مستضعفین کا حاکم ہونا
قرآن کریم کی آیات میں جن الٰہی سنتوں کا ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ قوم کے کچلے ہوئے مستضعفین مستکبروں کے تسلّط سے نجات پائینگے اورخدا روئے زمین پر انھیںایک دن حاکم قرار دے گا ۔جیسا کہ ہم ''استضعاف و استکبار ''کی بحث میں اس چیز کی طرف اشارہ کرچکے ہیں یہ ذکر کرنے کے بعد کہ فرعون نے لوگوں کی ایک جماعت کو بری طرح کچل رکھا تھاقرآن کریم فرماتاہے :
(وَنُرِیْدُاَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوافِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّةً وَنَجْعَلَھُمُ الْوَٰارِثِیْنَ۔ وَنُمَکِّنْ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَھَٰامَٰانَ وَجُنُوْدَھُمَامِنْہُمْ مَاکَانُوْایَحْذَرُوْنَ)(١)
''اور ہم تو یہ چاہتے تھے کہ جو لوگ روئے زمین پر کمزور کردئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی کو لوگوں کا پیشوا بنائیں اور ان ہی کو اس (سرزمین )کا مالک بنائیں اور ان ہی کو روئے زمین پر پوری قدرت عطاکریں اور (دوسری طرف)فرعون اور ہامان اور ان دونوں کے لشکروالوں کو وہ چیز یں دکھادیں کہ جن کی طرف سے وہ ڈرتے تھے ''۔
اگر چہ یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں ہے اور (اَلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا )سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو فرعون نے کمزور کردیا تھا لیکن قاعدئہ (القرآن یجری مجری الشمس والقمر)کے مد نظر خاص طور سے اس لئے کہ آیت میں فصل(نُرِیْدُ) مضارع ہے جو دوام و استمرارپر دلالت کرتاہے لہٰذا اس آیت سے ایک مستقل سنّت الٰہی کو اخذ کیا جاسکتا ہے اور جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ہماری روایات میں آیا ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت ولی عصر کے ظہورسے متعلق بھی اس آیت کی تاویل کی جاتی ہے ۔
خداوندعالم نے ایک دوسری آیت میں بھی اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں سے وعدہ کیاہے کہ سرانجام وہ زمین پر مستقر ہوں گے اور اس وقت خود ان ہی کی حکومت قائم ہوگی۔ ارشاد ہوتا ہے :
(وَعَدَاﷲُالَّذِیْنَئَ امَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصَّٰلِحَٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الاَرْض کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمْ الَّذِیْ ارْتَضَیٰ لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِخَوْفِہِمْ اَمْناًیَعْبُدُونَنِی لَایُشْرِکُونَ بِیْ شَیْئاًوَمَنْ کَفَرَبَعْدَذَلِکَ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ)(٢)
''تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کا م کئے ان سے خدانے یہ وعدہ کیاہے کہ ان کو اس سرزمین پر(اپنا)جانشین مقررکرے گا اور جس دین کو اس نے ان کے لئے پسند فرمایاہے اس پر انھیں ضرور ضرور پوری قدرت دیگا اوران کے خائف ہونے کے بعد امن سے ضرور بدل دے گا (تاکہ)وہ میری عبادت کریںاور کسی کو ہمارا شریک نہ بنائیں اور جو شخص اس کے بعد بھی کافر رہے گا تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں ''۔
..............
١۔سورئہ قصص آیت٥۔٦۔
٢۔سورئہ نورآیت٥٥۔
الٰہی امدادآنا
قرآن کریم کی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ خداوندعالم کی بہت سی سنّتیں عام ہیںجو کسی نہ کسی خاص سنّت کے ماتحت ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خداوند عالم کی عام سنّتیںخاص حالات اور تقا ضوںکے تحت بعض مخصوص سنّتوں کی تابع ہوتی ہیں چنانچہ خداوندعالم کی عام سنّتوں میں سے ایک الٰہی ا مدادبھی ہے جس کی بنیاد پر خداوندعالم لوگوں پر اپنی حجت تمام کرنے کے بعد اس راستہ پر گامزن رہنے کے لئے جسے انھوںنے منتخب کیاہے ان کی مدد کرتاہے اگر آدمی حق کی راہ کا انتخاب کرتاہے تو خداوندعالم اس سیدھے راستہ پر گامزن رہنے کے لئے اس کی مدد کرتا ہے اور اگر کوئی باطل راستہ کی طرف مائل ہو توبھی خداوندعالم کی امداداس کے شامل حال رہتی ہے۔یہی کافروںکی امداد وہ سنّت ہے۔جس کو املاء اور استدراج کانام دیا گیا ہے جس کو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ چنانچہ املاء اور استدراج کی سنّت الٰہی امداد کی سنّت کی نسبت وہ خاص سنّت ہے جو کفّار کے بارے میں امدادالٰہی کے طریقہ کو مشخص کرتی ہے ۔
سورئہ اسراء کی چند آیات میں الٰہی امداد کی اس سنت کی طرف اشارہ ہے :
(مَنْ کَانَ یُرِیْدُالْعَاجِلَةَعَجَّلْنَالَہُ فِیْہَامَانَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُثُمَّ جَعَلْنَالَہُ جَھَنَّمَ یَصْلٰیہَا مَذْمُوما مَدْحُوْراً۔وَمَنْ اَرَادَالآخِرَةَ وَسَعَیٰ لَھٰاسَعْیَہَاوَھُوَمُؤْمِن فَاُوْلٰئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَشْکُوْراً۔ کُلّا ًنُمِدُّ ھٰؤُلَائِ وَھَٰؤُلاٰئِ مِنْ عَطَائِ رَّبِکَ وَمَاکَانَ عَطَائُ رَّبِکَ مَحْظُوْراً)(١)
''اور جو شخص اس چند روزہ(دنیا )کا خواہاں ہو ہم اس کو جلدی سے جو کچھ چاہتاہے دیدیتے ہیں پھر اسکے بعد اسکے لئے جہنم ہے جس میں وہ ذلّت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا،اور جو شخص آخرت کا چاہنے والاہے اور اسکے لئے جیسی چاہئیے ویسی ہی کو شش بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تویہی وہ لوگ ہیں جن کی سعی یقینا مقبول قراردی جائے گی ہم آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے اِن کی اور ان سب کی مددکرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے ''
ان آیات میں پہلے لوگ دو گرو ہ میں تقسیم کئے گئے ہو ئے ہیں :پہلا گروہ دنیا کا خواہاں ہے اورچند روزہ والی زندگی منتخب کرتا ہے اوردوسرا گروہ آخرت اورپائیدار سعادت کاخواہاں ہے۔اسکے بعدتیسری آیت میں اعلام ہوتاہے کہ خداوندعالم دونوں گروہوں کی ان کی منتخب کردہ راہ پر گامزن رہنے کے لئے مدد کرتا ہے۔ البتہ آخر میں دوسرے
..............
١۔ سورئہ مبارکہ اسراء آیت١٨۔٢٠۔
گروہ کی برتری کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے :
(اُنْظُرْکَیْفَ فَضَّلْنَابَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ وَلَلَْلأَٰخِرَةُ اَکْبَرُدَرَجَٰتٍ وَاَکْبَرُتَفْضِیْلاً)(١)
''دیکھو ہم نے ان کے بعض کو بعض دوسروںپر کس طرح فضیلت دی ہے اورآخرت کے درجے تو یقینا کہیں برتر اور بہت زیادہ ہیں ''۔
ایک دوسری آیت میں بھی الٰہی امداد کو مدّنظر رکھا گیا ہے میں ارشاد ہوتا ہے:
(مَنْ کَانَ یُرِیْدُحَرْثَ الْاَخِرَ ةِنَزِدْلَہُ فِیْ حَرْثِہِ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُحَرْثَ الدُّنْیَانُؤتِہِ مِنْہَاوَمَالَہُ فِی الْأَخِرَةِ مِنْ نَصِیْبٍ)(٢)
''جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہوہم اسکے لئے اس کی کھیتی میں اضافہ کردیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہوہم اس کو اسی میں سے دیں گے اور (لیکن)آخرت میں اس کوئی حصّہ نہ ہوگا ''۔
قابل توجّہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں آخرت کے خواہاں اور دنیا کے طلبگاروں کے لئے دو مختلف تعبریں استعمال ہوئی ہیں، طالب دنیا کے لئے صرف ان کا مطلوب دینے کا اعلان ہے لیکن آخرت کے چاہنے والے کے لئے ''نزدلہ فی حرثہ'' (ہم اسکی کھیتی میں اضا فہ کردیں گے استعمال ہواہے ،جو ان کی خاص قدر و منزلت کو بیان کررہاہے اور اس بات کی نشاندہی کررہاہے کہ ان پر خداوندعالم کی خاص عنایت ہے۔یقینا یہ فرق حق بجانب ہے کیونکہ انسان کا اصل مقصد معنوی کمال حاصل کرنااور بارگاہ خداوندعالم میں مقرب ہوناہے ۔اوریہ کہ بعض ان افراد کو خداوندعالم کی مددملنا جوان کے لئے ضرررساں ثابت ہو ایک ذیلی مقصد ہے ۔
شکران نعمت سے اضافہ اورکفران نعمت سے کمی
الٰہی سنت کے مطابق جوشخص خداکی نعمتوں کا شکر اداکرتا ہے اسکی نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور جوکفران یا ناشکر ی کرتاہے اسکی نعمتوں میں کمی ہوجاتی ہے اوریہ قانون مادی نعمتوں میں بھی جاری ہے اور معنوی نعمتوں میں بھی۔ جو شخص فقط مادی نعمتوں کا شکرادا کرتاہے اسکی مادی نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور جو معنوی نعمتوں کا بھی شکر گزار ہے اسکی معنوی نعمتوں میں بھی اضا فہ ہوتاہے۔
قرآن نے اس سنّت کو کلیہ کی صورت میں بیان کیاہے :
..............
١۔سورہ اسراء آیت ٢١۔
٢۔سورئہ شوریٰ آیت٢٠۔
(لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیدَ نَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد)(١)
''اگر تم نے شکر ادا کیا تو ہم نعمتو ں میں اضا فہ کر دیں گے اور اگر کفرا نِ نعمت کیا تو ہمارا عذاب بھی بہت سخت ہے ''۔
مادی نعمتوں کی نا شکری کے متعلق قرآن میں ارشا د ہو تا ہے:
(وَضَرَبَ اﷲُمَثَلاًقَرْیَةً کَانَتْ آمِنةً مُطْمَئِنَّةًیَاتِیْھَارِزْقُھاَرَغَداًمِنْ کُلِّّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اﷲفَاَذَٰاقَھَاﷲُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَاکَانُوْایَصْنَعُوْ نَ)(٢)
''اور اﷲ نے اس قر یہ کی بھی مثال بیا ن کی ہے جو محفو ظ اور مطمئن تھا اور اس کا رزق ہر طرف سے فراواں تھا لیکن قر یہ وا لو ں نے اﷲ کی نعمتو ں کاکفران کیاتو خدا نے بھی انھیں بھو ک اور خوف کے کا مزہ چکھا دیا ،ان کے ان اعمال کی بنا ء پر جو وہ انجام دے رہے تھے' '۔
اس آ یۂ کریمہ سے معلوم ہو تا ہے کہ کبھی کبھی انسان ما دی نعمتو ں کا شکر یہ ادا نہ کر نے کی وجہ سے فقر اور خوف جیسے مصا ئب میں گر فتار ہو جا تا ہے۔ شکر خداسے نعمتو ں میں اضا فہ ہو نے کے متعلق ایک اور آیت میںفر ما تا ہے :
(وَلَوْاَنَّ اَھْلَ الْقُرَیٰ آمَنُواوَاتَّقَوْالَفَتَحْنَاعَلَیْھِمْ بَرَکَٰتٍ مِنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ وَلَکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنَاھُمْ بِمَاکَانُوْایَکْسِبُوْنَ)(٣)
''اگر اہل قر یہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کر لیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آ سمان سے بر کتو ں کے در وا زے کھو ل دیتے لیکن انھو ں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا '' ۔
چونکہ تقویٰ اور پر ہیز گا ری کا لا زمہ ،خدا وند کریم کی معنوی اور ما دی نعمتو ں کا شکر ادا کر نا ہے، مندر جہ با لا آیت سے استفا دہ ہو تا ہے کہ معنوی نعمتو ں کا شکر ادا کر نا ما دی نعمتو ں کے اضا فے اور دنیا وی زند گی کے وسائل کی وسعت میں بھی مؤ ثر ہے ۔اسی طرح، ما دی اور معنوی نعمتو ں کا انکار عذا بِ الٰہی میں گر فتا ر ہو نے کا با عث ہو تا ہے۔ بعض آ یا ت میںبھی شکر اداکرنے سے معنوی نعمتو ں میں اضا فے کی طرف اشا رہ ہوا ہے :
(وَیَزِ یْدُاﷲُ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْاھُدَیً)(٤)
..............
١۔سورئہ ابراہیم آیت ٧۔
٢۔سورئہ نحل آیت١١٢۔
٣۔سو رئہ اعراف آیت٩٦۔
٤۔سورئہ مریم آیت٧٦۔
''اور خدا ہدا یت یا فتہ لو گو ں کی رہنمائی میں اضا فہ کر دیتا ہے ''۔
اور سورئہ محمدمیں ارشا د ہو تا ہے:
(وَالَّذِیْنَ اھْتَدَ وْازَادَھُمْ ھُدیً وَئَ اتَٰھُمْ تَقْوَٰیھُمْ )(١)
''اور جن لو گو ں نے راہ ہدایت اختیار کی خدا نے ان کی رہنمائی میں اضا فہ کر دیا اور تقوے کی توفیق عنا یت فرما دی '' ۔
بعض مقا مات پر نعمتِ ہدایت میں اضا فہ کے مخصوص مصا دیق بیا ن کردئیے ہیں ۔ مثال کے طور پر اصحاب ِ کہف کے سلسلہ میں ارشا د ہو تا ہے:
(اِ نَّھُمْ فِتْیَة آمَنُوْابِرَ بِّھِمْ وَزِدْ نَاھُمْ ھُدیً )(٢)
''یہ چند جوا ن تھے جو اپنے پر ور دگا ر پر ایمان لا ئے تھے اور ہم نے ان کی ہدا یت میں اضا فہ کر دیا ''۔
مو منین کی ہدا یت میں اضا فہ ایک طرف سے الٰہی امدا د کی سنت کامصدا ق ہے اور دو سری طرف سے شکر ان نعمت کا بھی مصداق ہے کیو نکہ ایما ن لا نا اوررہنمائی کو قبو ل کر نا خو دبھی ایک معنوی نعمت کا شکر ادا کر نا ہے ۔
البتہ مو منین کے برعکس جو لوگ نا شکری کرتے ہوئے ہدا یت قبول کر نے سے انکا ر کر تے ہیں ان کی گمرا ہی میں اور اضا فہ ہو تا رہتا ہے ۔ سورئہ مبا رکۂ بقرہ میں ارشا د ہو تا ہے :
(فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَض فَزَادَھُمُ اﷲُ مَرَضاً )(٣)
''ان کے دلو ں میں بیما ری تھی پس خدا نے بیماری اور بڑھا دی ''۔
اوریہ وہی الٰہی امداد ہے جو معنوی نعمتو ں کی ناقدری میں زیادتی سے حا صل ہو تی ہے ۔
قر آن میں ار شا د ہو تا ہے :
(فَلَمَّازَاغُوْااَزَاغَ اﷲُ قُلُوْبَھُمْ )(٤)
..............
١۔سورئہ محمد آیت ١٧۔
٢۔سورئہ کہف آیت ١٣۔
٣۔سورئہ بقرہ آیت ١٠۔
٤۔ سورئہ صف آیت٥۔
''جب وہ لوگ(حق سے)مڑگئے تو خدا نے بھی ان کے دلو ں کواور ٹیڑھا کر دیا '' ۔
(اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلَٰھَہُ ھَوٰیہُ وَاَضَلَّہُ اﷲُ عَلَیٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَیٰ سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَیٰ بَصَرِہِ غِشٰاوَةً۔۔۔)(١)
''توکیاآپ نے اس شخص کو بھی دیکھاہے جس نے اپنی ہوس کو خدابنالیا اور خدانے جان بوجھ کر اسے اورگمراہ کردیا ۔اور اسکے کان اور دل پر مہرلگادی اور اس کی آنکھ پر پردے ڈال دئے ''۔
بہت ساری آیات میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جن لوگوں نے باطل راستہ اختیار کررکھاہے اور فسق و فجور کو اپنالیا ہے کفرسے کام لیتے ،ظلم و ستم کرتے ،اوردوسروںکو گمراہ کرتے ہیں خداان کی گمراہی کے اسباب بڑھاکر ڈھیل دیدیتا ہے:
(وَیُضِلُّ اﷲُ الظَّالِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اﷲُ مَایَشَائُ)(٢)
''اوراﷲ ظالمین کو گمراہی میںچھوڑ دیتاہے اور اﷲ جوبھی چاہتاہے انجام دیتاہے ''۔
(کَذَالِکَ یُضِلُّ اللَّہُ مَنْ ھُوَمُسْرِف مُرْتَاب)(٣)
''اس طرح خدا زیادتی کر نے والے شکی مزاج انسانوں کو گمراہی میں چھو ڑدیتا ہے ''۔
(کَذَالِکَ یُضِلُّ اللَّہُ الْکَٰفِرِیْنَ)(٤)
''اسی طریقہ سے خدا کا فروں کو گمراہ کرتا ہے ''۔
اللہ کی سنت اضلال کا دائرہ اس قدروسیع ہے کہ حتی قرآ ن جیسی سب سے بڑی کتاب ِہدایت بھی نعمت ہدایت کا کفران کر نے والوں کے لئے ضلالت اور گمراہی کا سبب بن جاتی ہے:
(یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراًوَیَھْدِیْ بِہِ کَثِیْراًوَمَایُضِلُّ بِہِ اِلَّاالْفَاسِقِیْنَ)(٥)
..............
١۔سورئہ جاثیہ آیت٢٣۔
٢۔سورئہ ابراہیم آیت٢٧۔
٣۔سورئہ مومن آیت٣٤۔
٤۔سورئہ مو من آیت ٧٤۔
٥۔سورئہ بقرہ آیت ٢٦۔
''خدااس (قرآن )کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھو ڑدیتا اور بہت سے لوگوں کی ہدایت کردیتا ہے اوراس سے گمراہ صرف و ہی ہوتے ہیں جو فا سق ہیں ''۔
البتہ جیساکہ آیت سے صاف پتہ چلتا ہے ہے کہ یہ خود فاسقوں کا گروہ ہے جس نے اپنے اختیار کے غلط استعمال سے اپنی یہ حالت اور کیفیت بنا لی ہے کہ وہی قر آن جوبہت سے لوگوں کے لئے وسیلۂ ہدایت ہے ان کے لئے اور زیادہ گمراہی کا باعث بن گیا ۔
بہر حال ، الٰہی اضلال کے تمام موارد ''وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد '' اور ''کَلَّانُمِدُّ ھَؤُلَائِ وَھَؤُلَائِ مِنْ عَطَائِ رَبِّک ''کے مصادیق میں شمار ہو تے ہیں ،چو نکہ یہ گروہ معنوی نعمتِ ہدایت کاکفران کر تا ہے لہٰذا عذاب الٰہی کا مستحق ہے اوران کا گمراہ ہو جا نا ہی ان کے لئے سخت عذاب ہے جو،ان کے قلب کواندھا اور روح کی بیماری میں اضافہ کردیتا ہے ۔
دوسری طرف ان کی گمراہی اورقلب کی تاریکی کے ساتھ ہی ساتھ مادی نعمتوں میں اضافہ کرتاجاتاہے کہ وہ اپنا بارگناہ اور وزنی کرتے جائیں اور اخروی عذاب کے اسباب زیادہ سے زیادہ مہیا کرلیں۔
|