راہ اور رہنما کی پہچان
 

انبیاء علیہم السلام کے دوسرے منصب
مقا م نبوت و رسالت کے علاوہ قر آن کریم میں انبیائے الٰہی کے دوسرے اوصاف و کمالات و منصب بھی بیان ہو ئے ہیں ۔ ان اوصاف و کمالات کو دو حصو ں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
١۔وہ معنوی اور روحانی اوصاف جو خود ان ہی کی ذات سے متعلق ہیں اور ان کی مخصوص صلاحیت و استعداد ، ذاتی خصو صیات اور ان کی عبا دتو ں کے پیشِ نظر ان کو عطا کئے گئے ہیں ۔
١۔انبیاء علیہم السلام کے وہ منصب جو سما جی اور معا شرتی ہیںاور عوا م الناس کے ساتھ ان کے خاص روابط کی عکا سی کر تے ہیں ۔
پہلی قسم میں صفت مخلَص ہے یعنی وہ جس کو خدا وند عالم نے اپنے لئے خا لص بنا لیاہو ۔ مثال کے طور پر قرآن کریم حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے متعلق ارشاد فر ماتا ہے :
( وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَا بِ مُوْسَیٰ اِنَّہُ کَا نَ مُخْلَصاًوَکَا نَ رَسُوْلاً نَبِیّاً )(١)
'' اور اس کتاب میں مو سیٰ کا تذکرہ کرو اس لئے کہ وہ مخلَص اور خدا کے فرستادہ پیغمبر تھے''۔
اس آیت میں حضرت مو سیٰ کے نبی اور رسول ہو نے کے علاوہ ان کے (مخلَص ) ہو نے کی صفت بھی بیا ن کی گئی ہے، اور یہ وہی صفت اور مقام ہے جس کے لئے شیطان ابتداء سے ہی ایسے بندو ں کو گمرا ہ کر نے سے عا جز ی کا اعلان کر دیاہے ۔قرآ ن میں ارشاد ہو تا ہے :
(۔۔۔وَلَا ُغْوِ یَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ اِلَّا عِبٰا دَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ)(٢)
..............
١۔سورئہ مریم آیت٥١۔
٢۔سورئہ حجر٣٩۔٤٠۔
''اور سب کو گمرا ہ کرو نگا مگر ان میں سے تیرے خا لص بندے میرے بہکا نے میں نہیں آئیںگے ''۔
یعنی کچھ نیک بندے ایسے ہیں جن کو خدا وند عالم نے اپنے لئے خا لص قرار دیا ہے ان کا وجود ہراس چیز سے صاف اور پا کیزہ ہے جو خدا سے بیگانہ کر دیتی ہے ، قرآن کریم نے کچھ انبیاء علیہم السلام سے متعلق اس مقام و منزلت کا تذکر ہ کیا ہے ۔ مثال کے طور پرحضرت یوسف علیہ السلام کے لئے ارشاد ہو تا ہے :
(اِنَّہُ مِنْ عِبَادِناَالْمُخْلَصِیْنَ)(١)
''بیشک وہ ہما رے خا لص بندوں میں سے تھے ''۔
انبیاء علیہم السلام کا ایک اور رو حانی مر تبہ صدّیق ہو نا ہے ۔قرآن کریم حضرت ادریس علیہ السلام کے سلسلے میں ار شا د فر ماتا ہے :
( وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَا بِ اِدْرِیْسَ اِ نَّہُ کَا نَ صِدِّ یْقاً نَبِیّاً)( ٢)
''اور قر آن میں ادریس کا تذ کرہ کرو بیشک وہ بڑے سچّے نبی تھے ''۔
لفظ'' صِدّیق ''کا روا یات میں بھی تذکرہ ہے ۔ یہ ''صدق '' کا صیغۂ مبالغہ ہے یعنی صدیق اس کو کہا جاتا ہے جس کی رفتار و کر دار مکمل طور پر اس کی گفتار کے مطابق ہو اور اس کی گفتار و کردار میں کو ئی تنا قض نہ ہووہ تمام حقا یق پرعقیدہ رکھتا ہے اور ان سب پر عمل بھی کر تا ہے ۔ یہ صفت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ میں بھی سورئہ مر یم (آیت ٤١) میں بیان ہوئی ہے ۔ اور اس (صدیق ) کی مو نث (صدیقہ) سورئہ ما ئدہ آیت ٧٥۔ میں حضرت مر یم علیہا السلام کے لئے استعمال ہوئی ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی دو سری قسم کی خصوصیات کے تذکرہ میں نمو نہ کے طور پر مقامِ( اما مت) کو پیش کیا جاسکتا ہے خدا وند عالم قرآن میں حضر ت ابرا ہیم علیہ السلام کے سلسلے میں ار شاد فر ماتا ہے :
(وَ اِذِ ابْتَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاَ تَمَّھُنَّ قَا لَ اِ نّیِ جَا عِلُکَ لِلنَّا سِ اِمَاماً۔۔۔)(٣)
''اور جب ابراہیم کا ان کے پر ور دگا رنے کچھ کلمات کے ذریعہ امتحا ن لیا اور انھو ں نے ان سب کوپو را
..............
١۔سورئہ یو سف آیت ٢٤۔
٢۔سورئہ مریم آیت ٥٦۔
٣۔سورئہ بقرہ آیت ١٢٤۔
دکھایا تو خدا نے فر مایا میں تم کولو گوں کا امام بنا نے والا ہو ں ''۔
امامت وہ عہدہ اورمقام ہے جو نبوت ورسالت کے بعد حضرت ابراہیم کو عطا کیاگیا ہے ۔یہ ایک سماجی اورمعاشرتی عہدہ ہے جس کا رابطہ لوگوں سے ہے:(لِلنَّاسِ اِمَاماً)اس بناء پر اس عہدے اور مقام کی وجہ سے لوگوںپر کچھ فرائض عائدہوجاتے ہیں جیسے سیرت ابراہیم علیہ السلام کی اقتداء اور ان کے احکام پر عمل کرنا۔
یہاں یہ بھی واضح کردینا مناسب ہوگا کہ زیر بحث اوصاف صرف انبیا ء علیہم السلام سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے اوصاف انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے افراد میں بھی مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں۔اس بات
کی تائید سورئہ نسا ء کی اس آیت سے ہوتی ہے :
(وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اﷲ ُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّ یْقِیْنَ وَالْشُّہَدَائِ وَالصّٰالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقاً)(١)
''اور جن لوگوںنے خدااو رسول کی اطاعت کی تویہی وہ لوگ ہیں جو انعام یافتہ حضرات کے ساتھ ہوںگے یعنی جو انبیائ، صدیقین ،شہداء اور صالحین میں سے ہیں اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں''۔
اس آیت میں صدیقین ،شہداء اور صالحین کا انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ذکر کیاگیاہے۔اس بناء پر آخری تین گروہوں سے مراد غیر انبیاء ہیں اور یہیں سے یہ بات بھی روشن ہوجاتی ہے کہ یہ تین منصب انبیاء علیہم السلام سے مخصوص نہیں ہیں(اس آیت میں شہداسے مراد وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے اعمال کے شاہدہیں) بعض آیات میں صالحین کی صفت اہل کتاب کے مومنین کے لئے استعمال کی گئی ہے ارشاد ہو تا ہے :
( ۔۔۔وَیُسَارِعُوْنَ فِی الخَیْرَاتِ وَاُوْلَٰئِکَ مِنَ الصَّا لِحِیْنَ )(٢)
'' ۔۔۔ اور نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی لوگ نیک بندوںمیںسے ہیں ''۔
بہر حال ہم اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ قرآن کریم نے (صدیقہ )کی صفت کو حضرت مریم کی شان میں استعمال کیا ہے البتہ اس مقام پر ہماری بحث انبیاء علیہم السلام کے انفرادی او صاف کے متعلق نہیں ہے جوممکن ہے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دو سرے افراد میں بھی پائے جاتے ہوں بلکہ ہم توانبیاء علیہم السلام کے اجتماعی اور معا شرتی منصب و مقام کے بارے میں بحث کررہے ہیں۔
..............
١۔سورئہ نساء آیت٦٩۔
٢۔سورئہ آل عمران آیت١١٤۔

١۔وحی کی توضیح وتفسیر
انبیاء علیہم السلام کی نبوت اور رسالت کا تقاضا اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ خداوند عالم کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں اور خالق و مخلوق کے درمیان ایک اما نت دار کا کر داراداکریں ۔ انبیاء علیہم السلام کے مبعوث کئے جانے کالازمہ اور اس پرعقلی دلیل بھی یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو ایسا ہو نا چاہیے کہ وہ پیغام خدا (وحی کی صورت) حاصل کریں اور لوگوں تک پہنچادیں ،نبوت ورسالت کا اصل کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اورلوگوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ پیغامِ خدا کو انبیاء علیہم السلام سے لیں اور اس پر ایمان لا ئیںاور خداوند عالم کے قوانین پر عمل کریں۔ در حقیقت ان پیغاموںکے سلسلے میں انبیاء علیہم السلام کی پیروی کرنا ہی خدا کی اطاعت کرنا ہے ۔ چو نکہ اس مقام پر ان کا کام پیغام پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ارشاد ہو تا ہے:
(وَمَاعَلَیَ الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبلََاغُ۔۔۔)(١)
''(خدا)کے پیغمبر کی پیغام خدا پہنچانے کے علاوہ (اور) کوئی ذمہ داری نہیں''۔
اِن باتوں کے با وجود قرآن کریم کی آیات سے یہ نتیجہ حاصل ہو تا ہے کہ انبیاء علیہم السلام مقام نبوت و رسالت کے علاوہ وحی کی توضیح و تفسیرکے بھی ذمہ دار تھے یعنی ان دو نوں باتوں میں فرق ہے کہ کو ئی شخص پیغام حاصل کرے اور اس کو بالکل اسی طرح اپنے مخاطب تک پہنچادے اور یہ کہ اس پیغام کی اپنے مخاطب کے سامنے تفسیرکرے ۔ اصلِ نبو ت کا تقاضابس یہ ہے کہ خداکا رسول پیغام خداوندی کو اپنی امت تک پہنچادے ۔ مثال کے طور پر رسول اکرم ۖ تک قرآن کریم کی جو آیات کو وحی کے ذریعہ پہنچتی تھیںلو گوں کے سامنے تلاوت فرمادیا کرتے تھے ۔ پیغمبر اکرم ۖ کا کام لو گو ں تک خدا کا پیغام پہنچا نا تھا لیکن لو گو ں کو کبھی کبھی مزید وضا حت کی ضرورت ہوتی یعنی بہت سے مقا مات پر لو گو ں کے لئے وحی کے مطالب تفسیر کے محتاج ہو تے تھے اس میں مجمل باتوں کو بیان کرنا ضروری تھا۔ضرورت تھی کہ جز ئی مسائل کی بھی ان کو تعلیم دی جا ئے ،مثا ل کے طور پر قر آن کر یم فرماتا ہے :(اَقِیْمُوْا الصَّلوٰةَ )(نماز قا ئم کرو) اگر چہ اس جملہ سے نما ز کا اصلی وجو ب سمجھ میں آ تا ہے لیکن نماز پڑھنے کا طریقہ معلوم نہیں ہوتا لہٰذاایسے مقام پر خدا وند عالم کی طرف سے کسی ایسے شخص کو معین ہو نا چاہئے جو نمازکی شرطیں،احکام اوراس کے پڑھنے کاطریقہ بھی بیان کرے۔
اس بنا ء پر انبیاء علیہم السلام (رسالت اور نبو ت کے علا وہ ) وحی کی توضیح و تشریح کر نے کے منصب پر بھی فا ئز
..............
١۔سورئہ مائدہ آیت٩٩۔
تھے اور بعض آیات سے پتہ چلتا ہے کہ لو گو ں کو اس مر حلہ میں بھی انبیاء علیہم السلام کی اطاعت کر نی چا ہئے اور وحی سے متعلق جن چیزو ں کو انبیاء علیہم السلام بیان فر ما ئیں انھیں تسلیم کر نا چا ہئے چنا نچہ ارشاد ہو تا ہے :
(وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِ ۔۔۔)(١)
''اور ہم نے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر اس وا سطے کہ لوگ خدا کے حکم سے اس کی اطا عت کریں ''۔
آیت میں مطلق طور پر حکم کے اندازسے یہ نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام چا ہے اصلِ وحی پہنچارہے ہو ں یا اس کی تشر یح و تفصیل بیا ن فر ما رہے ہو ں ہر حا ل میں ان کی اطا عت و پیر وی کر نی چا ہئے دو سرے لفظو ں میں اگر ہم لو گو ں پر اصل وحی کی اطاعت سے بڑھکرکسی اور چیز کی اطاعت کو واجب کر نا چا ہیں تو پہلے مر حلہ میں انبیاء علیہم السلام جو وحی کی تفسیر کر یںاس میں ان کی اطاعت کر نی چا ہئے ۔
اصولی طور پر تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان یہ مر حلہ مشتر ک ہے ۔ اس لئے کہ خدا وند عالم کی طرف سے پیغام لا نے والا شخص فطری طور پر اس کی حقیقت جا ننے کے بعد اس وحی کے بھیجنے وا لے کے اصل مقصود کو سمجھ لیتا ہے لہٰذا ایک ایساشخص(پیغمبر ) خدا وند عالم کے کلام کی تفسیر کر ے گا تو یقیناً اس کی تفسیر وا قعے کے مطابق ہو گی اور اسی لئے لو گو ں پر بھی اس کی با تو ں پر اعتماد کر نا اور ان کی پیر وی کر نا ضروری ہے ۔
البتہ لو گو ں کی ضرورتیں اسی مرحلہ پرتمام نہیں ہو تیں بلکہ ان کی کچھ دوسری ضرو رتیں بھی ہیں اگر چہ یہ ضرورتیں اس حد تک نہیں ہیں کہ عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا وند عالم پر ان ضرو رتو ں کا پوراکر نا لازم ہو بلکہ خدا وند عالم اپنے فضل و کرم اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ ان ضر ورتو ں کو بر طرف کر تا ہے۔ یہ ضر ورتیں انبیاء علیہم السلام کے دوسرے سما جی عہدوں کے اسباب فر اہم کر تی ہیں ۔

٢۔قضاوت اورفیصلے کر نا
عوام الناس کو اختلافات کے وقت کسی ایسے مرجع کی ضرورت پڑتی ہے جو قوا نین الٰہی کی روشنی میں فیصلہ کرکے ا ن کے اختلافات دورکردے اور ایک قطعی حکم صادر کرے دوسرے الفاظ میں لو گوں کا احکام اور قوانین کی معرفت حاصل کر ناانھیں ا س قاضی سے بے نیاز نہیں کرسکتا جو اُن احکام کو ان کے خاص مصادیق پر مطابقت کردیتا ہے اور اسی مقام پر لوگ قاضی کی ضرورت کا احساس کرتے ہیں ۔ قاضی کلّی حکم سے آگاہ ہو تا ہے اور دلائل،شواہد اور
..............
١۔سورئہ نسا ء آیت ٦٤۔
معتبر گوا ہو ں کی بنیاد پر ان کے مصادیق کو معین کرتا ہے البتہ قاضی کو ایسا ہو نا چاہئے کہ جھگڑا کرنے والے طرفین اس کے حکم کو دل و جان سے تسلیم کریں اور اس کی رائے کے مطابق عمل کریں تا کہ اختلاف ختم ہو جائے ۔ یہ ایسی چیز ہے جس کی ضرورت تمام معا شروں کو تھی اورآئندہ بھی اس کی ضرورت باقی رہے گی ۔
خداوند عالم نے اپنے بندوں پر لطف و کرم کے طور پر اپنے انبیاء علیہم السلام کو عہدہ قضاوت عطا کیا ہے ۔ اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا تمام انبیاء علیہم السلام کو یہ مقام عطا کیا گیا تھا ؟ اس مسئلہ کو صاف طور پر کسی آیت میں بیان نہیں کیا گیاہے ۔ صرف بعض آیات کے مطلق ہو نے کی بنیاد پر اس عہدے کوتمام انبیاء علیہم السلام سے منسوب کیاجاسکتا ہے :
( مَن یُطِعِ الرَّ سُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللَّہَ۔۔۔)(١)
''جس نے رسول کی اطاعت کی تواس نے اﷲ کی اطاعت کی ۔۔۔''۔
ان آیات کے مطلق ہو نے کے علاوہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو صاف طور پر اس چیز کے او پر دلالت کرتی ہو کہ تمام انبیاء علیہم السلام مقام حکم و قضاوت کے حامل تھے ۔ بعض آیات میں یہ مقام صرف خاص انبیاء علیہم السلام کو عطا کئے جا نے کی بات کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پرخداوند عالم حضرت داؤ د علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
( یَادَاوُوْدُاِنَّاجَعَلنَاکَ خَلِیْفَةً فیِ الاَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقَِّ۔۔۔)(٢)
'' اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں (اپنا خلیفہ اور جانشین) قرار دیا پس لوگوں کے درمیان با لکل حق سے فیصلہ کرلیا کرو اور خوا ہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو '' ۔
اس آیت سے یہ پتہ چلتاہے کہ عہدۂ حکم و قضاوت نبوّت کے لوازمات میں سے نہیں ہے اس لئے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو پہلے نبوت عطا کی گئی اور اس کے بعد ان کو مسندِ قضاوت پر بیٹھنے اوراپنی امت کے درمیان فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ تو معلوم ہوا کہ قضاوت ایسا منصب ہے جو انبیاء علیہم السلام کے لئے جدا گانہ طور پر قرار دیا گیا ہے اور یہ بات مسلّم ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام اس منصب پر فا ئز تھے ۔
..............
١۔سورئہ نساء آیت٨٠۔
٢۔سورئہ ص آیت ٢٦۔

٣۔حکو مت
لوگوں کی دوسری بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ان کا کوئی ایسا قائدو رہبر ہو جو معاشرہ کے امور کی لگام اپنے ہا تھوں میں تھا مے اور ان پر حکومت کرے اسی بنیاد پر خدا وند عالم نے اپنے بعض انبیاء کو عہدۂ (حکومت ) پر فائز کیا تا کہ لوگوں کی بنیادی اور اصل ضرورت بھی بغیر جواب کے نہ رہ جائے اور زمین پر انبیاء علیہم السلام کی حکومت نمونہ کے طور پرسب سے اچھی حکومت قرار پا ئے البتہ قضاوت جس کو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں حکومت کی ایک ضرورت شمار کی جاسکتی ہے لیکن ہر حال میں یہ دونوں مقام ایک دوسرے سے جُدا ہیں ۔ قضاوت ان مقامات پر کی جاتی ہے کہ جہاں دو یا چند افراد کے در میان حقوقی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف پیدا ہو جائے لیکن کبھی معاشرہ کو اس کی ضرورت ہو تی ہے کہ ایک صاحب منصب کی طرف سے حکم واقعی اور یقینی اس طرح صادر ہو کہ متفاوت آراکے لئے ایک حتمی اور اٹل فیصلہ ہو اور تمام لوگ اس کی پیروی کرنا بذات خود لازم سمجھتے ہوں اور اسی مقام پر مسئلہ حکومت کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
مثال کے طور پر ملک کی لا ئن آف کنترول (سرحد) پر دشمن کے حملہ کرنے کے مو قعوں اور ان سے دفاع کی خاطرمختلف نظریات بیان کئے جا ئیں۔ کبھی کبھی ان مسائل کے بارے میں بہت زیادہ اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر کوئی قطعی رائے یا مشورہ نہ ہو تو خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ جس فوج میں ہر فوجی اپنی رائے پر عمل کرتا ہو تو اس فوج کے سر پر کا میابی کا سہرا نہیں بندھ سکتا ۔ البتہ حکومت کی ضرورت صرف مسئلہ جنگ اور دفاع سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جنگ کے مو قع پر اس کی ضرورت اور آشکار ہوجا تی ہے ۔
مختصر یہ کہ متعدد دلیلوں کی بنیاد پر معاشرہ کو ایک اچھی اور طاقتور حکومت کی ضرورت ہو تی ہے۔ اب ایسی صورت میں کیا ہر نبی کے لئے منصبِ حکومت پر فائز ہو نا بھی ضروری ہے ؟ ظاہری طور پر اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے نہ تو عقلی دلیل ہی ہمارے پاس ہے اور نہ ہی نقلی دلیل ہے جو اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہو سکے ۔ قرآن کریم سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام عہدۂ حکومت پر بھی فائز تھے اور اپنی امت کے درمیان حکمرانی بھی کرتے تھے لیکن قرآن میںکوئی ایسی آیت نہیں ہے جو تمام انبیاء علیہم السلام کے اس مقام پر فائز ہو نے پرباقاعدہ سے دلالت کرتی ہو بلکہ اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یقیناً بعض انبیاء علیہم السلام اس منصب پر فائز نہیں تھے ۔
مثال کے طور پر قرآن کریم میں بیان کی گئی (طالوت) کی داستان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس زمانہ کے پیغمبر منصب حکومت پر فائز نہیں تھے ۔ بنی اسرائیل کے بڑے بڑے افراد نے اپنے انبیاء علیہم السلام سے آکر کہا کہ خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کیجئے کہ وہ ہمارے لئے کو ئی حاکم معین فرمادے ۔قرآن کریم میںارشاد ہوتا ہے :
( ۔۔۔ اِذْقَا لُوْا لِنَبِیٍّ لَھُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکاً نُقَاتِلْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اللَّہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکاً۔۔۔) ( ١)
'' جب انھو ں نے اپنے نبی سے کہا : ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کیجئے تا کہ ہم راہ خدا میں جہاد کریں ۔۔۔، اور ان کے نبی نے ان سے کہا : بیشک اللہ نے طالوت کو تمہا را بادشاہ مقررکیا ''۔
اس آیت سے یہ ظا ہرہو تا ہے کہ وہ پیغمبر بذات خود حاکم نہیں تھے اور اگر وہ خدا کی طرف سے منصب حکومت پر فائز ہو تے تو ان کے جواب میں کہہ سکتے تھے : میں خود خدا کی جانب سے منصب حکومت پر فائز ہوں اور کسی دوسرے شخص کو با دشاہ یا حاکم معین کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن قرآن کے نقل کے مطابق انھوں نے بنی اسرائیل سے کہا : اگر خدا کوئی حاکم معین فرمادے تو کیا تم اس کی پیروی کروگے ؟ اور چونکہ انھوں نے مثبت جواب دیا تھا تو خداوند عالم نے طالوت کو ان کا حا کم قرار دیا ۔ معلوم ہو ا کہ ان آیات میںمذ کورہ پیغمبر منصب حکومت پر فائز نہیں تھے اور کوئی ایسی ظاہری دلیل بھی نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرے کو طالوت پیغمبر تھے بلکہ خداوند عالم نے کسی دوسرے شخص کو بنی اسرا ئیل پر سلطنت اور حکومت کے لئے منتخب کیا تھا ۔
پس کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو نبوت کے لئے حکومت کا ہو نا ثابت کرسکے بلکہ قرآن کریم کی بعض آیات سے استفادہ ہو تا ہے کہ ان دونوں منصبوں کے الگ الگ ہو نا ممکن ہے ۔ بعض آیات اور روایات سے یقینی طور پر آشکار ہو تا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام منصب حکومت پر بھی فائز تھے ۔
گذشتہ مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام منصب نبوت ورسالت پر فائز ہو نے کے ساتھ ساتھ وحی، قضاوت اور حکومت جیسے منصبوں پر فائز تھے ۔ ان منصبوں میں سے بعض معاشرتی منصب تمام انبیاء میں پائے جاتے تھے اور بعض دوسرے منصب صرف انبیاء علیہم السلام کے ایک گروہ سے ہی مخصوص ہو تے تھے ۔
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت٢٤٦ ،٢٤٧ ۔