راہ اور رہنما کی پہچان
 

سنّت عذاب
الٰہی سنتوں سے متعلق آیات جن کے با رے میںگفتگو چل رہی ہے ان میں تیسری سنّت، سنّتِ عذاب ذکرکی گئی ہے ۔ جب پیغمبروں کے مخالفین خداوند عالم کی تدبیر کے جال میں آ گئے اور اس کی طرف سے ملنے والی تمام
مہلتوں سے بے پروا اپنے گناہوں میں اضافہ ہی کرتے چلے گئے تو ان پر عذاب نازل ہو نا ضروری ہو گیاتو سزا کے طور پر خدا کے عذاب کے علاوہ اور کچھ نہ پایا ۔ متعدد آیات میں گذشتہ قوموں کے اوپر عذاب نا زل ہونے کے تذکروں کے ذیل میں اس سنّت الٰہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ متنّبہ کردیا گیا ہے کہ قرآن کے مخالفین بھی اگر گذشتہ لو گو ں کی عاقبت کے بارے میں غورو فکر سے کام نہ لیں گے تو انھیں کے انجام سے دو چار ہو نا پڑے گا لہٰذا اس بد بختی سے محفوظ رہنے کے لئے قرآن مجید میں باربار''سیروا فی الارض''یا ''یسیروا فی الارض ''کے ذریعہ گزشتہ لوگوں کے انجام سے عبرت حا صل کر نے کاحکم دیا گیا ہے جیسا کہ سورئہ مبارکہ فاطرمیں ارشاد ہوتا ہے :
( وَاَقسَمُوابِاللَّہِ جَھْدَ اَیمَٰنِھِم لَئِنْ جَائَ ھُم نَذِیْرُ لَیَکُونُنَّ اَھدَیٰ مِنْ اِحدَیٰ الاُ مَمِ فَلَمَّاجَا ئَھُم نَذِیْرمَازَادَھُم اِلَّانُفُوراً )(١)
'' اور یہ لوگ خدا کی بڑی بڑی سخت قسمیں کھاتے تھے کہ اگر ان کے پاس کو ئی ڈرا نیوا لا آئیگا تو وہ ضرور (دوسری ) کسی بھی امت سے زیادہ راہ پانے والے ہو ں گے ( لیکن) جب ان کے پاس ڈرا نیو الا آیا تو ان کی نفرت میں ترقی کے علاوہ اور کچھ نہ ہوا '' ۔
یہ آیت پیغمبر اکرم ۖ کی امت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس میں یہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ لوگ پیغمبر اکرم ۖکی بعثت سے پہلے اپنی پوری طاقت وقوّت کے ساتھ قسم کھایا کرتے تھے کہ اگر خداوند عالم کی طرف سے ان کے لئے کوئی رسول مبعوث کیاگیا تو وہ دوسری امتوں سے بہتر طریقہ سے ہدایت الٰہی قبول کریں گے لیکن جب ان کے درمیان رسول اکرم ۖ مبعوث ہوئے تووہ حق سے فرار کرگئے۔ بعد والی آیت ان کے فرارکرنے اور جو سرنوشت ان کے انتظارمیں ہے اس سے پردہ اٹھارہی ہے ارشاد ہو تا ہے :
(اِسْتِکْبٰاراًفِی الْاَرْضِ وَمَکْرَالسَّیِّئِ وَلَایَحِیقُ الْمَکْرُالسَّیِّئُ اِلَّابِاَھْلِہِ فَھَلْ یَنْظُرُونَ اِلّاسَنَّتَ الْاَوَّلِیْنََ فَلَنْ تَجِدَلِسُنَّتِ اﷲِ تَبْدِیْلاًوَلَنْ تَجِدَلِسُنَّتِ اﷲِتَحْوِیلْاً)(٢)
''ان کے اس کام کا (مقصد)روئے زمین پر فقط سرکشی اور شرمناک حر کتیں تھیں اور شرمناک سازش توسازش کرنے والے کی طرف ہی پلٹتی ہے ۔تو کیا یہ لوگ اگلے لوگوں کی روش اور (بری سرنوشت) کے ہی منتظر ہیں؟
..............
١۔سورئہ فاطر آیت ٤٢۔
٢۔سورئہ فا طر آیت٤٣۔
اور تم خدا کی سنّت میں ہرگز تبدیلی نہ پائو گے ''۔
ان کی مخالفت کا سبب ان کا تکبّر، غرور اور فریب کا ریاں تھیںایسی سا زشیں جو سا زش رچنے والوںکے سوا کسی دوسرے کے دا منگیر نہیں ہوتیں اور ان کا انجام بھی عذاب الٰہی ہی ہے ۔اس آیت کے آخری حصّہ میں بھی سنّت عذاب کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔
یہاںیہ بات بیان کردینا مناسب ہوگا کہ لفظ ''سنّت ''کبھی خداوندعالم کے با رے میں استعمال ہواہے اور کبھی لوگوں کے با رے میں استعمال ہواہے اور جیسا کہ اہل ادب نے اضافت کی بحث میں بیان کیاہے کہ اضافت کے صحیح ہونے کے لئے معمولی اضافت بھی کافی ہے چنا نچہ خداوندعالم کی طرف سنت کی نسبت اس لئے دی جاتی ہے کہ اس نے اس کوجاری کیاہے اور آدمیوں سے اس لئے نسبت دی جاتی ہے کہ سنّت ان کے بارے میں جاری ہوئی ہے اس آیت میں دونوںنسبتوں کا استعمال ہواہے ''سنَّةالاولین ''اور ''سنَّة اﷲ''البتّہ ان دونوں سے مراد وہی سنّت سزا اور عذاب الٰہی ہے لہٰذا اس آیت کے بعد خداوندعالم فرماتاہے :
(اَوَلَمْ یَسِیْرُوْافِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْاکَیْفَ کَانَ عَٰاقِبَةُ الَّذینَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَکَانُوْااَشَدَّمِنْہُمْ قُوََّةً وَمَاکَانَ اﷲُ لِیُعْجِزَہُ مِنْ شَیْئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَافِی الْاَرْضَ اِنَّہُ کَانَ عَلِیْماً قَدِیْراً)(١)
''تو کیا ان لوگوں نے روئے زمین پر سیر نہیں کی کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے اور ان سے زور و قوت میں بھی کہیں بڑھ چڑھ کے تھے دیکھیں ان کا کیا انجام ہوا؟اور آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز خدا کو عاجز نہیں کرسکتی کیونکہ بیشک وہ بڑا باخبر (اور)بڑی قدرت والاہے ''۔

خدا کی سنّتوں کا ایک دوسرے میں مؤثر ہونا
مندرجہ بالاآیات اور اس کے مشابہ دوسری آیات دیکھنے کے بعد ممکن ہے ذہن میں یہ سؤال پیدا ہو :ان آیات کے مخاطبین کی کثیر تعداد گذشتہ قوموں کی راہ پر گامزن رہی اور وہ اسی طرح انبیاء کی مخالفت بھی کرتی رہی پھر ان پر خدا کا عذاب کیوں نہیں نا زل ہو ا ؟ کیا یہ بات سنّتِ الٰہی کے تبدیل ہونے کی نشا ندہی نہیں کر تی ؟ اس سوال کا جواب بعد والی آیت سے وا ضح ہو جاتا ہے ۔
خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :
(وَلَوْیُوَاخِذُُ اﷲُ النَّاسَ بِمَاکَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلَیٰ ظَھْرِھَامِنْ دَاَبَّةٍ وَلٰکِنْ یُؤَخِّرُھُمْ اِلیٰ اَجَلٍ
..............
١۔سورئہ فاطرآیت٤٤۔
مُسَمّی فَاِذَاجَائَ اَجَلُھُمْ فَاِنَّ اﷲَ کَانَ بِعِبَٰادِہِ بَصِیْراً )(١)
''اور اگر خدا لو گو ں کے کر تو توں کی گرفت کر تا اور سزا دیتا رہتاتو روئے زمین پر کوئی چلنے پھر نے والا باقی نہ چھو ڑتا لیکن وہ تو لو گو ں کو ایک معین مدت تک مہلت دیتا ہے اور جب ان کا وقت آ جا ئے گا تو خدا اپنے بند وں کے افعال کو دیکھ رہا ہے ۔
اس آیت اور اس کے مانند قر آن میں موجود دوسری آیا ت پر غور و فکر کر نے سے خدا وند عالم کی سنتو ں کے بارے میں ایک بنیادی قا عدے تک رسا ئی ہو سکتی ہے اور اس اصل کی بنیاد پر اگرچہ کا فروںاور گنہگا روں پر عذاب ہوناخدا وند عالم کی ایک نا قابل تغییر، ثا بت و استوار سنت ہے لیکن اس کا عملی جا مہ پہناناکچھ اور معینہ اصولوں سے وا بستہ ہے جو خدا وند عالم کی دو سری سنتو ں کے ذریعہ وقو ع پذیر ہو تے ہیں ۔ در حقیقت خدا وند عالم کی سنتو ںمیں (عام معنی کے لحا ظ سے نہ کہ اُس خاص معنی میں جو قرآن میں صرف سنتِ عذاب سے مخصو ص ہے) کچھ ایسے رابطے حکمراںہیں جو ان کے عمل میں آنے کا طریقہ معین کر تے ہیں مثا ل کے طور پر ممکن ہے ایک سنت (اقتضا ئی ) پہلو رکھتی ہو اور اس کا ظہور ایک وجو دی یا عدمی شرط کے ساتھ اس طرح مشروط ہو کہ خود اس شرط کا محقق ہو نا کسی اور سنت کے جا ری ہو نے پر مو قوف ہو، ظا ہری طور پر کا فر وں پرعذاب کی سنت بھی اسی قسم سے ہے اس لئے کہ عذاب کا عملی ہوناان کی موت آ جا نے کی شرط پر مو قو ف ہے جبکہ خود ان کی موت کا وقت معین کر نا خو د دوسری سنتو ں اورمخصو ص مصلحتوں اور بد عنوا نیو ں سے وابستہ ہے ان ہی سنتو ں میں سے ایک سنت کی بنیا د پر، اہل زمین تنا سل اور تو لید مثل کے ذریعہ دوسرے انسانو ں کو پیدا کر تے ہیں اور اسی طریقہ سے بہت سے مو منین کفر کی آغوش میں آنکھ کھو لتے ہیں
اور اپنے والدین کے بر خلاف حق کا راستہ منتخب کر لیتے ہیں ۔ اب اگر خدا وند عالم صرف تمام کافروں کو ان کا کفر ظا ہر ہو نے کے ساتھ ہی ہلا ک کر دے تو اُن کے اُن مو من فر زند وں کے پیدا ہو نے کا وسیلہ قطع ہو جا ئیگا جو ان کی نسل میں ہیں چو نکہ عام طور سے انسانو ں کے پیدا ہو نے کی سنت تنا سل کے ذریعہ ہی چل رہی ہے ۔ اس بنا پر بسا اوقات مومن فر زندو ں کی پیدائش اور نیک و صالح افراد کے بعد کی نسلو ںمیں ظاہر ہو نے کی مصلحت ان کے کا فر اور گنہگا ر باپ داداکی ہلا کت میں رکا وٹ بن جاتاہے ۔ اسی وجہ سے حضرت نو ح علیہ السلام نے خدا وند عالم سے اپنی قوم کے کا فرو ں پر عذاب کی در خوا ست اس وقت کی ہے جب ان کو یہ اطمینا ن ہو گیا کہ ان کی نسل میں کو ئی مو من نہیں ہو گا :
(اِ نَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْاعِبَا دَ کَ وَلَا یَلِدُوْااِلَّا فَاجِراً کَفَّاراً )(١)
..............
١۔سورئہ فا طر آیت٤٥۔
٢۔سورئہ نوح آیت ٢٧۔
'' کیو نکہ اگر تو ان کو چھو ڑ دے گا تو یہ تیرے بند و ں کو گمرا ہ کر یں گے اور نا شکرے کا فر وں کے علاوہ ان سے کو ئی پیدا نہیں ہو گا '' ۔
یقیناً کچھ دو سری سنتیں بھی ہوں گی جو عذاب نا زل ہو نے میں مو ئثر ہیں لیکن ہم ان کو نہیں جانتے اوریہ تما م سنتیں ، بھلا ئیاں اور برا ئیا ں مل کر عذاب کے نا زل ہو نے کا وقت معین کرتی ہیں ۔
اس بات پر بھی تو جہ ضر وری ہے کہ الٰہی سزا ؤں کی مختلف قسمیں ہیں جیسا کہ دنیا وی عذاب دو طرح کے ہیں :
ایک تو جڑ کا ٹ دینے والا عذاب عذابِ استیصال ہے جس کے ذریعہ لوگوں کی ایک جماعت ہلاک اور نیست و نا بود کر دی جاتی ہے ۔
دوسرے وہ مشکلات و مصائب ہیں جو عذاب میں مبتلاء افراد کی مو ت کا سبب نہیں ہو تے ۔ اس طرح کے عذاب کا سلسلہ ہمیشہ جا ری رہتا ہے ،کبھی کبھی معا شرہ کے تمام افراد یاکسی خا ص طبقہ کے لو گو ںیا کسی خا ص شخص پر بھی نا زل ہوجاتا ہے ۔اس قسم کے عذاب لوگوں کے گنا ہو ں کی سزا کا صرف ایک حصہ ہیں جیسا کہ آپ نے آخری آیت میںملاحظہ کیاکہ اگر خداوندعالم انسا نو ں کو ان کے تمام برے اعما ل کی سزا اسی دنیا میں دید یتا تو کو ئی بھی انسان زندہ نہ بچتا:
(مَاتَرَکَ عَلَیْھَا مِنْ دَابَّةٍ)(١)
''تو رو ئے زمین پر کوئی ایک جا ندا ر کو با قی نہ چھو ڑ تا '' ۔
چنانچہ سنت الٰہی یہ ہے کہ آدمیو ں کے صرف کچھ گنا ہو ں کی سزا اس دنیا میں دید ی جا ئے او ر باقی سزا کو جہانِ آخرت (قیا مت ) کے لئے چھو ڑ دی جا ئے اور اللہ کی یہ سنت بھی ایک ایسی سنت ہے جو سنت عذاب کو محدود اور اس کے وقت کو معین و مشخص کر تی ہے ۔ اس بنا پر الٰہی سنتو ں کی آخری حد یہ ہے کہ صرف کچھ لو گ وہ بھی مشخص و معین زما نوں میں عذابِ استیصال میں مبتلا کئے جا ئیں تا کہ اس طریقہ سے دوسرے لو گ عبرت حا صل کریں ۔ سورئہ نحل کی ایک آیت میں بھی اس حقیقت کی طرف اشا رہ ہے :
(وَلَوْیُوَاخِذُ اﷲُ النَّاسَ بِظُلْمِھِمْ مَاتَرَکَ عَلَیْھَامِنْ دَابَّةٍ وَلٰکِنْ یُؤَخِِّرُھُمْ اِلَیٰ اَجَلٍ مُسَمّیً فَاِذَاجَائَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ )(٢)
..............
١۔سورئہ نحل آیت ٦١۔
٢۔سورئہ نحل آیت٦١۔
''اور اگر خدا وند عالم(سزا کے ذریعہ) لو گو ں کے ستم کا موا خذہ کر تارہتا تو روئے زمین پر کوئی ایک جا ندا ر باقی نہ چھو ڑتالیکن وہ ان کے (کیفر ) کو ایک معین وقت کے لئے ٹالے رکھتا ہے اور جب ان کی اجل (موت) آپہنچتی ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹاسکتے ہیں اور نہ آ گے بڑھا سکتے ہیں ''۔
بعض آیات ایک دوسرے نکتہ پر زور دیا گیا ہے وہ یہ کہ انسان کا برا کر دارہی اس کو دنیا میں عذاب اور مصیبتوں میں مبتلا کر تا ہے اور یقیناً ایسا نہیں ہے کہ یہ عذاب اس کے تما م برے اعمال کا نتیجہ ہو بلکہ یہ صرف وہ عذاب ہے جو اُس کے بعض اعمال کے بدلہ میں مقرر کیا جاتا ہے اور اس کا مقصدبد کارو ںکی تنبیہ کے علا وہ اور کچھ نہیںہے ۔ نمو نہ کے طو رپر سورئہ مبا رکۂ شوریٰ میںاس حقیقت کی طرف اشا رہ موجودہے ارشاد ہو تا ہے :
( وَمَاأَصَٰبَکُمْ مِن مُصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَت اَیْدِیْکُم وَیَعفُوْاعَن کَثِیْرٍ )(١)
'' ا ور جو مصیبت تم پر پڑی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی بلائی ہو ئی ہے اور ( خداتو) بہت کچھ در گزر کردیتا ہے '' ۔
بہت سے عذاب کے مستحق گنا ہو ں سے خدا وند عالم کا چشم پوشی کرنا سورئہ نحل کی اسی آیت کا مصداق ہے جس میں اعلان ہواہے : اگر خداوند عالم انسانوں کو ان کے تمام برے اعمال کی سزا دینا چاہے تو روئے زمین پر کوئی جاندارمنجملہ کو ئی بھی آدمی باقی نہ رہتا ۔ بنا بریں اس آیت سے دو نکتوں کا استفادہ ہو تا ہے :
١۔ انسان پر آنے والی ہر مصیبت اور عذاب خود اسی کے برے اعمال اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔
٢۔اگر چہ انسانوں کے تمام ناپسند اور برے اعمال پر ایک مخصوص سزا اور عذاب ہو نا چا ہئے لیکن خداوند عالم ( اپنی حکمت با لغہ کی بنیاد پر ) ان کے بہت سے اعمال کو بخش دیتا ہے اور ان کے مر تکب افراد کو اس دنیا میں عذاب دینے سے چشم پوشی کرتا ہے ۔
اس نکتہ کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کبھی کبھی گنا ہگاروں کے بُرے اعمال کا اثر اتنا زیادہ وسیع ہو تا ہے کہ اس کی لپیٹ میں صرف ان اعمال کے مر تکب ہی نہیں بلکہ دو سرے بھی آجا تے ہیں ۔ اس حقیقت کومندرجہ ذیل آیت میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے:
( ظَھَرَالفَسَادُ فِی البَرِّوَالبَحْرِ بِمَاکَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِ یْقَھُم بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوالَعَلَّھُم یَرْجِعُوْنَ )(٢)
..............
١۔سورئہ شوریٰ آیت ٣٠۔
٢۔سورئہ روم آیت ٤١ ۔
'' خود لو گوں کے اپنے ہا تھوں کر توت کی بدولت خشک و تر میں برائی اور تباہی پھیلی ہے کہ جو کچھ یہ لوگ کرچکے ہیں ان میں سے بعض کا مزہ (خدا )انھیںچکھا دے کہ شاید یہ لوگ باز آجائیں '' ۔
اور اسکے بعدکی آیت میں خداوند عالم نے انسان کو زمین کی سیر کرنے اور گذشتہ لو گو ں کے انجام کے بارے میں غور و فکر کر نے کی دعوت دی ہے :
(قُلْ سِیْرُوافِی الاَرْضِ فَانْظُرُوْاکَیفَ کَانَ عَٰقِبَةُ الَّذِیْنَ مِن قَبلُ کَان اَ کثَرُھُمْ مُشْرِکِیْنَ )(١)
'' کہدیجئے کہ ذرا رو ئے زمین پر چل پھر کر د یکھو تو کہ وہ لوگ کہ جن میں اکثریت مشرکین کی تھی اور اس کے قبل گذر چکے ہیں ان کا انجام کیا ہو ا ۔
جیسا کہ آپ ملا حظہ فر ما رہے ہیںکہ آیت میں جن لوگوں پر عذاب کیا گیا ان کے مشرک ہو نے کی طرف اشارہ ہے ۔ ا لبتّہ عبارت ( کان اکثرھم مشرکین ) میں دواحتمال پائے جاتے ہیں :
پہلا احتمال یہ ہے : گذشتہ قوموں کی اکثریت جو مشرک تھی عذاب الٰہی میں مبتلاہوئی ۔اس بنیاد پرآیت کا مطلب یہ ہو گا کہ جن افراد پر عذاب ہوا وہ سب مشرک تھے اور یہ بھی کہ تمام مشرکوں پر عذاب ہوا ہے ۔
دوسرا احتمال یہ ہے :جن افراد پر عذاب ہوا ان میں سے اکثر مشرک تھے ۔اس صورت میں مطلب ہو گا کہ جن لوگوں پر عذاب ہوا ان میں سے بعض موحّد بھی تھے البتّہ اہل عذاب مشرکوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد بہت کم تھی اور عذاب کے درمیان وہ اقلیت میںتھے اب اگر ہم اس احتمال کو قبول کرلیں تویہ سوال ذہن میں آتاہے کہ خدائے واحد کو ماننے والے افراداقلیت میں سہی کس بناء پر خداوندعالم کے عذاب کے مستحق قرارپائے ؟
اس سوال کے جواب میںیہ کہاجاسکتاہے کہ موحّدوںکایہ گروہ فسق وفجور کا مر تکب ہو نے کی وجہ سے خداوندعالم کے عذاب کا مستحق قرارپایا ہوگاجیسا کہ قرآن میں اصحاب ''سبت''کی داستان سے اس دعوے کی تا ئید ہو تی ہے، یہ جماعت مشرک نہیں تھی یہاں تک کہ وہ ظاہری طور پر خداوندعالم کے احکام کی پیروی کا ادعا بھی کرتی تھی یہی وجہ ہے جب سنیچر کے دن مچھلی کا شکار ممنوع ہوا تو انھوں نے شکار سے ہاتھ کھینچ لیا لیکن اس کے ساتھ چال یہ چلی کہ حوض کے مانند گڑھے کھو د دئے جن میں مچھلیاں پھنس جاتی تھیں اور پھر ان کا اتوار کے دن شکار کر لیا کرتے تھے یہ گروہ شرک کی وجہ سے نہیں بلکہ احکام الٰہی سے کھلواڑکی وجہ سے مستحق عذاب ہوا اور قرآن کی گواہی کے اعتبار سے یہ لوگ بندر بنا دئیے گئے ۔
..............
١۔سورئہ روم آیت ٤٢۔
(فَلَمَّاعَتَوْاعَنْ مَّانُہُوْاعَنْہُ قُلْنَالَہُمْ کُونُواقِرَدَةً خَاسِئِینَ)(١)
''پھر جس بات سے انھیں منع کیا گیا تھا جب ان لوگوں نے اس میں سرکشی کی تو ہم نے حکم دیا کہ تم ذلیل اور راندے ہوئے بندر بن جاؤ''۔
بہر حال اگر ہم دوسرے احتمال کو تسلیم کرلیں توبھی آیت کے معنی یہ ہونگے کہ گذشتہ لوگوںپر جو عذاب کیا گیا ان میں سے اکثر کے مشرک ہونے کی وجہ سے کیا گیا اگر چہ ان کے درمیان کچھ فاسق موحّد افرادبھی موجود تھے۔
بہر حال آخری آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کفر ،ظلم اورانبیاء علیہم السلام کو جھٹلانا و غیرہ آخرت کے عذاب کے علاوہ دنیاوی عذاب کا باعث بھی ہیں جو کبھی انسانوں کی پو ری ایک جماعت کی تباہی اورہلاکت کا سبب بنے ہیںلیکن یہ عذاب خداوندعالم کی دوسری سنّتوں کے زیر اثرہیں اور بعض اوقات مصلحتوں یا بد عنوانیوں کی وجہ سے کافروں اور گنہگاروں کی ہلاکت میں تاخیر کر دی جاتی یا کبھی کبھی بالکل ہی ٹال دی جا تی تھی اور ان کے عذاب کو آخرت کیلئے چھوڑدیا جاتاتھا۔جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں انسانوں کی موت کا وقت جو خود بھی علم الٰہی کے خاص قوانین وضوابط کی اساس و بنیاد پر معین ہوتاہے ایک اصول ہے جو عذاب استیصال کے نازل ہونے کے وقت کو معین و محدود کردیتاہے ۔اس حقیقت کو قرآن کریم کی بعض آیات میں صاف طورپر بیان کیا گیاہے:
(لَوْلَاکِتَاب مِنَ اﷲِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَااَخَذْتُمْ عَذَابعَظِیْم)(٢)
''تم نے جو کہا ہے اگر خداکی طرف سے پہلے لکھانہ جاچکاہوتاتو یقیناتم پربڑا عذاب نا زل ہوتا''۔
اس آیت سے یہ پتہ چلتاہے کہ اگر اس گروہ کی موت کا وقت پہلے سے لکھا نہ ہوتا تو یقینا ان کے برے اعمال کی وجہ سے ان پر بہت بڑا عذاب نازل ہوگیاہوتا۔متعددآیات میں (لَوْلاٰکَلِمَة سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ)کا جملہ استعمال ہواہے۔یہ آیات اس چیز کی عکاسی کرتی ہیں کہ اگر چہ آدمیوں کے بعض گروہ سخت عذاب و ہلاکت کے مستحق کیوں نہ ہوںچو نکہ ابھی ان کی موت کا وقت نہیں آیاہے اور خداوندعالم کی جا نب سے ان کی موت میںتا خیر کا فیصلہ ہو چکاہے لہٰذا ان پر عذاب الٰہی نازل نہیں ہوتااور وہ اپنی موت کے معینہ وقت تک زمین پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ لہٰذالوگوں کی موت کے وقت کا معیّن و مشخّص ہونا بھی خداوندعالم کی ایک ایسی سنّت ہے جو سنّت عذاب پر حاکم ہے اور اس کو معیّن و مشخّص کرتی ہے ۔
..............
١۔سورئہ اعراف آیت١٦٦۔
٢۔سورئہ انفال آیت٦٨۔
معلوم ہوا یہ کہ خداوندعالم اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے جس کا علم صرف اسی کو ہے، اپنے عذاب اور سزا کو اسکے مستحق افراد سے کچھ مدّت کیلئے اٹھالیتا ہے البتہ قرآن کریم کی ہی آیات سے جیسا کہ پتہ چلتا ہے کہ خداوندعالم کا یہ منصرف ہونے کا عمل مستحقین عذاب سے مخصوص ہے ،اور خداوندعالم کی نعمتوںمیں جاری نہیںہو تا۔ یعنی اگرچہ خداوندعالم اپنا عذاب ایک مدت کے لئے مستحقین سے دور کردیتا ہے لیکن کبھی اپنی نعمتوں کو نعمتوں کے مستحق بندوں کو عطا کرنے میں دریغ نہیں کرتا ۔
قر آن کریم کی بعض آیات میں صا ف طور پرموجودہے کہ خدا وند عالم جب اپنے بند و ں کو نعمت عطا کردیتاہے تو پھر واپس نہیں لیتا مگر خود بند وں کے اندرکو ئی ایسی تبد یلی آجا ئے کہ وہ اپنی پہلی لیا قت سے ہاتھ دھو بیٹھیں:
(ذَٰلِکَ بِاَنَّ اﷲَ لَمْ یَکُ مُغَیِّراًنِعْمَةً اَنْعَمَھَاعَلَٰی قَوْمٍ حَتَّیٰ یُغَیِّرُوْامَا بِاَنْفُسِھِم)(١)
''یہ سزا اس وجہ سے ہے کہ جب خدا کسی قوم کو کو ئی نعمت دیتا ہے تو جب تک وہ لوگ خود اپنی قلبی حا لت (نہ) بد لیں خدا بھی اسے نہیں بدلتا ''۔
اور سورئہ رعدمیں مطلق طور پر تغیر و تبدل نہ ہو نے کی بات کی گئی ہے :
( اِنَّ اﷲَ لَا یُغَیِّرُمَابِقَوْمٍ حَتّیٰ یُغَیِّرُوْامَابِاَنْفُسِھِمْ ۔۔۔)(٢)
''در حقیقت خدا وند عالم کسی قوم کی حا لت نہیں بد لتا جبتک وہ لوگ خود اپنی حا لت نہ بد لے ''۔
البتہ مفسرین کے ایک گروہ نے آیت کے مطلق ہونے کی بنیاد پر کہاہے کہ یہ آیت نعمت اور عذاب دونوں کو شامل ہے اب اگر یہ خیال درست مان لیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ خداوندعالم کسی گروہ کی طرف نا زل ہونے والے عذاب کو بھی نہیں بدلتامگر یہ کہ وہ گروہ خود مستحق عذاب نہ رہ جا ئے ۔یہ مفہوم اگرچہ آیت کے مطلق ہونے سے سازگار ہے لیکن آیات کے سلسلۂ کلام سے مناسبت نہیں رکھتاکیو نکہ ا ن آیات کے سلسلۂ گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تغیر و تبدّل کا مسئلہ نعمت سے مخصوص ہے یعنی خداوندعالم نعمتوں میں تغیّر و تبدّل نہیں کرتا مگر یہ کہ خود مستحقین نعمت اپنے استحقاق سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔نہ یہ کہ اگر کسی قوم پر کو ئی عذاب ہو نے والا ہو تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ قوم خود اپنے کو بدل ڈالے اور اس نظریہ کی تائید سورئہ مبارکۂ اعراف کی اس آیت سے ہوتی ہے:
(ثُمَّ بَدَّلنَامَکَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ۔۔۔)(٣)
..............
١۔سورئہ انفال آیت٥٣۔
٢۔سورئہ رعدآیت١١۔
٣۔سورئہ اعراف آیت٩٥۔
''پھر ہم نے برائی (مصیبت)کی جگہ،نیکی (اور نعمت) دیدی۔۔۔''۔
اس بناء پرلگتا ہے کہ سورئہ رعد کی گیارہویں آیت اور سورئہ انفال کی ترپنویں آیت دونوں کا مفہوم ایک ہی ہولہٰذایہ امکان پایاجاتاہے کہ خدا وند عالم مستحقین عذ اب سے کسی مصلحت منجملہ املااور استدراج کی وجہ سے بعض عذاب کودور کردے لیکن یہ عمل نعمتوں میں جاری نہیں ہوتا ۔
قرآن کریم کی آیات سے ایک دوسرے اہم مسئلہ کا پتہ چلتاہے کہ مصیبت اور سختی ہمیشہ عذاب اور الٰہی سزا نہیں ہوتی ۔اگر سختی اور مصیبت آدمی کے برے اعمال کا نتیجہ ہوتو یہ خداوندعالم کا عذاب ہوگی لیکن کبھی کبھی بعض سختیاں خود ایک قسم کی رحمت اور نعمت ہوتی ہیں جیسا کہ آپ نے پہلے کی آیات میں مشاہدہ کیا ہوگاکہ خداوندعالم انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرنے کے بعد سختیوں اوربلائو ںکو نازل کرتاتھاجن کا مقصد انسانوں کو خداوندعالم کی طرف متو جہ کر نا اور ان میں خضوع و خشوع کی حالت پیدا کرنا تھا :(لَعَلَّھُمْ یضَرَّعُون)اور ظاہر ہے کہ یہ سختی اور مصیبت عین نعمت ہے۔ پس ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ سختیاں گذشتہ اعمال کا نتیجہ اور سنّت عذاب کے تحت ہو بلکہ کبھی کبھی زیادہ عمومیت کی حا مل سنت یعنی آزما ئش اور امتحان کی سنت کے تحت ہو تی ہے۔ہم قرآن کی رو سے جانتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان کے پیدا کئے جانے کا مقصد اسکا امتحان لیناہے ۔
(۔۔۔لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً۔۔۔)(١)
''۔۔۔تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں عمل (کے اعتبار سے)میںزیادہ اچھاکون ہے۔۔۔''۔
اور آزمایش و امتحان کے لئے وسیلہ کی ضرورت ہے جوکبھی شر ہو تاہے اور کبھی خیر ہوتا ہے:
سورئہ انبیاء میں ارشاد ہو تا ہے :
(۔۔۔ونَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّوَالْخَیْرِفِتْنَةً۔۔۔)(٢)
''۔۔۔اور ہم تمہارا برائی اور نیکی کے ذریعہ امتحان لیتے ہیں ۔۔۔''۔
معلوم ہوا کہ کبھی کبھی سختیاں اورپر یشانیاں انسانوں کی آزمائش کا ذریعہ ہوتی ہیں اس کے اعمال کی سزا نہیں ہوتیں ۔
اب تک ہم نے الٰہی عذاب کے بارے میں اس عنوان سے گفتگوکی ہے کہ خداوندعالم کی یہ بھی ایک سنّت
..............
١۔سورئہ ہود آیت٧۔
٢۔سورئہ انبیاء آیت٣٥۔
ہے جو انبیاء علیہم السلام کے مخالفوں کے با رے میں جاری رہی ہے لیکن قرآن کریم میں اس بحث کی وسعت اور اہمیت کے پیش نظر بہتر ہے کہ اس بارے میں قرآن کریم کے مختلف سوروں میںذکر شدہ متعدد آیات پر بھی ایک سرسری نظر ڈال دی جا ئے ۔
قرآن کریم کی بعض آیات میں گذشتہ قوموں پر ہونے والے عذاب کا کلی طور پر ذکر ہواہے کسی خاص قوم یا اقوام کا ذکر نہیں ہے۔نمونہ کے طور پر سورئہ انعام میں ارشاد ہو تا ہے
(اَلَمْ یَرَوْاکَمْ اَھْلَکْنَامِنْ قَبْلِھِمْ مِنْ قَرنٍٍ مَکَّنَّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ مَالَمْ نُمْکِّنْ لَکُمْ وَاَرْسَلْنَاالسَّمَائَ عَلَیْہِمْ مِدْرَاراًوَجَعَلْنَاالْاَنْہٰرَتَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمْ فَاَھْلَکْنَٰھُم بِذُنُوبِہِمْ وََنْشَناًمِنْ بَعْدِھِمْ قَرْناً ئَ اخَرِیْنَ)(١)
''کیا انھوںنے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کرڈلا؟(وہ امتیں جن کو)ہم نے روئے زمین پروہ و سا ئل عطاکئے تھے جو تم کو نہیں عطا کئے اور آسمان سے ان پر لگاتار بارش کے ذریعہ ان کے(شہروںکے)نیچے بہتی ہوئی نہریں بنادیں (اور)پھر ان کے گناہوںکی وجہ سے ان کومارڈالااوران کے بعدایک دوسرے گروہ کوپیداکردیا''۔
جیسا کہ آپ نے ملا حظہ فر مایا آیت میں کچھ گذشتہ امتوں پرخدا وند عالم کے عذاب نا زل کرنے کا بیان ہے مگرقو موں کے نام نہیں بیان کئے گئے ہیں اسی آیت کی ما نند دو سری آیتیں بھی ہیں جو اسی مطلب کو بیان کر تی ہیں ان میں سے کچھ آیات یہ ہیں :سورۂ انعام آیت١٠۔١١،سورئہ انبیاء آیت٤١،سورئہ ہودآیت٤٠،سورئہ عنکبوت آیت٥٢۔٥٣،سورئہ انفال آیت٥٢۔٥٣،رعد آیت ٣٢، حجر آیت ١٠۔١٣ ،روم آیت٩،٤٢،٤٧، فاطر ٢٥۔٢٦، مؤمن آیت٢١۔٢٢، فصلت آیت ٨٢۔٨٥، زخرف آیت٧۔٨، حج آیت ٤٥۔٤٦،مریم آیت ٩٨، محمد آیت ١٠ و ١٣، ق آیت ٣٦۔٣٧ ۔
آیات کاایک سلسلہ اور ہے جس میں مخصوص قوموں پر عذاب کا تذکرہ کیاگیاہے ہم ہر قوم سے متعلق صرف ایک آیت بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہوئے بقیہ آیات کا حوالہ قارئین کرام کے لئے ذکر کر رہے ہیں ۔

الف )حضرت نوح علیہ السلا م کی قوم
سورئہ اعرا ف میں ارشاد ہو تا ہے :
..............
١۔سورئہ انعام آیت٦۔
(فَکَذَّبُوْہُ فََنْجَیْنَٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ فِی الْفُلْکِ وَاَغْرَقْنَاالَّذینَ کَذَّبُوْابَِٔایٰتِنَااِنَّھُمْ کَانُوْاقَوْماًعَمِیْنَ)(١)
''پس انھوں نے ان (نوح )کو جھٹلا یا تو ہم نے ان کو اور جولوگ ان کے ساتھ کشتی میں تھے بچالیا اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایاان سب کو غرق کردیا کیونکہ یہ سب کے سب (دل کے) اندھے لوگ تھے''۔
قوم نوح علیہ السلام پر عذاب اور ان کی ہلاکت سے متعلق بقیہ آیات یہ ہیںسورۂ یونس ٧٣،ہود٣٩ ۔٤٠، انبیاء ٧٧،مو منون ٢٧ ،فر قان ٣٧ ، شعرا ء ١٢٠ ، عنکبوت ١٤ ، صا فات ٨٢ ، ذاریات ٤٦ ، قمر ١١۔١٥ ، اور سورئہ نوح ٢٥۔

ب ) ہود علیہ السلام کی قوم( عاد )
سورئہ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے:
(فَاَنْجَیْنَٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ بِرَحْمَةٍ مِنَّاوَقَطَعْنَادَابِرَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْابَِٔایٰتِنَاوَمَاکَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ)(٢)
''پس ہم نے ان (ہود )کو اورجو لوگ ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت سے نجات دے دی اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایاتھااور ایمان نہیں لائے تھے ہم نے ان کی جڑہی کاٹ دی''۔
قوم عاد پر عذاب سے متعلق اور بھی آیات اس طرح ہیں : سورۂ ہو د ٥٩۔٦٠، مو منون ٤١ ، شعرا ء ١٣٩ ، فصلت ١٦ ، احقاف ٢١۔٢٥ ،ذاریات ٤١۔٤٢ ، قمر ١٩ ۔٢٠ ۔اور سورئہ حا قّہ ٧ ۔

ج ) صالح علیہ السلام کی قوم (ثمود)
سورئہ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے :
(فَاَخَذَ تْھُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْافِی دَارِھِمْ جَٰثِمِینَ)(٣)
''تب ان (قوم صالح)کو زلزلہ نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ وہ اپنے گھرہی میں سربہ زانو بیٹھے رہ گئے ''۔
مندرجہ ذیل آیات میں بھی قوم ثمود پر عذاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :
سورئہ ہود ٦٨، شعراء ١٥٨ ، نحل ٥١۔٥٢ ، فصلت ١٧ ، ذاریات ٤٤ ، قمر٣١ ، حاقّہ ٥ ، اور سورئہ شمس ١٣ ۔ ١٥ ۔
..............
١۔سورئہ اعراف آیت٦٤۔
٢۔سورئہ اعراف آیت٧٢۔
٣۔سورئہ اعراف آیت٧٨۔