خاتمیت سے متعلق شکوک کا جا ئزہ
خاتمیت اسلام پر قرآنی دلالت کے با رے میں جو اہم ترین شکوک و شبہات بیان ہو ئے ہیں اس حصہ میں ہم انھیں بیان کرنے کی کو شش کریں گے:
١۔ عربی زبان میں''خَاتَم''کے معنی انگشتری کے ہیں اور سورئہ مبارکہ احزاب کی چالیسویں آیت میں یہ مجازی طور پر زینت کے معنی میں استعمال ہواہے ۔اس بناء پر''خاتم النبیین'' کا مطلب (انبیاء کی زینت)ہے اور مسئلہ خاتمیت پر کسی طرح دلالت نہیں کرتا ۔
جواب :عربی زبان میںلفظ خاتم کامجازی معنی میں زینت کے لئے استعمال ہونا عام طریقہ پررائج نہیں ہے اور لغت زبان کے ما ہرین میں کسی نے بھی اس آیت کے بارے میں اس طرح کااحتمال بیان نہیں کیاہے۔ ظاہر ہے آیت کا ایک غیرمشہور معنی بیان کرناجو اس کے ظاہر کے برخلاف ہو کوئی قیمت نہیں رکھتا اور اس سے خاتمیت پر آیت کی دلالت میں کوئی ضرر پیدا نہیں ہوتا۔
٢۔ اس آیت میں ''خاتم النبیین''کالفظ استعمال کیاگیاہے ''خاتم الرسل''کا نہیںہے اور چونکہ ''نبی''اور ''رسول''میں فرق ہے لہٰذا اس آیت سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ پیغمبر اسلام ۖکے بعد کوئی خداکا رسول مبعوث نہیں ہوگا؟
جواب :ہم ''نبی''اور ''رسول ''کے مفہوم کی بحث میں یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ ان دونوں کے مفہوم چاہے کتنے ہی ایک دوسرے سے مختلف ہوں لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں کے مابین عام خاص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے یعنی ہر رسول نبی بھی ہو تا ہے (لیکن ایسانہیں ہے کہ تمام انبیاء رسول بھی ہوں)اس بنیاد پر یہ کہناکہ پیغمبر اسلام ۖکے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا یہ رسول کو بھی شامل ہے لہٰذا ختم نبّوت کا لازمہ ختم رسالت ہے ۔ (چونکہ نفی عام مستلزم نفی خاص ہوتی ہے)
٣۔قرآن کریم کی بعض آیات سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ خداوند عالم نے زمانۂ مستقبل میں انبیاء علیہم السلام مبعوث کرنے پر بنا رکھی ہے ۔مثال کے طور پر ارشاد ہو تا ہے :
(یَٰابَنِیْ آدَمَ مَّایَْتِیَنَّکُمْ رُسُل مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ آیَاتِیْ۔۔۔ )(١)
''اے بنی آدم اگر تم میں تمہارے ہی درمیان سے کچھ رسول آئیں اور تم سے ہمارے احکام بیان کریں ۔۔۔''
ظاہرہے کہ یہ آیت حضرت رسول اﷲ ۖکے زمانہ میں نازل ہوئی ہے اور اس میں اسی دور کے بنی آدم سے خطاب بھی ہے اب اس واقعیت و حقیقت کے مد نظر اور اس اعتبار سے کہ فعل ''یَاتِیَنَّکُمْ ''صیغۂ مضارع ہے اور لفظ ''رُسُل''جمع ہے یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت رسول خدا ۖکے بعد ،دوسرے انبیاء علیہم السلام بھی مبعوث ہوں گے ۔لہٰذا اس طرح کی آیات کی موجود گی میں پیغمبر اسلام ۖ کی خاتمیت کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے ؟
جواب :معترض کے اس شبہہ میں کو ئی استحکام نہیں پا یا جاتالگتا ہے وہ عربی زبان کی لطافت اور ا س کے قوانین سے بالکل آشنا نہیں ہے :
اولاً فعل مضارع تمام مقامات پرفعل کے زمانۂ مستقبل میں واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتا ۔
دوسرے یہ کہ اس آیت میں لفظ''اِمّا''حرف شرط''اِنْ''اور ''مائے''زائدہ سے مرکب ہے۔اس بناء پر آیت کا مضمون جملۂ شرطیہ کی صورت میں بیان کیاگیاہے۔یعنی اگر تمہاری طرف انبیاء علیہم السلام بھیجے جائیں تو ان کی اطاعت و پیروی کرنا اورہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جملۂ شرطیہ شرط کے محقق ہونے کا ضا من نہیں ہے اس بنا ء پر یہ آیت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ آخری نبی کے بعد قطعاً اور انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جائیں گے۔
اس کے علاوہ اس سے پہلے کی آیات کے سیاق سے یہ پتہ چلتاہے کہ اس آیت میں بنی آدم علیہ السلام کے مخا طب اس وقت کے لوگ ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام اورحواکو زمین پر بھیجا گیاتھا۔اس آیت سے پہلے کی آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ،ان کے بہشت میں آنے اورروئے زمین پر ان کے اتارنے کی داستان بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد بنی آدم سے خطاب کر کے کچھ مطالب بیان کئے گئے ہیں اوریہ آیت بھی ان
ہی سے متعلق ہے۔تو معلوم ہواکہ اس آیت میں تمام لوگوں سے خطاب کیاگیاہے اور ان کو یہ حکم دیا گیاہے کہ جب کبھی بھی کوئی نبی تمہاری طرف بھیجا جائے تو اس کی اطاعت کرنا ۔رہا یہ مسئلہ کہ یہ انبیاء علیہم السلام کس زمانہ میں مبعوث ہوںگے اور ان میں آخری نبی کون ہوگا آیت اس چیز کو بیان نہیں کررہی ہے۔
..............
١۔سورئہ اعراف آیت٣٥۔
قرآن کریم کے بعض سوروں میں زیربحث آیت کی ماننداوربھی آیات ہیں جن پرغور وفکرکرنے سے یہ مفہوم اور بھی واضح اور روشن ہوجاتا ہے ۔
سورئہ بقرہ میں خداوندعالم ارشاد فرماتاہے :
(قُلْنَااھْبِطُوْامِنْہَاجَمِیْعَاًفَاِمَّایَْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْف عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ )(١)
''ہم نے کہا:سب نیچے اتر جائو۔پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جو لوگ میری ہدایت پر چلیں گے ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوںگے ''۔
(۔۔۔فَاِمَّایَْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ھُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلا یَضِلُّ وَلَایَشْقَٰی)(٢)
''۔۔۔پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا نہ تو وہ گمراہ ہوگا اورنہ مصبیت میں پھنسے گا''۔
ان آیات کا سیاق ایک ہے فرق بس یہ ہے کہ آخری دو آیات میں ہدایت اور راہنمائی بھیجے جا نے کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور زیر بحث آیت (سورئہ اعراف٣٥)میں خداوند عالم کے فر ستا دہ ہادیوں یعنی انبیاء علیہم السلام کے بارے میں گفتگو کی کئی ہے ۔
٤۔ قرآن کریم میں ہے :(۔۔۔یُلْقِی الرُّوحَ مِنْ اَمْرِہِ عَلَیٰ مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِہِ۔۔۔)(٣)
''۔۔۔وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے اپنے حکم سے روح (فرشتہ)نازل کرتاہے ۔۔۔''۔
اس آیت کا صاف طور پر مدلول یاکنایہ یہ ہے کہ خداوندعالم جس شخص کو چاہے نبی بنا کر بھیج سکتاہے حالانکہ یہ آیت رسول اکرم ۖ کے دو رحیات میں نازل ہوئی ہے ۔
یہ آیت صاف دلالت کر تی ہے کہ آپ کے بعد بھی دوسرے انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جائیںگے ۔
جواب :یہ آیت بھی اس سے پہلے کی آیت کی طرح زمانۂ مستقبل کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ کسی بھی شخص کو پیغمبری کے لئے منتخب کرنا مشیّت ِالٰہی کے تابع ہے اور وہ کافروںکے مادی معیاروں
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت٣٨۔
٢۔سورئہ طہ آیت١٢٣۔
٣۔سورئہ غافر آیت١٥۔
کی اتباع نہیں کرتا۔خداوندعالم جس شخص کے لئے مصلحت دیکھتاہے اس پر وحی نازل کردیتا ہے اور اس کو رسالت کے لئے منتخب کرلیتا ہے ۔بنا بر این زیر بحث آیت بھی مندرجہ ذیل آیت کے مضمون سے مشا بہت رکھتی ہے جس میں کہا گیا ہے :
(۔۔۔اَﷲ ُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالتَہُ۔۔۔)(١)
''۔۔۔اﷲبہتر جانتا ہے کہ کہاں اپنی پیغمبری قراردے ۔۔۔''۔
مورد بحث آیت بھی اس آیت کی طرح اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ خداوند عالم زمانۂ مستقبل میں کسی نبی کو مبعوث کرے گا بلکہ اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ انسانوں کو رسالت کے لئے منتخب کرنا کچھ مصلحتوں کا تابع ہے جن کو خداوندعالم بہتر جانتا ہے ۔لہٰذا ان آیات میں فعل مضارع ''یلقی''یا ''یجعل''کسی طرح سے بھی مستقبل کے معنی میں نہیں ہے۔
بہر حال عربی زبان اور اس کے قواعد سے آشنا شخص بخوبی جانتاہے کہ مندرجہ بالا آیات میں کسی بھی عنوان سے خاتمیت کا انکار نہیں ہے یقیناً ہمارامدّعایہ بھی نہیں ہے کہ''یلقی الروح'' خاتمیت کو بیان کرتاہے بلکہ بات صرف یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد آئندہ زمانہ میں کوئی اورپیغمبرضرور مبعوث ہوگا اس پر آیت دلالت نہیں کرتی۔اب اگر رسول اسلام ۖکے بعد کسی اور دوسرے پیغمبر کے مبعوث ہونے کی بات ہوتی تو مذکورہ آیت میں وہ بھی شامل ہوتالیکن ''خاتم النبیین''صاف طور پر ختم نبوت پر دلالت کرتاہے اور یہ بھی بیان کرتا ہے کہ رسول اسلام ۖکے بعد کوئی اور پیغمبر مبعوث نہیں ہوگا۔
خاتمیت سے متعلق کچھ اور شکوک و شبہات پیش کئے گئے ہیں جن کو مربوط کتابوںمیں تلاش کیاجاسکتاہے لیکن ان کے اندر کسی قسم کی پائیداری نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان سے صرف نظر کررہے ہیں ۔
اختتام نبوّت کی وجہیں
ختم نبوّت کے متعلق ایک اہم سوال یہ کیا جاتا ہے کہ :جب خداوندعالم انسانوں کی ہدایت کے لئے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتارہا تو اب ایک معین زمانہ میں انبیاء علیہم السلام کا یہ سلسلہ منقطع کیوں ہوگیا؟ اس سوال کا قطعی جواب تو یہی ہے کہ
(اﷲاعلم حیث یجعل رسالتہ)خدواند عالم اپنی حکمت بالغہ اور اپنے علم مطلق کی بنیاد پر جانتاہے کہ
..............
١۔سورئہ انعام آیت١٢٤۔
انبیاء علیہم السلام کو کہاں ْکب اور کس طرح مبعوث کرے؟ اور ہم اس مسئلہ کے راز سے کامل طور پر آگاہ نہیں ہیں ۔ حکمت الٰہی یہی ہے کہ رسول اسلام ۖکے بعد کوئی دوسرا نبی نہ بھیجا جائے ۔
لیکن قرآن کریم کی آیات سا منے رکھ کر کچھ ایسے نکات معلوم کئے جاسکتے ہیںجو کسی حد تک ختم نبوت کی وجہوں کو واضح کرتے ہیں ۔اس کے باوجودتوجہ رہے کہ یہ ان ہی پر بات تمام نہیں ہوتی اور جیسا کہ ہم نے اشارہ کیاکہ اس مسئلہ کی اصل وجہ علم کے دائرے سے کہیں بالاترہے اورہم قرآن کے بعض مطالب کے ذریعہ اس مسئلہ کی حکمت کے محض بعض حصّوں تک رسائی حاصل کرسکے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں :
١۔انبیائے الٰہی خدااور لوگوں کے درمیان واسطہ رہے ہیں تاکہ لوگوں کی ابدی سعادت کی طرف رہبری کریںلیکن کچھ عرصہ بعد انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں تحریف ہوجایا کرتی تھی یا اس کو معاشرہ کے درمیان بالکل ہی ختم کردیا جاتاتھا ۔اس بناء پر انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں تحریف یا ان کی دعوت کے اثرات زائل ہوجانے کے بعد حکمت الٰہی تقاضاکرتی تھی کہ کوئی دوسرا نبی مبعوث کیاجائے تاکہ وہ دوبارہ دعوت الی اﷲکو زندہ کرے ،اور تحریفات کی اصلاح کرے اور رسالت الٰہی کو اس کے اصل راستہ پر پھر سے گامزن کردے :
قر آ ن میں ار شاد ہو تا ہے :
(وَمَااَنْزَلْنَاعَلَیْکََ الْکِتَا بَ اِلَّالِتُبَیِّنَ لَھُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْافِیْہِ۔۔۔)(١)
''اور ہم نے تم پر(اس)قرآن کو نازل نہیں گیا مگر اس لئے کہ جن باتوں میں یہ لوگ آپس میں جھگڑا کرتے ہیں ان کو تم صاف صاف بیان کرو۔۔۔''۔
اس بنیاد پر نئے نبی مبعوث کرنے کی ایک حکمت یہ تھی کہ اس سے پہلے والے نبی کی شریعت میں تحریف اور ختم ہونے سے بچاناتھالیکن یہ مسئلہ دین اسلام اور اس کی آسمانی کتاب کے بارے میں صادق نہیں آتا چونکہ خداوندعالم نے اس کی ضمانت خود اپنے ذمہ لی ہے :
(اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَوَاِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ)(٢)
''بیشک ہم نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی اسکے محافظ بھی ہیں ''۔
تو معلوم ہوا کہ خاتمیت اسلام کی ایک حکمت یہ ہے کہ خداوندعالم نے ا سے ہرطرح کی تحریف اور تغیر و تبدّل
سے محفوظ رکھا ہے ۔
..............
١۔سورئہ نحل آیت٦٤۔
٢۔سورئہ حجر آیت٩۔
٢۔دوسرے پیغمبر کو مبعوث کرنے کی ایک دوسری وجہ زمانہ مستقبل کے معاشروں اور امتوں کے لئے پہلے نبی کی شریعت کا کافی نہ ہوناتھا ۔مثال کے طور پر ایک نبی ایک ایسے معاشرہ میں معبوث ہو جس میں بہت سادہ قوانین و ضوابط رائج ہوں یا ان کی فکر ی سطح پست ہو ۔ظاہر ہے ایسے معاشرہ میں دین کے اجتماعی احکام وسیع طور پر یا دین کے بلند و بالا اور عمیق معارف کا پیغام نہیں پہنچایا جاسکتا ہاںاگر آہستہ آہستہ ، زمانہ گذرنے کے ساتھ معاشرہ کا ڈھانچاکچھ پیچیدہ ہوجائے اور لوگ فکر و ثقافت کے لحاظ سے ترقی کرلیں توایسے میں ان کو نئے نبی کی ضرورت پیش آئیگی کہ وہ ان کے حالات کے مناسب زیادہ کامل شریعت پیش کرسکے ۔لہٰذانئے نبی کو بھیجنے کی ایک اوروجہ یہ ہے کہ پہلی شریعت کی تکمیل کی جا ئے چا ہے گذ شتہ احکام کی تفصیل بیان کرنے یانئے احکام پہو نچا نے کی صورت میںہی کیوں نہ ہو ۔
لیکن قرآن کریم نے اسلام کے با رے میںاس ضرورت کی بھی نفی کر دی ہے کیونکہ یہ دین کامل ہے اور آنے والی نسلوں کو جن چیزوں کی ضرورت پیش آسکتی ہے وہ سب اپنے ساتھ لیکر آیاہے۔ ار شاد ہو تا ہے :
(۔۔۔اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ۔۔۔)(١)
''۔۔۔آج میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا۔۔۔''۔
اور پیغمبر اسلام ۖسے بھی مروی ہے کہ آپ نے فر مایا ہے :
(مَامِنْ شَیٍ یُقَرِّبَکُمْ اِلَی الْجَنَّةِ وَیُبَعِّدَکُمْ مِنَ النَّارِ اِلَّاوَقَدْاَمَرْتُکُمْ بِہِ وَمَا مِنْ شَیئٍ یُقَرِّبَکُمْ مِنَ النَّارِ وَ یُبَعِّدَکُمْ مِنَ الجَنَّةِ اِلَّاوَقَدْ نُہِیتکُمْ عَنْہُ۔۔۔)
''جنّت سے قریب اور دوزخ سے دور کرنے والی ہر چیز کا حکم میں نے تم تک پہنچادیا اورہر وہ چیزجو تم کو دوزخ سے قریب اور جنّت سے دور کرتی ہے میں نے اس سے تم کو منع کر دیا ہے۔۔۔''۔
اس نص و دلیل سے استفادہ ہوتاہے کہ اسلام دین کامل ہے اور اس کو پھر سے تکمیل تک پہنچانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں ہے لہٰذا کسی نئے نبی و رسول کے بھیجے جا نے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
٣۔قرآن کریم میں بھی گذشتہ کتابوں کے مثل یہ مسئلہ موجود ہے کہ خداوندعالم نے کلی مسائل مختلف آیات کے ضمن میں بیان فرمادیئے ہیںاور ان کی تفصیل بیان کرنا پیغمبر کی ذمّہ داری قرار دی ہے۔مثال کے طور پر قرآن نے
..............
١۔سورئہ مائدہ آیت٣۔
نماز کو واجب کیاہے لیکن اس کے جزئی احکام بیان نہیں کئے ہیں،یہ ذمہ داری پیغمبر کو سونپ دی ہے سورئہ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:
(۔۔۔وَاَنْزَلَنَااِلَیْکَ الذِّکْرَلِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْہِمْ ۔۔۔)(١)
''۔۔۔اور ہم نے اس قرآن کو تم پر نازل کیا ہے تاکہ جو احکام لوگوں کے لئے نازل کئے گئے ہیں تم اسے صاف صاف بیان کرو۔۔۔''۔
حضرت رسو ل خدا ۖ نے بھی اپنے دور ِ حیات میں اسی الہٰی نظام کے مطابق اپنا فرض ادا کیا ،احکام و معارف کی تفصیل امت کے سامنے بیان فرمادی اور اپنے اصحاب پر یہ اقوال و احا دیث آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرنافرض قرار دیدیا۔ اس سے بھی بڑھکرپیغمبر کی دعوت تبلیغ جاری اور باقی رکھنے ، اور امت اسلامیہ کی دینی ضرورتوں، کو پورا کرنے اوران کے سوا لوں کے جوابات دینے کے لئے و صایت اور امامت کا سلسلہ جا ری کردیاجس کی بنیا د پر ،رسول اسلام ۖ کے بعد لوگوں کے در میان معصوم اما موں کاایک گروہ موجودہے جو اگرچہ عہدہ ٔ نبوت نہیں رکھتا اور ان پر (انبیاء کی طرح) وحی نہیں نازل ہوتی لیکن وہ عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیںاور حقایق الٰہی ان پر الہام ہو تے رہتے ہیں ۔ پیغمبر اکرم ۖ کے بعد احکام کی توضیح و تشریح اور قرآن کی تفسیر کرنا اس گروہ کی ذمہ داری ہے اور یہ امامت کا سلسلہ قیامت تک باقی رہے گا یہاں تک کہ اگر رو ئے زمین پرصرف ددو آدمی زندہ رہیں تو ان میں سے ایک خدا کی حجت ہو گا ۔
خلاصہ کلام یہ کہ نئے پیغمبر کو مبعوث کئے جانے کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ اگر شریعت کے احکام کی تفصیل بیان کرے اور اس کے ذریعے حجت خدا اور لوگوں کے ما بین رابطہ بر قرار رہے اور اسلام میں یہ مسئلہ رسول خدا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے ذریعہ پوراہو جا تا ہے۔ لہٰذااس اعتبار سے بھی نئے پیغمبر کو مبعوث کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ پیغمبر اسلام ۖ کے مبعوث ہو نے کے بعد ختم ہو گیا اور دین اسلام قیامت تک استوار و محکم رہے گا ۔ نہ اس میں کو ئی تحریف کی جا سکے گی اور نہ ہی اس کے احکام میںنسخ کے ذریعہ کو ئی تغیر تبدل واقع ہو گا۔ قرآن کریم کی دوسری آیات بھی اس مدعا کی تا ئید کرتی ہیں :
( ۔۔۔ وَ اِنَّہُ لَکِتَاب عَزِیْز۔لَایَاتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَامِنْ خَلْفِہِ تَنْزِیْل مِنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ )(٢)
''اوریہ قرآن تو یقیناً ایسی گراں بہا کتاب ہے کہ با طل نہ تو اس کے سامنے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے حملہ
..............
١۔سورئہ نحل آیت٤٤۔
٢۔سو رئہ فصّلت آیت٤١۔٤٢۔
کر سکتا ہے یہ تمام خو بیو ں وا لے عالم و دانا (خدا) کی بارگاہ سے نا زل ہو ا ہے '' ۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ قرآن کریم میں کسی قسم کی بھی کو ئی با طل(بات) رسول اکرم ۖ کی حیات طیبہ میںیا آپ کے بعد راہ نہیںپا سکتی ہے ۔ قر آن کریم میں باطل کے راہ پا نے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اس طرح کو ئی چیز کم کر دی جا ئے یا کو ئی بات بڑھا دی جا ئے کہ اس کو پہچانا نہ جا سکے یا اس کے احکام منسوخ ہوجائیں اور آیت میں جملہ ''یَا تِیْہِ الْبَاطلُ '' کی عمومیت کا تقا ضا یہ ہے کہ ان میں سے کو ئی ایک احتمال بھی قرآن کریم کے با رے میں محقق نہیں ہو سکتا پس اس آیت سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ قر آن کریم کو نسخ کر نے والی کوئی کتاب اس کے بعد نا زل نہیں ہو گی اور نتیجہ میں ایسی کوئی کتاب لیکر آنے والا بھی مبعو ث نہیں ہو گا ۔
البتہ اس آیت اور اس سے پہلے والی آیات کے مفاد میں فر ق ہے ۔ اس لئے کہ اس آیت میں کسی نئے پیغمبر کے نئی آسمانی کتاب کے ساتھ مبعوث ہو نے کے فرض کی نفی کی گئی ہے لیکن اس آیت سے اس احتمال کا انکار نہیں کیا جا سکتاکہ خدا کسی ایسے پیغمبر کو مبعوث کر ے جو اسی قر آن کی تبلیغ و تر ویج میں مشغو ل ہو جا ئے ۔کیو نکہ گز شتہ زمانہ میں کچھ ایسے انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے ہیں جنھو ں نے دو سرے نبی کی کتاب کی تبلیغ کی ہے (مثال کے طور پر حضرت لوط ،حضرت ابرا ہیم کی کتاب(١) و شریعت کے مبلغ تھے )۔ اس بنا ء پر آخری آیت سے صرف خا تمیت قرآن کے اعلان اور پیغمبر اسلام ۖ کے بعد کسی دوسرے پیغمبر کے آسمانی کتاب لیکرمبعوث ہو نے کے احتمال کی نفی کو ثا بت کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال آیت کے ذریعہ اپنے مد عا کو پوری طرح صاف صاف ثا بت کرنے کے لئے صرف سورئہ احزاب کی وہ آیت کا فی ہے کہ جس کا ذکر ہم نے کیا ہے۔
خیال رہے کہ قر آن کریم کی آیات کے علا وہ تواتر سے متعدد روا یات بھی مو جو د ہیں جن کو تمام اسلا می فرقوں نے نقل کیا ہے ۔ نمو نہ کے طور پر ''حدیث منز لت ''کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ حدیث تو ا ترکے ساتھ پیغمبر اکر م ۖ سے نقل ہو ئی ہے کہ آ پ نے امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام سے فر مایا :
''اَنْتَ مِنّیِ بِمَنْزِلَةِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْ سَیٰ اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ''(٢)
''تم کومجھ سے وہی نسبت ہے جو جو ہا رون کومو سیٰ سے ہے مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئیگا '' ۔
ہم نے خاتمیت سے متعلق جو قرآنی دلیلیں پیش کی ہیں وہ صر ف ایک علمی بحث کی حد تک ہے ورنہ مسئلہ خاتمیت اسلام کے ضر وریات میں سے ہے اور ضروری اعتقادات کے لئے استدلال کی ضرورت نہیں ہے ۔
..............
١۔قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کتاب کو (صحف )سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
٢۔علا مہ مجلسی نے (منزلت)کے متعلق تمام روایات کتاب ''تا ریخ امیر المو منین ''باب ٥٣ سے نقل کی ہیں رجوع کیجئے بحار الانوار جلد ٣٧ (طبع جدید )صفحہ ٢٥٤۔٢٨٩۔
|