راہ اور رہنما کی پہچان
 

انبیاء علیہم السلام سے اختلاف کی سنت
الٰہی سنتوں میں سے ایک اور سنت جو بحث نبوت کے ساتھ بھی قریبی تعلق رکھتی ہے یہ ہے کہ الٰہی فیصلہ ہمیشہ سے یہ رہاہے کہ انسانوں اورجنوں کا ایک گروہ انبیاء علیہم السلام کے مقابلے میں صف آرایی کرے اور مخالفت کا پرچم بلند کرکے لوگوں کو فریب اور دھوکادیتا رہے ۔ اس سلسلے میں بہت ہی واضح بیان ، سورئہ انعام کی آن آیتوں میں ملتا ہے :
(وَکَذَٰلِکَ جَعَلْنَالِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّاشَیَٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلَیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْراًوَلَوْشَائَ رَ بُّکَ مَافَعَلُوْہُ فَذَرْھُمْ وَمَایَفْتَرُوْنَ۔وَلِتَصْغَیٰ اِلَیْہِ أَفْئِدَ ةُالَّذِ یْنَ لََایُوْمِنُوْنَ بِالآخِرَةِوَلِیَرْضَوْہُ وَلِیَقْتَرِفُوْامَاھُمْ مُقْتَرِفُوْنَ) (١)
''اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جنات و انسان میں کچھ شیاطین کو ان کا دشمن قرار دے دیا کہ ان میںبعض ،بعض کو دھو کہ دینے کے لئے چکنی چپڑی باتیںبناتے ہیں اوراگر تمہارا خدا چاہ لیتا تویہ ایسا نہ کرسکتے لہٰذا اب
..............
١۔سورئہ انعام آیت١١٢۔١١٣۔
آپ انھیں ان کے جھوٹ اورافتراء کے ساتھ چھو ڑدیں اور یہ اسی طرح(مقرر کیا جاچکا ہے)تا کہ جن لو گوں کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل ان کی(غلط باتوں کی) طرف مائل ہو جا ئیںاور وہ اسے پسند کر لیں تا کہ جو کچھ ان کے ہاتھ کرنا چاہتے ،ان کے ہاتھ آجائے ''
بظاہرآیۂ مبا رکہ سے اس بات کا اظہار ہو تا ہے کہ یہ مسئلہ ایک الٰہی سنّت کے عنوان سے تمام نبیوںاور ان کی امتوں میں جا ری اور ساری رہا ہے کہ جب بھی کو ئی پیغمبر مبعوث ہو تاان کے مقا بلہ میںجنوں اورانسانو ںکے شیطانی گروہ صف آرائی کر تے تھے اور مخا لفت پر اڑ جا تے تھے البتہ وہ یہ مخا لفت اپنے ارادئہ واختیا ر سے کر تے تھے الٰہی مشیت و ارادہ ان کے کا مو ں میں ما نع نہیں ہو تا تھا تا کہ اس طرح سے حق و با طل کے دو نوں راستے آ شکا ر ہوجائیں اور لو گ دو نوں میں سے کسی ایک کا انتخا ب کر لیں۔اگر کو ئی ایسا گرو ہ نہ ہو جو با طل کی تبلیغ کر ے اور لو گو ں کو اس کی طرف دعوت دے تو انسانو ں کی آ زما ئش کے لئے ماحول فر ا ہم نہیں ہو گاجبکہ خدا کی سنتو ں میں سے ایک سنت آزمائش بھی ہے اور بنیادی طور پراس دنیا میں انسان کی خلقت کا مقصدہی اس کا امتحا ن ہے (لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں امتحا ن کا لا زمہ یہ ہے کہ حق و با طل کے دو نو ں راستے کو انسان کے سامنے کھلے ہوںاور ہر ایک کے مخصو ص مبلغ بھی ہوں ۔ حق کا راستہ دکھا نے وا لے پیغمبر اور (قرآن کی رو سے) باطل کی طرف دعوت دینے وا لے شیطا ن صفت انسان اور جنات ۔ معلوم ہوا اس نظامِ احسن میں اس گروہ کا ہو نا بھی ضرو ری ہے ورنہ الٰہی امتحا ن کے لئے کامل ماحول فرا ہم نہ ہو سکے گا ۔
شیطان صفت انسانوں کی جانب سے ہمیشہ انبیا ء علیہم السلام کی مخا لفت کے علا وہ اس آیت میں شیاطین کی مخا لفت کے طریقوں کی طرف بھی اشا رہ کیا گیا ہے (یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْ لِ غُرُوْراً) ''یہ شیا طین آپس میںچکنی چپڑی دل فریب با تیںاور اشارے کر تے ہیں '' چنانچہ اگر وحی میں لفظ (یوحی) سے چپکے چپکے خفیہ قسم کی گفتگو مرادہو تو اس کا مصدا قِ تام جنوں کے وہ شیطا نی وسوسے ہوں گے جو غیر محسوس طور پر معصیت کار لو گو ں کے دل و جان میںشعلہ ور ہوجاتے ہیں ۔البتہ یہا ں یہ بھی ممکن ہے کہ عام معنی مد نظر ہو ں اور اس آیت میں (وحی) ہرطرح کی مخفی با ت کو شا مل ہو ۔ اس صورت میں آیت، انسا ن نما شیطا نوں کی کانا پھوسی کو بھی شامل ہو جا ئے گی یعنی وہ تمام خفیہ با تیں جو لو گو ں کو فریب دینے کے لئے آہستہ آہستہ کی جا تی ہیں ۔ بہرحال وحی کا واضح مصداق وہی شیطا نی وسوسے ہیں اس لئے ''وحی'' اصل میں چپکے چپکے اسرارو رموز میں بات کرنے کو کہتے ہیںاورچو نکہ شیطان کا وسو سہ کھلم کھلا نہیں ہو تا اور انسان اس کی طرف متو جہ بھی نہیں ہوپا تا لہٰذا اس کووحی کہا گیا ہے ۔ اس بنا ء پر وحی کے معنی میں بہت زیادہ وسعت ہے حتی اس میں شیطا نی وسوسے بھی شامل ہیں ۔

وحی کی حقیقت
یہا ں پر وحی کے مفہوم سے متعلق مختصر طور پر ایک اہم بات کی وضاحت کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے؛ ایک گروہ نے انبیا ء علیہم السلام پر ہو نے والی وحی کو ایک قسم کا انجانا ادراک قرار دیا ہے جس کو صرف نبی محسوس کر تا ہے ، اور اسی طرح انھو ں نے وحی کی علمی تفسیر کر نے کی کو شش کی ہے ان کی نظر میں انبیا ء علیہم السلام پرکی جا نے والی وحی کی با لکل اُس وحی کے جیسی ہے جو قر آ ن کے الفاظ میں شہد کی مکھی پر ہو ئی ہے دونوں کی حقیقت ایک ہے لیکن یہ نظریہ غلط ہے اس تا ویل کو نہیں قبول کیا جا سکتا؛ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ لغت میں وحی چپکے چپکے گفتگو کر نے کو کہتے ہیں چاہے وہ کسی کے ساتھ ہو ، لہٰذا اس آیت میں شیا طین کی مخفی گفتگو اور وسو سے کو وحی کہا گیا ہے ۔ اس بنا ء پر وحی کے مختلف مصا دیق ہیں جو حقیقت کے اعتبار سے مکمل طور پر ایک دو سرے سے جدا ہیں ۔ لفظی مشا بہت اس بنا پر ہم مختلف مقامات پر استعمال ہونے والے لفظ وحی کی حقیقت و ما ہیت کو یکساں خیال نہ کریں اس بات پر توجہ رہے کہ قرآ نِ کریم کی تفسیرمیں الفا ظ کے لغوی مادوں کو دیکھ لینا کا فی نہیں ہے بلکہ ان کے استعمال کے مقاما ت پر غور و فکر کے ساتھ ہر ایک کی خصو صیت کو تلاش کر نا چا ہئے ۔
بہر حال شیا طین چا ہے وہ انسان ہوں یا جنات ، ایک دوسرے کو اندر سے ور غلا تے ہیں اور لو گو ں کو دھو کا دینے کی نیت سے ایک دو سرے کے ساتھ چپکے چپکے باتیں کر تے ہیں اور ان کی گفتگو بھی چکنی چپڑی دلکش اور مؤثر ہوتی ہے ۔ خدا وند عا لم اس آیت میں اپنے پیغمبر کو آگا ہ کر نے کے لئے ایک بالا حقیقت سے پردہ اٹھا یاہے اور اعلان کیاہے کہ یہ سب کچھ ایک الٰہی سنت کے مطا بق ہے اور ان شیا طین کی صف آرا ئی سے نہیں ڈ رنا چا ہئے اگر چہ خدا وند عا لم ان کو روکنے پر قا در ہے مگر اس کی مشیت کا تقا ضایہ ہے کہ وہ آ زاد رہیں ۔ آیت میں آگے بڑھکر جس کی حکمت کی طرف اشارہ مو جودہے (وَلِتَصْغیٰ اِلَیْہِ اَفْئِدَ ةُ الَّذِیْنَ لَاْ یُوْمِنُوْنَ بِا لاٰ خِرَةِ۔۔۔)''اور یہ اس لئے ہے کہ جن لوگوں کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل ان کی طرف مائل ہو جا ئیں ۔۔۔''یہ کا فروں کی و ہی آزمائش ہے ؛وہ لوگ جو اپنے اختیار سے غلط فا ئدہ اٹھا کر آخرت پر ایمان نہ لا ئیں اور دنیا کی محبت ان کے ایما ن میںرکا وٹ میںمانع بن جا ئے مزید گمراہی کے مستحق ہیں اور یہ شیا طین ان کی گمراہی کا وسیلہ فرا ہم کر تے ہیں ان کی یہ پر فریب با تیںکا فرقبول کر لیتے اور دل و جان سے مان لیتے ہیں ''اَصْغیٰ اِلَیْہِ ''یعنی اس کو غور سے سننا ،لیکن آیت میں ''لِتَصْغیٰ اِلَیْہِ اَفْئِدَة۔۔۔''کی حسین تعبیراستعمال ہوئی ہے یعنی کا فر کا نوں سے نہیں اپنے دل کے کا نوں سے شیطانی وسوسوں کا استقبال کرتے ہیں ،ان پر خوش ہو تے ہیں اور آخر میں اپنے برے انجام تک پہنچنے کی خا طر انھیں شیطانی کا موں کو انجام دیتے ہیں۔
درج ذیل آیت کا مضمون بھی مذکو رہ آیت کے مشابہت رکھتا ہے :
(وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاًمِنَ الْمُجْرِمِیْنَ وَکَفَیٰ بِرَبِّکَ ھَادِیاً وَ نَصِیْراً)(١)
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے گنہگا روں میں سے کچھ دشمن قرار دیدئے ہیں اورہدایت وامداد کے لئے تمہارا پر ور دگار کا فی ہے '' ۔
اس آیت سے بھی استفادہ ہو تا ہے کہ ہر ایک پیغمبر کے مقابلہ میں مجرموں کا ایک گروہ رہا ہے جو نبی کی مخالفت اور دشمنی کر تا چلا آیاہے ۔ہر چند الٰہی ہدایت اور نصرت بندوںکے لئے کافی ہے مگر الٰہی امتحان کی سنت پر عمل در آمد ہو نے کے لئے ضروری ہے کہ ایک گروہ راہ حق کی مخالفت کرنے اور باطل راستے کی طرف راہنما ئی کرنے والا مو جود ہو ۔
اسی حقیقت کو سورئہ حج کی آیات میں ایک دوسرے طریقہ سے بیان کیا گیا ہے :
(وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ وَلَانَبِیٍ اِلَّااِذَاتَمَنَّیٰ اَلْقیَ الشَّیْطَانُ فِی اُمْنِیَّتِہِ فَیَنْسَخُ اللہُ مَا یُلْقِیْ الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللہُ ئَ ایَاتِہِ وَاللَّہُ عَلِیم حَکِیْم )(٢)
''اورہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجامگر جب بھی اس نے تلاوت کا ارادہ کیا تو شیطان نے اپنے رسولوں کے ذریعہ اس میں رکا وٹ ڈالی تو پھرخدا نے شیطان کی رکا وٹ کو مٹا دیا پھر اپنی آیا ت کو مستحکم بنا دیا کہ وہ بہت جا ننے والا اور صا حب حکمت ہے ''۔
اس آیت سے واضح ہے کہ جب بھی کو ئی پیغمبر دل میں سوچتا تھا کہ کس طرح الٰہی دعوت کو پھیلا یا جا ئے اور اہل دنیا کی ہدایت کی جا ئے تو شیطان سا زش کر تا کہ انبیاء علیہم السلام کی یہ فکر عملی جامہ نہ پہن سکے لیکن خدا اس کے تمام
..............
١۔سورئہ فرقان آیت٣١۔
٢۔سورئہ حج آیت ٥٢۔
ارادوں کو ناکام بنا دیتا تھا ۔رہا یہ مسئلہ کہ شیطان کی سا زشوں اور وسوسوں سے کیا آثار مر تب ہو تے تھے بعد کی آیت میں اس کی اس طرح وضاحت ہو تی ہے :
( لِیَجْعَلَ مَایُلْقِی الشَیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَض وَالْقَاسِیَةِ قُلُوْبُھُمْ وَاِنَّ الظَّا لِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ )(١)
''تاکہ شیطان جو( وسوسہ) ڈالتا ہے تو خدا اسے ان لوگوں کی آزمائش (کا ذریعہ) قرار دے کہ جن کے دلوں میں (کفر کا ) مرض ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور بیشک (یہ) ظالم (مشرکین ) دور دراز کی مخا لفت میں (پڑے) ہو ئے ہیں''۔
اس بنا ء پرجن لوگوں کی روح بیمار ہے اورجن کا دل سخت ہو چکا ہے انبیاء کی دعوت کے مقابل کے ذریعے شیطانی وسوسوں کی وجہ سے ان کا امتحان ضروری ہے گمرا ہی کا راستہ طے کرنے میںان کی امداد کی جاتی ہے۔ دوسری طرف مو منوں کا بھی الٰہی امتحان ضروری ہے کہ شیطانی وسوسوں سے متأثر نہ ہوں اور یہ جا ن لیں کہ حق وہی ہے جو پیغمبر پر نا زل ہوا ہے اگرچہ شیطان ان کو گمراہ کرنے کے در پے رہے لیکن خدا اپنے اولیاء کو سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے:
( وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَیُوْمِنُوْابِہِ فَتُخْبِتَ لَہُ قُلُوْبُھُم وَاِنَّ اﷲَ لَھَادِالَّذِ یْنَ آمَنُوْااِلَیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ )(٢)
''اور اس لئے بھی کہ صا حبا نِ علم کومعلوم ہو جا ئے کہ یہ (قرآن ) حق ہے(اور) آپ کے پرور دگا ر کی طرف سے ہے اور اس پر وہ ایمان لے آ ئیں اور پھر ان کے دل اس کی با رگاہ میں جھک جا ئیں اور یقیناً اﷲ ایمان لانے وا لو ں کی سیدھے راستے کی طرف ہدا یت کر نے والا ہے '' ۔
یہا ں تک تو ہم نے قر آ ن کی رو سے خدا وند عالم کی اہم سنتو ں کا جا ئزہ لیا ہے اب علوم سما جیات اور نفسیات کی شناخت کے بعض ایسے اصو لوںکے با رے میں مختصر سی بحث منا سب معلوم ہوتی ہے جو مذ کو رہ آیات سے حاصل ہو تے ہیں ۔
ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ کی انبیاء علیہم السلام کے سا تھ لو گو ں کے رویّے اور ان کی امتوں کے ساتھ خدا کے
..............
١۔سورئہ حج آیت ٥٣۔
٢۔سورئہ حج آیت ٥٤۔
رویّے سے متعلق جو آیات ہیں ان سے علوم سماجیات و نفسیات کے با رے میں اسلامی نقطۂ نگاہ سمجھنے کے لئے مسا ئل اخذ کیے جا سکتے ہیں اور ظا ہر ہے ان تمام مسا ئل کو اس طرح کی مختصر بحثو ں میں بیا ن نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ہم ان مسائل کی طرف صرف اشا رہ پر اکتفا ء کرتے ہیں کہ شاید اس سلسلے میں وسیع تحقیقات کے لئے زمین فراہم ہو جا ئے ۔

سما جیات میں اسلامی طرز تفکر سے متعلق چند نکات
١۔پہلا نکتہ یہ ہے کہ قر آ ن ِ مجیدنے مو جودات عالم کی تشریح اور سماجی تغیرات کی تو ضیح میں بھی اپنی وہی مخصوص روش اپنائی ہے یعنی اپنے مطالب کو توحید کا رنگ دیاہے اور ہر مقام پر مو جودات عالم کے ساتھ خداوند عالم
کے رشتے کو، جوتن تنہا حقیقی مؤثر ہے پیش نظر رکھا ہے، چنا نچہ جن آیات میں کسی بھی عنوان سے سما جی واقعات کا ذکر ہے اور ان کا جا ئزہ لیا گیا ہے اُن پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ ہمیشہ ان امور کو خدا وند عالم کی طرف منسوب کر نے پراسلام نے زور دیا ہے ۔
خدا وند عالم کی معرفت سے متعلق قر آنی بحثو ں میں ہم یہ بیان کر چکے ہیںکہ یہ قر آ ن کریم کا خاص اور عدیم المثال طریقہ ہے جو تربیت کے قیمتی آثار سے خالی نہیں ہے قرآن جس طرح قو انین ہستی اور موجودات عالم کی تشریح کے وقت ہر چیز کو الٰہی قضا و قدر کی طرف منسو ب کر تا ہے اسی طرح معا شرتی واقعات کے جا ئزوںمیں بھی اسی طریقہ کار کو اختیار کر تا ہے مثال کے طور پراس نے گز شتہ قو مو ں کے ختم ہو جا نے اور جدید قو مو ں کے ظا ہر ہو نے کی خدا وند عالم کی طرف نسبت دی ہے ۔ ارشا د ہو تاہے :
(فَاَ ھْلَکْنَا ھُمْ بِذُ نُوْبِھِمْ وَاَنْشَأ نَا مِنْ بَعْدِ ھِمْ قَرْناًآخَرِیْنَ )(١)
''پس ہم نے ان کے گنا ہو ں کی وجہ سے انھیں ہلا ک کر دیا اور ان کے بعد ایک دوسری نسل پیداکر دی ''۔
اوراس سے بھی بڑھکر معا شرہ کے ایک خا ص طبقے سے مربوط اعمال جو مکمل طور پر وہ خودانجام دیتے ہیں اوروہی اس کے آغاز و انجام کے ذمہ دار بھی ہیں، ان کو بھی قرآ ن کریم الٰہی مشیت اور ارادہ سے بے تعلق نہیں سمجھتا ۔ جس عمل کو ایک جگہ کسی خا ص شخص ،گروہ یا قوم سے منسوب کیا گیا ہے دو سری جگہ اسی کو ذرا بلند مر تبہ پر خدا وند قدو س سے منسو ب کیا گیا ہے ، یہ وہی مسئلہ ''امر بین الا مر ین' 'ہے یعنی تمام افعال اورمو جو دات عین اسی وقت کہ جب وہ اپنے قریبی فا علو ں سے نسبت رکھتے ہیں اور وہی ان کے ذمہ دار بھی سمجھے جاتے ہیںاس سے با لاترسطح پر خدا کے
..............
١۔سورئہ انعام آیت٦ ۔
افعال بھی شما ر ہو تے ہیں ۔
بہر حا ل یہ نکتہ قا بل غورہے کہ قرآن کریم نے اجتما عی موجودات کی تحلیل میں ایک بنیا دی اصل کے عنوان سے تا ریخ اور سما جیات کے میدان میں توحید افعالی اور ارادہ و مشیت الٰہی کے مسئلے کو بیان کیاہے اور ان امور کوالٰہی سرچشمہ سے الگ اور جدانہیں سمجھتا۔
٢۔ دوسرا نکتہ یہ کہ قر آ ن کریم نے کبھی بھی معا شرتی تبدیلیوں کا جا ئزہ لیتے وقت کسی کام کے انجا م دینے والے سے اس کی ذمہ داری کوسلب نہیں کیا ہے یعنی اگر چہ قر آ ن نے کسی بھی سماجی اور نفسیاتی محرک اور سبب سے غفلت نہیں برتی لیکن ان اسباب کو لوگوں کی ذمہ داری ختم ہو جا نے کی بنیاد بھی قرار نہیں دیا بلکہ اپنے تمام کا مو ں کے وہی ذمہ دار ہیں اِس پر تاکید کی ہے ۔ سورۂ مبا رکہ ٔ اسراء میںاس بات کو بڑے دلچسپ انداز میںبیان کیا گیا ہے :
( مَنِ اھْتَدَیٰ فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَایَضِلُّ عَلَیْھَاوَلَا تَزِرُ وَازِرَة وِزْرَاُخْرَیٰ وَمَاکُنَّامُعَذِّ بِیْنَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُوْلاً۔ وَاِذَااَرَدْنَااَنْ نُھْلِک قَرْیَةً اَمَرْ نَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْافِیْھَافَحَقَّ عَلَیْھَاالْقَوْلُ فدَ مَّرْنَٰھَا تَدْمِیْراً )(١)
''جو شخص بھی ہدا یت حا صل کر ے یہ اس کے اپنے فا ئدے کے لئے ہے اور جو گمرا ہی اختیار کر ے وہ بھی اپنا ہی نقصا ن کر تا ہے اور کو ئی کسی کا بو جھ اٹھا نے والا نہیں ہے اور ہم تو اس وقت تک عذاب نہیں کر تے کہ جب تک (اُن میں) کو ئی رسو ل نہ بھیج دیںاور ہم نے جب بھی کسی قریہ کو ہلا ک کر نا چا ہا تو اس کوخوش حالی کی راہ پر لگا دیاپس انھو ں نے وہاں برائیاں پھیلائیںاور فسق و فجور سے کام لیانتیجہ میں اس شہر پر عذاب لازم ہو گیا توہم نے اسے مکمل طو ر پر(زیر وزبر کر کے) تباہ کر دیا'' ۔
پہلی آیت کے ابتدا ئی حصہ میں اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کاخود ذمہ دار ہے اور کو ئی بھی کسی دو سرے کے گناہ کا بو جھ نہیں ا ٹھا ئے گا لیکن چو نکہ عمل کے سلسلہ میں ذمہ دا ری علم و آگہی کی بنیاد پر عائد ہوتی ہے لہٰذا آیت میں آگے بڑھکرخدا وند عالم فر ماتا ہے کہ ہم انبیا ء علیہم السلام کے بھیجنے اور ان پر حجت تمام کرد ینے سے پہلے کسی پرعذاب نا زل نہیں کر تے ۔ جی ہاں! کسی قوم پر خداوند عالم یوں ہی عذاب نازل نہیں کرتابلکہ وہ اس وقت عذاب کا فیصلہ کر تا ہے جب حجت تمام ہو جا ئے اور راہِ ہدا یت پوری طرح روشن ہو جا ئے اور اس کے با وجود
..............
١۔سورئہ اسراء آیات١٥۔١٦۔
لوگ دشمنی اورہٹ دھر می کی وجہ سے راہِ حق کو قبو ل کر نے سے گریز کر یں ۔اِ س حا لت میں لوگ اپنے کفرکے خو د ذمہ دار ہیں اور عذاب کے مستحق ہیں پس ہر انسان یا جما عت اپنی رفتا ر و گفتار کی خود ذمہ دار ہے ۔
دو سری آیت میںیہ بیان ہوا ہے کہ کسی کا فر اور دشمن حق قو م کی ہلا کت کا الٰہی فیصلہ کس طرح جامۂ عمل پہنتاہے ۔ اس آیت کی تھوڑی سی وضا حت ضرو ری ہے ۔ کیو نکہ عبا رت ''اَمَرْنَا مُتْرَ فِیْھَا'' کے بارے میں مفسّرین
کے در میا ن اختلاف ہے۔ ایک گر وہ نے فعل ( اَ مَرْنَا )کی میم تشدید کے ساتھ قرائت کی ہے اور اس کے معنی ''جَعَلَنَا مُتْرَفِیْھَا امرا ئ''یعنی (ثر وتمندوں کو رہروحا کم قرار دیا ) بیان کئے ہیں ۔ایک گرو ہ نے مذ کو رہ امر کوشرعی امر سمجھا ہے اور اس کے متعلّق کو محذو ف قراردیاہے (یعنی ہم نے ثر وتمند وں کو اپنی اطا عت کا حکم دیا )لیکن ظا ہری طو ر پر یہ تفسیرآیت کے ظا ہر ی معنی کے ساتھ سا زگا ر نہیں ہیں اور ''امر ''مذکو ر سے مرادامر تکوینی ہے ۔ اس بنا ء پر آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ جب بھی کو ئی قوم اپنے غلط انتخا ب کی وجہ سے مستحقِّ عذاب ہو تی ہے تو ان کا معاشرہ نظام قدرت کے تحت ایسی سمت میں بڑھتا ہے کہ ان کے دولت مند افرادفسق اور فجور میں غر ق ہو جا تے ہیںاور چو نکہ ثر وتمند وں کے اعمال اعلیٰ سطح پرخدا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یعنی خدا نے ہی دنیا کا نظا م ایسے رخ پر لگایا ہے کہ جس سے ایسے ثروتمندپیدا ہو ئے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے فسق و فجور کر نے لگے ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے امر تکو ینی سے یہ کام انجام پایا ہے ۔ پس خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ نظام احسن میں لو گو ں کا امتحا ن لیا جا ئے اور ایک گروہ اپنے اختیار کا غلط فائدہ اٹھاکر غلط راستہ اپنا یا اور عذا ب نا زل ہو نے کی زمین فراہم کرلی ۔
المختصریہ کہ مندر جہ بالا آیت میں خدا کے تکو ینی فیصلہ کی طرف اشا رہ لگتاہے تشریعی حکم کی طرف نہیں جیسا کہ ہم خدا وند عالم کے اوصاف سے متعلق گفتگو میں بیان کر چکے ہیں کہ خدا وند قدوس کے ارا دہ کی دو قسمیں ہیں :
١۔تکوینی
٢۔تشر یعی
اور وہ سب کچھ بھی جو دنیا میں ہو تا ہے اطا عت ونا فر مانی ،کفر وایمان سب خدا کے ارادئہ تکو ینی کے تحت ا لٰہی قضا و قدرکے دائرے میں داخل ہے۔ البتہ اپنے مقا م پر یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ اس عقیدہ سے کسی بھی طرح سے جبر لاز م نہیں آتا ۔کیو نکہ انسان کے تمام اختیاری کام اس کے اپنے اختیار سے انجام پائے ہو تے ہیں اور فا علِ مختا ر کا انتخاب عمل اس کے ظہور کی علّتِ تا مہ کا ایک جزء ہے ۔بہر حال امرآیت میں الٰہی امر چا ہے تکو ینی ہو یا تشر یعی دولتمندوںکے فسق و فجور کے بعد خدا کا قول ان کے سلسلہ میں متحقق ہو جا تا ہے اور یہ وہ قول یہ ہے کہ گنا ہگا روں کو عذابِ الٰہی میں گر فتار کر کے اُن کا کار وبار سمیٹ دیا جا ئے گااس آیت میں ایک قابل توجہ نکتہ یہ بھی ہے کہ دولت پرستوںکے فسق و فجو ر اور ان کی ہلا کت دونوںکو خدا وند عا لم کے ارادہ و عمل سے منسو ب کیاگیا ہے اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف ہم پہلے اشا رہ کر چکے ہیں ۔ یعنی اجتما عی امورکی وضاحت میں تو حیدِ افعا لی کا ظہور ؛قرآن کی نظر میںیہ تمام امور انسانی اختیار کو سلب کئے بغیرالٰہی ارادہ کے دائرہ میں انجام پائے ہیں ۔
یہی مفہوم سورئہ انعام میں اس طرح بیان ہو اہے :
( وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنَافِیْ کُلِّ قَرْیَةٍ اَکَابِرَمُجْرِمِیْھَٰالِیَمْکُرُوْافِیْھَٰاوَمَایَمْکُرُوْن اِلَّابِاَنْفُسِھِمْ وَمَایَشْعُرُوْنَ )(١)
''اسی طرح ہم ہر قریہ میں بڑے بڑے مجر مین کو مقرر کر تے ہیں کہ وہ مکر و فریب سے کام لیںلیکن (در اصل) مکا ری کا اثر خود ان کے علا وہ کسی اور پر نہیں ہو تا ہے اور انھیں اس کا بھی شعور نہیں ہے ''۔
اس آیت میں بھی (جَعَلْنَا )سے مرا د تکوینی طور پر قرار دینا ہے اور اس لحاظ سے یہ بھی آیت (کَذٰ لِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاً )کی مانندہے ۔ پس اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا مکر و فریب کو ئی اچھا اور پسندیدہ کام ہے یا یہ کہ وہ لوگ اپنے کا مو ں کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ آیت میںاس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ امور خدا کی مشیت اور اراد ہ کے دا ئرے سے با ہر نہیں ہیں اور خدا کا ارادہ ان کاموںسے مغلوب بھی نہیں ہو ا ہے ۔ وہ خود یہ چا ہتا ہے کہ یہ انسان آزاد اور مختا ر رہیں اور انھوں نے یہ اپنے ارادہ و اختیا ر سے غلط فا ئدہ اٹھا کر اس طرح کے برے کام انجام دیئے ہیں لہٰذا وہ خودہی ان کے ذمہ دار بھی ہیں ۔
مختصریہ کہ ہر شخص اور ہر معا شرے کا اپنے کام کے سلسلہ میںخود،ذمہ دار ہونا قرآن مجید کے سماجی اور معاشرتی اصولوں میں سے ایک بنیا دی اصو ل ہے ۔
٣۔تیسرا نکتہ جو بعض ماہرین سما جیات کے نظریہ کے بر خلاف ان آیات سے پتہ چلتا ہے یہ ہے کہ قرآن کریم کی نظر میں معاشرے کے طبقات بندھے ہوئے یا ان کی راہیں بند نہیںہیں جیسا کہ بعض معا شرو ںمیں اس طرح کے افکا ر پا ئے جا تے ہیں کہ قدرت نے معا شرہ کومخصوص طبقوں میں اس طرح تقسیم کیاہے کہ ایک طبقہ کے
..............
١۔سورئہ انعام آیت ١٢٣۔
افراد دوسرے طبقہ میں نہیںجاسکتے اور اس طر ح کی طبقہ بندی جو عام طور سے ذات پات،نسل و قوم یا اقتصادی حیثیت وغیرہ پراستوار ہو تی ہے قرآ ن کی رو سے غلط ہے البتہ انسانوں کے درمیان تکوینی اور پیدائشی اختلافات جو دنیا کے نظامِ احسن کا ایک جزء ہے موجود ہیں اورقرآن ِ کریم نے اس کی تا ئید بھی کی ہے لیکن اس کوسماجی اور معاشرتی طبقہ بندی کا معیا ر قرار نہیں دیاہے۔
بعض معا شرو ں میں نسلوں یا رنگوں کی بنیا د پر طبقہ بندی ہوتی ہے ۔ نسل پرست یانسلی امتیاز کے قا ئل معاشروں میں عام طور پرسفید فا موں کورنگین فا موں کے مقابلے میں سما جی حیثیت سے ممتاز مقام حا صل ہے ۔ قرآن ان نسلی اختلافات کو قبو ل تو کر تا ہے لیکن اس کو مقام و حیثیت کے تعین کا معیار قرار نہیں دیتا :
(یَااَیُّھَاالنََّاسُ اِنَّاخَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍوَاُنْثَیٰ وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبَاًوَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوااِنََّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاﷲِ اَتْقَیٰکُمْ اِنَّ اﷲَ عَلیمخَبیر)(١)
'' اے انسا نو! ہم نے تم سب کو ایک مر د اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تم کو قوموں اور قبیلوںمیں تقسیم کر دیا تا کہ آپس میں ایک دو سرے کو پہچا ن سکو بیشک تم میں سے خدا کے نز دیک زیا دہ محترم وہی ہے جو زیا دہ پر ہیز گا ر ہے اور اﷲ ہر شیٔ کا جا ننے والا اور ہر با ت سے با خبر ہے ''۔
فطری عوامل کی بناء پر لوگوں کے درمیان نسلی اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور طرح طرح کے قبیلے بن جاتے ہیں ۔ان اختلافات کی بنیاد حکمت الٰہی پر استوارہے اور نظام عالم میں اس چیز کا ہونا ضروری ہے لیکن جیسا کہ آیت میں آیا ہے یہ اختلافات کبھی بھی لوگوں کے ایک دوسرے پربرترہونے کا سبب نہیں ہوسکتے بلکہ حقیقی برتری اور فضیلت کاسبب تقوی اور پر ہیز گاری ہے۔
دوسرے گروہ نے معاشرے کو لوگوں کی اقتصادی حیثیت کے معیارپر تقسیم کیا ہے ۔یہ مسئلہ خصوصاً مارکسزم میں خاص مقام رکھتاہے ۔اس نظریہ کے مطابق ہر معاشرے میں اس کے مخصوص معاشرتی نظام کے تحت ہمیشہ دواصلی طبقے پائے جاتے رہے ہیں ایک حکمراں طبقہ جو سرمایہ اور اقتصادی وسائل سے بہرہ مندہوتا ہے اور ایک رعایا اور عوام کا طبقہ ہے جو اقتصادی اور مالی وسا ئل سے محروم ہو تا ہے ۔کیا اسلام اس طرح کی طبقاتی تقسیم کو قبول کرتا ہے؟ قرآن کریم کی آیات اور اسلامی تعلیمات معمولی آشنائی اس سوال کا نفی میں جواب دینے کے لئے کافی ہے ۔
..............
١۔سورئہ حجرات آیت ١٣۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک گروہ نے نادانی کی بناء پر یہ خیال کر لیاہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں اس طرح کی طبقاتی تقسیم کو قبول کیا گیاہے اور بعض منحرف اور گمراہ کن فکر رکھنے والوں نے یہ کوشش کی ہے کہ اپنے غلط تصور کے تحت اس طرح کے افکار پر اسلام کی تائیدی مہر لگادیں اور بعض آیات کی معا شرے اور تا ریخ کے با رے میں ما ر کسسٹ طرزفکر کے مطابق تطبیق کریں ۔ان کے اس طرح کے دعووں میں سے ایک کا دعویٰ یہ ہے کہ مستضعف اور مستکبر کی تعبیرجو قرآن میں استعمال ہوئی ہے،یہ معاشرے کے دو ثروتمند اور فقیرطبقوں کی حکایت کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ اسلام اقتصاد کوایک تاریخی اور سماجی تغیرات کا سبب سمجھتا ہے ۔
ہم نے جوآیات استضعاف اور استکبار کی بحث میں نقل کی ہیں ان پر غورو فکر کرنے سے واضح ہو جاتاہے کہ اس طرح کا نتیجہ نکالناکسی بھی اعتبار سے قرآنی آیات کے ساتھ میل نہیں کھاتا جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ، قرآن کریم نے مستضعفین کے کئی گروہ نقل کیئے ہیں۔ مستضعفین کا ایک گروہ وہ ہے جن کی مدد کرنا چاہیے اور قرآن کریم نے مومنین کو ان کی حمایت کی دعوت دی ہے :
(وَمَالَکُمْ لَاتُقَاتِلُونَ فِیْ سَبیلِ اﷲِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَااَخْرِجْنَامِنْ ھَٰذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا)(١)
''مستضعفین کا یہ گروہ ان سب ناتوان ،مردوں،عورتوںاور بچوں پر مشتمل ہے جو کافر معاشرے میں گرفتار ہیں اور ہجرت کی طاقت نہیں رکھتے ۔یہ لوگ مومن اور خدا شناس ہیں اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اس سے رہائی کی درخواست کرتے ہیں تاکہ کافروں سے الگ ہوجائیںاور ایک مسلمان معاشرے میںزندگی گزاریں''۔
مکہ کے کمزور مومنین جو مشرکوں کے ظلم کا شکار تھے ور ہجرت کی طاقت بھی نہیں رکھتے تھے اسی گروہ سے ہیں۔ خدانے ان کی دعاقبول کی اورمومنوں کو حکم دیا کہ کافروں کے ساتھ جنگ کریں اور ان مستضعفین کو ان کے چنگل سے نجات دیں یہ گروہ اگر چہ مستضعف بنادیا گیا مگر اس نے خود کو معاشرے کے رنگ میں نہیں ڈھالا اور کفر کے آیندہ عقائد سے خود کو دور رکھا اپنے فکری استقلال اور خود مختاری کو محفوظ رکھا اگر چہ وسائل کی کمی کے سبب امداد اور حمایت کے مستحق تھے ۔
اس گروہ کے ذکر کے ساتھ بھی قرآن کریم نے مستضعفین کے ایک اورگروہ کی(مذمت) کی ہے چنانچہ موت کے بعد فرشتوں کے ساتھ ان کی گفتگو ان کے سخت انجام کی حکایت کرتی ہے :
..............
١۔ نساء آیت٧٥۔
( اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفَّھُمُ الْمَلَٰئِکةُظَالِمِی اَنْفُسِھِمْ قَالُوْافِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْاکُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی اْلاَرْضِ قَالُوْااَلَمْ تَکُنْ اَرْضُْ اﷲِ وَاسِعَةًفَتُھَاجِرُوْافِیْھَافَاُولَٰئِک مَاوَٰیھُمْ جَھَنَّمُ وَسَائَ تْ مَصِیْراً)(١)
''جن لوگوں کی ملا ئکہ نے اس حال میں روح قبض کی کہ انھوںنے اپنے نفس پر ظلم کررکھا تھا اور جب ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے ؟انھو ں نے کہا ہم زمین میں کمزور بنا دئے گئے تھے ملا ئکہ نے کہاکہ کیا زمین خدا میں گنجائش نہیں تھی کہ تم وہاںسے ہجرت کر جاتے؟!پس ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کس قدربد ترین ٹھکانا ہے ''
مستضعفین کا یہ گروہ ہجرت نہ کرنے کے کی بناء پر مجرم قرارپایا اور خدانے ان سے جواب طلب کیا ہے ۔ پس ایسا نہیں ہے کہ اسلام ہر مستضعف اور کمزورکی تائید اور تمجید کردے یہ حقیقت ان آیات سے مزیدروشن ہوجاتی ہے کہ جن دو زخ میں مستکبر ین اور مستضعفین کے درمیان بحث وجدل کا ذکر ہے۔
مستضعفین کا یہ گروہ ، دو زخ میں مستکبر ین کا ہمنشین ہے اور یہ دونوںگروہ ایک ساتھ معذب ہوں گے ، ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نگاہ میں عنوان استضعاف بذات خود کسی مثبت پہلو کا حامل نہیں ہے ، ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں مستضعف طبقہ تمام اہمیتوں کامالک ہو ۔
اس بحث سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتا ہے کہ مستضعفین سے امامت اور رہبری کا وعدہ صرف ان کے مستضعف ہونے کی وجہ سے نہیںہے بلکہ یہ وعدہ انکے ایمان کی وجہ سے کیا گیا ہے اور آیت( وَنُریدُاَن نَمُنَّ عَلیَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْ ا)(٢)کامطلب یہ نہیں ہے کہ اس گروہ پرصرف اس کے مستضعف ہو نے کی وجہ سے خدا نے احسان کیا ہے بلکہ امامت کی لیاقت کا معیارانکا ایمان ہے۔ اس دعوے پر شاہد وہی مطلب ہے کہ جس کی طرف ہم نے اشارہ کیااور وہ یہ کہ خدا مستضعفین کے ایک گروہ کو دو زخ میں بھیجے گا ۔ بہت ممکن ہے ان لوگوں نے اپنی تمام عمر استضعاف میں گزاری ہو اورپھر ان کا انجام بھی دو زخ ہو اگرصرف استضعاف کا عنوان ہی فضیلت اور برتری کا معیار ہو تا تو یہ لوگ کبھی بھی دوزخ میں نہ جاتے ۔ یہ لوگ اگراپنی محرومیوںکے ساتھ با ایمان ہوتے اور خدا کے احکام پر عمل کرتے تو جنت کے مستحق ہو تے۔معلوم ہواکہ مستضعفین کے ایک گروہ کی رہبری کا وعدہ کہ جس کی طرف آیت میں اشارہ ہوا ہے ان کے ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہے صرف ان کے استضعاف کی و جہ سے نہیں ہے۔
..............
١۔سورئہ نساآیت٩٧۔
٢۔سورئہ قصص آیت٥۔
یہاںاس سوال کا امکان ہے کہ اگر مذکورہ بات صحیح ہے تواس آیت میں(الَّذِیْنَ استضعفوا)کے بجائے (الذین آمنوا)کیوں استعمال نہیں ہوا ؟
اس سوال کے جواب میں کہاجاسکتاہے کہ آیت میں استضعاف کی صفت کا استعمال ایک خاص نکتہ کے تحت ہے ۔زیربحث آیت سے پہلے آیت میں آیا ہے کہ فرعون نے لوگوں کے ایک گروہ کو ضعیف و محروم کردیاتھا یا ان کو ضعیف شمار کرتاتھااور اس کے بعد آیت میںاس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے ان ہی ضعیف اور ناتوان لوگوں کوکہ جنھیں فرعون ضعیف شمار کرتاتھا اپنی مخصوص نعمتوں سے نوازا اور ان کو سرداری اور حاکمیت تک پہونچادیا ۔حقیقت میں اس آیت کا پیغام یہ ہے کہ خداکی قدرت اور ارادہ عالم فطرت اورمعاشرتی اسباب وعلل سے برتر ہے۔ اور طاغوتی معاشروں پرحاکم معیارات کھوکلے اور بے قیمت ہیں؛ مادی طاقت و ثروت سرداری کا معیار نہیں ہے ۔
اسی آیت کے مشا بہ سورئہ اعراف میں آیاہے:
(وَاَوْرَثْنَاالْقَوْ مَ الَّذِیْنَ کَانُوْایُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا)(١)
''اور ہم نے مستضعفین کو(سر زمین فلسطین کے)بعض مشرقی اور مغربی حصے (کہ جس میں برکت قرار دی تھی )میراث کے عنوان سے عطا کر دیئے ''۔
قر آ ن یہ بات سمجھا نا چا ہتا ہے کہ اس گرو ہ کا ضعیف ہو نا اس بات سے ما نع نہیں ہے کہ خدا وند قدوس ان کو رفعت و بلندی عطا کرے اور انھیں حکومت تک پہنچا ئے اور ان کو زمین کی نعمتوں کا وا رث بنا ئے ۔
مختصر یہ کہ لو گو ں کی اقتصا دی حا لت کی بنا ء پر معا شرے کی دوطبقوںمیں تقسیم اور مستضعفین او ر مستکبر ین کو ایک دوسرے کے مقا بل معا شرے کے طور پر دو بنیادی طبقو ںمیں تقسیم کر دینا قر آن کے نز دیک قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہاں پر ایک بنیادی نکتہ پر تو جہ ضرو ری ہے کہ اصولی طور پر غربت اور ثروت قرآن کی نگا ہ میں ایمان اور کفر یا حق اور با طل کے برابر نہیں ہے ۔ بہت ممکن ہے کچھ فقرا ء و مستضعفین قرآن کی نگا ہ میںبے وقعت ہو ں اورکچھ دولتمند قر آن کریم کی نگا ہ میں تائیدواحترا م کے لائق ہو ں ۔اب اگرہم ما رکسزم کی اصطلاح سے استعمال کر نا چا ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ جو شخص بھی حکمراں طبقہ سے تعلق رکھتا ہو وہ اسلا م کی نگا ہ میں برااور قابل مذمت ہے ۔
ہما رے اس دعوے کا شا ہد، جیسا کہ ہم پہلے بھی اس کی طرف اشا رہ کر چکے ہیں یہ ہے کہ مستضعفین کا ایک گروہ جو دنیا میں بھی ما دی امکا نا ت سے محرو م رہا ہے آ خرت میں بھی وہ جہنم میںداخل ہو گا اور اس پر عذاب کیا جا ئیگا
..............
١۔سورئہ اعراف آیت١٣٧۔
دوسری طرف قرآن نے بعض دولتمندوں اور معا شرہ میں بلند مقام رکھنے والوں کی تعریف و تحسین کی ہے ، بعض الٰہی
انبیا ء علیہم السلام جیسے حضرت سلیمان ، داؤد ، اور یوسف علیہ السلام درجۂ نبوت، امت کی رہبری اور عصمت کی مانند معنوی مقا ما ت پر فا ئز ہو نے کے ساتھ ہی ساتھ سلطنت و حکومت کے بھی مالک تھے اور ممکن ہے یہ دعو یٰ بھی صحیح ہو کہ بعض او لو ا العزم انبیا ء بھی درجۂ حکو مت پر فا ئز رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک ایسے گھرا نے میں پیدا
ہو ئے تھے جو دربار ِحکو مت سے وابستہ تھایا حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فر عون کے گھر میں پر ورش پا ئی اور جوا نی تک فر عون کے در بار میں رہے اسی طرح اصحا بِ کہف حاکم وقت کے دربا ریو ں میں سے تھے لیکن در با ر سے بھا گ نکلے ، خدا نے ان پر احسا ن کیا اور ان کومنفرد امتیا زات سے نوا زا ،'' مو منِ آل فر عون '' فر عو ن کے در با ریو ں میں سے تھے اوراس کے با وجود ایسا مستحکم ایما ن رکھتے تھے کہ قر آن کا ایک سو رہ (سورئہ مو من )کا ان ہی کے نام پر رکھاگیاہے ۔
بنا بر این، قر آ ن کی رو سے دولت مطلق طور پر عظمت و بلندی کی مخالف نہیں ہے جیسا کہ فقر و محرومی بھی بالذات بلندی کا معیار نہیں ہے بلکہ حقیقی معیار وہی ایمان و کفر اور اطا عت و عصیا ن ہے مو من چا ہے فقیر ہو یا امیر، خدا کے نزدیک ذیقدر ہے جیسا کہ آیت میں آیاہے:
( اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقَٰکُمْ )
''بیشک تم میں سے خدا کے نز دیک زیا دہ محترم وہی ہے جو زیا دہ پر ہیز گا ر ہے ''۔
اور کا فر چا ہے فقیر ہو یا امیر ،مردودبا رگا ہ ہے ۔
٤۔چو تھا نکتہ یہ ہے کہ کسی فرد یا معاشرے پر خدا کی نعمتوں کا نزول بذا ت خود، خدا کے نزدیک نہ اس فرد یامعاشرہ کے تقرب اور بلندی کی دلیل ہے اور نہ ان کی پستی اور ذلت کی نشانی ہے بلکہ مادی نعمتو ں کے ذریعہ طرح
طرح کی الٰہی سنتیں جاری ہو تی ہیں کبھی نعمت مو منوں اور کا فروں کے امتحان کے لئے ملتی ہے جیساکہ ارشاد ہے :
( وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّوَالْخَیْرِفِتْنَةً وَاِلَیْنَاتُرْجَعُوْنَ )(١)
..............
١۔سورئہ انبیا ٣٥۔
''اور ہم تو اچھا ئی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزما ئیں گے اور تم سب پلٹا کر ہما ری ہی بارگاہ میں لا ئے جا ؤ گے ''
ایک دوسری آیت میںبھی یہی مفہوم بیان ہوا ہے
(فَاَمَّاالْاِنْسَانُ اِذَامَاابْتَلَٰہُ رَبُّہُ فَاَکْرَمَہُ وَنَعَّمَہُ فَیَقُوْلُ رَبَّیْ اَکْرَمَنِ۔وَاَمَّآاِذَامَاابْتَلٰہُ فَقَدَرَعَلَیْہِ رِزْقَہُ فَیَقُوْلُ رَبَّیْ أَھَانَنِ)(١)
''لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کے پر ور دگارنے اس کو آزمانے کے لئے عزت اور نعمت دیدی تو کہنے لگا کہ میرے رب نے مجھے با عزت بنایا ہے اور جب آزمائش کے لئے روزی کو تنگ کردیا تو کہنے لگا کہ میرے پر وردگار نے مجھے ذلیل و رسوا کر دیاہے ''۔
جیسا کہ آیت سے پتہ چلتاہے نعمت سے مالا مال لوگوںکے لئے نعمت اور فقراء کے لئے فقرو غربت ایک الٰہی امتحان کا ذریعہ ہے؛ جناب سلیمان علیہ السلام جب خدا کی طرف سے مستحق انعام قرارپائے اور عظیم سلطنت اور حکومت پر فائز ہوئے تو قرآن کہتا ہے :
(قَالَ ھَٰذامِنْ فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ)(٢)
''کہنے لگے :یہ میرے پر وردگار کا فضل و کرم ہے وہ میرا امتحان لینا چا ہتا ہے کہ میں شکریہ ادا کرتا ہوں یا کفران نعمت کر تا ہوں ''۔
پس دنیا کی مادی نعمتوں کے سلسلے میں خدا کی عام سنتوں میں سے ایک سنت نعمت سے سر شار دولتمندوں کی آزمائش اور امتحان ہے اورپھر ان کا چھن جانا بھی ایک طرح کی آزمائش ہے ۔
اس کے علاوہ کہاجا سکتا ہے جیسا کہ پہلے بیان شدہ آیا ت میں آپ نے ملاحظہ کیا ،کبھی کبھی ممکن ہے کہ پریشانیاں ،مفلسی ،خشکسالی اوردنیا کی دوسری سختیاں حقیقت میں نعمت الہٰی ہوںجوانسان کو خداکی یاددلانے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت قبول کر نے کا ذریعہ بن جا تی ہیں سورئہ انعام کی آیت٤٢ اور سورئہ اعراف کی آیت٩٤ میںاس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد کہ خدا پیغمبروں کی بعثت کے ساتھ سا تھ لوگوں کے لئے سختیاں اور پریشانیاں
..............
١۔سورئہ فجر آیت١٥۔١٦۔
٢۔سورئہ نمل آیت٤٠ ۔
ہی نا زل کردیتاہے ۔تاکہ (لَعَلَّھُمْ یَتَضَرَّعُونَ)'' شاید ہما رے سامنے گڑگڑائیں''(لَعَلَّھُمْ یَضَّرََّعُوْنَ) ''شاید ہما رے سا منے گریہ و زاری کریں''اس تعبیر سے یہ واضح ہوتاہے کہ ان سختیوں اور دشواریوں کا باطن در اصل نعمت ہے چونکہ یہ انسان کی روح میں تضرع کی حالت اور خدا کی طرف متوجہ ہونے کی کیفیت پید ا کر تی ہیں ۔
دوسری طرف کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چیز ظاہر میں تو نعمت نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں خدا کے قہر اور عذاب کے علاوہ کچھ نہ ہوتی سو رئہ آل عمران میں ار شاد ہو تا ہے :
( وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااَنََّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ خَیْر لَاِنْفُسِہِمْ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْماًوَلَھُمْ عَذَاب مُّھِیْن)(١)
''اور خبر دار یہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیںوہ ان کے حق میں کو ئی بھلا ئی ہے ،ہم تو یہ بس اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ جتنا گناہ کر نا چا ہیںکرلیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے ''۔
چونکہ خدانے کافروں کے اس گروہ سے اپنی عنایت کو دور کردیا یہ لوگ پستیوں میں چلے گئے۔خدا ان کو دنیاسے زیادہ استفادہ کی مہلت دیتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پستی اور انحطاط کے راستے میں قدم بڑھائیں اور سخت ترین عذاب کے مستحق قرار پا ئیں۔
الٰہی نعمتوں کے سلسلے میں ایک اورسنت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی معاشرہ ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرے تو خدا کی حکمت تقاضا کر تی ہے کہ اس معاشرے میں مادی نعمتوں کا نزول بڑھا دے کہ یہ لوگ مادی وسائل کے ذریعے معنوی ترقی اور کمال کی طرف زیادہ سے زیادہ قدم بڑھاسکیں ارشاد ہو تا ہے:
(وَلَوْاَنَّ اَھْلَ الْقُرَیٰ ئَ امَنُوْاوَاتَقَّوْالَفَتَحْنَاعَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ۔۔۔)(٢)
''اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔۔۔''۔
اسی طرح سے اہل کتاب کے بارے میںارشاد فرماتا ہے:
(وَلَوْاَنَّھُمْ اَقَامُُوْاالتَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَااُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِنْ رَبَّھُمْ لَاَکَلُوْامِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ۔۔۔)(٣)
''اور اگر یہ لوگ توریت و انجیل اور جو ان کی طرف پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اُن سب پرقائم ہوتے تو اوپر(آسمان) سے اور قدموں کے نیچے (زمین )سے سیر ہوکر رزق حاصل کرتے ۔۔۔''۔
جی ہاں! اگر کسی معاشرے نے تقوٰئے الٰہی اختیار کیا اور خداسے لو لگا ئی تو اُس پر مادی نعمتوں کی فراوانی خداکے اکرام کی دلیل ہوسکتی ہے لیکن یہ کو ئی عام قاعدہ نہیں ہے کہ ہر انعام و نعمت عزت و احترام اور ہر سختی و مصیبت خدا کے نزدیک ذلت اور خواری کی دلیل ہو ۔
..............
١۔سورئہ آل عمران آیت١٧٨۔
٢۔سورئہ اعراف آیت٩٦ ۔
٣۔سورئہ مائدہ آیت٦٦۔