ادیان الٰہی ایک ہیں یا کئی؟
پہلا مقدمہ دینوں اور شریعتوں کے اختلافات کے بارے میں ہے ۔گذشتہ بحثوں میں یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ اصولی طور پر تمام ادیان اور آسمانی شریعتیں اس طرح ایک ہی دین میں پروئے ہوئے ہیں کہ ان کو متعدد ادیان شمار نہیں کیا جاسکتا ۔اب ممکن ہے کوئی کہے بہر حال آسمانی ادیان میں کچھ جزئی اختلافات دیکھنے میںآتے ہیں جن کا کسی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا اور ان اختلافات کو دیکھتے ہوئے آسمانی ادیان کے ایک ہونے کا دعویٰ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ اس کے جواب میں پہلے ادیان کے مابین ایک دوسرے سے اختلاف کی کیفیت کا جا ئزہ لیں اور اسکے بعد یہ دیکھیں کہ کیا یہ اختلافات خدا کے ادیان کی اصل روح میں بھی اختلاف کا باعث ہیں یا نہیں؟در اصل ادیان حق کے مابین جو اختلافات قابل تصوّر ہیں تین حصّوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں ۔
الف :پہلے حصے میں وہ فرق آتے ہیں جو دو ادیان کے احکام کے دائرے میں اختلاف کا نتیجہ ہیں :
ممکن ہے ایک دین کی آسمانی کتاب کے احکام و قوانین کا دائرہ دوسرے دین کی آسمانی کتاب کے دائرے سے زیادہ وسیع ہو۔اس صورت میں ہم کو کچھ ایسے احکام نظر آئیںگے جو ایک دین میں تو بیان کئے گئے ہیں لیکن دوسرے دین میں ان کا کوئی نا م و نشان بھی نہیں ہے ۔یہ اختلاف شاید دو امتوں کے درمیان ان کے پیچیدہ قسم کے معاشرتی روابط میں موجود اختلافات کا نتیجہ ہو بعض معاشرے سماجی طور پر سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے اور ان کے افراد کے درمیان معاشرتی روابط میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں تھی ۔ظاہر ہے اس طرح کے معاشرہ میں مخصوص معاشرتی قوانین بنانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی اور پیغمبر کے ذریعے اس طرح کے احکام کا بھیجا جانا بھی بیکار تھا۔ اسکے مقابل کچھ معاشرے بہت ہی پیچیدہ قسم کے معاشرتی امور میں الجھے ہوئے تھے اور یہ حقیقت اس بات کی متقاضی تھی کہ ان کیلئے مخصوص احکام و قوانین بنائے جائیں ۔اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالباً اس قسم کے اختلاف کی ایک دلیل مختلف امتوں اور معاشروں کا اپنی ساخت کے اعتبار سے مختلف ہونا رہا ہو جو اپنی جگہ خود شریعت اور معاشرتی احکام کے دائرہ میں شریعتوں کے اختلاف کا سبب ہوئے ہوں البتّہ جیسا کہ ہم نے اپنی تحریر میں زور دیا ہے یہ بات صرف احتمال کے طور پر پیش کی گئی ہے جو پہلی قسم کے اختلاف کی دلیل کے عنوان سے ذہن میں آتی ہے۔
ب:اختلاف کی دوسری قسم ان امور سے تعلق رکھتی ہے جہاں شرعی حکم کے طورپر ایک دین میں بیان کیا ہوا قانون اور حکم دوسرے دین میں نسخ کردیا گیا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ بہت سے امور جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی موسوی شریعت کے زمانہ میں بنی اسرائیل پر حرام تھے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں حلال ہوگئے ۔ دوسرے لفظوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے بعض احکام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آئین و شریعت میں منسوخ کردیئے گئے قرآن کریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی، جب آپ بنی اسرائیل کے درمیان مبعوث کئے گئے ،فرماتاہے: (۔۔۔ وَلِاُُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ ۔۔۔)(١)
''۔۔۔اورمیں بعض ان چیزوں کو حلال قرار دوگاں جو تم پر حرام تھیں ۔۔۔''۔
اس طرح گذشتہ شریعت کے بعض احکام کا نئی شریعت میں نسخ کردیا جانابھی دو شریعتوں میں ایک قسم کے اختلاف کا باعث بنا ہے ۔
ج:اختلاف کی تیسری قسم ایسے مقامات سے تعلق رکھتی ہے جہاں کسی دین میں ایک حکم بنیادی طور پر جس وقت
..............
١۔سورئہ آلِ عمران آیت٥٠۔
بیا ن کیا گیاہے اسی وقت سے اس کو ایک خاص گروہ یا خاص قوم سے اس طرح مخصوص کردیا گیا ہوکہ حتّیٰ اس حکم میں خود اس قوم کے معاصر دوسرے گروہوں یا قوموں کو شامل نہ کیا گیا ہو۔چنانچہ بنی اسرائیل پر حرام کی جانے والی بعض چیزیں اسی قسم کی تھیں :
( فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ ہَادُواحَرَّمْنَاعَلَیْہِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیلِ اﷲِ کَثِیرًا۔وََخْذِہِمُ الرِّبَاوَقَدْ نُہُواعَنْہُ وََکْلِہِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وََعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ مِنْہُمْ عَذَابًاَلِیمًا )(١)
''پس ان یہو دیو ں کے ظلم کی بنا ء پر ہم نے جن پا کیزہ چیزو ں کو حلال کر رکھا تھا ان پر حر ا م کر دیا اور ان کے اکثر لو گو ں کو را ہِ خدا سے رو کنے کی بنا پر اور سود لینے کی بناء پر جس سے انھیں روکا گیا تھا اور ناجائز طریقہ سے لوگوںکا مال کھانے کی بناء پر(حلال چیزیں حرام کر دیں) اور ہم نے کافروں کے لئے بڑا دردناک عذاب مہیا کیا ہے ''۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ان آیات میں بظاہر (من الذین ھادوا )سے یہ پتہ چلتاہے کہ بعض حلال امور کا حرام کہا جانامخصوص طور پر بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے درمیان عام طور پر رائج بعض گناہ(جیسے ظلم و ستم کرنا اور سود لینا)اس کا سبب بنے تھے ۔اس بناء پراگر اسی زمانہ یا اس کے بعد والے زمانوں میں کوئی پیغمبر کسی دوسری قوم میں مبعوث کیا جائے گا تو اس کی شریعت میں یہ چیز حرام نہیں ہوگی ۔
یہاں یہ بات بیان کردینا ضروری ہے کہ اختلاف کی آخری دو قسموں کے درمیان بہت باریک سا فرق ہے۔دوسری قسم کے اختلافا ت ہمیشہ دو مختلف زمانوں کے لحاظ سے رو نما ہوئے ہیں کیونکہ اس کے ذیل میںبھی وہ مقامات آتے ہیں کہ جہاں ایک حکم کسی مخصوص شریعت میں ایک خاص زمانہ کیلئے بنایاجاتاہے اور کچھ مدت گذرجانے کے بعدوہ حکم دوسری شریعت میں منسوخ ہوجاتاہے لیکن تیسری قسم کا اختلاف ایک زمانہ میں بھی اس طرح واقع ہوسکتا ہے کہ فرض کیجئے دو شریعتیں ایک دوسرے کی معاصرہیں اور ان میں سے ایک شریعت میں ایسا حکم موجود ہے جو کسی ایک قوم سے مخصوص ہے لیکن دوسری شریعت میں (جو دوسری قوم کیلئے نازل ہوئی ہے )وہ حکم نہیں پایا جاتابہر حال یہ جو کچھ میں نے عرض کیا وہ مختلف طریقوں سے ادیان الٰہی کے درمیان ممکنہ یاواقعی اختلاف کی قسمیں ہیں اور اس مقام پر دو نکتوں کی طرف توجہ لازم ہے :
..............
١۔سورئہ نساء آیت ١٦٠۔١٦١۔
ایک :جیسا کہ غور و فکر سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ مختلف شریعتوں میں بیان شدہ تمام اختلافات مشیّت الٰہی کے تابع ہیں اور ان میں حقیقی مصلحتیں پائی جاتی ہیں جو مختلف قوموں کے درمیان موجود مخصوص حالات اور خصوصیّات کے تحت ہیں۔دوسرے لفظوںمیں یہ اختلافات امتوں پرزبر دستی نہیں لادے گئے تھے اور نہ ہی شارع مقدّس کے دائرہ ارادہ سے خارج تھے ۔
دو :ادیان الٰہی کے پیرؤوں کے درمیان کچھ اختلافات ان تحریفات کی وجہ سے وجود میں آئے ہیںجو خود آسمانی شریعتوں کے طرفداروں نے تاریخ کے طویل دور میں انجام دئے ہیں چنانچہ ہم نے اس سے قبل جو تقسیم بندی کی تھی اس میں اس طرح کے اختلافات کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے ۔
دین کے اندر اختلافات
اب یہ دیکھنا چاہیے کہ مندرجہ بالا اختلاف کی تینوں قسمیں کیا ایک ہی دین میں راہ بنا سکتی ہیں الٰہی ادیان میں اختلاف کی پہلی قسم دینی احکام و قوانین کے دائرے میں اختلاف سے تعلق رکھتی ہے اور بظاہر اس طرح کے اختلاف ایک ہی دین میں پایا جاناممکن ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ کی بعثت کی ابتداء میں تمام احکام ایک ساتھ نازل ہوئے ہیں بلکہ اسلامی احکام بعثت کے بعد کئی سال کے دور ان پہنچائے گئے ۔ پیغمبر اکرم ابتداء میں محدود دائرے میں کچھ احکام لیکر آئے تھے اور پھر ان احکام میں آہستہ آہستہ قدم بہ قدم وسعت عطا کی ہے ۔اس تاریخی حقیقت کے پیش نظر ممکن ہے کہ ایک دین کے احکام کا دائرہ اس دین کے لا نے والے پیغمبر کی زندگی کے دوران دو مختلف مرحلوں سے گذرے :
ایک مرحلہ میں دائرہ احکام محدود ہوا اور دوسرے مرحلہ میں دائرہ احکام وسیع اور پھیلاہوا ہو ۔
یہاں پہ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس طرح کا اختلاف ایک دین کو کئی ادیان قرار دینے کا باعث نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے الٰہی ادیان میں اس قسم کے اختلاف کو خدا کے دین میں بنیادی دوئی اور کثرت کی دلیل اور علامت نہیں سمجھناچاہئے ۔دوسرے لفظوں میں جس طرح یہ اختلاف اندرونی طورپر (اسلام جیسے)ایک دین میں ممکن ہے اس طرح کے اختلاف اگر دودین کے اندر ہوں تو اس کو ان کے درمیان کسی بنیادی اختلاف کی دلیل نہیں بنا یا جاسکتا ۔
دوسری قسم کے اختلاف میں بھی یہی بات صادق آتی ہے ۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ اسلام کے آغاز میںبعض احکام (جیسے قبلہ کا مسئلہ )ایک عنوان سے بیان کیاگیا اور اسکے بعد وہ حکم منسوخ کرکے دوسرا حکم دیدیا گیا اسی طرح سورئہ نور میں اکثر مفسرّین قرآن کے خیال کے مطابق ایک ایسا حکم بیان ہوا ہے جو بعد میں منسوخ کردیا گیا :
(اَلزَّانِیْ لَا ینْکِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِکَةً وَالزَّا نِیَةُ لَا یَنْکِحُھَااِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِک وَحُرِّمَ ذَالِکَ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ)( ١)
''زانی مرد، زانیہ یا مشرکہ عو رت ہی سے نکا ح کر ے گا اور زانیہ عو رت زانی مرد یا مشرک مرد ہی سے نکا ح کرے گی کہ یہ صا حبانِ ایمان پر حرام ہیں ''۔
اکثر مفسروں کے عقیدے کے مطابق مندرجہ بالا آیت سے ایک مسلمان زانی یا زانیہ کا کسی مشرک کے ساتھ شادی کرنا جائز ہے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہوگیااور موجودہ حکم شرعی کے تحت اس طرح کی شادی صحیح نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ عصر حاضر کے بعض بزرگوں نے اس آیت کی ایک دوسرے طریقہ سے تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آیت میں حکم شرعی بیان نہیں ہوا ہے لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت حکم شرعی کے بیان میں ظہور رکھتی ہے یعنی بظاہر اس میں شرعی حکم بیان ہوا ہے ۔
بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے بعض ابتدائی احکام منسوخ بھی ہوئے ہیں ۔اس بناء پر خود ایک شریعت کے اندر نسخ واقع ہونا ایک ممکن امر ہے اور اس شریعت کی وحدت کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا ۔اگر کسی شریعت میں کوئی حکم خدا ایک مدت تک ثابت رہے اور اسکے بعد منسوخ ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شریعت ہی بدل گئی ہے ۔اس بناء پر جس طرح ایک دین کے اندر کسی حکم کامنسوخ ہونا کسی شریعت یا دین کے منسوخ ہونے کا باعث نہیں ہوتا اسی طرح کسی پیغمبر کے ذریعہ ایک الٰہی دین کے گذشتہ احکام کا منسوخ کیا جانا ان دونوں شریعتوں میں کسی بنیادی اختلاف کی دلیل نہیں کہاجائے گا۔مثال کے طور پر یہ حقیقت کہ حضرت عیسیٰ کے آنے کے بعد حضرت موسیٰ کی شریعت کے بعض احکام منسوخ ہوگئے بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے مذکورہ احکام خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور حیات میں منسوخ ہوگئے ہوں اور ان دونوں مفروضوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں ہے مختصر یہ کہ دو شریعتوں میںاختلاف کی یہ دوسری قسم بھی (پہلی قسم کی طرح)بنیادی طورپر کئی ادیان ہونے کا باعث نہیں ہے ۔اب اختلاف کی تیسری قسم کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟کیا اختلاف کی یہ قسم بھی کسی دین کے اندر واقع ہوئی ہے ؟ اسکے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہ ظاہر اس طرح کا اختلاف ایک دین کے اندر ممکن ہے اور اس میں کوئی عقلی قباحت نہیں ہے یعنی ممکن ہے ایک شریعت کے بعض احکام کسی مخصوص گروہ سے تعلق رکھتے ہوں اور بقیہ تمام احکام عام ہوں۔
بیان شدہ مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مختلف ادیان الٰہی کے درمیان موجود اختلافات کو ایک ہی دین میں
..............
١۔سورئہ نور آیت٣۔
اس کے مشابہ اختلافات کے وقوع یا امکان وقوع کی بنیاد پر ان کی ذات میں جدائی کا باعث نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ اس اساس و بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ حقیقی دین ایک ہی ہے اوروہ اسلام کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن زمانے کے تقاضوں کے اعتبار سے ان کے احکام کے دائرے اور ان پر عمل کرنے والوں کے لحاظ سے تبدیلی ہوئی ہے ۔اس بناء پر تمام ادیان الٰہی کی اساس و بنیاد ایک ہے اگر چہ زیر بحث اختلافات کی موجود گی کے تحت ایک طرح سے ادیان الٰہی کا کئی یاالگ الگ دین ہونا نظر میں رکھا جاسکتا ہے اس سے زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ حقیقت دین ایک ہی ہے اور یہ حقیقت واحدہ وہی اسلام (اپنے معنائے عام میں )ہے:(اِنَّ الدِیْنَ عِنْدَاﷲِالِاسْلَامُُ) لیکن تاریخ کے طویل دور میں زمانہ کے تقاضوں کے لحاظ سے مختلف شریعتیں انسانوں کے درمیان نازل ہوئی ہیں۔اس بناء پر دین الٰہی کا ایک ہونا شریعتوں کے کئی ہونے کے ساتھ بالکل سازگار ہے۔
عا لمی رسالت کا مفہو م
اولو االعزم انبیاء علیہم السلام کی رسالت کے عالمی ہو نے کے مسئلہ کا جوا ب عرض کر نے سے پہلے ایک اور بات مقدمہ کے طور پر بیا ن کر دینا ضرو ری سمجھتا ہو ں وہ یہ کہ رسالت کے جہا نی ہو نے سے مراد کیا ہے ؟اگر کسی بھی صو رت سے تما م قو مو ں سے رابطہ اور ملتو ں سے رابطہ بر قرار کر کے ان تک خدا کا پیغام پہنچانا ایک رسو ل کے فر ائض میں شا مل ہو تو اس کو عالمی رسالت کا حا مل رسو ل کہا جاتا ہے۔ اس کے با لمقابل ایک پیغمبر کی رسا لت اس وقت تک عالمی نہیں ہو گی کہ جب تک پوری دنیا تک اپنی دعوت پہنچانا ا س کے فر ائض میں شا مل نہ ہو بلکہ وہ ایک خا ص قوم کے لئے مبعوث کیا گیا ہو، یقینا ایک پیغمبر کے تمام لو گو ں کے لئے مبعوث نہ کئے جا نے کی مختلف وجہیں ہو سکتی ہیں :
ایک دفعہ ممکن ہے تمام قو مو ں سے رابطہ بر قرار کر نے کے مروجہ وسا ئل اس کے پا س نہ ہو ں، یا پیغمبر کے اختیار میں اصو لی طور پر اس طرح کا فریضہ انجام دینے کے لئے مو قع نہ ہو ۔ سب جا نتے ہیں کہ گز شتہ زما نوں میں دور دراز علا قو ں سے رابطہ بر قرار کر نا آسان کام نہیں تھا اور بعض دور دراز ملکو ں کا سفر کر نا عام طور پر ایک غیر ممکن امر شمار کیا جا تا تھا ۔ظا ہر ہے ایسے حا لات میں جبکہ سفر کے وسائل بالکل ابتدا ئی تھے اور ایک شخص کے لئے پو ری دنیا سے رابطہ بر قرار کر نے کا امکان نہیں تھا ۔
ممکن ہے کو ئی کہے اگر چہ گز شتہ زما نوں اور دور دراز علا قو ں سے عام طور پر رائج طریقو ں سے رابطہ بر قرار کر نا ممکن نہ رہا ہو لیکن الٰہی انبیاء علیہم السلام کے لئے کسی غیر معمو لی طریقے ، مثلاً معجزہ وغیرہ سے کام لیکر اس کام کا انجام دینا مسلم طور پر ممکن تھا ۔ ا س کے جوا ب میں اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ تا ریخی شو ا ہد کی روشنی میں انبیاء علیہم السلام کی روش یہ رہی ہے کہ اس طرح کے مو قعو ں پر وہ غیرمعمولی طریقے یعنی معجزے وغیرہ سے کام نہیں لیتے تھے۔ خدا کے پیغمبر مخصوص مقا مات پر ہی معجزہ دکھا نے کا اقدام کیا کر تے تھے اور یہ مقا مات بھی صرف ان کی رسالت اور دعوتِ تبلیغ کے الٰہی ہو نے کی تائید سے تعلق رکھتے ہیں دعوت تبلیغ میں آسانی کے لئے وہ اعجاز کا سہا را نہیںلیتے تھے ۔
بہر حال یہ بات مسلّم ہے کہ تمام قو موں اور ملّتوں کے ساتھ رائج طریقہ سے رابطہ بر قرار کر نا تمام انبیا ء کے لئے ممکن نہیں تھا اور بظا ہر دنیوی وسائل سے ما فوق غیر معمو لی طریقوں سے استفا دہ کرنے پر وہ ما مور بھی نہیں تھے ۔ مذ کو رہ مفہو م کی بنیاد پر یہ ادّعا کیا جا سکتا ہے کہ صرف پیغمبر اسلا م ۖ کی رسالت پو ری دنیا کے لئے عا لمی رسالت تھی اور آپ اپنی دعوتِ تبلیغ میں غیر عرب اقوام تک الٰہی پیغام پہنچا نے کے لئے ما مور کئے گئے تھے لیکن بقیہ تمام انبیاء کی رسالت بظاہر عا لمی رسالت نہیں تھی ۔
یہا ں ، چند با توں پر تو جہ ضر وری ہے :
پہلی بات یہ کہ جن قو مو ں میں تبلیغ کے لئے پیغمبر بھیجے گئے تھے ان سے مراد قو مو ں کی ایک ایک فرد نہیں بلکہ جو کچھ ان سے توقع تھی نیز جو چیز پیغمبر کے فرا ئض میں شا مل تھی اپنا پیغام قو مو ں کے سردار تک پہنچا دینا رہا ہے ۔
دوم یہ کہ تبلیغ رسالت کی ذمہ داری چا ہے پیغمبر اکرم ۖکے دور حیات میں پو ری ہو یا اُنکی وفا ت کے بعد آپ کی وفا ت کے بعد آپکے او صیاء یعنی ائمہ معصوم کے ذریعہ پو ری ہو دو نوں کو شا مل ہے۔
سوم یہ کہ پیغمبر اکرم ۖ کا اپنی عمو می اور عالمی رسالت پر فا ئز ہو نا اس معنی میں نہیں ہے کہ اب اس کا م کی راہ میں حا ئل تمام عملی رکا وٹیں بر طرف ہو گئی ہیں بلکہ بہت سے مقا مات پر آپ کو تبلیغ میں رکاوٹوں کا سامنا کر نا پڑتا تھا اور ایسی صورت میں مسلمہ طور پر پیغمبر اکرم ۖ کے کا ندھو ںسے اس کی ذمہ داری اٹھا لی گئی ہے ۔
تمام الٰہی انبیاء علیہم السلام پر ایمان ضروری ہے
ہم عرض کر چکے ہیں کہ تا ریخی شوا ہد کے مطابق پیغمبر اکرم ۖ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کی رسالت عا لمی نہیں تھی لیکن اس بات کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر ان انبیاء کی قو مو ں کے علا وہ کو ئی شخص ان کی دعوت سے آگا ہ ہو جا ئے تو اس کے لئے اس دعوت سے انکا ر جا ئز ہو ۔ جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ''راہ کی معر فت ''میں بحث کے آخری حصے میں عرض کیا تھا کہ نبو ت ایک الٰہی سلسلہ ہے اور ہر مو من کے لئے تمام انبیا ء علیہم السلام پر ایمان لا نا ضروری ہے اس با رے میں قر آ ن کریم فرماتا ہے :
(ئَ ا مَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہِ وَالْمُؤْ مِنُوْ نَ کُُلّ ئَ ا مَنَ بِاﷲِ وَمَلٰئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہِ۔۔۔)(١)
'' رسول ان تمام با توں پر ایمان رکھتا ہے جو اس(خدا ) کی طرف نا زل کی گئی ہیں او رمو منین بھی سب اﷲ اور ملا ئکہ اور مر سلین پر ایمان رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم رسو لوں کے درمیان تفر یق نہیں کر تے ۔۔۔''۔
اس بناء پر اگر کوئی کسی کو کسی پیغمبر کی رسالت کا علم دے اوروہ اس پیغمبر کی رسالت پر ایمان نہ لائے توگویا اس نے تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت کا انکار کردیا ہے ۔یہ حکم اسی طرح ان افراد کے لئے بھی ہے جو کسی نبی کی قوم میں شمار نہیں ہوتے یعنی جس قوم کے درمیان پیغمبر مبعوث کیاگیا ہے ۔ان میں نہیں ہیں مثال کے طور پر چین میں زندگی بسر کرنے والا اگر اس بات سے باخبر ہوکہ مشرقی وسطیٰ میں اس علاقے کی قوموں کیلئے ایک پیغمبر مبعوث ہواہے تو اس پر اس پیغمبر اکرم ۖ کی دعوت کاقبول کرنا لازم ہے۔
اب ممکن ہے یہ سوال پیدا ہوکہ مذکورہ اصول کے تحت ایک شخص جو دو پیغمبروں کے دور حیات میں زندگی بسر کررہا ہو اگر دونوں پیغمبروں کی رسالت سے آگاہ ہوجائے اور ان دونوں پیغمبروںکی شریعت کے بعض احکام میں اختلاف بھی پایا جاتاہو توایسے میںاس شخص کا کیا فریضہ ہے ؟اس سوال کے جواب میں کہناچاہیے کہ:اگر بالفرض دو ہم عصر انبیاء علیہم السلام کے درمیان اختلاف ہو تو یہ اختلاف صرف اسی صورت میں قابل تصور ہے کہ ان دونوں میں سے ایک پیغمبر کسی خاص گروہ کیلئے خاص احکام لیکر مبعوث ہواہو اس صورت میں اگر منظور نظر شخص مذکورہ گروہ سے الگ ہو(جیسا کہ کچھ خاص احکام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں صرف قوم یہود سے مخصوص تھے)تو اس پر ان مخصوص احکام کا بجالانا لازم نہ ہوگا مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی غیر یہودی شخص اگر آنحضرت کی رسالت سے با خبر ہوجائے تواس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن اس شخص پر یہودی قوم سے مخصوص احکام پر عمل کرنا لازم نہیںہے جبکہ اس پر بقیہ تمام احکام وقوانین کی اطاعت لازم ہے ۔
قرآن کریم کی آیات کے مطابق اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جنوںکا ایک گروہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیااور اسکے بعد حضرت رسول خدا ۖ کی رسالت کا علم ہوجانے کے بعد انھوں نے دین اسلام کو قبول کرلیا ۔ حالانکہ ہمارے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں ہے جو اس چیز پر دلالت کرتی ہوکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جنوں کے لئے مبعوث نہیں کئے گئے تھے ان کا ایک گروہ توریت کے نازل ہونے کی خبر ملنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام پرایمان
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت ٢٨٥۔
لے آیا۔ قر آن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَاِذْصَرَفْنَااِلَیْکَ نَفَراًمِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرآنَ فَلَمّٰاحَضَرُوْہُ قَالُوْاأنْصِتُوافَلَمَّاقُضِیَ وَلَّوْااِلَیٰ قَوْمِھِمْ مُنْذِرِیْنَ٭قَالُوْایَٰقَوْمَنَااِنَّاسَمِعْنٰا کِتَاباً اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسَیٰ مُصَدِّقاً لِمَابَیْنَ یَدَیْہ یَہدِیْ اِلیٰ الحَقِّ وَاِلَیٰ طَرِیقٍ مُسْتَقِیْمٍ)(١)
''اور جب ہم نے جنات سے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا کہ قرآن سنیں تو جب وہ حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموشی سے سنو پھر جب تلاوت تمام ہوگئی تو فوراً پلٹ کر اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر آگئے کہنے لگے کہ اے قوم والوہم نے ایک کتاب کو سنا ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے یہ اپنے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور حق و انصاف اور سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والی ہے ''۔
جنوں نے یہ جو کہا ہے کہ:''مِنْ بَعْدِ مُوسَیٰ''''موسیٰ کے بعد''اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا درمیان میں کوئی ذکر نہ کرنا بتاتا ہے کہ ابھی تک وہ (جن)حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی پیروی کررہے تھے اور قرآن سے آشنا ہوجانے کے بعد انھوں نے اپنی قوم کے پاس جاکران کو اسلام کی دعوت دی۔سورئہ مبارکہ جن میں بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے:
(قُلْ اُوحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَر مِنَ الجِنِّ فَقَالوُااِنّاسَمِعْنَاقُرْآناًعَجَباً۔یَہْدی اِلیَ الرُّشْدِ فَآمَنَّابِہِ۔۔۔)(٢)
''پیغمبر اکرم آپ کہہ دیجئے کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر قرآن کو سنا توکہنے لگے کہ ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو نیکی کی ہدایت کرتا ہے پس ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔۔۔''۔
بہر حال یہ آیتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ اگر کوئی مکلّف کسی پیغمبر کی رسالت سے باخبر ہوجائے تو اس کو اس
پیغمبر ۖکی رسالت قبول کرنا چاہئے چاہے وہ پیغمبر اس قوم کی طرف مبعوث نہ کیاگیا ہواور رسالت قبول نہ کرنے کے بعد اس پیغمبر کی تعلیمات کو بھی صحیح سمجھے اور اس کے عام احکام کی (جو کسی قوم یا گروہ سے مخصوص نہ ہوں ) اطاعت و پیروی کرلے ۔
..............
١۔سورئہ احقاف آیت٢٩۔٣٠۔
٢۔سورئہ جن آیت١۔٢۔
البتہ الٰہی انبیاء کی رسالت کے پیغامات پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کسی قوم یا گروہ کے لئے مخصوص احکام انگلیوں پر گنے چنے ہی ملیں گے۔مجموعی طور پر انبیاء کی تعلیمات کی روح سبھی کے لئے مشترک احکام اور اصول پر استوار ہوتی تھی ۔
مثال کے طور پر نماز اور زکوٰة کی مانند عبادتیں تمام ادیان میں تھیں اور ان میں زیادہ سے زیادہ اختلاف ان اعمال کی شکل و صورت میں رہاہے اسی طرح دوسرے احکام جیسے ظلم اور زیادتی کرنے کم تولنے،غیبت کرنے ،شراب پینے زنا کرنے وغیرہ کی ممانعت اور معاشرتی اور خاندانی تعلقات سے متعلق قوانین تمام دینوں میں بیان کئے گئے ہیں ۔
بہر حال مندرجہ بالامطالب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک پیغمبر کی رسالت کے عالمی ہونے کا مسئلہ اور یہ کہ علم کی صورت میں ایک پیغمبر کی رسالت پر پوری دنیا کا ایمان لانا ضروری ہوتا یہ دو الگ الگ مسئلے ہیں اور ایک دوسرے سے جداہیں اس بناء پر بہت سے انبیاء کی رسالت کے عالمی رسالت نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عوام الناس ان کی تائید یا تکذیب کے سلسلے میں آزاد و خود مختار ہوںبلکہ اگر کسی پیغمبر ۖکی رسالت پر ایمان لاناہر مکلّف کا فریضہ ہے اور نبی کی تکذیب کی صورت میں اسکا عذر ہرگز قابل قبول نہیں ہے ۔
ہم پہلے یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض انبیاء علیہم السلام کے فرائض دو قسم کے تھے:
پہلافریضہ: تو حید کی دعوت دیناتھا ۔دوسرا فریضہ :ان تمام اصول اور احکام کی دعوت دینا تھا جو کسی خاص قوم سے مخصوص ہوتے تھے ۔مذکورہ گز ارشات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے اس لئے کہ انبیاء کے تمام احکام و قوانین ان تمام افراد کے لئے لازم العمل ہیں جو ان کی رسالت سے آگاہ ہوجائیں قرآن کریم کے مطابق خدا کے پیغمبر جس طرح لوگوں کو خدا کی وحدانیت کی دعوت دیا کرتے تھے ان کو مطلق طور پر اپنی اطاعت اور پیروی کی دعوت بھی دیتے تھے قرآن کریم فرماتاہے :
(وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُولٍ اِلّالِیُطَاعَ بِِذْنِ اﷲِ۔۔۔)(١)
''اور ہم نے کسی بھی رسول کو نہیں بھیجا ہے مگر یہ کہ حکم خدا سے لوگ ان کی اطاعت کریں ۔۔۔''۔
..............
١۔سورئہ نساء آیت٦٤۔
قرآن کریم نے بہت سے انبیائے الٰہی کی زبانی اعلان کیا ہے :
(فَاتَّقُوْا اﷲَ وَاَطِیْعُوْنِ)(١)
''پس تم خدا سے ڈرواور میری اطاعت کرو ''۔
اور ایک آیت میں ار شاد ہو تا ہے :
(تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَیٰ عَبْدِہِ لِیَکوُنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً)(٢)
''بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والابن جائے ''۔
اس بناء پر ایسا نہیں ہے کہ مثلاً مصر کے قبیلوں سے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت (چونکہ بنی اسرائیل کے ہم قوم نہیں تھے )اس بات میں محدودہوکہ وہ ان کو بھی بت پرستی چھوڑنے اور خدائے وحدہ لاشریک کی پرستش کرنے کی دعوت دیں لیکن ان کی اعتقادی یا عملی رخ سے اس منزل کی طرف رہنمائی سے پرہیز کریں ۔ ایسا نہیں ہے بلکہ (جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں )اگر یہ تسلیم کرلیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شروع میں صرف بنی اسرا ئیل کے لئے مبعوث کئے گئے تھے تو بھی آپ کی دعوت کے دائرے میں قبطیوں کے آجانے کے بعد موسیٰ علیہ السلام پر لازم ہوگیا تھاکہ ان کو بھی اپنی تعلیمات سے(تمام تفصیلات کے ساتھ)آگاہ کردیں اور خود ان (قبیلوں) کا بھی فریضہ تھاکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو قبول کریں اور اسکے تمام احکام پر (سوائے ان قوانین کے جو یہودی قوم سے مخصوص تھے ) عمل کریں ۔
..............
١۔یہ تعبیر متعدد آیتوں میں متعدد پیغمبروں کی زبانی نقل ہو ئی ہے ۔مثال کے طور پر ملا حظہ فر ما ئیں سورئہ آل عمران آیت٥٠ اور سورئہ شعراء آیت١١٠ ،١٤٤ ،١٦٣ ۔
٢۔سورۂ فرقان آیت ١۔
انبیاء علیہم السلام کی رسالت کا عالمی ہونا
گفتگو کے اس حصہ میں بیان کئے گئے مطالب سے صاف صاف یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایک معنی کے لحاظ سے اگر رسالت کے عالمی ہونے کا جائزہ لیں تو بہت سے انبیاء علیہم السلام کو پوری دنیا کیلئے نہیں بھیجا گیاتھا لیکن
دوسرے معنی کے لحاظ سے تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت پوری دینا کیلئے تھی یعنی اگر رسالت کے عالمی ہونے کا
مطلب یہ ہو کہ پیغمبر کا فریضہ ہے وہ اپنی تعلیمات صرف اپنی قوم تک محدود نہ رکھے بلکہ دنیا کی تمام یا کم از کم اہم قوموں تک ضرور پہنچائے تو اس معنی میں بہت سے پیغمبر یہاں تک کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی رسالت بھی عالمی رسالت نہیں تھی لیکن اگر عالمی رسالت کا مطلب یہ ہو کہ متعلقہ تمام ''قوموں تک سابقے کی صورت میں اپنی رسالت کا پیغام پہنچانا نبی پر لازم ہے اور کسی نبی کی نبوت سے آگاہ ہونے کے بعد تمام مکلفین پر اس کی اطاعت و پیروی لازم ہے ''تو اس معنی میں تمام انبیاء کی رسالت عمومی اور عالمی رسالت تھی ۔
پیغمبر اسلام ۖکی رسالت کا عالمی ہونا
اگر چہ پیغمبر اسلام ۖکی عالمی رسالت پر گفتگو ۔ نبوت خا صہ کی بحث میں(پیغمبر اسلام ۖ سے متعلق بحث کے تحت ) کی جا تی تو زیادہ منا سب ہو تا مگر یہا ں مجمو عی طور پراس مسئلہ کا بیان کر دینا بھی شا ید بے جا نہ ہو گا ۔ بنیا دی سوال یہ ہے کہ '' کیا پیغمبر اسلام ۖ عالمی رسالت کے حا مل تھے ؟''
ایسا محسو س ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ کی رسالت کا عا لمی ہو نا اسلام کے ضر وریات دین میں سے ہے ۔ پھر بھی منا سب معلوم ہو تا ہے (خا ص طور سے مخا لفین نے جو شبہات ایجا د کئے ہیں ) ان کو بر طرف کر نے کے لئے فر یقین کی دلیلو ں کا جا ئزہ لیں اور اپنا مد عا علمی دلا ئل سے ثا بت کریں ۔ اس بحث میں اُن آیات کا جو اسلام کی عالمی رسالت کو ثابت کر تی ہیں اور ان آیات کا جن سے مخا لفین نے استفا دہ کیا ہے تحقیقی جا ئزہ لینا ضر و ری ہے ۔
قرآن کریم کی کچھ آیات با لکل واضح طور پر دعو ت اسلام کے عا لمی ہو نے پر دلالت کر تی ہیں ایک آیت میں ارشاد ہو تا ہے :
(تَبَارَ کَ الَّذِ یْ نَزَّ لَ الْفُرْ قَا نَ عَلَیٰ عَبْدِ ہِ لِیَکُوْ نَ لِلْعَٰلَمِیْنَ نَذِ یْراً )(١)
''وہ ذات (خدا )بہت با بر کت ہے جس نے اپنے بندے پر فر قان (یعنی حق کو با طل سے جدا کر نے والی کتاب )نا زل کی تا کہ تما م دنیا ؤ ں کے لئے ڈ را نے والا ہو ''۔
یہ آیت صاف طور پر دلالت کر تی ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ تمام عالمین کے لئے ''نذ یر '' بنا کر مبعو ث کئے گئے ہیںاور انذار یعنی خبر دار کر نے کا فریضہ (جو آپ کی رسالت اور پیغمبری کا حصہ ہے ) کسی خاص قوم یا گروہ سے مخصوص نہیں ہے ایک اور مقام پر قرآن، نبی اسلا م ۖکی زبا نی کہتا ہے:
..............
١۔سورئہ فر قان آیت١۔
(۔۔۔وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ھَذَا الْقُرآنُُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمنْ بَلَغَ )(١)
''۔۔۔اور یہ قرآن مجھ پر اس لئے وحی کیاگیاہے کہ میںتمھیںاورجس شخص تک اس کاپیغام پہنچے اس کے ذریعہ اسے ڈراؤں۔۔۔''۔
جیسا کہ آپ نے ملا حظہ فر مایا کہ اس آیت میں '' مَنْ بَلَغَ ''ایک عمو می تعبیر ہے ''کہ جس تک بھی یہ پیغام پہنچے''یعنی اسلا می دعو ت کے تحت آنے وا لے تمام افراد چا ہے (وہ کسی بھی قوم و گروہ اور وہ کسی بھی جگہ اور زمانہ سے کیو ں نہ تعلق رکھتے ہو ں )سب شا مل ہیں ۔ قرآن ایک آیت میں فر ماتا ہے :
(وَمَااَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَةًلِلْعَٰلَمِیْنَ)(٢)
''اور (اے رسول )ہم نے آپ کو دنیا ؤں کے لو گو ں کیلئے سر ا پا رحمت بنا کر بھیجا ہے ''۔
البتہ آخر ی آیت دلا لت کے لحا ظ سے پہلی دو آیتو ں کے ما نند نہیں ہے اس لئے کہ ''پیغمبر کا تمام دنیا ؤں کے لئے رحمت ہو نا ''صاف طو ر پر تمام دنیا ؤ ں کے لئے مبعوث ہو نے پر بھی دلالت نہیں کرتا لیکن اس کے با وجود آخری آیت سے بہ ظا ہر یہ مطلب بھی نکلتا ہے کیو نکہ پیغمبر اکرم ۖکے رحمت ہو نے میں یقینی طور پر وہ رحمت شا مل ہے جو را ہِ حق کی ہدا یت اور امت کی رہنما ئی کے ذریعہ ان کو نصیب ہو تی ہے ۔
قر آ ن کریم کی بعض آیتیں اس چیز کو بیان کر تی ہیں کہ دینِ اسلام تمام ادیان پر غالب آجا ئے گا ۔ اور اس طرح کی آیا ت بھی اپنی جگہ پیغمبر اسلام ۖکی رسالت کے عا لمی ہو نے پر دلالت کر تی ہیں :
(ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْ لَہُ بِالْھُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَیٰ الدِّ یْنِ کُلِّہِ وَ کَفَیٰ بِاﷲِ شَھِیْداً)(٣)
'' وہ وہی توہے جس نے اپنے رسو ل کو ہدایت کے(قصد) سے سچادین دے کر بھیجا تا کہ اس کو تمام ادیا نِ عالم پر غالب بنا ئے اور گو اہی کے لئے توبس خدا ہی کا فی ہے ''۔
..............
١۔سورئہ انعام آیت١٩۔
٢۔ سورئہ انبیاء آیت١٠٧۔
٣۔سو رئہ فتح آیت٢٨۔
اسی مطلب کو قر آ ن حکیم کی دو آیتوں میں بھی بیان کیا گیا ہے خدا فر ماتا ہے:
(ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَیٰ الدِّیْنِ کُلِّہ ِوَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ)(١)
''وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسو ل کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا ئے چا ہے مشر کین کو کتنا ہی نا گوا ر کیو ں نہ ہو ''۔
یہ آیتیں صاف صاف اس چیز پر دلالت کر تی ہیں کہ دین اسلام دنیا کے تمام ادیان پر غالب و کا مران ہو گا اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا یا کم سے کم دو سرے ادیان پر دین اسلام چھا جا ئیگا اور یہ حقیقت دین اسلام کے عالمی ہو نے کے علاوہ اور کچھ بیا ن نہیں کر تی ۔
یہا ں یہ بات بھی لا ئق ذکر ہے کہ ''غلبہ ''کے مفہو م میں دو احتمال پا ئے جا تے ہیں :
١۔غلبۂ تشر یعی ۔
٢۔غلبۂ تکو ینی ۔
پہلے مفہوم سے جو بات لا زم آتی ہے وہ ہما رے مد عا سے بہت قر یب ہے اس لئے کہ اس کا کو ئی مطلب ہی نہیں ہو گا کہ دین اسلام تو عا لمی نہ ہو لیکن اس کے اصو ل و قو انین دو سرے تمام ادیان کے اصو ل و قو انین پر حا کم ہوجا ئیں اور اگر دوسرے معنی بھی مرا د لئے جا ئیں تو آیت کا سیاق اس چیز کو بیان کر رہا ہے کہ یہ غلبہ وہ استحقاق ہے جو دین اسلام کی ذاتی صلا حیتو ں کا نتیجہ ہے اور تمام ادیان پر غلبہ کی صلا حیت صرف اسلام کی عا لمی دعو ت کے ساتھ ہی معقول ہو سکتی ہے ۔ بنا بر این اگر اسلام کے تمام ادیان پر غالب آجا نے سے مراد حتی اس کا تکو ینی غلبہ ہو تو یہ غلبہ بھی اسلامی احکام و شریعت کے دو سرے تمام احکام و قو انین پر غالب آجا نے کو فرض کئے بغیر قا بلِ تصو ر نہیں ہے ۔
قر آ ن کی آیات کا دو سرا مجمو عہ وہ ہے جس میں پیغمبر اسلام کا '' ناس ''یعنی (انسانوں) کے درمیان مبعوث ہو نا اور قرآن کا '' ناس ''کے لئے نا زل ہو نا ذکر ہو ا ہے ۔ مثال کے طور پرسورئہ ابراہیم کا اس طرح آغاز ہو اہے :
( کِتَٰاب اَنْزَلْنا ہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِ جَ النّاسَ مِنَ الظُّلُمَٰتِ اِلَیٰ النُّوْرِبِاِ ذْنِ رَبِّھِمْ اِلَیٰ صِرَاطِ الْعَزِیْزِالْحَمِیْدِ)(٢)
..............
١۔سورئہ صف آیت٩،اور سورئہ تو بہ آیت٣٣۔
٢۔سورئہ ابرا ہیم آیت١۔
'' (اے رسول یہ قر آن وہ) کتا ب ہے جو ہم نے آپ کی طرف اس لئے نا زل کی ہے تا کہ آپ لو گو ں کو حکمِ خدا سے تا ریکیو ں سے نکا ل کر روشنی میںلا ئیںاس کی سیدھی راہ پر لا ئیں جو سب پر غالب اور سزا وا ر حمد ہے'' ۔
اسی طرح دوسری آیت میں بیان ہو ا ہے :
(ھَٰذابَلَٰغ لِلنَّا سِ وَلیُنْذَرُوْا بِہِ)(١)
''یہ قرآن لو گو ں کے لئے ایک پیغام ہے (تاکہ اسی کے ذریعہ ہدایت یا فتہ ہو جا ئیں ) اور اس کے ذریعہ (عذا ب خدا سے )ڈرتے رہیں ''۔
کچھ دوسری آیتوں میں قر آن کریم کا ایک ایسی کتاب کے عنوان سے ذکر ہے جو سا ری دنیا کے لئے بھیجی گئی ہے :
(اِنْ ھُوَ اِلَّاذِکْرلِلْعَٰا لَمِیْنَ )(٢)
'' اوریہ( قر آن) تو عا لمین کے لئے سوا ئے نصیحت کے (کچھ نہیں )ہے ''۔
(وَمَا ھُوَ اِلَّا ذِکْر لِلْعَٰلَمِیْنَ )(٣)
''اور حا لانکہ یہ( قرآن )تو سا رے جہان کے وا سطے سوا ئے نصیحت کے اور کچھ نہیں ہے '' ۔
چو نکہ '' ناس'' یعنی ''لوگ '' اور عا لمین ''یعنی تمام دنیا ئیں ''جیسے الفاظ صاف طور پر قر آ ن کریم اور پیغمبر کی رسالت کے مخا طبین کی عمو میت پر دلا لت کر تے ہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ آیات بھی رسالت اسلام کے مکمل طور پر عالمی ہو نے کی دلیل ہیں۔
..............
١۔سورئہ ابرا ہیم آیت ٥٢۔
٢۔سورئہ یو سف آیت١٠٤ ،سورئہ ص آیت٨٧اور سورئہ تکو یر آیت٢٧۔
٣۔سورئہ قلم آیت٥٢۔
|