آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ دوم
  152
اكيسواں سبق
سبق آموز كہانى دو بھائي
ايك نيك اور مہربان دوسرا مغرور، خودپسند اور بدكردار ايك دولت مند انسان دنيا سے انتقال كر گيا اس كى وافر دولت اس كے دو لڑكوں كو ملى ان ميں سے ايك دين دار اور عاقل جوان تھا وہ دانا اور عاقبت انديش تھا دنيا كو آخرت كى كھيتى سمجھتا تھا اپنى دولت سے آخرت كے لئے فائدہ حاصل كرتا اپنے مال كے واجب حقوق ديا كرتا اور فقيروں اور غريبوں كى مدد كرتا ان كو سرمايہ اور كام مہيّا كيا كرتا تھا اپنے رشتہ داروں اور عزيزوں كى اپنى دولت سے مدد كرتا نيك كاموں ميں سبقت ليجاتا مسجد بناتا_
اسپتال او رمدرسہ بناتا طالب علموں كو تحصيل علم كے لئے مال ديتا اور علماء كى زندگى كے مصارف برداشت كرتا تھا اور كہتا تھا كہ ميں يہ كام اللہ تعالى كى رضا اور خوشنودى كے لئے انجام ديتا ہوں يہ كام ميرے آخرت كے لئے

153
ذخيرہ ہيں دوسرا لڑكا نادان اور حريص تھا جو كچھ ہوتا تھا اس كو اپنے لئے ہى ركھتا باغ اور كھيتى بناتا بہترين مكان بناتا ليكن اپنے نادار رشتہ داروں كى كبھى دعوت نہ كرتا اور ان سے ميل جول نہ ركھتا اپنے مال كے واجب حقيق ادا نہ كرتا_ غريبوں كے سلام كا جواب نہ ديتا نيك كاموں ميں شريك نہ ہوتا اور كہتا كہ مجھے كام ہے ميرے پاس وقت نہيں ہے اس مغرور انسان كے دو بہت بڑے باغ تھے جو خرمہ اور انگور اور دوسرے ميوے دار درختوں سے پرتھے پانى كى نہريں اس كے باغ كے كنارے سے گزرتى تھيں_
ان باغوں كے درميان بڑى سرسبز كيھتى تھى كہ جس ميں مختلف قسم كى سبزياں بوئي ہوئي تھيں جب يہ دولت مند بھائي اپنے دوسرے بھائي كے ساتھ اپنے باغ ميں جاتا تو سر سبز ميروے سے لدے ہوئے بلند درختوں كو ديكھ كر خوش ہوتا اونچى آواز ميں ہنستا اور اپنے نيك بھائي كا مذاق اڑاتا اور كہتا كہ تو غلطى كرتا ہے كہ اپنى دولت دوسروں كو دے ديتا ہے ليكن ميں اپنى دولت كسى كوم نہيں ديتا جس كے نتيجے ميں ان باغات اور زيادہ دولت كا مالك ہوں واقعى كتنا بڑا يہ باغ اور كتنى زيادہ دولت: كيا كہنا ميں ہميشہ اچھى زندگى گزارتا ہوں يہ دولت تو ختم ہونے والى نہيں جو ميرے پاس ہے_
مجھے گمان نہيں كہ قيامت بھى ہے اور جہان آخرت بھي اور اگر قيامت ہو بھى تو بھى خدا مجھے اس سے بہتر دے گا اس كا نيك بھائي اسے كہتا كہ آخرت كى نعمتيں كسى كو مفت نہيں ملتيں چاہيئے كہ اعمال صالحہ

154
اور كار خير بجالائے تا كہ آخرت ميں استفادہ كر كے نجات پاسكو زيادہ دولت نے تجھے خدا سے غافل كرديا ہے ميرے بھائي تكبّر نہ كر غريبوں كے سلام كا جواب دياكر فقيروں كى دستگيرى كيا كر اتنى بڑى دولت سے آخرت كے لئے فائدہ اٹھا نيك كاموں ميں شريك ہوا كر يہ نہ كہا كہ ميرے پاس وقت نہيں ہے نہيں كرسكتا: مجھے كام ہے: گناہ اور مستى نہ كيا كر اللہ كے غضب سے ڈر ممكن ہے خدا كوئي عذاب بھيجے اور يہ تمام دولت اور نعمت تجھ سے لے لے اس وقت پشيمان ہوگا ليكن اس وقت كى پشيمانى فائدہ مند نہ ہوگي_
ليكن اس كا وہ مغرور بھائي اس غافل اور نيك بھائي كى نصيحت نہ سنتا اور اپنے ناروا كاموں ميں مشغول رہتا ايك دن وہ مغرور شخص اپنے باغ ميں گيا جب وہاں پہنچا تو بہت دير ساكت كھڑا رہا اور گھور گھور كرديكھتا رہا ايك چيخ مارى اور گر پڑا جى ہاں خدا كا عذاب نازل ہوچكا تھا اور باغ كو ويران كر گيا تھا باغ كى ديواريں گرچكى تھيں انچے درخت اور اس كى شاخيں اور ميوے جل چكے تھے اور ...
جب ہوش ميں آيا تو گريہ و زارى كى اور افسوس كيا اوركہنے لگا كاش كہ ميں اپنے بھائي كى باتوں كو سنتا: كاش ميں اپنى دولت خدا كى راہ ميں خرچ كرتا كاش كہ ميں نيك كاموں ميں شريك ہوتا اور واجب حقوق ادا كرتا ميرے ہاتھ سے دولت نكل گئي اب نہ دنيا ميں ميرے پاس كوئي چيز ہے اور نہ آخرت ميں يہ ہے اس دولت كا انجام جو خدا كى راہ ميں اور اسكے نيك بندوں پر خرچ نہ ہو يہ سب ميرے تكبّر اور نادانى كا نتيجہ ہے_

155
ايك تربيتى كہاني ظالم حريص قارون
قارون حضرت موسى عليہ السلام كے رشتہ داروں ميں سے تھا اور بظاہر اس نے آپ كا دين بھى قبول كرليا تھا نماز پڑھتا تھا تورات پڑھتا ليكن ريا كار اور كمزور عقيدہ كا انسان تھا مكمل ايمان نہيں ركھتا تھا چاہتا تھا كہ لوگ اس سے خوش فہمى ركھيں تا كہ انہيں فريب دے سكے قارون فصلوں كو پيشگى سستا خريد ليتا اور بعد ميں انہيں مہنگے داموں پر فروخت كرتا تھا معاملات ميں كم تولتا دھوگا اور بے انصافى كرتا سود كھاتا اور جتنا ہوسكتا تھا لوگوں پر ظلم كيا كرتا اسى قسم كے كاموں سے بہت زيادہ دولت اكٹھى كرلى تھى اور اسے ہر چيز سے زيادہ عزيز ركھتا تھا قارون خدا پرست نہ تھا بلكہ دولت پرست تھا اپنى دولت عيش و عشرت ميں خرچ كرتا تھا بہت عمدہ محل بنايا اور ان كے در و ديوار كو سونے اور مختلف

156
قسم كے جواہرات سے مزيّن كيا حتّى كہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں كو سونے اور جواہرات سے مزّين كيا قارون كے پاس سينكڑوں غلام اور كنيزيں تھيں اور ان كے ساتھ برا سلوك كرتا اور انہيں مجبور كرتا كہ اس كے سامنے زمين پر گرپڑيں اور اس كے پاؤں كو بوسہ ديں_
بعض عقلمند مومن اسے نصيحت كرتے اور كہتے كہ اسے قارون يہ تمام باغ اور ثروت كس لئے يہ سب دولت اور مال كس لئے ذخيرہ كر ركھا ہے؟ كيوں لوگوں پر اتنے ظلم ڈھاتے ہو؟ خدا كا كيا جواب دو گے؟ لوگوں كا حق كيوں پامال كرتا ہے؟ غريبوں او رناداروں كى كيوں مدد نہيں كرتا؟ نيك كاموں ميں كيوں قدم نہيں اٹھاتا؟ قارون غرور و تكبّر ميں جواب ديتا كہ كسى كو ان باتوں كا حق نہيں پہنچتا ميں اپنى دولت خرچ كرتا ہوں؟ مومن اسے وعظ كرتے اور كہتے كہ اتنى بڑى دولت حلال سے اكٹھى نہيں ہوتى اگر تو نے بے انصافى نہ كى ہوتى اگر تونے سود نہ كھايا ہوتا تو اتنا بڑا سرمايہ نہ ركھتا بلكہ تو بھى دوسروں كى طرح ہوتا اور ان سے كوئي خاص فرق نہ ركھتا_
قارون جواب ميں كہتا نہيں ميں دوسروں كى طرح نہيں ميں چالاك اور محنتى ہوں ميں نے كام كيا ہے او ردولت مند ہوا ہوں دوسرے بھى جائيں كام كريں زحمت اٹھائيں تا كہ وہ بھى دولت مند ہوجائيں ميں كس لئے غريبوں كى مدد كروں ليكن مومن اس كى راہنمائي كے لئے پھر بھى كہتے كہ تم لوگوں كے حقوق ادا نہيں كرتے جب ہى اتنے دولت مند ہوئے ہو اگر تم مزدوروں كے حق ديتے تو اتنے ثروت مند نہ ہوتے

157
اور وہ اتنے فقير اور خالى ہاتھ نہ ہوتے اب بھى اگر چاہتے ہو كہ سعادتمند اور عاقبت بخير ہوجاؤ تو اپنى دولت كو مخلوق خدا كى آسائشے اور ترقى ميں خرچ كرو دولت كا انبار لگالينا اچھا نہيں دولت كو ان راستوں ميں كہ جسے خداپسند كرتا ہے خرچ كرو ليكن قارون مومنين كا مذاق اڑاتا اور ان كى باتوں پر ہنستا اور غرور اور بے اعتنائي سے انہيں كہتا كہ بے فائدہ مجھے نصيحت نہ كرو ميں تم سے بہتر ہوں اور اللہ پر زيادہ ايمان ركھتا ہوں جاؤ اپنا كام كرو اور اپنى فكر كرو

خوشبختى اور سعادت كس چيز ميں ہے
ايك دن قارون نے بہت عمدہ لباس پہنا اور بہت عمدہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے محل سے باہر نكلا بہت زيادہ نوكر چاكر بھى اس كے ساتھ باہر آئے لوگ قارون كى عظمت و شكوہ كو ديكھنے كے لئے راستے ميں كھڑے تھے اور اس قدر سونے او رجواہرا كے ديكھنے پر حسرت كر رہے تھے بعض نادان اس كے سامنے جھكتے اور زمين پر گرپڑتے اور كہتے كتنا خوش نصيب ہے قارون كتنى ثروت كا مالك اور كتنى سعادت ركھتا ہے خوش حال قارون كتنى اچھى زندگى گزارتا ہے كتنا سعادتمند اور خوشبخت ہے كاش ہم بھى قارون كى طرح ہوتے؟

158
ليكن سمجھدار مومنين كا دل ان لوگوں كى حالت پر جلتا وہ انہيں سمجھاتے اور كہتے كہ سعادت اور خوش بختى زيادہ دولت ميں نہيں ہوا كرتى كيوں اس كے سامنے زمين پر گرپڑتے ہو؟ ايك ظالم انسان كا اتنا احترام كيوں كرتے ہو وہ احترام كے لائق نہيں: اس نے يہ سارى دولت گراں فروشى اور بے انصافى سے كمائي ہے وہ سعادتمند نہيں سعادتمند وہ انسان ہے جو خدا پر واقعى ايمان ركھتا ہو اور اللہ كى مخلوق كى مدد كرتا ہو اور لوگوں كے حقوق سے تجاوز نہ كرتا ہو ايك دن اللہ تعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كو حكم ہوا كہ دولت مندوں سے كہو كہ وہ زكاة ديں_
حضرت موسى عليہ السلام نے اللہ كا حكم دولت مندوں كو سنايا اور قارون كو بھى اطلاع دى كہ دوسروں كى طرح اپنے مال كى زكوة دے اس سے قارون بہت ناراض ہوا اور سخت لہجے ميں حضرت موسى (ع) سے كہا زكوة كيا ہے كس دليل سے اپنى دولت دوسروں كو دوں وہ بھى جائيں اور كام كريں اور محنت كريں تا كہ دولت كماليں_
حضرت موسى عليہ السلام نے فرمايا زكوة يعنى اتنى بڑى دولت كا ايك حصّہ غريبوں اور ناداروں كو دے تا كہ وہ بھى زندگى گذارسكيں چونكہ تم شہر ميں رہتے ہو اور معاشرے كى فرد ہو اور ان كى مدد سے اتنى كثير دولت اكٹھى كى ہے اگر وہ تيرى مدد نہ كرتے تو تو ہرگز اتنى دولت نہيں كماسكتا تھا مثلا اگر تو بيابان كے وسط ميں تنہا زندگى بسر كرتا تو ہرگز اتنا بڑا محل نہ بنا سكتا اور باغ آباد نہ كرسكتا يہ دولت جو تونے حاصل كى ہے

159
ان لوگوں كى مدد سے حاصل كى ہے پس تيرى دولت كا كچھ حصّہ بھى انہيں نہيں دے رہا بلكہ ان كے اپنے حق اور مال كو زكات كے نام سے انہيں واپس كر رہا ہے_
ليكن قارون نے موسى عليہ السلام كى دليل كى طرف توجہ نہ كى اور كہا اے موسى (ع) يہ كيسى بات ہے كہ تم كہہ رہے ہو زكات كيا ہے ہم نے برا كام كيا كہ تم پر ايمان لے آئے ہيں كيا ہم نے گناہ كيا ہے كہ نماز پڑھتے ہيں اب آپ كو خراج بھى ديں_
حضرت موسى عليہ السلام نے قارون كى تندروى كو برداشت كيا اور نرمى سے اسے كہا كہ اے قارون زكات كوئي ميں اپنے لئے تولے نہيں رہا ہوں بلكہ اجتماعى خدمات اور غريبوں كى مدد كے لئے چاہتا ہوں يہ اللہ كاحكم ہے كہ مالدار غريبوں اور ناداروں كا حق ادا كريں يعنى زكوة ديں تا كہ وہ بھى محتاج اور فقير نہ رہيں اگر تو واقعى خدا پر ايمان ركھتا اور مجھے خدا كا پيغمبر مانتا ہے تو پھر اللہ كے حكم كے سامنے سرتسليم خم كردے اگر نماز پڑھتا ہے تو زكوت بھى دے كيونكہ نماز بغير زكات كے فائدہ مند نہيں ہے تورات كا پڑھنا سمجھنے اور عمل كرنے كے لئے ہے ليكن قارون حضرت موسى عليہ السلام اور مومنين كى نصيحت اور موعظہ كى كوئي پرواہ نہ كى بلكہ اس كے علاوہ مومنين كواذيّت بھى پہنچانے لگا اور حضرت موسى عليہ السلام كے ساتھ دشمنى كرنے لگا يہاں تك تہمت لگانے سے بھى دريغ نہيں كرتا تھا حضرت موسى عليہ السلام قارون كى گستاخى اور سخت دلى سے بہت ناراض ہوئے اور آپ كا دل ٹوٹا اور خداوند عالم سے درخواست

160
كى كہ اس حريص اور ظالم انسان كو اس كے اعمال كى سزا دے_

حضرت موسى (ع) كى دعا قبول ہوئي
اللہ كے حكم سے زمين لرزى اور ايك شديد زلزلہ آيا اور ايك لحظہ ميں قارون كا محل ويران اور زمين بوس ہوگيا اور قارون كو قصر سميت زمين نگل گئي اور اس حريص كے ظلم كا خاتمہ كرديا قارون خالى ہاتھ آخرت كى طرف روانہ ہواتا كہ وہ اپنے برے كاموں كى سزا كو ديكھے اور اسے عذاب ديا جائے كہ آخرت كا عذاب سخت اور دائمى ہے اس وقت وہ لوگ جو قارون كو سعادتمند سمجھتے تھے اور اس كى دولت كى آرزو كرتے تھے اپنى غلطى كى طرف متوجہ ہوئے اور توبہ كى اور كہا كتنى برى عاقبت اور برا انجام ہے يہ قارون نے اپنے مال كو ہاتھ سے نہ ديا اور خالى ہاتھ اور گناہ گار آخرت كى طرف روانہ ہوا تا كہ اپنے كئے كا عذاب چكھے اب ہم نے سمجھا كہ تنہا مال اور دولت كسى كو خوش بخت نہيں كرتى بلكہ خوش بختى خدا پر ايمان اور اللہ كے احكام پر عمل كرنے ميں ہے_

غور كيجئے اور جواب ديجئے
1)___ قارون نے دولت كس طريقہ سے اكٹھى كى تھي؟

161
2)___ قارون اپنى دولت كو كہاں خرچ كرتا تھا؟
3)___ مومن اس سے كيا كہتے تھے اور كس طرح اسے نصيحت كرتے تھے؟
4)___ زكات سے كيا مراد ہے كس دليل كى بنا پر اپنى دولت دوسروں كو دى جائے حضرت موسى (ع) نے قارون كے دو سوالوں كا كيا جواب ديا تھا؟
5)___ كس دليل سے مال كا كچھ حصّہ فقراء سے تعلق ركھتا ہے؟
6)___ جب نادان لوگوں نے قارون كا ظاہرى جاہ و جلال ديكھا تو كيا كہتے تھے اور كيا آرزو كرتے تھے؟
7)___ حضرت موسى (ع) زكات كو كن جگہوں پر خرچ كرتے تھے؟
8)___ كيا قارون واقعاً سعادتمند تھا اور اس كا انجام كيا ہوا؟
9)___ اپنے ظلم كى كامل سزا كہاں پائے گا؟
10)___ جو لوگ اسے سعادتمند سمجھتے تھے وہ اپنى غلطى سے كيسے مطلع ہوئے اور انہوں نے كيا كہا؟
اس داستان كو اپنے خاندان كے افراد كے سامنے بيان كيجئے اور اس كے متعلق بحث اور گفتگو كيجئے_