چند نفسیاتی پہلو
١۔انبیاء علیہم السلام کی قوموں سے مربوط آیات سے کچھ اور نکات جو معلوم ہوتے ہیں ان میں نفسیاتی رنگ زیادہ پایاجاتاہے در اصل انسان اپنی طبیعت کے اعتبار سے ایساہے کہ نعمتوں کی فراوانی اور آسایش و آرام پاکر آہستہ آہستہ مست ومغرور ہوجاتا ہے اور اس قدر خوشی میں غرق ہوجاتاہے کہ اپنے پر وردگار کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے قرآن کریم کی بعض آیات میں اس طرح کے لوگوں کے بارے میں ایک دلکش تعبیر استعمال ہوئی ہے ؛سورئہ قصص میں ارشاد ہو تا ہے:
(وَکَمْ اَھْلَکْنَامِنْ قَرْیَةٍبَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَا۔۔۔)(١)
''اور ہم نے کتنی ہی بستیو ں کو ان کی معیشت کے غرور کی بنا ء پر ہلا ک کر دیا ''۔
(بَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَا )یعنی وہ اپنی زند گی میں مست تھے( روٹی روزی کی فروانی کے نشہ میں چور ہو کر زندگی بسر کر رہے تھے) اور عام طور سے اس طرح مستی ما دی نعمتو ں کی فرا وانی سے ہی وجود میں آتی ہے۔
اسی طرح سورئہ مبا رکۂ علق میں ارشاد ہو تا ہے :
(کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغَیٰ اَنْ رئَ اہُ اسْتَغْنَیٰ )(٢)
..............
١۔سورئہ قصص آیت٥٨۔
٢۔سورئہ علق آیت٦۔٧۔
اس سر کشی اور غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ انسان حق سے منحرف ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی وہ حق سے دشمنی اور انبیا ئے الٰہی سے جنگ کر نے پر آما دہ نظر آنے لگتا ہے ۔پس بہت سے لوگ نعمتو ںکی فراوانی اور آرام کی وجہ سے نفسیا تی طو ر پر انبیا ء اور ان کی دعوت کی مخا لفت کر نے لگتے ہیں جو ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جس کی طرف قر آن نے اشارہ کیا ہے۔
البتہ یہاں اس با ت کو مدّ نظر رکھنا چا ہئے کہ اس نفسیا تی عمل کا مطلب انسان کوسر کشی پر مجبور کرنا اور اس کا اختیا رسلب کر لینا نہیں ہے ۔قرآن کریم نے اگرچہ ان کے مضر اثرات کاانسانوں پر مؤثر ہونا قبول کیاہے مگرجن کے نفوس ما دیت سے متا ثر ہو کر مغرور اور مست ہو جا تے ہیں ان کی مذمت بھی کی ہے، دوسرے لفظو ں میں، قرآن ان چیزوں کو گمراہی کااصل سبب نہیں سمجھتااگرچہ یہ اسباب لو گو ں کی گمرا ہی کے لئے راستہ ہموار کر تے ہیں ۔
اس گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ما دی نعمتوں سے انسان منحر ف تو ہوسکتا ہے مگر یہ انحراف کے لئے علت تا مہ نہیں ہیں یہ آیات نعمتو ں سے متعلق ایک نفسیاتی پہلو سے پر دہ اٹھا نے کے علاوہ ایک تربیتی پہلو کو بھی بیان کر تی ہیں یعنی جن آیات میں ان مطالب کی طرف اشا رہ ہے اور جو تعبیریں دو لتمندوںاور مجرمو ں کی جانب سے انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کے سلسلہ میں استعمال ہو ئی ہیں وہ سب انسا ن کو یہ درس دیتی ہیں کہ وہ متوجہ رہیں کہ کہیں ما دی فائدے اس کو راہِ حق اور خدا کی یا د سے منحر ف نہ کردیں ارشاد ہو تا ہے:
( یَٰأَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَٰلُکُمْ وَلَااَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِاﷲِ ۔۔۔)(١)
''ایمان والو خبر دارتمہا رے اموال اور تمہا ری اولاد تمھیں یا د خدا سے غا فل نہ کر دے ''۔
٢۔قرآن کریم نے ایک اور نفسیاتی پہلو کی طرف بھی اشا رہ کیا ہے جو خود اپنے مقا م پر مؤثر اور اہم اثرات رکھتا ہے اورقرآنِ کریم نے اس کے اثر کو قبو ل بھی کیا ہے لیکن اس کو ذمہ دا ری بر طرف ہوجانے کا بہانا یا جبر و اکرا ہ کا باعث نہیں سمجھتا ۔البتہ اس نفسیاتی پہلو کی وضا حت سے پہلے ایک بات تمہید کے عنوان سے بیان کر نا ضروری ہے ۔
..............
١۔سورئہ منا فقون آیت٩۔
عالم خلقت کی خصو صیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسا نو ں کی تخلیق میںمختلف قسم کے فرق پائے جاتے ہیں ، اس حقیقت کا انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ تما م انسان مختلف اعتبار سے جسم ،رنگ،جنس اور عقل و شعور وغیرہ میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔خدا وند قدوس نے اپنی حکمتِ بالغہ کی بنیاد پر یہ فرق رکھا ہے اور یہی فرق خلقت کے نظامِ احسن کا ایک حصہ ہے البتّہ کسی بھی انسان کو ان تخلیقی اختلافات پراعتراض کر نے کاحق نہیں کیونکہ کسی کا کو ئی حق خدا کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ اس حق کے تلف ہو نے کو مد نظر رکھ کر پر ور دگا ر عالم پر اعتراض کر سکے ۔مثا ل کے طور پر کو ئی انسان خدا وند عا لم پر یہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ مجھے ایسا کیو ں بنایااور ویسا کیوں نہیں بنایا؟! اس''کیوں''کا کو ئی مطلب نہیںہے اس لئے کہ انسان خلقت سے پہلے معدوم تھا اور ظاہر ہے کہ ایک معدوم چیزوجود کے بعد موجدپر اعتراض کی قدرت نہیںرکھتی اور نہ ہی اسے اعتراض کا کو ئی حق ہے۔ خلقت کے بعد بھی جو کچھ اس کے پاس ہے وہ سب خدا وند عالم کا عطیہ ہے اور جو کچھ اس کے پاس نہیں ہے اس کی نسبت بھی اعتراض کا حق نہیں رکھتا ورنہ حقیقت میںیہ اعترا ض حکمتِ الٰہی پر اعتراض ہوگا اور اگر جان بوجھ کرکیا جا ئے اور عملی صورت اختیار کر لے تو یہ ایک طرح کا کفرہے ۔
یقیناً خدا وند قدوس نے جب انسانو ں کو پیدا کیا اور ان میں سے ہر ایک کو مخصوص استعداد کا مالک بنا دیااور اُن پراُن کی استعداد اور توانا ئیوں کے مطابق احکام عا ئد کر دیئے تو اس مقا م پر خدا وند عالم نے خود اپنے ذمہ بندوں کے کچھ حقوق رکھے ہیں اور وہ یہ کہ اگر کو ئی شخص اپنی استعداد سے فائدہ اٹھاکراطاعت ِخدا کی راہ میں قدم بڑھا ئے تو خدا اس کو اپنے لطف و کر م سے جزا دے گا ۔ پس انسان کا خدا وند عالم پر اولاً جوحق ہے خود خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے نہ یہ کہ انسان اپنی طرف سے اس پر کو ئی حق رکھتا ہے دوسرے یہ کہ یہ حق صرف فرائض کی ادائیگی کے مر حلہ اور نیک اعمال کی جزاء کے عنوان سے ہے تکو ینی مرحلہ اور انسانو ں کو وجود عطا کر نے کے مو قع سے تعلق نہیںرکھتاجیسا کہ خداوند عالم سورئہ روم میں ارشاد فر ماتا ہے :
(وَکَانَ حَقًّاعَلَیْنَا نَصْْرُالْمُوْمِنِیْنَ )(١)
''اور صا حبانِ ایمان کی مدد کر نا تو ہما را فرض تھا ''۔
..............
١۔سورئہ روم آیت٤٧۔
جی ہا ں، خدا وند عالم نے حقیقی مو منوں کی مدداپنا حق قرار دیا ہے اوریہ ذمہ داری اپنے ذمہ میں لی ہے لیکن تکوینی نظا م کے تحت مخلوقات میں فرق غیر قابلِ انکا ر ہے اور نظا مِ احسن کے اسباب میں سے ہے قر آ نِ کریم نے بھی اس حقیقت پر تا ئید کی مہر لگا تے ہو ئے سورئہ زخرف میںاعلان کیا ہے :
(وَرَفَعْنَابَعْضَھُمْ فَوْقََ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضاًسُخْرِیّاً۔۔۔ )(١)
''اور ہم نے درجات میںبعض کو بعض سے او نچا بنا یا ہے تا کہ ایک دوسرے سے کام لے سکے ''۔
سورئہ انعام میں ارشا د ہو تا ہے :
( وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقََ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْْ فِیْ مَائَ ا تَیٰکُمْ )(٢)
''اور بعض کے درجات کو بعض سے بلند کیا تا کہ تمھیں جو کچھ دیا ہے اس کے ذریعے آ زما ئے' '
البتہ چو نکہ یہ اختلاف حکمتِ الٰہی کے مطابق ہے لہٰذا قرآن اس کوایک مطلوب حالت سمجھتا ہے اور انسان کو دو سروں کو دی گئی نعمتو ں کی آرزو دل میں پالنے سے منع کر تاہے ۔ سورئہ نساء میں ارشا د ہو تا ہے :
(وَ لَا تَتَمَنَّوْامَافَضَّلَ اﷲُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَیٰ بَعْض۔۔۔ )(٣)
''اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچھ زیا دہ دیا ہے اس کی تمنّا اور آرزو نہ کر نا ''۔
بہر حا ل یہ تکو ینی اختلافات فطری طور پرمعا شرتی زند گی میں اثر انداز ہو تے ہیں جو شخص جسمانی طا قت ، ذہانت اور خلاقیت کی دوسروں سے بہتر صلا حیت رکھتا ہے جب اس استعداد و قابلیت سے صحیح استفا دہ کر تا ہے، مادی نعمتو ں سے زیا دہ بہرہ مندہو تاہے البتہ جیسا کہ ہم بیا ن کر چکے ہیں کہ ما دی نعمتیں انسان کی سعا دت اور کرامت کی علا مت نہیں ہیں ،بزر گی تواس وقت آتی ہے کہ جب انسان اپنے اختیار سے راہِ راست کا انتخاب کرے ۔ قرآ ن یہ نہیں کہتا ''اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَعْلَمَکُمْ ''ممکن ہے کسی کے پاس بہت زیا دہ علم ہو لیکن ا س کے با وجود وہ جہنمی ہو ،بزر گی کا معیا ر تو تقویٰ ہے اور کچھ نہیں ۔
اس تمہید کے بعدآئیے اصل بحث کا جا ئزہ لیتے ہیں ؛ ما دی نعمتو ں کی فراوانی کبھی بھی فضیلت اور بزر گی کاسبب
..............
١۔سورئہ زخرف آیت ٣٢۔
٢۔سورئہانعام آیت ١٦٥ ۔
٣۔سورئہ نساء آیت ٣٢۔
نہیں ہوتی مگرقر آ نِ کریم اس با ت کو بھی قبول کر تا ہے کہ جب معا شرے کے کچھ افراد مادی وسائل کے سہارے مخصوص مقا م اور عہدہ حا صل کر لیں تووہ معا شرے کے دوسرے ا فرا د پر مؤثر ہو سکتے ہیں۔ہر شخص کے اندر ایک کمزوری ہے جو عام طور سے پا ئی جاتی ہے اور وہ بزرگوں کی اند ھی تقلید کر نا ہے ؛لوگوںکے اندر یہ بچکا نہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ بڑے آ رام سے معا شرے کی ممتا ز شخصیتو ں کی پیر وی کر تے ہیں اور خود کو ان ہی کے کر دار میں ڈھالنے کی کو شش کر تے ہیں ۔ پس جس طرح دولت اورمعاشرتی مقام و حیثیت خودصا حبِ دولت و منصب کے غرور
اور سر کشی کا سبب ہے اسی طرح دوسرو ں کو اندھی تقلید پر بھی ابھارتی ہے یہ جھکاؤ ایک نفسیا تی امرہے اور قرآ ن نے بھی اس کو ایک حقیقت کے عنوان سے قبو ل کیا ہے ؛ اسی حقیقت کی بنا پر اہلِ دوزخ کے ایک گروہ کے با رے میں قرآن کہتا ہے :
(وَقَالُوْارَ بَّنَااِنَّآاَطَعْنَاسَادَتَنَاوَکُبَرَآئَنَافَاَضَلُّوْنَاالسَّبِیْلاَ۔ رَبَّنَائَ اتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذ َابِ وَالْعَنْھُمْ لَعْناًکَبِیْراً )(١)
'' اور وہ لوگ کہیں گے کہ ہم نے اپنے سر دا روں اور بزر گو ں کی اطا عت کی تو انھو ں نے ہمیںراستہ سے
بہکا دیا اب ان پر دو ہرا عذاب نا زل کر اور اور ان پر بہت بڑی لعنت کر '' ۔
مگر قر آ ن کی طرف سے اس حقیقت کی تصدیق کا مقصدہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم اس کو جبراور مجبوری قرار دے کر ذمہ داری کا سبب قرار دیدیںکیونکہ جو لو گ اپنی گمرا ہی کی ذمہ داری قو م کے بڑے لو گو ں کی گر دن پر ڈالتے ہیں ان کا عذر قابلِ قبول نہیں ہے ۔ اگر چہ انسان میں تقلید اور بڑوں کے بتا ئے ہو ئے راستہ پر چلنے کا عنصر پا یا جا تا ہے اور اس کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن تا ریخی تجربات کی روشنی میںخدا نے انسان کوان امو رکا مقابلہ کر نے کی قوت و صلاحیت بھی دی ہے ۔
ہما ری اس گفتگوکا لب لباب یہ ہے کہ اسلام انسان کے ارادہ اور اختیا ر کے سلسلہ میں بہت زیا دہ اہمیت قا ئل ہے اور اسی کو اصل سمجھتا ہے لہٰذا اختیاری کامو ں کے دائرہ وحدود میں کسی بھی عذر کو قبو ل نہیں کر تا ۔ اس بات کا شاہد کہ '' ا س طرح کے نفسیاتی پہلو انسان پراس کے اختیار ات کے راستہ سرے سے بند نہیں کر تے ''یہ ہے کہ بہت سے مستضعفین اگرچہ سماجی اعتبار سے ایک دم نچلے درجہ پر تھے مگر اس کے با وجود معا شرے کی بڑی شخصیتو ں سے متأثر
..............
١۔سورئہ احزاب آیت٦٧۔٦٨۔
ہوئے بغیر انبیاء پرایمان لے آئے۔ مثال کے طور پر حضرت نوح کی قوم کے سر کردہ افراد آپ سے کہا کر تے تھے :
( قَا لُوْاأَنُوْمِنُ لَکَ وَ اتّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ )(١)
'' ان لو گو ں نے کہا ہم آپ پر کس طرح ایمان لا ئیں؟! جب کہ آ پ کے تمام پیر و طبقہ کے لوگ ہیں''۔
اور سورئہ ہود میں ارشا د ہو تا ہے :
(۔۔۔ وَمَانَرَیٰک اتَّبَعَکَ اِلاَّالَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَابَادِیَ الرَّأْیِ۔۔۔ )(٢)
''اور ہم تمہا ری اتباع کر نے وا لو ں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہما رے پست طبقہ کے سادہ لو ح افراد ہیں '' ۔
معلوم ہوا اس زمانہ کے غلط رسم و رواج کی بنا پر جو لوگ ''اراذل ''(نیچے طبقے والے)کہے جا تے تھے وہ خداکے پیغمبر پر ایمان لا کر اور قوم کے سر دا روں کی تقلید کے خلاف اقدام کر کے نجات پا گئے پس ایسا نہیں ہے کہ اگر معاشرہ کا کو ئی گروہ ''ارذلین '' (یعنی پست طبقے )کے زمرہ میں آتاہو تووہ معاشرہ کی فضا سے اتنا گھٹ جائے کہ اس سے ڈٹ کر مقابلہ کر نے کی قوّت ہی نہ رکھتا ہو ۔ مختصر یہ کہ انسان ایسے مستقل ارادہ کا ما لک ہے جس سے وہ ان تمام نفسیاتی اسباب کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا ہے ۔
فلسفۂ تا ریخ کے بارے میں ایک نکتہ
زیر بحث آیات سے ایک اور نتیجہ جو حا صل ہو تا ہے وہ فلسفۂ تا ریخ کی ایک بحث سے تعلق رکھتا ہے ۔فلسفۂ تا ریخ سے آشنا ایک گروہ کا خیال ہے کہ تا ریخی تغیرات ہمیشہ تر قی کی طرف گا مزن ہو تے ہیں اور جبر تاریخ اس چیز کا تقا ضا ہے کہ معا شرے ہمیشہ تر قی کر تے رہیں اور تا ریخ کا ہر دور پہلے والے دور سے ممتا زاورزیادہ کامل ہو ۔
قرآنِ کریم کی آیا ت کے تحقیقی جا ئزے سے یہ بات واضح و روشن ہو جا تی ہے کہ مند رجہ بالاعقیدہ قر آن کی رو سے درست نہیںہے ؛ایسا نہیں ہے کہ ہر نیا معا شرہ قدیم معا شرہ سے معنوی اورما دی لحا ظ سے زیادہ کامل ہو ۔ مثال کے طور پر قرآن کریم معا شروں کی ما دی ترقی کے متعلق سورئہ روم میں ارشاد فر ماتا ہے :
(اَوَلَمْ یَسِیْرُوْافِیْ الٔاَرْضِ فَیَنْظُرُوْاکَیفَ کَانَ عَٰقِبَةُ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِھِمْ کَانُوْااَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّةً وَاَثَارُوْاالْاَرْضَ وَعَمَرُوْھَآ اَکْثَرَمِمَّاعَمَرُوْھَا ۔۔۔)(٣)
'' کیا یہ لوگ رؤے زمین پر چلے پھر ے نہیں ہیںکہ دیکھتے جو لوگ ان سے پہلے گذر گئے ان کا انجام کیا ہوا؟
..............
١۔سورئہ شعراء آیت١١١۔
٢۔سورئہ ہود آیت ٢٧۔
٣۔ سورۂ روم،آیت٩۔
حالانکہ وہ لوگ قوّت میں ان سے کہیں زیادہ قوی تھے اور جس قدر زمین اُن لو گوں نے گوڑکرزراعت کے ذریعہ آباد کی ہے اس سے کہیں زیادہ زمین ان لو گوں نے آباد کی تھی ۔۔۔'' ۔
اس آیت سے یہ پتہ چلتاہے کہ پہلے کے بعض معاشر ے اور تہذیبیں علم اور ما وی صنعت کے اعتبار سے جدید معاشروں سے کہیں زیا دہ تر قی یا فتہ تھے ۔ بنیادی طورپرتا ریخ بشر یت میں بہت سی ایسی در خشاں تہذیبیں تھیں جو کچھ اسباب کی وجہ سے ختم ہو گئیں اور بعدمیںآنے والے معاشرے مد توں تک ان کے علمی آثار اورفنی وسائل سے محردم رہ گئے اس بنا پریہ لا زم نہیں ہے کہ انسانی تمدن ہمیشہ مادی ترقی کی راہ پرہی گا مزن رہاہو۔
روحانی ترقّیوں کے اعتبار سے بھی یہ بات روشن ہے ممکن ہے کہ ایک معاشرہ اپنے اختیار و انتخاب سے صحیح فائدہ اٹھاکر مو من ہو اور اس کی آئندہ نسلیں اپنے غلط انتخاب کی بنا پر کفر کا راستہ اختیار کرلیں ۔ لہٰذا کو ئی ایسی دلیل موجو د نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ جبر تاریخ کی بنا پر ہرمعاشرہ اپنے پہلے کے معاشروں کی ثقافت سے بالاترہو اور اس سے زیادہ روحانی اور اخلاقی اقدارر کھتا ہو ۔
البتہ اسلا م کی پیشینگو ئی کی بنیاد پر زمین پر ظا ہر ہو نے والا سب سے آخر ی معا شرہ ما دی اورمعنوی لحا ظ سے تا ریخ ِ انسانیت کا سب سے بہتر اور بلند معا شرہ ہو گا لیکن یہ معا شرہ جبرتا ریخ کی اساس و بنیا د پر نہیںبلکہ اپنے زما نہ کے لوگوں کے ذریعہ اختیار و انتخاب کے صحیح استعمال کے سبب مادی اور معنوی تر قیاںحاصل کرے گا اور خداوند عالم بھی اپنے انعام و اکرام سے ان کی نعمتوں میں اضافہ کر دے گا ۔ اس نکتہ کو بھی یاد رکھنا چا ہیٔے کہ سما جیات اور فلسفۂ تاریخ سے متعلق قوا نین و ضوابط کہ جن میں جبراور ایک دم سے انسان کے ہاتھوں سے اسکے اختیارات سلب کرلئے جا نے کی باتیں ہیں یہ سب قرآن کے نز دیک ہر گز قابل قبول نہیں ہیں۔
خا تمیت
نبو ت کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا خدا کی جا نب سے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا یا کسی خاص زمانہ میں ختم بھی ہو سکتا ہے اسلام کے نقطۂ نگاہ سے اس سوال کا جواب با لکل واضح و روشن ہے اور کسی شک و شبہ کی گنجا ئش نہیں ہے؛ اسلام کے ضروریات میں کہ جن کا ما ننا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ایک یہ ہے کہ رسول اسلام ۖ انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کے آخری نبی ہیں اور آنحضرت ۖ کے بعد کو ئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا اور نہ ہی اب مستقبل میں مبعوث کیا جائیگا ۔یہ اسلامی عقیدہ اتنا مشہور و معروف ہے کہ دو سرے مذاہب والے بھی بخوبی جا نتے ہیں کہ اسلام خاتمیت کا قائل ہے۔ اسلامی تعلیمات سے معمولی آشنائی رکھنے والا بھی اس بات کو بخوبی جا نتا ہے کہ مسلمانوں کے نظریہ کے مطابق پیغمبر اکرم ۖ (خاتم الا نبیاء ) اور آپ کا دین (خاتم الا دیان) ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا قرآن کریم میں اس عقیدہ کے شواہد مو جو د ہیں یا نہیں؟
ہم گذشتہ ایک بحث میں ( پیغمبر اسلام ۖ کی دعوت کے عالمی ہو نے ) سے متعلق کچھ آیات پیش کرچکے ہیں جن سے اِس بحث میں بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ؛
سورئہ فر قان میں ارشاد ہو تا ہے :
( تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الفُرْقَانَ عَلَٰی عَبدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَٰلَمِیْنَ نَذِیِْراً)(١)
''با بر کت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان (حق کو باطل سے جدا کرنے والی کتاب) نازل کی تا کہ وہ سارے جہان کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جا ئے''۔
اس آیت سے (ایک کامل آخری دین کی حیثیت سے ) خاتمیت اسلام کا استفادہ کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ عالمین کسی خاص زمانہ سے مخصو ص نہیں ہے جب تک دنیا قائم ہے ہر ایک امت چا ہے وہ کہیں بھی ہو (عالمین )
..............
١۔سورئہ فرقان آیت ١۔
کا جزء شمار ہو گی اور رسول اسلام ۖبھی ان کے لئے( نذیر ) یعنی ڈرانے والے ہوں گے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ آخر الزماں تک کو ئی دو سرا رسول و نبی مبعوث نہیں کیا جائیگاایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے :
( ۔۔۔ وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ھَٰذَاالقُرآنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ ۔۔۔)(١)
'' اور یہ قرآن مجھ پر وحی کے ذریعہ اس لئے نازل کیا گیا کہ میں تمہیں اور جس جس تک ( اسکی خبر پہنچے ) اسکے ذریعہ اُسے ڈرائوں ''۔
لفظ ( مَن بَلَغ )رسو ل اسلام ۖ کے دور حیات میں مو جو د تمام انسانوں کے ساتھ آئندہ زمانے کے بھی تمام انسانوں کو شامل ہے اور اس کا مطلب وہی خاتمیتِ دین اسلا م ہے ۔
ایک اور جگہ ارشا د ہو تا ہے :(وَمَااَرْسَلْنَاکَ اِلَّاکَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِیْراًوَنَذِیْراً۔۔۔) (٢)
'' اور ہم نے تم کو نہیں بھیجا مگر تمام لو گو ں کے لئے خو شخبری دینے اور ڈرا نے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لو گ نہیں جا نتے ''۔
مفسرین کے کہنے کی بنیا دپر لفظ ''کا فةً ''''ناس '' کے لئے حال کے طور پر استعمال ہو ا ہے اس لئے کہ ا ولاً ''تائے تا نیث ' ' کے ساتھ آیا ہے دوسرے یہ کہ قرآ ن کریم میں دو سرے مقا مات پر بھی اسی عام معنی میں استعما ل ہواہے۔(٣)
اس بیان کے اعتبار سے آیت کا مد لول یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖکے ہم عصر افراد اور جو لوگ بعد میں آئیں گے سب انذار کے مخا طب ہیں، اور دعوت اسلام ان کو بھی شا مل ہے ۔ اس صو رت میں دو سرے نبی کا کو ئی تصو ر ہی با قی نہیں رہ جا تا ۔
اس طرح کی تمام آیات کے علا وہ بھی جن میں سے ہر آیت کسی نہ کسی عنوان سے ہما رے مد عا کو ظا ہر کر تی ہے،ایک آیت اور بھی ہے جو خا تمیت پر صاف صاف دلالت کر تی ہے ار شا د ہو تا ہے :
(مَاکَا ن مُحَمَّدَ اَبَآ أَحَدٍ مِنْ رِّجَا لِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْ لَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔۔۔)(٤)
..............
١۔سورئہ انعام آیت١٩۔
٢۔سورئہ سبأ آیت ٢٨۔
٣۔لفظ'' کا فّةً' زیربحث آ یت کے علا وہ بھی اور دو سری چا ر آ یتو ں میں استعما ل ہو ا ہے کہ ان سب مقامات پر عمومیت کے معنی پر دلالت کر تا ہے ''۔
٤۔سورئہ احزاب آیت ٤٠۔
''محمد تمہا رے مر دوں میں کسی کے با پ نہیں ہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول اورخاتم انبیاء ہیں ''۔
اگر چہ یہ آیت اپنے منھ بو لے بیٹے زید کی طلاق شدہ سے پیغمبر اسلام ۖکی شادی کے جواز کو بیان کررہی ہے لیکن اس میں ضمناًخا تمیت کامسئلہ بھی بیان کیا گیاہے ۔
قبل از اسلام اپنے منھ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بھی شادی نہ کرنے کا دستور تھا خداوند عالم نے اس غلط رسم کو منسو خ کرنے کی خاطر رسول اسلام ۖ کوحکم فرمایا کہ زید کی مطلقہ سے شادی کرلیں ۔ اس کے بعد آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖکے دور حیات میں کو ئی ایک بھی آنحضرت ۖکا حقیقی بیٹا نہیں ہے اور زید بھی صرف آنحضرت ۖکے منھ بولے بیٹے ہیں(حقیقی بیٹے نہیںہیں ) ۔ اس بناء پر زید کی مطلقہ سے شادی کرنے میںپیغمبر کے لئے کو ئی ما نع نہیں ہے۔
اس بناء پر صدرِ آیت ایک فقہی اور تاریخی مسئلہ سے مر بو ط ہے لیکن آیت کے ذیل میں''خاتم النبیین'کا لفظ رسول اسلام ۖکی خاتمیت پرنص ہے ۔ قرائت مشہور کے مطابق
'' خَا تَمْ '' تا ء پر زبر انگشتری (انگو ٹھی )کے معنی میں ہے لیکن انگشتری کے لئے ایک لفظ ''ختم'' کے مادہ سے کیوںبنا یاگیا اس کی دلیل یہ ہے کہ گذشتہ زمانہ میں عام طور سے خطوط کے آخر میںپیغامات کو لپیٹ کر اُن کے لفافہ پر انگوٹھی کی مہر لگادیتے تھے چونکہ خطوط کی انتہا اسی پر ہو ا کرتی تھی لہٰذا اس کو خاتم کہا کرتے تھے ۔ اہل زبان کے بقول ''خاتم ''کا مطلب''مایخُتَمُ بِہِ''ہے یعنی جس کے ذریعہ کو ئی چیز ختم ہو ۔ اس بنیاد پر ''خاتم النبیین'' یعنی ''مَنْ یَختَم بِہِ النُبُوَّ ة''(وہ کہ جس پر نبوت ختم ہو جا ئے) اور اس معنی کو تمام اہل لغت نے بیان کیا ہے ،کسی نے بھی اس میں شبہ نہیں کیا ہے پس آیہ شریفہ کے اس حصّہ کا واضح مد لول یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے مبعوث ہو نے کے بعد انبیاء کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی لا ئق ذکرہے کہ خاتمیت اسلام کی بات صرف قرآن سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ پر متعدد روا یات بھی دلالت کرتی ہیں جو ہماری کتب احا دیث میں مو جو د ہیں۔ مثال کے طور پر پیغمبر اسلام ۖسے
مروی ہے : نبوت ایک محل کی مانند ہے جس کی آخری اینٹ میں ہوں اور میرے آنے کے بعد اس محل کی عمارت مکمل ہو گئی ہے ۔(١)
خلا صۂ کلام یہ کہ قرآن اور اسلامی روایات کی رو سے خاتمیت کے مسئلہ میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں پایا جاتا البتہ اس با رے میں بے شمار شبہات پیدا کئے گئے ہیںجن کا ایک جا ئزہ پیش کر دیناقا رئین کرا م کے لئے ضرورمفید ثابت ہو گا ۔
..............
١۔ مو جودہ دور کے ایک دا نشمند نے کتاب ( معالم النبوّة) میں ٤٥ حدیثیں اس باب میں جمع کی ہیں او ر اس سے بڑھکر یہ کہ خاتمیت کے اثبات میں مبسوط بیان قلمبند کیا ہے ۔ رجوع فر مائیے : جعفر سبحانی معالم النبو ة فی القرآن الکریم بیر دت دار الا ضواء ٤٠٥ ھ صفحہ ١٤٨سے١٨٠۔
|