د) لوط علیہ السلام کی قوم
سورئہ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَأَمْطَرْنَاعَلَیْہِمْ مَطَراًفَانْظُرْکَیْفَ کَانَ عَٰقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ)(١)
''اور ہم نے ان (قوم لوط)کے سرپر(اولوںکا)مینھ برسایا پس ذرا غور توکرو کہ گنہگاروں کا انجام آخر کار کیا ہوا''۔
قوم لوط علیہ السلام پر عذاب کے متعلق مندرجہ ذیل آیات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے :سورئہ ہو د ٨٢، حجر ٧٣ ۔٧٤ ، نحل ٥٨ ، شعراء ١٧٣۔ ١٧٤ ،عنکبوت ٣٤۔٣٥ ،صافات ١٣٦ ،ذاریات ٣٢۔٢٧ اور سورئہ قمر ٣٤۔٣٩ ۔
ہ)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم پر عذاب اور ان کی ہلاکت کے بارے میں صاف طور پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ۔
صرف سورئہ انبیاء میں اس سے متعلق یہ عبارت پا ئی جاتی ہے :
(وَاَرَادُوْابِہِ کَیْداًفَجَعْلْنَٰھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ)(٢)
''اور ان لوگوںنے ابراہیم کے ساتھ چالبازی کرنا چاہی تھی تو ہم نے ان کوسب سے زیادہ گھاٹا اٹھانے والوں میں قرار دے دیا ''۔
یہ آیت اگر چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مخالفوں پر عذاب کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن ان پر عذاب کی کیفیت بیان نہیں ہوئی ہے۔
و:حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم
خدا وند عالم سورئہ ہودمیں ارشاد فرما تا ہے:
(وَلَمَّاجَائَ اَمْرُنَانَجَّیْنَا شُعَیْباًوَالَّذِ یْنََ آمَنُوْامَعَہُ بِرَحْمَةٍ مِنَّاوَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاالصَّیْحَةُ فاَصْبَحُوا فِی دِیَارِھِمْ جَٰثِمِیْنَ)(٣)
..............
١۔سورئہ اعراف آیت٨٤۔
٢۔سورئہ انبیاء آیت٧٠۔
٣۔سورئہ ہود آیت٩٤۔
''اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے شعیب اور ان پر ایمان لانے والوں کو اپنی مہربانی سے بچالیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک چنگھاڑنے ہلاک کر دیاپھرتو وہ سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ''۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے کافروں کی ہلاکت کے بارے میں دوسری کچھ آیات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے :سورئہ اعراف ٩١،شعرائ١٨٩۔١٩٠،عنکبوت ٣٧۔
ز)حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی قوم (آل فرعون )
حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی قوم(فر عو نیوں ) کے بارے میں دو قسم کے عذاب کا ذکر ملتا ہے ۔ایک تووہی عذاب ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے مبعوث ہونے کے بعد ان پر تنبیہہ کے طور پر نازل ہو ا تھاکہ شاید وہ خواب غفلت سے بیدار ہوکر خدا کو یاد کرنے لگیں ۔یہ عذاب مختلف صورتوں میں جیسے قحط ،خشک سالی اورطوفا ن وغیرہ کی شکل میں نازل ہوا اور بعض آیات میںاس کی طرف اشارہ کیاگیاہے :
(وَلَقَدْاَخَذْنَائَ الَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِنَ الَّثَمَرَٰتِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ)(١)
''در حقیقت ہم نے فرعون کے لوگوں کو برسوںکے قحط اور پھلوں کی پیداوارمیں کمی (کے عذاب)میں گرفتار کیا تا کہ وہ لوگ عبرت حاصل کریں''۔
اور دوسری جگہ ارشاد ہو تا ہے :
(فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الطُّوفَانَ والْجٰرادوَالقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ ئَ ایَٰتٍ مُّفَصَّلَٰتٍ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُواقَوْماًمُّجْرِمِیْنَ)(٢)
''پس ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیوں ،جوئوں، مینڈکوں اور خون (کاعذاب)بھیجا جو سب جداجدا آشکار نشانیاں تھیں پھر بھی وہ لوگ سر کشی ہی کرتے رہے اوران کا ایک گروہ بدکار تھا ''۔
موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر دوسرا عذاب، عذا بِ استیصال تھا جس کے تحت فرعون کو دریامیں غرق کر دیا گیا:
(فَانْتَقَمْنَامِنْھُمْ فَاَغْرَقْنَٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّہُمْ کَذَّ بُوْابِئَآیَاتِنَاوَکَانُوْاعَنْھَا غَٰفِلِیْنَ)(٣)
''آخر کار ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو دریامیں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایاتھا اور
..............
١۔سورئہ اعراف آیت١٣٠۔
٢۔سورئہ اعراف آیت١٣٣۔
٣۔سورئہ اعراف آیت ١٣٦۔
ان سے غافل ہو گئے تھے ''۔
دوسری بہت سی آیات بھی قوم فرعون کی ہلاکت کے بارے میں اشارہ کر تی ہیں جیسے :بقرہ کی آیت٥٠، یونس٩١۔٩٢، ہود٩٩، اسراء ٢٠٣، طہ ٧٨، مومنون٤٨، فرقان ٣٦،شعراء ٦٦۔٦٧،نحل ١٤ ، قصص ٤٠ ،مومن ٤٥ ، زخرف٥٥۔٥٦، ذاریات ٤٠ ،اور سورئہ نا زعات ٢٥ ۔
انبیاء علیہم السلام کی ان قوموں کے علا وہ قرآن کریم کی بعض آیات میں بعض دو سرے گروہوںپر نا زل ہو نے والے عذاب کاذکر ہے مگر ان کے انبیاء علیہم السلام کے نام بیان نہیں کئے گئے ہیں ۔
ان میں سے بعض گروہ یہ ہیں :
الف )اصحاب سبت
سورئہ بقرہ میں ارشاد ہو تا ہے :
(۔۔۔فَقُلْنَالَھُمْ کُوْنُوْاقِرَدَةً خَٰسِئِینَ)(١)
''تو ہم نے ان (اصحاب سبت)سے کہا تم راندۂ درگاہ بندر بن جائو ''۔
ب )قوم سب
سورئہ سبمیں ارشاد ہو تا ہے :
(فَاَعْرَضُوافَاَرْسَلْنَاعَلَیْہِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ۔۔۔)(٢)
''پھر(قوم سب)نے روگردانی کی اور ہم نے ان پر بڑے زور کا سیلاب بھیج دیا ۔۔۔''۔
ج )اصحاب رسّ
سورئہ فرقان میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَعَاداًوَثَمُودَوَاَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُوناًبَیْنَ ذَلِکَ کَثیراً)(٣)
''اور( نیز)عاد اور ثمود اور اصحاب رس اور ان کے درمیان بہت سی جماعتوں کو (ہم نے ہلاک کرڈالا)'' ۔
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت٦٥۔
٢۔سورئہ سبأآیت١٦۔
٢۔فر قان آیت٣٨۔
ہ )اصحاب فیل
سورئہ فیل میں ارشاد ہو تاہے:
(وَاَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْراًاَبَابِیلَ۔تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّیْلٍ ۔فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّْکُوْلٍ)(١)
''اور ان پر جھنڈکی جھنڈ(ابابیل)چڑیاںبھیجدیں (جو)ان پر کھر نجوں کی کنکریاں پھینکتی تھیں تو (سر انجام خدانے)انھیں چبائے ہوئے بھوسہ کی طرح کردیا''۔
بعض آیات میں ایک خاص شخص پر نازل ہونے والے عذاب کی داستان بھی بیان کی گئی ہے مثال کے طور پر قارون کے بارے میں سورئہ قصص میں ارشاد خداوندی ہے :
(فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الاَرْضَ فَمَاکَانَ لَہُ مِنْ فِئَةٍ یَنْصُرُوْنَہُ مِنْ دُونِ اﷲِوَمَاکَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ)(٢)
''اسی وقت ہم نے(قارون)کو اس کے گھر بار سمیت زمین میں دھنسا دیااور خداکے(عذاب)کے مقابل کوئی اس کی مددکرنے والانہ تھااور (وہ خودبھی)اپنادفاع نہ کرسکا''۔
متعدد آیات میں ایک ساتھ کئی کئی قو موں پر عذاب کا تذکر ہ بھی ملتا ہے مثال کے طور پر قوم عاد و ثمود وفر عون کا تذکرہ کر نے کے بعدسورئہ فجرمیں ارشاد ہوتا ہے:
(فَصَبَّ عَلَیْہِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ)(٣)
''یہاں تک تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا دے ما را ''۔
عذابِ استیصال کا، کافروں سے مخصوص ہونا
قرآن کریم کی آیات پر تدبر و تفکر سے ایک اور نکتہ جو حقیقت میں خدا کی دوسری سنّت بیان کرتاہے یہ ہے کہ عذاب استیصال کافروںسے مخصوص ہے ۔خبر دارکرنے والے عذاب ممکن ہے کافروں اور مومنوں دونوںپر نازل ہوں اور کافروںکے ساتھ مومنین بھی قحط اوربیماری جیسی مصیبتوں میں مبتلاہوجا ئیںکیونکہ یہ مومن کیلئے امتحان
..............
١۔سورئہ فیل آیت٣۔٥۔
٢۔سورئہ قصص آیت٨١۔
٣۔سورئہ فجر آیت١٣۔
وآزمائش ہے اورجو کافر کے لئے تنبیہ ہے لیکن عذاب استیصال جس سے کسی کوہمیشہ کے لئے ہلاک کر دیاجائے صرف کافروں سے ہی مخصوص ہے اور اس عذاب کے نازل ہوتے وقت اگر کوئی مومن یا مومنہ کافروں کے درمیان موجود ہوتو خداوندعالم اس کو نجات د یدیتا ہے ۔
یہ بات متعدد آیات میں بیان کی گئی ہے۔ بعض آیات اس عمومی قانون کو بیان کرتی ہیں کہ بالآخر کار انبیاء کی کامیابی ایک سنّت الٰہی ہے ۔البتّہ واضح ہے کہ اس کا میابی سے مراد یہ نہیںہے کہ کوئی پیغمبر اپنی رسالت کی راہ میں شہادت کے درجہ پر فائز نہیں ہوتابلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سرانجام انبیاء علیہم السلام کی رسالت کا مقصد پورا اور ان کی دعوت نتیجہ مطلوب تک پہنچ جاتی ہے ۔اس کامیابی و کامرانی کی ایک علامت یہ ہے کہ انبیاء اور ان کا اتباع کرنے والے کبھی بھی عذاب استیصال میں گرفتار نہیں ہوتے اس سنّت الٰہی پر مندرجہ ذیل آیا ت دلالت کرتی ہیں :
(اِنّٰالَنَنْصُرُرُسُلَنَاوَالَّذِیْنَئَ امَنُوْافِی الْحَیَوَٰةِالدُّنْیَاوَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَٰدُ)(١)
''ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں بھی اور جس دن گواہ اٹھ کھڑے ہوںگے یقیناًمدد کریں گے ''۔
اور سورئہ صافات میں ارشاد ہو تا ہے:
(وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَالِعِبَادِنَاالْمُرْسَلِیْنَ۔اِنَّہُمْ لَھُمُ الْمَنْصُورُوْنَ۔وَاِنَّ جُنْدَنَالَھُمُ الْغَٰلِبُونَ)(٢)
''اور قطعاًاپنے بھیجے گئے بندوں کے بارے میںہماراپہلے سے فرمان ہے کہ وہ (اپنے دشمنوںپر) یقینا کامیاب ہوں گے اور ہمارا شکر یقیناغالب رہے گا ''۔
بعض آیات میں مومنوں کی مخصوص قوم کے کامیاب ہونے کے بارے میں بھی ذکر ملتا ہے، نمونہ کے طور پر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو کاروں کی آپ پرایمان نہ لانے والے بنی اسرائیل کے کافروں پر فتحیابی سورئہ صف میںبیان ہوئی ہے:
(یَااَیُّہَاالَّذینَ ئَ امَنُواکُونُوْااَنْصَارَاﷲِکَمَاقَالَ عیسَیٰ ابْنُ مَرْیَمْ لِلْحَوَارِیِّیْنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اﷲِقَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُاﷲ ِ فَئَامَنَتْ طَائِفَة مِنْ بَنِیْ اِسْرَٰائِیْلَ وَکَفَرَتْ طَائِفَة فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ
..............
١۔سورئہ مومن(غافر) آیت٥١۔
٢۔سورئہ صافات آیت١٧١۔١٧٣۔
َامَنُوْا عَلَیٰ عَدُوِّھِمْ فَأَصْبَحُواظَاھِرِیْنَ)(١)
''اے ایمان دارو خداکے مددگار بن جائو جس طرح مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں سے کہاتھاکہ خداکی طرف (بلانے میں )میرے مددگار کون لوگ ہیں ؟توحواریوں نے کہا: ہم خداکے انصار ہیں پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ان پر ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفراختیار کیاتوجو لوگ ایمان لائے ہم نے ان کو ان کے دشمنوں کے مقا بلہ میں مدددی یہاں تک کہ وہی غالب رہے ''۔
اس آخری آیت سے پتہ چلتاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کے کفّار بھی ایک قسم کے عذاب میںمبتلا ہوئے اوروہ عذاب ان (کفّار)پر مومنوںکی فتح تھی۔ایک دوسری آیت میں بھی اس گروہ پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیاگیا ہے ۔اس آیت سے پہلے کی آیات میںحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا ذکر ہے پھر ارشاد ہو تا ہے :
(فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْ بَیْنِہِمْ فَوَیْل لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوامِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلیمٍ)(٢)
''یہاں تک کہ ان کی جماعتیں آپس میں اختلاف کرنے لگیں تو جن لوگوں نے ظلم کیا ان پر دردناک عذاب کے دن کی دائے ہو '' ۔
البتہ یہ عذاب دنیا میں آنے والے عذاب کے بارے میںہے، مندرجہ بالاآیت میں صاف طور سے ذکر نہیںہے لیکن یہ احتمال پایا جاتاہے کہ شاید اس عذاب سے وہی کافروں کی شکست مرادہو۔
اب تک ہم نے سنّت عذاب سے متعلق بعض آیات کا مختصر طور پر ذکر کیا ہے ۔اب منا سب معلوم ہوتا ہے کہ سنّت الٰہی سے متعلق بحث کی مناسبت سے قرآن کریم میں جو دو سری الٰہی سنتیں بیان ہوئی ہیں ان پر بھی سرسری نظر ڈال لی جا ئے :
..............
١۔سورئہ صف آیت١٤۔
٢۔سورئہ زخرف آیت٦٥۔
|