آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ سوم
  50
عدل خدا
خداوند عالم نے اس جہاں كو ايك خاص نظم اور دقيق حساب پر پيدا كيا ہے اور ہر ايك مخلوق ميں ايك خاص خاصيت عنايت فرمائي ہے، دن كو سورج كے نكلتے سے گرم اور روشن كيا ہے تا كہ لوگ اس ميں سخت اور كوشش كر كے روزى كما سكيں رات كو تاريك اور خاموش قرار ديا ہے تا كہ لوگ اس ميں راحت اور آرام كرسكيں ہر ايك چيز كى خلقت ميں ايك اندازہ اور حساب قرار ديا ہے_
انھيں خصوصيات اور لوازمات كے نتيجے ميںجہاں كى اشياء خلقت كے لحاظ سے بہت عمدہ قسم كى زيبائي سے مزيّن ہيں_ سوچئے اگر آگ اپنى ان خصوصيات كے ساتھ موجود نہ ہوتى تو اس عالم كا رخ كيسا ہوتا___؟
فكر كيجئے اگر پانى اپنے ان خواص كے ساتھ جو اس ميں موجود ہيں نہ ہوتا تو كيا زمين پر زندگى حاصل ہوسكتي___؟ غور كيجئے اگر زمين ميں قوت جاذبہ نہ ہوتى تو كيا كچھ سامنے آتا؟ كيا تم اس صورت ميں يہاں بيٹھ سكتے اور درس پڑھ سكتے تھے؟
ہرگز نہيں كيونكہ اس صورت ميں زمين اس سرعت كى وجہ سے جو زمين اپنے ارد گرد اور سورج كے اردگرد كر رہى ہے تمام چيزوں كو يہاں تك كہ تمھيں اور تمھارے دوستوں كو فضا ميں پھينك ديتي، ہمارا موجودہ زمانے ميں زندہ رہنے كا نظم اور قانون ان خواص اور قوانين كى وجہ سے ہے جو اللہ تعالى نے طبع اور مادّہ كے اندر ركھ چھوڑا ہے اگر يہ قوانين اس دنيا ميں موجود نہ ہوتے تو زندگى كرنا حاصل نہ ہوتا گرچہ اس عالم

51
كے موجودہ قوانين كبھى ہمارے لئے پريشانى كو بھى فراہم كرديتے ہيں مثلاً ہوئي جہاز كو ان قوانين طبعى كے ما تحت اڑايا جاتا ہے اور آسمان پر لے جاتا ہے جو ان مواد اور طبائع ميں موجود ہيں اور انھيں قوانين سے استفادہ كرتے ہوئے ہوئے اسے آسمان پرتيز اور سرعت سے حركت ميں لايا جاتا ہے_
قانون جاذبہ اور اصطلاك و ٹكراؤ سے ہوائي جہاز كو زمين پر اتارا جاتا ہے ہوائي جہاز كے مسافر اسى قانون سے استفادہ كرتے ہوئے ہوائي جہاز سے نيچے اترتے ہيں اور زمين پر چلتے ہيں اور اپنى اپنى منزل تك جا پہنچتے ہيں ليكن يہى ہوائي جہاز جب اس كا ايندھن اور پيٹرول فضا ميں ختم ہوجائے تو زمين كا قانون جاذبہ فوراً سے زمين كى طرف كھينچتا ہے اور ہوائي جہاز زمين پر ٹكڑے ٹكڑے ہوجاتا كہ جس سے اس ميں سوار بعض فوراً دم توڑ ديتے ہيں اور كچھ زخمى اور بيكار ہوكر رہ جاتے ہيں اس صورت ميں قصور كس كا ہے___؟
ٹھيك ہے كہ ہم اس صورت ميں تمّنا كريں گے كہ كاش زمين ميں قوت جاذبہ نہ ہوتى اور اس صورت ميں قوت جاذبہ اپنا كام اور عمل انجام نہ ديتي___؟ كيا يہ ٹھيك ہے كہ ہم يہ آرزو كريں كہ كاش زمين اس ہوائي جہاز كو جس كا ايندھن ختم ہوگيا ہے اپنى طرف نہ كھينچتي___؟ سمجھتے ہوكہ اس آرزو كے معنى اور نتائج كيا ہوں گے___؟ اس خواہش كا نتيجہ يہ ہوگا كہ خلقت كا قانون ہمارى پسند كے مطابق ہوجائے كہ اگر ہم چاہيں اور پسند كريں تو قانون عمل كرے اور جب ہم نہ چاہيں اور پسند نہ كريں تو قانون عمل نہ كرے كيا اس صورت ميں اسے قانون كہنا اور قانون كا نام دينا درست ہوگا___؟ اور پھر يہ سوال اٹھتا ہے كہ كس شخص كى خواہش اور تمنا پر قانون عمل كرے___؟

52
اس صورت ميں سوچئے كہ ہر ج و مرج لازم نہ آ تا___ ؟ ممكن ہے كہ آپ اس شخص كو جو ہوائي جہاز كے گرجانے كى صورت ميں بيكار ہوگيا ہے ديكھيں اور يہ ديكھيں كہ وہ اس كى وجہ سے اندھا ہوگيا ہے اور اس كا ايك ہاتھ كٹ چكا ہے اور پاؤں سے معذور ہوگى ہے اور يہ كہيں اور سوچيں كہ كس نے اس پر ظلم كيا ہے___؟ اور كس نے اسے اس طرح ہاتھ، پاؤں اور آنكھوں سے محروم كرديا ہے___؟
كيا ت م خدا كى عدالت ميں شك كروگے كہ جس نے زمين كو قوت جاذبہ عنايت فرمائي ہے___؟ يا اس شخص كى عدالت اور قابليّت ميں شك كروگے كہ جس نے زمين كے اس قوت جاذبہ كے قانون اور دوسرے طبائع كے قوانين سے صحيح طور سے استفادہ نہيں كيا ہے___؟ اس شخص كى قابليّت اور لياقت ميں شك كروگے كہ جس نے ہوائي جہاز ميں بقدر ضرورت ايندھين نہيں ڈالا تھا___؟
اللہ تعالى نے ہر ايك موجود كو ايك خاص استعداد اور كمال سے پيدا كيا ہے اور دنيا پر كچھ عمومى قوانين اور طريقے معين كرديئے ہيں اور ہر چيز كے لئے ايك خاص حساب اور نظم قرار ديا ہے_ ہم انسانوں پر ضرورى ہے كہ ہم ان قوانين سے صحيح طريقے سے استفادہ كريں تا كہ اللہ تعالى كے فيض و كرم اور رحمت و عدل سے صحيح طور سے مستفيد ہوسكيں مثلا ماں كے رحم ميں جو بچہ بڑھتا اور رشد كرتا ہے تو وہ اس عالم پر تمام مسلّط قوانين سے پيروى كرتا ہے اگر ماں، باپ يا دوسرے مخيّر حضرات خلقت كے قوانين كو صحيح طور پر استعمال كريں گے تو بچہ صحيح و سالم انھيں مل سكے گا بخلاف اگر وہ سگريٹ نوش يا شراب خور ہوئے تو سگريٹ يا شراب كے زہر سے يقينا بچے كے بدن ميں نقص پيدا ہوجائے گا جس طرح كہ ہوائي جہاز كے گرنے نے نقص ايجاد كرديا تھا اور كسى كو آنكھ يا ہاتھ سے

53
محروم كرديتا تھا_ شرابى ماں كا بچہ دنيا ميں بيمارى لے كر پيدا ہوتا ہے وہ ماں جو ضرر رساں دوائيں استعمال كريں ہے اس كا بچّہ دنيا ميں معيوب پيدا ہوتا ہے، بچے كى ماں يا باپ يا اس كے لواحقين، قوانين صحت كى مراعات نہيں كرتے تو بچہ خلقت كے لحاظ سے ناقص پيدا ہوتا ہے يہ اور دوسرے نقائص ان قوانين كا نتيجہ ہيں جو اللہ تعالى نے دنيا پر مسلط كر ركھا ہے اور يہ تمام قوانين، اللہ تعالى كے عدل سے صادر ہوتے ہيں_
ہم تب كيا كہيں گے جب كوئي ماں باپ كہ جو قوانين صحت كى رعايت كرتے ہيں اور بچہ سالم دنيا ميں آتا ہے اور وہ ماں باپ جو قوانين صحت كى رعايت نہ كريں اور ان كا بچہ بھى سالم دنيا ميں آتا ہے كيا يہ كہ دنيا بے نظم اور بے قانون ہے اور اس پر كوئي قانون حكم فرما نہيں ہے_ كيا يہ نہيں سوچيں گے كہ جہاں ميں ہرج اور مرج اور گربڑ ہے كہ جس ميں كوئي خاص نظم اور حساب نہيںہے اور كوئي قانون اس پر حكم فرما نہيں ہے؟ كيا يہ نہيں كہيں
ے كہ جہاں كا خلق كرنے والا ظلم كو جائز قرار ديتا ہے____؟ كيوں كہ ان ماں باپ كو جو قانون كے پورى طرح پابند ہيں انھيں ايك سالم بچہ عنايت فرماتا ہے اور ان ماں باپ كو بھى جو كسى قانون كى پابندى نہيں كرتے سالم بچہ عنايت كرتا ہے تو پھر ان دونوں ميں كيا فرق ہوگا___؟ جس نے كام كيا ہو اور قانون كى پابندى كى ہو وہ اس شخص كے ساتھ مساوى اور برابر ہو كہ جس نے قانون كى پابندى نہ كى ہو___؟ كيا دونوں ايك جيسے منزل مقصود تك پہنچيں گے، گيا آپ اس طرح سوچ سكتے ہيں___؟ ہرگز نہيں كيونكہ تمھيں لم ہے كہ دنيا ايك قانون اور نظم كے ساتھ چلائي جا رہى ہے اور اسے لاقونى اور ہرج و مرج سے نہيں چلايا جارہا ہے _
تمھيں علم ہے كہ اللہ تعالى نے ہر ايك موجود كے لئے علّت قرار دى ہے_ طبائع

54
اور مواد عالم ميں قوانين اللہ تعالى كے ارادے سے ركھے گئے ہيں، وہ اپنا عمل انجام دے رہے ہيں اور كسى كى خواہش و تمنّا كے مطابق نہيں بدلتے ہيں البتہ كبھى ايك يا كئي قانون ايك جگہ اكٹھے ہوجاتے ہيں اور ان سے بعض چيزيں وجود ميں آجاتى ہيں جو ہمارى پسند كے مطابق نہيں ہوتيں ليكن دنيا كے نظام ميں اس قسم كے وجود سے فرار ممكن نہيں ہوسكتا يہى اللہ تعالى كا عدل نہيں ہے كہ جن قوانين كو اس نے عالم پر مسطل كرديا ہے انھيں خراب كردے اور لاقانونيّت اور ہرج و مرج كا موجب بنے بلكہ اللہ تعالى كے عدل كا تقاضا يہ ہے كہ ہر مخلوق كو اس كى خاص استعداد كى روسے وجود عنايت فرمائے اور اسے كمال تك پہنچائے_ خداوند عالم تمام حالات ميں عادل ہوتا ہے يہ انسان ہى ہے جو اپنے اعمال اور نادانى و جہالت كى وجہ سے اپنے اور دوسروں پر ظلم اور مشكليں كھڑى كرتا ہے_

ايك سوال
ہوسكتا ہے آپ كہيں كہ ماں باپ نے قانون كى لاپرواہى كرتے ہوئے شراب يا دوسرى ضرر رساں دوائيں استعمال كر كے بچے كو غير سالم اور بے كار وجود ميں لائے اور اس قسم كے نقصان كے سبب بنے كہ جس كے نتيجے ميں ايك بيكار اور ناقص فرد دينا ميں آيا اور يہ ٹھيك ان قوانين كے ماتحت ہوا ہے جو اللہ تعالى نے خلقت كے لئے بر بناء عدل معين كر ركھا ہے ليكن ديكھنا يہ ہے كہ اس ميں بچے كا كيا قصور ہے كہ وہ دنيا ميں ناقص پيدا ہو اور تمام عمر بيكار زندگى بسر كرے____

جواب
اس كا جواب يہ ہے كہ بچے كا كوئي بھى قصور نہيں ہے خداوند عالم بھى اس پر اس كي

55
طاقت اور قدرت سے زيادہ حكم اور تكليف نہيں دے گا اور وہ اس امكانى حد ميں جو اس ميں موجود ہے اپنے وظائف شرعى پر عمل كرے تو وہ اللہ تعالى سے بہترين جزا كا مستحق ہوگا اس قسم كے افراد اگر متقى اور مومن ہوں تو وہ دوسرے مومنين كى طرح اللہ تعالى كے نزديك محترم اور عزيز ہونگے اور اپنے وظائف پر ٹھيك طرح سے عمل پيراہوں تو آخرت ميں ايك بلند درجے پر فائز ہوں گے_

اس بحث كا خلاصہ اور تكميل
سابقہ بحث كا خلاصہ يہ ہے كہ جب ہم كہتے ہيں كہ خداوند عالم عادل ہے تو اس سے مراد يہ ہے كہ اللہ تعالى نے خاص قوانين اس دنيا كے لئے وضع كئے ہيں اور ہر ايك مخلوق ميں ايك خاص استعداد اور وديعت كر ركھى ہے_ اگر ہم ان قوانين اور خصوصيات كى جو اللہ تعالى نے معين كى ہيں رعايت كريں تو پھر ہم اس كے فيض اور رحمت سے مستفيد ہوں گے اور اس كے عدل و فضل كے سايہ ميں اس نتيجے تك جا پہنچيں گے جو مدّ نظر ہوگا اور ان قوانين عالم سے جو اللہ تعالى كے ارادے سے معين كئے گئے ہيں لاپروائي كريں تو ہم خود اپنے اوپر ظلم كريں گے اور اس بے اعتنائي كا نتيجہ يقينا ديكھيں گے_
خداوند عالم كا آخرت ميں عادل ہونے سے بھى يہى مراد ہے يعنى اللہ تعالى نے اپنے پيغمبروں كے ذريعہ لوگوں كو اچھائي اور برائي سے آگاہ كرديا ہے اچھے كاموں كے لئے اچھى جزاء اور برے كاموں كے لئے برى سزا معين كر ركھى ہے_ خداوند عالم آخرت ميں كسى پر ظلم نہ كرے گا ہر ايك كو ان كے اعمال كے مطابق جزاء اور سزا دے گا جس نے نيكوكاري، خداپرستى كا راستہ اختيار كيا ہوگا تو وہ اللہ تعالى كى نعمتوں سے مستفيد ہوگا اور

56
اگر باطل اور مادہ پرستى كا شيوہ اپنا يا ہوگا اور دوسروں پر ظلم و تعدّى روا ركھى ہوگى تو آخرت ميں سخت عذاب ميں مبتلا ہوگا اور اپنے برے كاموں كى سزا پائے گا_
قرآن مجيد كى آيت:
و ما كان اللہ ليظلمہم و لكن كانوا انفسہم يظلمون (1)
''خداوند عالم كسى پر ظلم نہيں كرتا بلكہ لوگ ہيں جو اپنے اوپر ظلم كرتے ہيں''
-------------
1) سورہ عنكبوت آيت نمبر 40
57

سوچئے اور جواب ديجئے
1)___ كچھ طبعى قوانين بتلايئے
2)___ كيا يہ درست ہے كہ ہم يہ آرزو كرں كہ كاش زمين ميں قوت جاذبہ موجود نہ ہوتى كيوں؟ توضيح كيجئے
3)___ جب ہم كہتے ہيں كہ خدا عادل ہے تو اس سے كيا مراد ہوتى ہے؟ كيا اس سے يہ مراد ہوتى ہے كہ تمام كے ساتھ ايك جيسا سلوك كرے خواہ اس نے كہ جس نے كام كيا ہے اور اس نے كہ جس نے كوئي كام نہيں كيا؟
4)___ اللہ تعالى كے عادل ہونے كا كيا تقاضہ ہے؟ كيا يہ مراد ہے كہ اللہ تعالى اپنے قوانين طبعى كو ہوا اور ہوس كے مطابق بدل ديتا ہے يا يہ مراد ہے كہ اللہ تعالى اپنے معين كردہ قوانين كے مطابق ہر ايك انسان كو نعمت اور كمال عنايت كرتا ہے_
5)___ بعض انسان جو ناقص عنصر والے ہوتے ہيں يہ كن عوامل كے نتيجے ميں ہوا كرتا ہے؟ كيا اس سے اللہ تعالى كى عدالت يا قوانين طبعى كے خلاف ہونے پر اعتراض كيا جاسكتا ہے؟
6)___ اگر كوئي بچہ ماں كے پيٹ ميں اس كى شراب خورى كى وجہ سے اس بچے كى طرح رشد كرے كہ جس كى ماں سالم اور متقى ہو اگر ايسى مساوات ہوجائے تو يہ كس كا نتيجہ ہوگا، كيا يہ عدل الہى كى نشانى ہوگي؟