راہ اور رہنما کی پہچان
 

مخا لفین کی دلیلو ں پر ایک نظر
مذکو رہ آ یتو ں کے پہلو بہ پہلو دو سری آیات بھی ہیں جو ممکن ہے پہلی نظر میں دین اسلام کے عا لمی نہ ہو نے پر دلا لت کر تی محسو س ہو ں چنا نچہ ان آ یات کو بعض نے پیغمبر اسلام ۖکی دعو ت اسلام کے مخصوص ہو نے کے اپنے دعو ے کو ثا بت کر نے کے ثبو ت کے طور پر پیش بھی کیا ہے یہ شبہ اس لئے پیدا ہوا ہے کہ ان آ یات میں عرب قوم یا ان کے کسی مخصوص گرو ہ کو ''انذار کر نے یعنی ڈرا نے کی بات کی گئی ہے جیسا کہ سورئہ شوریٰ میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْآناً عَرَبِیّاً لِتُنْذِرَاُمَّ الْقُرَیٰ وَمَنْ حَوْلَھَا )(١)
''اور ہم نے اسی طرح آپ پر عربی قر آن کی وحی بھیجی کہ آپ مکہ اور اس کے اطراف والو ں کو ڈرائیں ''۔
(وَھَٰذَٰاکِتَا باَنْزَلْنَاہُ مُبَارَک مُصَدِّ قُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَلِتُنْذِرَاُمَّ الْقُرَیٰ وَمَنْ حَوْلَھَا )(٢)
''اور یہ (قرآن) وہ کتا ب ہے جس کو ہم نے برکت کے ساتھ نا زل کیا ہے اور (یہ کتاب ) ان کتا بو ں کی تصدیق کر تی ہے جو اس کے پہلے آ چکی ہیں اور اس لئے نا زل کیاہے کہ آپ مکہ اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو ڈرائیں '' ۔
ان آیات میں پیغمبر کے ذریعہ انذار یا ڈرا ئے جا نے کے مخا طب مکہ اور ا س کے اطراف کے لوگ بیان کئے گئے ہیں ۔
سورئہ مبا رکۂ یس اور قصص میں بھی آیا ہے:
(۔۔۔لِتُنْذِرَقَوْماًمَا اُنْذِرَئَ ابَاؤُھُمْ فَھُمْ غَافِلُوْ نَ )(٣)
''تا کہ آپ ان لو گو ں کو کہ جن کے باپ دادا ڈرائے نہیںگئے اور غفلت میں پڑے رہ گئے ڈراؤ ''۔
(لِتُنْذِرَقَوْماًمَاأَ تَٰھُمْ مِنْ نَذِیْرٍ مِنْ قَبْلِکَ ۔۔۔)(٤)
''آپ ان لو گوں کوجن کے پاس آپ سے پہلے کو ئی ڈرا نے والا نہیں آیاڈراؤ ''۔
یہ آیتیں بھی اس چیز کو بیان کر تی ہیں کہ پیغمبر اسلام ۖ اس قوم کے انذار کے لئے مبعوث کئے گئے تھے کہ جس کے درمیان آ پ سے پہلے خدا وند عالم کی جا نب سے کو ئی انذار کر نے والا نہیں آیا تھا اور بہ ظاہر اس قوم سے مراد بھی اہل عرب ہیں ۔
سورئہ شعراء میں بھی آیا ہے کہ پیغمبر ۖاپنے اقرباء کو انذار کر نے کے لئے ہی مبعوث کئے گئے تھے:
(وَاَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ)(٥)
''پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ دا روں کو ڈرا ئیے''۔
..............
١۔ سورئہ شوریٰ آیت ٧۔
٢۔سورئہ انعام آیت ٩٢۔
٣۔سورئہ مبا رکۂ یس آیت ٦۔
٤۔ سورئہ قصص آیت ٤٦ ۔
٥۔سورئہ شعراء آیت ٢١٤۔
جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں پہلی نظر میں ان آیات سے یہی گمان پیدا ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلا م ۖ کی دعوت رسالت ایک خا ص جما عت سے مخصوص تھی لیکن ان آیات کے اسلوب و روش پر غور کر نے سے یہ بات وا ضح ہو جا تی ہے کہ ان میں سے کو ئی بھی آیت پیغمبر اسلام ۖکی دعوت کو کسی جما عت میں منحصر و مخصوص ہو نے پر دلالت نہیں کر تی ۔ ان میں کچھ آیتیں اس بات کو بیان کر تی ہیں کہ پیغمبرعر بوں کے درمیان کیوں مبعوث ہوئے ؟اور بیان کر تی ہیں کہ اس کی ایک وجہ عر بو ں کا ایک عرصہ سے انبیا ئے الٰہی سے محر وم ہو نا تھا اور یہ مسئلہ خود اپنی جگہ اس بات کا سبب بنا کہ وہ عام طور پر جہالت و بے خبری کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ ظا ہر ہے کہ پیغمبر اسلا م ۖ کا عربوں کے در میان مبعوث ہو نا کسی بھی طرح آپ کی رسا لت کا ان (عر بوں )سے مخصوص ہو نا نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ آیات بھی کچھ دوسری آیات سے ملتی جلتی ہیں جو بیان کر تی ہیں کہ عر بوں کے درمیان کیو ں خو د ان ہی کی قو م سے پیغمبر مبعوث ہوئے ارشاد ہو تا ہے :
(وَلَوْنَزَّلْنٰہُ عَلَیٰ بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ ۔فَقَرَاَہُ عَلَیْھِمْ مَاکَانُوْابِہِ مُوْمِنِیْن)َ (١)
''اور اگر ہم اس قر آ ن کو کسی غیر عرب زبان قوم میں نا زل کر تے اور (پیغمبر ) ا ن کے سا منے پڑھتا تو وہ اس پر ایمان نہ لا تے'' ۔
ہما ری بحث سے مر بوط بعض دو سری آ یتیں پیغمبر اسلام ۖکی دعوت کے مختلف مر حلوں کو بیان کر تی ہیں۔ ہم جا نتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ۖ کی دعوت اگر چہ سبھی کے لئے تھی پھر بھی تبلیغ کی راہ ہموا ر کر نے اور عملی رکاوٹوں کو بر طرف کر نے کی غرض سے پیغمبر اسلام ۖ کی دعوت کا آغا زایک خاص دا ئرہ میں ہوا اور پھر بعد کے مرحلوں میں دا ئرہ وسیع ہو تا چلا گیا یہا ں تک کہ اپنے دور کی سب سے بڑی تہذیب و تمدن کو اس نے اپنا مخا طب قرار دیا۔ یہی وجہ ہے بعثت کے آغاز میں (وَاَ نْذِرْعَشِیْرَ تَکَ الْاَ قْرَبِیْنَ )''اپنے قر یبی خا ندان وا لوں کو ڈرائیے''والی آیتیں صرف پیغمبر اسلام ۖکی تبلیغ کے ابتدا ئی مرا حل کے دا ئرے کو بیان کر تی ہیں (١)بہر حال اگر چہ پہلی نظر میں ممکن ہے کہ ان آیات سے رسا لت اسلام کے محدود ہو نے کا گمان ہو لیکن ان آیات انذار پر غور و
..............
١۔سورئہ شعرا ء آیت ٩٨ا۔١٩٩ ۔
١۔ظا ہری طور پر سورئہ شو ریٰ کی( آیت٧)کو سو رئہ انعام کی (آیت ٩٢)پر حمل کر تے ہو ئے رسالت کے عالمی ہو نے کے دو سرے مرحلہ کو جا نا جا سکتا ہے ۔
فکر کرنے سے (خاص طو ر سے ان آیات پر تو جہ کے بعد کہ جن میں رسالت کے عام ہو نے کا ذکر ہے) یہ گمان بھی ختم ہو جا تا ہے کسی غرض یا تعصب سے عا ری وہ شخص جو عمو میت پر دلا لت کر نے وا لی آیات کو ان آیا ت کے پہلو میں قرار دے کر دیکھتا ہے تو تصدیق کر تا ہے کہ پیغمبر اسلا م ۖکی دعوت اسلام عر بوں سے مخصوص نہیں تھی ۔ اس کے علاوہ تا ریخ کے مسلم الثبوت شوا ہد بھی (مثلاً پیغمبر اکر مۖ کی جا نب سے تمام مما لک کے سر برا ہو ں کے پاس دعوت اسلام کے لئے اپنے سفیروںکابھیجاجانا)اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔

تبلیغ اسلام کے تئیں جنوںکا کر دار
یہا ں تک یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ تمام لوگ (ناس) پیغمبر اسلام ۖ کی تبلیغ کے مخا طب تھے اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا یہ دعوت اسلام جنا ت کو بھی شامل ہے ؟
بہ ظا ہر قر آ ن کر یم میں یہ بات صاف طور پر بیان نہیں ہو ئی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیںکہ لفظ ''ناس '' (یعنی لوگ )(جو بعض آیات میں آیا ہے جیسے ''ھُدیً لِلنّاسِ''،''کَا فَّة للنَّا س''ِ اور''بَلَا غ للنَّاسِ''بہ ظا ہر انسانو ں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے اور جنو ں کو شا مل نہیں ہے البتہ سو رئہ ''ناس '' کی آخری آ یتوں میں یہ احتمال پایاجاتا ہے کہ ممکن ہے ''ناس ''میں جنو ں کو بھی شا مل رکھا گیا ہو:
(مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِالنَّاسِ۔مِنَ الْجِنَّةِ وَالنََا سِ)(١)
''اند ر سے وسوسہ کر نے وا لے کے شر سے پنا ہ ما نگتا ہو ں جو لو گو ں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر تا ہے ۔وہ (وسو سہ پیدا کر نے والا )جنات میں سے ہو یا انسا نو ں میں سے ''
عبا رت ''مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّا سِ ''میں حرف ''مِنْ ''منِ بیانیہ ہے ۔ اس عبارت میںدو احتمال پا ئے جا تے ہیں : ایک تو یہ کہ اس میں ''خنّا س ''کی وضا حت کی گئی ہے ۔ دو سرے یہ کہ اس ''ناس '' کے ذریعہ ''فی صدورالنّا س'' کی وضا حت کی گئی ہو ،چنا نچہ دوسری صورت میں آیات کے معنی یہ ہو ں گے ''لو گو ں کے دلو ں میں'' یعنی ''جنا ت اور انسانو ں کے دلوں میں '' البتہ حق یہ ہے کہ دو سرا احتمال بہت ضغیف ہے اور لفظ ''ناس ''کا ظاہری طو ر پر انسان سے مخصوص ہو نا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن دو سرے احتمال کو صرف احتمال کی حد تک ر د بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
..............
١۔سورئہ ناس آیت ٤۔٦۔
بہر حال جن آیات میں لفظ '' ناس ''استعمال ہو ا ہے وہ صاف طور پر دلالت کر تی ہیں کہ جنا ت اسلام کی دعوت میں شا مل نہیں تھے لیکن جن آیات میں لفظ ''عا لمین ''استعمال ہو ا ہے ان سے یہ مطلب نکا لا جا سکتا ہے ۔اس لئے کہ ''عا لمین ''ہو ش و خرد رکھنے وا لے تما م عا قلو ں کو شا مل ہے اور اس اعتبار سے اس میں جنا ت کی جما عت بھی شامل ہے ۔
ان آیات کے علا وہ بعض روا یات میں بھی آیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) ''ثقلین '' کی جا نب مبعوث کئے گئے ہیں (١)سورئہ احقاف کی آیات بھی اسی مفہو م کی تا ئید کرتی ہیں ارشاد ہو تا ہے :
(وَاِذْصَرَفْنَااِلَیْکَ نَفَراًمِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ۔۔۔)(٢)
''اور جب (قوم ) جن سے کچھ افراد آپ کے پاس بھیجے کہ قر آن کو سنیں ۔۔۔''۔
اس آیت کو اپنا مد عا ثابت کر نے اور اس پر دلیل لا نے کے لئے میں نے اس لئے نہیں پیش کیا کہ معلوم ہے آیت میں اس بات کی کو ئی تصر یح نہیں کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام ۖنے جنو ں کو اپنا پیغام سنا نے کے لئے دعو ت دی ہو بلکہ ممکن ہے خدا وند عالم نے خود کو ئی سبیل نکا لی ہو کہ جنو ں کا ایک گروہ خود آئے اور پیغمبر کی با تیں غور سے سنے ۔
دوسری بات یہ کہ حتی اگر ہم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ جن پیغمبر اسلام ۖکی دعو ت کے مخا طب نہیں تھے اور آپ کی تبلیغ انسا نو ں سے مخصو ص تھی تو بھی گز شتہ مطالب کی بنیاد پر جنو ں کا فر یضہ تھا کہ پیغمبر اسلام ۖکی دعوت سے آ گا ہی کے بعد اس کو قبو ل کر ے اور اس پر ایمان لا ئے ۔

ظہو ر اسلام کے بعد بقیہ تمام ادیان کا غیر معتبر ہو نا
قر آن کر یم کی بعض آیات سے گما ن ہو تا ہے کہ ان آیات کے مطابق پیغمبر اسلام ۖ کے مبعوث ہونے کے بعدبھی دو سرے ادیا ن کی قا نونی حیثیت باقی ہے ۔
گذ شتہ بحثو ں سے یہ وا ضح ہے کہ اس طرح کا نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے اور ظہو ر اسلام کے بعد اسلام سے باخبر ہو نے وا لے ہر با لغ و عا قل پر اسلام قبو ل کر نا اور مسلما نوں کی صف میں شا مل ہو نا وا جب ہے ۔
اسی طرح قر آن میں ایسی آیات مو جو د ہیں جن میں اہل کتا ب کے بعض گرو ہ کی تعر یف کی گئی ہے ۔
..............
١۔ ملا حظہ فر ما ئیے: بحا ر الا نوار جلد ٦٣ صفحہ ٢٩٧ ،حد یث نمبر ٤ ۔ اور جلد ١٠٢ صفحہ ١٠٥ حدیث ١٣۔
٢۔سورئہ احقاف آیت ٢٩۔
نمو نہ کے طور پر ہم سورئہ آل ِعمران میں پڑھتے ہیں :
(لَیْسُواسَوَائً مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اُمَّة قَائِمَةیَتْلُوْنَ ئَ ایٰتِ اﷲِ آنٰائَ اللَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ )(١)
''یہ لوگ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔(بلکہ) اہلِ کتاب میں کچھ لوگ درست کر دا ر بھی ہیں جو راتو ں کو اُٹھکر خدا کی آیتیں پڑ ھا کر تے اور سجدے کیا کر تے ہیں ''۔
اس آیت میں بعض اہل کتاب کی تعر یف سے ممکن ہے یہ گمان پیدا ہو کہ دین اسلام کے ساتھ ہی قر آن نے ان کی بھی تا ئید کی ہے اور ان کے دین کی قا نو نی حیثیت کو قبول کیا ہے لیکن یہ خیال غلط ہے اس لئے کہ اس آیت کا مطلب دو حال سے خا رج نہیں ہے :
پہلا احتمال تو یہ ہے کہ اس آیت میں ان اہل کتاب کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے کہ جنھو ں نے رسول اسلام کے دور حیات میں دین اسلام قبو ل کر نے سے انکار کیا تھا ۔ بلکہ اس کلیہ کو بیان کیا ہے کہ اہل کتاب کے در میان بھی (چا ہے ما ضی کی بات ہو یا حا ل کی )اچھے اور برے دو نوں طرح کے افراد رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ تمام یہو دی یا عیسا ئی خدا نا شناس انسان رہے ہو ں ۔ اسی بنا پر کہا جا تا ہے کہ تمام اہل کتاب کی تمام زما نوں میں، ایک ہی طرح سے مذ مت نہیں کر نا چا ہئے بلکہ ان میں ایک گروہ خدا کی عبا دت اور آیا ت الٰہی کی تلا وت کر نے والا بھی رہا ہے ۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ مند ر جہ بالا آیت ان لو گو ں کے با رے میں ہو کہ جن تک اس وقت دعو ت اسلام نہ پہنچی ہو یا جن پر اﷲ کی حجت تمام نہ ہو ئی ہو ۔ لہٰذا جب بھی حجت تمام ہو جا ئے تو اہل کتاب کے اچھے افراد بغیر کسی شک و شبہہ کے اسلام قبول کر لیں گے ۔سورئہ مبا رکۂ ما ئدہ میں نصا ریٰ کے ایک گروہ کی اس طرح صفت بیا ن کی گئی ہے :
(وَاِذَاسَمِعُوْامَااُنْزِ لَ اِلَیٰ الرَّسُوْ لِ تَریٰ اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ مِمَّاعَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ۔۔۔)(٢)
''اور جب یہ لوگ اس (قرآن)کو سنتے ہیں جو ہما رے رسول پر نا زل کیا گیا ہے تو دیکھو کس طرح حقیقت سے آشنا ہو جا نے کے سبب انکی آنکھو ں سے بیسا ختہ آنسو جا ری ہو جا تے ہیں '' ۔
یہ گرو ہ ان ہی لو گو ں کا ہے جو حجت تمام ہو نے سے پہلے اہل عبا دت و دعا تھے :
(اُ مَّةً قَائِمَةً یَتْلُوْنَ آیَٰا تِ اﷲِ )
..............
١۔سو رئہ آل عمران آیت١١٣۔
٢۔سورئہ ما ئدہ آیت ٨٣۔
''جو را توں کو اٹھکر خدا کی آیتو ں کی تلاوت کر تے ہیں ''اور جب وہ قر آن سے آشنا ہو جا تے ہیں تو(تَریٰ
اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ ۔۔۔)
'' ان کی آنکھو ں سے بیساختہ آ نسو جا ری ہو جا تے ہیں ''۔
اس بنا پر اہل کتاب کا وہ گر وہ جو حجت تمام ہو جا نے کے بعد بھی اپنے دین پر ڈٹا رہے قرآن کی نظر میں کسی بھی صورت قا بل ستا یش و تعریف نہیں کہا جا ئے گا ۔

انبیاء علیہم السلام کی امتیں
انبیاء علیہم السلام کے عا م طور پر مشتر ک اوصاف کی تحقیق و جستجو کے بعد اب ''انبیاء ''کی قوموں کے بارے میں گفتگو ضروری ہے لیکن بحث کے آ غاز سے پہلے خود اس بحث کے طریقہ و روش سے متعلق چند نکتے بیا ن کردینا مفید ہیں ۔میری نظر میں انبیاء علیہم السلام کی امتو ں کے با رے میں کسی قر آنی تحقیق و جستجو کے دوطریقے ہوسکتے ہیں :
ایک تو یہ کہ مختلف امتو ں سے متعلق آیات کو تفصیل کے ساتھ الگ الگ رکھ کر تحقیق کی جا ئے اور پھر آیات کی تقسیم بندی اور تحقیقی جا ئزے کے بعد ان سے حا صل ہو نے وا لے نتیجو ں کا جا ئزہ لیا جا ئے ۔ تحقیق کا یہ طریقہ طویل گفتگو کا طا لب ہے اور اس مقام پر اس کی گنجا ئش نہیں ہے ۔
دوسرا طریقہ جس کو ہم نے اپنا یا ہے یہ ہے کہ پہلے تو تمام امتو ں کے ما بین بعض مجمو عی اور مشترک موضوعات کو پیش نظر رکھا جا ئے اور پھر قر آ ن کریم کی آیات کی بنیاد پر ان کا جا ئزہ لیا جا ئے ۔
انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے با رے میں قر آ ن کریم سے ایک تو اس نکتہ کا پتہ چلتا ہے کہ ان تمام قو موں میں ہر ایک نے اپنے پیغمبر کے ساتھ کسی نہ کسی طرح مخا لف مو قف اپنایا اور ان کا مقا بلہ کر نے کے لئے اٹھ کھڑ ے ہو ئے ہیں بعض آیات اس بات کی شہا دت دیتی ہیں کہ تمام الٰہی انبیاء کو ان کی امتو ں نے جھٹلایا ہے ۔ اس تا ریخی حقیقت کو دیکھ کر جس کی قر آن کریم نے تا ئید فر ما ئی ہے چند سوا ل پیدا ہو تے ہیں ،کیا ایک قوم کے تمام افراد یکساں طور پر ایک دو سرے کے ہمراہ ہو کر اپنے پیغمبر سے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے یا شرو ع میں معا شرہ کے مخصوص افراد مخا لفت کا پرچم بلند کر تے اور اس کے بعد دو سرے گر وہ ان سے آکر مل جا یا کر تے تھے ۔
اس حقیقت کے پیش نظر کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت انسانی فطرت کے مطابق ہوا کر تی تھی اور دین اسلام (اپنے عام معنی کے لحا ظ سے )چو نکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ہے اور دین فطرت ہے لہٰذا دیکھنا چا ہئے کہ انبیا ء علیہم السلام کی طویل تا ریخ میں وہ کو نسے اسباب تھے جن کی وجہ سے تمام قو میں اپنے پیغمبر کی مخا لفت کے لئے کھڑی ہوجایا کر تی تھیں ؟ مخا لفین کا رویہ انبیاء علیہم السلام سے کس طرح کا تھا اور وہ انبیاء علیہم السلام سے مقا بلہ کے لئے کن طریقو ں سے فا ئدہ اٹھا تے تھے ؟ان گر و ہو ں کا انجام کیا ہوا؟اور وہ کس عا قبت کے منتظر ہیں ؟

مو جو دہ بحث کا علو م سما جیات ونفسیات سے رابطہ !
مذ کو رہ سوا لو ں کے جوابات تلاش کر نے سے پہلے منا سب معلوم ہو تا ہے اس بحث کے ساتھ مختصر طور پر علوم سما جیات اور اجتماعی نفسیات کے تعلق کے با رے میں کچھ گفتگو ہو جا ئے چنا نچہ اس سلسلہ میں چند سبق آموز نکات کہ جن کا قر آ ن کر یم سے استنباط کیا جا سکتا ہے ہم بیا ن کر تے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے کہ قر آن کریم کی روش یہ نہیں ہے کہ ہر بات تفصیل سے ،مختلف عنو ا نو ں کے تحت اور جدا جدا بیان کرے بلکہ کبھی کبھی قر آن کر یم بعض اہم مطالب صرف اشا رہ میں بیان کر جا تا ہے کہ اگر ان کے با رے میں غور کر یں تو انسان کے سا منے معر فت کے بہت سے ابواب کھل جا ئیں ۔ ایسے موقعوں پر ہم اگراپنے سوالات قر آن کے سا منے پیش کر یں تو قر آن کے مخصوص طریقہ کو سا منے رکھ کر اپنے سوا لات کے جوا بات حا صل کر سکتے ہیں ۔ اس صورت میں اشا روں میں بیان کی گئی قر آنی تعبیر یں ایسی بیش قیمت کنجی ثا بت ہو ں گی کہ جن سے علوم و معا رف کے بیش بہا خزا نو ں سے بھرے بڑے بڑے در وا زوں کے قفل کھو لے جا سکتے ہیں اور شاید مو جو دہ بحث کچھ اسی انداز کی ہے اگر اس مو ضوع سے متعلق قر آن کریم کی آیات پر غور کر یں تو سما جیات ،فلسفۂ تا ریخ ، اجتما عی اور انفرا دی نفسیات وغیرہ سے متعلق بہت سی ایسی با تیں معلوم ہو جا ئیں گی کہ جن سے ہر ایک کے با رے میں عرصۂ دراز تک تحقیق و جستجو کی ضرورت محسوس کی جا سکتی ہے ۔ آئندہ بحثو ں میں ایسے بعض مطالب جو قابل استنباط ہیں ہم اشا رہ کر یں گے ۔
اب ہم مختصر طور پر مو جو دہ بحث کے ساتھ دو اہم علوم یعنی سما جیات اور اجتما عی نفسیات کے تعلق پر گفتگو کر تے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے کہ سما جیات میں بنیا دی ترین بحث یہ ہے کہ اس میں مختلف موجو دات کے وجو د کے اسباب ، پیدائش کی کیفیت نشو و نما کے مرا حل اور تغییرات اور ان کے نتا ئج و اثرات پر گفتگو ہو تی ہے ۔ اس بنیاد پر مختلف معاشروں میں لو گو ں کا پیغمبروں کی مخا لفت کر نا یہ خود ایک عجیب اور قا بل توجہ اجتما عی مسئلہ ہے کہ جس کی علم سما جیا ت کے نقطۂ نظر سے علل و اسباب کی تحقیق، سما جی ڈھا نچے کی بنا وٹ ،اس میں رو نما ہو نے وا لے تغییرات اور آثار و نتا ئج کا جا ئزہ لیا جا سکتا ہے اور یہ بات مسلّم ہے کہ اس با رے میں قر آن کر یم سے سوا لو ں کے جوا بات حا صل کئے جاسکتے ہیں ، قر آن کر یم کا مخصوص تبصرہ معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ چنا نچہ اس طرح کی تحقیقات ایک طرف تو سما جیات کے مبا حث کو کہیں زیا دہ مالا مال کر دے گی اور دو سری طرف ان سے حا صل شدہ نتیجو ں کی بنیاد پر علم سما جیات کے بہت سے اسلامی یا قر آنی نظر یا ت کا ایک بڑا حصہ معلوم کیا جا سکتا ہے ۔
یہ بحث اجتما عی نفسیات کے ساتھ بھی اسی بنیاد پر تعلق پیدا کر لیتی ہے کہ اجتما عی مسائل جیسے لو گو ں کا انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نا ، اس حیثیت سے کہ انسان کے ہی ایجا د کر دہ مسائل ہیں اور مخصوص د ما غی اور نفسیاتی وجوہات کے تحت پیدا ہو تے ہیں اس بنا پر کو ئی بھی اجتما عی عمل جومعا شرے کے کسی ایک طبقہ میں یا پو رے معا شرے میں رو نما ہو تا ہے اس طبقے یا معا شرے کی نفسیاتی خصو صیات کا نتیجہ ہو تا ہے اور ان نفسیاتی اسباب و عوا مل کا مطا لعہ اجتما عی نفسیات کے فر ائض میں سے ہے ۔
اس بنا ء پر امتو ں کی انبیا ئے الٰہی کے ساتھ مخا لفت اِن قو موں کی کو نسی نفسیا تی خصو صیت سے متأثر ہے اس بات کی تحقیق اجتما عی نفسیات کی بحثو ں کے دا ئرے میں شما ر ہو گی ، علاوہ بر این انبیاء کے خلاف اجتما عی مقا بلہ آرا ئی کے سا تھ افراد اور معا شرے کے با ہمی ار تباط کا مطا لعہ بھی ایک اور اہم مسئلہ ہے جس کو قر آن کر یم میں علم سما جیات کے اصول و نظر یات یا اجتما عی نفسیات کے نقطۂ نظر سے تحقیق و جستجو کا محور قرار دیا جا سکتا ہے ۔

خو د امتو ں کے ذریعے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب
سو شل سا ئنس کے بعض علو م کے ساتھ بحث کے بعض پہلو ؤںکے رابطہ کی طرف اشارہ کے بعد ہم گفتگو کے اس حصہ میں پہلے اُن آیات کا ذکر کر رہے ہیں جن میں گذشتہ امتوں کی جانب سے اپنے انبیاء علیہم السلام کی اصل مخالفت کو بیان کیاگیا ہے ۔
قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیات ہیں کہ جو کسی نہ کسی انداز سے اس تاریخی حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ ان میں سے بعض آیات میں (نمونہ کے طور پر ) بعض قوموں کے نام لئے گئے ہیں اور پھر ان کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کے خلاف مشترکہ رد عمل کو بیان کیا گیا ہے :
قر آن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :(اَلَمْ یَا تِکُمْ نَبَؤُالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَعَادٍوَثَمُوْدَ وَالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِھِمْ لَا یَعْلَمُھُمْ اِلَّااﷲُ جَا ئَتْھُمْ رَسُلُھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرَدُّوْااَیْدِیَھُمْ فِیْ اَفْوَاھِھِمْ وَقَالُوْااِنَّاکَفَرْنَا بِمَا اُرْسِلْتُمْ بِہِ وَ اِنَّالَفِیْ شَکٍ ِمَّا تَدْعُوْنَنااِلَیْہِ مُرِیْبٍ )(١)
..............
١۔سورئہ ابراہیم آیت ٩۔
''کیا تمہا رے پاس ان لو گو ں کی خبر نہیں پہنچی جو ہم سے پہلے تھے (جیسے)نوح کی قوم اور عاد و ثمو د اور جو ان کے بعد ہو ئے ہیں جن کو خدا کے سوا کو ئی جانتا ہی نہیں؟ ان کے پاس ان کے انبیاء علیہم السلام واضح دلیلیں لیکر آئے لیکن ان لو گوں نے (اعتراض کے عنوان سے منھ بند کرنے کے لئے ) ان کے ہاتھ ان کے منھ پر رکھ دیئے اور کہنے لگے : تم کوخدا کی طرف سے جو ذمہ داری دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کو نہیں ما نتے اور جس دین کی طرف تم ہم کو بلارہے ہو تو اس کے بارے میںہم بڑے گہرے شک میں ہیں '' ۔
آیت میں (وَالَّذین من بعد ھم ۔۔۔)کی عبارت سے واضح ہے کہ یہ بات کچھ خاص قو موں سے مخصوص ہیں۔
بلکہ بہت سی قوموں میں جاری رہی ہے ۔ اسی طرح صیغۂ جمع (انبأئ)کے مقام پر صیغۂ مفرد(نبأ)کا استعمال اس چیز کی غمّازی کرتا ہے کہ ان تمام قوموں کی ایک مشترک داستان ہے : ان سب کے درمیان خدا کے پیغمبر مبعوث ہو ئے لیکن ان سب نے ان نبیوں کو جھٹلایا ۔ عبارت (فَرُدُّوُااَیدِ یَھُمْ فیِ اَفوَا ھِھِم) عربی زبان کی ایک ضرب المثل ہے جو ایسے مقام پر بولی جاتی ہے جہاں بات بالکل صاف صاف دو ٹوک کرنا ہوتا ہے چنانچہ اس عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اپنے نبیوں سے بالکل صاف و واضح طور پر کہدیا تھا کہ ہم آپ کی رسالت کو تسلیم نہیں کرتے اور ہمیں آپ کی دعوت کے صحیح ہونے میں شک ہے ۔
قرآن کریم کی بعض دوسری آیات میںپیغمبر اسلام ۖکی تسلی اور دلداری کی گئی ہے کہ آپ کی رسالت کی مخالفت اور تکذیب صرف ان عرب مشرکوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ گذشتہ اقوام نے بھی اپنے انبیا ء علیہم السلام کی تکذیب کی ہے سورئہ حج میں قرآن کریم رسول اسلام ۖسے فرماتا ہے :
(وَاِنْ یُکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَعَاد وَثَمُوْدُ۔ وَقَوْمُ اِبْرَٰھِیْمَ وَ قَوْمُ لُوْطٍ ۔ وَاَصْحَابُ مَدْیَنَ وَکُذِّ بَ مُوْسَیٰ فَاَمْلَیْتُ لِلْکَافِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْ تُھُمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ)(١)
اور اگر پیغمبر یہ لوگ آپ کو جھٹلا تے ہیںتو ان سے پہلے قوم نوح نے اور ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم نے اور اسی طرح مدین کے رہنے والوں نے (اپنے اپنے پیغمبروں کو)جھٹلایا ہے ۔اور موسیٰ (بھی)جھٹلا ئے جاچکے ہیں پس میں نے کافروں کو کچھ مہلت دیدی اور پھر (ان کا گر یبان )کس دیا دیکھئے تو میرا عذاب کیسا تھا ''۔
..............
١۔سورئہ حج آیت ٤٢۔٤٤۔
ایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَاِنْ یُکَذِّ بُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُل مِنْ قَبْلِکَ۔۔۔)(١)
''اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا ئیں تویقین ما نئے آپ سے پہلے (بھی)بہتیرے پیغمبر جھٹلائے جا چکے ہیں۔۔۔''
ارشاد ہو تا ہے :
(کَذَّ بَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَاَصْحَا بُ الرَّ سِّ وَثَمُوْ دُ۔وَعَٰاد وَفِرْعَوْ نُ وَ اِخْوٰانُ لُوْط۔ وَاَصْحَا بُ الْاَ یْکَةِ وَ قَوْمُ تُبَّعٍ کُلُّ کَذَّ بَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیْدٍ)(٢)
'' ان سے پہلے قوم نو ح کی قوم اصحا ب رس اور ثمو د نے بھی تکذیب کی تھی اور قوم عا دو فرعون اور برا درانِ لوط نے بھی اور اصحا بِ ایکہ اور قوم تبع نے( مختصر یہ کہ ) سبھی نے ہما رے پیغمبروں کو جھٹلا یا(نتیجہ میں) ہما را (عذاب کا) وعدہ پو را ہو کر رہا ''۔
سورئہ فاطر میں ارشاد ہو تا ہے :
( وَاِ نْ یُکَذِّ بُوْکَ فَقَدْکَذَّبَ الَّذِ یْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ جَائَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنَٰاتِ وَبِالزُّبُرِوَبِالْکِتَٰابِ الْمُنِیْرِ۔ ثُمَّ اَخَذْ تُ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْافَکَیْفَ کَا نَ نَکِیْرِ)(٣)
''اور اگر یہ لو گ آپ کو جھٹلا ئیں تو یقینا ان سے پہلے وا لو ں نے بھی (اپنے اپنے پیغمبروں کو ) جھٹلایاہے (حا لا نکہ )جب ان کے پاس ان کے پیغمبرواضح و روشن دلیلیں،صحیفے اور کھلی کتاب لیکر آئے تھے پس ہم نے ان لوگوں کو جو کا فر ہو بیٹھے تھے جکڑ لیا(دیکھئے تو) میرا عذاب( ان پر) کیسا (سخت) ہوا ؟'' ۔
قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:
( فَاِنْ کَذَّ بُوْکَ فَقَدْ کُذِّ بَ رُسُل مِنْْ قَبْلِکَ جَائُ وْابِا لْبَیِّناتِ وَالزُّبُرِ وَالکِتَابِ الْمُنِیْرِ ) (٤)
''اگر انھو ں نے آپ کو جھٹلایاتوآپ یقین رکھئے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسو ل روشن معجزے ، صحیفے
..............
١۔سورئہ فا طرآیت ٤۔
٢۔سورئہ ق آیت ١٢۔١٤۔
٣۔سورئہ فا طر آیت٢٥۔٢٦۔
٤۔سورئہ آلِ عمران آیت ١٨٤۔
اورنو را نی کتاب لیکر آ چکے ہیں(جن کو جھٹلا یا گیا ہے )''۔
سورئہ سبا میں ارشاد ہو تا ہے :(وَکَذّ بَ الَّذِ یْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَمَابَلَغُوْامِعْشاَرَمَٰااٰ تَیْنٰھُمْ فَکَذَّبُوْارُسُلِی فَکَیْفَ کا نَ نَکِیْرِ)(١)
'' اورجو لوگ ان سے پہلے تھے انھو ں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلا یا تھا حا لانکہ ہم نے جتنا ان لو گو ں کو دیا تھا یہ کفار (ابھی )اس کے دسو یں حصہ کو (بھی)نہیں پہو نچے پس ان لو گو ں نے میرے پیغمبر کو جھٹلا یاتو( دیکھا کہ) ہما را عذاب(ان پر ) کیسا (سخت )ہوا ''۔
مندر جہ بالا آیات کے علا وہ دوسری آیات میں بھی مخصوص قو موں کے جھٹلا نے کا ذکر ہے اور خدا وند عا لم کے پیغمبروں کی مخا لفت کا پردہ چا ک کیا گیا ہے۔ہم یہاں ان آیا ت کے کچھ نمو نے پیش کر رہے ہیں :
سورئہ شعراء میں ارشاد ہو تا ہے :(کَذَّ بَتْ قَوْمُ نُوْ حِ الْمُرْ سَلِیْنَ )(٢)
'' نو ح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا''۔
اس کے بعد اسی سورہ میں فر ماتا ہے:
( کَذَّ بَتْ عَا د الْمُرْسَلِیْنَ )(٣)
'' ( قو م) عا د نے خدا کے پیغمبروں کو جھٹلایا ''۔
اور آگے بڑھکر کہتا ہے :
( کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَ )(٤)
'' ( قو مِ) ثمو د نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا '' ۔
اور اسی سورہ کی ایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے:
( کَذَّ بَتْ قَوْمُ لُوْطِ الْمُرْسَلِیْنَ )(٥)
''اور قوم لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا ''۔(٦)
..............
١۔سورئہ سبا آیت٤٥۔
٢۔سورئہ شعراء آیت ١٠٥۔
٣۔سورئہ شعراء آیت١٢٣۔
٤۔سورئہ شعراء آیت ١٤١۔
٥۔سورئہ شعراء آیت١٦٠۔
٦۔اسی طرح سورئہ قمر آیت ٩ ،١٨، ٢٣ اور ٣٣ ملا حظہ فر ما ئیں ۔


انبیاء علیہم السلام سے جنگ کر نے وا لے سردا روں کی پہچان
گذ شتہ گفتگو کے پیش نظر قر آن کر یم کی آیات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ گذ شتہ تمام قو مو ں نے نبیو ں کو جھٹلایا اور انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کرنا ان کا معمول تھا۔اب یہ سوال ہے کہ کیا اس مخالفت میں معاشرہ کے تمام افراد برابر سے شریک تھے یا ابتداء میں کسی مخصوص طبقہ کے افراد مخالفت کیلئے اٹھتے اور پھر ان کی دعوت پر دوسرے لوگ پیغمبر کی مخالفت میں ان کے ساتھ ہوجایا کرتے تھے ؟
اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن نے دوسرے مفروضے پر زور دیا ہے اور کچھ مخصوص گروہوں کا انبیاء علیہم السلام سے جنگ کی ابتدا کرنے اور انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے میں پیش پیش رہنے کے عنوان سے تعارف کرا یا ہے ۔چنانچہ قرآن کے مطابق پہلے ایک خاص طبقہ کے لوگ ہی انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کیا کر تے تھے اور ا س کے بعد مختلف طریقو ں سے یہ گروہ یا افراد عامل لو گوں کے افکار کو منحر ف کر نے کے وسا ئل فر ا ہم کیا کرتے تھے ۔ قر آن کر یم نے انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نے وا لے سر دا روں کے کچھ او صا ف بیان کئے ہیں جن میں سب سے اہم صفت'' اتراف '' ہے ۔''اتراف'' کا مطلب یہ ہے کہ انسان نعمتو ں کی فر ا وانی کی وجہ سے سر کشی اور طغیان پرتُل جا ئے اور مترف اس شخصکو کہتے ہیں جو ما دی نعمتوں اور لذّتوں میں غر ق ہو جا ئے قر آن کر یم کی متعدد آیات میں انبیاء کی مخا لفت کر نے والوں میں سب سے پہلے متر فوں کا تذ کر ہ ہوا ہے :
سورئہ سبامیں ارشاد ہو تا ہے :
(وَمَااَرْسَلْنَٰافِیْ قَرْیةٍ مِنْ نَذِیْرٍ اِلّاَقَا لَ مُتْرَفُوھَٰااِنَّٰابِمَٰا اُرْسِلْتُمْ بِہِ کَٰافِرُوْنَ۔وَقَٰالُوْانَحْنُ اَکْثَرُ اَمْوَٰالاً وَاَوْلَادَاً وَمٰانَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ)(١)
''اورہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا(پیغمبر)نہیں بھیجامگر یہ کہ وہا ں کے عیش پسندبڑ ے لوگ یہ کہہ اٹھے کہ جو چیز دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں ما نتے اور( یہ بھی )کہتے ہما رے پاس تو مال اور اولاد دو سروں سے کہیں زیا دہ ہے اور ہم پر عذاب نہیں ہو گا ''۔
اس آیت سے چند نکتے حا صل ہو تے ہیں :
١۔ہر قوم کے درمیان سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نے والا گروہ اس قوم کے آرام پسند بڑے لو گو ں کا ہو تا تھا ۔یہ گروہ با لکل صاف صاف انبیا ء علیہم السلام کی دعوت قبو ل نہ کر نے کا اعلان کر تا تھا ۔
..............
١۔سورئہ سبا ٔ یت ٣٤ ۔٣٥۔
٢۔اِن بڑے لو گو ں کا یہ کہنا تھا کہ ہما رے خا ندان کاقوم و قبیلہ کے لحا ظ سے طا قتور ،دولتمند اور اجتما عی اقتدار کا حا مل ہو نا انبیاء علیہم السلام سے ہر طرح بلند و بر تر اور ہر طرح کے عذاب سے محفو ظ ہو نے کا معیار ہے ۔
اُن کے اس فلسفے سے ایک دوسرا نکتہ یہ نکلتا ہے کہ ان معا شروں میں کسی طبقہ کی دو سرے طبقوں سے بلندی و بر تری کا معیار دولت و ثر وت اور انسانی طا قت و قوت کا زیا دہ ہو نا تھا ۔
قرآن میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَکَذَ ٰلِکَ مَااَرْسَلْنٰامِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیةٍ مِنْ نَذِیْرٍاِلّاَقَٰالَ مُتْرَفُوھَااِنّٰاوَجَدْ نَا اَبٰائَ نَاعَلَیٰ اُمَّةٍ وَاِنّٰاعَلَیٰ آثٰارِھِمْ مُقْتَدُوْنَ)(١)
''اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرا نے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہا ں کے آرام پسند لوگو ں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا ؤںکو ایک آئین اور طریقہ پر پایاہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ''۔
اس آیت میں بھی دو لتمند طبقہ کے با رے میںگفتگو ہے اور ان کے ایک دو سرے بہا نہ کا ذکر ہے کہ ہم اپنے دادا کے طریقہ کو ہی جا ری رکھیں گے اور ہم کو کسی نئے طریقہ کی کو ئی ضر ورت نہیں ہے ۔
بعض آیات میں ''ملأ ''کا لفظ بھی آیا ہے نمو نہ کے طور پر قرآن کریم میںنوح کی قوم کے متعلق خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :
(قَٰالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِہِ اِنّٰا لَنَرَٰکَ فِیْ ضَلاٰلٍ مُبِیْنٍ)(٢)
''ان کی قو م کے سر داروں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ ہم تم کو کھلم کھلا گمر ا ہی میں مبتلا دیکھتے ہیں ''۔
اس بنیاد پر انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت میں پیش پیش افراد کی ایک صفت یہ ہے کہ قوم کے سر دار اپنے نبی پر کھلم کھلا گمرا ہی میں مبتلا ہو نے کی تہمت لگا تے تھے ہم اس با رے میں انبیاء علیہم السلام کے مخا لفو ں کے طریقوں سے متعلق بحث میں تفصیل سے گفتگو کر یں گے ۔
(قَٰالَ الْمَلَاُ الَّذِْیْنَ کَفَرُوامِنْ قَوْمِہِ اِنّٰالَنَرَیکَ فِیْ سَفَٰاھَةٍ وَاِنّٰالَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ)(٣)
..............
١۔سورئہ زخرف آیت٢٣۔
٢۔سورئہ اعراف آیت٦٠۔
٣۔سورئہ اعراف آیت٦٦۔
قوم ثمود کے با رے میں ار شاد ہو تا ہے :
''قوم کے سر دار جو کا فر تھے کہنے لگے ہم تو بیشک تم کو ایک طرح کی حماقت میں مبتلا دیکھتے ہیں اور پوری سنجید گی سے تم کو جھو ٹا سمجھتے ہیں ''۔
اس آیت میں بھی ایک خاص طبقہ '' ملأ ''یعنی وہی قوم کے سر داروں پر زور دیا گیا ہے اور یہ زور دینا اس چیز کو بیان کر تا ہے کہ یہ گروہ مخا لفت کر نے میں آگے آگے تھا ایک اور آیت میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ یہ طبقۂ'' ملأ ''اہل استکبار کا مغرور و سر کش گروہ تھا خداوند عالم قرآن میں ار شاد فر ما تا ہے :
(قَالَ الْمَلَا ُٔ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوا مِنْ قَوْمِہِ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَن مِنْہُمْ اَتَعَلَمُونَ اَنَّ صَلِحاً مُرْسَل مِنْ رَّبِّہ قَالُوْااِنّٰابِمَااُرْسِلَ بِہِ مُؤمِنُوْنَ ۔قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا اِنّٰابِالَّذِیْ اٰمَنْتُمْ بِہِ کَافِرُوْنَ)(١)
'' ان کی قوم کے سر دار نے جن کوقوت و اقتدار نے بڑا بنا دیا تھا کمزو ر و محروم لو گو ں سے جو ان میں ایمان لائے تھے کہاکیا تمھیں معلوم ہے کہ صالح اپنے پر ور دگا ر کی طرف سے بھیجے گئے سچے رسول ہیں انھوں نے جواب دیا کہ بلا شبہ جن باتو ں کا وہ پیغام لا ئے ہیں ہما را تو اس پر ایمان ہے تب جن لوگوں کو (اپنی استکباری طاقت و قوت پر ) گھمنڈ تھا کہنے لگے ہم تو جس پر تم ایمان لائے ہو اسے نہیں مانتے ''۔
مستکبرین بذات خود حق قبول کر نے اور انبیا ء علیہم السلام کی دعوت پر لبیک کہنے سے انکار کے علا وہ دوسروں کو بھی بہکا نے ،چنگل میں جکڑ لینے اور ان کے دل و دماغ میں شک و شبہ کے بیج بو کر ان کے ایمان کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے ۔
بہر حال مذ کو رہ تمام آیتو ں کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ وہ خاص طبقہ جو انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کا جھنڈا بلند کر نے میں پہل کیا کر تا تھا معا شرے میںخو ش حال آرام پسند اور عیاش طبقہ تھا جو اپنی دولت اور اپنے قوم و قبیلہ کے بل بو تے پر افتخار و گھمنڈ کر تا تھا ۔
..............
١۔سورئہ اعراف آیت ٧٥۔٧٦۔اور سورئہ اعراف آیت ٨٨۔