كتاب:سبھي كے جاننے كي باتيں
مؤلف:ابراھيم امينى

ديباچہ
بسم اللہ الرحمن الرحيم؛
ھم آپ سے سوال كريں گے كہ كيا اس دنيا كا پيدا كرنے والا كوئي ھے؟ يا يہ دنيا خود بخود وجود ميں آ گئي ھے اگر خدا ھے تو اس كے صفات اور اس كے يہ كام كيسے ھيں؟ كيا خدا نے ھمارے لئے دنيا ميں رھنے كے طريقے اور قانون و احكام وضع كئے ھيں كہ ھم اس كے مطابق عمل كريں يا نھيں؟ كيا خدا كے بھيجے ھوئے انبياء اپنے وعدے اور دعوے ميں سچے تھے يا نھيں؟ كيا اس دنيا كے بعد كوئي دنيا موجود ھے يا نھيں؟ يعني كيا انسان اپنے كئے ھوئے كاموں كي جزايا سزا پائے گا؟
انسان كي عقل ھميشہ اور ھر وقت ان سوالات كے جواب كي تلاش ميں رھتي ھے،اگر يہ سوالات واضح اور حل ھوجائيں تو اس كے ضمن ميں سيكڑوں سوالات سے خود بخود نجات مل جائے گى، انسان كي عقل اچھے اور برے، غلط اور صحيح، حق اور باطل كے درميان فيصلہ كرنے پر قادر ھے اور جب تك ان سوالات كو حل نہ كرلے، اس وقت تك اپني جگہ پر آرام و اطمينان سے نھيں بيٹھ سكتى، لہٰذا ان كا حل دل و دماغ كے لئے سكون كا باعث ھے ۔
اس طرح كے موضوعات اور سوالات كو اصول دين كھتے ھيں، اصول دين ان چيزوں كو كھاجاتا ھے جس كا تعلق انسان كي روح اورعقل و فكر سے ھوتا ھے، اور اس ميں عقلي دليلوں ھي كافقط گذر ھوتا ھے، اور تا حد نظر ثابت ھونے كے بعد اس كے اثرات اور اعمال انسان كے اعضا و جوارح سے رونما ھونا شروع ھوجاتے ھيں۔ اصول دين ميں تقليد كرنا صحيح نھيں ھے بلكہ ھر بالغ وعاقل كے لئے ضروري ھے كہ ان چيزوں كو دليلوں كے ذريعہ حاصل كرے، اگر انسان نے اپنے عقائد كو اساسي اور بنيادي دليلوں كے ذريعہ حاصل كيا ھے تو اس كا دل اور اس كي عقل مطمئن ھوجائے گي اور اندروني حيراني و سرگرداني اور پريشاني سے نجات پاجائے گا، اس وقت انسان اپني من پسند زندگي بسر كرسكتاھے ۔
بچے اور نوجوان صغر سني اور نوجواني كے ايام ھي تہذيب و تربيت كے لئے بھترين دن ھوتے ھيں، ان دنوں ميں بچوں اور نوجوانوں كے دل و دماغ اور غلط افكارسے پاك و صاف رھتے ھيں يعني ان كي ذھنيت كثافتوں سے محفوظ مثل كيمرہ كي فلم كے ھوتي ھے كہ جيسي چاھيں تصويريں اتار ليں ۔
اگر ان بچوں كي تعليم و تربيت صحيح ڈھنگ اور عقائد كو دليل و برہان كے ذريعہ بتائي جائيں تو ان كي عقل و روح ميں وہ بات راسخ ھو جائے گى، اور ان كے بدن كا جزء لا ينفك ھو جائے گا، پس ايسے افراد جہاں كھيں بھي رھيں اور جيسے افراد كے ساتھ رھيں اٹھيں بيٹھيں معاشرت كريں، ھرگز گمراہ نھيں ھو نگے لہذا اگر ايسے افراد غير مہذب معاشرہ اور سوسائٹي ميں پروان چڑھيں تو بھي اس ماحول ميں ڈھل نھيں سكتے، بلكہ يہ چاھيں تو پورے سماج و معاشرہ كو اپنے رنگ ميں ڈھال ديں ۔
ليكن افسوس اس بات كا ھے كہ ھمارا معاشرہ صحيح تربيت و تعليم سے محروم ھے كيونكہ انھوں نے اپنے والدين سے بھي عقائد كو اسي طريقے سے حاصل كيا ھے لہذا اس كے مطابق اپنے بچوں كو بغير دليل و برہان كے عقائد كي تعليم ديتے ھيں، لہذا ان كا عقيدہ محكم و مستحكم نھيں ھوپاتا، دوسرے ايسے بعض خرافاتي اور بے بنياد مسائل كو دين اسلام كا جز اور عقائد كي مھم كڑي كے عنوان سے فكر كرتے ھيں اور انھيں باطل عقيدوں كے ساتھ پرائمري پھر ہائي اسكول اور انٹر كالج اور اس كے بعد يونيورسٹي ميں تعليم كے لئے جاتے ھيں اور يہاں پروہ مختلف افراد، متفرق عقائد كے لوگوں سے سروكار ركھتے ھيں، چونكہ ان كے عقيدہ كي بنياد مضبوط نھيں ھوتي اور خرافاتي چيزوں كو مذھب كا ركن سمجھتے ھيں اس لئے مختصر سے ھي اعتراضات اور شبہات ميں پريشان و متحير ھوجاتے ھيں، علمي معيار و عقائدي معلومات كي كمي كي وجہ سے حق و باطل، اچھے اور برے، غلط و صحيح ميں تميز دے نھيں پاتے جس كے نتيجہ ميں اصل دين اور روح اسلام سے بد ظن ھو جاتے ھيں، حيران و سرگردان زندگي بسر كرتے ھيں، يا كلي طور پر اسلام سے منھ موڑ ليتے ھيں، يا كم از كم ان كے اخلاق و رفتار اور اعمال پر اتنا گھرا اثر پڑتا ھے كہ اب ان كے اعمال كي پھلي كيفيت باقي نھيں رھتي ھے اور احكام و عقائد سے لاپروا ھو جاتے ھيں ۔
اس طرح كي غلط تربيت اور اس كے اثر كو آپ معاشرے ميں بخوبي مشاھدہ كر سكتے ھيں اور كوئي ايسا نظر نھيں آتا جو ان بے چاروں كو ذلت و گمراھي كے اندھيرے سے نكالنے كي فكر كرے ۔

ھماري ذمہ دارى
عقيدہ كي كمزورى، اور بے دينى، آنے والي نسلوں كو ايك بڑے خطرے سے دوچار ھونے كي دھمكي دي ھي ھے، سماج كا ھر فرد اور خصوصا دين كے ليڈران، مولوى، ذاكرين، والدين، مربى، استاد، مصنفين و موٴلفين اور مالدار يہاں تك كہ سبھي حضرات اس عظيم فاجعہ اور بڑي مصيبت كے ذمہ دار ھيں ۔
ھميں چاھيے كہ ايك منظم اور صحيح پروگرام كے تحت عقائد و اخلاق كي تعليم، دليلوں كے ذريعہ سيدھے سادے افراد اور بچوں كے ذھن نشين كرائيں اور بے بنياد، غلط ماحول اور رسم و رسومات كے خرافاتي عقائد كي بيخ كني اور جڑ سے اكھاڑ پھينكنے كے لئے ھر ممكن كوشش كريں، ان كے لئے آسان اور علمي كتابيں فراھم كريں، لائبريري بنائيں اور كم قيمت يا بغير قيمت كے كتابيں ان كے اختيار ميں قرار ديں، ھر ممكن طريقہ سے پڑھنے لكھنے كي طرف شوق و رغبت دلائيں ۔
سر دست يہ كتاب حاضر جوانوں اور نوجوانوں كي ديني معلومات ميں اضافہ كےلئے ترتيب دي گئي ھے، اور اس كے لكھنے ميں مندرجہ ذيل نكات كي طرف بھر پور توجہ ركھي گئي ھے ۔
۔ كتاب كے مطالب دليل و برہان كي روشني ميں نہايت سادہ اور آسان انداز ميں بيان كئے گئے ھيں اور عقلي و عقائدي مطالب كے لئے عقلي دليلوں كا ھي سہارا ليا گيا ھے اور جو چيزيں تقليدي اور ضرورياتِ اسلام سے ھيں جيسے فروع دين وغيرہ تو ان ميں آيات اور روايات كو مد نظر ركھا گيا ھے اور ضروري مقامات پر حوالے كو حاشيہ ميں لكھ ديا گيا ھے، اور بعض جگھوں پر اختصار كے سبب حوالے سے دوري اختيار كي گئي ھے ۔
۔ رسول خدا (ص) اور آئمہ طاھرين عليھم السلام كي ولادت اور وفات كي تاريخوں ميں چونكہ اختلاف پايا جاتا ھے اس لئے اختصار كے طور پر فقط ايك قول كو منتخب كيا گيا ھے اور باقي اقوال سے چشم پوشي كي گئي ھے ۔
۔ موٴلفين كو چاھيے كہ اپنے علمي مطالب كو آسان اور سادہ انداز ميں بيان كريں تاكہ زيادہ سے زيادہ افراد استفادہ كر سكيں اور حتيٰ المقدور لكھنے ميں اصولي و فلسفي اصطلاحوں سے گريز كيا جائے تاكہ كتاب لوگوں كو تھكانے اور مغز ماري كا سبب نہ بنے ۔
۔ مشكوك و مخدوش، بے فائدہ اور ضعيف مطالب سے اجتناب كيا گيا ھے ۔
۔ اس كتاب ميں ان مھم مطالب كي طرف اشارہ كيا گيا ھے جس كا جاننا ھر مسلمان پر واجب ھے اور دين اسلام كے مفھوم كو خلاصہ كے طور پر پيش كيا گيا ھے، تاكہ قارئين دلچسپي كے ساتھ پڑھيں اور پھر تفصيلي كتابوں كي طرف مائل ھوں۔ قارئين كرام اس مختصر سي كتاب ميں فروع دين اور عقائد و اخلاق كے تمام مسائل كو بيان نھيں كيا گيا ھے بلكہ نہايت اختصار ملحوظ خاطر تھا تاكہ آپ حضرات دوسري تفصيلي كتابوں كي طرف رجوع كريں ۔
موجودہ كتاب كو تين حصوں ميں تقسيم كيا گيا ھے
پھلا حصہ، عقائد:
يعني ايسے مطالب كو شامل ھے جو انسان كي عقل و فكر اور اعتقاد سے مربوط ھيں اور اصلاً اس ميں كسي كي تقليد و پيروي كرنا جائز نھيں ھے، بلكہ ان كو فقط عقلي دليلوں سے ھي حل كيا جا سكتا ھے ۔
دوسرا حصہ، اخلاق:
اس ميں وہ چيزيں بيان ھوئي ھيں جو انسان كي باطني حالت اور خواھشات سے تعلق ركھتي ھيں، اس كے راہ حل اور سيدھے راستے كي طرف راھنمائي كرتي ھيں ۔
تيسرا حصہ، فروع دين:
يعني احكام و قوانين جو انسان كے اعضا و جوارح سے تعلق ركھتے ھيں، كہ ان پر عمل كرنا ضروري و واجب ھے ۔
آخر ميں ھم قارئين كي خدمت ميں عرض كرتے ھيں كہ كوئي اچھي تجويز ھو يا كوئي كمي نظر آئے تو موٴلف كي خدمت ميں پيش كريں، تاكہ دوسرے اڈيشن ميں اس كي اصلاح كي جا سكے ۔

قم ۔ حوزہ علميہ ۔ابراھيم امينى
خرداد ۱۳۴۹/1970