آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ دوم
  135
سترہواں سبق
مظلوم كا دفاع
ايك بوڑھا آدمى كسى بيابان ميں رہتا تھا اونٹوں كى پرورش اور نگہبانى كرتا تھا اونٹوں كو شہروں ميں لے جا كر بيجتا اور اس سے اپنے گھر بار اور بچّوں كى ضروريات خريدتا تھا ايك دفعہ اونٹوں كو ليكر مكہ گيا_ لوگ اس كے اردگرد جمع تھے اور اونٹوں كى قيمت كے متعلق گفتگو كر رہے تھے اچانك ابوجہل آيا اور دوسروں كى پرواہ كئے بغير اس بوڑھے آدمى سے كہا كہ اونٹ صرف مجھے فروخت كرنا صرف مجھے سمجھ گئے دوسروں نے جب ابوجہل كى سخت لہجے ميں بات سنى تو سب وہاں سے چلے گئے اور اسے اس بوڑھے اونٹ فروش كے ساتھ تنہا چھوڑ ديا ابوجہل نے كہا كہ اونٹ ميرے گھر لے آؤ اس بوڑھے آدمى نے اس كے حكم كى تعميل كى اور اونٹ اس كے گھر پہنچا ديئےور روپيہ كا تقاضہ كيا ابوجہل نے بلند آواز سے

136
كہا كون سا روپيہ ميں اس شہر كا سردار ہوں اگر چاہتے ہو پھر مكّہ آؤ اور اونٹ فروخت كرو تو پھر تمہيں چاہيے كہ اونٹوں كا روپيہ مجھ سے نہ لو سمجھ گئے بوڑھے آدمى نے كہا كہ يہى اونٹ ميرا سارا سرمايہ ہے ميں نے اس كى پرورش اور حفاظت ميں بہت مصيبتيں اٹھائي ہيں اس سرمايہ سے چاہتا تھا كہ اپنے اور اپنے گھر والوں كے لئے روزى مہيّا كروں اس لئے تمہيں زيب نہيں ديتا كہ ميں خالى ہاتھ لوٹ جاؤں اور تمام زندگى اور كام سے رہ جاؤں چونكہ ابوجہل ايك ظالم اورخودپسند آدمى تھا بجائے اس كے كہ اس كا حق ادا كرتا غضبناك ہو كر كہا كہ تم نے وہ نہيں سنا جو ميں نے كہا ہے بہت جلدى يہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ كوڑوں سے تيرا جواب دوں گا سمجھ گئے اس بوڑھے آدمى نے ديكھا كہ اگر تھوڑى دير اور بيٹھتا ہوں تو ممكن ہے كہ مار بھى كھاؤں مجبور ہوكر وہ اس ظالم بے رحم كے گھر سے اٹھ كر چلا گيا راستے ميں اپنے واقعہ كو چند گزرنے والوں سے بيان كيا اور ان سے مدد مانگى ليكن كوئي بھى اس كى مدد كرنے كو تيار نہ ہوا بلكہ وہ جواب ديتے كہ ابوجہل ہمارا شہرى ہے وہ قريش ميں سے طاقت ور آدمى ہے جو چاہتا ہے كرتا ہے اسے كوئي بھى روك نہيں سكتا وہ بوڑھا آدمى گلى كوچہ ميں سرگردان جارہا تھا كہ مسجد الحرام تك پہنچ گيا وہاں قريش كى عمومى مجلس ميں ابوجہل كى شكايت كى دو آدميوں نے از راہ مذاق اس بوڑھے آدمى سے كہا اس آدمى كو ديكھو_ يہ محمد(ص) ہے اس نے كہنا شروع كيا ہے كہ ميں خدا كا آخرى پيغمبر ہوں وہ ابوجہل كا دوست ہے وہ تيرا حق ابوجہل سے لے سكتا ہے جاؤ اس كے پاس وہ جھوٹ

137
بول رہے تھے ہمارے پيغمبر(ص) ابوجہل كے دوست نہ تھے بلكہ اس كے اور اس كے كاموں كے دشمن تھے خدا نے حضرت محمد(ص) كو پيغمبرى كے لئے چنا تھا تا كہ وہ ظالموں كے دشمن رہيں اور ان كے ساتھ مقابلہ كريں اور بہادر نيك لوگوں كى مدد سے ظالموں اور خودپسندوں كو ختم كريں خدا نے حضرت محمد(ص) كو لوگوں كى رہبرى كے لئے بھيجا تھا تا كہ اجتماع ميں عدل اور انصاف كو برقرار ركھيں اور لوگ آزادانہ خدا كى پرستش كريں وہ جھوٹ بول رہے تھے ليكن بوڑھا مظلوم انسان ان كى باتوں كو صحيح خيال كر رہا تھا وہ سمجھتا تھا كہ واقعى حضرت محمد(ص) ابوجہل كے دوست ہيں لہذا وہ بوڑھا آدمى حضرت محمد(ص) كے پاس آيا تا كہ آپ(ص) سے مدد كرنے كى درخواست كرے جو لوگ قريش كى عمومى مجلس ميں بيٹھے ہوے تھے ہنس رہے تھے اور مذاق كر رہے تھے اور كہتے تھے كون ہے جو ابوجہل سے بات كرسكتا ہے وہ قريش كا طاقتور انسان ہے كسى ميں جرات نہيںكہ اس كى مخالفت كرے ابوجہل محمد(ص) كو بھى مارے گا اور وہ شرمندہ واپس لوٹيں گے وہ بوڑھا آدمى حضرت محمد(ص) كے پاس پہنچا اور اپنى سرگزست بيان كى اور آپ سے مدد چاہى حضرت محمد(ص) نے اس كى شكايت كو غور سے سنا اور فرمايا كہ ميرے ساتھ آو وہ بوڑھا آدمى پيغمبر اسلام(ص) كے ساتھ ابوجہل كے گھر پہنچا كچھ آڈمى تھوڑے فاصلے پر ان كے پيچھے ہولئے تا كہ ديكھيں كہ اس كا نتيجہ كيا ہوتا ہے ابوجہل كے گھر پہنچے اونٹوں كى آواز اوبجہل كے گھر سے سنائي دے رہى تھى پيغمبر اسلام (ص) نے دروازہ كھٹكھٹايا ابوجہل نے سخت لہجے ميں كہا كہ

138
كون ہے دروازہ كھولو محمد(ص) ہوں: بوڑھے آدمى نے جب ابوجہل كى سخت آواز سنى تو چند قدم پيچھے ہٹ كر عليحدہ كھڑا ہوگيا ابوجہل نے دروازہ كھولا_ حضرت محمد صل اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ايك جائزہ ليا اور پھر تيز نگاہ سے اسے ديكھا اور سخت غصّے كى حالت ميں فرمايا اے ابوجہل كيوں كيوں كھڑے ہو جلدى كرو اس كے پيسے دو ابوجہل گھر گيا جو لوگ دور كھڑے تھے انہوں نے گمان كيا كہ ابوجہل اندر گيا ہے تا كہ چابك يا تلوار اٹھالائے گا ليكن ان كى اميد كے برعكس وہ پريشان حالت ميں گھر سے باہر آيا اور لرزتے ہاتھ سے اشرفيوں كى ايك تھيلى بوڑھے آدمى كو دے دى بوڑھے آدمى نے وہ تھيلى لے لي_ پيغمبر اسلام(ص) نے اس سے فرمايا كہ تھيلى كو كھولو اور روپيہ گن كر ديكھو كہيں كم نہ ہوں اس بوڑھے آدمى نے روپيہ گنا اور كہا كہ پورے ہيں اس نے پيغمبر اسلام(ص) كا شكريہ ادا كيا جو لوگ دور سے اس واقعہ كا مشاہدہ كر رہے تھے انہوں نے تعجب كيا اس كے بعد جب ابوجہل كو ديكھا تو اسے ملامت كى اور كہا كہ محمد(ص) سے ڈرگيا تھا كتنا ڈرپوك ہے تو ابوجہل نے جواب ميں كہا وہ جب ميرے گھر آئے اور غصّے سے مجھے ديكھ كر روپيہ دينے كے لئے كہا تو اس قدر خوف اور اضطراب مجھ پر طارى ہوا كہ ميں مجبور ہوگيا كہ ان كے حكم پر عمل كروں اور اونٹوں كى قيمت ادا كروں اگر تم ميرى جگہ ہوتے تو اس كے سوا كوئي چارہ تمہارے لئے بھى نہ ہوتا_
اس دن كے بعد جب بھى ابوجہل اور اشراف مكّہ اكٹھے مل كر

139
بيٹھتے اور حضرت محمد(ص) اور آپ كے اصحاب كے متعلق گفتگو كرتے تو كہتے كہ محمد(ص) كے پيروكاروں كو اتنى تكليفيں ديں گے وہ محمد(ص) كو تنہا چھوڑديںگے اور دين اسلام سے دست پردار ہوجائيں گے محمد(ص) كو اتنا تنگ كريں گے كہ پھر وہ ہم سے مقابلہ نہ كرسكيں گے اور كمزوروں كا حق ہم سے وصول نہ كرسكيں گے آپ كى سمجھے ہيں كيا تكليف دينے اور اذيتيں پہنچانے سے سچے مسلمانوں نے دين اسلام كو چھوڑ ديا تھا؟
كيا آپ سمجھتے ہيں كہ پيغمبر اسلام(ص) نے ان سے مقابلہ كرنا چھوڑ ديا تھا كہ آپ سمجھتے ہيں كہ پھر پيغمبر اسلام(ص) نے مظلوموں كى مدد نہيں كي ...؟

غور كيجئے اور جواب ديجئے
1)___ كياہمارے پيغمبر(ص) ابوجہل كے دوست تھے خدا نے آپ(ص) كو كس غرض كے لئے پيغمبرى كے لئے چنا تھا؟
2)___ لوگوں نے اس بوڑھے آدمى كى مدد كيوں نہ كي؟
3)___ جب وہ آدمى لوگوں سے مدد مانگتا تھا تو اس كو كيا جواب ملتا تھا اور كيا ان كا جواب درست تھا اور اگر درست نہيں تھا تو كيوں؟
4)___ اگر كوئي تم سے مدد طلب كرے تو اسے كيا جواب دوگے؟
5)___ تم نے آج تك كسى مظلوم كى مدد كى ہے اور كسى طرح بيان كيجئے؟

140
6)___ ہمارے پيغمبر(ص) ابوجہل سے كيسے پيش آئے اور اس سے كيا فرمايا؟
7)___ پيغمبر اسلام(ص) كے اس كردار سے آپ كيا درس ليتے ہيں اور كس طرح پيغمبر(ص) كے اس كردار كى آپ پيرورى كريں گے؟
8)___ بت پرستوں نے كيوں مسلمانوں كو اذيتيں پہنچانے كا ارادہ كيا تھا؟