آموزش دين'' بہ زبان سادہ ''حصہ اول
  98
پہلا سبق

تيسرے امام حضرت امام حسين عليہ السلام
امام حسين عليہ السلام امام حسن عليہ السلام كے چھوٹے بھائي ہيں _ آپ كے والد حضرت على عليہ السلام اور والدہ جناب فاطمة الزہرا(ع) پيغمبر اسلام(ص) كى دختر ہيں _ آپ (ع) چوتھى ہجرى تين شعبان كو مدينہ ميں متولد ہوئے _ امام حسن عليہ السلام كے بعد آپ(ع) رہبرى اور امامت كے منصب پر فائز ہوئے _ پيغمبر اسلام(ص) اما م حسين(ع) سے بہت محبت كرتے تھے آپ ان كا بوسہ ليتے تھے اور فرماتے تھے_ كہ حسين(ع) مجھ سے ہے اور ميں حسين (ع) سے ہوں _ جو شخص حسين(ع) كو دوست ركھتا ہے خدا اسے دوست ركھتا ہے _ امام حسين عليہ السلام عالم اور متقى انسان تھے _ غريبوں ، مسكينوں اور يتيم بچوں كى خبرگيرى كرتے تھے وہ بہت بہادر اور طاقتور تھے _ ذلّت كے سامنے نہيں جھكتے تھے _ ظالموں سے مقابلہ كرتے تھے سچے اور اچھے انسان تھے _ منافقت اور چاپلوسى كو برا سمجھتے تھے _
امام حسين (ع) فرماتے تھے:
ميں راہ خدا ميں شہادت كو نيك بختى اور ظالموں كے ساتھ زندہ رہنے كو ذلّت و بدبختى سمجھتا ہوں _

99
دوسرا سبق

آزادى اور شہادت
امام حسين عليہ اللام صاحب ايمان اور پيكر عمل تھے _ رات كو خدا سے مناجات كرتے تھے اور دن كو كاروبار اور لوگوں كى راہنمائي فرماتے تھے _ ہميشہ ناداروں كى فكر ميں رہتے تھے اور ان سے ميل ميلاپ ركھتے تھے اور ان كى دلجوئي كرتے تھے _ لوگوں سے فرماتے تھے كہ غريبوں كے ساتھ بيٹھنے سے پرہيز نہ كيا كرو كيونكہ خداوند متكبروں كو دوست نہيں ركھتا جہاں تك ہوتا تھا غريبوں كى مدد كرتے تھے _ تاريك رات ميں كھانے كا سامان كندھے پر اٹھا كرنا داروں كے گھر لے جاتے تھے _ امام حسين عليہ السلام كوشش كرتے تھے كہ غربت اور عدم مساوات كو ختم كرديں اور عدل و مساوات كو قائم كريں ، لوگوں كو خدا سے آشنا كريں _ امام حسين عليہ السلام كے زمانے ميں ظالم يزيد شام كى حكومت پر بيٹھا _ يزيد جوٹے طريقے سے اپنے آپ كو پيغمبر(ص) كا خليفہ اور جانشين بتلاتا تھا _ ملك كى آمدنى شراب نوشى اور قمار بازى اور عياشى پر خرچ كرتا تھا_ بيت المال كى دولت اور ناداروں كے مال كو اپنى حكومت كے مستحكم كرنے پر خرچ كرتا تھا _ قرآن اور اسلام كے دستور كو پامال كرتا تھا جب يزيد تخت پر بيٹھا تو اس نے خواہش كى كہ امام حسين عليہ السلام اس كى امامت اور ولايت كو تسليم كركے اس كى بيعت كريں _ ليكن امام حسين (ع) چونكہ اپنے آپ كو اسلام كا صحيح ولى اور رہبر سمجھتے تھے اس لئے آپ ايك ظالم كى رہبرى كو كيسے تسليم كرتے _ امام حسين عليہ السلام نے اس
100
امر كى وضاحت شروع كردى اور لوگوں كو خبردار كيا اور فرمايا: كہ كيا نہيں ديكھ رہے ہو كہ حق پامال ہو رہا ہے اور باطل اور ظلم غلبہ پارہا ہے _ اس حالت ميں مومن كو چاہيے كہ وہ شہادت كے لئے تيار ہوجائے _ اللہ كى راہ ميں شہادت اور جان قربان كرنا فتح اور كامرانى ہے اور ظالموں كے ساتھ زندگى بسر كرنا سوائے ذلّت اور خوارى كے اور كچھ نہيں ہے
اس دوران كوفہ كے لوگوں نے جو معاويہ اور يزيد كے ظلم سے تنگ تھے امام حسين عليہ السلام كو كوفہ آنے كى دعوت دى چونكہ امام حسين عليہ السلام مقابلہ كا عزم بالجزم كر چكے تھے لہذا ان كى دعوت كو قبول كيا اور كوفہ كى طرف روانہ ہوئے _ ليكن يزيد كے سپاہيوں نے كوفہ كے نزديك آپ (ع) اور آپ(ع) كے با وفا ساتھيوں كا راستہ بندكرديا تا كہ آپ كو گرفتار كركے يزيدكے پاس لے جائيں ليكن امام حسين عليہ السلام نے فرمايا:
ميں ہرگز ذلت و رسوائي كو قبول نہيں كروں گا _ موت كو ذلت سے بہتر سمجھتا ہوں اور اپنى شہادت تك اسلام اور مسلمانون كا دفاع كروں گا _ يزيد كى فوج نے امام حسين عليہ السلام اور آپ كے اصحاب كا كربلا ميں محاصرہ كرليا _ امام (ع) اور آپ (ع) كے وفادار صحابيوں نے پائيدارى كا مظاہرہ كرتے ہوئے ہزاروں كے مقابلے ميں جنگ كى اور آخر كار سب كے سب روز عاشورہ شہيد ہوگئے _ امام حسين(ع) بھى شھيد ہوگئے _ مگر جبر و استبداد كو تسليم نہيں كيا اور باطل كے سامنے نہيں جھكے اسلام اور مسلمانوں كا دفاع كيا اپنے پاك خون سے اسلام اور قرآن كو خطرے سے نجات دلائي اور اس سے مسلمانوں كو آزادى اور ديندارى كا درس ديا _ اب اسلام كى حفاظت اور دفاع كى ذمہ دارى ہم پر عائد ہوتى ہے _ ہميں غور كرنا چاہيے كہ ہم كس

101
طرح اس ذمہ دارى سے عہدہ برآہوسكتے ہيں _

سوالات
1_ امام حسين (ع) غريبوں كے ساتھ بيٹھنے كے متعلق كيا فرماتے تھے؟
2_ امام حسين (ع) كس مقصد كو حاصل كرنے كى كوشش كرتے رہے؟
3_ يزيد اسلامى مملكت كے خزانے كو كہاں خرچ كرہا تھا؟
4_ يزيد كا امام حسين (ع) سے كيا مطالبہ تھا؟
5_ كيا امام حسين (ع) نے يزيد كامطالبہ مان ليا تھا؟
6_ مومن كس وقت شہادت كيلئے تيار ہوتا ہے؟
7_ امام حسين(ع) اور آپ كے اصحاب كى نگاہ ميں كاميابى كيا تھى اور ذلّت و خوارى كيا تھي؟
8_ يزيد كى فوج نے امام حسين (ع) كا راستہ كيوں بند كرديا تھا؟
9_ كيا امام حسين(ع) نے يزيد كى خلافت كو تسليم كرليا تھا؟
10_ امام حسين (ع) نے ہميں اور تمام انسانوں كو كس طرح آزادى كا درس ديا ؟
11_ امام حسين (ع) اور آپ كے اصحاب نے اسلام كو كيسے خطرے سے نجات دلوائي ؟
12_ اب جب كہ دين اور قرآن كى حفاظت كى ذمہ دارى ہم پر عائد ہوتى ہے تو ہمارا فرض كيا ہے ؟

102
تيسرا سبق

دستگيرى اور مدد كرنا
پيغمبر(ص) اسلام كے صحابہ ميں سے ايك عمر رسيدہ صحابى بيمار ہوگيا _ امام حسين(ع) اس كى عيادت كے لئے گئے ديكھا كہ وہ بہت غمگين ہے اور بہت بے چينى سے گريہ و زارى كررہا ہے امام حسين عليہ السلام كو اس پر ترس آيا آپ نے پوچھا بھائي كيوں غمگين ہو مجھے وجہ بتاؤ تا كہ ميں تيرے غم كو دور كردوں _ اس بيمار نے كہا كہ ميں لوگوں كا بہت مقروض ہوں اور ميرے پاس كچھ بھى نہيں كہ قرض ادا كر سكوں ميں اس لئے روتا ہوں كہ قرض كے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں _ امام حسين عليہ السلام نے فرمايا بھائي غم نہ كرو ميں ضامن بنتا ہوں كہ تيرا قرضہ ادا كروں گا اس مسلمان بيمار نے كہا ميرا دل چاہتا ہے كہ مرتے وقت كسى كا مقروض نہ رہوں _ مجھے خوف ہے كہ قبل اس كے كہ آپ (ص) ميرا قرضہ ادا فرمائيں مجھے موت آجائے اور ميں مقروض ہى مرجاؤں _ امام حسين عليہ السلام نے فرمايا بے چين نہ ہو مجھے اميد ہے كہ تيرے مرنے سے پہلے تيرا قرضہ ادا كردوں گا _ امام حسين عليہ السلام نے اس كو خدا حافظ كہا _ اور وہاں سے باہر چلے آئے اور فوراً روپيہ مہيا كركے اس كا قرضہ ادا كيا اور اسے اطلاع دى كہ خوشحال ہو جا كہ تيرا قرضہ ادا كرديا گيا ہے _ وہ بيمار خوشحال ہوگيا اور خدا بھى اس مدد اور دستگيرى سے بہت خوش ہوا _ ہمارى پيغمبر (ص) نے فرمايا ہے كہ جو شخص كسى مومن كو خوشحال كرتا ہے گويا اس نے مجھے خوشحال كيا _ اور جو مجھے خوش كرتا ہے وہ اللہ كى خوشنودى حاصل كرتا ہے _

103
جواب ديجئے
1_ كيا تم بيمار دوست كى عيادت كيلئے جاتے ہو؟
2_ امام حسين(ع) نے اس بيمار سے كيا پوچھا؟ اس بيمار نے جواب ميں كيا كہا؟
3_ امام حسين(ع) نے اس بيمار كى بے چينى كو كس طرح دور كيا ؟
4_ آيا تم كسى كے مقروض ہوكيا اچھا نہيں كہ اپنے قرض كو جلدى ادا كردو؟
5_ كيا آج تم نے كسى مسلمان كو خوش كيا ہے؟ اور كس طرح؟
6_ ہمارے پيغمبر(ص) نے كسى مومن كو خوش كرنے كے متعلق كيا فرماياہے؟