راہ اور رہنما کی پہچان
 

امتوں کے ساتھ خدا کا طر یقۂ کار (الٰہی سنّتیں )
اس حصّہ میںہم خداوندعالم کی ان سنّتوں کا تذکرہ کریں گے جو تمام انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے درمیان یکساں طور پر جا ری رہی ہیں ۔البتہ اس مو ضوع میں داخل ہونے سے پہلے سنّت کی (اس بحث کے مطا بق حال) مختصر تعریف بیان کردینابہتر ہے!!
یہاںسنّت سے مراد خداوند عالم کے وہ افعال ہیں جو کسی زمان،مکان اور یا کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر دور کے لوگوں کے مختلف گروہ کے ساتھ واقع ہوتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان عمومی افعال کو سنّت کے نام سے یاد کیا ہے
ارشاد ہو تا ہے: (سُنَّةَ اﷲ ِ فِی الَّذینَ خَلَوامِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَلِسُنَّةِ اﷲ ِتَبْدِیْلاً) (١)
''جو لوگ پہلے گذر گئے ان کے بارے میں بھی خدا کی (یہی )سنّت رہی ہے اور تم خدا کی سنّت میں ہرگز تغیر تبدل نہیں پائو گے '' ۔
البتّہ قرآن کریم میں جس مقام پربھی الٰہی سنّتوں کا تذکرہ ہے و ہا ں سنت سے مراد اکثر وہ عذاب ہیں جو گذشتہ قوموں پر نازل ہوئے ہیں پھربھی سنّت کا مفہوم نزول عذاب سے کہیں زیادہ عمومیت رکھتا ہے اس وضاحت کے بعد ہم ان آیات کاذکر کریں گے جن میں انبیاء کی امتوں کے درمیان خداکی سنّتوں کا تذ کرہ کیا گیا ہے۔
قرآن کریم کی آیات کے دو دستے جو تقریباً ایک دوسرے کے مشابہ ہیں ان میں خداوندعالم کی تین سنّتوں کی طرف اشارہ ہے جو معمولاًترتیب سے اور تین مراحل میں متحقق ہوتے ہیں پہلے دستہ کے متعلق سورئہ مبارکۂ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَمَااَرْسَلْنَافِیْ قَرْیَةٍ مِنْ نَبِیٍّ اِلَّاٰاَخَذْنَاأَھْلَھَابِالْبَسَائِ وَالضَّرَّائِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُونَ۔ ثُمَّ بَدَّ لْنَا
..............
١۔سورئہ احزاب آیت٦٢۔
مَکَانَ السَّیِِّئَةِ الحَسَنَةَ حَتَّیٰ عَفَوْاوَّقَالُواقَد ْمَسَّ أَبَائَ نَاالضَّرَّائُ وَالسَّرَّائُ فَاَخَذْنَاھُمْ بَغْتَةً وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ)(١)
''اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو سختی اور مصیبت میں مبتلاکیاتاکہ وہ لوگ گڑگڑائیںپھر ہم نے بڑی (مصیبت) کو نیکی (نعمت)میںبدل دیا یہاںتک کہ وہ لوگ (حد سے )بڑھ نکلے اور کہنے لگے :''ہمارے باپ دادائوں کو (بھی یقیناحکم قدرت سے) اس طرح کا تکلیف و آرام پہونچ چکا ہے پس ہم نے ان کو بے خبر ی کی حالت میں اچانک اپنے (عذاب میں )گرفتار کردیا ''۔
مفسرین بیان کرتے ہیں ''عَفْ''، ''عَفَوْا'' طول اور کثرت اور یہ ''عفی النبات ''سے ما خوذہے یعنی ''گھاس اور بڑھکر لمبی ہوگئی ''۔چنا نچہ بعض روایات میں بھی جو ''اعفاء اللحیة''کا لفظ استعمال کیاگیا ہے وہ بھی اسی مادہ سے ہے اور اسکے معنی لمبی ڈاڑھی رکھنے کے ہیں ۔اس بناء پر'' عَفَوْا''کا مطلب ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اوروہ سختی کے منھ سے نکل کر راحت وآرام کے مر حلہ میں پہونچ گئے ۔
بہر حال مندرجہ بالاآیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خداوند عالم لوگوں کے ساتھ تین طریقوں سے پیش آیاہے :
پہلے مر حلہ میں خداوندعالم نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا تاکہ وہ انسانوں کی ہدایت کریں اوران کے لئے استکبار و سرکشی سے دور رہنے کے راستہ فراہم کریں لیکن اکثر افرادنے ان راستوںسے استفادہ نہ کیااورہدایت کا طریقہ اختیارنہیں کیا ۔
دوسرے مرحلہ میں خداوندعالم نے بندوں پر نعمتیں نازل کیں یہاں تک کہ وہ اپنی زندگی کی سختیوں اور مشکلوں کوعام بات شمار کر کے وہ خداوندعالم کی یاد سے غافل ہوگئے تیسرے مر حلے میں ان کی بڑھتی ہو ئی سخت غفلت کی وجہ سے ان پر اچانک عذاب نازل ہونا اور ان سب کو نیست و نابود کردینا ذکر ہوا ہے۔
دوسری قسم کی آیات میں بھی اسی قسم کی ملتی جلتی تعبیرات مو جود ہیںارشاد ہو تا ہے :
(وَلَقَدْاَرْسَلْنَااِلَیٰ اُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فََخَذْ نَا ھُمْ بِالْبَْسَائِ وَالضَّرّائِ لَعَلَّھُم یَتَضَرَّعُونَ۔ فَلَوْلَا اِذْجَائَ ھُمْ بَْسُنَاتَضَرَّعُوْاوَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوبُھُمْ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ مَاکَانُوا یَعَْمَلُونَ۔فَلَمَّا نَسُوْامَاذُکِّرُوابِہِ فَتَحْنَاعَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْ ئٍ حَتّیٰ ِاذَا فَرِحُوابِمَااُوْتُوْااَخَذْنَا ھُمْ بَغْتَةً فَاِذَاھُمْ مُبْلِسُون۔فَقُطِعَ دَابِرَالْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاوَالْحَمْدُﷲَِرَبِّ الْعَٰلَمِیْنَ)(٢)
..............
١۔سورئہ اعراف آیت٩٤۔٩٥۔
٢۔سورئہ انعام آیات٤٢۔ ٤٥۔
اور جو امتیں تم سے پہلے گذر چکی ہیں ہم ان کے پاس بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیںپھر ہم نے ان کو سختی اور تکلیف میں گرفتار کیاکہ شا ید وہ روئیں اور گڑگڑا ئیں پس جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو انھوں نے تضرع و زاری کیوں نہیں کی؟لیکن(حقیقت یہ ہے)ان کے دل سخت ہوگئے تھے اور ان کے کاموں کو شیطان نے آراستہ کردکھایا تھا۔پھرجس کی انھیں یاد دہانی کی گئی تھی جب اس کو بھول گئے تو ہم نے ان پر امتحان کے طور پرہر طرح کی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جو نعمتیں انھیں دی گئی تھیں جب ان کو پاکر خوشی میں کھوئے تو ہم نے انھیں اچانک اپنی گرفت میں لے لیا اوروہ ناامیدہو کررہ گئے پھر ظلم و ستم کرنے والے گروہ کی جڑکاٹ دی گئی اور تمام تعریفیں سارے جہان کے مالک اللہ کیلئے ہیں ''۔
جملہ'' مٰا ذُکِّرُوابِہِ''''جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی''میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداوند عالم نے انھیں سختیوں اور مشکلات سے دو چارتھا کہ وہ بیدار ہو جائیں اپنے کو سنوار سکیں اور ان میں خداوند عالم کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے ۔
جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں ان دونوں دستوں کی آیات میں تین اہم الٰہی سنّتوں کا تذکرہ ہے ہم ان کو ذیل میں ترتیب سے بیان کررہے ہیں ۔ا لبتہ اس سے پہلے ان نکات کو بیان کردینا بھی مناسب سمجھتے ہیں جن سے علوم نفسیات ، سما جیات اور فلسفہ تاریخ وغیرہ کے با رے میں استفادہ کیا جاتاہے ۔
پہلا نکتہ انسانی نفسیات سے تعلق رکھتا ہے اگر چہ وہ بظاہر انسان کی انفرادی زندگی سے مربوط ہے لیکن جب معاشرہ کے اکثر افراد میں سرایت کر جائے توپھر سما جی پہلو بھی اختیار کرلیتا ہے کیو نکہ انسان کی سرشت ہی ایسی ہے کہ جب اس کے پاس بہت زیادہ نعمتیں اور آسائش وآرام آجا تا ہے تو اس کی روح میں استکبار ،سرکشی اور طغیان آجاتاہے ۔جیساکہ قرآن سورئہ علق میں ارشاد فرماتا ہے :
(کَلَّااِنَّ اِلانْسَانَ لَیَطْغَیٰ ۔اَنْ رَآہُ اسْتَغْنَیٰ)(١)
''بیشک جب انسان اپنے کوغنی دیکھتا ہے تو سرکش ہوجاتاہے ''۔
دوسری طرف عام طور پر انسان سختیوں اور مشکلا ت میں گھر جانے کے بعد خضوع اور خشوع کرنے لگتا ہے اور اس کی انانیت ختم ہونے لگتی ہے اوریہ حالت انسان میں آہستہ آہستہ وہ حالات فرا ہم کرتی ہے کہ انسان خود بخود اپنے رب سے لولگانے لگے ۔اس بناء پر قرآن کریم کی آیات سے نفسیات کے اس راز اور قا عدہ کا پتہ چلتا ہے کہ
..............
١۔سورئہ علق آیت٦۔٧۔
راحت و آرام غرورو سرکشی کا سرچشمہ ہے ،اور مشکلوں میں گرفتار ہونے سے خضوع و خشوع پیدا ہوتاہے۔البتّہ ہم اس بات پر ز وردینا لازم سمجھتے ہیں کہ مندرجہ بالا حالات میں سے کوئی ایک حالت بھی اس طرح کے نفسیات کیلئے علّت تامّہ نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ایک عام سبب اور ذریعہ ہے ۔اسی بناء پر ممکن ہے کہ کوئی شخص عیش و عشرت کی زندگی اور نعمتوں میں غرق رہکر بھی خداکی یاد سے غافل نہ ہو اور اس میں غرورو تکبر کی بو بھی نہ پائی جاتی ہواور اس کے بالمقابل یہ بھی ممکن ہے کہ کو ئی شخص مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود بھی خضوع اور خشوع سے محروم رہے جیسا کہ مندرجہ بالا آیات میں بیان ہوچکا ہے ۔
نفسیات کے ہی بارے میں سورئہ انعام کی آیات سے اس نکتہ کا بھی استفادہ ہوتاہے کہ انسان گناہ کا عادی ہوجانے اور عیش و عشرت میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے قساوت قلب اور سخت دلی سے دوچار ہوجاتاہے جبکہ اس کے بالمقابل غم و آلام کی حالت خشوع و نرم دلی لا تی ہے ۔ جیسا کہ خداوندعالم حقیقی مومنوں کے صفات اس طرح بیان فرماتا ہے :
(قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُونَ۔الَّذِ یْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِہِمْ خَاشِعُوْنَ)(١)
''بہ تحقیق وہ مومنین رستگار ہوئے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں ''۔
قلب خاشع وہ قلب ہے جس میںدوسروں کے لئے جھکا ؤ پیداہوجائے اور سخت دل وہ دل ہے جو کسی کے لئے نہ جھک سکے اور اس حالت میں انسان کی روح اور اس کے وجود میں پو شیدہ مہر و محبت کے پہلو پر سخت اثر پڑتاہے اور قرآن سورئہ بقرہ میں ارشاد فرما تا ہے :
(۔۔۔فَھِیَ کَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً۔۔۔)(٢)
''۔۔۔پس اسکے بعد (تمہارے دل)پتھر کے مثل یا اس سے بھی زیادہ سخت (ہوگئے)۔۔۔''۔
ان آیات سے ایک اور بات واضح ہوجاتی ہے کہ سنگدلی اور قساوت قلب کے شکار افراد کے اندر شیطانی وسوسہ
..............
١۔سورئہ مومنو ن آیت١۔٢۔
٢۔سورئہ بقرہ آیت٧٤۔
کا اظہار ہو نے لگتا ہے اور شیطان بھی ان کے اعمال کو خود ان کی نظر میں اور خو بصورت بناکر پیش کردیتا ہے۔
ان تمام نکات کے علاوہ ان آیات میں ہماری بحث سے مر بوط مندرجہ ذیل تین الٰہی سنّتوں کا پتہ چلتا ہے۔

مشکلات کے ذریعہ ہدایت
الٰہی سنتو ںمیں سے ایک ہدایت و رہنمائی بھی ہے ۔خداوندعالم اپنی سب کے لئے عام تکوینی ہدایت کی بنیاد پر تمام مخلوقات کی کمال مطلوب کی طرف راہنمائی کرتا ہے ارشاد ہو تا ہے:
(قٰالَ رَبُّنَا الَّذِیْ اَعْطَیٰ کُلَّ شّیْ ئٍ خَلَقَہُ ثُمَّ ھَدَیٰ)(١)
''کہا:ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسکے مناسب حال خلقت عطا فرمائی پھر اسکے بعد اسکی ہدایت فرمائی ''۔
اس عام طریقۂ ہدایت کے علاوہ خد ا و ندعالم نے انسان کی ہدا یت، ایک ا و ر مخصوص طریقہ سے فرمائی ہے۔
اس ہدایت کا کچھ حصّہ انسان کے وجود میں قوة ادراک کے ذریعہ و دیعت کیاگیا ہے ارشاد ہو تا ہے :
(۔۔۔وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَٰرَوَالْاَفْئِدَةَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ)(٢)
''۔۔۔اور تمہارے لئے کان،آنکھیں اور دل قرار دیا شاید تم شکر کرو ''۔
اور اس ہدایت کا دوسرا حصّہ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کر کے انجام دیا لیکن اس سے پہلے ایک دوسری سنّت یہ رہی ہے کہ خداوندعالم نے لوگوں کے لئے حق کے سا منے تسلیم ہو نے اور انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے کی کچھ شرطیں معین فرمادی ہیں ۔جیسا کہ مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی روح کی خا صیت یہ ہے کہ وہ سختی اور مشکلات کی حالت میں تضرع اور خضوع و خشوع کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور غرور و تکبّرکو فراموش کردیتی ہے چنانچہ خدا وند عالم کی یہ سنت ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کر نے کے بعد قحط ،بیماری اورزلزلہ وغیرہ جیسی مصیبتیں اور معاشرتی بعض مشکلات پیدا کر دیتا ہے تا کہ سو ئے ہو ئے انسان خوا بِ غفلت سے بیدا ر ہو جا ئیں اور اپنی ذلت و ناتو ا نی کا احساس کر کے خدا سے نزدیک ہو جا ئیں ۔
اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہدا یتِ الٰہی کے دو پہلو ہیں :
..............
١۔سورئہ طہٰ آیت٥٠۔
٢۔سورئہ نحل آیت٧٨۔
ایک شناخت و معر فت کا مر حلہ جس میں انسان کی عقل درونی انبیاء علیہم السلام کا کر دار اور انبیا ئے الٰہی بیرونی ہدا یت و رہنما ئی کا کام انجام دیتے ہیں ۔
دوسرا پہلوجذ با ت و احساسات کا ہے :اس میںبیرونی حالات اس طرح فر اہم کرنا لازم ہے کہ انسان کے دل و جان ہدا یت الٰہی سے متا ثر ہوسکیں اور وہ حق قبو ل کر نے کے لئے آمادہ ہو جا ئیں اور جب بھی یہ دو نوں پہلو ایک دو سرے کے ساتھ ہو جا ئیں راہ را ست کے انتخاب کے لئے منا سب زمین فرا ہم ہو جا ئے گی اور خدا وند عالم نے تمام انسا نو ں کے لئے ان تمام راستو ں کوکھو ل رکھاہے اور جیسا کہ مندر جہ بالا آیات سے ظا ہر ہو تا ہے سختیو ں اور مشکلات کے نزول کی صورت میں جذ بات اور احساسات کے ذریعہ ہدا یت کاراستہ ہموار کر دیا ہے ۔

املاء اور استد راج کی روش
جب انسا نو ں میںحق قبو ل کر نے کے احساسات اور جذ بات بر انگیختہ ہو جا ئیں تو قاعد ے کے تحت انسان کو انبیا ء علیہم السلام کی دعو ت قبو ل کر کے صحیح راستہ منتخب کر لینا چا ہئے لیکن یہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ مذ کو رہ حالات راہ حق میں قدم اٹھا نے کے لئے علتِ تامّہ نہیں ہیں بلکہ باطل کے انتخا ب کا راستہ بھی اسی طرح کھلا ہو ا ہے خا ص طور سے اگر معنوی امراض کی بنا ء پر ہدا یت کا سدّ باب ہو جا ئے۔ ان میں بعض رکا وٹیں د رونی ہو تی ہیں جیسے سنگدلی (سخت دل ہو نا ) اور بعض رکا وٹیں ظا ہری ہیں جیسے شیطان دنیا کو سجابنا کر پیش کر تا ہے اور با ہر سے حملے کر تا ہے اور یہ عو امل ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح وابستہ ہیں کہ انسان کے اندر ہدا یت حا صل کر نے کی صلا حیت کو کار گر نہیں ہو نے دیتے ۔
اب اگر پہلے طریقۂ کار کا کو ئی نتیجہ حا صل نہ ہوسکے اور انسان مشکلو ں اور مصیبتوں کے با وجود خضو ع و خشو ع نہ کر ے بلکہ اس کی سنگد لی اور شیطان کی آراستہ و پیرا ستہ کی ہو ئی چیزیں خدا وند عالم سے نز دیک ہو نے میں رکا وٹ بنی رہیں توخدا دوسری سنت جا ری کرتاہے ۔ یعنی ما دی نعمتو ں میں اضا فہ ہو تا ہے اس کے بعد بھی اگرانسان آسائش و آ رام کی زند گی میں خدا کو بھولا رہے تو اس کی غفلت میں اور اضا فہ ہو جا تا ہے اور وہ پہلے سے اور زیا دہ اپنے خدا سے دور ہو تا چلا جا تا ہے ۔ سنتِ الٰہی کے اس عمل کوبعض آیات میں ''املا ''اور ''استدراج'' کے نا م سے بیا ن کیا گیا ہے ۔
قرآ ن میں ارشا د ہو تا ہے :
(وَالَّذِ یْنَ کَذَّ بُوْابِآیَاتِنَاسَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُوْ نَ۔وَاُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن )(١)
''اور جن لو گو ں نے ہما ری آیات کو جھٹلایا ہم انھیں اس طرح آہستہ آہستہ (حہنم )میں لے جا ئیں گے کہ انھیں خبر بھی نہ ہو گی میں ان کو مہلت دے رہا ہوں کیونکہ بیشک میری تد بیر بہت محکم و استوار ہے ''۔
''استدراج ''یعنی کسی کو زینہ بہ زینہ، درجہ بدرجہ مر حلہ وارکسی مقام تک لیجانااور ''املاء ''آزاد چھوڑ دینے کو کہتے ہیں یعنی مہلت اور ڈھیل دیدینا ۔''اَمْلَیْتُ للفرس''یعنی ''اَرْخَیْتُ عِنَانَہُ'' ''میں نے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑدی ۔''
وہ لوگ جو اتمام حجّت کے بعد بھی انبیاء علیہم السلام کو جھٹلاتے ہیں یا حق کی معرفت کے باوجود اس کی اتباع نہیں کرتے اور حق کوقبول کرنے میں اکڑدکھاتے ہیں اور جو لوگ سخت دلی کی وجہ سے اپنے لئے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کوقبول کرنے میں مدد گار تمام جذ باتی اور احساساتی راستے بند کر دیتے ہیں وہ خدا وند عالم کی نصرت و ہدایت قبول کر نے کے قا بلیت کھو دیتے ہیں ۔ اس لئے کہ خدا کی مدد اسی وقت تک شامل حال رہتی ہے کہ جب تک حق کی تلاش میں جبری اور زبر دستی کا پہلو نہ پیدا ہو جائے اسی طرح کے انسانوں کے لئے خداوند عالم اِملاء اور استدراج کی روش اپنا تا ہے ۔
استدراج کے شکاریوں کی اس طریقہ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جس کے تحت شکاری پہلے اپنا جال کسی مقام پر پھیلا تے ہیں ، اس کے بعد اپنے شکار اور جال کے درمیان تھوڑے فا صلے سے مختلف مقامات پر اپنے شکار کا من پسند چاراڈال دیتے ہیں ۔ شکا ر ایک مقام کا چا را ختم کرنے کے بعد دوسرے مقام کی طرف بڑھتا ہے اور اس کی حرص بڑھ جاتی ہے، وہ اسی طرح آگے بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ آخری چا رے کی فکرمیںجال کے اندر جا کر پھنس جاتا ہے ۔ الٰہی استدراج یعنی خدا کی دی ہو ئی درجہ بہ درجہ چھوٹ میں گرفتار افراد کا قصّہ بھی کچھ یوں ہی ہے ۔ وہ ہر دن اپنی نعمتوں میں اضافہ دیکھکر بہت خوش ہو تے ہیں اور بسا اوقات تو وہ اپنے کو سب سے خوش قسمت سمجھنے لگتے ہیں اور اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ ہر نعمت وہ دانہ ہے جسکو حاصل کرنے میں وہ جال سے چند قدم اورنزدیک کر تا جارہا ہے ۔یہاں تک کہ جب وہ آخری مرحلہ پر پہو نچتے ہیں
( اَخَذْ ناھُم بَغتَةً وَھُم لَا یَشَعَرُوْنَ )(٢)
'' اچا نک الٰہی عذاب کی گرفت میں آجا تے ہیں اور انھیں اس کا شعور بھی نہیں ہو تاکہ وہ نعمتیں اس عذاب کا مقد مہ تھیں '' ۔
..............
١۔سورئہ اعراف آیت ١٨٢۔ ١٨٣۔
٢۔سورئہ اعراف آیت ٩٥ ۔

الٰہی جال اور اخلاقی اقدار کی ہم آہنگی
اس مقام پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا خداوند عالم کا یہ عمل جس سے بعض لوگ فریب کھا جا تے ہیں اور آہستہ آہستہ عذاب اور تاریکی میں ڈوب جا تے ہیں کیا یہ اخلاقی اصولوںسے مطا بقت رکھتا ہے ؟ اس سوال کا کلّی جواب تو اس حقیقت پر تو جہ سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جس گروہ کا ذکر ہے در اصل ایسے ہی بر تاؤ کا سزاوار ہے چو نکہ خداوند عالم نے ان کے لئے ہدایت کے تمام راستے کھول دیئے اور ان پر اپنی حجت تمام کردی پھر بھی انھو ں نے خداوند عالم کی نعمتوں کا شکریہ ادا نہ کیا اور اپنی دشمنی اورکٹ حجتی کی بنیاد پر حق سے منھ مو ڑے رہے ظاہر ہے املاء اور استدراج کی سنت ایسے ہی افراد کے لئے ہے اورچو نکہ یہ خود انھیں کے اعمال کا نتیجہ ہے ان کے ساتھ ایسا برتا ؤ نہ صرف یہ کہ نادرست نہیں ہے بلکہ با لکل صحیح اور منا سب روش ہے ۔ مکر وفریب کی تدبیر اخلاقی اعتبار سے و ہاںبری اور ناپسندہے جب مقصد باطل کی حمایت اور حق کی مخالفت کرناہو۔حالانکہ الٰہی جال عین حق ہے اور اسی وجہ سے خداوندعالم اپنے مکر وجال کے متعلق ارشاد فرماتاہے:
(اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن )(١)
''بیشک میر ا جال بہت محکم اور استوار ہے''۔
اور شیطان کے جال کو باطل ہو نے کی وجہ سے ضعیف او رکمزور شمار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
(۔۔۔اِنَّ کَیْدَالشَّیْطَٰنِِ کَانَ ضَعِیْفاً)(٢)
''۔۔۔بیشک شیطان کا مکر(نہایت ہی )کمزور ہے ''۔
املاء اور استدراج کی روش قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی بیان کی گئی ہے منجملہ سورئہ مبارکہ رعدمیں اعلان ہو تا ہے :
(وَلَقَدْاِسْتُہْزِیَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُواثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَکَانَ عِقَابِ)(٣)
..............
١۔سورئہ اعراف آیت ١٨٣۔
٢۔سورئہ نساء آیت٧٦۔
٣۔سورئہ رعد آیت٣٢
''تم سے پہلے (بھی)بہت سے پیغمبروں کی ہنسی اڑائی جاچکی ہے پس میں نے کافروں کو مہلت دیدی پھر انھیں (عذاب میں )گر فتار کر دیا۔پس (دیکھا)میرا عذاب کیساتھا؟''۔
اس آیت میں پیغمبر اسلام ۖ کے دشمنوں کو یہ پیغام دیا جارہاہے کہ گذشتہ امتوں کے کفّار نے جب اپنے زما نے کے انبیاء علیہم السلام کا مذاق اڑایا اس کے باوجود خداوند عالم نے ان کو مہلت دی کہ وہ جتنا چاہیں کفر میں اترجائیں اور اس کے بعد عذاب الٰہی نے ان کو گھیر لیا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عذاب کوئی مطلوب اور پسند یدہ چیز ہے؟اگر ایسا ہے تو تم بھی انھیں کا راستہ اختیار کرکے انھیںکے انجام سے دوچار ہونا پسند کرلو۔اور اگر عذاب پسندیدہ انجام نہیںہے تو اپنے کفر سے پلٹ آئو اور اپنے کو خداوند عالم کے عذاب سے نجات دیدو ۔۔۔
بہر حال اس آیت میں بھی کافروں کو املاء یعنی(مہلت دینے)کی بات کی گئی ہے اوریہ ایسی مہلت ہے جس کا انجام خداوندعالم کے سخت عذاب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
سورئہ قلم میں بھی املاء اور استدراج کی روش کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے :
(فَذَرْنِیْ ومَنْ یُکّذِّبُ بِہَٰذَاالْحَدِیْثِ سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُونَ واُمْلیِْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن)(١)
''پس مجھے اس کلام کے جھٹلانے والے کے ساتھ چھوڑدو ہم ان کو آہستہ آہستہ اس طرح جکڑلیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی اور میں ان کو مہلت دیتا ہوں اسلئے کہ میری تدبیر(سخت و )استوار ہے ''۔
اس آیت کی بنیاد پر خداوندعالم کا مکراورتدبیرتقا ضا کرتا ہے کہ قرآن کو جھٹلانے والوں کے ساتھ استدراج سے کام لے ۔یعنی آہستہ آہستہ ان کی نعمتوں میں اضافہ کیا جائے اور ان کو چھوڑدے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق جتنا چاہیں پیغمبر اکرم ۖ اور قرآن کی مخالفت کریں لیکن آخر کار ایک دن یہ مہلت ختم ہوجائیگی اور یہی تدبیر ان کو خداوند عالم کے عقاب و عذاب کے جال میں پھنسا دے گی ۔
دوسری آیات میں خداوندعالم کا ارشاد ہو تا ہے
(وَاِنْ یُکَذِّبُوکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادوَثَمُوْدُ۔وَقَوْمُ اِبْرَٰھِیْمَ وَقَوْمُ لُوطٍ۔وَ
..............
١۔سورئہ قلم ،آیت٤٤۔٤٥۔
اَصْحَابُ مَدْیَنَ وَکُذِّبَ مُوسَیٰ فَاَمْلَیْتُ لِلْکَافِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفْ کَانَ نَکِیْرِ)(١)
''اور اگر یہ تم کو جھٹلاتے ہیں تو یقینا ان سے پہلے نوح کی قوم اورقوم عاد،ثمود اور ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم اور (اسی طرح)اہل مدین (بھی)(اپنے اپنے پیغمبروں کو )جھٹلاچکے ہیں اور موسیٰ بھی جھٹلائے جاچکے ہیں تو میں نے کافروں کو مہلت دی اسکے بعد ان کا (گریبان )پکڑلیا تو تم نے دیکھا میرا عذاب کیسا تھا ؟''۔
یہ آیت پیغمبر اکر م ۖ کو گذشتہ قو موں کی جا نب سے ان کے پیغمبروں کی تکذیب کی یاددہانی کراتی ہے اور اس حقیقت کا انکشاف کرتی ہے کہ وہ سب صرف ایک سنّت الٰہی کے دا ئرے میں آتے تھے یعنی خداوند عالم نے ان کو مہلت دی اور پھر ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا ''نکیر ''اور ''انکار ''کے تقریباًایک ہی معنی ہیں اوریہ اس کام کو کہاجاتا ہے جو دوسروں کے برے اور نا پسند فعل کے بالمقابل انجام دیا جاتا ہے ۔(فکیف کان نکیر )یعنی ان کے برے کردار کے مقابلے میں میرا عکس العمل کیسا تھا؟البتہ اس آیت میں ''نکیر'' سے مراد خداوند عالم کا عذاب ہی ہے ۔
سورئہ مبارکۂ آل عمران میںارشاد ہو تا ہے
(وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوااَنَّمَانُمْلِی لَھُمْ خَیْر لِاَنْفُسِہِمْ اِنَّمَا نُمْلِی لَھُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْماً وَلَھُمْ عَذَاب مُھِیْن)(٢)
''اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے ان کو جو مہلت اور فارغ البالی دے رکھی ہے وہ ان کے حق میں بہتر ہے ۔ہم نے مہلت اور فارغ البالی صرف اسی وجہ سے دی ہے تاکہ وہ خوب گناہ کرلیں اور ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے '' ۔
اس آیت میں آشکارا طور پر یہ بیان کردیا گیا ہے کہ کافروں کو مہلت دینا تدبیر الٰہی ہے جو نہ صرف ان کے لئے فائدہ مند نہیں بلکہ اس دوران وہ اپنے گناہوں میں اضافہ کرتے ہیں اور ان کو جو فرصت ملتی ہے اس میں وہ قدم بہ قدم ہدایت الٰہی سے دور ہو تے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ رسوا کرنے والے عذاب کے مستحق ہو جائیں ۔
..............
١۔سورئہ حج آیت٤٢۔ ٤٤۔
٢۔سورئہ آل عمران آیت١٧٨۔