|
126
پندرہواں سبق
صبر و استقامت
ابتدائے اسلام ميں مسلمانوں كى تعداد بہت كم تھى اور جو تھے بھى ان كى اكثريت فقير، كا ركن اور مزدور قسم كے لوگوں كى تھى ليكن اللہ اور اس كے پيغمبر(ص) پر صحيح اور پختہ ايمان لاچكے تھے_ اللہ پر ايمان كو قيمتى سرمايہ جانتے تھے دين اسلام كى عظمت كے قائل تھے اور اس عظيم دين اسلام كى حفاظت كے لئے كوشش كرتے تھے اور اسلام كى ترقى كے لئے جان كى قربانى تك پيش كرديتے اور استقامت دكھلاتے تھے وہ صحيح بامراد، مستقل مزاج اور فدا ہونے والے انسان تھے_
مكّہ كے طاقتور اور بت پرست نئے نئے مسلمان ہونے والوں كا مذاق اڑاتے اور گالياں ديتے اور ناروا كلمات كہتے تھے ان كو بہت سخت كاموں پر لگاتے اور انہيں تكليفيں پہنچاتے تا كہ دين اسلام
127
سے دست بردار اور كافر ہوجائيں_ لوہے كى زرہ ان كے بدن پر پہناتے اور پہاڑ اور ميدان كے درميان تپتے سورج كے سامنے كھڑا كئے ركھتے زرہ گرم ہوجاتى اور ان كے جسم كو جلا ڈالتى پھر ان كو اسى حالت ميں پتھروں اور گرم ريت پر گھيسٹتے اور كہتے كہ دين اسلام كو چھوڑ دو اور محمد(ص) كو ناروا اور ناسزا كلمات كہو تا كہ ہم تمہيں ايسے شكنجہ ميں نہ ڈاليں ليكن وہ فداكار مسلمان تھے لہذا وہ سخت شكنجوں كو برداشت كرتے تھے اور اللہ پر ايمان اور حضرت محمد(ص) كى پيروى سے دست بردار نہ ہوتے تھے اور اللہ پر ايمان اور حضرت محمد(ص) كى پيروى سے دست بردار نہ ہوتے تھے انہوں نے اتنا صبر اور استقامت كا ثبوت ديا كہ مكّہ كے بہانہ باز بت پرست تھك گئے اور اپنى كمزورى اور پريشانى كا اظہار كيا ان بہادر مسلمانوں كا ايمان اور ان كى استقامت تھى كہ جس نے اسلام كو نابود ہونے سے محفوظ ركھا عمّار ايسے ہى بہادر مسلمانوں ميں ايك تھے ظالم بت پرست انہيں اور ان كے باپ ياسر اور ان كى ماں سميّہ كو پكڑ كر شہر سے باہر لے جاتے اور گرم و جلا دينے والى ريت پر مكّہ كے اطراف ميں دوپہر كے وقت مختلف اذيتيں ديتے عمّار كى ماں كہ جس پر ہمارے بہت درود و سلام ہوں پہلى عورت ہيں جو اسلام كے راستے ميں شہيد ہوئيں جب پيغمبر(ص) ان كى دردناك اذيتوں سے مطلع ہوتے اور ان فداكار مسلمانوں كا دفاع نہ كرسكتے تھے تو ان كى حوصلہ افزائي كرتے اور فرماتے كہ صبر و استقامت سے كام لو اپنے ايمان اور عقيدہ كو محفوظ ركھو كيونكہ سب كو آخرت ہى كى طرف لوٹنا ہے اور تمہارے لئے اللہ كا وعدہ بہشت بريں ہے يہ تمہيں معلوم ہونا چاہيئے آخر كار تم ہى كامياب
128
ہوگے بلال بھى ان بہادر اور فداكار مسلمانوں ميں سے ايك تھے وہ دين اسلام كو اپى جان سے زيادہ عزيز سمجھتے تھے ظالم انسان انھيں دوپہر كے وقت جلتى دھوپ ميں ريت پر لٹاتے اور بہت بڑا پتھر ان كے سينے پر ركھ ديتے تھے اور ان سے مطالبہ كرتے تھے كہ وہ دين اسلام سے پھر جائيں اور خدا و پيغمبر اسلام (ص) كو ناسزا كلمات كہيں اور بتوں كى عظمت بيان كريں ليكن وہ بجائے اس كے كہ اسلام كا انكار كرتے اور بتوں كى تعريف كرتے ہميشہ يہى كہتے تھے، احد، احد، يعنى ايك خدا، ايك خدا، صمد، صمد، يعنى بے نياز اور محتاجوں كى پناہ گاہ خدا_
اسلام كے فدائيوں نے تكليفيں اٹھائيں اور مصيبتيں برداشت كيں اور اس طرح دين اسلام كى حفاظت كى اور اسے ہم تك پہنچايا_ اب دين اسلام كے راستے ميں ہمارى فداكارى اور جہاد كاوقت ہے ديكھيں كس طرح ہم اتنى بڑى ذمہ دارى سے عہدہ براء ہوتے ہيں_
غور كيجئے اور جواب ديجئے
1)___ وہ مسلمانوں جو صحيح ايمان لائے تھے ان كى صفات كيسى تھيں؟
2)___ بت پرست مسلمانوں كو كيوں تكليفيں اور اذيتيں پہنچاتے تھے؟
129
3)___ صبر كا كيا مطلب ہے ان سچّے مسلمانوں كا دين كے راستے ميں صبر كس طرح تھا؟
4)___ اسلام ميں پہلے شہدى كا نام كيا ہے اور وہ كس طرح شہيد ہوا؟
4)___ ہمارے پيغمبر(ص) نے ان فداكار مسلمانوں سے كيا فرمايا اور ان كى كيسے دلجوئي كي؟
5)___ بلال كون تھے بت پرست ان سے كيا چاہتے تھے اور وہ جواب ميں كيا كہتے تھے؟
7)___ دين اسلام كو صحيح مسلمانوں نے كس طرح حفاظت كي؟
8)___ اسلام كے قوانين كى حفاظت اور اس كے دفاع كے بارے ميں ہمارى كيا ذمّہ دارى ہے؟
|
|