|
175
ہر قسم كى سازش كى نفي
پيغمبر اسلام(ص) لوگوں كو اللہ كى طرف ہدايت كرتے تھے آپ دن رات لوگوں كو آگاہ كرنے كے لئے سخت محنت كيا كرتے تھے، اسلام كے حيات بخش آئين كى ترويج ميں كو شاں رہتے تھے اب جب كہ مسلمانوں كى تعداد ميں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اسلام كى طاقت پھيلتى جارہى تھى تو آپ نے حق كو باطل سے جدا كرنے اور بتوں و بت پرستى كے خلاف آواز اٹھانے كے لئے اقدام كيا تا كہ بت پرستى كا عبث فعل سارے لوگوں پر واضح ہوجائے لوگ اپنى بدبختى و ذلت كے اسباب و عوامل كو پہچانيں كيونكہ اگر لوگ اپنى ذلت و رسوائي كى علت كو نہ جانيں گے تو كس طرح اسے ختم كرسكيں گے؟ اگر لوگ بت پرستى كے رواج دينے والوں كے غلط مقصد سے آگاہ نہ ہوں گے تو كس طرح اس كا مقابلہ كرسكيں گے؟ اگر لوگ بت پرستوں كے سرداورں كى فريب كارى سے مطلع نہ ہوں گے تو كس طرح ان سے نجات حاصل كرسكيںگے؟
لوگوں كو آگاہ كرنا چاہيئے اور اللہ تعالى كا واضح پيغام لوگوں كے سامنے پڑھا جانا چاہيئے اسى لئے پيغمبر اسلام(ص) نے اپنى دعوت كے چوتھے مرحلہ كو شروع كريا اور بت پرستى كى پورى طرح مذمت اور اس پر تنقيد كي، بت پرستى كے رواج دينے والے سرداروں كے اندرونى اغراض كو واضح بيان كر كے ان كو ذليل كيا اور ان كے ظلم و پليد مقاصد سے پردہ اٹھايا_
بت پرستى كے سرداروں نے اس سے زيادہ سے زيادہ خطرہ محسوس كرليا اور اپنے پليد
176
منافع كے خطرے ميں پڑنے سے خوفناك ہوگئے اور سوچنے لگے كہ كس طرح اسلام كى طاقت كا مقابلہ كيا جائے اور كس طرح لوگوں كو خداپرستى سے دور ركھا جائے كيا محمد (ص) كو ان كى تبليغ سے روكا جا سكتا ہے؟
پہلے پہل تو انھوں نے بات چيت اور صلح و صفائي كى خواہش كى بت پرستوں كے چند سردار جناب ابوطالب (ع) كے پاس گئے اور ان سے كہا:
'' اے ابوطالب (ع) آپ كيوں خاموش بيٹھے ہيں؟ كيوں ہمارے كام كے متعلق نہيں سوچتے؟ كيوں محمد (ص) كو كچھ نہيں كہتے؟ كيا آپ نہيں ديكھ رہے ہيں كہ انھوں نے شہر كے امن كو ختم كركے اور ہمارے درميان تفرقہ پيدا كركے ہميں ايك دوسرے سے جدا كرديا ہے؟ كيا نہيں جانتے كہ وہ ہمارے غلاموں كو دھوكہ ديتے ہيں؟
اب تك ہم آپ كے احترام كى وجہ سے ان سے كچھ نہيں كہتے تھے ليكن اب انھوں نے پاؤں پھيلانا شروع كرديا ہے اورہمارے بتوں كے متعلق جسارت كرنى شروع كردى ہے كيا آپ نے سنا ہے كہ وہ بت پرستى كو ايك سفيہانہ كام بتلاتے ہيں؟ كيا جانتے ہيں كہ وہ ہمارے باپ دادا كو گمراہ و نادان بتلاتے ہيں؟ كيا ہم اب بھى اس كو برداشت كرسكتے ہيں؟ آپ انھيں بلائيں اور ان سے كہيں كہ اس قسم كى باتوں سے دست بردار ہوجائيں''_
جناب ابوطالب (ع) نے اپنے بھتيجے سے ملاقات كى اور بت پرستوں كى بات كو ان كے سامنے بيان كيا اور كہا:
177
'' اے ميرے بھتيجے انھوں نے مجھ سے كہا كہ تم بتوں كے بارے ميں جسارت كرتے ہو اور بت پرستى كو ايك غير عاقلانہ كام بتلاتے ہو انھوں نے خواہش كى ہے كہ تم اس كام سے دست بردار ہوجاؤ صرف اسلام كے آئين و قانون كى تبليغ و ترويج كرو بتوں اور بت پرستوں سے سرو كار نہ ركھو''_
پيغمبر اكرم (ص) نے جناب ابوطالب (ع) كے جواب ميں فرمايا:
'' چچا جان لوگوں كى پورى بدبختى اسى بت پرستى ميں ہے يہ سردار بت پرستى كے بہانے لوگوں پر ظلم كرتے ہيں اور ان كے حقوق كو غصب كرتے ہيں_ ايك خدا كى طرف بلانا، بتوں كى نفي، اللہ تعالى كى بندگى اور ظالموں كے پنجے سے آزادى كے ساتھ ہى ہوسكتى ہے_ چا جان مجھے خداوند عالم كى طرف سے ايسا ہى حكم ملا ہے اور اس كام كو انجام ديتا ہوں گا''
بت پرستوں كى طرف سے صلح و صفائي اورمصالحت كى كئي دفعہ خواہش كى گئي تھى انھوں نے كئي دفعہ اس بارے ميں جناب ابوطالب (ع) سے بات چيت كى ليكن اس سے كوئي نتيجہ حاصل نہ ہو اور بالآخرہ انھوں نے سوچا كہ محمد(ص) كو جاہ مال كا وعدہ دے كر دھوكہ ديا جائے يا ڈرايا اور دھمكايا جائے لہذا پھر جناب ابوطالب (ع) كے پاس گئے اور ان سے يوں گفتگو كي:
'' اے ابوطالب (ع) محمد (ص) سے پوچھ كہ تمھارى اس تبليغ كا كيا مقصد ہے اور كيا چاہتے ہو؟ كيا مال و دولت چاہتے ہو؟ كيا طاقت و قدرت اور حكومت چاہتے ہو؟ كيا بيوى اور اچھى زندگى چاہتے ہو؟ اگر مال و دولت چاہتے ہو تو ہم اسے اتنى دولت دے ديں گے
178
كہ وہ قريش كا ثروت مند ترين فرد ہوجائے_ اگر جاہ و جلال چاہتے تو حجاز كى حكومت و زمامدارى اس كے اختيار ميں دے ديں گے اور اگر ابھى زندگى و بيوى چاہتے ہو تو اس كے لئے خوبصورت ترين اور بہترين عورت انتخاب كرديتے ہيں_
جو بھى وہ چاہيں ہم اس كے پورا كرنے كے لئے حاضر ہيں ليكن صرف ايك شرط ہے كہ وہ اپنى گفتگو سے دست بردار ہوجائيں اور ہمارے بتوں سے كوئي سر و كار نہ ركھيں''
پيغمبر اسلام (ص) ان كى ان خواہشات كے جواب ميں جناب ابوطالب (ع) سے كيا كہيں گے؟ كيا يہ وعدے انھيں فريب دے سكيں گے؟ كيا لوگوں كى ہدايت و نجات سے دست بردار ہوجائيں گے؟ كيا ظالموں كى خوشنودى كو اللہ تعالى كى خوشنودى اور محروم طبقے كى خوشنودى پر ترجيح دے ديں گے؟ نہيں اور ہرگز انہيں وہ اپنے راستہ سے نہيں ہٹيں گے اور يقينا يہ جواب ديں گے:
'' چچا جان يہ ميرى تبليغ اپنى طرف سے نہيں ہے كہ ميں اس سے دست بردار ہوجاؤں بلكہ يہ خدا كى طرف سے ہے خدا نے مجھے پيغمبرى كے لئے چنا ہے كہ تا كہ اس كا پيغام لوگوں تك پہونچاؤں اور انھيں ظلم و ستم اور گمراہى سے نجات دلواؤں، خداپرستى و توحيد كى دعوت دوں''_
اس وقت جناب ابوطالب (ع) آپ پر محبت بھرى نگاہ كئے ہوئے تھے اور آپ كہہ رہے تھے:
'' چچا جان خدا كى قسم اگر چمكتے ہوئے سورج كو ميرے دائيں ہاتھ
179
پر ركھ ديں اور روشن چاند كو ميرے بائيں ہاتھ پر (يعنى تمام ثروت و جہان كى زيبائي اور قدرت مجھے بخش ديں) تب بھى ميں اس فريضہ كى ادائيگى سے دست بردار نہ ہوں گا يہاں تك كہ ميں اس ميں كامياب اور فتحمند ہوجاؤں يا شہيد كرديا جاؤں_
چچا جان ان لوگوں سے كہہ ديں كہ ان خواہشات كى جگہ صرف ايك كلمہ لا الہ الّا اللہ كہہ ديں تا كہ دنيا و آخرت ميں كامياب ہوجائيں''_
جب بت پرستوں كو جاہ و جلال اور مال و دولت كى لالچ دينے سے كوئي فائدہ نہ ہوا تو پھر جناب ابوطالب (ع) كے پاس گئے اور كہا:
'' اے ابوطالب (ع) تم ہمارے شہر و قبيلہ كے سردار اور ہمارى اس مشكل كو تم ہى حل كرو كہ تمھيں ايك خوبصورت بچہ ديتے ہيں تا كہ اسے تم اپنا بيٹا بنالو، محمد(ص) كى حمايت سے دست بردار ہوجاؤ اور ہم اسے قتل كرديں''_
ابوطالب (ع) ان كى اس بات كو سنتے ہى غصہ ميں آگئے اور ان سے كہا:
'' اپنے بھتيجے كو تمھيں دے دوں تا كہ تم اسے قتل كردو يہ تمھارى كتنى شرمناك بات ہے قسم خدا كى ايك لحظہ كے لئے بھى محمد (ص) كى حمايت اور مدد سے ہاتھ نہ كھينچوں گا''_
اب ہم مسلمانوں كا بھى يہى فريضہ ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كے اس راستہ پر چليں اور كفر مادى گري، طاغوت و طاغوتوں كا مقابلہ كريں اور ان كى ہر طرح كى مدد سے پرہيز كريں تا كہ دنيا كے مظلوم اور محروم طبقے كو نجات دلاسكيں_ ديكھيں ہم كس حد تك ا س فريضہ كى انجام دہى ميں كامياب ہوتے ہيں_
180
قرآن كى آيت:
فلذلك فادع واستقم كما امرت و لا تتّبع اہوائہم و قل امنت بما انزل اللہ من كتاب و امرت لاعدل بينكم اللہ ربّنا و ربّكم (1)
'' آپ اسى كے لئے دعوت ديں اور اس طرح استقامت سے كام ليں جس طرح آپ كو حكم ديا گيا ہے اور ان كے خواہشات كا اتباع نہ كريں اور يہ كہيں كہ ميرا ايمان اس كتاب پر ہے جو خدا نے نازل كى ہے اور مجھے حكم ديا گيا ہے كہ تمھارے درميان انصاف كروں اللہ ہمارا اور تمھارا دونوں كا پروردگار ہے''_
--------
1) سورہ شورى آيت 15
181
سوالات
ان سوالات كے صحيح جوابات ديجئے اوران پر اچھى طرح بحث كيجئے
1)___ پيغمبر اسلام (ص) كے چوتھے مرحلہ كى خصوصيات كيا تھيں، آپ اس مرحلہ ميں كيوں بتوں اور بت پرستوں كى مذمت كيا كرتے تھے؟
2)___ بت پرستوں كے سردار كيوں خطرہ محسوس كرتے تھے؟ كيا تدبيريں انھوں نے سوچيں اور جناب ابوطالب (ع) سے كيا كہا تھا؟
3)___ پيغمبر (ص) نے ان كى سازشوں كو كس طرح ٹھكرايا؟
4)___ بت پرستوں كے سرداروں نے اپنى سازش كو كس صورت مين پيش كيا انھوں نے كون سے وعدے كئے تھے اور پيغمبر اسلام (ص) كا جواب كيا تھا؟
|
|