چھٹي فصل؛ فروع دين
 

خدا وند عالم نے ھماري زندگي كو صحيح راہ پر لگانے كے لئے خاص دستور العمل كو معين فرمايا ھے كہ اگر ھم اس پر عملي اعتبار سے پابند ھو جائيں تو ھماري دنياوي زندگي بھترين اور بوجہ احسن گذرے گى، نيز آخرت ميں بھي سعادت مند اور نجات يافتہ رھيں گے، ايسے احكام و قوانين كو فروع دين كھتے ھيں، فروع دين تو بھت زيادہ ھيں ليكن جن كا جاننا نہايت ضروري ھے ھم ان كو يہاں پر اجمالاً بيان كر رھے ھيں ۔ان ميں سے مھم ترين فروع دين آٹھ ھيں: نماز، روزہ، زكوٰة، خمس، حج، جہاد، امر بالمعروف ونھي عن المنكر ۔

نماز
واجب نمازيں چھ ھيں:
1۔ نماز پنجگانہ ۔
2۔ نماز آيات (سورج گھن و چاند گھن)
3۔ نماز ميت۔
4۔ نماز طواف۔
5۔ وہ نمازيں جو قسم و نذر وغيرہ كي وجہ سے انسان اپنے اوپر واجب كرلے۔
6۔ نماز قضاء والدين (جو نمازيں نافرماني كي وجہ سے ترك نہ كي ھو بلكہ قضا كرنا چاھتا تھا ليكن اس كو انجام نہ دے سكا ھو) اس كي قضا انجام دينا بڑے فرزند پر واجب ھے ۔

نماز پنجگانہ
نماز دين كا ستون ھے، بندے كو خدا سے نزديك كرتي ھے آنحضرت (ص) نے فرمايا: خدا كي قسم ميري شفاعت نماز كو (حقير) معمولي سمجھنے والے اور ترك كرنے والے كو نھيں پھونچے گي۔ 70
تمام مسلمانوں كو پانچ وقت كي نماز پڑھنا واجب ھے، صبح كي دوركعت، ظھر كي چار ركعت، عصر كي چار ركعت، مغرب كي تين ركعت، اور عشا كي چار ركعت ۔

اوقات نماز
نماز صبح كا وقت، صبح صادق سے لے كر سورج نكلنے كے وقت تك ھے ۔
نمازظھر و عصر كا وقت سورج كے زوال سے لے كر غروب آفتاب تك ھے۔
نماز مغرب و عشا سورج ڈوبنے (مغرب) سے لے كر آدھي رات تك ھے آدھي رات جو تقريباً گيارہ بجكر ۱۵ منٹ پر ھوتي ھے ۔

وضو
وضو كا طريقہ
1۔ پھلے نيت كرے كہ خدا كي خوشنودي كے لئے وضو انجام ديتا ھوں قربةً الي اللہ۔
2۔ چھرے پر بال اگنے كي جگہ سے ٹھڈي كے آخري حصے تك ۔
3۔ داھنے ہاتھ كو كھني سے لے كر انگليوں كے آخري سرے تك (يعني اوپر سے نيچے كي طرف) دھوئے ۔
4۔ بائيں ہاتھ كو كھني سے لے كر انگليوں كے آخري سرے تك يعني اوپر سے نيچے كي طرف دھوئے ۔
5۔ داھنے ہاتھ كي تري سے، سر كے اگلے حصہ پر اوپر سے نيچے كي طرف كھينچے۔
6۔ اور داھنے ہاتھ كي بچي ھوئي تري سے داھنے پير كي انگليوں سے لے كر پير كے ابھار تك كھينچے ۔
7۔ بائيں ہاتھ سے بائيں پير كي انگليوں سے لے كر پير كے ابھار كي جگہ تك كھينچے ۔

اذان
نماز سے پھلے اذان كھنا مستحب ھے، اس كي ترتيب يہ ھے:
اَللّٰہُ اَكبَرُ ۴ مرتبہ
اللہ سب سے بڑا ھے ۔
اَشہَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُُ ۲ مرتبہ
ميں گواھي ديتا ھوں كہ خدا كے علاوہ كوئي معبود نھيں ھے ۔
اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہِ ۲ مرتبہ
ميں گواھي ديتا ھوں كي محمد (ص) بن عبد اللہ، اللہ كے رسول ھيں۔
حَي عَليٰ الصَّلٰوةِ۲مرتبہ
نماز كے لئے جلدي كرو ۔
حَي عَليٰ الفَلَاحِ ۲ مرتبہ
كاميابي كے لئے جلدي كرو ۔
حَي عَليٰ خَيرِ العَمَلِ ۲مرتبہ
بھترين عمل كے لئے جلدي كر و
اَللّٰہُ اَكبَرُ۲مرتبہ
خدا اس سے بزرگ و برتر ھے كہ اس كي توصيف كي جائے ۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۲مرتبہ
خدا كے علاوہ كوئي معبود نھيں ھے ۔

اقامت
نماز كے لئے اذان كے بعداقامت كھنا مستحب ھے،اس كي ترتيب يہ ھے:
اَللّٰہُ اَكبَرُ۲ مرتبہ
خدا اس سے بزرگ و برتر ھے كہ اس كي توصيف كي جائے ۔
اَشہَدُ اَن لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۲مرتبہ
ميں گواھي ديتا ھوں كہ خداكے علاوہ كوئي معبود نھيں ھے ۔
اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّداًرَسُولُ اللّٰہِ۲ مرتبہ
ميں گواھي ديتا ھوں كہ محمد (ص) خدا كے بھيجے ھوئے رسول (ص) ھيں۔
حَي عَليٰ الصَّلٰوةِ ۲ مرتبہ
نماز كے لئے جلدي كرو
حَي عَلَيٰ الفَلاَحِ ۲ مرتبہ
كاميابي كے لئے جلدي كرو
حَي عَلَيٰ خَيرِ العَمَلِ۲مرتبہ
بھترين عمل كے لئے جلدي كرو ۔
قَد قَامَتِ الصَّلَوٰةُ ۲ مرتبہ
نماز قائم ھوگئي ۔
اَللّٰہُ اَكبَرُ ۲ مرتبہ
اللہ سب سے بڑا ھے۔
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۱ مرتبہ
خدا كے علاوہ كوئي معبود نھيں ھے ۔

نماز پڑھنے كا طريقہ
نماز ميں چند چيزوں كا انجام دينا ضروري ھے:
1۔ نيت:
قبلہ رخ كھڑے ھونے كے بعد (قصد) نيت كريں ميں دو ركعت نماز صبح پڑھتا ھوں واجب قربة ً الي اللہ ۔
2۔ تكبيرة الاحرام:
نيت كے بعد ہاتھوں كو كان كي لو تك ليجا كر كھيں” اللہ اكبر“ پھر ہاتھوں كو نيچے لائيں ۔
3۔ قرائت:
تكبيرة الاحرام كے بعد سورہ حمد كو شروع كريں:
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ ۔ اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰالَمِينَ۔ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ ۔ مَالِكِ يومِ الدِّينِ۔ اِياكَ نَعبُدُ وَاِياكَ نَستَعِينُ۔ اِھدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِينَ اَنعَمتَ عَلَيھِم غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيھِم وَلَا الضَّالِّينَ ۔
ترجمہ:
خداوند رحمن و رحيم كے نام سے (شروع كرتا ھوں) ساري تعريفيں اس خدا كے لئے مخصوص ھيں جو جہانوں كو پالنے والا ھے، جو دنيا ميں سب پر رحم، اور آخرت ميں صرف مومنين پر رحم كرنے والا ھے، قيامت اور جزا كے دن كا مالك ھے، پروردگار صرف تيري عبادت كرتے ھيں، اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ھيں، ھم كو صراط مستقيم پر ثابت قدم ركھ، ايسے لوگوں كا راستہ جن پر تو نے اپني نعمتيں نازل كي ھيں، ان لوگوں كا راستہ نھيں، جن پر تو نے غصب نازل كيا ھے اور گمراھوں كا راستہ ۔
نكتہ ۱) سورہ حمد پڑھنے كے بعد قرآن مجيد سے كوئي ايك سورہ پڑھيں مثلا سورہ توحيد اس طرح:
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ
قُل ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۔ لَم يلِد وَلَم يولَد ۔ وَلَم يكُن لَّہ كُفُواً اَحَدٌ۔
ترجمہ:
اللہ كے نام سے شروع كرتا ھوں جو رحمن و رحيم ھے، اے پيغمبر ! كہہ ديجئے وہ خدا يكتا ھے، وہ خدا سب سے بے نياز ھے مگر سب اس كے نياز مند ھيں، كوئي اس سے نھيں پيدا ھواھے اور نہ وہ كسي سے پيدا ھوا ھےاور كوئي اس كا مثل و نظير نھيں ھے ۔
نكتہ ۲) مردوں پر واجب ھے كہ نماز صبح و مغرب و عشا ميں سورہ حمد اور دوسرا سورہ بلند آواز سے پڑھيں ۔
نكتہ ۳) تكبيرة الاحرام (اللہ اكبر) كھتے وقت ہاتھوں كا كان كي لو تك اٹھانا واجب نھيں بلكہ مستحب ھے ۔
4۔ ركوع:
سورہ حمد اور دوسرے سورہ كے بعد ركوع ميں جائيں، يعني اس انداز ميں جھك جائيں كہ ہاتھ دونوں گھٹنوں تك پھنچ جائے اور پھر پڑھيں:
”سُبحَانَ رَبِّي العَظِيمِ وَ بِحَمدِہ “
يا تين مرتبہ كھيں ”سُبحَانَ اللّٰہ“ِيعني ميرا عظيم پروردگار ھر عيب و نقص سے پاك و منزہ ھے اور ميں اس كي حمد و ثنا، كرتا ھوں، ركوع كے بعد سيدھے كھڑے ھوجائيں اور كھڑے ھو كر كھيں:”سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ “ (خدا وند عالم اپنے بندے كي حمد وثنا قبول كرنے والا ھے) پڑھنا مستحب ھے ۔
5۔ سجدہ:
ركوع كے بعد سجدہ ميں جائيں يعني پيشاني كو زمين پر يا جو چيز اس سے اگتي ھے (ليكن كھانے اور پھننے والي نہ ھو) اس پر ركھيں اور حالت سجدہ ميں پيشانى، دونوں ہاتھوں كي ھتھيلي اور دونوں گھٹنے دونوں انگوٹھے كے سرے كو زمين پر ركھيں پھر پڑھيں: ”سُبحَانَ رَبِّي الاَعلَيٰ وَبِحَمدِہ “يا تين مرتبہ ”سبحَانَ اللّٰہ ِ “ (ميرا پروردگار ھر ايك سے بالا وبرتر ھے اور ھر عيب و نقص سے پاك و منزہ ھے اور ميں اس كي حمد كرتا ھوں) پڑھيں ۔ پھر سجدہ سے سر اٹھائے اور تھوڑا ٹھھر كر پھر دوبارہ سجدہ ميں جائيں اور سجدہٴ دوم سے سر اٹھا كر تھوڑي دير بيٹھيں اور دوسري ركعت كے لئے كھڑے ھو جائيں اور كھڑے ھوتے وقت پڑھيں ” بِحَولِ للّٰہِ وَقُوَّتِہ اَقُومُ وَاَقعُدُ“ميں اللہ تبارك وتعاليٰ كي قدرت و مدد سے كھڑا ھوتا اور بيٹھتا ھوں، كھنا مستحب ھے جب سيدھے كھڑے ھوگئے تو مطمئن ھو كر الحمد اور دوسرا سورہ پھلي ركعت كي طرح پڑھيں ۔
6۔ قنوت:
سورہ حمد اور دوسرے سورہ سے فارغ ھونے كے بعد دونوں ہاتھوں كو چھرے كے سامنے لا كر قنوت (دعا) پڑھيں: ”رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنيا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ“ (اے پروردگار! دنيا اور آخرت ميں ھم كو حسنہ مرحمت فرما اور جھنم كے عذاب سے بچا) دونوں ہاتھوں كو نيچے لائيں اور مثل سابق ركوع كريں۔
توجہ:
قنوت پڑھنا واجب نھيں بلكہ مستحب اور فضيلت و ثواب كا باعث ھے ۔
7۔ تشھد:
تمام نمازوں ميں دوسري ركعت كے كامل كرنے كے بعد دوسرے سجدہ سے سر اٹھا كر بيٹھ جائيں اور اس طريقے سے تشھد پڑھيں: ”اَلحَمدُ لِلّٰہِ اَشہَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہ لَا شَرِيكَ لَہ وَاَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہ وَرَسُولُہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ “ ميں گواھي ديتا ھوں كہ خدا كے علاوہ كوئي پرستش كے قابل نھيں ھے وہ يگانہ ھے اور اس كا كوئي شريك نھيں ھے، اور ميں گواھي ديتا ھوں كہ محمد (ص) خدا كے بندے اور اس كے رسول ھيں خداوند عالم محمد (ص) اور ان كي آل پر درود بھيج ۔
توجہ:
نماز مغرب ميں پھلے تشھد كے بعد سلام نھيں پڑھنا چاھيے بلكہ كھڑے ھوجائيں اور كھڑے ھوكر اطمينان كي حالت ميں تيسري ركعت كو شروع كريں پھر ركوع و سجود و تشھد كے بعد سلام پڑھيں، اور نماز ظھر و عصر و عشا ميں پھلے تشھد كے بعد سلام نھيں پڑھيں گے بلكہ كھڑے ھو كر تيسري اور چوتھي ركعت انجام دينے كے بعد بيٹھ كر تشھد و سلام پڑھا جائے گا ۔
8۔ سلام:
نماز صبح ميں تشھد كے بعد سلام اس طرح سے پڑھيں:
اَلسَّلَامُ عَلَيكَ اَيھَا النَّبِي وَرَحمَةُ اللّٰہِ وَبَرَكَاتُہ
اَلسَّلَامُ عَلَينَا وَعَلٰي عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِينَ
اَلسَّلاَمُ عَلَيكُم وَرَحمَةُ اللّٰہِ وَبَرَكَاتُہ
اے نبي (ص)! آپ پر سلام اور خدا كي رحمت و بركت ھو ھم پر اور خدا كے تمام نيك بندوں پر سلام ھو، اے نماز تم پر سلام اور خدا كي رحمت و بركتيں ھوں ۔
9۔ تسبيحات اربعہ:
نماز مغرب كي تيسري اور نماز عشا ظھر و عصر كي تيسري و چوتھي ركعت ميں سورہ حمد كے بجائے تسبيحات اربعہ پڑھيں گے:
سُبحَانَ اللّٰہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَكبَرُ
خداوند عالم پاك ومنزہ ھے حمد و ثنا اس كے لئے مخصوص ھے اس كے علاوہ كوئي خدا نھيں خدا اس سے كھيں بزرگ ھے كہ اس كي تعريف كي جائے ۔
توجہ:
نماز پڑھنے والے كا جسم و لباس پاك ھونا چاھيے اور لباس كے پاك ھونے كے ساتھ مباح اور حرام گوشت ركھنے والے جانور يا مردار كي جلد اور كھال سے بنا ھوا نھيں ھونا چاھيے ۔
توجہ:
نماز پڑھنے والي عورت، جنابت و حيض و استحاضہ و نفاس سے اور مرد جنابت سے پاك ھو ۔

نماز كے اركان
نماز كے پانچ اركان ھيں:
1۔ نيت۔
2۔ تكبيرة الاحرام۔
3۔ قيام، تكبيرة الاحرام كھتے وقت اور ركوع ميں جانے سے پھلے جس كو قيام متصل بہ ركوع كھاجاتا ھے يعني ركوع سے پھلے كھڑے ھونا ۔
4۔ ركوع۔
5۔ دونوں سجدے عمداً و سھواً يا ان اركان كو كم يا زيادہ كرنے سے نماز باطل ھوجاتي ھے ۔

نماز كو باطل كرنے والي چيزيں ان كاموں كو انجام دينے سے نماز باطل ھوجاتي ھے:
1۔ چاھے عمداً ھو يا سھواً وضو كے ٹوٹ جانے سے نماز باطل ھوجاتي ھے ۔
2۔ جان بوجھ كر دنيا كے متعلق گريہ كرنا ۔
3۔ عمداًقہقہ كے ساتھ ھنسنا ۔
4۔ جان بوجھ كر كھانا اور پينا ۔
5۔ بھول كر يا جان بوجھ كر كسي ركن كو كم يا زيادہ كردينا ۔
6۔ حمد كے بعد آمين كھنا ۔
7۔ سھواً يا عمداً قبلہ كي طرف پيٹھ كرنا ۔
8۔ بات كرنا ۔
9۔ ايسا كام كرنا جس سے نماز كي صورت ختم ھو جائے جيسے تالي بجانا اوراچھلنا، كودنا وغيرہ۔
10۔ پيٹ پر ہاتھ باندھنا (اھل سنت كي طرح) ۔
11۔ دو ركعتي يا تين ركعتي نماز كي ركعتوں ميں شك كرنا ۔

مسافر كي نماز
ان شرائط كے ساتھ مسافر كو چاھيے كہ چار ركعتي نماز كو دو ركعت پڑھے:
1۔ آٹھ فرسخ جانے كا ارادہ ركھتا ھو (۴۳ كلو ميٹر) يا چار فرسخ جائے اور واپس آئے ۔
2۔ كثير السفر نہ ھو، يعني ڈرائيور يا ملاح (ناؤ چلانے والے) كے مانند نہ ھو كہ اس كا كام ھي سفر ميں رھتا ھے ۔
3۔ تاجر نہ ھو كہ سفر كي حالت ميں تجارت كرتا ھو ۔
5۔ اس كا سفر كسي حرام كام كے لئے نہ ھو، جيسے سفر كرے چورى يا مومن كے قتل كرنے كے لئے اسي طرح عورت بغير شوھر كي اجازت كے گھر سے باھر نكلے يا بيٹا اور بيٹي اپنے والدين كي اجازت كے بغير فرار كريں ۔
6۔ آٹھ فرسخ سے پھلے اس كا وطن يا دس دن قيام نہ كرے ۔
نكتہ ۱) جو مسافر سفر ميں ايك جگہ دس دن رھنے كا ارادہ ركھے تو جب تك وہاں پر قيام ھے نماز پوري پڑھے اور وہ مسافر جو تيس دن تك متردد حالت ميں رہ رھاھو تيسويں دن كے بعد چاھيے كہ نماز كو پوري پڑھے ۔
نكتہ ۲) جو شخص سفر كا ارادہ ركھتا ھے اپنے وطن سے يا رھنے كي جگہ سے اس كو چاھيے كہ حد ترخص كے بعد نماز كو قصر اور روزہ كو افطار كرلے اس سے پھلے نماز قصر اور روزہ باطل نھيں كرنا چاھيے (حدِّ ترخص) مسافر اپنے گھر سے اس قدر دور نكل جائے كہ شھر كي آوازِ آذان سنائي نہ دے اور نہ ھى
شھر كي ديوار دكھائي دے، اس سے پھلے وہ شخص شرعي مسافر نھيں ھے ۔

نماز آيات
نماز آيات پڑھنے كا وقت سورج گھن، چاند گھن، زلزلہ اور غير عادي حادثہ جس سے اكثر لوگ خوف محسوس كريں مثلاً سياہ و سرخ آندھي اس وقت ھر مسلمان پر واجب ھے كہ وہ نماز آيات بجالائے ۔

نماز آيات كا طريقہ
1۔ وضو كے بعد قبلہ رخ كھڑا ھوكر نيت كرے كہ ميں نماز آيات پڑھتا ھوں (قُربَةً اِلَي اللّٰہِ)
2۔ نيت كے بعد دونوں ہاتھوں كو كانوں كے برابر لے جا كر كھے ” اللہ اكبر“۔
3۔ سورہ حمد اور دوسرا سورہ پڑھے پھر ركوع ميں جائے اور ذكر ركوع كو بجا لائے ۔
4۔ ركوع سے سر اٹھا كر سورہ حمد اور دوسرا سورہ پڑھے پھر ركوع ميں جائے اسي طرح انجام دے يہاں تك كہ پانچ سورہ حمد اور پانچ ركوع تمام ھوجائے ۔
5۔ پانچويں ركوع كے بعد سجدہ ميں جائے اور نماز پنجگانہ كي طرح دو سجدہ بجالائے ۔
6۔ دوسري ركعت كے لئے كھڑا ھو جائے اور ركعت اول كي طرح اس كو بھي بجا لائے اور پانچويں ركوع كے بعد سجدہ بجالائے ۔
7۔ دونوں سجدہ كے بعد تشھد اور سلام پڑھكر نماز تمام كرے ۔
توجہ:
نماز آيات كا وقت سورج اور چاند گھن كے وقت سے شروع ھوجاتا ھے يہاں تك كہ يہ گھن ختم ھوجائے ليكن اور دوسري نماز آيات (جيسے زلزلہ و سياہ و سرخ آندھي) جس وقت بھي پڑھيں، ادا ھے ۔

روزہ
اسلام كے اھم واجبات ميں سے روزہ ھے ھمارے نبي حضرت محمد مصطفي (ص) نے فرمايا: روزہ جھنم كي آگ كے مقابلہ ميں ڈھال ھے۔ 72
خدا وند تبارك و تعاليٰ فرماتا ھے: روزہ ميرے لئے ھے اور ميں خود اس كا اجر دوںگا ۔ 73 يہ عظيم عبادت اپنے دامن ميں بھت زيادہ فوائد ركھے ھوئے ھے، ڈاكٹري تحقيق كے مطابق پيٹ كي مشينوں كے لئے آرام كا باعث ھے، اور انسان كي سلامتي كے لئے مفيد ھے اور اخلاقي اعتبار سے دشواري اور سختي كے وقت صبر و استقامت بخشتا ھے اور اميروں كو ناتواں اور مفلوك الحال افراد كے بارے ميں غور و فكر كرنے پر مجبور كرتا ھے ۔

امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: روزہ واجب ھے تاكہ پيسے والے، بھوك كا مزہ چكھيں،
مجبوروں اورغريبوں كے حال پر غور و فكر كريں (نيز) ان كے ساتھ احسان و بخشش كريں ۔ 74
تمام مسلمانوں پر رمضان كے مھينے كا روزہ كھنا واجب ھے، يعني صبح صادق سے لے كر مغرب تك تمام وہ كام جو روزہ كو باطل كر تے ھيں ان سے اجتناب و پرھيز كرے اور روزہ كو باطل كرنے والے امور يہ ھيں:
1۔ كھانا اور پينا۔
2۔ غليظ گرد و غبار كا حلق تك پھنچانا ۔
3۔ قے كرنا۔
4۔ جماع (عورت سے ھمبستري كرنا)
5۔ حقنہ كرنا۔
6۔ پانى ميں سر ڈبونا۔
7۔ اللہ اور اس كے رسول (ص) پر جھوٹا الزام لگانا۔
8۔ استمناء (مني نكالنا)
9- صبح كي اذان تك جنابت و حيض و نفاس پر باقي رھنا ۔
نكتہ:
اگر يہ روزہ توڑنے والي چيزيں عمداً واقع ھو تو روزہ باطل ھوجاتا ھے
ليكن اگر بھول چوك يا غفلت كے سبب واقع ھو تو روزہ باطل نھيں ھوتا ھے سوائے جنابت و حيض و نفاس پر باقي رھنے كے، كہ اگر سھواً اور غفلت كي وجہ سے بھي ھو، تو بھي روزہ باطل ھے ۔

وہ افراد جو روزہ كو توڑ سكتے ھيں 1۔ بيمار: جس پر روزہ ركھنا ضرر كا باعث ھو ۔
2۔ مسافر، انھيں شرائط كے ساتھ جو مسافر كي نماز كے متعلق بيان ھوئي ھيں۔
3۔ وہ عورت جو ماھواري (حيض كي حالت ميں) يا نفاس ميں ھو ۔
نكتہ:
ان تينوں قسم كے افراد كو چاھيے كہ اپنے روزہ كو توڑديں اور عذر كو بر طرف ھونے كے بعد روزہ كي قضا كريں ۔
4۔ حاملہ عورتيں جن كا وضع حمل قريب ھو اور روزہ خود اس كے لئے يا اس كے بچے كے لئے ضرر كا باعث ھو ۔
5۔ بچے كو دودھ پلانے والي عورتيں جسكو روزہ ركھنے سے دودھ ميں كمي آتي ھو اور بچہ كي تكليف كا سبب ھو۔
6۔ بوڑھے مرد اور بوڑھي عورتيں جن پر روزہ ركھنا سخت اور دشوار ھے ۔
نكتہ۱) يہ عورتيں عذر كے زائل ھونے كے بعد اپنے روزے كي قضا اور تين پاؤ گيھوں فقير كو ديں گي ۔
نكتہ ۲) اگر يہ لوگ رمضان كے بعد بآساني روزہ ركھ سكتے ھوں تو قضا كريں، ليكن اگر ان پر روزہ ركھنا دشواري كا باعث ھے تو قضا واجب نھيں ھے، ليكن ھر روزہ كے بدلے تين پاؤ گيھوں فقير كو ديں۔
نكتہ ۳) جو شخص عذر شرعي كے بغير ماہ رمضان كے روزہ كو توڑ دے تو اسے چاھيے كہ اس كي قضا كرے اور ھر روزہ كے بدلے ساٹھ روزہ ركھے يا ساٹھ فقيروں كو كھانا كھلائے ۔

زكوٰة
اسلام كي واجب چيزوں ميں سے زكواة ھے، حضرت امام صادق (ع) نے فرمايا: جو شخص اپنے مال كي زكواة نہ دے وہ نہ مومن ھے اور نہ ھي مسلمان ھے 75
اور امام محمد باقر (ع) نے فرمايا: خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں زكواة كو نماز كے ساتھ ذكر كيا ھے، جو شخص نماز پڑھے مگر زكواة نہ دے اس كي نماز قبول نھيں ھے 76
حضرت امام رضا (ع) فرماتے ھيں: اگر تمام لوگ اپنے مال كي زكواة ادا كرتے تو (دنيا) ميں كوئي فقير نہ ھوتا 77

زكوٰة (۹) چيزوں پر واجب ھے (۱) گيھوں (۲) جو (۳) كھجور (۴) كشمش (۵) گائے بھينس (۶) بھيڑ بكري (۷) اونٹ (۸) سونا (۹) چاندى ۔
دين اسلام نے ان چيزوں كے لئے ايك حد و مقدار بيان فرمائي ھے اگر اس حد تك پھنچ جائے تو اس ميں زكوٰة دينا واجب ھوگي اگر اس مقدار تك نہ پھونچے تو اس پر زكوٰة واجب نہ ھوگي اس حد كو نصاب كھتے ھيں ۔
گيھوں، جو، كھجور اور كشمش: ان چار چيزوں كا نصاب ۲۸۸ من تبريزي ھے اگر اس مقدار سے كم ھوتو اس پر زكوٰة واجب نھيں ھے، زكوٰة نكالتے وقت يہ نكتہ بھي ذھن نشين رھے كہ جو زراعت پر اخراجات ھوئے ھيں ان سب كو نكال كر اگر نصاب كي حد تك پھنچے تو زكوٰة واجب ھو گى،

زكوٰة كي مقدار
گيھوں، جو، كھجور و كشمش كي آب پاشي اگر بارش، نھر، زمين كي تري سے ھوئيھو تو اس كي زكوٰة دسواں حصہ ھے اور اگر كنويں كے پاني يا ڈول وغيرہ سے كھينچ كر ھوئي ھے تو اس كي زكوٰة بيسواں حصہ ھوگي ۔

بھيڑ بكري كا نصاب:
اس كا پانچ نصاب ھے:
پھلا:
۴۰ بھيڑوں پر ايك بھيڑ كي زكوٰة ھوگي (اس سے كم پر زكوٰة واجب نھيں ھے)
دوسرا:
۱۲۱ بھيڑوں كي زكوٰة دو بھيڑ ھوگي ۔
تيسرا:
۲۰۱ بھيڑوں كي زكوٰة تين بھيڑ ھوگي
چوتھے:
۳۰۱ بھيڑوں كي زكوٰة چار بھيڑ ھوگي ۔
پانچويں:
چار سو سے زيادہ بھيڑوں ميں ھر سو پر ايك بھيڑ بطور زكوٰة ادا كرے ۔
نكتہ:
كوئي گيارہ مھينے بھيڑوں كا مالك رھاھو تو اس كو بارھويں مھينے ميں زكوٰة دينا واجب ھے بھيڑ بكريوں پر اس وقت زكوٰة واجب ھوتي ھے جب وہ پورے سال بيابانوں ميں چري ھوں اگر تمام سال يا كچھ مھينہ چراگاہ كي گھانس يا خريدي ھوئي گھانس كھائے ھوں تو اس پر زكوٰة واجب نہ ھوگي ۔

گائے كا نصاب:
گائے كے دونصاب ھيں:
(پھلا)
تيس گائے كي زكوٰة، گائے كا ايسا بچہ جو دوسرے سال ميں داخل ھوا ھو۔
(دوسرا)
چاليس گائے كي زكوٰة، گائے كا ايسا بچہ (جومادہ ھو) جو تيسرے سال ميں داخل ھو۔
اگر چاليس سے زيادہ گائے ھوتو ان دو نصابوں ميں سے جو حساب ميں بھتر تطبيق ھو اس كي زكوٰة ادا كرنا چاھيے يا تو تيس تيس عدد كا حساب كرے يا چاليس چاليس عدد كا حساب كرے يا دونوں كو ملا كر حساب كرے مثلاً كسي كے پاس ساٹھ گائے ھے تو چاھيے كہ تيس كا حساب كرے اور اگر ستر گائے ھے تو ايك تيس اور ايك چاليس كا حساب كرے اور اگر اسّي گائے ھے تو چاھيے كہ دو چاليس كا حساب كرے ۔
نكتہ۱:
گائے كي زكوٰة اس وقت واجب ھوتي ھے جب پورے سال بے كار رھي ھو بيابانوں ميں چري ھو ۔ 78

سونے كا نصاب:
سونے كا دو نصاب ھے:
پھلا ۔
بيس مثقال شرعي جو ۱۵ مثقال معمولي كے برابر ھوتا ھے اس مقدار كے برابر ھو اس كا چاليسواں حصہ بہ عنوان زكوٰة ادا كرے ۔
(دوسرا)
چار مثقال شرعي جو تين مثقال معمولي كے برابر ھوتا ھے، يعني اگر ۱۵ مثقال معمولي پر تين مثقال معمولي كا اضافہ ھوجائے تو پورے ۱۸ مثقال معمولي (يعني ۲۴ مثقال شرعي) كي زكوٰة ڈھائي فيصد كے حساب سے دے اور اگر تين مثقال معمولي (چار مثقال شرعي) سے كم كا اضافہ ھوتو صرف ۱۵ مثقال معمولي كي زكواة ھوگي باقي پر زكوٰة واجب نہ ھوگي ۔
اسي حساب سے چاھے جس قدر اضافہ ھوتا جائے زكوٰة واجب ھوگى، اگر تين مثقال معمولي (۴مثقال شرعي) كا اضافہ ھوجائے تو پورے كي زكوٰة دے اور اگر تين مثقال معمولي سے كم اضافہ ھوتو اس اضافہ پر زكوٰة نہ ھوگي ۔

چاندي كا نصاب
چاندي كے دو نصاب ھيں:
پھلا نصاب:
جب چاندى ۱۰۵ مثقال معمولي كے برابر ھوجائے تو ڈھائي فيصد كے حساب سے اس پر زكوٰة واجب ھوگي اور اگر ۱۰۵ مثقال سے كم ھے تو زكوٰة واجب نھيں ھوگي ۔
دوسرا نصاب:
(۲۱مثقال پر ھے) اگر ۱۰۵ مثقال پر ۲۱ مثقال زيادہ ھوجائے تو پورے ۱۲۶ مثقال كي زكوٰة واجب ھوگي اور اگر ۲۱ سے كم كا اضافہ ھوتو صرف ۱۰۵ مثقال پر زكوٰة ھوگي اور باقي پر نھيںاسي طرح چاھے جسقدر اضافہ ھوجائے اسي حساب سے زكوٰة واجب ھوگي ۔
نكتہ۱:
سونا چاندى سكہ دار، رائج الوقت، اور گيارہ مھينے مالك كے اختيار ميں رھاھو، اس پر زكوٰة واجب ھوگي ۔
نكتہ۲:
اگر سونا، چاندى حد نصاب سے خارج نہ ھوا ھو، تو ھر سال زكوٰة دينا چاھيے چاھيے اس سے پھلے سال زكوٰة ادا كي ھو ۔
نكتہ ۳:
شايد زكوٰة ميں اسلام كا فلسفہ يہ ھوكہ سونا چاندى سكہ دار ذخيرہ نہ ھو بلكہ اقتصادي حالات كو صحيح كرنے كے لئے اس كو مصرف اور خرچ ميں لانا چاھيے ۔

زكواة كا مصرف
درج ذيل آٹھ مقامات ميں سے كسي ايك مقام پر زكوٰة صرف كرنا چاھيے:
1
۔ فقير:
يعني جو شخص اپنے اور اپنے عيال كے سال بھر كے اخراجات نہ ركھتا ھو ۔ 2۔ مسكين:
يعني جس شخص كي مالي حالت فقير كي حالت سے بھي زيادہ بدتر ھو۔
3۔ في سبيل اللہ:
يعني ايسے كاموں ميں صرف كرنا جس سے عام طور سے ديني منفعت ھو جيسے مسجد و مدرسہ بنانے ميں پل، ہاسپيٹل وغيرہ ۔
4۔ ابن سبيل:
يعني جو شخص سفر ميں درماندہ و محتاج ھوگيا ھو اس كو زكوٰة سے بقدر ضرورت ديا جائے گا كہ اپنے شھر پھونچ جائے ۔
5۔ جو مقروض اپنے قرض كو ادا نہ كر سكتے ھوں ان كے قرض كي ادائيگي ميں صرف كريں گے ۔
6۔ غلاموں كو خريد كر آزاد كرنے ميں ۔
7۔ اس كافر كو ديں گے كہ جس كيلئے امكان ھے احسان كے توسط سے اسلام كي طرف مائل ھوجائے گا ۔
8۔ جو شخص حاكم شرع كي طرف سے زكوٰة اصول كرنے پر مامور ھو ۔
نكتہ:
اگر لوگ زكوٰة كا پيسہ ادا كريں تو حاكم شرع كو چاھيے كہ فقر و بےكاري كے ختم كرنے كي كوشش اور شھروں اور ديہاتوں كے آباد كرنے ميں سعي كرے اور امور خيريہ كي بنياد ڈالے ۔

خمس
اسلام كے مالي حقوق ميں سے خمس ھے جو تمام مسلمانوں پر فرض ھے۔

سات چيزوں پر خمس دينا واجب ھے:
1۔ كاروبار كے منافع، انسان كو زراعت و صنعت و تجارت مختلف اداروں ميں ملازمت كاريگري وغيرہ سے جو آمدني ھوتي ھے اس ميں سے (مثلاً كھانا، لباس، گھر كا برتن، گھر خريدنا، شادى، مھمان نوازى، مسافرت كے خرچ) سالانہ خرچ سے جو بچ جائے اس بچت كا پانچواں حصہ بعنوان خمس ادا كرے ۔
2۔ كان سے جو سونا، چاندى، لوھا، تانبہ، پيتل، تيل، نمك، پتھر كا كوئلہ، گندھك معدني چيز برآمد ھوتي ھے اور جو دھاتيں ملتي ھيں، ان سب پر خمس واجب ھے ۔
3۔ خزانے ۔
4۔ جنگ كي حالت ميں مال غنيمت ۔
5۔ دريا ميں غوطہ خوري كے ذريعہ حاصل ھونے والے جواھرات ۔
6۔ جو زمين مسلمان سے كافر ذمي خريد ے اس كو چاھيے كہ پانچواں حصہ اس كا يا اس كي قيمت كا بعنوان خمس ادا كرے ۔
7۔ حلال مال جو حرام مال ميں مخلوط ھوجائے اس طرح كي حرام كي مقدار معلوم نہ ھو اور نہ ھي اس مال كوپہچانتا ھو، تو اسے چاھيے ان تمام مال كا پانچواں حصہ خمس دے تاكہ باقي مال حلال ھوجائے ۔
نكتہ ۱) جو شخص خمس كے مال كا مقروض ھے اس كو چاھيے كہ مجتھد جامع الشرائط يا اس كے كسي وكيل كو دے تاكہ وہ عظمت اور ترويج اسلام اور فقير سادات كے مخارج كو اس سے پورا كرے۔
نكتہ ۲) خمس و زكوٰة كي رقوم اسلامي ماليات كا سنگين اور قابل توجہ بجٹ ھے۔
اگر صحيح طريقہ سے اس كي وصولي كي جائے اور حاكم شرع كے پاس جمع ھوتو اسے مسلمانوں كے تمام اجتماعي كاموں كو بطور احسن انجام ديا جا سكتا ھے، يا فقيري و بيكاري اور جہالت كا ڈٹ كر مقابلہ اور اس سے لاچار و فقير لوگوں كي ديكھ ريكھ كي جا سكتي ھے اور لوگوں كي ضروري امور كہ جس كا فائدہ عمومي ھوتا ھے اس كے ذريعہ كرائے جا سكتے ھيں مثلاً ہاسپيٹل، مدرسہ، مسجد، راستہ، پل اور عمومي حمام وغيرہ ۔

حج
جو شخص مالي اور جسماني قدرت ركھتا ھو پوري عمر ميں ايك مرتبہ خانہ كعبہ كي زيارت كے لئے جانا اور دنيا كے سب سے بڑے اجتماع اور تمام مسلمانوں كے جاہ و جلال كے ساتھ شركت كرنا واجب ھے ۔
حضرت امام صادق (ع) نے فرمايا: جو شخص مر جائے اس حال ميں كہ عذر شرعي كے بغير اپنے واجبي حج كو ترك كيا ھے تو ايسا شخص دنيا سے مسلمان نھيں جاتا بلكہ وہ يھود و نصاريٰ كے ساتھ محشور ھوگا ۔ 79
حج اسلام كي بڑي عبادتوں ميں سے ايك عبادت ھے اور اپنے دامن ميں بڑے فوائد كو ركھے ھوئے ھے مسلمان چاھے تواس حج كے مراسم و مناسك ميں اپنے ايمان كي تقويت اور خدا سے اپنے رابطہ كو محكم و استوار كرلے خدا پرستي و فروتنى، برادري و بھائي چارگي اور بخشش و درگذر كرنے كا عملي شاھكار اس بڑي اسلامي درس گاہ ميں سيكھ دنيا كے تمام مسلمان ايك جگہ اور ايك مقام پر جمع اور ايك دوسرے كے رسوم و عادات سے آشنا ھوتے ھيں اور ھر ملك كے عمومي حالات كے تبادلہٴ خيالات كے نتيجہ ميں علمي سطح ميں اضافہ ھوتا ھے اور جہاں پر مسلمان اسلام كي مشكلات اور مھم خطرات سے با خبر ھوتے ھيں، اسي كے ساتھ ايك دوسرے كے اقتصادي اور سياسي و فرھنگي پروگراموں كے سلسلہ ميں باز پرس كرتے ھيں جہاں اسلام كے عمومي مصالح و فوائد پر آپس ميں گفتگو كرتے ھيں اتحاد، ھم فكري نيز آپسي دوستي كے روابط مستحكم ھوتے ھيں۔
نكتہ:
حج ھر مالي استطاعت ركھنے والے شخص پر واجب ھے يعني اس كے پاس اتنا مال موجود ھو كہ اگر وہ اپنے مال سے حج كے اخراجات نكال لے تو واپس آنے پر بےچارہ حيران و سرگرداں نہ پھرے بلكہ مثل سابق اپني زندگي اور كام وغيرہ كو ويسے ھي انجام دے سكتا ھو ۔

جہاد
اسلام كا ايك مھم دستور جہاد ھے ۔ خدا پرستي كي ترويج و احكام اسلام كے نفوذ، كفر و بے ديني اور اسلام كے دشمنوں كے خلاف جنگ كرنے كو جہاد كھتے ھيں اور جہاد تمام مسلمانوں پر واجب ھے، اس ضمن ميں قرآن مجيد كھتا ھے: < اِنَّ اللّٰہَ يحِبُّ الَّذِينَ يقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِہ صَفًّا كَاَنَّھُم بُنيانٌ مَرصُوصٌ> خدا تو ان لوگوں سے الفت ركھتا ھے جو اس كي راہ ميں اس طرح صف باندھ كر لڑتے ھيں كہ گويا وہ سيسہ پلائي ھوئي ديوار ھيں 80
اور دوسرے مقام پر اس طرح تشويق كرتا ھے < وَقَاتِلُ المُشرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يقَاتِلُونَكُم كَافَّةً > اور مشركين جس طرح تم سے سب كے سب لڑتے ھيں تم بھي اسي طرح سب كے سب مل كر ان سے لڑو۔ 81
اور ايك مقام پر قرآن كھتا ھے ان كے رھنماؤں كے پير اكھاڑدو < فَقَاتِلُوا اَئِمَّةَ الكُفرِ ِلانَّھُم لَا اَيمَانَ لَھُم لَعَلَّھُم ينتَھُونَ >كفار كے سربرآوردہ لوگوں سے خوب لڑائي كرو، ان كي قسموں كا ھر گز كوئي اعتبار نھيں ھے تاكہ يہ لوگ (اپني شرارت) سے باز آجائيں۔ 82
اسي طرح ارشاد باري ھے: <وَقَاتِلُوھُم حَتَّي لَا تَكُونَ فِتنَةٌ وَيكُونَ الدِّينُ لِلّٰہِ>كفار سے اس قدر جنگ كرو كہ فتنہ و فساد بر طرف ھوجائے اور (فقط) خدا كا دين (باقي) رھے ۔ 83
اور ايك مقام پر ارشاد رب العزت ھے، ان كو مرعوب كرنے كے لئے زيادہ سے زيادہ طاقتيں فراھم كرو < فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَاُلقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعبَ فَاضرِبُوا فَوقَ الاَعنَاقِ وَاضرِبُوا مِنھُم كُلَّ بَنَانٍ> تم ايمانداروں كو ثابت قدم ركھو ميں بھت جلد كافروں كے دلوں ميں تمھارا رعب ڈال دونگا (پس پھر كيا ھے اب) تو ان كفار كي گردنوں پر مارو اور ان كي پور پور چٹيلي كر دو ۔ 84
<وَاَعِدُّوا لَھُم مَااستَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَمِن رِبَاطِ الخَيلِ تُرھِبُونَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّكُم وَآخَرِينَ مِن دُونِھِم> 85
اور (مسلمانو) كفار كے (مقابلہ كے) واسطے جہاں تك ھوسكے (اپنے بازو كے) زور سے اور بدھے ھوئے گھوڑوں سے (لڑائي كا) سامان مھيا كرو اسے خدا كے دشمن اور اپنے دشمن اور اس كے سوا دوسرے لوگوں كے اوپربھي اپني دھاك بٹھالوگے ۔ (مترجم)
حضرت علي (ع) ارشاد فرماتے ھيں: جہاد جنت كے دروازے ميں سے ايك دروازہ ھے جو شخص جہاد سے انكار كرے خدا اس كو ذليل و رسوا كرے گا ۔ 86
اسلام نے جہاد كو اسلامي ملكوں كي حفاظت كے لئے تمام مسلمانوں پر واجب قرار ديا ھے اور تمام مسلمانوں كو مجاھد اور اسلامي ملك كو مجاھدوں كي جگہ قرار دي ھے، مجاھدين اسلام كو چاھيے ھميشہ كفر و الحاد كے مقابلہ ميں مسلح اور صف بصف آمادہ رھيں تاكہ دشمن اسلام قدرت و شوكت اور اتحاد مسلمين سے خوف كھائے اور اس كے ذھن سے اسلامي ملكوں پر زيادتي اور تجاوز كے خيالات ھوا ھوجائيں، اگر كفار كي فوج اسلام كے كسي علاقہ پر حملہ آور ھو جائے تو تمام مسلمانوں پر اپنے استقلال كے لئے اس كا دفاع كرنا واجب ھے اور تمام لوگوں كي ذمہ داري ھے كہ سب كے سب دشمنوں كے مقابلہ ميں صف بستہ كھڑے ھوں اور ايك ھي حملہ ميں مخالف كي فوج كو تھس نھس اور تباہ و برباد كر كے اپني جگہ پر بٹھاديں تاكہ دوبارہ وہ اس كي جراٴت و ھمت نہ كر سكيں ۔
جب تك مسلمان جہاد كو اپنا مقدس ديني وظيفہ سمجھتے تھے اور دشمن كے مد مقابل اسلحہ سے ليس آمادہ اور تمام تياري كے ساتھ ايك صف ميں محاز آرائي كے لئے كھڑے تھے، اس وقت تك كسي دشمن اسلام كو آنكھ اٹھا كر ديكھنے كي ھمت نہ تھى، اس وقت دشمنان اسلام خوفزدہ اور اپني قدرت و طاقت كي كمزوري كو درك كرتے تھے ۔
ليكن جب مسلمان (مجاھدين) پراگندہ ھو گئے اور بكھر گئے (بجائے اس كے كہ دشمن كے مقابلہ ميں صف بستہ ھوتے) بلكہ اپني عزت و عظمت كو خود ھي تباہ كر بيٹھے اور دوسروں كے دست نگر اور محتاج ھوكر استعمال ھونے لگے، لہذا اپني حفاظت و استقلال كے لئے مجبور ھوگئے كہ غيروں كا سہارا ليں، تاكہ وہاں كاسہ ليسي اور خوشامدي كر كے اپني حفاظت كي بھيك مانگيں ليكن نتيجہ اس كے بر خلاف نكلا (خود ابريشم كے كيڑے كي طرح) روز بروز اس كے فريب كے جال ميں گھرتے گئے ۔
نكتہ: جہاد كے لئے مخصوص شرائط ھيں جس كي بابت چاھيے كہ فقہ كي كتابوں كي طرف رجوع كيا جائے ۔

امر بالمعروف و نھي عن المنكر
اسلام كے واجبات ميں سے امر بالمعروف و نھي عن المنكر ھے، ترويج اسلام و تبليغ احكام ميں كوشش كرنا لوگوں كو ديني ذمہ داريوں اور اچھے كاموں سے آشنائي كرانا تمام مسلمانوں پر واجب ھے اگر كسي كو ديكھے كہ اپنے وظيفہ پر عمل پيرا نھيں ھے تو اس كو انجام دينے كے لئے آمادہ كرے اس كام كو امر بالمعروف كھتے ھيں ۔
منكرات (خدا كي منع كردہ چيزيں) سے لوگوں كو منع كرنا بھي اسلام كے واجبات ميں سے ھے، اور واجب ھے كہ مسلمان فساد، ظلم و ستم كے خلاف جنگ كرے اور برے و گندے كاموں سے روكے اگر كسي كو ديكھے كہ جو منع كئے ھوئے كاموں (منكرات) كو انجام ديتا ھے تو اس كام كے برے ھونے كي طرف اس كي توجہ دلائے، جس حد تك ممكن ھوسكے اس كو برے كاموں سے روكے اس كام كو نھي از منكر كھتے ھيں۔
لہٰذا امر بالمعروف اور نھي عن المنكر اسلام كي بڑي ذمہ داريوں ميں سے ايك ذمہ داري ھے اگر اس وظيفہ پر عمل ھونا شروع جائے تو اسلام كا كوئي بھي قانون بلا عمل باقي نھيں رھے گا جيسا كہ اسلام تمام احكام و قوانين ديني كو مسلمانوں كے اجرا كا مسئول سمجھتا ھے، تمام مسلمانوں پر واجب ھے كہ ايك دوسرے كا خيال ركھيں نيز مسلمانوں پر واجب ھے دين اسلام كے قوانين كا ھر طرح سے دفاع اور اس كي حفاظت اور رائج كرنے ميں كوشش كريں، تاكہ اس كے فائدے سے تمام افراد بھرہ مند ھوسكيں، ھر مسلمان كي ذمہ داري ھے كہ خود نيك كام كو انجام دے اور لوگوں كو بھي نيك كام پر آمادہ كرے، خود بھي برے اور گندے كاموں سے دوري كرے اور دوسروں كو بھي محرّمات الٰھي سے روكے ۔
مذكورہ دستور العمل سرنامہ اسلام اور قرآن كا مخصوص پروگرام شمار ھوتا ھے قرآن مجيد اس دستور العمل كو انجام دينے ميں مسلمانوں كي كاميابي و كامراني شمار كرتا ھے ۔
خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ھے: <كُنتُم خَيرَ اُمَّةٍ اُخرِجَت لِلنَّاسِ تَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَتَنھَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُوٴمِنُونَ بِاللّٰہِ>تم كيا اچھے گروہ ھو كہ لوگوں كي ھدايت كے واسطے پيدا كئے گئے تم (لوگوں) كو اچھے كام كا حكم كرتے اور برے كاموں سے روكتے اور خدا پر ايمان ركھتے ھو 87
اور ايك جگہ پر ارشاد ھوتا ھے: < وَلتَكُن مِنكُم اُمَّةٌ يدعُونَ اِلَي الخَيرِ وَيامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَينھَونَ عَنِ المُنكَرِ > اور تم ميں سے ايك گروہ (ايسے لوگوں كا بھي) تو ھونا چاھيے جو (لوگوں كو) نيكي كي طرف بلائيں اور اچھے كام كا حكم اور برے كاموں سے روكيں۔ 88
حضرت امام علي رضا (ع) فرماتے ھيں: امر بالمعروف نھي از منكر كرو اگر تم نے اس فرض پر عمل نھيں كيا تو اشرار تم پر مسلط ھوجائيں گے اس وقت اچھے لوگ جس قدر بھي دعائيں كريں اور ان كے ظلم و ستم پر گريہ كريں ان كي دعا محل اجابت ميں قبول نھيں كي جائے گي ۔ 89
پيغمبر (ص) اسلام نے فرمايا: جب بھي ميري امت امر بالمعروف اور نھي از منكر كو ترك كردے گويا خدا سے اعلان جنگ كر رھي ھے 90
رسول (ص) خدا نے ارشاد فرمايا: جب بھي ميري امت نيكي كا حكم اور برائي سے روكنے كے كام ميں مشغول رھے گي معاشرہ اور سماج آبرومنداور بھتر رھے گا، ليكن جس وقت اس ذمہ داري كو ترك كردے ان كے ہاتھوں سے بركت اٹھ جائے گى، اور ان ميں سے بعض (شرير) افراد تمام لوگوں پرغالب آجائيں گے اس وقت يہ فرياد اور مدد كے لئے پكارتے رھيں زمين و آسمان سے كوئي ان كي مدد كے لئے نھيں آئے گا ۔ 91
امام حسن عسكري (ع) فرماتے ھيں: نيكي كا حكم اور برائي سے روكنے كو ترك نہ كرنا ورنہ تم سب پر (خدا كي طرف سے) عذاب نازل ھوگا اور تم گرفتارِ عذاب ھوجاؤگے جب بھي كوئي تم ميں سے كسي كو برا كام كرتے ھوئے ديكھے تو فوراً اس كے روك تھام كے لئے قدم بڑھائے، اگر ايسا نھيں كر سكتا تو اپني زبان سے منع كرے اگر زبان سے منع كرنے پر قادر نھيں ھے تو چاھيے اس برے كام كے انجام پانے پر دل سے ناراض و غمگين ھو۔ 92
حضرت علي بن ابي طالب (ع) اپنے اصحاب سے فرماتے ھيں: اگر تم پر كوئي خطرہ اور مصيبت آجائے تو تم اپنے اموال كو اپنے نفس پر فدا كردو، اگر تمھارے دين كے لئے خطرہ اور ھلاكت كا باعث ھوتو اپني جان كو دين كي مدد و نصرت كے لئے فدا كردو، جان لو كہ بد بخت اور شقي وہ شخص ھے جو اپنے دين كو كھو بيٹھے اور چورى اس كي ھوئي ھے جس كے دين كي چورى ھو جائے ۔ 93

امر بالمعروف اور نھي از منكر كے چند مراحل ھيں
پھلا مرحلہ:
زبان سے نرمي كے ساتھ اس كام كي اچھائي يا برائي اس شخص كے لئے ثابت كي جائے اور نصيحت و موعظہ كي صورت ميں اس سے مطالبہ كيا جائے كہ وہ اس كام كو نہ كرے يا برے كام كو چھوڑ دے ۔
دوسرا مرحلہ:
اگر زبان سے موعظہ و نصيحت اسے كوئي فائدہ نہ پھنچائے تو سختي اور غصہ سے، برے كام سے روكا جائے ۔
تيسرا مرحلہ:
سختي و غصہ كي وجہ سے بھي اگر اس پر اثر نہ ھو تو جس حد تك، اگر قدرت ركھتا ھے يا جس وسيلہ و طريقہ سے ممكن ھے برے كام سے منع كرے ۔
چوتھا مرحلہ:
اگر اس كے باوجود بھي اس كو گناہ سے نہ روك سكے تو تمام لوگوں كو چاھيے اس سے اس طرح اظہار نفرت كريں كہ اس كو احساس ھوجائے كہ تمام لوگ اس كے مخالف اور اس سے متنفر ھيں ۔

حرام و باطل معاملات
1۔عين نجس (جو چيز ذاتا ً نجس ھو) جيسے پيشاب، پاخانہ، خون اور ميت۔
2۔ غصبي مال كي خريد و فروخت حرام و باطل ھے ۔
3۔ ايسے اسباب و آلات كي خريد و فروخت جو صرف حرام ميں استعمال ھوتے ھيں جيسے موسيقى، جوئے كے آلات ۔
4۔ سودي معاملہ بھي حرام ھے ۔
5۔ شراب اور ھر مست كرنے والي چيزو ں كي خريد و فروخت ۔
6۔ ايسي چيزوں كي خريد و فروخت جو اسلام كي نگاہ ميں ماليت نھيں ركھتي ھے ۔
7۔ ان ملاوٹ والي چيزوں كا بيچنا جس كے بارے ميں خريدار كو كچھ پتہ نہ ھو جيسے گھي ميں چربي يا كوئي اور چيز ملا كر بيچنا ۔
8۔ انگور و كشمش و كھجور كو ايسے شخص كو بيچنا جو اس سے شراب بناتا ھے (يا بنائے گا)

نجس چيزيں
اسلام كچھ چيزوں كو نجس جانتا، اور مسلمانوں كو اس سے اجتناب كا حكم ديتا ھے:
1۔2۔ پيشاب و پاخانہ خواہ انسان كا ھو يا ھر حرام گوشت حيوان جو خون جھندہ ركھتا ھے يعني اگر اس كي رگ كو كاٹ ديں تو خون بڑي سرعت كے ساتھ نكلے ۔
3۔اسي طرح خون جھندہ ركھنے والے حيوان كي مني نجس ھے ۔
4۔ خون جھندہ ركھنے والے حيوان كا مردہ نجس ھے ۔
5۔ خون جھندہ ركھنے والے حيوان كا خون نجس ھے ۔
6۔ خشكي كے كتے ۔
7۔ خشكي كي سور۔
8۔ كافر جو خدا و رسول (ص) كا منكر ھے ۔
9۔ شراب ۔
10۔ فقاع (بيئر) جو، جو سے بنائي جاتي ھے ۔

مطھرات
1۔ پانى:
مطلق اور پاك پاني ھر چيز كي نجاست كو پاك كر تا ھے ۔
2۔ زمين:
اگر زمين پاك اور خشك ھے تو انسان كا پير، جوتے كا تلا، چھڑي كي نوك، گاڑي كا پھيہ وغيرہ كو پاك كرتي ھے شرط يہ ھے كہ چلنے كي وجہ سے ان چيزوں كي نجاست زائل ھو گئي ھو ۔
3۔ آفتاب:
(سورج) آفتاب كي گرمي زمين، چھت، ديوار، دروازہ، كھڑكي اور درخت وغيرہ كو پاك كرتا ھے شرط يہ ھے كہ عين نجاست بر طرف ھوگئي ھو اور نجاست كي تري آفتاب كي گرمي سے خشك ھو جائے ۔
4۔ عين نجاست كا دور ھونا:
اگر حيوان كا بدن نجس ھوجائے تو عين نجاست كے دور ھوتے ھي اس كا بدن پاك ھوجاتا ھے، اور پاني سے دھونے كي ضرورت نھيں ھے ۔
5۔ استحالہ:
اگر عين نجس اس طرح متغير ھوجائے كہ اس پر اس كے سابقہ نام كا اطلاق نہ ھو بلكہ اسے كچھ اور كھاجانے لگے تو وہ نجاست پاك ھوجاتي ھے، جيسے كتا نمك كي كان ميں گر كر نمك بن جائے تو پاك ھو جائے گا يا نجس لكڑي كو آگ جلا كر خاكستر كر دے (تو وہ خاكستر پاك ھوجائيگي)

واجب غسل
چھ غسل واجب ھيں:
(۱) غسل جنابت (۲) غسل حيض (۳) غسل نفاس (۴) غسل استحاضہ (۵) غسل ميت (۶) غسل مس ميت ۔
جنابت: انسان دو چيزوں سے مجنب ھوجاتا ھے، ۱۔ جماع (جنسي آميزش) ۲۔ مني كا نكلنا

غسل كا طريقہ
غسل ميں چند چيزيں واجب ھيں:
1۔ نيت: غسل كو خدا كے لئے بجالائے اور معلوم ھونا چاھيے كہ كون سا غسل انجام دے رھاھے (يا دے رھي ھے)
2۔ نيت كے بعد پورے سر و گردن كو دھوئے اس طريقے سے كہ ايك ذرہ كھيں چھوٹنے نہ پائے ۔
3۔ سر و گردن كے بعد داھنے طرف كے پورے بدن كو دھوئے ۔
4۔ اس كے بعد بائيں طرف كے پورے بدن كو دھوئے ۔

نكتہ ۱) مجنب پر چند چيزيں حرام ھيں:
1۔ خط قرآن، اسم خدا، اور اسماء انبياء، اسماء ائمہ طاھرين (ع) كو بدن كے كسي حصہ سے مس كرنا
2۔ مساجد اور ائمہ عليھم السلام كے حرم ميں ٹھھرنا ۔
3۔ كسي چيز كو ركھنے كے لئے مسجد ميں داخل ھونا ۔
4۔ وہ سورہ جن ميں سجدہ واجب ھے ان ميں سے كسي ايك آيت كا پڑھنا (عزائم كا پڑھنا)
5۔ مسجد الحرام ميں جانا ۔
نكتہ ۲) مجنب كے لئے ضروري ھے كہ نماز اور روزہ كے لئے غسل كرے، اسي طرح وہ عورت جو خون حيض و نفاس سے فارغ ھوئي ھے، نماز و روزہ كے لئے غسل كرنا واجب ھے ۔

تيمم كا طريقہ
تيمم ميں پانچ چيزيں واجب ھيں:
1۔ نيت ۔
2۔ دونوں ہاتھوں كو ملا كر ھتھيليوں كو زمين پر مارے ۔
3۔ دونوں ہاتھوں كي ھتھيليوں كوپوري پيشاني اور اس كے دونوں طرف جہاں سے سر كے بال اُگتے ھيں ابرو ؤں تك (اور ناك كے اوپر تك كھينچے)
4۔ بائيں ہاتھ كي ھتھيلي كو داھنے ہاتھ كي پوري پشت پر پھيرے ۔
5۔ داھنے ہاتھ كي ھتھيلي كو بائيں ہاتھ كي پوري پشت پر پھيرے ۔
نكتہ ۱:
جب انسان كے لئے پاني ضرر ركھتا ھو يا پاني تك رسائي ممكن نہ ھو يا نماز كا وقت تنگ ھو تو چاھيے كہ نماز كے لئے تيمم كرے ۔
نكتہ ۲:
مٹى، كنكر، ريت، ڈھيلہ، پتھر، پر تيمم كرنا صحيح ھے ۔
نكتہ ۳:
اگر تيمم غسل كے بدلے ھوتو پيشاني كے مسح كے بعد ايك مرتبہ پھر دونوں ہاتھوں كو ملا كر زمين پر مار ے، بائيں ہاتھ كي ھتھيلي سے داھنے ہاتھ كي پشت كا اور داھنے ہاتھ كي ھتھيلي سے بائيں ہاتھ كي پشت كا مسح كرنا چاھيے۔

بعض حرام كام
ظلم كرنا، جھوٹ، غيبت، چاپلوسى، لوگوں كے مال كا غصب كرنا، عيب جوئى، جوا كھيلنا، سود كھانا، سود لينے كے لئے گواہ بننا، سود كے لئے رسيد كاٹنا، زنا، لواط، نا محرم كي طرف ديكھنا، زنا كي نسبت دينا، ملاوٹ كرنا، شہادت (گواھي) چھپانا، جھوٹي گواھي دينا، وعدہ خلافي كرنا، ميدان جنگ سے بھاگنا، شراب پينا، سور كا گوشت كھانا،مردہ كھانا، انسان كے بيضتين كا كھانا، خون پينا اور كھانا، نجس چيز كا كھانا و پينا، فساد پھيلانا، برے كام كو انجام دينا، مومن كا قتل كرنا، ماں اور باپ كو اذيت پھنچانا، جھوٹي قسم كھانا، كم فروشي (ناپ و تول ميں كمي كرنا)، ظالم كي مدد كرنا، خيانت كرنا، ظالم كے پاس نمامي و چغلخوري كرنا، گمراہ كرنا، دين ميں بدعت ڈالنا، مسلمانوں كي توھين كرنا، خدا كي ذات سے نا اميدى، گالي دينا، تكبر كرنا، زبان سے اذيت كرنا، رياكاري كرنا، لوگوں كو دھوكہ دينا، پڑوسي كو ستانا، لوگوں كو رنج پھنچانا (مردم آزاري) رشوت كھانا، طلبِ منى، چورى، احكام خدا كے خلاف فيصلہ كرنا، مردوں كا سونے كے زيورات سے زينت كرنا جيسے انگوٹھي اور سونے كي گھڑي پھننا سونے كے برتن كا استعمال كرنا وغيرہ ۔

بعض واجبات
نماز، روزہ، امر بہ معروف و نھي از منكر، جہاد، زكات، خمس، حج، مظلوموں كي مدد، گواھي دينا، دين كا دفاع كرنا، نفس محترم كي حفاظت، سلام كا جواب دينا، ماں و باپ كي اطاعت كرنا، احكام دين كا سيكھنا، صلہٴ رحم كرنا، عھد و نذر كا وفا كرنا ۔

تقليد
خداوند عالم نے ھماري سعادت اور دنيا و آخرت ميں نجات كے لئے تمام احكام و قوانين كو اپنے نبي (ص) كے ذريعہ لوگوں تك پھنچايا اور آپ (ص) نے اس امانت عظميٰ كو ائمہ طاھرين (ع) كووديعت اعطا فرمايا ھے اور حضرت كے جانشين اور خلفائے برحق نے اپني عمر كے تمام نشيب و فراز ميں اس ذمہ داري كو پھنچانے كي كوشش فرمائي ھے جو آج تك ان تمام ادوار كو طے كرتا ھوا ھمارے سامنے حديثوں اور روايتوں كي كتابوں ميں موجود ھے ۔
اس زمانہ ميں چونكہ امام زمانہ (ع) تك ھماري رسائي ممكن نھيں ھے كہ ھم اپني ذمہ داريوں اور وظائف كو حضرت (ع) سے دريافت كر سكيں، لہذا مجبور ھيں كہ حديثوں اور قرآني آيات سے احكام كا استنباط كريں اور اگر اس پر بھي قادر اور دست رسي نھيں ركھتے تو ضروري ھے كہ كسي مجتھد اعلم (سب سے زيادہ علم ركھنے والا) كي تقليد كريں ۔
ان روايات و احاديث ميں كھري كھوٹى، صحيح و غلط وضعي جعلي وغيرہ كے سمندر سے گوھر كا الگ كرنا ھر ايك كے بس كا ميں نھيں ھے اس لئے ضروري ھے كہ ايسے افراد كا انتخاب كيا جائے جو اس بحر بيكراں ميں غواصي كر رھے ھوں، جو اس سمندر كي طغيان اور طوفان سے خوب واقف ھوں جنھوں نے اس كو حاصل كرنے كے لئے رات و دن نہ ديكھا، عمر كے لمحات كو نہ شمار كيا ھو، علوم كے سمندر كي تہہ ميں بيٹھے ھوں اس كي راھوں سے خوب واقف ھوں اس ميں سے گوھر و موتي نكالنے ميں ان كے لئے كوئي مشكل كام نہ ھو، ايسے افراد كو مجتھد كھتے ھيں ۔
لہذا ھم مجبور ھيں كہ اپني ذمہ داريوں كو طے كرنے كے لئے ان كے دامن كو تھاميں كيونكہ اس كام كے ماھر وھي ھيں، مريض ڈاكٹر ھي كے پاس تو جائے گا، يہ ايك عقلي قاعدہ ھے جس چيز كے متعلق معلوم نھيں اس علمكے ماھر و متخصص سے پوچھو اور حضرات ائمہ طاھرين عليھم السلام نے بھي دور دراز رھنے والوں كے لئے قريب كے عالم كي طرف راھنمائي فرمائي ھے ۔
البتہ تقليد ميں يہ چيز ذھن نشين رھے، كہ ايسے مجتھد كي تقليد كي جائے جو تمام مجتھدين ميں اعلم (جو احكام خدا كو سمجھنے ميں سب سے زيادہ جاننے والا ھو) عادل و پرھيز گار ھو پس اس كے حكم كے مطابق عمل كرنا ضروري ھے، مجتھدين اكثر موارد ميں اتفاق نظر ركھتے ھيں، سوائے بعض جزئيات كے كہ جس ميں اختلاف پايا جاتا ھے، ھو سكتا ھے كہ ان جزئيات ميں ايك دوسرے كے خلاف فتويٰ ديں ۔
اس مقام پر يہ بھي ذكر كرنا ضروري ھے كہ خداوند عالم كے پاس فقط ايك حكم موجود ھے اس كے علاوہ كوئي حكم نھيں پايا جاتا وھي حق ھے، اور حكم حقيقي و واقعي فتويٰ كے بدلنے سے تبديل نھيں ھوتا ھے، مجتھدين بھي نھيں كھتے ھيں كہ خدا كے نظريات و احكام ھمارے نظريات و خيالات كے تابع ھيں يا ھمارے حكم كي تبديلي سے خدا كا حكم بدل جاتا ھے۔
پھر آپ ھم سے يہ سوال كرنے پر مجبور ھوجائيں گے: فتويٰ ميں اختلاف كي نوعيت كيا ھے؟ فقھاآپس ميں اختلاف كيوں ركھتے ھيں؟
ايسي صورت ميں آپ كے سوال كا جواب يہ ھوگا كہ: فتويٰ ميں اختلاف ان وجوہ ميںسے كسي ايك كي بنا پر ممكن ھے ۔
پھلا:
كبھي ايك مجتھد حكم واقعي كو سمجھنے ميں شك كرتا ھے تو اس حال ميں قطعي حكم دينا ممكن نھيں ھوتا لہذا احتياط كي رعايت كرتے ھوئے مطابق احتياط فتويٰ ديتا ھے تاكہ حكم الٰھي محفوظ رھے، اور مصلحت واقعي بھي نہ نكلنے پائے ۔
دوسرا:
كبھي اختلاف اس جھت سے ھوتا ھے، كہ دو مجتھدين جس روايت كو دليل بنا كر فتويٰ ديتے ھيں وہ روايت كو سمجھنے ميں اختلاف نظر ركھتے ھيں، ايك كھتا ھے امام اس روايت ميں يہ كھنا چاھتے ھيں اور دوسرا كھتا ھے امام كا مقصود دوسري چيز ھے، اس وجہ سے ھر ايك اپني سمجھ كے مطابق فتويٰ ديتا ھے ۔
تيسرا:
حديث كي كتابوں ميں كسي مسئلہ كے اوپر كئي حديثيں موجود ھيں جو باھم تعارض ركھتي ھيں ہاں فقيہ كو چاھيے كہ ان ميں سے ايك كو دوسرے پر ترجيح دے اور اس كے مطابق فتويٰ دے۔
يہاں ممكن ھے كہ مجتھدين كا نظريہ مختلف ھو ايك كھے فلاں اور فلاں جھت سے يہ روايت اس روايت پر مقدم ھے اور دوسرا كھے، فلاں و فلاں جھت سے يہ روايت اس روايت پر ترجيح ركھتي ھے پس ھر ايك اپنے مد نظر روايت كے مطابق فتويٰ ديتا ھے ۔
البتہ اس طرح كے جزئي اختلافات كھيں پر ضرر نھيں پھونچاتے بلكہ محققين اور متخصصين و ماھرين كے نزديك ايسے اختلافي مسائل پائے جاتے ھيں آپ كئي انجينير، اور مہارت ركھنے والے كو نھيں پا سكتے جو تمام چيزوں ميں ھم عقيدہ و اتفاق راي ركھتے ھوں ۔

ھم مذكورہ مطالب سے يہ نتيجہ نكالتے ھيں:
1) تقليد كرنا كوئي نئي بات نھيں، بلكہ ھر شخص جس فن ميں مہارت نھيں ركھتا ھے اس فن ميں اس كے متخصص وماھر كے پاس رجوع كرتا ھے، جيسے گھر وغيرہ بنوانے كے معاملہ ميں انجينيراور بيماري ميں ڈاكٹر اور بازار كي قيمت كے متعلق دلال كے پاس جاتے ھيں، پس احكام الٰھي حاصل كرنے كے لئے مرجع تقليد كي طرف رجوع كريں اس لئے كہ وہ اس فن كے متخصص و ماھر ھيں ۔
2) مرجع تقليد:
من ماني اور ھوا و ھوس كي پيروي ميں فتويٰ نھيں ديتے بلكہ تمام مسائل ميں ان كا مدرك قرآن كي آيات و احاديث پيغمبر (ص) اور ائمہ طاھرين (ع) ھوتي ھے ۔
3) تمام مجتھدين، اسلام كے كلي مسائل بلكہ اكثر مسائل جزئي ميں بھي ھم عقيدہ اور نظري اختلاف نھيں ركھتے ھيں ۔
4) بعض مسائلِ جزئيہ جس ميں اختلاف نظر پايا جاتا ھے وہ اس وجہ سے نھيں ھے كہ مجتھدين اختلاف كرنا چاھتے ھيں بلكہ تمام مجتھدين چاھتے ھيں كہ حكم واقعي خدا جو كہ ايك ھے اس كو حاصل كريں اور مقلدين كے لئے قرار ديں، ليكن استنباط اور حكم واقعي كے سمجھنے ميں اختلاف پيدا ھوجاتا ھے پھر چارہ ھي كوئي موجود نھيں رھتا مگر يہ كہ جو كچھ سمجھا ھوا ھے اس كو بيان كر يں ا ور لكھيں جب كہ حكم واقعي ايك حكم كے علاوہ نھيں ھے ۔ مقلدين كے لئے بھي كوئي صورت نھيں ھے مگر اعلم كے فتوے پر عمل كريں اور خدا كے نزديك معذور ھوں ۔
5) جيسا كہ پھلے بيان ھوا كہ دنيا كا ھر متخصص و محقق و ماھر چاھے جس فن كے بھي ھوں ان كے درميان اختلاف نظر پايا جاتا ھے، ليكن لوگ امر عادي سمجھتے ھوئے اس پر خاص توجہ نھيں ديتے ھيں اور اس سے اجتماعي امور ميں كوئي رخنہ اندازي بھي نھيں ھوتي ھے ۔
مجتھدين كے بعض جزئيات ميں اختلافي فتوے بھي اس طرح كے ھيں، اس كو امر غير عادي نھيں شمار كرنا چاھيے ۔
6) ھميں چاھيے كہ ايسے مجتھد كي تقليد كريں جو تمام مجتھدين سے اعلم ھو، اور احكام الٰھي كے حاصل كرنے ميں سب سے زيادہ تجرّ ركھتا ھو نيز عادل و پرھيز گار جو اپنے وظيفہ و ذمہ داري پر عمل كرتا ھو اور قانون و شريعت كي حفاظت كے لئے كوشاں ھو۔

اسلام ميں رھبري و قيادت
جمھوريہ اسلامي ايران كے رھبر فقھاو مجتھدين صاحب شرائط سے منتخب كئے جاتے ھيں جمھوريہ اسلامي ايران كے بنيادي قانون ميں رھبر كے لئے تين شرطيں بيان كي گئي ھے ۔
1۔ علمي صلاحيت ركھتا ھو جو فقہ كے كسي باب ميں فتويٰ دينا چاھے تو دے سكے ۔
2۔ امت اسلام كي رھبري كے لئے تقويٰ و عدالت ضروري ھے ۔
3۔ سياسي و اجتماعي بصيرت كا حامل ھو نيز تدبير و شجاعت و بہادري رھبري و مديريت كے لئے كافي قدرت و طاقت ركھتا ھو ۔
سب سے پھلے رھبري كي ذمہ داري اسلامي جمھوريہ كے باني آية اللہ العظميٰ امام خميني قدس سرہ كے اوپر تھى، اور پھر ان كے بعد رھبر كے انتخاب كي ذمہ داري خبرگان كے اوپر ھے (مجلس خبرگان ميں مجتھدين و فقھاھيں جو رھبري كے لئے كسي كو منتخب كرتے ھيں) حضرت امام خميني كے بعد حضرت آية اللہ خامنہ اي مدظلہ العالي ميں رھبري و قيادت كے تمام شرائط موجود پاكر آپ لوگوں كے سامنے پيش كيا، ولايت امر اور اس سے مربوط تمام تر مسائل كي ذمہ داري رھبر كے اوپر ھے ۔

فھرست مصادر
1۔ اثباة الھداة؛ محمد بن حسن حر عاملي
2۔ ارشاد؛ شيخ مفيد
3۔ بحار الانوار؛ محمد باقر بن محمد تقي مجلسي
4۔ البداية و النہاية؛ ابو الفداء اسماعيل بن محمد عمر دمشقي (ابن كثير)
5۔ توضيح المسائل؛ مراجع تقليد
6۔ حياة القلوب؛ محمد باقر بن محمد تقي مجلسي
7۔ سفينة البحار و مدينة الحكم و الآثار؛ شيخ عباس بن محمد رضا قمي
8۔ كشف الغمہ؛ علي بن عيسي اربلي
9۔ محجة البيضاء؛ ملا محسن فيض كاشاني
10۔ مناقب آل ابي طالب؛ ابن شھر آشوب
11۔ نھج البلاغہ؛ سيد رضي
12۔ الوافى؛ ملا محسن فيض كاشاني
13۔ وسائل الشيعہ؛ محمد بن حسن حر عاملي
14۔ ينابيع المودة؛ سليمان بن ابراھيم قندوزي

________________________________________

70. وافى، ج۲، جزء پنجم، ص ۱۳ ۔
71. مراجع تقليد نے كھاھے كہ ” اَشہَدُ اَنَّ عَلِياً وَلِي اللّٰہِ “ (ميں گواھي ديتا ھوں كہ حضرت علي (ع) تمام لوگوں پر اللہ كے ولي ھيں) اذان و اقامت كا (جز) حصہ نھيں ھے، ليكن ” اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہِ “ كے بعد ” اَشہَدُ اَنَّ عَلِياً وَلِي اللهِ “ بقصد تبرك و تيمن كھنا بھتر ھے ۔ (توضيح المسائل مسئلہ ۹۱۹)
72. وافى، ج۲، جز ۷، ص۵ ۔
73. وافى، ج۲، جز ۷، ص۵ ۔
74. وافى، ج۲، جز۷، ص۵۔
75. وافى، ج۲، ص۵، جز ۶ ۔
76. وافى، ج۲، ص۵، جز ۶ ۔
77. وافى، ج۲، ص۶ ۔
78. چونكہ موجودہ صورت حال ميں اونٹ كي زكواة كا اتفاق نھيں ھوتا ھے، اس لئے ھم نے اس كے نصاب كو بيان نھيں كيا ھے ۔
79. وافى، ج۲، آٹھواں حصہ، ص۴۸
80. سورہ صف (۶۱) آيت ۴ ۔
81. سورہ توبہ (۹) آيت ۳۶ ۔
82. سورہ توبہ (۹) آيت ۱۲ ۔
83. سورہ بقرہ (۲) آيت ۱۹۳۔
84. سورہ انفال (۸) آيت ۱۲ ۔
85. سورہ انفال (۸) آيت ۶۰ ۔
86. وسائل الشيعہ، ج۱۱، ص ۱۱ ۔
87. آل عمران (۳) آيت ۱۱۰ ۔
88. آل عمران (۳) آيت ۱۰۴ ۔
89. وسائل الشيعہ، ج۱۱، ص ۳۹۴
90. وسائل الشيعہ، ج۱۱، ص ۳۹۴۔
91. وسائل الشيعہ، ج۱۱، ص ۳۹۸۔
92. وسائل الشيعہ، ج ۱۱،ص ۴۰۷ ۔
93. وسائل الشيعہ، ج ۱۱، ص ۴۵۱۔