راہ اور رہنما کی پہچان
 

ادیان کے اختلاف کی وجہیں
ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ ادیا ن الٰہی کے در میان بعض احکام میں جزئی اختلافات پا ئے جا تے ہیں لیکن تمام ادیان کی اساس و بنیاد ایک ہی ہے ،اور سب کو ایک ہی دین شمار کیا جا سکتا ہے پھر بھی کچھ ایسے اسباب پیش آئے جس کے تحت بنیادی طور پر ایک دین دو سرے دین کا مخا لف نظر آنے لگا ہم یہاں اس طرح کے بعض اسباب و عوا مل بیا ن کر رہے ہیں:

١۔بغا وت و سر کشی
قر آن نے اس بات پر زور دیاہے کہ یہ اختلافات نا حق قسم کی دین سے بغا وت ا ور سر کشی اور ایک دوسرے پر تسلط کی ہوس سے وجود میں آئے ہیں ۔متعدد آیات میں اس بات کی تا کید ہے کہ ادیان کے ما بین اختلافات نہ جہالت کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں اور نہ ہی اس وجہ سے ہیں کہ ان کے درمیان حقیقت میں اختلافات موجودتھے بلکہ یہ اختلافات علما ئے اہل کتاب کی سرکشی اور نفسانی خو ا ہشات کی وجہ سے پیداہو ئے ہیں ، انھو ں نے ا پنے ذاتی اغراض و مقاصد کی وجہ سے یہ اختلافات ایجا د کئے ہیں ۔آئیے اس موضوع سے متعلق آیات کا جا ئزہ لیتے ہیں :
(وَمَااخْتَلَفَ فیہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوتُوہُ مِنْ بَعْدِ مَاجَائَ تْہُمُ الْبَیِِّنٰتُ بَغْیاًبَیْنَہُمْ)(١)
''اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا سوائے ان لوگوں کے کہ جن کے درمیان کتاب نا زل ہوئی ہے اور جن پر دلیلیں واضح ہوچکی تھیںصرف آپس میں بغاوت اور تعدی کی بناء پراختلاف کر بیٹھے ''۔
(وَمَااخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوتُواالکِتَٰبَ اِلَّامِنْ بَعْدِ مَا جَائَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیاًبَیْنَہُمْ)(٢)
''اہل کتاب نے محض علم ملنے کے بعد تسلط کی ہوس میںایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے'' ۔
(وَئَ اتَیْنَٰھُمْ بَیِِّنَاتٍ مِنَ الْامْرِ فَمَااخْتَلَفُوْااِلَّامِنْ بَعْدِمَاجَائَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیاً بَیْنَہُمْ۔۔۔)(٣)
''اور انھیں اپنے امرکی کھلی ہوئی نشانیاں عطا کردیں پھر ان لوگوں نے اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ جب علم مل گیاآپس میں ایک دوسرے پر تسلط کی غرض سے اختلاف کر بیٹھے''۔
(وَمَاتَفَرَّقُوْااِلَّامِنْ بَعَدَمَاجَائَ ھُمُ العِلمُ بَغِیاًبَینَھُمْ۔۔۔)(٤)
'' اور ان لوگو ں نے آپس میں تفر قہ اسی وقت پیداکیا ہے جب ا ن کے پاس علم آچکا تھا اور یہ صرف تسلط پسندی کی وجہ سے تھا ''۔
( وَمَاتَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوتُوْاالکِتَٰبَ اِلَّامِنْ بَعْدِمَاجَائَ تْہُمُ البَیِّنَةُ)(٥)
' ' اور یہ اہل کتاب متفر ق نہیں ہو ئے مگر اس وقت جب ان کے پاس کھلی ہو ئی دلیل آگئی'' ۔
پس امتوں پر خدا کی حجت تمام ہے ، اس نے ایک ہی دین اور ایک ہی راستہ تمام امتو ں کیلئے معین فرمایا اوریکے
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت٢١٣۔
٢۔سورئہ آل عمران آیت١٩۔
٣۔سورئہ جاثیہ آیت١٧۔
٤۔سورئہ شوریٰ آیت١٤۔
٥۔سورہ بینہ آیت ٤۔
بعددیگرے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ بھیج دیا(ثُمَّ اَرْسَلْنَارُسُلُنَا تَتْریٰ) اور وہ سب ایک ہی راستہ ،اور ایک ہی دین کی دعوت دیا کر تے تھے خدا اور اس کے نبیوں کی جا نب سے کوئی اختلاف نہیں تھااور لوگوں پر حجتیں بھی تمام کی جا چکی تھیں مگر یہ اختلافات خود امتوں خا ص طور سے علما ئے اہل کتاب کی سر کشی کی بناء پر وجود میں آگئے ۔
اس بات کو پیش نظررکھیں تو بعض آیات سے جو شبہہ پیدا ہوتا ہے اس کا جواب معلوم ہو جا تا ہے ۔
مثا ل کے طور پر ایک آیت میں ارشا د ہو تا ہے :
( اِنَّ الَّذِیْنَ ئَ امَنُوْاوَالَّذینَ ھَادُوْاوَالصَّٰبِئُوْنَ والنَّصَٰرَیٰ مَنْ ئَ امَنَ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِوَعَمِلَ صَالِحاًفَلَاخَوف عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ یَحَزَنُوْنَ )(١)
''بیشک جو لوگ ایمان لا ئے یا جو لوگ یہودی ،ستارہ پرست اور عیسائی بن گئے ہیں ان میں جو بھی اﷲ اور آخرت پر واقعی ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا اس کے لئے نہ خوف ہے اور نہ اُ سے حزن ہوگا ''۔
اس آیت سے بعض لو گو ں کو شبہہ ہواہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم اِس زمانہ میں بھی مختلف ادیان کو قبول کر لے گا ،اور اس زمانہ میں بھی کسی کے یہو دی یا نصرانی ہو نے اور اپنے دین پر عمل کر نے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔
جو باتیں ہم نے عرض کی ہیں انکے پیش نظر اگر کسی شخص کے لئے بعدکے دین کا صحیح ہو ناثا بت ہو جائے (البتہ اگر ثابت نہ ہو تو وہ ''مستضعف ''ہے اور یہ ایک دو سری بات ہے )اور اسکے با وجود وہ پہلے دین کو اختیار کئے رہے تو کسی صورت میں بھی یہ دین قبول نہیں کیا جا ئے گا :(فَلَنْ یُقْبَل منہُ)کیونکہ وہ خود جانتا تھا کہ خداوند عالم نے فر مایا ہے کہ اس دین کی پیروی کر واوراس نے پیروی نہیں کی اسکا انکار کیا اور کسی ایک نبی کا انکا ر کرنا گو یا تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار کر نا ہے۔لہٰذا اسکا کو ئی مطلب نہیں ہوگاکہ اسلام جو فر ماتا ہے تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان ضروری ہے، اگر تم نے ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کیا تو گو یا تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار کیا ہے اسکے با وجود اسکی نظر میں اسلام کے آنے کے بعد بھی اگرکوئی یہو دی اپنے دین پر عمل کر ے تو اسمیں کو ئی حرج نہ ہو یہ تناقض ہے اور معقول نہیں ہے کہ اسلام آئین یہو دیت اور نصرا نیت پرعمل کر نے کی اس دور میں میں بھی اجازت دیدے ہاں اگرکسی نے خود اپنے زمانہ کے دین پر عمل کیا ہے تو اُسکا اجر محفوظ ہے اگر کہیں اس زمانہ میں بھی مستضعف افراد ہوں اور جس حد تک انکے لئے حجت تمام ہو چکی ہے اس پر عمل پیرا ہوں تو وہ مستضعفین کا حکم رکھتے ہیں اوربقیہ احکام اور
..............
١۔سو رئہ ما ئدہ آیت٦٩۔
فرائض دینیہ انکے لئے ثابت نہیں ہیں لیکن اگر کسی کے لئے ثا بت ہوجا ئے یا اس نے دین کی معرفت اور تلاش میں واقعی طور پر کو تا ہی کی ہو تو اس صورت میں اگر وہ دین سابق کے تمام دستورات پرمو بہ مو عمل کرے تو بھی اسکا عذرقبول نہیں کیا جا ئگا ۔''فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ''۔
(اِ نَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَالَّذِیْنَ ھَادُوْاوَالصَّٰبِئِیْنَ وَالنَّصَٰارَیٰ وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْنَ اشْرَکُوْااِنَّ اﷲَ یَفْصِلُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیَٰمَةِ اِنَّ اﷲَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْد )(١)
''بیشک جو لوگ ایمان لا ئے اور جنھو ں نے یہو دیت اختیار کی یا ستا رہ پرست ہو گئے یا نصرانی اور آتش پرست ہو گئے یا مشرک ہو گئے ہیں خدا قیا مت کے دن ان سب کے درمیان یقینی فیصلہ کر دے گا کہ اﷲ ہر شیٔ کا نگراں اور گوا ہ ہے ''۔
ظا ہر ہے کہ یہ آیت ان تما م گروہو ں کی تا ئیدمیں نہیں آئی ہے بلکہ یوم حساب سے خبر دارکررہی ہے۔ ارشاد ہو تا ہے کہ جن لو گو ں میں یہ اختلافات پا ئے جا تے ہیں اور وہ حق کو قبول کرنا نہیں چا ہتے ایک دن خدا وند ان کا فیصلہ کر ے گا اور ہرایک کو (اس کے اعمال کے مطابق) جزاء یا سزاء دے گا ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا ان کی تا ئید کر رہا ہے چو نکہ اس میں ''الَّذِ یْنَ اشْرَکُوْ''بھی موجود ہے حالانکہ قرآن کا صاف اعلان ہے(اِنَّ اﷲَ لَایَغْفِرُاَنْ یُّشْرَکَ بِہِ )''اور شرک کرنے والوں کو نہیں بخشے گا' '۔
پس واضح ہے کہ یہ آیت مقامِ تا ئید میں نہیں ہے ما قبل آیت میں بھی خدا نے کہاہے مو منین ، یہود ، نصا ریٰ ستا رہ پرست اگر صرف اپنے با ایمان ہو نے کا دعویٰ کر یں یا اپنے کو یہو دی یا نصرانی کہلا ئیں تو یہ کو ئی میزان و معیار نہیں ہے بلکہ معیار یہ ہے کہ وہ اﷲ پر ایمان رکھتے ہوںاور اس کے قوا نین و احکام پر عمل پیرا ہو ں، اب ان کا نام کچھ بھی ہولیکن اﷲپر ایمان کا لا زمہ یہ ہے کہ اس کی نا زل کی ہو ئی تما م چیزوں پرایمان ہو اور اگرخدا کی نا زل کر دہ چیزوں پر ایمان نہ ہو توخدا اور اسکی آیا ت کا انکا ر کفر ہے ۔
پس اگر اس آیت میں اپنی جگہ فرض کر لیں کہ کچھ ابہام پا یا جاتا ہے تو بھی اس سے پہلے کی آیت کی روشنی میں ختم ہو جاتا ہے اور زیادہ سے زیا دہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیت متشا بہات میں سے ہے اور وہ آیت محکمات میں سے ہے جو اس شبہہ کو دور کرتی ہے حالانکہ اگر ہم خود آیت پر غو ر و فکر کریں تو اس مطلب کو بخو بی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ آیت اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ یہ تمام عنا وین اور گروہ بندیاں سعا دت اور شقاوت ( بد بختی )کا معیا ر نہیں ہیں۔ خدا نا موں کو
..............
١۔سورہ حج آیت ١٧۔
نہیں دیکھتا بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کیا یہ شخص خدا اور قیا مت پر ایمان رکھتا ہے اور کیا اس نے عمل ِصالح انجام دیاہے یا نہیں ۔
سوال یہ ہے کہ عملِ صالح کس کو کہتے ہیں ؟عملِ صا لح اس عمل کو کہتے ہیںکہ جس کا خدا نے حکم دیا ہو ۔ اب اگر خدا وند عالم اپنے کسی بندہ کو ایک کام انجام دینے کا حکم دے اور وہ اس کی مخا لفت کر ے تو کیا یہ مخا لفت عمل ِ صالح ہے؟!عمل صالح کے تحت جس شخص کیلئے حجت تمام ہو چکی ہوچا ہے وہ کسی بھی زما نہ میں ہوئی ہو،اسے خدا وند عالم کے دستور کے مطابق عمل انجا م دینا چا ہئے ۔
ا س بات کے قطع نظر ہم قر آنِ کریم میں دیکھتے ہیں کہ خدا وند عالم نے صرف مشر کین اور انہی ادیان کے منکرین سے ہی جنگ کر نے کاحکم نہیں دیا ہے بلکہ خدا تو اہلِ کتاب کی نسبت بھی فر ماتا ہے ''ان سے جنگ کرو یہا ں تک کہ وہ دین حق کو قبول کر لیں یا جزیہ دینے پر آما دہ ہو جا ئیں اگر وہ جزیہ دیں تو تم ان کو قتل نہ کر نا'' یعنی ظا ہر ی طور پروہ تمہا رے سا منے سرِ تسلیم خم کر دیںگے اور اسلا می ملک میں زند گی بسر کر یںگے لیکن یہ ان کی سعا دت کی ضمانت نہیں ہے ۔اب اگر ان کا دین حق ہے اوراسلا م اسکی تا ئید کر تا ہے تو پھر خدا نے ان سے جنگ کر نے کا حکم کیوںصادر فر مایا ہے ؟:
( قَاتِلُوْاالَّذِیْنَ لَایُوْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَلَابِالْیَوْ مِ الْآخِرِوَلَایُحَرِّمُوْنَ مَاحَرَّمَ اﷲُ وَرَسُوْلُہُ وَلَایَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْکِتَا بَ حتَّیٰ یُعْطُوْاالْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَھُمْ صَاغِرُوْنَ)(١)
''اہل کتا ب میں سے جو لوگ خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس چیز کو خدا اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرا م نہیں سمجھتے اور دین حق کو قبول نہیں کر تے ان سے جنگ کرویہا ں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ تمہیں جز یہ ادا کرنے پر آما دہ ہو جا ئیں''۔
البتہّ شیعی روایات میںہم دیکھتے ہیں کہ یہ حکم اُسی زمانہ سے مخصوص تھا اورآخری حکم جو حضرت امامِ زمانہ کے ذریعہ جا ری ہو گا وہ یہ ہے کہ حضر ت کے ظہور کے زما نہ میں ان (اہل کتا ب) سے جزیہ بھی قبول نہیں کیا جا ئیگا بلکہ جو معا ملہ تمام کافرو ں کے ساتھ ہو گا وہی معا ملہ ان کے ساتھ بھی ہو گا ۔
بہر حال اس با ت میں کو ئی شک نہیں ہو نا چا ہئے کہ قر آ ن کی نظر میں عصر حا ضر کے تمام ادیا ن قا بل قبو ل نہیں ہیں اس لئے کہ اگر دین،دین حق ہے تو تمام انبیا ء علیہم السلام کو قبو ل کر ے گا اور کسی بھی نبی اور کتاب کے بارے میں فر ق کا قا ئل نہیں ہو گا ۔
..............
١۔سورئہ تو بہ آیت ٢٩۔

٢۔تحریف
آج الٰہی اد یا ن میںبہت سی با تیں تحر یف کر دی گئی ہیں ۔ قرآنِ کریم نے یہ بات صرا حت کے ساتھ بیا ن کی ہے کہ علما ئے اہل کتاب بہت سی باتیں اپنی طرف سے گڑھ لیتے اور ان کو خدا کی طرف منسو ب کر دیا کر تے تھے یہا ں تک کہ کچھ مطالب لکھ کر کہدیاکر تے تھے کہ یہ کتا بِ خدا ہے۔ تا ریخی طور پر بھی یہ بات مکمل طو رسے ثابت ہے کہ گز شتہ تمام ادیان تحر یف کی نظر ہو چکے ہیں اوربنیا دی طور پر اگر کو ئی ان ادیا ن کی مو جو دہ کتا بو ں کا مطا لعہ کرے تو اس کو ان کتا بوں میں بہت سی متضا د با تیں مل جا ئینگی اور چونکہ ہم اس وقت تا ریخی اسنا د کی تحقیق نہیںکر ر ہے ہیں لہٰذا ا س موضوع سے دلچسپی رکھنے وا لے حضرا ت کو اس سلسلہ میں لکھی جا نے وا لی متعددکتا بو ں کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں(١)خود قر آ ن کریم کی آیات بھی اس بات کی شا ہد ہیں کہ اہل کتاب تحریف سے کام لیتے تھے ۔
(فَوَیْل لِلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھَٰذَامِنْ عِنْدِاﷲِ لِیَشْتَرُوْابِہِ ثَمَنا ًقَلِیْلاً فَوَیْل لَّھُمْ مِمَّاکَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَوَیْل لَھُمْ مِمَّایَکْسِبُوْنَ)
''پس وا ئے ہو ان لو گو ں پر جو اپنے سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاںسے (آئی ) ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھو ڑا فا ئدہ حا صل کر لیں پس تف ہے اس پرجو انھوں نے اپنے ہا تھو ں سے لکھاہے اور پھر تف ہے اس کما ئی پر جو انھوں نے کما ئی ہے ''۔
ظا ہر ہے کہ اس کام میں ان کے ما دی مفادات تھے ۔ احتما ل ہے کہ کچھ ایسے حُکّا م تھے جو اپنے اغراض و مقاصد کے تحت علما ئے اہلِ کتا ب کو رقم دیا کر تے تھے کہ وہ وحی کے عنوا ن سے کچھ مطالب لکھیں اور لو گو ں کے سامنے پیش کریں :
(وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِیْقاً یَلْوُوْنَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالْکِتَابِ لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْکِتَابِ وَمَاھُوَمِنَ الْکِتَابِ وَیَقُوْلُوْنَ ھُوَمِنْ عِنْدِاﷲِ وَمَاھُوَمِنْ عِنْدِاﷲِ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اﷲِالْکَذِ بَ وُھُمْ یَعْلَمُوْنَ)(٢)
''ان ہی یہو دیو ں میں بعض وہ ہیں جو کتاب خدا کے اندازمیں باتیں کر تے ہیں تا کہ لوگ خیال کریں کہ ان کی باتیںکتاب خدا کی با تیںہیںحا لانکہ وہ خدا کی کتاب نہیں ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب اﷲ کی طرف سے
..............
١۔نمونہ کے طور پر ملا حظہ فر ما ئیں الھدیٰ الیٰ دین المصطفیٰ ،شیخ جوا د بلا غی ۔
٢۔سورئہ آل عمران آیت ٧٨۔
ہے حا لا نکہ اﷲ کی طرف سے ہر گز نہیں ہے اور خود جا نتے ہیں کہ وہ خدا کے خلا ف جھوٹ باندھ رہے ہیں '' ۔
دوسری جگہ ارشاد ہو تا ہے:
(اَ فَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُوْمِنُوْا لَکُمْ وَقَدْکَانَ فَرِیْق مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلَا مَ اﷲِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہُ مِنْ بَعْدِ مَاعَقَلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ )(١)
'' کیا تمھیں امید ہے کہ یہ یہو دی تم پرایمان لے آ ئیں گے جب کہ ان کا ایک گروہ کلامِ خدا کو سن کر تحریف کر دیتا تھا حا لانکہ سب سمجھتے بھی تھے اور جا نتے بھی تھے ''۔
اس تحریف میں تحریف لفظی اور تحریف ِ معنو ی دونوں ہی کا امکان پا یا جا تا ہے یعنی ممکن ہے وہ حتی کلام کی لفظیں تو یاد رکھتے ہوں لیکن اس کلام کی تفسیر با لرّائے کر تے ہوں اور معا نی بدل کر کلام پر حمل کر تے ہوں لیکن دوسری آیات میں آیا ہے کہ وہ لفظو ں میں بھی ردّو بدل کیا کر تے تھے ۔
معلوم ہوا قرآن کی رو سے اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہو د و نصا ریٰ کی کتا بو ں میں ایسے جعلی اور تحریف شدہ مطالب مو جو د ہیں جو خدا وند عا لم کی طرف سے نا زل نہیں ہو ئے ہیں ۔ ہم اجما لی طورپرآپ کی اطلاع کے لئے ان تحریفات کے دو نمونوں کی طرف اشا رہ کر تے ہیں :
تو ریت میں آیا ہے کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا فلا ں سال انتقا ل ہوا ۔اب ان سے یہ سوا ل کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ کتاب وہی ہے جو حضرت مو سیٰ علیہ السلام پر نا زل ہو ئی ہے تو اس میں یہ کیسے لکھ دیا گیا کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کافلا ں سال انتقال ہوا ؟کیا خو د حضرت مو سیٰ علیہ السلام فر ما سکتے ہیں کہ حضرتِ مو سیٰ علیہ السلام کا فلاں سال انتقال ہو ا ہے؟ !
جہاں تک انجیل کا سوال ہے خو د نصا ریٰ بھی یہ دعو یٰ نہیں کر تے کہ یہ وہی خدا کی طرف سے نا زل شدہ کتاب ہے ۔ ان کے پاس اس وقت چار انجیلیں ہیںجبکہ اس سے پہلے ان کے پاس اس سے بھی زیا دہ انجیلیں تھیں اور ان چا روں انجیلو ں کو ایک خاص شخص نے تحریر کیا ہے کہ جن کے نا موں سے یہ انجیلیں منسوب ہیں ۔ ان میں بھی اس طرح کی داستا نیں مو جو د ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فلاں دن آئے اور اپنے شا گر دوں کے ساتھ بیٹھے ان سے کہا اور اس کے بعد فلاں جگہ چلے گئے وغیرہ کسی تا ریخی کتاب کے مثل ہے ۔خو د وہ لو گ بھی یہ دعو یٰ نہیں کر تے کہ
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت٧٥۔
یہ وہی کتاب ہے جو حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام پر نا زل ہو ئی تھی ۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ بعد میں حضرتِ عیسیٰ کے شا گر د و ں نے انجیل کے مطالب کو اس شکل میں منظّم و مر تّب کیاہے اور ان انجیلو ں کا مطالعہ کر نے والا شخص خوب جانتا ہے کہ یہ خدا وند عالم کی نا زل کی ہو ئی کتا بیں نہیں ہیں ۔
بہر حال ادیا ن سلف کی اتباع کر نے وا لو ں کے پاس مو جو دہ کتا بیں تحریف شدہ ہیں اور ان کا کوئی اعتبار بھی نہیں ہے ۔

احکام کے جزئیات میںادیان ایک نہیں ہیں
ہم نے ملا حظہ کیا کہ اکثر ادیان میں اختلافات اہل کتاب کی سرکشی کی وجہ سے ظا ہر ہو ئے اور انھو ں نے خدا کی کتاب میں تحریف بھی کی ،لیکن ایسا نہیں ہے کہ تمام ادیان کے جز ئی احکام مشتر ک ہوں قرآ ن کریم اس مطلب کے متعلق فر ما تا ہے :
(لِکُلٍ جَعَلْنَامِنْکُمْ شِرْعَةًوَمِنْہٰاجاًوَلَوْشَٰائَ اﷲُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّةً وَاحِدَةً وَلٰکِنْ لِیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآئَ اتَٰکُمْ ۔۔۔)(١)
''ہم نے سب کے لئے الگ الگ شریعت اور راستہ مقررکردیا ہے اور خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنادیتا لیکن وہ اپنے دیئے ہوئے قانون سے تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے۔۔۔''۔
شریعت وہ راستہ ہے جو نہر پر ختم ہو تا ہے اور شرعہ بھی اسی راستہ نیز اس راستہ کو کہا جاتا ہے جو کسی ہدف و مقصد تک پہنچتا ہے ۔شرع ، شرعہ اور شریعت بھی ایک ہی مادہ سے ہیں ۔شارع بھی اسی ما دہ سے ہے جس کے معنی سڑک اور عام راستے کے ہیں ۔
اس آیۂ شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ سب ایک ہی پروگرام نہیں رکھتے تھے اس بات کی تا ئید خداوند عالم کا یہ فرمان کر تا ہے :(وَلَوْشَائَ اللہ لَجَعَلَکُمْ اُمَّةً وَاحِدَ ةً) یہ جملہ ممکن ہے دو سرے مطلب کی نشا ندہی کر رہا ہو جو دوسری آیات میں مو جو د ہے کہ اگر خدا چا ہتا تو سب کو ایک امت قرار دیتا یعنی سب کوزبر دستی حق کی ہدایت کرتا لیکن یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اگر چا ہتا تو امتوں پر نازل ہو نے والے مختلف احکام کو یکساں و برابر قرار دیتا لیکن حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ احکام کے درمیان کم و بیش اختلافات پا ئے جا ئیں(لِیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَااٰتٰکُمْ )
..............
١۔سورئہ ما ئدہ آیت ٤٨۔
تاکہ ان احکام کے متعلق یاجو کچھ خدا وند عالم نے تم کو عطا کیا ہے وسیلۂ آزما ئش قرار پا ئیںایک امت کے لئے امتحان وآزما ئش کے وسایل کچھ تھے اور دوسری امت کیلئے کچھ اور تھے پس معلوم ہوا کہ احکام جزئیات میں امتوں کے درمیان اختلافات پا ئے جا تے تھے ۔
اس سے بھی زیادہ واضح یہ آیت ہے :
(لِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَامَنْسَکاًھُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ۔۔۔)(١)
''ہر امّت کے لئے ایک طریقہ قرار دیا کہ اس پر وہ عمل کریں لہٰذا اس امرمیں ان لوگوں کو آپ سے الجھنانہیں چاہئے آپ انھیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں ''
اورتقریباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لازم و ضروری بھی تھا کہ تمام امتوں کے لئے احکام کے جزئیات یکساں نہ ہوں ،مثال کے طور پر مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ عربی زبان میں نماز پڑھیں توکیا بنی اسرائیل کی نماز بھی عربی زبان میں تھی ؟کسی شخص نے یہ دعویٰ نہیں کیا یایہ کہ انھیں بھی کعبہ کی طرف رخ کر کے نما ز پڑھنے کاحکم تھا ؟ ایسا نہیں ہے۔ قر با نی کا طریقہ ،روزہ کا حکم ،وقت اور ان کی تعداد یکساں نہیں تھی ؟اس با رے میں متعدد روا یتیں مو جود ہیں پس معلوم ہوا یہ جو کہا جاتا ہے کہ تمام امتوں کا دین یا شریعت ایک ہے اس سے اصل احکام کا ایک ہونا مرادہے ، لیکن ان کے انجام دینے کے طور طریقوں میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کئے گئے تو آپ نے فر مایا :
(۔۔۔وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ۔۔۔)(٢)
''اور میں بعض چیزوں کو حلال قراردیتا ہوںجوتم پر حرام تھیں''۔
یہ آیت صاف صاف بیان کر تی ہے کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بہت سے کام ان کی امّت کے لئے حرام تھے جن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حلال قرار دیدیاتھا۔
حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کے با رے میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبَٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الخَبَٰئِثَ )(٣)
..............
١۔سورئہ حج آیت٦٧۔
٢۔سورئہ آل عمران آیت٥٠۔
٣۔سورئہ اعراف آیت١٥٧۔
''اورانھوں نے پاکیزہ چیزوں کو ان پر حلا ل قرار دیاہے اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیا ہے''۔
فی الجملہ کچھ چیزیں حلال ہوئیں اور کچھ چیزیں حرام ہوئیں اس میں کو ئی شک نہیںہے لیکن یہ منسوخ کیا جانا ویسے ہی ہے جیسے خود ایک شریعت میں کوئی ایک چیز بعد میں منسوخ کر دی جا ئے اور اسلام میں اگر کو ئی کہے کہ نسخ نہیں ہے تو یہ تو قرآن کی نص ودلیل ہے کہ تغییر قبلہ ایک منسوخ کیا جا نے والاحکم ہے اسی طرح کچھ دو سرے احکام بھی تھے جو منسوخ ہوئے ہیں۔ مختصر یہ کہ بعض احکام کا منسوخ ہوناخودایک شریعت میں بھی ممکن ہے اور کئی شریعتوں میں بھی اس کا امکان پایا جاتا ہے ۔اگر ایک شریعت میںکوئی چیز منسوخ کردی جا ئے تو اس کا مطلب گزشتہ شریعت کی تکذ یب نہیں ہے بلکہ وہ حکم بھی اپنے زمانہ میں حق تھا ۔
پس شریعتوں کے ما بین جزئی احکام میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین کئی ہیں، بلکہ دین ایک ہے اور وہ اسلام ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام نے اسی دین کی دعوت دی ہے اور تمام مو منین اور مسلمانوں کو تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھنا چا ہئے ۔اس مقام پر یہ مطلب بیان کر دینا بیجا نہ ہوگا کہ جب ہم کسی پیغمبر سے اس کا دین قبول کرلیں تو ہم کو ا س کے احکام میں فرق کر نے کا کوئی حق نہیں ہے ،اس لئے کہ ایسا کر نا دین کے تمام پہلوؤں کا انکار کر دینے اور تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار کر نے کے مثل ہے ، ایک دین کے تمام ارکان و دستور پر بغیر کسی قید و شرط کے ایمان رکھنا چا ہئے۔
خداوند عالم اہل کتاب کی سر زنش کر تے ہوئے ارشاد فر ماتا ہے :
(اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَاجَزَائُ مَنْ یَفْعَلُ ذَٰلِکَ مَنْکُمْ اِلّاخِزْی فِی الْحَیَٰوةِ الدُّنْیَاوَیَوْمَ الْقِیَٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلَیٰ اشَدِّالْعَذَابِ وَمَااﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ )(١)
''کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور ایک حصے کا انکار کردیتے ہو؟ایسا کرنے والوںکی سزا سوائے اسکے کہ زندگانی دنیا میں ذلیل ہوں اور قیامت کے دن سخت ترین عذاب کی طرف پلٹا دیے جائیں کچھ نہیں ہے اور اﷲ تمہارے کرتوت سے بے خبر نہیں ہے ۔''
اس آیت سے بھی تا ئید ہو تی ہے کہ دین کے بعض احکام کو قبول کر ناور بعض احکام کو رد کرناگو یا اس کے تمام احکام کورد کردینا ہے اوراس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ مرتدضروریات اسلام میں سے کسی ایک ضرورت کا انکار کر نے سے کا فر ہوجاتا ہے ، یعنی اس دنیا میں بھی اس کا خون ضائع ہو جاتا ہے اور آخرت میں بھی وہ کفار کے ساتھ محشور کیا جائے گا ۔
پس ہما رے لئے تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت اور ان کی تمام تعلیمات پر ایمان ضروری ہے اور ان بزرگواروں کے احکام میں سے کسی ایک حکم کا جان بوجھ کرانکارکرناگویا تمام احکام کے انکار کر نے کے مانند ہے ۔
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت٨٥۔