آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ سوم
  164
چوتھا حصّہ
پيغمبر اسلام (ص) اور آپ كے اصحاب كے بارے ميں


165
پيغمبر اسلام(ص) كى مخفى تبليغ
ابتداء ہى سے پيغمبر اسلام (ص) كى رسالت عالمى تھى خداوند عالم نے انھيں پورى دنيا كے لئے نبى بنا كر بھيجا تھا آپ كا يہ عزم تھا كہ پورى دنيا كے كفر و شرك او رمادى گرى سے مقابلہ كريں_ دنيا كے مظلوم و محروم طبقے كو ظالموں كے پنجے سے نجات دلوائيں اور سبھى كو اسلام كے مقدس قانون اور خداپرستى كى طرف دعوت ديں_
پيغمبر اسلام (ص) ابتداء ہى سے اتنى بڑى ذمہ دارى سے آگاہ تھے مشكلات و دشواريوں كى طرف پورى طرح متوجہ تھے آپ كو اچھى طرح علم تھا كہ اس قسم كا كام آسان اور معمولى نہيں ہے بہت سى مشكلات سامنے آئيں گى آپ مشكلات كا خندہ پيشانى سے استقبال كر رہے تھے اور اللہ تعالى كے فرمان كے بجالانے كے لئے آمادہ تھے_ پيغمبر اسلام (ص) نے اپنى دعوت كو اللہ كے حكم سے بغير عجلت پسندى كے شروع كيا اور صبر و استقامت اور عاقبت انديشى سے پورى احتياط كے ساتھ حالات كو ديكھتے ہوئے تبليغ ميں مشغول ہوگئے كيونكہ آپ جانتے تھے كہ اس كام ميں جلدبازى مضرثابت ہوسكتى ہے اسى لئے آپ نے اللہ كے حكم سے اپنى تبليغ كو كئي حصوں ميں تقسيم كرديا اور پہلے اس طريقہ سے ابتداء كى جو ممكن ہوسكتا تھا_
پيغمبر اسلام(ص) نے بعثت كى ابتداء ميں اپنى دعوت كو اپنى دعوت كو اپنى باوفا بيوى جناب خديجہ (ع) اور فداكار چچازاد بھائي حضرت على عليہ السلام سے جو آپ كے گھر ميں رہتے تھے شروع كيا_ اللہ تعالى كى طرف سے اپنى اہم ذمہ دارى كو انھيں دو كے درميان ذكر كيا_ فداكارى و باوفا خاتون

166
جناب خديجہ (ع) اور طاقتور و مہربان جوان حضرت على عليہ السلام نے پيغمبر اسلام (ص) كى بات سنى اور اسلام كا اظہار كرديا اور وعدہ كيا كہ آپ كے اس كام ميں مدد كريں گے_
پيغمبر اسلام (ص) اپنى پہلى دعوت ميں ہى كامياب ہوگئے آپ انھيں دو فداكاروں اور صحيح مددگاروں سے اپنى آسمانى دعوت كى تبليغ ميں مدد طلب كرتے تھے آپ نے ايك طاقتور تبليغى مركز اپنے گھر ميں بناليا تھا_ پيغمبر اسلام(ص) ان دو كے ساتھ كبھى گھر ميں اور كبھى مسجدالحرام ميں اكٹھے نماز كے لئے كھڑے ہوتے اور جماعت كے ساتھ نماز پڑھا كرتے تھے_ تھوڑے ونوں كے بعد زيد كہ جو پيغمبر اسلام (ص) كے گھر ميں رہتے تھے دين مقدس اسلام پر ايمان لے آئے اور پيغمبر اسلام (ص) كى فكر داخلى لحاظ كے كاملاً مطمئن اور آرام ہوگئي يہاں مناسب ہے كہ تھوڑى سى جناب زيد سے واقفيت حاصل كريں_
جناب زيد حضرت خديجہ (ع) كے غلام تھے جناب خديجہ (ع) نے انھيں پيغمبر اسلام (ص) كو بخش ديا تھا اور آنحضرت (ص) نے انھيں آزاد كرديا تھا وہ باپ كے گھر واپس جاسكتے تھے اور ماں باپ كے ساتھ زندگى بسر كرسكتے تھے ليكن وہ پيغمبر اسلام (ص) كے اخلاق و صداقت كے اتنا شيفتہ ہوچكے تھے كہ وہ پيغمبر اسلام(ص) كے ساتھ رہنے اور زندگى گذارنے كو ترجيح ديتے تھے اور آنحضرت (ص) كے گھر ہى رہ رہے تھے_
پيغمبر اسلام (ص) نے اسلام كى دعوت كو پورى طرح مخفى شروع كيا تھا جب بھى كسى سمجھدار اور روشن دل، آگاہ اور آمادہ انسان كو ديكھتے تو اس سے اپنے مدعا كو بيان كرتے اور قرآن كى آيات اس كے سامنے پڑھتے اس كى وضاحت كرتے اور اسے اسلام لانے كى دعوت ديتے تھے كبھى يہ كام مسجد الحرام كے كسى گوشہ ميں، كبھى صفا و مروہ كے كنارے اور كبھى اپنے گھر ميں انجام ديتے تھے_
آپ نے تين سال تك اسى روش سے اپنى دعوت كى تبليغ كى اس مدت ميں آپ

167
بہت استقلال اور صبر سے فرد فرد سے عليحدہ گفتگو كرتے يہاں تك كہ وہ اسلام قبول كرليتے اور مسلمانوں سے ملحق ہوجاتے تھے_ اس تين سال كے عرصے ميں مسلمان اسلام كو ظاہر نہيں كرتے تھے اور اپنى نماز ادھر ادھر مخفى طور سے پڑھا كرتے تھے كا فر و شرك بھى چونكہ اسلام كے نفوذ اور وسعت سے زيادہ مطلع نہيں ہوا كرتے تھے لہذا وہ بھى اپنا ردّ عمل ظاہر نہيں كيا كرتے تھے كيونكہ وہ سمجھتے تھے كہ حضرت محمد صلّى اللہ عليہ و آلہ و سلّم كى دعوت تبليغ بے نتيجہ و بے اثر اورپھر چونكہ پيغمبر اسلام(ص) لوگوں كو خداپرستى و توحيد كى دعوت ديا كرتے تھے اور واضح طور سے بتوں كى مذمت نہيں كيا كرتے تھے لہذا وہ اس سے كوئي خطرہ كا احساس نہيں كيا كرتے تھے_ ان تين سالوں ميں خود پيغمبر اسلام(ص) اورمسلمانوں مكہ ميں زندگى بسر كر رہے تھے كوئي بھى ان كو پريشان نہيں كرتا تھا ليكن بعثت كے تيسرے سال كے آخر ميں ايك واقعہ رونما ہوا كہ جس نے مسلمانوں كو دگرگوں كرديا اور واقعہ يہ تھا كہ مسلمانوں كا ايك گروہ مكہ كے اطراف كے پہاڑ ميں مخفى طور سے نماز پڑھنے اورمناجات كرنے ميں مشغول تھا_ چند بت پرستوں كا وہاں سے گذر ہوا مسلمانوں كا منظم طور سے ركوع و سجود كرنا ان كے غصہ كا موجب ہوا غصّہ ميں آكر انھوں نے مسلمانوں كا برا بھلا كہنا شروع كرديا اور مسلمانوں كى نماز و دعا كا مذاق اڑايا_
مسلمان بھى ان كى بے ادبى و گستاخى سے غصہ ميں آگئے ان كا جواب دينا شروع كرديا اور نتيجہ ايك دوسرے كو مارنے و جھگڑا كرنے تك جا پہونچا مسلمانوں كى ايك فرد سعد نامى كہ جنھيں بہت سخت غصہ آيا ہوا تھا اپنے قريب سے اونٹ كى ايك ہڈى اٹھائي اور دوڑتے ہوئے ايك مشرك كے قريب پہونچے اور پورے غصے كے عالم ميں اس كے سرپر مارى اس كا سر پھٹ گيا اور خون جارى ہوگيا_
بت پرست مكہ واپس لوٹ آئے اور مسلمانوں كے ساتھ رونما ہونے والے حادثہ

168
كا اپنے لوگوں سے تذكرہ كيا مكہ كے سرداروں سے پيغمبر اسلام(ص) اور آپ كے پيروكاروں كى حالت كو بيان كيا اس وقت سے مشركوں نے خطرے كو محسوس كرليا_
پيغمبر اسلام(ص) جناب ارقم كے گھر مخفى طور سے گئے اور وہاں چھپ گئے انھيں دنوں جناب ارقم مسلمان ہوئے تھے مسلمان تنہائي ميں پورى طرح لوگوں سے ملاقات كرتے اور اسے اسلام كى دعوت ديتے اور جب پورى طرح مطمئن ہوجاتے تو اسے مخفى طور سے پيغمبر اسلام (ص) كے گھر لے جاتے تا كہ آپ اس كے سامنے قرآن پڑھيں اور اپنى آسمانى دعوت كى وضاحت كريں اسے خداپرستى و توحيد كى طرف بلائيں اور اسلام كى صحيح دعوت ديں_
انھيں دنوں ايك گروہ اسلام لے آيا اور مسلمانوں كے ساتھ ملحق ہوگيا_ پيغمبر اسلام(ص) كو ان تين سال كى دن رات كى محنت سے كافى كاميابى مل چكى تھى آپ نے زحمتوں كا مقابلہ كرتے ہوئے چاليس فداكارى مسلمانوں كو ترتيب ديا اور اس كو اس زمانہ كے لحاظ سے اہم كاميابى كہى جاسكتى ہے_
اس زمانہ ميں اسلام نے قدرت و طاقت حاصل كرلى تھى اور كفر و بت پرستى كى دنيا ميں ايك طاقتور مركز حاصل كرليا تھا كيونكہ جن لوگوں نے اسلام قبول كيا تھا ان ميں چاليس آدمى صحيح طور پر فداكارى و جانبازى پر آمادہ تھے اور اپنى جان ہاتھوں پر ركھ كر اسلام سے دفاع كرتے تھے_ ان تين سالوں ميں اسلام كے پودے نے زمين ميں اپنى جگہ بنالى تھى اور اپنى جڑيں دور دور تك پھيلادى تھيں لہذا اب اس درخت كا كاٹنا كوئي معمولى كام نہيں تھا اب پيغمبر اسلام(ص) اپنى دعوت و تبليغ كے دوسرے مرحلہ پر اپنا كام شروع كرسكتے تھے_
قرآن مجيد كى آيت:
لقد من اللہ على المؤمنين اذ بعث فيہم رسولا من انفسہم يتلوا عليہم اياتہ و يزكيہم و يعلمہم الكتاب و الحكمة و ان كانوا من قبل لفى ضلال مبين_

169
'' خداوند عالم نے مومنين پر منّت كى جب كہ ان ميں انھيں كا ايك رسول بھيجا تا كہ ان پر اللہ كى آيات پڑھے اور ان كا تذكيہ كرے اور انھيں كتاب و حكمت كى تعليم دے اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہى ميں غرق تھے'' (1)
--------
1) سورہ آل عمران 162
170
عالمى دعوت كا اعلان
مكّہ ميں مشہور ہوچكا تھا كہ حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلّم نے اپنے آپ كو پيغمبر كہنا شروع كرديا ہے اور ايك گروہ نے آپكى دعوت كو قبول بھى كرليا ہے اور آپ كى مدد كرنے كا وعدہ بھى كرليا ہے_ آپ نے اپنے قريبى رشتہ داروں كو بلايا اور ايك مجمع عمومى ميںانھيں اسلام لانے كى دعوت دى اور اپنى مدد كرنے كو ان سے كہا اور تمام بزرگان قريش كے سامنے حضرت على عليہ السلام كو اپنا و زير و جانشين مقرر كيا اور تعجب اس ميں ہے كہ اس مجمع ميں جناب ابوطالب نے آپ سے كوئي اعتراض آميز گفتگو نہيں كى تھى كہ جس سے گويا ظاہر ہوتا تھا كہ جناب ابوطالب(ع) بھى آپ كى حمايت و مدد كريں گے_ مكّہ كے لوگ اس واقعہ كو ايك دوسرے سے تعجب سے نقل كرتے تھے اب وقت آچكا تھا كہ پيغمبر اسلام(ص) اپنى دعوت و رسالت كو ظاہر بظاہر اور اپنے پيغمبر ہونے كا اعلان كريں اور ان كو راہ راست كى ہدايت كريں چنانچہ خداوند عالم كى طرف سے آپ كو يہ پيغام ملتا ہے كہ:
'' اے محمد(ص) (ص) جو كچھ ہم نے تم كو حكم ديا ہے اسے علناً بيان كرو اور حق كو باطل سے جدا كرو و بت پرستوں اور ان كے استہزاء سے مت گھبراؤ كہ ہم انھيں سزا ديں گے''
پيغمبر اسلام(ص) اس پيغام كو عملى جامہ پہنانے كے لئے كوہ صفا پر گئے كيونكہ عالم طور پر اہم اعلانات اسى پہاڑ پر ہوا كرتے تھے_ پيغمبر اسلام(ص) پہاڑ كے ايك پتھر كے اوپر كھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے كہا:

171
'' اے مكّہ والو اے قريش والو اے جوانو اے لوگو''
پيغمبر اسلام (ص) كى يہ بلند و آسمانى آواز كہ جس ميں خداوند عالم پر ايمان، اس سے عشق اور لوگوں كى ہدايت كرنے كا جذبہ پايا جاتا تھا تمام مكہ والوں كے كان تك پہونچي_ لوگ گھروں سے باہر نكلے اور اس آسمانى آواز كى طرف دوڑے تا كہ پيغمبر اسلام(ص) كى باتيں سن سكيں لوگ گروہ در گروہ آپ كے اردگرد جمع ہوتے گئے اور بے صبرى سے نئے واقعہ كو جاننے كا انتظار كرنے لگے پيغمبر اسلام(ص) نے اس مجمع كى طرف نگاہ كى اور فرمايا:
'' اے مكہ والو اے قريش كے مرد و زن اگر ميں تم سے كہوں كہ دشمن اس پہاڑ كے پيچھے ہے اور تم پر حملہ كرنا چاہتا ہے تو كيا ميرى تصديق كروگے اور كيا دفاع كے لئے تيار ہوجاؤ گے؟
سب نے كہا:
'' اے محمد(ص) ہاں اے محمد(ص) ہاں ہم تمھيں امين، سچّا اور صحيح آدمى سمجھتے ہيں اب تك تم سے كوئي جھوٹ نہيں سنا''
پيغمبر اسلام (ص) نے اس طريقے سے اپنى امانت و صداقت انھيں ياد دلائي اور ان سے اس كا اقرار كراليا اور اس كے بعد فرمايا:
'' اے لوگو ميں اللہ كا پيغمبر ہوں، تمھارے اور سارى دنيا كے لئے بھيجا گيا ہوں_ اے لوگو جان لو كہ موت كے آجانے سے زندگى ختم نہيں ہوجاتى جيسے تم سوجاتے ہو تو مرجاتے ہو اور جب بيدار ہوتے ہوا زندہ ہوجاتے ہو، اسى طرح مرنے كے بعد بھى دوبارہ زندہ ہوگے، قيامت كے دن حساب كتاب كے لئے حاضر كئے جاؤگے اور تمھارى رفتار و گفتار كا حساب و كتاب ليا جائے گا

172
نيك كاموں كى جزا اور برے كاموں كى سخت سزا پاؤگے_
اے لوگو ميں تمھارے لئے بہترين آئين و قانون لايا ہوں_
دينا و آخرت كى سعادت كى خوشخبرى لايا ہوں كہو لا الہ الّا اللہ تا كہ نجات و فلاح پاؤ، خدا كو ايك مان كر عبادت كرو اور ايمان كے ذريعہ تمام دنيا كو عرب كو اور غير عرب كو يگانہ پرستى كے پرچم تلے لے آو''
مكّہ كے اشراف و بت پرست پيغمبر اسلام (ص) كے اس بيان سے حيرت زدہ ہوگئے اور ايك دوسرے سے كہنے لگے:
'' تعجب ہے محمد(ص) كيا كہہ رہا ہے؟ كس طرح اس نے جرات كى ہے؟ كہ ہمارے سامنے ايك خدا كے ہونے كى بات كرے؟ اسے كس طرح جرات ہوئي كہ ہمارے سامنے ہمارے بتوں كى جو ہمارے خدا ہيں نفى كرے؟
كيا ابوطالب (ع) نے اس كى مدد كرنے كا وعدہ كيا ہے؟ كيا طاقتور مريد اس كے ہوگئے ہيں كہ جس سے ہم بے خبر رہے ہيں؟ ''
اس وقت ابولہب نے سخت غصّہ ميں كہا:
''تم پروائے ہو اسى پيغام كے لئے ہميں اپنے گھروں سے بلايا ہے؟
لوگ اٹھ گئے اور ہر ايك كوئي نہ كوئي بات كر رہا تھا_ كچھ كہہ رہے تھے: سنا ہے تم نے كہ محمد(ص) نے كيا كہا ہے وہ كہہ رہا تھا كہ:
''ميں خداوند عالم كى طرف سے پيغام لايا ہوں''
كيا يہ بھى ہوسكتا ہے كہ ايك انسان اللہ كى طرف سے پيغام لے آئے ؟

173
كيا ہوسكتا ہے كہ انسان پيغمبر ہوجائے؟ پيغمبر كيا ہوتا ہے؟ كيا ہم اب ايك خدا كى عبادت كريں؟ كيا ہمارے باپ دادا ايك طويل مدت سے بت پرست نہ تھے؟ كيا اب ہم ان بتوں كوچھوڑديں؟ محمد(ص) كى دعوت و تبليغ كو كس طرح روكيں؟ كيا ابوطالب (ع) محمد(ص) كى حمايت و مدد كريں گے؟
پيغمبر اسلام(ص) پہاڑ سے نيچے اترے اور اپنے گھر واپس لوٹ آئے اس كے بعد آپ اپنى رسالت و دعوت كو علنى طور پر بيان كيا كرتے تھے اور كسى كى پروا نہيں كيا كرتے تھے لوگوں كو خداپرستى كى علنى دعوت ديا كرتے تھے_ پيغمبر اسلام(ص) اپنى دعوت ميں صرف ايك خدا كى پرستش پر زور ديا كرتے تھے اور بتوں پر بہت كم تنقيد كرتے تھے_ بت پرست بھى اس سے مطمئن تھے اور آپ كو زيادہ نہيں چھيڑتے تھے بلكہ كہا كرتے تھے:
'' ہم اپنے دين پر اور محمد(ص) اپنے دين پر رہيں بہتر يہى ہے كہ جناب ابوطالب (ع) كے احترام اور ان كى شخصيت كا خيال ركھتے ہوئے محمد(ص) كو اسى حالت پر چھوڑديں اور ديكھيں كہ آگے كيا ہوتا ہے''
اس لحاظ سے پيغمبر اسلام(ص) كى تبليغ كا يہ تيسرا مرحلہ بخوبى انجام پا رہا تھا اور آپ حالات كے انتظار ميں تھے كہ موقع ملے اور آپ اپنى تبليغ كا چوتھا مرحلہ شروع كريں_
كيا تم جانتے ہو كہ پيغمبر اسلام (ص) نے چوتھے مرحلہ كا آغاز كس سے كيا تھا؟ اس مرحلہ ميں آپ كا نقطہ نظر كيا تھا اور كس چيز پر آپ اصرار كيا كرتے تھے؟
قرآن كى آيت:
فاصدع بما تومر و اعرض عن المشركين انّا كفيناك المستہزئين
''جو كچھ آپ كو حكم ديا گيا ہے اسے ظاہر كرديں اور مشركين كى پروا نہ كريں ہم مسخرہ كرنے والوں كے شر سے آپ كو كفايت كريں گے'' (سورہ حجر 95)

174
سوالات
ان سوالات كے بارے ميں اپنے دوست سے بحث كيجئے اور درست و كامل جواب كا انتخاب كيجيئے
1)___ پيغمبر اسلام (ص) كى تبليغ كا تيسرا مرحلہ كس طرح شروع ہوا، اس مرحلہ كے شروع كرنے كے لئے اللہ تعالى سے آپ كو كيا حكم ملا تھا؟
2)___ پيغمبر اسلام(ص) نے اس فرمان كے لئے كيا كام انجام ديا تھا اور كہاں؟
3)___ ان لوگوں سے جو وہاں اكٹھے ہوئے تھے پيغمبر اسلام(ص) نے كيا اقرار ليا تھا اور آپ كا اس سے كيا مقصد تھا؟
4)___ اپنى رسالت كا اعلان كس طرح كيا، پيغام ميں كن چيزوں كا ذكر تھا؟ ان كو بيان كرو_
5)___ پيغمبر اسلام (ص) اس مرحلہ ميں كس چيز كے بيان كو اہميت ديتے تھے_
6)___ بزرگان مكّہ پيغمبر اسلام(ص) كے اس پيغام كو سننے كے بعد ايك دوسرے سے كيا كہتے تھے؟
7)___ كيا مكّہ كے مشركين اس مرحلہ ميں پيغمبر اسلام(ص) سے مقابلہ كرنے كے لئے كھڑے ہوئے تھے اور كيوں؟