آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ سوم
  65
(2) عمل كا ثمر
ہم جمعرات كو صبح جلدى ميں اٹھے باغ كے وسط ميں بہنے والى نہر سے وضو كيا اور كمرے ميں جا كر نماز پڑھنے كے لئے كھڑے ہوگئے_ چچا على نے نماز كے بعد بلند آواز سے قرآن اور دعا پڑھنى شروع كردى ہم بھى ان كے ہمراہ دعا اور قرآن پڑھنے لگے، كاش تم بھى ہوتے كيسى عمدہ نماز اور با اخلاص دعا پڑھى گئي، كتنى بہترين صبح تھي، بہت اچھى ہوا اور باصفا ماحول تھا_ كاش تم بھى وہاں ہوتے اور سورج بلند پہاڑوں اور خوش و خرم اور سبزہ زار جنگلوں سے خوبصورتى كے ساتھ نكلنے كا نظارہ كرتے، ابّا كھڑكى كے پيچھے كھڑے تھے اور سورج كے طلوع كا حسين منظر ديكھ رہے تھے اور كل والے شعر كو گنگنا رہے تھے:

ابر و باد و مہ و خورشيد و فلك دركارند
تا تو نانى بہ كف آرى و بہ غفلت نخوري


چچا على كى بيوى فرشتہ خانم نے سماور كو جلايا_ ميں نے اور حسن نے طاقچے سے ايك رسالہ اٹھايا اور اس كے ورق الٹنے لگا اس كے ايك صفحہ پر ايك شہيد كا وصيت نامہ نظر سے گذرا_ فرشتہ خانم نے پوچھا كہ كيا پڑھ رہے ہو؟ تھوڑا آواز سے پڑھو كہ ميں بھى سن سكوں_ صفحہ كى ابتداء ميں ايك آيت كا يہ ترجمہ لكھا ہوا تھا:

66
''جو لوگ اللہ كے راستے ميں مارے جاتے ہيں انھيں مردہ مت كہو بلكہ وہ زندہ ہيں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہيں''
اس كے بعد اس شہيد كا يہ وصيت نامہ درج تھا_
''اللہ كے راستے ميں شہيد ہونا كتنا اچھا ہے يہ پھول كى خوشبو كى طرح ہے ميں اس سرزمين ميں دشمن سے اتنا لڑوں گا كہ يا فتح ہمارے نصيب ہوگى اور يا درجہ شہادت پر فائز ہوجاؤںگا_
اگر اسلام اور قرآن كى راہ ميں شہيد ہونے كى لياقت نصيب ہوگى تو اس وقت ميرى ماں كو اس كى مباركباد دينا كيونكہ ميں اللہ كا مہمان ہوگيا ہوں واقعاً خدا كى راہ ميں مرنا كتنا اچھا ہے''
حسن نے پوچھا چچا جان شہيد كيسے اللہ كى مہمان كے لئے جاتا ہے، موت كيا ہے اور شہادت كيا ہے___؟ چچا بولے ''ناشتہ كے بعد ان سوالات كے بارے ميں گفتگو كروں گا اب تم ناشتہ كرلو''_ جب ہم ناشتہ كرچكے تو ميرى ماں كى مدد سے فرشتہ خانم نے دسترخوان اكٹھا كيا اور اس وقت چچا بولے:
''تمھيں ياد ہے كہ آبا نے كل كيا كہا تھا؟ تمھيں ياد ہے كہ كائنات كى خلقت اور اس كے اغراض و مقاصد كے سلسلے ميں انھوں نے مطالب بيان كئے تھے ____؟ جيسے كہ ابّا نے بيان كيا تھا كہ عالم مادي، اللہ تعالى كے ارادے او رحكم سے ہميشہ تغير و تبدل ميں ہے تا كہ اس سے وہ انسانوں كى خدمت بجالائے اور ہمارى كوشش و محنت كو بار آور قرار دے اپنى زندگى ميں غور كرو_

67
انسان ابتداء ميں كمزور اور ايك چھوٹا سا وجود تھا، سرعت كے ساتھ اس عمدہ ہدف كى طرف جو اس كے لئے اللہ تعالى نے معين كر ركھا تھا حركت كر رہا تھا، دودھ پيتا تھا اور بڑھ رہا تھا، غذا كھاتا تھا اور بڑا ہو رہا تھا اور رشد كر رہا تھا، كام كرتا تھا اور تجربہ حاصل كر رہا تھا اور خارجى دنيا سے وابستگى حاصل كر رہا تھا، علم حاصل كرتا تھا اور مادّى دنيا كى طبعى ثروت سے اور اپنے كام كے نتائج اور حيوانات و نباتات اور درختوں كى كوشش سے ا ستفادہ كر رہا تھا، اپنے جسم اور جان كى پرورش كر رہا تھا مختصر يہ كہ تمام موجودات عالم كوشش اور محنت كر رہے ہيں تا كہ وہ انسان كى خدمت بجالائيں اور انسان كى زندگى كى ضروريات كو پورا كرتے ہوئے اسے كمال تك پہنچائيں ليكن اسى حالت ميں اسے موت آپہنچتى ہے اور انسان كا جسم حركت كرنا بند كرديتا ہے''_
آپ كيا فكر كرتے ہيں___؟ كيا انسان موت كے آجانے سے فنا اور نابود ہوجاتا ہے___؟ اس صورت ميں تمام عالم كے موجودات كى تلاش اور كوشش جو انسان كى زندگى كے لئے كر رہے تھے بے كار نہ ہوگي___؟ اور تمام عالم كے موجودات كى كوشش اور حركت لغو اور بے فائدہ نہ ہوگي___؟ كيا انسان اپنى كوشش اور محنت كا كوئي صحيح اور مثبت نتيجہ حاصل نہيں كرتا___؟ كيا انسان اور تمام عالم كى كوشش اور تلاش بے كار نہ ہوجائے گي___؟
نہيں اور بالكل نہيں انسان اور تمام عالم اور جہاں كى خلقت، لغو اور بے غرض

68
نہيں ہے_ خداوند عالم نے اس منظم كائنات كو فنا اور نابود ہونے كے لئے پيدا نہيں كيا بلكہ انسان ايك ايسا موجود ہے جو ہميشگى كے لئے پيدا كيا گيا ہے اور وہ اس جہاں سے عالم آخرت كى طرف جو باقى اور ہميشہ رہنے والا ہے منتقل ہوجاتا ہے اور آخرت ميں ان تمام كاموں كا ثمرہ پائے گا جو اس مادّى عالم ميں انجام ديئے ہوتے ہيں اور پھر اس عالم آخرت ميں ہميشہ كے لئے زندگى گذارے گا_
موت ايك پل ہے جو نيك بندوں كو آخرت اور اللہ تعالى كى محبت و شفقت كى طرف منتقل كرديتا ہے_ اللہ تعالى كى يہ محبت اور نعمتيں اس كے نيك كاموں كا ثمرہ ہوا كرتى ہيں_ يہ پل گناہگار انسنوں كو ان كے برے كردار كى سزا اور جہنم كے سخت عذاب تك جا پہونچاتا ہے_
اب تم سمجھے كہ موت كيا ہوتى ہے___؟ موت ايك جگہ سے دوسرى جگہ جانے كا نام ہے جس طرح تم اپنے گھر سے پھل چننے كے لئے اس باغ ميں آئے ہو اسى طرح نيك بندے اللہ تعالى كى خوبصورت بہشت ميں اللہ اور اس كے نيك اچھے بندوں كى مہمانى ميں جائيں گے_ اللہ كے نيك بندے جو اللہ اور اس كے پيغمبر(ص) كے احكام كو بجالاتے ہيں اور اپنى روح اور جان كو اللہ تعالى كے اولياء كى محبت سے پرورش كرتے ہيں وہ آخرت ميں اپنے كاموں كا ثمرہ اٹھائيں گے اور بہت ميں جائيں گے اور اللہ تعالى كى عمدہ بہشت كى نعمتوں سے جو انھيں اپنے اچھے كردار اور ايمان كى وجہ سے مليں گى استفادہ كريں گے_ اس وقت ميرى بہن مريم نے پوچھا:
چچا جان شہادت كيا ہوتى ہے___؟ شہادت يعنى ہم اللہ كے راستے ميں اللہ تعالى كے رہبر كے حكم سے كافروں اور ظالموں سے جنگ كريں

69
تا كہ مارے جائيں_ شہيد بھى اس دنيا ميں عزت و شرافت اور وقار پاتا ہے اور آخرت ميں سب سے بلند و بالا مقامات پر فائز ہوتا ہے وہ پيغمبروں و نيك اور صالح انسانوں كا ہمنشين ہوتا ہے اور اللہ تعالى كى خاص نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے_ بہشت ميں رہنے والے شہيد كے مقام اور رتبے سے غبطہ كريں گے_
ميرے پيارے بچو جان لو كہ آخرت كى نعمتيں اسے مليں گى جو اس دنيا كى نعمتوں سے صحيح طريقے سے استفادہ كرتا ہے، اللہ كى ياد اور اطاعت سے غفلت نہيں كرتا يہ دنيا آخرت كى كھيتى ہے ہم انى كوشش اور محنت كا كامل نتيجہ آخرت ميں حاصل كريں گے_
يہ دنيا زراعت، محنت و كوشش اور عبادت كرنے كا زمانہ ہے اور آخرت اس زراعت كے كاٹنے اور ثمرہ حاصل كرنے كے زمانے كا نام ہے_ اب اٹھو اور باغ ميں چليں اور باقى ماندہ سيب چنيں كل جمعہ ہے اور كچھ افراد خدمت خلق كرنے والے ادارے كہ جس كا نام ''جہاد سازندگي'' ہے كل ہمارى مدد كے لئے آئيں گے_ جب ہم ان درختوں كى طرف جو سيبوں سے لدے ہوئے تھے جا رہے تھے تا كہ باقى ماندہ سيب چنيں تو سب كے سب يہ پڑھ رہے تھے _

ابر و باد و مہ و خورشيد و فلك دركارند
تا تو نانى بہ كف آرى و بہ غفلت نخوري


70
سوالات
يہ اس لئے كئے گئے ہيں تا كہ تم سوچ سكو، بحث كرو اور جواب دو
1)___ حسن نے اپنے چچا سے موت اور شہادت كے متعلق كيا پوچھا___؟
2)___اللہ تعالى ان لوگوں كے متعلق جو راہ خدا ميں مارے جاتے ہيں كيا فرماتا ہے؟
3)___ آخرت كى نعمتيں كسے مليں گي؟