راہ اور رہنما کی پہچان
 

اپنی قوم کا ہم زبان ہونا
قرآن کریم میں پیغمبروں کی ایک اور عمومی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ ہر پیغمبر کو امت کی زبان میں تبلیغ کے لئے بھیجا گیا ہے یعنی جو رسول جس مخصوص قوم کیلئے رسول بنا کر بھیجا گیا اس نے اسی قوم کی زبان میں گفتگو کی ہے یہاں تک کہ جو پیغمبر پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ان کو بھی جس قوم کے درمیان بھیجا گیا ہے اور جس قوم کے درمیان انھوں نے زندگی بسر کی ہے اسی قوم کی زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔مندرجہ ذیل آیات انبیاء علیہم السلام کا خود اپنی قوم کا ہم زبان ہونا بیان کرتی ہیں۔
(فَاِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّھُمْ یَتَذَّکَّروُنَ)(١)
''پس ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان کردیا ہے کہ شاید یہ لوگ نصیحت مان لیں ''۔
(نَزَلَ بِہ الرّوُحُ الْاَمِیْنُ۔عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنْذِرینَ۔بِلِسَانٍ عَرَ بِیٍّ مُبِیْنٍ)(٢)
''اسے جبرئیل امین لے کرنازل ہوئے ہیں یہ آپ کے قلب پر نازل ہواہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں یہ واضح عربی زبان میں ہے ''۔
یہ دوسری آیت اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم عام فہم عربی زبان میں نازل ہوا ہے:
(وَمَااَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا بِلِسِانِ قَوْ مِہِ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ۔۔۔)(٣)
''اور ہم نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کو خود اس کی زبان دے کر بھیجا ہے تا کہ ان کے سا منے بیان کرسکے ''۔
یہ آخری آیت اپنی قو م کا ہم زبان ہو نے کے علا وہ پیغمبر کے بھیجے جا نے کی غرض و غا یت کی طرف بھی اشارہ کر تی ہے : پیغمبر کو مبعوث کر نے کا ہد ف قوم تک اس ( پیغمبر )کے ذریعہ الٰہی اہداف و مقا صد پہنچانا ہے ۔ بنابرایں اگر پیغمبر کی زبا ن (جو قوم کے ساتھ رابطے کا اصل ذریعہ ہے ) اپنی قو م کی زبان سے مختلف ہو تو وہ کا مل طور پر
..............
١۔سورئہ دخان آیت٥٨۔
٢۔سورئہ شعراء آیت١٩٣۔١٩٥۔
٣۔سورئہ ابراہیم آیت٤۔
رسالت کا فریضہ ادا کر نے اور اپنے مبعوث ہو نے کے اہدا ف و مقا صد کو پو را کر نے میں کا میاب نہیں ہو سکے گا ۔

دعوتِ توحید
قر آ ن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے عمو می اوصاف میں سے ایک خدا ئے واحد کی عبا دت کی دعوت بھی ہے اور قرآنِ کریم کی متعدد آیات اس چیز پر دلالت کر تی ہیں کہ تما م انبیاء علیہم السلام کی تبلیغ میں سرِ فہرست لوگو ں کو توحید کی دعوت دینا رہا ہے ارشاد ہو تا ہے:
(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُ مَّةٍ رَسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوْااﷲَ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ)(١)
'' اور در حقیقت ہم نے ہر امت میں ایک (نہ ایک) رسو ل ضرور بھیجا کہ کہے :لو گو !خدا کی عبا دت کرو او ر طاغوت کی پر ستش سے دور رہو ''۔
( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْ لٍ اِلَّانُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِ لَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ )(٢)
'' اور ہم نے آپ سے پہلے کو ئی رسو ل نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان پر وحی کی کہ میرے سوا کو ئی معبود نہیں پس میری عبا دت کیا کرو ''
اوردوسرے سورہ میں ارشا د ہو تا ہے :
( اِذْجَائَتْھُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا تَعْبُدُ وْااِلَّا اﷲَ ۔۔)(٣)
'' جب ان کے پاس ان کے آگے ، پیچھے ہما رے پیغمبر آ ئے (اور کہا ) خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کر نا ''۔
ہا ں ہر پیغمبر مسئلۂ تو حید اپنے خا ص طریقہ سے بیان کر تا تھا لیکن مجمو عی طور پر ان کی تعلیم کا ماحصل وہی خدائے یکتا کی پرستش تھی ۔ چنا نچہ بغیر کسی شک وشبہ کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام الٰہی انبیا ء کی دعوت کی اصل روح اورحقیقتِ مشتر کہ یہی تو حیدمسئلہ اور خد ائے وحد ہُ لا شریک کی پر ستش رہی ہے ۔

معا شرہ میں رائج برا ئیو ں اور بد عنو انیو ں سے جنگ
تمام انبیاء علیہم السلام خدا ئے وحدہ لا شریک کی عبا دت کی دعوت کے علاوہ کہ جس کی وہ سبھی عام طور پر دعوت دیا کر تے تھے اپنی امت میں رائج بد عنوانیو ں سے مقا بلے کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے تھے ۔ نمونہ کے طور پر حضرت
..............
١۔سورئہ نحل آیت ٣٦۔
٢۔سورئہ ا نبیاء آیت ٢٥۔
٣۔سورئہ فصلت آیت١٤ ۔
شعیب کے زما نہ میں ''کم فروشی ''کا روا ج تھا ۔اس بنا ء پر حضرتِ شعیب علیہ السلام کوخا ص طور پر اس اقتصا دی بدعنوانی سے جنگ کے لئے بھیجا گیا تھا ۔وہ اپنی امت سے کہتے تھے :
( َوْفُوا الْکَیْلَ وَلاَتَکُونُوا مِنْ الْمُخْسِرِینَ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ۔وَلاَتَبْخَسُوا النَّاسَ َشْیَائَہُمْ وَلاَتَعْثَوْا فِی الَْرْضِ مُفْسِدِینَ )(١)
''(جب کو ئی چیز ناپ کر دو تو ) پیمانہ بھر کر دیا کرو (کم نہ دیا کرو ) اور (جب تو ل کر دو ) ٹھیک ترا زو سے (ڈنڈی سیدھی رکھکر )تو لو اور لو گو ں کے مال کی قیمت کم نہ لگا یا کرو ''
حضرت لوط علیہ السلام کے زمانہ میں ان کی امت کے درمیان عام طور پر بد چلنی شا ئع و رائج ہو چکی تھی لہٰذا حضرتِ لوط علیہ السلام اس معا شرتی برا ئی سے مقا بلے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے خداوند عالم قر آنِ کریم میں ارشاد فر ماتا ہے :
(اَتَاتُوْنَ الذُّ کْرَانَ مِنَ العَٰلَمِیْنَ ۔وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْم عَادُوْنَ )(٢)
''کیا تم سا رے جہان کے لوگو ں میں مر دوں ہی کے پاس جا تے ہو ؟اور خدا وند عالم نے جو بیبیاں تمہارے وا سطے پیدا کی ہیں انھیں چھو ڑ ے ہو ئے ہو ( نہیں ) بلکہ تم لوگ اپنی حد سے نکل گئے ہو''۔

فضیلت کے اعتبا ر سے مرا تب کا فرق
ایک اور اصو ل جس پر قرآنِ کریم نے بہت زیا دہ زور دیا ہے یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے درمیان فضیلت
اور کما ل کے لحا ظ سے فرق ہو تا ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:
(تِلْکَ الرُّ سُلُ فَضَّلْنَا بَعضَھُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ ۔۔۔)(٣)
'' ان میں بعض رسو لو ں کو ہم نے بعض دو سرے رسو لو ں پر فضیلت دی ہے۔۔۔''۔
اور اس آیت سے ملتی جلتی دوسری آیت میں ارشاد ہو تاہے :
(وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّیْنَ عَلَیٰ بَعْضٍ ) (٤)
..............
١۔سورئہ شعرأ آیت ١٨١۔ ١٨٣۔
٢۔سورئہ شعرا آیت١٦٥۔١٦٦۔
٣۔سورئہ بقرہ آیت٢٥٣۔
٤۔سورئہ اسراء آیت٥٥۔
''اور ہم نے یقینا بعض پیغمبروں کو بعض پرفضیلت دی ہے ''۔
ان آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تما م انبیائے الٰہی کما ل کے اعتبا ر سے مسا وی نہیں تھے اور معنوی مقا م کے اعتبار سے ایک دو سرے سے فر ق کر تے تھے ۔

اجر طلب کر نے سے پر ہیز
انبیا ء علیہم السلام کی ایک اور مشتر کہ خصو صیت یہ ہے کہ انھو ں نے ہر گز اپنی امت سے رسا لت کی راہ میں اٹھا ئی جا نے والی طا قت فرسا زحمتو ں کے عوض کو ئی اجر و مز دوری نہیں طلب کی ۔ انبیاء کی زبا نی یہ بات صاف طور پر نقل ہو ئی ہے کہ وہ اپنی امت سے مخا طب ہو کر فر ما یا کر تے تھے :
ہم تمہا ری رہنما ئی اور تعلیم و تر بیت کے عو ض تم سے کو ئی اجر نہیں چا ہتے کیو نکہ ہما ری اجرت خداوند عالم کے ذمہ ہے ۔ اس کے سلسلہ میں سب سے جا مع سورہ ، سورئہ شعراء ہے۔ جس میں پا نچ مقا مات پر پیغمبر وں کی داستان بیا ن کر نے کے بعد قرآن کہتا ہے:
( وَمَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عََلیٰ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ)(١)
''اور اس (تبلیغ رسالت ) کے بد لے میں تم سے کو ئی اجرنہیں چا ہتا میری اجرت تو بس سا رے جہان کے پالنے وا لے (خدا ) کے ذمہ ہے ''۔
یہ آیت کہ جس میں حضرتِ نوح ، ہود، صا لح ، لوط اور شعیب علیہم السلام جیسے پیغمبروں کی حکا یت بیان ہوئی ہے واضح طور پر اس واقعیت سے پر دہ اٹھا تی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کسی بھی طرح کی تو قع یا مطالبہ اپنی زحمتو ں کے سلسلے میں لوگو ں سے نہیں رکھتے تھے اور ان کی امید صرف اور صرف خدا وند عالم کے فضل و کرم سے وابستہ تھی ۔
قر آن کریم کی چند آیات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖبھی گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی مانند لوگوں سے کسی طرح کے اجر کی تو قع نہیں رکھتے تھے :
(وَمَا تَسْئَلُھُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ ھُوَ اِ لَّا ذِکْر لِلْعَالَمِیْنَ )(٢)
'' اور تم اس (کام ) کے بد لے ان سے کو ئی صلہ نہیں چا ہتے ۔ وہ (قرآن ) دنیا وا لو ں کے لئے نصیحت کے
علا وہ اور کچھ نہیں ہے ''۔
..............
١۔سورئہ شعراء آیت١٠٩،١٢٧،١٤٥،١٦٤،١٨٠۔
٢۔سورئہ یوسف آیت ١٠٤۔
(قُلْ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِِیْنَ )(١)
''(اے رسول )آپ ان سے کہد یں میں تم سے نہ اس (تبلیغِ رسالت ) کا کو ئی بد لہ چا ہتا ہو ں اور نہ میں ان لو گو ں میں ہو ں کہ خود ساختہ چیزو ں کی خدا کی طرف نسبت دیدوں ''۔
بعض دو سری آیا ت میں اس حقیقت کو استفہا مِ انکا ری کی صو رت میں بیا ن کیا گیا ہے ۔
(اَمْ تَسْئَلُھُمْ اَجْراًفَھُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُوْ نَ)(٢)
''(اے رسول ) کیا آپ نے ان سے (تبلیغِ رسالت کا ) کو ئی صلہ ما نگا ہے اور ان لو گو ں پر تاوان میں (وعدہ پو را کر نے کا ) بھا ری بو جھ پڑ رہا ہے ؟!''۔
بغیر کسی شک و شبہ کے دو سو روں میں دہرا ئی جا نے والی اس آیت میں استفہام(اور سوالیہ انداز) استفہامِ انکا ری کی قسم سے ہے۔ لہٰذا اس آیت میں بھی ایک دو سرے رُخ سے یہی حقیقت بیان ہو ئی ہے کہ پیغمبراسلام نے اپنی امت سے تبلیغ رسالت کے سلسلے میں کسی اجر کا مطالبہ نہیں کیا ہے ۔
ابھی ذکر شدہ تمام آیات میں کسی بھی قسم کے اجر کی درخواست کا مطلق طور پر انکا ر ہے لیکن بعض دو سری آیات سے اس سلسلہ میں ایک طرح کے استثنا ء کا پتہ چلتا ہے :
(قُلْ لَاْ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبَیٰ ۔۔۔)(٣)
''(اے رسول ) آپ کہدیں کہ میں اس ( تبلیغ رسالت ) کا اپنے قر ابتدا رو ں کی محبت کے سوا تم سے کو ئی صلہ نہیں چا ہتا ''۔
(قُلْ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍاِلَّا مَنْ شَائَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلَیٰ رَبِّہِ سَبِیْلاً)(٤)
''( ان لو گو ں سے )آپ کہد یں کہ اس (تبلیغ رسالت ) پر تم سے کو ئی اجر نہیں چا ہتا ہو ں مگر یہ کہ جو چا ہے اپنے پر ور دگار تک پہنچنے کی راہ اختیار کرے ''۔
پہلی نظر میں ممکن ہے کو ئی یہ گمان کرے کہ مذ کو رہ دو آیتیں ایک استثنا ئے حقیقی ہیں اس معنی میں کہ پیغمبر اسلام ۖنے ( تمام انبیا ء علیہم السلام کے بر خلاف اور دوسری آیات میں مذ کورہ خود اپنی گفتگو کے بر خلاف ( کہ جن
..............
١۔سورئہ ص آیت ٨٦۔
٢۔سورئہ طور آیت ٤٠ اور سورئہ قلم آیت ٤٦۔
٣۔سورئہ شو ریٰ آیت٢٣۔
٤۔سورئہ فر قان آیت٥٧۔
میں کلی طور پر ہر طرح کے اجر کے مطالبہ کی نفی کی گئی ہے ) ان دو نو ں آیات میں لو گو ں سے تبلیغ رسالت کا اجر اور بد لا طلب کیا ہے لیکن پہلی نظر میں پیش آ نے والا یہ تصور صحیح نہیں ہے کیو نکہ ان دونو ں آیتو ں کے مطالب پر غور و فکر کرنے سے یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ان چیزو ں میں سے نہیں ہے جو عام طو ر پر لوگ کسی عمل کے انجام دینے کے بعد مز دوری کے عنوان سے طلب کیا کر تے ہیں ۔ عر ف عام میں مزدو ری اس منفعت کو کہتے ہیں جو مزدوری دینے والا کسی مزدور کو دیتا ہے ۔ دوسرے لفظو ں میں یہ مز دو ری پا نے والا شخص ہے جو وہ اپنے انجا م دیئے گئے کام کے بد لے میں پا تا ہے اور اس کی منفعت سے بہرہ مند ہو تا ہے ۔ اجر ت کے اس مفہو م سے یہ بات واضح ہوجا تی ہے کہ اس میں جن چیز و ں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے یعنی ''الَّا الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبَیٰ ''اور ''مَنْ شَا ئَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رّبِّہِ سَبِیْلاً '' استثنا نہیں ہے (١) اس لئے کہ یہ وہ اجر تیں ہیں جس کا فا ئدہ خو د ذاتِ پیغمبر کی طرف نہیں پلٹتا بلکہ یہ تو امت اسلامی ہے جوخا ندا نِ پیغمبراکرم ۖ سے دو ستی کے ذریعہ الٰہی راہ پر گا مزن ہو کر فائد ہ اٹھا ئے گی ۔
مندر جہ بالا بیان کی روشنی میں کسی کے ذہن میں یہ با طل خیا ل نہیں آنا چا ہئے کہ ( نعوذ باﷲ)پیغمبر اکرم مقام و منصب کے خوا ہا ں تھے اور ان کا مقصد لو گو ں کے درمیان محبوبیت حا صل کر نا تھا اور چا ہتے تھے کہ اُن کے بعد لو گو ں کی نظر اُن کے خا ندا ن پر مر کو زرہے ۔
جی نہیں ، ایسا نہیں ہے بلکہ نبی اکر م ۖ آپ کے اقر باء سے محبت و مو دت اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام سے دوستی ایک ایسا امر ہے جو بالآ خر خود لو گو ں کے فا ئدے میں ہے اور خود ان کی سعا دت اور کمال کے لئے ہے اور اصو لی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستثنیٰ کئے گئے دو نوں امر کی بر گشت با لآخر ایک ہی چیز کی طرف ہے ۔ اس لئے کے کسی بھی شک و شبہ کے بغیر پیغمبر اکرم ۖکی طرف سے اپنے اہل بیت علیہم السلام کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنانے کی وصیت، آپ کا کوئی ذاتی کام نہ تھا بلکہ خدا کے حکم کے تحت تھا۔پیغمبر اکرم ۖکو خداوند عالم کی طرف سے اس امر پر مامور کیاگیا تھاکہ آپ اہل بیت علیہم السلام کا رسالت کے تسلسل اور امت کی رہنمائی کے لئے جو اعلیٰ مقام رکھتے ہیں لوگوں کے گوش گذار فرمادیںاور بلاشبہ اہل بیت علیہم السلام سے تمسک خداوند عالم کی راہ پر چلنے کا کامل و واضح مصداق ہے ۔
آخری دو آیتوں کی جو تفسیربیان کی گئی ہے اور زیادہ صراحت کے ساتھ مندرجہ ذیل آیت میں بیان کی گئی ہے :

١۔( اجر ) کے مذکو رہ معنی کے مدِّ نظر علما ئے علم نحو کے اعتبار سے ان آیات میں استثنا ئے مذ کور استثنا ئے منقطع کی قسم سے ہے کہ جس میں مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہیں ہے ۔
(قُلْ مَا سَأَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍفَھُوَ لَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَیٰ اﷲِ ۔۔۔)(١)
اس آیت کی دو طرح سے تفسیر کی گئی ہے پہلی تفسیر کے مطابق جو مندرجہ بالا بیان سے مناسبت رکھتی ہے ۔ آیت میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام ۖنے اجر و مزدوری کے طور پر جس چیز کا مطالبہ کیا ہے۔ حقیقت میں وہ وہی چیز ہے جس کا فائدہ خود لوگوں کی طرف پلٹتا ہے یعنی حقیقی اجر لینے والی خود امت ہے لیکن دوسری تفسیر کے مطابق آیت سر ے سے اجرت کی نفی کررہی ہے یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں جو کچھ بھی تم سے اپنی رسالت کے عوض میرا مطالبہ ہے وہ میں نے تم ہی کو بخش دیا۔ (جیسے کوئی قرض دینے والا مقروض سے کہتا ہے :اگر میراتم سے کچھ مطالبہ ہو تو وہ میں نے تم ہی کو بخش دیا )۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آخر کی تین آیتوں کو دعائے ندبہ میں بڑے ہی اچھّے اور خوبصورت انداز میں ایک دوسرے سے مرتبط کرکے بیان کیاگیا ہے:
(۔۔۔ثُمَّ جَعَلْتَ اَجْرَمُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ مَوَدَّتَھُمْ فِیْ کِتَا بِکَ فَقُلْتَ قُلْ لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراًاِلَّاالْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبَیٰ وَقُلْتَ مَاسَئَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍفَھُوَلَکُمْ وَ قُلْتَ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَائَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلَیٰ رَبِّہِ سَبِیْلاً فَکَانُوْاھُمُ السَّبِیْلُ اِلَیْکَ وَالْمَسْلَکَ اِلیٰ رِضْوَانِکَ ۔۔۔)
''اس وقت تو (اے پر ور دگا ر )نے اپنے قرآن میں رسالتِ محمد ۖکی اجرت امّت کی اہل بیت سے محبت دوستی قرار دی جہا ں تو نے فر مایاہے :
''اے رسول ''آپ کہدیں کہ میں اس( تبلیغ رسالت)کا اپنے قرابتداروں (اہل بیت) کی محبت کے سوا تم (امتوں)سے کوئی صلہ نہیں مانگتااور پھر تونے فرمایا :''اے رسول''آپ (یہ بھی)کہدیںکہ (تبلیغ رسالت کی ) میں نے تم سے جو اجرت مانگی ہے وہ تمہارے ہی فائدہ میں ہے اور پھر تونے فرمایا :''(اے رسول )آپ یہ بھی کہدیں کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا مگر (یہ کہ ) خدا کی راہ پر چلے ۔پس (آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ )اہل بیت پیغمبر تجھ تک اور تیری جنت رضوان تک پہنچنے کا راستہ (اورر اہبر)ہیں ''۔
..............
١۔ سورئہ سبا آیت ٤٧۔

اولواالعزم انبیاء علیہم السلام
انبیاء علیہم السلام سے متعلق ایک بحث یہ ہے کہ کیا تمام انبیا ء علیہم السلام کی رسالت ساری دنیا کے لئے عمومی رسالت تھی یا ہر نبی ایک خاص گروہ کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ اس مسئلہ کے جواب میں مفسرین میں اختلاف پا یا جاتا ہے پھر بھی مندرجہ ذیل دو با توں پر سب کا اتفاق ہے
١۔ تقر یباً تمام مفسر ین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت عا لمی رسالت نہیں تھی دوسرے لفظو ں میں کم از کم بعض انبیا ء علیہم السلام کی رسالت ایک مخصوص قوم تک محدود تھی ۔
٢۔بعض نا سمجھ افراد نے جس شبہ کا اظہار کیا ہے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ تمام دنیا والوں کیلئے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور آپ کی رسالت کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں ہے ۔
علاّمہ طباطبائی نے قرآن کریم کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انبیاء کے درمیان پا نچ پیغمبر صا حبِ شریعت اور آسمانی کتاب یا صحیفے اور اجتما عی احکام لیکر آئے ہیں۔ وہ پانچ انبیاء علیہم السلام حضرتِ نو ح علیہ السلام، حضرتِ ابرا ہیم علیہ السلام ، حضر ت مو سیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، اور حضر ت محمد مصطفےٰ ۖ ہیں، ان ہی پا نچوں حضرات کو قر آن کریم نے اولو االعزم پیغمبر کے نا م سے یا د کیا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :
(فَا صْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ۔۔۔)(١)
..............
١۔سو رئہ احقاف آیت٣٥۔
'' پس ( اے رسول ) جس طرح اولواالعزم( عالی ہمت ) انبیاء صبر کر تے رہے تم بھی صبر کرو ''۔
علامہ طبا طبائی کی نظر میں یہ پانچ او لو االعزم پیغمبر وہ ہیں جن میں ہر ایک مند رجہ بالا خصو صیات کے علاوہ اپنے زمانہ میں پوری دنیا کے لئے رسول رہا ہے اور ان کی دعوت کسی خاص گروہ سے مخصو ص نہیں رہی ہے اس کے بر خلاف بقیہ تمام انبیا ء علیہم السلام ہیںجو ایک مخصو ص گرو ہ کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ علامہ طبا طبا ئی نے مندر جہ بالا دعوے کو ثابت کر نے کے لئے قرآنِ کریم کی آیات شا ہد میں پیش کی ہیں ۔ (١) یہا ں یہ با ت بھی قا بلِ ذکر ہے کہ ان پانچ افراد کو بعض روا یتو ں میں بھی او لو االعزم انبیاء علیہم السلام کے نا م سے یا د کیا گیا ہے اور ان کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔(٢)

کیا اولو ا العزم انبیا ء علیہم السلام ہی صا حبا نِ کتاب و شریعت ہیں ؟
جیسا کہ بیان کیا گیا اس میں کو ئی شک نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے ایک گرو ہ کو قر آن کریم نے اولو ا العزم انبیاء علیہم السلام کے نا م سے یا د کیا ہے اور سورئہ احقا ف میں(فَاصْبِرْکَمَا صَبَرَ اُوْلُوْاالْعَزْمِ مِنَ الرُّ سُلِ )اس مسئلے پر واضح طور سے دلا لت کر تی ہے لیکن کسی بھی قطعی دلیل کے ذریعہ پتہ نہیںچلتا کہ یہ او لوا العزم انبیاء علیہم السلام کو ن سے انبیاء علیہم السلام ہیں ؟ آیا یہ او لو ا العزم انبیا ء وہی انبیاء علیہم السلام ہیں کہ جن پر آسمانی کتا بیں نا زل ہو ئی ہیں ؟ یا او لو االعزم ا نبیاء علیہم السلام سے مراد رسو لو ں کا وہ گروہ ہے جوصا حبِ شریعت ہے ؟ یہ وہ سوا لات ہیں جن کے جوا بات کے لئے ہمارے پاس کو ئی قطعی دلیل نہیں ہے۔ دو سرے الفاظ میں قر آن کریم کی کوئی آیت یا توا تر کے ساتھ منقو ل کو ئی بھی روایت ایسی نقل نہیں ہو ئی ہے جس سے یہ معلوم ہو تا ہو کہ صرف پانچ انبیاء علیہم السلام (یعنی حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابرا ہیم علیہ السلام ، حضرت مو سیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفےٰ) ہی صا حبا ن کتاب و شریعت ہو ئے ہیں ۔البتہ جیسا کہ ہم پہلے اشا رہ کرچکے ہیں بعض روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اولو االعز م انبیاء علیہم السلام صرف یہی پانچ ا نبیاء علیہم السلام ہیں لیکن یہ روا یات حدّ توا تر تک نہیں پہنچتیں اس بنا پر ان
..............
١۔رجوع کیجئے : سید محمد حسین طبا طبائی ، المیزا ن فی تفسیر القر آن انتشا را ت اعلمی جلد ٢ صفحہ ١٤١ و ١٤٢ ۔)
٢۔ نمونہ کے طور پر ملا حظہ کیجئے ، کلینی کی الا صو ل من الکا فی ، کتاب الحجة باب طبقات الا نبیاء والرّسل والا ئمہ حدیث ٣ ۔ علامہ طبا طبائی رحمة اﷲ علیہ کے بقول کہ او لو ا العزم پیغمبر پا نچ افراد ہیں اس مطلب پر روایت حد مستفیض پر دلا لت کر تی ہیں ۔ ملاحظہ ہو المیزان جلد ٢ صفحہ ١٤٥ ، ١٤٦ اور جلد ١٨ صفحہ ٢٢٠ ۔
کو دلیل ظنی شما ر کیا جاتا ہے دلیل قطعی نہیں ہیں۔ ان مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا تا ہے کہ اگر ہم کو کو ئی ایسی آیت یا روایت ملے جو اس چیز پر دلالت کر ے کہ او لو االعزم ا نبیاء علیہم السلام صا حبا نِ کتاب و شریعت ان پانچ انبیا ء سے زیادہ ہیں تو وہ دلیل کسی معا رض کے بغیر قا بل قبول ہوگی اور اس کے مطالب کی تصدیق کی جا سکتی ہے ۔ بہر حال اس وقت یہی کہا جا سکتا ہے کہ صا حبا نِ کتاب و شریعت ا نبیاء علیہم السلام کوان پا نچ انبیا ء علیہم السلام میں منحصر کر نادلیلِ ظنی کے تحت ہے اور اس کا اظہا ر صرف بعض روایات سے ہو تا ہے ۔

صا حبانِ کتا ب او لو االعزم ا نبیاء علیہم السلام کی رسالت کا دا ئرہ
اب سوا ل یہ ہے کہ آیا او لو ا العزم انبیاء علیہم السلام کی رسالت (چا ہے وہ پا نچ افراد ہو ں یا زیادہ ) ساری دنیا کے لئے تھی یا ان میں سے ہر ایک نبی کسی خا ص قو م کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا تھا؟ جیسا کہ ہم پہلے بھی اشا رہ کرچکے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اسلام ۖکی رسالت پوری دنیا کیلئے تھی لیکن دوسرے اولوا العزم انبیاء علیہم السلام کے بارے میںکیا کہا جائے ؟ اس سوال کے جواب میں اسلامی دانشمندوں نے دو بنیادی نظر یے پیش کئے ہیں :
الف:اولوا العزم انبیاء علیہم السلام کی رسالت عا لمی رسالت نہیں تھی یعنی پور ی دنیا کے لئے وہ رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے مثال کے طور پر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام صرف بنی اسرائیل کیلئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے اور ان کی دعوت اسی قوم سے مخصوص تھی ۔بعض آیات سے بھی ان کے اس دعوے کی تائید ہوتی ہے
( وَ رَسُوْلاً اِلَیٰ بَنِیْ اِسْرَا ئِیْلَ ۔۔۔)(١)
''اور (عیسیٰ کو )رسو ل کے عنوان سے بنی اسرا ئیل کی طرف بھیجے گا ''
(وَاِذْ قَالَ عِیْسَیٰ ابْنُ مَرْیَمَ یَٰبَنِیْ اِسْرَا ئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ ۔۔۔)(٢)
''اور جب عیسیٰ بن مر یم نے کہا اے بنی اسرا ئیل میں تمہا رے پاس خدا کا بھیجا ہوا (آیا) ہوں ''۔(٣)
مندجہ بالا آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان انبیاء علیہم السلام کی رسالت پوری دنیا کیلئے نہیں تھی اس بناء پر ایک
..............
١۔سورئہ آلِ عمران آیت٤٩۔
٢۔سورئہ صف آیت٦۔
٣۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میںبھی بہت سی آیات ہیں جو اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ خاص بنی اسرائیل کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے مثال کے طور پر سورئہ اسراء کی دوسری آیت میں ارشاد خداوندی ہے :
(وَآتَیْنَا مُوْسَیٰ الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاہ ھُدیً لِبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔۔۔)''اور ہم نے موسیٰ کو کتاب(توریت)عطا کی اور اسکو بنی اسرائیل کا رہنما قرار دیا ۔۔۔'' اسی طرح ملاحظہ فرمائیں سورئہ اسراء (آیت١٠١)سورئہ طہ آیت٤٧،سورئہ شعراء آیت ١٧۔اور سورئہ غا فر آیت٥٣۔
پیغمبر کے آسمانی کتاب کے حا مل ہونے اور اس کے عا لمی ہو نے کے مابین کوئی لزو م نہیں پایا جاتا ۔
ب۔دوسرے نظریہ کی بنیاد پر اولوا العزم انبیاء علیہم السلام اور صاحبان کتاب دو طرح کے تبلیغی فرائض انجام دیتے تھے ۔
١۔خدا کی عبادت ،توحید اور شرک نہ کرنے کی دعوت ۔
٢۔ایک خاص شریعت اور احکام کی دعوت ۔پہلی دعوت پوری دنیا کیلئے تھی اس کے برخلاف دوسری دعوت ایک خا ص قوم سے مخصوص تھی مثال کے طور پر آیات قرآنی سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو پیغام توحید کے ساتھ شرک نہ کرنے کی دعوت دی تھی اور اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت اپنے اعتقادی پہلو سے فرعون اور فرعونیوں کے لئے بھی شامل تھی حالانکہ ان کا بنی اسرائیل میں شمار نہیں ہوتا ۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے مصر سے خارج ہونے اور ان کے اس سرزمین میں پہنچنے کے بعد کہ جس کا خدا نے حکم دیا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کچھ تختیاں نازل ہوئیں ان الواح پر وہ احکام درج تھے جو قوم بنی اسرائیل سے مخصوص تھے اس میںدوسرے قبیلوںاور قوموں کو خطاب نہیں کیا گیا تھا ۔
اس خیال کی بنیاد پر حامل کتاب انبیاء علیہم السلام ایک طرف تو دعوت عام کے تحت پوری دنیا کو توحید یعنی خدائے لاشریک کی عبادت کی دعوت دیا کرتے تھے اور دوسری طرف اپنی قوم والوں کو مخصوص احکام و شرائع کی دعوت دیا کرتے تھے اور قوم پر ان احکام کی اطاعت واجب تھی ۔
یہ دونوں نظریے اس باب میں بیان کئے گئے تمام نظریوں میں سب سے اہم نظریے ہیں۔ ان نظریوں کے تنقید ی جائزے اور اپنی رائے کے اظہار سے پہلے تمہید کے طور پر چندمقدموں کا بیان کردینا ضروری ہے ۔