پیغمبر اسلام ۖکے عہدے
اب دیکھنا یہ ہے کہ مندرجہ بالا سو شل سماجی عہدوں میں سے کو نساعہدہ پیغمبر اسلام ۖ کے بارے میں صادق آتاہے ۔ اکثر آیات سے یہ استفادہ ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام ۖمذکورہ بالا تمام منصبوں پر فائز تھے ۔ وحی کی
تفسیر کرنے میں آپکا کلام حجت تھا ، آپ کی قضاوت و داوری بھی حجت تھی، آپ لوگوں پر حکو مت بھی کرتے تھے اورآپ کے تمام حکومتی احکام کی اطاعت لوگوں پرواجب تھی۔
١۔وحی کی تفسیر کا منصب
خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :
( مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللَّہَ ۔۔۔)(١)
''جس نے رسول کی اطاعت کی تواس نے اﷲکی اطاعت کی ۔۔۔''۔
اس آیت میںلفظ''الرسول''میں ''ال''عہد ہے جنس نہیں ہے اور ''رسول'' سے مراد بھی پیغمبر اسلام ہیں: البتہ اگر ''ال''معنای جنس کے لئے بھی ہو تو بھی استدلال میں کوئی خلل نہیں پڑے گا چونکہ پیغمبر اسلام ہر حال میں اس کے مطلب میں شامل ہوںگے ۔
بہر حال آیت میں بیان کیاگیاہے کہ پیغمبر اسلام ۖ(یاتمام انبیاء علیہم السلام)کی اطاعت کرنا خداکی اطاعت کرناہے اور آیت کے اطلاق سے یہ پتہ چلتاہے کہ وحی کی تفسیر کرنے میں بھی پیغمبر اسلام ۖحجت ہیں اور آپ کی اتباع کرنا واجب ہے یہی معنی سورئہ نساء آیت٦٤سے بھی حاصل ہوتے ہیں :
(وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّالِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللَّہِ۔۔۔)
''اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجامگر اسلئے کہ خداکے حکم سے لوگ اسکی اطاعت کریں۔۔۔''۔
یہ آیت بالعموم پیغمبر اسلام ۖکو بھی شامل ہوتی ہے اور مطلق اطاعت ،اوروحی کی تفسیر کی اطاعت کرنے کو بھی شامل ہے ۔اس بناء پر ان آیات کے مطلق ہونے سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ پہلا منصب (یعنی وحی کی تفسیر کرنا اور اس کو بیان کرنا)پیغمبر اسلام ۖکے لئے ثابت ہے ۔
مندرجہ بالاآیات کے علاوہ دوسری آیات بھی ہیںجواس مدعا کوصاف طریقہ سے ثابت کرتی ہیں ۔مثال
کے طور پر خداوندعالم ارشاد فرماتاہے:(۔۔۔وَاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْہِمْ۔۔۔)(٢)
''۔۔۔اور ہم نے تمہاری طرف قرآن نازل کیا تاکہ جو احکام لوگوں کے لئے نازل کئے گئے ہیں تم ان کو صاف صاف بیان کرو ''۔
..............
١۔سورئہ نساء آیت ٨٠۔
٢۔سورئہ نحل آیت٤٤۔
اور ظاہر ہے کہ وحی بیان کرنے کامقام اس کے اصل متن کو پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور خداوندعالم ارشاد فرماتاہے:
(۔۔۔یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ۔۔۔)(١)
''۔۔۔جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھے اور ان کو پاک کرے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے ۔۔۔''
یہ آیت پیغمبر اسلام ۖ کے بارے میں ہے اور آیات کی تلاوت اور کتاب کی تعلیم دینے کے درمیان فرق رکھا گیا ہے اور اسکاظاہری مطلب یہ ہے کہ دوسرے منصب سے تفسیر وحی کامنصب ہی مراد ہے ۔
اس اعتبار سے قرآن کریم کی آیات اس بات کی شاہد ہیں کہ وحی الٰہی کی تفسیر اور دینی قوانین اور احکام کی تفصیل بیان کرنے میں پیغمبر اسلام ۖکا کلام سب کے لئے حجت ہے اور اس بارے میں بھی لوگوں کو ان کے کلام کی پیروی کرنا چاہیے ۔
ب۔پیغمبر اسلام ۖ اور قضاوت کاعہدہ
دوسرا منصب مسئلہ قضاوت(فیصلہ کرنے)سے مربوط تھا۔قرآن کریم کی بعض آیات کی شہادت کی رو سے پیغمبر اکرم ۖ کیلئے یہ منصب بھی ثابت ہے:
(وَاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مَصَدِّقاًلِّمَابَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُھَیْمِناًعَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللََّہُ وَلَاتَتَّبِعْ اَھْوَٰائَ ھُمْ عَمَّاجَائَ کْ مِنَ الْحَقِّ۔۔۔)(٢)
''اور ہم نے تم پر یہ کتاب (قرآن )بر حق نازل کی جو کتاب(اس کے پہلے سے )اس کے وقت میں موجود ہے اسکی تصدیق کرتی ہے اور ان پر حاکم ہے ۔پس ان کے درمیان جو کچھ خدا نے تم پر نازل کیا ہے اسکے مطابق تم بھی حکم دو اور حق بات جو خدا کی طرف سے آچکی ہے (اس سے کترا کے) خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو ۔۔۔''۔
اس آیت کی بنیاد پر ایک طرف تو قرآن کریم اپنی ما سبق آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور دوسری طرف ان پر حاکم بھی ہے یعنی ان کے احکام کو منسوخ کردیتا ہے اس کے بعد قرآن کریم میں فرماتاہے:اب جبکہ ہم نے تم پریہ کتاب نازل کردی ہے تو لوگوں کے درمیان احکام الٰہی کی اساس و بنیاد پر فیصلہ کرو۔یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرم ۖخداوندعالم کی جانب سے منصب قضاوت پر بھی فائز تھے ۔خاص طور سے یہ کہ
..............
١۔ سورئہ جمعہ آیت٢۔
٢۔سورئہ مائدہ آیت٤٨۔
خداوند عالم اسکے بعد بلافاصلہ یہ فرماتاہے : اے پیغمبر لوگوں کی ناحق خواہشات نفسانی اور ہوا و ہو س کی اتباع کرکے قضاوت نہ کرنا''یہ تعبیر اس چیز کی حکایت کرتی ہے کہ قضاوت کا حکم ایسا نا زک مر حلہ ہے کہ اس میں خواہشات نفسانی اور شیطانی ہواو ہوس کی بنا پر لغزشوںکا زیادہ امکان پایاجاتا ہے ۔
البتّہ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام ۖبھی گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی طرح ہر گناہ سے معصوم تھے لیکن قرآن کریم کی یہ تعبیر اور اس کے مانند دو سری تعبیریں جن میں پیغمبر اکرم ۖ کو مخاطب قرار دیا گیاہے یہ پیغمبر کے بجا ئے تمام انسانوں کی تربیت کے لئے ہیںاور عام طور پر خطر ناک اور اہم لغزشوں کی پہچان کرانے کے با رے میں استعمال کی گئی ہیں تاکہ لوگ پہلے سے ہی ان سے بچنے کے لئے آما دہ ہو جا ئیں ۔بہر حال مذکورہ آیت (فَاحْکُمْ بَیْنَھَمُ۔۔۔)کی تعبیر کے مد نظر پیغمبر اسلام ۖ کے منصب قضاوت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور دوسری آیت میں اس طرح ہے
(اِنَّااَنْزَلْنَااِلَیْکَ الکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَااَرَاکَ اﷲ ُ وَلَاتَکُنْ لِلْخَآئِنِینَ خَصِیْمَاً)(١)
''ہم نے تم پر بر حق کتا ب اسلئے نازل کی ہے کہ جس طرح خدانے تمہاری ہدایت کی ہے اسی طرح لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ہر گز خیانت کرنے والوں کے طرفدار نہ بنو''۔
یہ آیت بھی (لاتَکُن لِلْخائنین خصیما)جملہ کے مدنظر صاف طورپرپیغمبر کے منصب قضاوت پر فائز ہونے اور عدالت کے ساتھ فیصلہ کرنے پر دلالت کرتی ہے ۔اسی طرح سورئہ مبارکہ احزاب میںخداوندعالم ارشاد فرماتاہے :
(وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَامُؤْمِنَةٍ اِذَاقَضَیَ اللَّہُ وَرَسُوْلُہُ اَمْراًاَنْ یَکُونَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْضَلَّ ضَلَٰلاً مُّبِیْناً)(٢)
'' کسی مومن اور کسی مومنہ کے لئے یہ مناسب نہیںہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کا م (کے کرنے نہ کرنے )کا اختیار ہواور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ شخص کھلم کھلا گمراہی سے دوچار ہوچکا ہے ''۔
اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خداو رسول ۖ اگر کسی چیز کا فیصلہ کردیں یا کسی کام سے منع کر دیں توکسی
..............
١۔سورئہ نساء آیت١٠٥۔
٢۔سورئہ احزاب آیت٣٦۔
کو اس کی مخالفت کرنے کا حق نہیں ہے ۔(قضیٰ)کی تعبیر اگر چہ قضاوت اور مشاجرہ کے دور کرنے میں منحصر نہ بھی ہو تب بھی یقینا اس کوشامل ہو گی۔
قرآن کریم کے سورئہ نساء کی آیت پیغمبر اکرم ۖکے منصب قضاوت پر فائز ہونے پرصاف طور سے دلالت کرتی ہے :
(فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَبَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُ وْافِیْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجاًمِمَّاقَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً)(١)
''لیکن ایسانہیں ہے،تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ کو اپنے باہمی جھگڑوں میں اپنا حاکم (نہ)بنائیں،اور پھر جب آپ فیصلہ کر دیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریںاور آپ کے فیصلہ کے سا منے سراپا تسلیم ہو جا ئیں ''۔
آیت صاف دلالت کررہی ہے کہ اس وقت تک لوگ حقیقی ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم کو اپنے اختلافات اورلڑائی جھگڑوں میں اپنا حَکَم(قاضی) قرارنہ دیں اور اسکے بعد آپ جو بھی حکم صادر فرمائیں اسکو تسلیم کریں۔لوگوں کے مومن ہونے کے لئے صاف طور سے یہ شرط لگانااس چیز کی حکایت ہے کہ خداوند عالم نے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے پیغمبر اکرم ۖ کو منصب قضاوت عطا کیا ہے ۔
ما ل غنیمت سے مربوط بعض آیات سے بھی پیغمبر اکرم ۖکے لئے منصب قضاوت ثابت کیا جاسکتا ہے۔نمونہ کے طور پر سورئہ حشرمیں مال غنیمت تقسیم کرنے کے طریقوں کو بیان کرنے کے بعد مسلمانوں سے یہ کہاگیا ہے کہ مال غنیمت کو تقسیم کرنے اور حصے معین کرنے میں پیغمبر اسلا م ۖ کے مشورہ کی عزت و توقیر کریں اور ان کے حکم کی پیروی کریں :
(۔۔۔وَمَآئَ آتَٰکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَانَہَٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۔۔۔)(٢)
''۔۔۔اور جوکچھ رسول تم کو دیں اس کولے لو اور جس سے منع کریں اس سے ہاتھ کھینچ لو ۔۔۔''۔
البتّہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت (غنائم جنگی)سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ''ما اٰتاکم''میں حرف''ما''شرعی امور اور احکام و قوانین کو بھی شامل ہوتاہے یعنی جس چیز کا بھی پیغمبر ۖحکم دیں اس کو انجام دو اور جس چیز سے منع کریں اسکو چھوڑدو لیکن آیت سے پہلے اور آیت کے بعد والے قرینوں کے مد نظر آیت کے پہلے معنی ہی مناسب
..............
١۔سورئہ نسا ء آیت٦٥۔
٢۔سورئہ حشر آیت٧۔
ہیں ۔یعنی مال غنیمت میں سے جو کچھ رسول ۖ تم کو تمہا رے حصّہ کے طور پر تم کودیںتو لے لو اور اگر عملاًیا زبا نی طور پر منع کریںتو اس کو چھوڑدو ۔
بہر حال اس آیت سے یہ پتہ چلتاہے کہ مسلمانوں کے درمیان مال غنیمت تقسیم کرنے میں آپ کے حکم کا اتبا ع کرنا لازم و ضروری ہے۔
٣۔پیغمبر اسلام ۖ کا منصب حکومت
قرآن کریم کی بعض آیات پیغمبر اسلام ۖ کی حکومت اورولایت کے منصب کوبیان کرتی ہیں۔مثال کے طور پر قرآن کریم سورئہ مبارکہ احزاب میں پیغمبر اسلام ۖ کے مومنوںکے ساتھ قریبی اور گہرے رابطہ کے بارے میں فرماتاہے :
(اَلْنَّبِیُّ اَوْلَیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَْنْفُُسِہِمْ۔۔۔۔)(١)
''نبی تو مومنین پر خود ان کی جانوں سے بڑھکر حق رکھتے ہیں ۔۔۔''۔
اس آیت سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کایہ ایک ایساعہدہ اور منصب ہے کہ آپ کا فیصلہ یاتجویز دوسروں کے فیصلوں اور تجویزوں حتی کہ ان کی ذات کے او پر بھی مقدّم ہے اور یہ وہی منزلت ہے جس کو ''ولایت امر '' سے تعبیر کیاجاتاہے ۔
اس کے علاوہ جس آیت کے ذریعہ حکومتی امور میں پیغمبر اکرم ۖکی اطاعت کرنا لازم ہے وہ سورئہ مبارکہ نساء میں ہے :
(یٰااَیُّھَاالَّذِیْنَ ئَ امَنُوْااَطِیْعُوْااللَّہَ وَاَطیِعُوْاالرَّسُوْلَ وَأُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ۔۔۔)(٢)
''اے ایمان لانے والواﷲکی اطاعت کرو اور رسول اور اولی الامرکی (بھی)اطاعت کرو '' ۔
اس آیت میں لفظ ''اَطِیْعُوْا'کی دو مرتبہ تکرار میںایک بار خداکی اطاعت اور دوسری مرتبہ پیغمبر اور صاحبان امر کی اطاعت کیلئے ہے اوردوسری طرف یہ ظاہرہے کہ'' اُولواالامر''اسے کہتے ہیں جو حکومتی معاملوں میں دخا لت کرسکتا ہو اور بنیادی طور پر''اُولو االامر '' ''رسول''ۖکے ساتھ میں آیاہے اوردونوں کو ایک ہی ''اطیعوا'' سے مخاطب کیا گیاہے یعنی یہاںپیغمبر کی اطاعت سے مراد وہ امورہیں جن میں عام طور سے میں ''اولوا الامر''کی
..............
١۔سورئہ احزاب آیت٦۔
٢۔سورئہ نساء آیت٥٩۔
طرف رجوع کیا جاتاہے یعنی جو امور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں ۔
ا لبتّہ آیت کا بعد والاحصّہ (فَاِنْ تَنَٰزَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللَّہِ وَالرَّسُوْلِ۔۔۔)
''اور اگر تم کسی بات میں جھگڑاکرو تو اس امر میں خدا اور رسول کی طرف رجوع کرو ۔۔۔'' بھی اسی مطلب کے صحیح ہونے پر شاہد ہے اور اس کی تائید بھی کرتا ہے۔کہ اس آیت میں اطاعت کا مطلب، وحی کے مضامین کو قبول کرنا یاتفسیر وحی کے مقام میں پیغمبرکے کلام پر عمل کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہاں پر پیغمبر ۖکی اطاعت سے مراد آپ کی حکومت کے احکام و قوانین ہیں اس وجہ سے آنحضرت ۖ اور ''اولواالامر''کی شان ایک ہے ۔
اس مختصر سی بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن کریم پیغمبر اکرم ۖکے لئے منصب تبیین و تفسیروحی،قضاوت اور حکومت کی تائید کرتا ہے ۔
معصوم اماموں کے منصب
شیعہ حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ نبوت اور رسالت کے علاوہ پیغمبر ۖ کے تمام منصب بارہ معصوم اماموں کے لئے بھی ثابت ہیں اور یہ عقیدہ شیعہ مذہب کے ضروری عقائدمیں شمار ہوتاہے اور اس مدعاکوسورئہ نسا کی اسی انسٹھویں آیت سے ثابت کیا جاسکتا ہے ۔
مذکورہ آیت کا مد لول مطابقی ''اولوالامر''(صاحبان امر)کے لئے حکومت اور ولایت کا منصب ثابت کرناہے ۔جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ اس آیت کے ظاہرکے مطابق صاحبان امر کی اطاعت کی ضرورت مملکت کے اندر اس طرح ہے کہ وہ اس میں حق د خالت رکھتے ہیں یعنی حکومتی معاملات کے اعتبار سے اور ''اولواالامر''کا عنوان بھی اساسی اور بنیادی طورپر اسی معنی سے مناسبت رکھتاہے اس بناء پر صاحبان امر من جانب اﷲمنصب ولایت و حکو مت پر فائز ہیں اور حکومتی معا ملات میں ان کی اطاعت کرنا واجب ہے
دوسری طرف اسلام میں قضاوت کا منصب حکومت کی فرعوںمیں سے ایک فرع ہے۔پیغمبر اکرم ۖجو لوگوں پر ولایت کے منصب پر فائز تھے آپ قضاوت کے معا ملات بھی انجام دیتے تھے اور آپ قاضیوں کو اس منصب پر تقررکرنے کا حق بھی رکھتے تھے ۔
اصولی طور پر اسلام میں قا بل اعتماد قاضی کا انتخاب اور تقرراسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ اس آیت کے مطابق صاحبان امر کے لئے حکومت کامنصب ثابت ہے تو قضاوت کا منصب بھی جو اسی کی ایک فرع ہے وہ بھی اسی کے ضمن میںان کے لئے ثابت ہوجاتاہے ۔
صاحبان امر کے منصب قضاوت کے مد نظران کا تیسرا منصب یعنی قرآن کریم کی آیات کی تفسیرمیں بھی ان کے کلام کا معتبر ہونا ثابت ہوجاتاہے۔جو شخص من جانب اﷲمسندقضاوت پر جلوہ افروزہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وحی کے تمام مطالب کو صحیح طریقہ سے سمجھ سکتا ہواور معاشرے اور اسلامی قضاوت سے مربوط قوانین( جن کو قرآن میں تفصیلی طور پر بیان نہ کیا گیا ہے) ان کی صحیح معرفت رکھتاہو۔ اس بناء پر قرآن کریم کی آیات اور پیغمبر اسلام کی سنّت سے ایساشخص امت کے لئے معتبراور حجت ہوگا۔
اس وجہ سے اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صاحبان امر من جانب اﷲمنصب حکومت پربھی فائز ہیں اور منصب قضاوت پر بھی اور نیز تفسیر وحی اورسنّت نبوی میں بھی ان کی رائے معتبر ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صاحبان امر کون لوگ ہیں ؟
ہم گذشتہ بحثوں میں یہ اشارہ کرچکے ہیں کہ شیعہ اور سنّی حضرات کی تائیدشدہ روایات کے مطابق صاحبان امر وہی بارہ امام علیہم السلام ہیں ۔اہل سنّت سے نقل ہواہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بعض اصحاب(منجملہ جابربن عبداﷲانصاری )نے پیغمبر اکرم ۖسے سوال کیاکہ خدااور رسول ۖکی اطاعت کرنے کا مطلب تو سمجھ گئے لیکن یہ فرمائیے کہ اولواالامر سے مراد کون ہیں؟اسی مقام پر پیغمبر اکرم ۖ نے بارہ اماموں کے نا موں کے ساتھ اولواالامر کے عنوان سے انھیںمعین فرمادیا۔
البتّہ اگر پیغمبر ۖ اور اولواالامر بذات خود کسی شخص کو معین کردیں تو خداوندعالم کی اطاعت کی بنا پر اس کی اطاعت کرنابھی واجب ہوگی۔جس طرح پیغمبر اکرم ۖ جب بھی کو ئی لشکر اسلام روانہ کر تے تھے تو کسی فوجی افسر کو معین فرماتے تھے توامت پر اس کی اطاعت کرنا واجب ہوجاتی تھی اسی بنیاد پر آپ نے اسامہ کے بارے میں فرمایا :''لَعَنَ اﷲ ُمَنْ تَخَلَّفَ عَنْ جَیْشِ اُسٰامَة ''
''جس نے بھی اسامہ کے حکم سے سرپیچی کی اس پر خداکی لعنت ہے ''اس لئے کہ اسامہ کی اطاعت رسول خدا کی اطاعت کی بنا پر واجب قراردی گئی تھی پس جو بھی پیغمبر ۖیااولواالامر کی جانب سے منصوب ہواس کی اطاعت کرنا واجب ہے ۔ولایت فقیہ کی دلیل بھی اسی سے حا صل ہوتی ہے۔ معصوم امام جو صاحبان امر ہیں انھوں نے غیبت کے زمانہ میں جامع الشرائط فقہاء کو اپنا نائب قرار دیا ہے اور مسلمانوں پر ان کی اطاعت واجب کی ہے اور حتیٰ کہ انھوں نے فرمایا ہے کہ ان (فقہائ)کے قول کو رد کرنا ہمارے قول کو رد کرناہے اور جس نے ہمارے قول کو رد کیا وہ مشرک ہے۔پس اسی بنیا دپر ولی فقیہ کی اطاعت کرنا واجب ہے ۔
یہ مطلب بیان کردینا بھی مناسب ہے کہ اس آیت سے اصل ولایت فقیہ کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔یہ حق بات ہے کہ ہم پہلی ہی نظر میں اولواالامرکے مصادیق کو نہیں پہچان سکتے لہٰذا ہمیں اولواالامر کو مشخّص و معین کرنے کے لئے وحی کے مفسر یعنی پیغمبر اکرم ۖکے دامن سے متمسّک ہوناچاہئے جیسا کہ متعدد روا یات کی بنیاد پر آنحضرت ۖ نے معصوم اماموں کا اولواالامر کے عنوان سے تعارف کرایاہے اور ائمہ علیہم السلام نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے۔ حضرت امام محمد باقراور امام صادق کے زمانہ میں بنی امّیہ اور بنی عباس کے درباری علماء ان کی غاصبانہ حکومت کو ثابت کرنے اور اس کی شرعی حیثیت ثابت کرنے کے لئے اسی آیت سے استدلال کیا کرتے تھے ۔جیسا کہ آج بھی بعض مسلم حکمراںاپنی حکو مت کو قا نونی اور شرعی ثابت کر نے کے لئے اسی آیت کا سہا را لیتے ہیں ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے اصحاب کو اسی طرح کے اشخاص سے بحث کرنے کی تعلیم دی تھی۔ اسی تعلیم کی اساس و بنیاد پر اس طرح کے باطل دعوئوں کے جواب میں یہ کہنا چاہئے :کہ جس طرح نماز،زکاة،حج وغیرہ ۔۔۔سے متعلق آیات کے نازل ہونے کے بعد ان آیات کے معانی کو سمجھنے ،ان عبادات کے انجام دینے کے طریقہ کو سمجھنے اور ہر ایک عبادت کے خصوصیات کو جاننے کے لئے پیغمبر اسلام ۖ سے رجوع کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔اسی طرح آیۂ اولواالامر کے بارے میں بھی تمہارا وظیفہ و فریضہ یہ ہے کہ تم رسول خداۖسے رجوع کرو۔جس فعل کو آنحضرت ۖکے چند اصحاب نے عمل کیااور آپ سے سوال کیااورآپ نے بھی ان کے جواب میں اولواالامر کے مصادیق کی تعیین فرمائی اور جہاں وحی کی تفسیر کرنے میںپیغمبر اکرم ۖ کا فر مان حجت ہے، آپ نے اولواالامر کے مصداق کو بارہ معصوم اماموں میں منحصر فرمادیا ہے اور اولواالامر سے خداوندعالم کی مراد بھی وہی بارہ معصوم امام ہیں لہٰذاتمام مسلمانوں پر ان کی اطاعت و پیروی کرنا واجب ہے۔
اس بناء پر آیۂ اولواالامر براہ راست ولایت فقیہ پر دلالت نہیں کرتی اگر چہ یہ اصل اپنی جگہ معتبرہے اور فقہا کا ائمہ کی طرف سے منصوب ہونا ثابت ہے۔اگر غیر معصو م کو بھی اولواالامر قرار دیا جائے( جیسا کہ اہل سنّت نے
پہلے ایساکیا ) تو اس سے سوء استفادہ کا راستہ صاف ہوجائیگا اور ممکن ہے کہ اس سے اصل ولایت فقیہ کے متعلق بھی خدشہ ہونے لگے۔اولواالامر کے معنی میںتوسیع ہوجانے کے بعدیہ امکان ہے کہ کوئی یہ کہے کہ فقیہ کو مسلمانوں کا ولی فقیہ ہوناچاہئے اس مطلب پر ہمارے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ یہ لازم ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے آشناہو اگرچہ یہ تقلید کی حد تک ہی ہو نہ کہ اجتہادکے ذریعہ ۔
نتیجتاً آیۂ اولواالامر سے اصل ولایت فقیہ کا استفادہ کرنا درست نہیں ہے البتہ ولایت فقیہ کی مشروعیت امام معصوم کے منصوب کرنے کی وجہ سے ہے :
''۔۔۔والرادعلیہم کالراد علیناوالراد علیناوالراد علی اﷲوھوعلی حد الشرک''
ان (فقہائ)کے قول کو رد کرنا ہمارے قول کو رد کرناہے اور جس نے ہمارے قول کو رد کیا اس نے اللہ کے قول کو رد کیا وہ مشرک ہے۔
معارف قرآن کے مجموعہ میں سے ''رہنماکی معرفت ''کی بحث تمام ہوگئی ہم خداوند قدوس سے معارف قرآن کریم کے تمام حصّوں کے اتمام کے بارے میں مددچاہتے ہیں ۔
امید ہے کہ ہم خداوندعالم کی خاص عنایتوں کے ذریعہ اس راہ پرگامزن رہیں گے جس راہ کو اہل بیت علیہم السلام عصمت و طہارت نے ہمیںقرآن اور احکامات کوسمجھنے کے لئے اچھی طرح ہمیں دکھلایاہے۔
پہلے ہم قرآن کریم کے معارف صحیح طرح سمجھیںاس کے بعداپنی اوردوسروں کی سعادت و رستگاری کے لئے ان پر عمل کریں ۔
الحمد ﷲرب العالمین
|