آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ اول
  155
بارہوں سبق

كام كى بروقت انجام دہي
حميد معمول كے خلاف آج جلدى گھر آگيا تھا وہ بہت خوش تھا باپ نے اس سے پوچھا : حميد آج كيوں جلدى آگئے ہو؟ ہر روز تم دير سے آتے تھے_ حميد نے كہا: ابا جان بس ميں سوار ہونے والوں كى قطار بہت لمبى تھى مجھے كام تھا اور تھكا ہوا بھى تھا صبر نہيں كر سكتا تھا _ چالاكى سے قطار ميںسب سے آگے جاكر كھڑا ہوگيا اور سب سے پہلے سوارہوگيا اور گھر آگيا _ اب ميرے پاس بہت وقت ہے _ كھيل بھى سكتا ہوں اور مدرسہ كا كام بھى انجام دے سكتا ہوں _ باپ نے كہا بيٹے تم نے اچھا كام نہيں كيا : چونكہ دوسرے لڑكے بھى گھر جاكر كام كرنا چاہتے تھے اس لئے تمہيں اپنى بارى پر بس ميں سوار ہونا چاہيئے تھا اور اس شخص كى بارى نہيں يعنى چاہيئےھى جو بھى قطار ميں پہلے كھڑا ہوگيا _ اسے سب سے پہلے سوار ہونے كا حق ہوتا ہے _ تو نے اس كا حق ضائع كيا ہے _ حميد نے آہستہ سے كہا: ميں صبر نہيں كرسكتا تھا _ چالاكى كى اور جلدى سوار ہوگيا _ انسان كو چالاك ہونا چاہيئے _ باپ نے حميد كى بات ان سنى كردى _ چند دن كے بعد روٹى لينے كے لئے روٹى والے كى دكان پر گيا_ وہاں بہت بھيڑنہ تھى صرف تھوڑے سے آدمى حميد سے پہلے كھڑے تھے ان ميں سے ايك دو آدميوں نے روٹى لى اور چلے گئے اور آدمى آئے اور كھڑے ہوگئے _ ہر ايك آتا سلام كرتا اور روٹى لے كر چلا جاتا _ دوسرا جاتااور كہتا اے روٹى بيچنے والے خوش رہو سلام ہو تم پر اور روٹى ليتا اور چلا جاتا _ كافى وقت گذرگيا _ سب آتے اورروٹى ليكر چلے جاتے

156
ليكن حميد اور كئي دوسرے بچّے ابھى كھڑے تھے _ جتنا وہ كہتے كہ اب تو ہمارى بارى آگئي ہے كوئي بھى ان كى باتوں پر كان نہ دھرتا _ حميد غصّہ ميں آگيا اور بلند آواز سے كہنے لگا: اے روٹى والے ميرى بارى پہلے تھى وہ گذر گئي ہے _مجھے روٹى كيوں نہيں ديتے _ روٹى والا سامنے آيا اور سخت لہجے ميں كہنے لگا: بچے كيوں شور مچاتے ہو _ تھوڑا صبر كرو ، تحمل ركھنا چاہيئے حميد پھر كھڑا رہا ليكن قريب تھا كہ رونا شروع كردے _ بالآخر بہت ديركے بعد اس نے دور روٹياں ليں اور گھر واپس لوٹا _ باپ گھر كے سامنے اس كا منتظر تھا پوچھا كہ كيوں دير كى _ حميد نے رو كر كہا: سب آرہے تھے اور روٹى ليكر جارہے تھے ليكن ميں كہتا رہا كہ اب ميرى بارى ہے كسى نے ميرى بات نہ سنى _ باپ نے كہا : بہت اچھا: انہوں نے چالاكى سے تيرى بارى لے لى جيسى تم نے چالاكى كى تھى اور جلدى بس ميں سوار ہوگئے تھے كيا تم نے خود نہيں كہا تھا كہ انسان كو چالاك ہونا چاہيئے _ ليكن اب تمہيں پتہ چلا كہ ايسا كام چالاكى نہيں ہے اب تم سمجھے كہ يہ كام ظلم ہے _ يہ دوسروں كے حق كو ضائع كرنا ہے بيٹا چالاكى يہ ہے كہ نہ تم كسى كى بارى لو اور نہ كسى كو اپنى بارى ظلم سے لينے دو _ ايك مسلمان انسان كو تمام حالات ميں دوسروں كے حق اور بارى كا خيال ركھنا چاہيئے پيارے حميد : دوسروں كے حق كا احترام كرو _ اگرتمہيں پسند نہيں ہے كہ دوسرے تمہارى بارى ليں تو تم بھى كسى كى بارى نہ لو _ جو بھى كسى كى بارى ليتا ہے وہ ظلم ہے اور خدا ظالموں كا دشمن ہے او رانہيں سزادے گا _ حضرت امير المؤمنين (ع) نے اپنے فرزند امام حسن (ع) سے فرمايا تھا: كہ بيٹا جو چيز اپنے لئے پسند كرتے ہو دوسروں كے لئے بھى وہى پسند كرو اور جو چيز اپنے لئے پسند نہيں كرتے دوسروں كے لئے بھى پسند نہ كرو _

157
جواب ديجئے
_ آپ بھى اس واقعہ كے متعلق كچھ لكھ سكتے ہيں ، شايد يہ واقعہ كبھى تمہيں بھى پيش آيا ہو
_ اس واقعہ كى وضاحت كيجئے اور بارى كى رعايت كرنے كے فوائد بيان كيجئے _ اور اس كى رعايت نہ كرنے كے مضر اثرات كو بيان كيجئے _

158
تيرہوں سبق

مہربان بہن اور پشيمان بھائي
زہرا بھى مدرسہ ميں داخل ہوئي تھى _ سعيد تيسرے درجہ ميں پڑھتا تھا سعيد كا سلوك گھر ميں بالكل اچھا نہ تھا _ اور ہميشہ اپنى بہن زہرا كے ساتھ لڑتا تھا _ سعيد خود كہتا ہے كہ ميں اپنى بہن سے حسد كيا كرتا تھا _ زہرا جب اسكول سے واپس آتى اور استاد سے حاصل كردہ اچھے نمبر ماں كو دكھاتى تو ميں كڑھ جاتا اور اپنى بہن كى كاپى پھاڑ ڈالتا تھا اگر والد ميرے اور زہرا كے لئے جوتے خريدتے تو بھى ميرادل چاہتا كہ زہرا كے جوتے پر انے ہوں اور ميرے نئے _ ايك دن والد نے ميرے لئے جراب كا جوڑا خريدا اور زہرا كے لئے سركاپھول _ مجھے يادہے كہ ميں نے اس قدر شور مچايا ، رويا اور دل گير ہوا كہ بيمار پڑگيا _ ميں يہى كہتا تھا كہ ميں بھى سركاپھول چاہتا ہوں _ ماں نے مجھے بہت سمجھايا كہ يہ پھول تمہارے لئے مناسب نہيں مگر ميں نے ايك نے سنى اور رونے لگا _ آخر زہرا نے مجھے وہ پھول دے ديا اور كہا پيارے سعيد مت روؤ آؤ اور يہ پھول لے لو _ سب سوگئے ليكن مجھے ناراضگى كى وجہ سے نيند نہيں آرہى تھى _ آہستہ آہستہ اٹھا مطالعہ كے لئے چراغ جلايا_ كتاب كو ہاتھ ميں ليا اور ورق الٹنے لگا _ كتاب ميں ايك جگہ لكھا تھا : كہ حاسد انسان اس دنيا ميں بھى رنج و غم مبتلا رہتا ہے اور آخرت ميں بھى عذاب ميں مبتلا ہوگا حاسد اپنا بھى نقصان كرتا ہے اور دوسروں كا بھى نقصان كرتا ہے _ جب بچے بہت چھوٹے ہوں تو ممكن ہے كہ وہ حسد كريں ليكن جب بڑے ہوجاتے ہيں تو سمجھ جاتے ہيں كہ مہربانى خير خواہى بہت ہى مفيد ہے _ ميں نے تھوڑى دير

159
سوچا اور اپنے كئے پر شرمندہ ہوا اوررونا شروع كرديا _ رونے كى آواز سن كر زہرا بيدار ہوگئي _ وہ ميرے سرہانے آئي اور كہا : پيارے سعيد كيوں روتے ہو _ ميرے آنسو پونچھنے لگى _ ميرى پيشانى پر بوسہ ديا ميرے لئے پانى لائي اور كہا بھيا كيوں روتے ہوكيا تكليف ہے؟ كل ماں كے ساتھ ڈاكٹر كے پاس لے جائيں گے _ زہرا كو علم نہ تھا كہ مجھے حسد اور دل گيرى نے بيمار كرركھا ہے _
صبح مدرسہ گيا تمام دن سست رہا اور فكرمند رہا _ عصر كے وقت جب مدرسہ سے لوٹ رہا تھا تو ايك سفيد بٹوا اور سركاپھول زہرا كے لئے خريدا اور اسے بطور تحفہ ديا _ ماں بہت خوش ہوئي _ اس دن سے ميرى حالت بالكل ٹھيك ہے پہلے ميرا چہرہ زرداور مرجھايا ہوارہتا تھا _ اب سرخ اور سفيد ہوگيا _ اب ميں اور زہرا آپس ميں بہت مہربان تھے اور بڑى خوشى محسوس كرتے تھے _
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ حاسد ہميشہ غمناك اور غمگين رہتا ہے

جواب ديجئے
1_ حسد كسے كہتے ہيں؟
2_ كيا حسد برى عادت ہے اور كيوں ؟
3_ حاسد انسان كيوں رنج ميں مبتلا ہوتا ہے ؟
4_ جو شخص حسد كى وجہ سے رنج ميں ہو اس سے كيا سلوك كيا جائے زہرا كا سلوك سعيد كے ساتھ كيسا تھا؟
5_ حسد كى بيمارى ميں مبتلا ہونا چاہيئےو كون سے كام انجام ديں ؟
6_ سعيد نے كيا كيا كہ وہ خوش ہوگئي؟
7_ حضرت امير المؤمنين (ع) نے حاسدوں كے متعلق كيا فرمايا ہے؟