اشراف ميں سے ايك آپ كے پاس آيا اور ايك نگاہ سلمان فارسى كے پھٹے لباس، آفتاب سے جلے ہوئے چہرہ اور ورم شدہ ہاتھوں پر ڈالى اور كہا:
'' يا رسول اللہ (ص) جب ہم آپ كے پاس آتے ہيں تو يہ فقير پھٹا لباس پہنے آپ كے پاس ہوتا ہے بہتر ہے كہ آپ اس كے
184
فرمائيں كہ وہ آپ كے پاس كم آيا كرے اور آپ سے دور بيٹھا كرے''_
جانتے ہو كہ پيغمبر اسلام (ص) نے اس قسم كے لوگوں كے جواب ميں كيا فرمايا؟ آپ نے فرمايا كہ
'' كسى انسان كو دوسرے انسان پر فضيلت نہيں ہوا كرتى عرب، عجم، سيا ہ و سفيد سب كے سب اللہ كے بندے اور حضرت اكرم (ع) كى اولاد ہيں، فضيلت و شرافت، تقوى اور پرہيزگارى سے ہوا كرتى ہے''
يہى رسول خدا (ص) كى دوستى و دشمنى كا معيار تھا آپ متقيوں كے دوست اور ان پر مہربان تھے اگر چہ پھٹے لباس پہنے ہوئے فقير و نادار ہى كيوں نہ ہوں اور آپ مستكبرين سے جو اللہ تعالى سے بے خبر ہوا كرتے تھے دشمنى ركھا كرتے تھے اگر چہ وہ مالدار اور طاقتور ہى كيوں نہ ہوں_
ايك دن ايك متقى انسان پيغمبر اسلام (ص) كے پاس بيٹھا ہوا تھا اور بات كرنے ميں منہمك تھا اسى حالت ميں مدينہ كے اشراف و مالدار طبقہ سے ايك آدمى حضور (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا پيغمبر اسلام (ص) نے اسے فرمايا كہ يہاں نزديك آكر بيٹھو ليكن وہ دور ہى بيٹھ گيا_ آپ اس كے اس فعل سے بہت متاثر ہوئے اورناراضگى كے عالم ميں فرمايا:
'' كيوں نزديك آكر نہيں بيٹھتے ہو؟ كيا ڈرگئے ہو كہ اس مومن كا فقر اور نادانى تيرى طرف سرايت كر جائے گي؟ تو نے سوچا كہ شايد تيرى دولت سے كچھ كم ہوجائے گا؟ ''
يہ شخص بجائے اس كے كہ اپنى خودخواہى اور كبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تكبّر سے كہنے يہ شخص بجائے اس كے كہ اپنى خودخواہى اور كبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تكبّر سے كہنے لگا كہ:
'' ہم نہيں چاہتے كہ ان جيسے فقير اور بے سر و پا انسانوں كے ساتھ بيٹھيں بہتر يہ ہوگا كہ آپ ان سے كہہ ديں كہ يہ يہاں كم آيا كريں اور دور ہوكر بيٹھا كريں''_
185
اس وقت جبرئيل اللہ تعالى كى طرف سے يہ پيغام لے كر آتے ہيں كہ:
'' اے پيغمبر (ص) ان لوگوں كو جو صبح و شام اللہ كى ياد ميں ہوتے ہيں اور نماز كے لئے كھڑے ہوتے ہيں اور وہ اس ميں سوائے اللہ تعالى كے رضا كے اور كوئي غرض نہيں ركھتے اپنے سے دور نہ ہٹانا ان كا حساب تم سے اور تمھارا حساب ان سے نہيں ليا جائے گا (سبھى اللہ كے بندے ہيں اور خدا تمھارے اعمال و كردار سے واقف ہے) اگر تم نے انھيں اپنے سے دور كيا تو ظالموں ميں سے ہوجاؤ گے''
رسول خدا(ص) نے اس آيت كے نازل ہونے كے بعد فقراء و محروم اور مستضعف طبقہ سے اپنا ربط زيادہ كرديا اور ان سے زيادہ آمد و رفت ركھتے تھے اور ان سے بہت گرمجوشى و محبت اور پيار سے گفتگو كيا كرتے تھے كيونكہ خداوند عالم نے انھيں اس آيت ميں نماز قائم كرنے اور صبح و شام اللہ كى ياد ميں رہنے اور رضائے خدا كے لئے كام كرنے والا شمار كيا ہے ان كى نماز و دعا كو بہت اہميت كى نظر سے ديكھا ہے پيغمبر اسلام(ص) نے ان سے فرمايا:
'' لوگوں كى ملامت كى پروا نہ كيا كرو اور پورے اطمينان سے ميرے پاس آيا كرو كہ ميں تمھارى ہمنشينى پر فخر اور مباہات كرتا ہوں''_
186
پيغمبر(ص) كى رفتار اور اخلاق:
پيغمبر اسلام حضرت محمد مصطفى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلّم بہت خوش اخلاق اور مہربان تھے وہ ہر ايك كے خيرخواہ و دلسوز تھے اور سبھى كى ہدايت كرنے ميں كو شاں رہتے تھے بالخصوص فقراء اور بے چاروں كے ساتھ زيادہ لطف و عنايت كيا كرتے تھے ان كے ساتھ مخلصانہ رويہ برتتے تھے اور ايك ہى دسترخوان پر بيٹھ كر ان كے ساتھ كھانا كھايا كرتے تھے_
آپ لوگوں كے لئے ايك مہربان باپ كى طرح تھے، بڑوں كا احترام كيا كرتے تھے اور چھوٹوں اور جوانوں سے بڑا نرم رويہ ركھتے تھے، بچوں كو سلام كرتے تھے اور فرمايا كرتے تھے
'' كہ ميں چاہتا ہوں كہ بچوں كو سلام كرنا عام رواج پاجائے تا كہ تمام مسلمان اس اچھى روش كى پيروى كريں اور بچوں كو سلام اور ان كا احترام كريں''
پيغمبر اسلام (ص) تمام انسانوں اور ہمارے لئے زندگى كا نمونہ اور اسوہ ہيں خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے:
'' پيغمبر خدا(ص) مومنين كے لئے اسوہ اور نمونہ ہيں تمام مومنين كو چاہيئے كہ آپ كى رفتار و كردار اور اخلاق سے درس حاصل كريں اور آپ كى پيروى كريں''
پيغمبر اسلام (ص) اپنے رشتہ داروں سے آمد و رفت ركھا كرتے تھے ان پر احسان كيا كرتے تھے اور مسلمانوں سے بطور تاكيد فرمايا كرتے تھے كہ:
'' رشتہ داروں سے آمد و رفت، مہر و محبت اورمخلصانہ ارتباط ركھا كرو
187
اورمشكلات ميں ايك دوسرے كى مدد كيا كرو''_
رسول خدا(ص) بيماروں كى عيادت كيا كرتے اور ان كے جنازوں ميں شريك ہوا كرتے تھے اور مسلمانوں سے فرمايا كرتے تھے كہ:
'' وہ بھى جنازوں ميں شريك ہوا كريں اور جو لوگ مرگئے ہيں ان كے لئے اللہ تعالى سے رحمت و مغفرت طلب كيا كريں، جنازے كو ديكھنے سے عبرت حاصل كريں، بيدار ہوں، جان ليں كہ ان كى زندگى بھى ختم ہوجائے گى اور آخرت كے راستہ كے لئے بہترين زاد راہ تقوى ہے''_
پيغمبر اسلام(ص) لباس و خوراك ميں بہت كفايت شعارى سے كام ليتے تھے، مختلف طرح كے كھانوں سے پرہيز كيا كرتے تھے آپ كى غذا سادہ اور تھوڑى ہوا كرتى تھي، آپ كا لباس سادہ اور كم قيمت كا ہوا كرتا تھا_ معاشرہ ميں ايك دوسرے كى مدد كرتے تھے اور آپ اپنے گھر كے كاموں ميں ہاتھ بٹايا كرتے، كبھى اپنے لباس كو خود اپنے ہاتھوں سے پيوند لگايا كرتے تھے اور كبھى اپنى جوتيوں كوٹا نكتے تھے_
آپ بہت متواضع او رمخلص تھے جب كسى محفل ميں وارد ہوتے تو وہاں بيٹھ جاتے جہاں جگہ خالى نظر آتى كسى خاص جگہ پر بيٹھتے كے متمنى نہ ہوتے تھے تمام اہل فلس كا احترام كيا كرتے تھے اور گفتگو كرنے كے وقت سبھى كى طرف متوجہ ہوا كرتے تھے، دوسروں كى بات كو غور سے سنتے تھے كسى كى بات كو نہيں كاٹتے تھے آپ بہت با حيا اور كم گو تھے_ ضرورت سے زيادہ بات نہيں كيا كرتے تھے كبھى مزاح بھى كرليا كرتے تھے ليكن پورى طرح متوجہ ہوتے تھے كہ اس سے كس كى دل آزارى نہ ہو اور ناحق بات بھى نہ ہو_
غيبت، تہمت ، افتراء و جھوٹ اور ہر برى بات سے اجتناب كيا كرتے تھے لوگوں
188
سے ہديئے كو قبول كرتے ت ھے ليكن كوشش كرتے تھے كہ اس سے بہتر اور زيادہ اسے واپس كريں_ مسلمانوں كو تاكيد كيا كرتے تھے كہ ايك دوسرے كو ہديہ ديا كريں تا كہ محبت زيادہ ہو اور كينہ دلوں سے دور ہو_ وليمہ كى سادہ دعوت و مہمانى كو قبول كيا كرتے تھے اور فقراء و محروم طبقے كے ساتھ وہاں جايا كرتے تھے آپ اس قدر خوش اخلاق اور مہربان تھے كہ خداوند عالم آپ كے بارے ميں ارشاد فرماتا ہے:
'' اے پيغمبر (ص) تيرا خلق و عادت بہت عظيم و پسنديدہ ہے اور تو مومنين كے لئے اسوہ اور نمونہ عمل ہے''_
قرآن مجيد كى آيت:
و لا تطرد الّذين يدعون ربّہم بالغداة و العشّى يريدون و جہہ ما عليك من حسابہم من شييء و ما من حسابك عليہم من شييء فتطردہم فتكون من الظّالمين (1)
'' خبردار جو لوگ صبح و شام اپنے خدا كو پكارتے ہيں اور خدا ہى كو مقصود بنائے ہوئے ہيں انھيں اپنى بزم سے الگ نہ كيجئے نہ آپ كے ذمہ ان كا حساب ہے اور نہ ان كے ذمہ آپ كا حساب ہے كہ آپ انھيں دھتكاريں اور اس طرح ظالموں ميں شمار ہوجائيں''_
----------
1) سورہ انعام آيت 52
189
سوالات
سوچيئے اور جواب ديجئے
1)___ اصحاب صفّہ كن لوگوں كو كہا جاتا ہے، پيغمبر اسلام(ص) كا ان كے ساتھ كيسا سلوك تھا؟
2)___ كون سے لوگ پيغمبر(ص) پر محروم طبقے كے ساتھ بيٹھنے پر اعتراض كيا كرتے تھے اور پيغمبر اسلام(ص) سے كيا كہا كرتے تھے؟
3)___ جاہليت كى چند رسوم كو شمار كرو اور بتلاؤ كہ اسلام ميں پيغمبر (ص) كے نزديك ان كى كيا قيمت تھى اور ان رسوم كے بدلنے ميں پيغمبر اسلام(ص) كيا اقدام كرتے تھے؟
4)___ اسلامى تہذيب ميں كسے شريف انسان كہا جاتا ہے؟
5)___ پيغمبر اسلام (ص) كا رويہ جناب مسلمان فارسى كے ساتھ كيسا تھا؟ پيغمبر (ص) سلمان فارسى كو كيوں دوست ركھتے تھے اور ان كا كيوں احترام كرتے تھے؟
6)___ پيغمبر اسلام (ص) نے اس شخص كو كہ جس نے پيغمبر (ص) پر سلمان فارسى كے ساتھ بيٹھنے پر اعتراض كيا تھا كياب جواب ديا تھا؟
7)___ رسول خدا (ص) كا كسى سے دوستى اور روشنى كرنے كا كيا معيار تھا؟
8)___ جبرئيل نے محروم طبقے كے ساتھ اٹھنے بيٹھنے كے سلسلہ ميں كيا پيغام ديا تھا؟
9)___ ''اسوہ'' كے كہتے ہيں اور كون شخص مسلمانں كے لئے ''اسوہ'' بن سكتا ہے؟
10)___ مندرجہ ذيل چيزوں ميں پيغمبر اسلام (ص) كى سيرت كو بيان كرو:
فقراء اور ناداروں كے ساتھ گھر ميں خوراك و غذا كے بارے ميں
لوگوں كى ہدايت كرنے ميں مزاح كرنے، بات سننے اور بات
بڑوں، چھوٹوں اور جوانوں كے ساتھ كرنے، ہديہ دينے و ہديہ لينے
رشتہ داروں، بيماروں و مردوں كے ساتھ اور مہمانى كے سلسلہ ميں
|