دوسري فصل؛ نبوت
 

نبوت
خداوند عالم كے لئے ضروري ھے كہ لوگوں كي ھدايت كے لئے احكام كے ساتھ انبياء عليھم السلام كو مبعوث كرے اس مطلب پر تين دلائل پيش كررھے ھيں ۔

پھلي دليل
اس لئے كہ انسان كي پيدائش كا ھدف يہ نھيں ھے كہ ايك مدت تك اس دنيا ميں رھے، اور اللہ كي نعمتوں كو استعمال كرے اور ھر طرح كي عيش و عشرت يا دنياوي ہزاروں دكھ درد اور پريشانيوں كے داغ كو اپنے سينہ پر برداشت كركے رخت سفر باندھ كر فنا كے گھاٹ اتر جائے، اگر ايسا ھے تو انسان كي خلقت عبث و بے فائدہ ھوگى! 18
جب كہ خدائے تبارك و تعاليٰ كي ذات ايسے كاموں سے پاك اور مبرا ھے۔
انسان، خداوند عالم كي بھترين و افضل ترين مخلوق ھے اور اس كو پيدا كرنے كا مقصد يہ ھے كہ انسان اپنے اعمال كے ذريعہ كمالات و فضائل كے اعليٰ مرتبہ پر پھونچ جائے تاكہ قيامت كے دن بھترين ثواب و جزا كا مستحق قرار پائے۔
لہٰذا پروردگار عالم كي ذات نے انسان كو نظم و قانون كا محتاج پايا تو ان كے لئے انبياء (ع) كے دستور العمل بھي بھيجا تاكہ انسان كو تعليم ديں اور انسان كو ضلالت و گمراھي كي تاريكي سے نكاليں، يہ وھي احكام ھيں جو ساتھ قوانين اور انسان كي زندگي اور آخرت دونوں كو سدھارتے ھيں، لوگوں كو
زيادتي اور زور و زبردستي سے روكتے ھيں اور انسان كي آزادي كے حقوق كے محافظ ھيں نيز انسان كو كمال و صراط مستقيم اور اللہ تك پھونچاتے ھيں ۔ كيا انسان كي ناقص عقل ايسا جامع دستور العمل اور منظم پروگرام لوگوں كے حوالے كر سكتي ھے؟ ھر گز ممكن نھيں، اس لئے كہ انسان كي عقل اور اس كي معلومات ناقص و محدود ھے،لوگوں كي عقل اچھے، برے جلوت و خلوت انفراديت و اجتماعيت كے حالات پر كافي اور كامل معلومات نھيں ركھتي ھے ۔
اس لئے ھم ديكھتے ھيں كہ انسان نے ابتدائے خلقت سے ليكر آج تك ايڑي چوٹي كا زور لگا ديا اور بے حد دولتوں كا سيلاب بہاد يا كہ محكم و كامل اور جامع انسانيت كے لئے قانون بنائے ليكن ابھي تك نہ بنا سكا، قانون تو بے شمار بنتے رھتے ھيں، ليكن كچھ ھي دنوں ميں اس كي خامياں اور غلطياں كھل كر سامنے آجاتي ھيں لہذا يا تو لوگ اس كو پورے طور پر ختم كر ديتے ھيں يا اس ميں تبديلي اور نظر ثاني كے در پے ھو جاتے ھيں ۔

دوسري دليل
خود انسان كي طبيعت ميں خود خواھي اور خود غرضي كے ميلان پائے جاتے ھيں لہذا وہ ھر طرح كے فوائد كو اپنے اور اپنے اقارب كے لئے سب سے زيادہ پسند كرنے لگتا ھے لہذا نتيجتاً يہ عادت و فطرت مساوات كا قانون بنانے سے مانع ھوتي ھے ۔
جب بھي انسان ارادہ كرتا ھے كہ كوئي ايسا قانون بنائے جس ميں ھوائے نفس اور خود خواھي نيز خود پسندي كا كوئي دخل نہ ھو، اپنے اور پرائے ايك صف ميں كھڑے ھوں اور ھر ايك كو ايك نگاہ سے ديكھا جا رھاھو ليكن كھيں نہ كھيں طبيعت اور خواھش نفساني تو غلبہ كر ھي ليتي ھے لہذا عدل و انصاف پر مبني قانون كا سد باب ھو جاتاھے ۔

تيسري دليل
قانون بنانے والے حضرات انسان كے فضائل اور روحاني كمالات كا علم نھيں ركھتے اور اس كي معنوي زندگي سے بے خبر ھيں وہ انسان كي فلاح اور بھبود، ماديات كے زرق و برق اور دنيا كي رنگينيوں ميں تلاش كرتے ھيں جب كي انسان كي روحاني اور دنياوي زندگي كے درميان ايك خاص اور محكم رابطہ پايا جاتا ھے فقط خداوند عالم كي ذات والا صفات ھے جو اس دنيا و ما فيھاكا پيدا كرنے والا ھے اور انسان كي اچھائي و برائي سے خوب واقف اور با خبر ھے،نيزتمام موجودات پر احاطہ كئے ھوئے ھے كوئي بھي چيز اس كے دست قدرت سے باھر نھيں، وھي ھے جو بلندي كي راہ اور ھلاكت كے اجتناب سے بخوبي واقف ھے لہذا اپنے قانون و احكام بلكہ انسانيت كي باگ ڈور ايسے حضرات كے حوالے كرتا ھے جو لوگوں كے لئے نمونہ اور اس كي زندگي آنے والوں كے لئے مشعل راہ ھوتي ھے ۔
اسي بنياد پر ھم كھتے ھيں خداوند عالم حكيم ھے كبھي بھي انسان كو حيراني اور جہالت و گمراھي كے اتھاہ سمندر ميں نھيں چھوڑ سكتا بلكہ اس كي مصلحت و لطف كا تقاضا يہ ھے كہ انبياء كو قواعد و قانون كے ساتھ لوگوں كي ھدايت كے لئے مبعوث كرے ۔
انبيا، اللہ كے خاص بندے اور بساط بشر كي ممتاز فرد ھوتے ھيں جو خدا سے جس وقت چاھيں رابطہ پيدا كر سكتے ھيں اور جس چيز كي حقيقت معلوم كرنا چاھيں اسے معلوم كر كے لوگوں تك پھنچا سكتے ھيں اس طرح كے رابطے كو ”وحي“ كھتے ھيں وحي يعني اللہ اور اس كے خاص بندے كے درميان رابطے كو كھتے ھيں، انبياء اپني باطني بصيرت سے دنيا كي حقيقت كا مشاھدہ كرتے ھيں اور دل كے كانوں سے غيبي باتيں سنتے اور لوگوں تك پھنچاتے ھيں ۔

نبي كے شرائط
۔عصمت:
نبي كا معصوم ھونا ضروري ھے يعني نبي كے پاس ايسي قدرت و طاقت موجود ھوتي ھے كہ جس كي وجہ سے گناہ كے ارتكاب اور ھر طرح كي خطا و غلطي اور نسيان سے محفوظ رہ سكيں تاكہ خداوند عالم كے احكام جو انسان كي ھدايت كے لئے بنائے گئے ھيں بغير كسي كمي اور زيادتي كے لوگوں تك پھونچا سكيں ۔
اگرنبي خود گناہ كا مرتكب ھو جائے اور اپنے قول كے برخلاف عمل كرنے لگے تو اس كي بات اپنے اعتبار و اعتماد سے گر جائے گي يعني وہ اپنے اس فعل سے اپني ھي باتوں كا قلع قمع اور اپنے عمل كے ذريعہ لوگوں كو برائي اور خدا كي نافرماني كي طرف راھنمائي كر نے لگے گا، جب كہ اس ميں كوئي شبہ نھيں كہ عملي تبليغ زبان سے زيادہ موٴثر ھے اگر نبي غلطي و نسيان كا پلندا ھوجائے تو لوگوں كے دلوں سے محبوبيت اور اس كا بھروسہ ختم ھوجائے گا اور اس كي باتوں كي معاشرے كے سامنے كوئي اھميت و عزت نہ ھوگي ۔
۔علم:
نبي كے لئے ضروري ھے كہ ھر وہ قوانين جو انسان كي سعادت اور نيك بختي كے لئے لازم و ضروري ھيں اس سے خوب واقف ھو، اور ھر وہ مطالب و موضوع جو راھنمائي و تبليغ كے لئے كارساز ھيں اس كا كماحقہ علم ركھتا ھو تاكہ انسان كي فلاح اور بلندي كے حصول كے لئے خاص پروگرام لوگوں كے اختيار ميں دے سكے اور راہ مستقيم (سيدھا راستہ) جو فقط ايك راستہ ھے اس كے سوا كوئي راستہ نھيں، اس راہ كے عظيم اجزا كو باھم اور دقيق ملاكر لوگوں كے سامنے پيش كرے ۔
۔ معجزہ:
خارق عادت كام كو كھتے ھيں يعني نبي كا اپنے دعويٰ نبوت كے اثبات ميں ايسے كام كا انجام دينا جس سے تمام لوگ عاجز ھوں چونكہ نبي عادت كے خلاف كسي چيز كا دعويٰ كرتا ھے اور نظروں سے اوجھل دنيا اور اللہ كي ذات سے رابطہ ركھتا ھے اور معارف و علوم كو اسي سے حاصل كرتا ھے اور تمام احكام كو اسي كي طرف نسبت ديتا ھے تو ضروري ھے كہ نبي ايسے كام كو اپنے مدعيٰ كے لئے انجام دے جس سے اس زمانے كے تمام افراد عاجز و حيران ھوں اور دعويٰ چونكہ غيبي ھے لہذا معجزہ بھي عادت كے بر خلاف ھونا چاھيے تاكہ اس امر غيبي كو ثابت كر سكے ايسے كام كو معجزہ كھتے ھيں۔
خلاصہ چونكہ نبي خدا سے رابطے كا دعويٰ كرتا ھے تو ضروري ھے كہ خدا كے ھم مثل كام كو انجام دے تاكہ لوگ اس كي بات پر يقين كريں مخفي نہ رھے كہ انبياء كے تمام پروگرام اسباب و علل كے دائرے ھي ميں انجام پاتے ھيں، مگر بعض مقامات پر جہاں وہ اس كي ضرورت سمجھتے ھيں، معجزہ سے كام ليتے ھيں ۔

نبي كو پہچاننے كا طريقہ
يہ مسلم ھے كہ نبي ايك عظيم مقام و رتبے پر فائز ھوتا ھے جب چاھے خدا سے رابطہ پيدا كر سكتا ھے اور وحي كے ذريعہ حقائق كو حاصل كر سكتا ھے پيغمبر اور نبي ميںما فوق العادت عصمت جيسي طاقت بھي موجود ھوتي ھے، (كہ جسكي وجہ سے گناہ اور نسيان وغيرہ سے محفوظ رھتے ھيں) اور يہ بھي معلوم ھے كہ ايسا مقام اور راز پنہاني ھر كسي كے بس كا نھيں ھے لہذا انسان ان دو راستوں كے ذريعہ نبي كي حقانيت و صداقت كو بخوبي معلوم كر سكتا ھے اور تشخيص دے سكتا ھے ۔
پھلا راستہ:
ايك نبي دوسرے (آنے والے) نبي كي خبر دے يا اس كي تصديق كرے يا اس كے علائم اور قرائن كو بيان كرے ۔
دوسرا راستہ:
وہ اپنے دعوے كي صداقت اور حق گوئي كے لئے معجزہ پيش كرے، يعني ايسے كام كو انجام دے كہ انسان اس جيسے كام انجام دينے سے عاجز ھو جب انسان ديكھے كہ كوئي پيغمبري كا دعويٰ كرتا ھے اور كھتا ھے كہ ميں خد اكي طرف سے تمھاري ھدايت كے لئے مامور كيا گيا ھوں اور اپني بات كو ثابت كرنے كے لئے ايسے كام كو انجام دے رھاھو جو انسان كے اختيار سے باھر ھے، پس يقين ھو جائيگا كہ يہ شخص سچا ھے اس لئے كہ اگر يہ جھوٹا ھوتا تو خدا اس كي معجزہ كے ذريعہ تائيد نہ كرتا چونكہ جھوٹے كي تائيد كرنا لوگوں كو جہالت ميں ڈالنا ھے ايك امر قبيح ھے اور خدا كوئي قبيح امر انجام نھيں ديتا ھے مقام عصمت و نبوت كو پہچاننے كے لئے ان دو عمومي قاعدے كے علاوہ كوئي اور راستہ نھيں پايا جاتا ھے ۔
ليكن جاننا چاھيے كہ عقلمندوں اور تحقيق كرنے والوں كے لئے دوسرا راستہ بھي كھلا ھوا ھے كہ لوگ قانونِ شريعت اور احكام اسلام كا بہ نظر غائر مطالعہ كريں،اور قانون اسلام كو دنيا كے اور دوسرے قوانين سے تقابل كريں اور اس كے امتيازات اور مصلحتوں كو خوب درك كريں، اس وقت نبي كي سيرت اور طور طريقہ نيز رفتار و گفتار كو اس كے آئينے ميں تلاش كريں اور اس طريقے سے ان كے دعوے كي سچائي كي تائيد اور تصديق كر كے اپنے ايمان كو مضبوط كرسكتے ھيں، ليكن اس راہ سے آنا ھر شخص كے بس كي بات نھيں ھے يا يہ كہ خدا كا لطف خاص شامل حال ھو اور انسان ايمان كي قوت سے مالامال ھو، قرآن مجيد نے انبياء كے لئے معجزات كو بيان كيا ھے جو شخص قرآن كے آسماني اور خدا كي كتاب ھونے كا اعتقاد ركھتا ھے اس كو لامحالہ انبياء كے معجزات پر بھي اعتقاد ركھنا پڑے گا جيسے حضرت موسيٰ عليہ السلام كے عصا كا اژدھاھونااور حضرت عيسيٰ عليہ السلام كا مردے كو زندہ كرنا وغيرہ كسي كے لئے قابل انكار نھيں ھے، جناب عيسيٰ عليہ السلام كا گھوارے ميں باتيں كرنا قرآن كي نص ھے ۔

انبياء كي تعداد
حديثوں سے استفادہ ھوتا ھے كہ انبياء كي تعدادايك لاكھ چوبيس ہزار ھے جو لوگوں كي ھدايت كے لئے بھيجے گئے ھيں جس ميں سب سے پھلے حضرت آدم (ع) اور آخر ميں حضرت محمد مصطفي ابن عبد الله صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ھيں 19
انبياء كے اقسام: بعض انبياء اپنے فرائض كو وحي كے ذريعہ حاصل كرتے ھيں ليكن تبليغ پر مامور نھيں ھوتے ۔بعض تبليغ پر بھي مامور تھے ۔بعض صاحب دين اور شريعت تھے ۔ بعض انبياء مخصوص شريعت لے كر نھيں آئے تھے، بلكہ دوسرے نبي كي شريعت كي تبليغ و ترويج كرتے تھے اور ايسا بھي ھوا ھے كہ متعدد انبياء مختلف شھروں ميں تبليغ و ھدايت كے لئے مامور كئے گئے ھيں ۔
اولو العزم انبياء:
حضرت نوحعليہ السلام، حضرت ابراھيمعليہ السلام، حضرت موسيٰ عليہ السلام، حضرت عيسيٰ عليہ السلاماور محمد مصطفي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ھيں، يہ صاحب شريعت تھے اور تمام انبياء ميں سب سے افضل ھيں، ان كو اولو العزم پيغمبر (ع) بھي كھاجاتا ھے۔
بعض انبياء صاحب كتاب تھے: حضرت نوح (ع)، حضرت ابراھيم (ع)، حضرت موسيٰ عليہ السلام، حضرت عيسيٰ عليہ السلامحضرت محمد (ص)، اور باقي انبياء صاحب كتاب نھيں تھے بعض انبياء تمام لوگوں كيلئے مبعو ث كئے گئے تھے اور بعض مخصوص جمعيت و گروہ كيلئے مبعوث كئے گئے تھے ۔ 20

حضرت محمد (ص) آخري نبي ھيں
اولو العزم انبياء ميں سے ھمارے نبي حضرت محمد ابن عبد اللہ (ص) ھيں آپ كي امت مسلمان كھلاتي ھے۔ آنحضرت (ص) اس وقت مبعوث برسالت ھوئے جب گذشتہ انبياء كي كوششيں اور ان كي قربانياں اور طولاني زحمات اپنا ثمرہ دكھا رھي تھيں، لوگوں كي ديني سوجھ بوجھ اس حد تك پھنچ چكي تھي كہ چاھتے تو بھترين اور كامل ترين قوانين كو اخذ كرتے اور بلند ترين معارف كو سمجھتے نيز گذشتہ انبياء كے علمي آثار كو ھميشہ باقي ركھ سكتے تھے، اس وقت حضرت محمد مصطفي (ص) مبعوث ھوئے، اور لوگوں كے اختيار ميں ايك جامع اور مكمل دستور العمل قرار ديا ۔
اگر اسلامي قوانين اور اس كے احكام پر پابندي سے عمل كيا جائے تو انسان كي دنيوي و اخروي سعادت كو اسكے ذريعہ سے تامين كيا جا سكتا ھے اور اسي طريقے سے اس زمانہ اور آنے والي نسلوں كي خير و صلاح كے لئے كافي ھيں۔ ھر شخص كو حق حاصل ھے كہ قواعد و قوانين اور معارف اسلامي ميں تلاش و جستجو كرے اور اسلام كے قوانين كا دنيا كے اور قوانين سے تقابل كرے تو اسلام كے قوانين كي برتري اس كے اوپر روز روشن كي طرح واضح و ظاھر ھوجائے گي يھي علت ھے كہ آنحضرت (ص) آخري پيغمبر اور خاتم الانبياء ھيں اور ان كے بعد كوئي دوسرا نبي نھيں آئے گا قرآن مجيد نے آپ كو خاتم النبيين سے تعبير كيا ھے 21 حضرت محمد كے آخري نبي ھونے كا اعتقاد ركھنا، دين كي ضروريات ميں سے ھے اور اس سے انكار كرنے والا مسلمان نھيں ھے ۔

ھميشہ رھنے والا معجزہ
حضرت محمد مصطفي (ص) آپ صاحب معجزہ تھے اور اپني زندگي كے مختلف ايام ميں لوگوں كو معجزہ سے روشناس كرايا ھے اور كثرت سے حديث اور تاريخي كتابوں ميں اس كي طرف اشارہ ملتا ھے، ان سب كے علاوہ قرآن مجيد ھميشہ رھنے والا معجزہ اور آپ كي نبوت پر قطعي ثبوت ھے قرآن كريم خود اپنے كو معجزہ سے تعبير كرتا ھے اور خدالوگوں سے كھتا ھے جو ھم نے قرآن مجيد اپنے بندے (محمدمصطفي (ص) ) پر نازل كيا ھے اس پر شك كرتے ھو تو اس كے مثل ايك سورہ ھي لے آؤ ۔ 22 اورقرآن كھتا ھے اگر تمام جن و انس قرآن كا مثل لانے پر اتفاق كرليں تب بھي نھيں لا سكتے ۔ 23
اسلام كے دشمن اسلام سے ھر طريقے سے لڑنے كے لئے آمادہ ھو گئے كسي راہ كو باقي نھيں چھوڑا، اور خطرناك سے خطرناك جنگوں سے سامنا كرنے سے منھ تك نہ موڑا اور جاني و مالي بے انتھانقصان برداشت كئے ليكن قرآن سے جنگ كرنے كے لئے اصلاً آمادہ نہ ھوئے، ہاں اگر ان كے بس كا ھوتا تو قرآن كے سورہ كي طرح كسي ايك سورہ كا جواب لاكر ركھ ديتے! اگر ان كے اختيار ميں ھوتا تو اتني بڑي بڑي جنگوں كے مقابل سورہ لانے كو زيادہ ترجيح ديتے اور ہزارھازحمت و پريشاني سے سبكدوش ھوجاتے مثلِ سورہ قرآن كوئي سورہ پيش كرنے پر اصلاً قدرت ھي نھيں ركھتے تھے ۔ 24
قرآن مجيد آنحضرت (ص) كي تيئيس سال كي زندگي ميں رفتہ رفتہ نازل ھوا ھے آںحضرت (ص) كے اصحاب ِكرام ان آيات كو حفظ كرتے تھے اس كے بعد جمع آوري ھوئي اور كتاب كي صورت ميں لوگوں كے سامنے آگيا، قرآن مجيد پھلي آسماني كتاب ھے جس ميں كسي طرح كي كوئي تغيير و تحريف نھيں پائي جاتي ھے، اور بغير كسي كمي اور زيادتي كے لوگوں كے سامنے موجود ھے ۔
قرآن كتاب عمل ھے:
اگر مسلمان دارين كي سر بلندي چاھتے ھيں اور انكي چھني ھوئي شان و شوكت، جاہ و حشم واپس آجائے تو چاھيے كہ قرآن كے بيان كردہ محكم قوانين اور دستور كي پيروي و اتباع كريں ا ور اپنے تمام كاموں نيز تمام لا علاج امراض ميں قرآن سے تمسك و توسل كر كے ان اجتماعي و انفرادي مشكلوں كو حل كريں ۔

حضرت رسول خدا (ص) كے حالاتِ زندگى
آپ (ص) كے والد عبد اللہ اور ماں كا نام آمنہ تھا سترہ ربيع الاول سن ايك عام الفيل كو مكہ معظمہ ميں آپ كي ولادت با سعادت ھوئى، ستائيس رجب المرجب كو چاليس سال كي عمر ميں مبعوث برسالت ھوئے، تيرہ سال مكہ ميں رھكر لوگوں كو پوشيدہ اور ظاھري طور پر اسلام كي دعوت ديتے رھے اسي مدت ميں ايك گروہ مسلمان ھوا اور آپ پر ايمان لے آيا۔ ليكن كفار اور بت پرست افراد ھر طرف سے اسلام كي تبليغ كے لئے موانع اور ركاوٹيں كھڑي كر رھے تھے اور آںحضرت (ص) كو اذيت مسلمانوں پر سختي و عذاب سے كوئي لمحہ فرو گذاشت نھيں كرتے تھے، يہاں تك كہ آنحضرت (ص) كي جان ايك دن خطرے ميںآ گئي لہٰذا مجبور ھو كر مدينہ كي طرف ھجرت فرمائي اور آھستہ آھستہ مسلمان بھي آپ سے آملے اور مدينہ شھر سب سے پھلے اسلامي حكومت كا پائے تخت اور فوجي اڈا بن گيا ۔ آںحضرت (ص) اس مقدس شھر ميں دس سال تك احكام كي تبليغ لوگوں كي راھنمائي اور اجتماعي امور كے سنبھالنے ميں مشغول رھے اور اسلامي لشكر ھر وقت حريم اسلام كے دفاع كے لئے آمادہ رھتا ۔
ھمارے نبي (ص) ترسٹھ سال اس دار فاني ميں رہ كر اٹھائيس صفر ھجرت كے گيارھويں سال دار بقا كي طرف رحلت فرماگئے اور اسي شھر مقدس (يثرب) مدينہ ميں مدفون ھوئے ۔
آں حضرت (ص) بچپنے سے ھي با ادب سچے اور امانتدار تھے اسي وجہ سے لوگ آپ كو محمد امين (ص) كھتے تھے، اخلاقي لحاظ سے نيك، اپنے زمانہ كے لئے نمونہ تھے كبھي آپ (ص) سے جھوٹ اور خيانت ديكھي نھيں گئي كسي پر ظلم و ستم نھيں كرتے اور برے كاموں سے دورى، لوگوں كا احترام، خوش اخلاق و متواضع و بردبار تھے مجبور و بے سہاروں كے ساتھ احسان و مھرباني سے پيش آتے آپ جو كھتے اس پر عمل كرتے تھے اسي پسنديدہ اخلاق كا نتيجہ تھا كہ لوگ ھر طرف سے اسلام كے گرويدہ ھونے لگے اور آزادي و اختيار كے ساتھ اسلام قبول كرتے تھے، امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھيں: ايك فقير نے آنحضرت (ص) كے قريب آكر آپ (ص) سے سوال كيا حضرت نے ايك انصاري سے كھجور قرض لے كرسائل كو عطا كيا كافي دن گذر گئے مگر آپ اس كا قرض نہ چكا سكے پھر ايك دن طلبگار آيا اور اس نے اپني كھجور كا مطالبہ كيا حضرت نے فرمايا: ابھي ميرے پاس نھيں ھے جب ھو جائے گا تو ميں انشاء الله دے دونگا، دوسري دفعہ آيا اور پھر وھي جواب سنا، تيسري مرتبہ جب اس نے اِس جواب كو سنا تو كھنے لگا: يا رسول اللہ ! كب تك يہ كھتے رھيں گے انشاء اللہ دونگا؟ پھر وہ آں حضرت (ص) كي شان ميں گستاخي كرنے لگا حضرت اس كے نا زيبا كلمات سن كر مسكرانے لگے اور اصحاب سے فرمايا: كيا تم ميں كوئي ھے جو مجھے كھجور قرض كے طور پر دے؟ ايك شخص نے كھا: يا رسول اللہ ! ميں آپ كو دونگا فرمايا: اس مقدار ميں (خرما) كھجور اس شخص كو دے دو، طلبگار نے كھاميں تو اس كے نصف كا طلبگار ھوں حضرت (ص) نے فرمايا اس نصف كو ميں نے تجھے بخش ديا ۔25

اسلامي احكام
دين اسلام كے قوانين فقط فردي عبادت اورظائف پرمشتمل نھيں ھيں بلكہ نظام اجتماعي كو بھي اپنے دامن ميں لئے ھوئے ھے انسان كي زندگي كے ھر ايك لمحات كے لئے دين اسلام، احكام اور دستور العمل ركھتا ھے جيسے اجتماعي سياسي اور حقوقي زندگي كے مسائل، پيغمبر اكرم (ص) اور حضرت علي (ع) انھيں قوانين كو اجرا كرنے كے لئے مسلمانوں پر حكومت كي انھيں پروگرام كے نافذ ھونے كي وجہ سے صدر اسلام كے مسلمانوں نے حيرت انگيز ترقياں حاصل كيں اور محكم طاقتور حكومت كا قيام وجود ميں آيا ۔ھمارا عقيدہ ھے كہ اسلام كے احكام (دنيا كے) تمام قوانين سے افضل و اكمل ھيں ۔ اگر بطور كامل اس كو اجرا اور اجتماعات ميں اس سے استفادہ كيا جائے تو انسان سعادت و خوشبختي كے مراتب پر فائز ھو سكتا ھے، ظلم و زيادتي اپني بنياد سے ختم ھو جائے گي جنگ وجدال كي جگہ صلح و صفائي لے لے گى، اور فقر و بيكاري كا بوريہ بستر بندھ جائے گا ۔
ھمارا عقيدہ ھے، اسلام كے قوانين ناقص نھيں ھيں اور نہ ھي كسي كے كامل اور اصلاح كرنے كے محتاج ھيں، ھميں معلوم ھے كہ آنحضرت (ص) انسان كے واقعي مسائل و مصالح سے بخوبي واقف تھے اس لئے بھترين قوانين كو انسان كے اختيار ميں دئے ھيں ۔
ھم عقيدہ ركھتے ھيں، جو بھي قانون قرآن مجيد كے مخالف ھو وہ لوگوں كي مصلحت و مفاد كے لئے نھيں ھے اور نہ اس كي كوئي حقيقت ھے، ھم يہ بھي عقيدہ ركھتے ھيں، ھماري سعادت مندي كا صرف ايك ھي راستہ ھے وہ يہ كہ ھم اپني زندگي كے تمام حالات ميں دين اسلام كے احكام كي پابندي كريں ۔
ھميں اطلاع ھے اسلامي فرقوں كي زبوں حالي اسلام كي وجہ سے نھيں، بلكہ يہ تمام بد بختي كا سر چشمہ قوانين اور احكام اسلامي سے سر پيچي اور رو گرداني كا نتيجہ ھے، جب ھم نے اسلامي احكام كو پس پشت ڈال كر اپنے اجتماعي درد كا مداوا دوسروں سے مانگنے لگے يعني ھم نے اسلام كے فقط نام پر اكتفا كيا جس كے نتيجہ ميں بد بختي كے يہ سياہ بادل ھمارے اوپر منڈلانے لگے ۔
ھم اعتقاد ركھتے ھيں، اگر مسلمان چاھتے ھيں كہ اپني عزت و بزرگى، شان و شوكت مثلِ سابق واپس آجائے اور دنيا كے ترقي پزير ملكوں كي فھرست ميں ھمارا بھي شمار ھونے لگے تو ھميں چاھيے كہ ھم حقيقي اور صحيح معني ميں مسلمان بن جائيں، اور تمام اسلامي قوانين كو اپنے اوپر نافذ كريں اپنے اجتماعي پروگراموں ميں احكام قرآن كو حاكم قرار ديں جب تك قانون اسلام صفحہ قرطاس پر جملہٴ مركبہ كي صورت ميں رھے گا اور اس پر كوئي عمل در آمد نہ ھوگا تو ھميں ترقي اور عظمت كے لئے سوچنا اپنے كو خواب غفلت ميں ڈالنے كے مترادف ھوگا ۔

________________________________________

18. آيت ۱۱۵< اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاكُم عَبَثًا وَ اَنكُّم اِلَينَا لَا تُرجَعُونَ > كيا تم يہ گمان كرتے ھو كہ ھم نے تم كو بے كار پيدا كيا ھے اور تم ھمارے حضور ميں لوٹا كر نھيں لائے جاؤگے ۔
19. بحار الانوار، ج۱۱، ص ۳۰ ۔
20. بحار الانوار، ج۱ ص۶۱ ۔
21. احزاب (۳۳) آيت ۴۰ ۔
22. بقرہ (۲) آيت ۲۳ ۔
23. اسراء (۱۷) آيت ۸۸ ۔
24. مزيد تحقيق كے لئے تفسير و كلام اور تاريخ و حديث كي كتابوں كي طرف رجوع كريں اس لئے كہ اس كتاب ميں اختضار مد نظر ھے ۔
25. غاية المرام سيد ہاشم بحراني اثباة الھداة ۔ محمد بن حسن حر عاملي ۔ بحار الانوار علامہ مجلسي ۔ ينابيع المودة سليمان حنفي شافعي ۔ صحيح ابي داؤ د۔ مسند احمد ۔ اور ديگر تمام حديث كي كتابوں ميں مذكور ھے ۔