استکبار اور استضعاف کی اہمیت
قر آ ن کی رو سے استکبا ر اور استضعاف کا مطلب بیان کر نے کے بعد یہ مطلب بیان کر دینا ضرو ری ہے کہ کیا قر آن کی رو سے استکبا ر اور مستضعفین کی خا ص اہمیت ہے ؟ یا اخلاقی لحا ظ سے ان کا بذا ت خود کو ئی مثبت یا منفی رخ نہیں ہے ؟
جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ استکبا ر میں چو نکہ اپنے کو بڑا سمجھنے ، فخر و مبا ہات کر نے اور ایک دوسرے پر بر تری جتا نے کے معنی پا ئے جا تے ہیں لہٰذا یہ اخلا قی اعتبا ر سے ایک بری صفت سمجھی جا تی ہے اور ہم یہ پہلے عرض کر چکے ہیں کہ ( یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَا دَ تِیْ )کے مثل تعبیر و ں میں حق سے رو گر دا نی کر نا اور طغیا ن و سر کشی کر نے کے معنی پائے جا تے ہیں اور اخلا قی اعتبا ر سے یہ تمام صفتیں مذ مو م ہیں ۔ اس بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قر آ ن کر یم میں (استکبار ) ایک گرا ہوا ،ناپسند اور منفی رخ کا حا مل امر ہے ۔
لیکن استضعاف کا مسئلہ دوسرا ہے استضعاف میں بذات خود منفی مفہوم نہیں پا یا جاتا۔کیونکہ یہ کلمہ حقیقت میں ایک شخص کے بارے میں دوسرے اشخاص کے رو یہ اور طرز فکر کو بیان کرتا ہے خود کسی شخص کی صفت بیان کرنانہیںہے اور اسی وجہ سے استضعاف کے افعال مجہول استعمال ہوتے ہیں معروف میں استعمال نہیںہوتے : (اُسْتُضْعِفُواْ) یعنی کمزور شمار کیے گئے یا(کمزور)بنادیئے گئے؛(اِسْتَضْعَفُوْا) ''یعنی کمزوری کا اظہار کرنااستعمال ''نہیںکرتے البتّہ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ زیادہ تر مقامات پر جہاں مستضعفین یعنی (کمزورو بنادیئے گئے یاشمار کئے گئے) استعمال ہواہے،اس کے مصادیق حقیقت میں بھی بعض پہلو سے کمزور و محروم تھے لیکن یہ کمزوری اور محرومی (مثال کے طورپر مادی اعتبار سے فقیر ہونا یا معاشرہ میں کسی عہد ہ پر فائز ہونا) بذات خود بری بات نہیں ہے ۔
دوسرا قابل توجہ نکتہ ''استکبار''اور دولتمند ہونے کا تعلق ہے ۔بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ تمام دولتمند افراد مستکبرہیں اور کبھی کبھی ان دونوںلفظوں کو ایک دوسرے کے مترادف شمار کرلیتے ہیں لیکن یہ تصور غلط ہے ۔جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ''استکبار'' اس اعتبار سے کہ اس کا مطلب خود کو بڑا سمجھ لینا ہے اور اس کے اندر حق کے مقابلہ میں طغیان و سرکشی کرنا شامل ہے جو ایک مذموم بات ہے اورایک منفی رخ پایاجاتا ہے لیکن استکبار کا مطلب نہ تو دو لتمند ہوناہے اور نہ ہی دونوںایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں لہٰذا استکبار سے متعلق آیات کی بنیاد پرقطعی نہیں کہا جاسکتا کہ دولتمندہونا با لذات نا پسند چیز ہے اورہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ تاریخ میں سب سے زیادہ دولت رکھنے والوں میں سے ایک حضرت سلیمان علیہ السلام بھی ہیں ۔تو کیا پیغمبر خدا کو، صرف ان کے پاس دولت ہونے یا معاشرہ میں ممتاز مقام وحیثیت ہونے کی وجہ سے مستکبر کہا جاسکتا ہے؟قطعاًایسانہیںکہا جاسکتا ۔تو معلوم ہواکہ کسی کو صرف اسکے دولتمندہونے یاکسی سماجی عزت و منصب پر فائز ہونے کے سبب مستکبر نہیں سمجھناچاہئے ۔اس مدعا کا دوسرا شاہد یہ ہے کہ قرآ ن کریم کی روسے ایک روزخود مستضعفین مقام ولایت وحکومت پر فائز ہوںگے اور معاشرہ میں اعلی سماجی حیثیت حاصل کریںگے :(وَنَجْعَلَھُمْ اَئمِةً وَنجْعَلُھُمْ۔۔۔)(١)
''اورہم ان کو (لوگوں کا )پیشوا قراردیں گے اور ان کو (زمین کا)وارث بنادیں گے ''
کیا یہ گروہ صرف وعدئہ الٰہی پورا ہوتے ہی واضح متکبروں کی صف میں شمارکیا جانے لگے گا ؟
اسی طرح قرآن کے بقول مستضعفین مستکبروں کے وارث ہو ںگے اور ان کا اموال و اسباب سب کچھ اپنے اختیار میں لیںگے :(وَاَوْرَثْنَاالْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْایُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَٰرِقَ الْاَرْضِ وَمَغَٰرِبَھَاالَّتِیْ بٰرَکْنَافِیْھَا۔۔۔)(٢)
''اور جن گروہ کو مسلسل محروم وکمزور رکھا گیاانھیں (سرزمین فلسطین کا )ایک مغربی اور مشرقی حصہ ہم نے وراثت میں عطا کردیا ۔۔۔''۔
..............
١۔سورئہ قصص آیت٥۔
٢۔سورئہ اعراف آیت ١٣٧۔
عوام کا انبیا ء علیہم السلام کے ساتھ برتائو
جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ قرآن کریم کی بعض آیات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امت کے تمام لوگ انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور بعض آیات یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس کا م کا آغاز لوگوں کے ایک خاص طبقے یعنی مترفین اور مستکبرین کے ذریعے ہوتا اور پھر ان کے پروپگنڈوںاور دوسروں کے مطیع بن جانے کے سبب انبیاء علیہم السلام کی وسیع پیمانے پر مخالفت اورانہیںجھٹلاناشروع ہوجاتا۔انبیاء علیہم السلام سے جنگ کرنے والے مستکبروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے جھوٹے معیارات کی بنیا د پر معاشرہ میں اپنا خاص مقام بنائے ہوئے تھے اور اپنی دولت کی بنیاد پر عیش و عشرت میں زندگی بسر کرنے میں مصروف رہتے تھے،کمزور طبقہ کے لوگوں پر فخر و مباہات جتاتے اور معاشرہ میں اپنے مقام و منصب سے فائدہ اٹھاکر دوسروں کوبھی اپنی اطاعت پر مجبور کرکے لوگوں کو انبیاء علیہم السلام کے خلاف جنگ کی دعوت دیا کرتے تھے ۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ انبیائے الٰہی کی تعلیمات کفر و شرک کے علم برداروں کے ظالمانہ اقتدار کو نیست و نابود کرتی ،ان کے تسلّط کو پاش پاش کردیتی اور لوگوں کو خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کے قوانین کی اطاعت و پیروی کی دعوت دیا کرتی تھیں ۔اس طرح کے ماحول میں ظاہر سی بات ہے کہ کفّار و مشرکین مختلف طریقوں سے انبیا ء کے خلاف جنگ میں مشغول ہوجایا کرتے تھے وہ سمجھتے تھے اس طرح ان کی تبلیغ کے فر وغ کو روک دیں گے اور اپنے طاغوتی تسلّط کو ہمیشہ بر قرار رکھنے میں کا میاب ہو جا ئیں گے ہم گفتگو کے اس حصّہ میں قرآن کریم کی آیات کی روشنی میںانبیاء علیہم السلام کے خلاف (کفّار و مشرکین )کی جنگ کے اہم طریقوں کا جا ئزہ لیں گے۔
مذاق اڑا نا
بعض آیات میں ملتاہے کہ بلاکسی استثناء کے لوگوں نے تمام انبیاء علیہم السلام کا مذاق اڑا نے کی کو شش کی ہے:
(یَٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبادِمَایَا تِیْھِمْ مِنْ رَسُوْلٍ اِلّاَ کَانُوْا بِہِ یَسْتَھْزِئُ وْنَ)(١)
'' افسوس ان بندوں کے حال پر کہ جس کے درمیا ن کوئی رسول نہیں آیا مگر یہ کہ ان لوگوں نے اسکے ساتھ مسخرا پن ضرورکیا ''
(وَمٰا یَأْتیہِمْ مِنْ نَبیٍ اِلّاٰکٰانُوا بِہ یَسْتَہْزُؤُنَ)(٢)
''اور ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر یہ کہ ان لوگوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو ''
(وَمَا یَْ تِیْہِمْ مِنْ رَسُوْلٍ اِلّاَکَانُوْا بِہِ یَسْتَہْزِئُ وْنَ)(٣)
''ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر ان لوگوں نے اس کی ضرور ہنسی اڑائی ''
ان تینوں آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مخا لفین کا ایک طریقہ ان کا مذاق اڑانا تھا لیکن یہ مذاق اڑا نے کا اندازکیا تھا ؟اس کے جوا ب میں ہماری راہنمائی کے لئے قرآن کریم کی بعض آیات موجود ہیں ۔نمونہ کے طور پر پیغمبر اسلام ۖکے ساتھ کا فروں کے رویہ کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے:
(وَاِذَارَئَ اکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااِنْ یَتَّخِذُوْنَکَ اِلَّاھُزُواً َھَٰذَاالَّذِی یَذْکُرُ اٰلِھَتَکُمْ۔۔۔)(٤)
''اور جب تمھیں کفّار دیکھتے ہیں تو بس تم سے مسخر اپن کرتے ہیں (اور کہتے ہیں )کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کو (برا بھلا )کہتا ہے ؟۔۔۔''
مشرکین اپنے ان حقارت آمیز الفاظ سے (کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبو دوں کو برے الفاظ سے یاد کرتا ہے ؟ پیغمبر اسلام کامذاق اڑا نے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ ان کو لوگوں کی نظروں میں گرا دیں ۔اسی سے ملتی جلتی یہ تعبیر ایک اور آیت میں بھی نقل ہوئی ہے :
..............
١۔سورئہ یس آیت٣٠۔
٢۔سورئہ زخرف آیت٧۔
٣۔سورئہ حجر آیت١١۔
٤۔سورئہ انبیاء آیت٣٦۔
(وَاِذَارئَ اکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُواًأَھَٰذَاالَّذِی یَذْکُرُ ئَ الِھَتَکُمْ)(١)
'' اور (اے رسول )یہ لوگ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو محال نہیں کہ آپ کا مذاق نہ اڑائیں (کہ ) کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کو (برا بھلا)کہتا ہے؟''۔
مشرکین اپنے ان حقارت آمیز الفاظ سے ( کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے مبعو دوں کو برے الفاظ سے یاد کرتا ہے ؟ ) پیغمبر اسلا م کا مذاق اڑا نے کی کو شش کیا کرتے تھے کہ ان کو لو گوں کی نظروں میں گرا دیں ۔ اسی سے ملتی جلتی تعبیر سورئہ فر قان میںبھی نقل ہوئی ہے :
( وَاِ ذَارَئَ وْک اِن یتَّخِذُ وْنَکَ اِلَّا ھُزُواً اَھَٰذاَالَّذِی بَعْثَ اﷲُ رَسُوْ لاً ۔۔۔)(٢)
'' اور ( اے رسول ) یہ لوگ جب آپ کودیکھتے ہیں تو محا ل نہیں کہ آپ کا مذاق نہ اڑا ئیں (کہ ) : کیا یہ وہی ہیں جنھیں ( اﷲ نے) رسول بنا کر بھیجا ہے ''
بعض آیات میں مومنین کا مذاق اڑا نے کی باتیں بھی ملتی ہیں :
(اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْاکَانُوْامِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْایَضْحَکُوْ نَ۔وَاِذَامَرُّوْابِھِم یَتَغَامَزُوْ نَ۔وَاِذَا انْقَلَبُوْااِلَیٰ اَھْلِھِمُ انْقَلَبُوْافَکِھِیْنَ ۔وَاِذَارَأَوْھُمْ قَالُوْااِنَّ ھَٰؤُ لَائِ لَضَالُّونَ )(٣)
''ہاں، دنیا میں جو گنہگار، مو منوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے اور جب ان کے پاس سے گذر تے تو آپس میں آنکھیں ما را کرتے تھے اور جب اپنے گھر والوں میں لو ٹ کر آتے تو ٹھٹے لگاتے اور جب ان ( مو منین ) کو دیکھتے تو کہتے تھے کہ(دیکھو ) یہ لوگ توگمراہ ہو چکے ہیں '' ۔
بہر حال انبیاء علیہم السلام کے مخالفوں میں رائج عام روش یہ تھی کہ وہ اپنے نبیوںاور ان کے پیرؤوں کی رفتا ر و گفتار کا مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ وہ ان کا اتنا زیادہ مذاق بناتے کہ اگر انبیا ء علیہم السلام عام افراد ہو تے اورخداوند عالم کی قدرت اور حمایت پر اعتماد نہ کرتے تو یقیناً پیچھے ہٹ جاتے اور میدان چھوڑکر باہر ہو جاتے ۔ اس لئے کہ جب معاشرہ میں کسی شخص کا خاص و عام تمام افراد مضحکہ کرنے لگیں تو وہ بڑی مشکل سے ہی ان کے سامنے ٹھہر پاتا ہے اور ایسے مواقع پر اگر کو ئی مصلحت ا ند یش ہو ا تو وہ عام طور پر مسخرہ کرنے والے گروہ سے دوری اختیار کرلیتا ہے بلکہ اس معاشرہ ہی کو ترک کردیتا ہے لیکن چونکہ انبیاء علیہم السلام کی رسالت خداوند عالم کی عطا کر دہ رسالت تھی اور انھیںخدا
..............
١۔سورئہ انبیا آیت ٣٦ ۔
٢۔سورئہ فرقان آیت٤١۔
٣۔سورئہ مطففین آیات ٢٩۔ ٣٢۔
کی طرف سے صبر و استقامت کا حکم تھا وہ جان پر بن آنے کے با وجود دشمنوں کی ہنسی مذاق کا مقابلہ کرتے تھے ۔
تہمت
جب مخالفوں کو ہنسی مذاق چھچھو ری حر کتوںسے کو ئی فا ئدہ نہ ملتا اور انبیاء علیہم السلام اسی طرح محکم و استوار اپنا کام جا ری رکھتے تو وہ دوسرا طریقہ اختیار کرتے تھے جس کو آج کل کی اصطلاح میں '' شخصیت کا قتل '' یاخا تمہ کہا جاتا ہے ۔اس کا ایک طریقہ یہ تھا کہ نا روا تہمتیںلگا ئی جا تی تھیں ۔ مخالفین تہمتوں اور ناروا نسبتوں کے ذریعہ یہ کوشش کرتے تھے کہ انبیا ء علیہم السلام کی کار کردگی کو مناسب اور الٹی تصویر پیش کریںاور لوگوں کو انبیاء علیہم السلام کے قریب نہ ہو نے دیں ۔ قرآن کریم نے انبیاء علیہم السلام کے بارے میں عام طور پر رائج جس تہمت کا ذکر کیا ہے وہ جادوگری ''سحر'' اور دیوانگی '' جنون'' کی تہمت ہے ۔ قرآن کریم کی بعض آیات سے پتہ چلتا ہے کہ خداوند عالم کے تمام انبیاء علیہم السلام پر یہ دو تہمتیں لگائی گئی ہیں :
( کَذَلِکَ مَا اَتَیَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّاقَالُوْاسَاحِراَوْمَجَنُوْ ن)(١)
'' اسی طرح ان سے پہلے کے لو گوں کے درمیان بھی کو ئی نبی نہیں آیا مگر یہ کہ اس کو جادو گر کہتے یا دیوانہ کہہ دیا گیا ''۔
اس کے بعد خدا وند عالم فرماتا ہے :
( اَتَوَاصَوْابِہِِ بَلْ ھُمْ قَومطَاغَوْنُ )(٢)
'' کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کردیا کر تے ہیں ؟ ( نہیں ) بلکہ یہ لوگ ہیں ہی سر کش '' ۔
جا دو گری اور دیوانگی کے الزام کا منصوبہ اس وسیع سطح پر رواج پا چکا تھا کہ لگتا تھا لوگوں نے ایک دو سرے کو اس کام کی وصیت کردی ہو اور گو یا لو گوں نے ہر پیغمبر کو ان دو آفتوں سے متہم کرنے کی سازش رچ رکھی ہو البتہ حقیقت پو چھئے تو پہلے سے کسی سازش کے رچے جا نے کی بات نہیں تھی '' بل ھم قوم طاغون'' بلکہ اس گروہ کی لو گوں سے سرکشی اس طرح تہمتیں لگانے کا باعث ہو تی تھیں۔
بعض آیات میں مخصوص انبیاء علیہم السلام کو جنون اور( دیوانگی ) سے متہم کرنے کا ذکر بھی مو جود ہے مثال کے طور حضرت نو ح علیہ السلام کی قوم کے با رے میں آیا ہے :
..............
١۔سو رئہ ذاریات آیت ٥٢ ۔
٢۔سورئہ ذاریات آیت ٥٣۔
( کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَکَذَّ بُواعَبْدَنَاوَقَالُوْامَجْنُوْن وَازْدُجِرَ )(١)
'' ان سے پہلے نوح کی قوم نے ( بھی ) جھٹلایا تھااور انھوں نے ہمارے بندے (نوح) کو جھٹلایا اور کہنے لگے : یہ تو دیوانہ ہے ۔ اور اس کے بعد ان کو جھٹر کا بھی '' ۔
اور یہ بھی امت نوح کی زبانی نقل ہو ا ہے:
( اِنْ ھُوَاِلّاَرَجُل بِہِ جِنَّة فَتَرَ بَّصُوْابِہِ حَتَّیٰ حِیْنٍ)(٢)
'' وہ تو یو ں ہی بس ایک آدمی ہے جسے جنون ہوگیا ہے پس ایک خاص وقت تک اس سے دست بردار ہوجاؤ''
اور کبھی ان پر گمراہی اور ضلالت کی تہمت لگایا کرتے تھے :
(قَٰالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِہِ اِنَّا لَنَرَیٰکَ فِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ)(٣)
''ان کی قوم کے چند سرداروں نے کہا :ہم تو یقین ہے کہ تم کُھلم کُھلّا گمراہی میں ہو ''۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی اسی طرح کی آیات موجود ہیں کہ جن میں ان پردیوانگی کی تہمت کو نقل کیاگیا ہے ۔منجملہ ان کے سورئہ مبارکہ شعراء میں ہے :
(قَالَ اِنَّ رَسُوْلَکُمْ الَّذِی اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُون)(٤)
''(فرعون )نے کہا (لوگو! )واقعاً یہ رسول جو تمہارے پاس بھیجا گیا ہے ۔ہونہو دیوانہ ہے'' ۔ جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کٹ حجتی کی اور آپ ۖ کے محکم و استوار جوابات کے مقابلہ میں کو ئی بس نہ چلا تو اس کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیوانہ کہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا ۔اگرہم غور کریں تو مندرجہ بالا آیت فرعون کی تہمت نقل کرنے کے ساتھ اس کے مذاق اڑا نے کے لہجے کو بھی بیان کرتی ہے اس لئے کہ فرعون کی گفتگو کا انداز یہ ہے کہ جو شخص حقیقت میں پیغمبر نہ ہو بلکہ صرف پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ دیوانہ ہے ۔
فرعون کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دیوانگی اور جادو گری کی تہمت لگانے کا قصہ دوسری آیت میں بھی نقل ہواہے :
..............
١۔سورئہ قمر آیت ٩۔
٢۔سو رئہ مو منون آیت ٢٥۔
٣۔سورئہ اعراف آیت٦٠۔
٤۔ سورئہ شعراء آیت٢٧۔
(فَتَوَلّیَٰ بِرُکْنِہِ وَ قَالَ سَٰحِراَوْمَجْنُوْن)(١)
''پس( فرعون) نے منھ پھیر لیا اور کہا:(یہ شخص)جادوگر دیوانہ ہے ''۔
چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے دربار میں داخل ہونے کی اجازت بڑی مشکلوں کے ساتھ ملی تھی فرعون نے ایک دم لا پرواہی کے ساتھ منھ موڑتے ہوئے کہا :وہ یا توجادوگر ہے یا دیوانہ ہے ۔ عربی میں ''تولّی بِرُکنہ'' اس مقام پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں ایک شخص کسی دوسرے شخص یا چیز کی طرف سے لا پروا ہ ہوکر منھ پھیر لے ۔
حضرت ہود علیہ السلام پر بھی بے وقوفی اور کم عقل ہو نے کی تہمت لگائی گئی ہے :
(قَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ کَفَرُوْامِنْ قَوْمِہِ اِنَّالَنَرَیٰکَ فِی سَفَاھَةٍ وَاِنَّالَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ)(٢)
''ان کی قوم کے چند سردار کا فر تھے کہنے لگے :ہم کوتو تم حماقت میں (مبتلا) نظر آرہے ہو اور ہم کو یقین ہے کہ تم جھو ٹے ہو ''۔
جنون و دیوانگی کی تہمت تو پیغمبر اسلام ۖ پر بھی لگائی گئی ہے :
(وَقَالُوایَااَیُّھَاالَّذِی نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُاِنَّکَ لَمَجْنُون)(٣)
''اور انھوں نے کہا :اے وہ شخص کہ جس پر قرآن نازل ہواہے یقینا تو دیوانہ ہے ''۔
اس آیت میں کفا ر کا لہجہ فرعون کے لہجہ کی مانند ہے ۔وہاں اُس نے کہاتھا :
(اِنَّ رَسُولَکُمْ الَّذِی اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُون)
'' (لوگو)یہ رسول جوتمہارے درمیان بھیجا گیا ہے ہونہ ہو دیوانہ ہے ''اور یہاںکفّار تمسخرآمیز لہجہ میں پیغمبر اسلام ۖسے کہتے ہیں :اے وہ شخص کہ جس پر قرآن نازل ہواہے یعنی اے وہ جو خودپر آسمان سے کتاب نازل ہونے کا دعویٰ کررہا ہے توحقیقت میں دیوانہ ہے (ورنہ ایسی بات نہ کرتا)گو یایہاں بھی مخالفین نے پیغمبر پر بڑے پُرزور لہجے میں دیوانگی اور جنون کی تہمت لگائی ہے اس لئے کہ جملہ اسمیۂ (اِنَّکَ لَمَجْنُونْ) اور حرف تاکید (اِنَّ)اور ''لام''کا استعمال بتا تا ہے کہ انھیں اپنے دعوے پر زیادہ اصرارتھا ۔
..............
١۔سورئہ ذاریات آیت٣٩۔
٢۔سورئہ اعراف آیت٦٦۔
٣۔سورئہ حجرآیت٦۔
(۔۔۔وَیَقُولُونَ اِنَّہُ لَمَجْنُون)(١)
''۔۔۔اوروہ کہا کرتے تھے :وہ واقعاً دیوانہ ہے :
(ثُمَّ تَوَلَّواعَنْہُ وَقَالُوامُعَلَّم مَجْنُون)(٢)
''پھر انھوں نے اس سے منھ چراتے ہوئے کہا یہ تو تعلیم یافتہ دیوانہ ہے ''۔
دیوانگی کی تہمت کے علاوہ وہ لوگ پیغمبر کو بعض وقت سر پھرا شاعر بھی کہا کرتے تھے اورشاعری کی تہمت کو خاص طور پر اس وقت اور زیادہ بڑھتی تھی جب پیغمبر اکرم ۖ فصاحت و بلا غت سے لبریز قرآنی آیا ت زبان پر جاری فرماتے تھے ۔اس مقام پر پیغمبراکرم ۖکے مخالفوں نے آپ کو ایک شاعری جاننے والا پیغمبر ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھکر آپ کو( اشعار کا)گویّا قرار دیا ہے :
(وَ یَقُولُونَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْائَ الِھَتِنَالِشَاعِرٍمَجْنُوْنٍ)(٣)
''اور یہ لوگ کہتے تھے کہ کیا ایک پاگل شاعر کے لئے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑبیٹھیں ؟''۔
(بَلْ قَالُوْااَضْغَٰثُ اَحْلٰمٍ بَلِ افْتَرَیٰہُ بَلْ ھُوَشَاعِر۔۔۔''(٤)
''بلکہ کہتے:(یہ قرآن تو) اس کے خوابہائے پریشان کا مجموعہ ہے (نہیں )بلکہ اس نے (اپنے جی سے) جھوٹ موٹ گڑھ لیا ہے بلکہ یہ شخص (خالص) شاعر ہے ''۔
(اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِر نَتَرَبَّصُ بِہِ رَیْبَ الْمَنُوْنِ)(٥)
''یا یہ لوگ کہتے کہ (یہ )شاعر اور ہم اب اس کی مو ت کا انتظار کررہے ہیں یعنی موت کے سوا اب کو ئی چیز اس کا علا ج نہیں کر سکتی ''۔
پیغمبر اکرم ۖپر نا روا تہمتیں اور طرح طرح کی نسبتیںلگا ئی جاتی تھیںحتیّٰ کہہ دیا کہ پیغمبر پر جادو کیا گیا ہے اورآپ پر جادو گروں کے جادو کااثر ہے:
(ذْیَقُوْلُ الظَّٰالِمُوْنَ اِنْ تَتََّبِعُوْنَ اِلّارَجُلاً مَّسْحُوْراً)(٦)
..............
١۔سورئہ قلم آیت٥١۔
٢۔سورئہ دخان آیت١٤۔
٣۔سورئہ صافات آیت٣٦۔
٤۔سورئہ انبیاء آیت٥۔
٥۔سورئہ طور آیت٣٠۔
٦۔سورئہ اسراء آیت٤٧۔
''اور جب ظالم کہتے ہیں کہ تم تو بس ایک (دیوانے)آدمی کے پیچھے بھاگ رہے ہوجس پر کسی نے جادو کردیا ہے ''۔
اس طرح ایک طرف تو کفار پیغمبر اکرم ۖ پر جادوگری کاا لزام لگاتے تھے اور دوسری طرف آپ کی رسالت کو بے اعتبار کرنے کے لئے آپ کوجادو سے متأثر اور مسحور شخص کہا کرتے تھے ۔
پیغمبر اکرم ۖپر کا ہن ہو نے کا الزام بھی لگا یا گیا ۔کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جس کاجنوں سے ر ابطہ ہو یا جس نے جن کو قبضہ میں کر رکھا ہو اوروہ ان (اَجِنَّہ ) کے سکھا ئے پر عمل کر تا ہو چنا نچہ مشرکین نے جب دیکھاکہ پیغمبر کو ساحر ،شاعر اور دیوانہ کہنے سے کو ئی فا ئدہ حا صل نہیں ہو رہا ہے تو انھوں نے آپ کو کا ہن کہنا شروع کر دیا ۔
یہ بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے پیغمبراکر م ۖپر لگائی جانے والی تہمتوں کے جواب میں چپ رہنا جائز نہیں سمجھا اور آپ کی ذات گرامی کا دفاع کرتے ہوئے جواب دیا ہے :
(اِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ۔وَمَاھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍقَلِیلْاً مَّا تُؤْمِنُوْنَ)(١)
''بے شک یہ (قرآن )ایک محترم ایلچی کا پہنچایا ہوا قول ہے کسی شاعر کی تک بندی نہیں ہے (کہ)تم میں بہت کم لوگ ایمان لائے ہیں''۔
(وَمَاعَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَوَمَا یَنْبَغِِیْ لَہُ۔۔۔)(٢)
''اور ہم نے نہ اس (پیغمبر )کو شعر کی تعلیم دی ہے اور نہ شاعری ان کی شایان شان ہے ''۔
(فَذَکِّرْفَمَااَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِکَاھِنٍ وَلاَمَجْنُونٍ)(٣)
''تو (اے رسول)تم نصیحت کئے جاؤ (کیونکہ)تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ کا ہن ہو ا ور نہ مجنون ''
(وَلاٰبِقَوْلِ کَٰاھِنٍ قَلِیْلاً مٰا تَذَکَّرُونَ)(٤)
''اور نہ کسی کا ہن کی (خیالی )بات ہے کہ تم لوگ (اس سے ) کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو ''۔
یہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ انبیائے الٰہی پر لگا ئے گئے سب سے اہم الزامات کامحض ایک حصہ ہے ۔ یقیناً انبیاء
پر دوسری تہمتیں بھی لگائی گئی ہیں جو بہت زیادہ رائج نہیں تھیں لہٰذا ہم ان کے بیان کرنے سے قطع نظرکرتے ہیں۔
..............
١۔سورئہ حاقہ آیت ٤٠۔ ٤١۔
٢۔سورئہ یس آیت٦٩۔
٣۔سورئہ طور آیت٢٩۔
٤۔سورئہ حا قہ آیت٤٢۔
|