راہ اور رہنما کی پہچان
 

غیرانبیا ء علیہم السلام کا معصوم ہو نا
ہم عرض کر چکے ہیں کہ قرآ ن ِ مجید کی آ یات سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبرپیغام وحی لینے اور پہنچا نے میں معصو م ہو تے ہیںیہا ں تک کہ رسالت الٰہی کسی خطا اور انحراف کے بغیر لو گو ں تک پہنچ جاتی ہے اور دوسرے دلا یل سے چا ہے وہ عقلی ہو ں یا نقلی یہ ثابت ہے کہ انبیا ء علیہم السلام تبلیغِ وحی میں معصوم ہو نے کے علا وہ وحی کے مطابق عمل کر نے میں بھی معصوم ہو تے ہیں بلکہ شیعہ حضرات کے کھلے عقا ید کی رو سے وہ کسی غلطی ، اور سہو و نسیان سے بھی دوچار نہیں ہو تے ۔ اس سلسلہ میں کچھ شکوک بھی تھے جن کی حتی المقدور وضاحت کے ساتھ ہم نے جواب بھی عرض کر دیئے ہیں :
اب اس مقا م پر ایک دوسرا سوا ل یہ پیش آ تا ہے :کیا عصمت، انبیا ء علیہم السلام سے مخصوص ہے ؟ یا انبیا ء علیہم السلام کے علا وہ بھی کچھ لو گ معصو م ہو سکتے ہیں ؟ اور کیا قر آ ن مجید کی آ یا ت اس سلسلہ میں ہما ری کچھ رہنما ئی کر تی ہیں یا نہیں؟
اس بحث کو چھیڑ نے سے پہلے خود عصمت کے مفہوم کی وضا حت کر نا ضرو ری ہے ۔ عصمت سے مرا د صرف گناہ کا ترک کرنا نہیں ہے ۔ اگر کسی انسان سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو تو کافی نہیں ہے کہ ہم اس کو معصوم کہہ بیٹھیں ۔اس لئے کہ اولاً انسان مکلف ہونا چا ہئے یعنی اس عمر کو پہنچ چکا ہو کہ اس پر شرعی فریضہ عا ئد ہو تا ہواور اس وقت وہ فریضہ کی مخالفت نہ کرے ورنہ اگر کوئی انسان ابھی مکلّف نہیں ہو اہے تو وہ اس مقام پر نہیں ہے کہ اس کے لئے کہیں معصو م ہے کہ نہیں ؟ مثلاً بچے کے لئے بالغ ہونے سے پہلے (معصوم ہونے یا نہ ہونے کی)بحث نہیں اٹھتی اگر ان کو معصوم کہاجاتا ہے تویہ ایک تسامح ہے معلوم ہواان کے اندر گنا ہ کرنے کی قوت ہونی چاہئے یعنی مکلف ہوں البتہ سب انسانوں کے لئے احکام یکسان نہیں ہوتے ہمارے پاس ایسے دلایل موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ممکن ہے کچھ لوگ قانونی سن سے پہلے ہی مکلف ہوجائیں جیسے ائمہ اطہار رسمی اور ظاھری بلوغ سے پہلے ہی مکلف ہیں اور ان بلند مرتبوں پر فائز ہونے کی بنا پر اپنی ذمہ داریوں کی بہ نسبت متعہد اور ملتزم ہیں امام پانچ سال یا اس سے کم و بیش عمرمیں امام ہوسکتاہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ذمہ داریوں کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ بہر حال عصمت کا مسئلہ اس شخص سے متعلق ہوتاہے جو مکلف ہو،چاہے وہ معمو لی اعتبار سے مکلف ہو جیسے عام طو ر سے لو گ ایک مخصو ص عمر میں مکلف ہو تے ہیں چا ہے مخصوص طو ر پر مکلف ہو جیسے انبیا ء اور ائمہ علیہم السلام غیر متعارف عمر میں مکلف ہو تے ہیں ۔
دو سرے اگر مکلّف شخص میں معصیت کر نے کی طا قت نہ ہو جس کی بنا ء پر اس سے گنا ہ سرزد نہیں ہو تا تو اس کو بھی معصو م نہیں کہا جاتا ۔ عصمت کا مطلب یہ ہے کہ انسا ن کے اندر گنا ہ کر نے کی طا قت اور تمام شر طیں مو جو د ہو ں اس کے با و جود بھی وہ گنا ہ نہ کر ے ۔ چا ہے معمو لی اور متعا رف شرطیں ہو ں یا استثنا ئی شر طیں ہو ں ۔ اس کی وضا حت کچھ اس طرح ہے :
ہر انسان کچھ ایسے ملکہ کا ما لک ہو تا ہے جس کی وجہ سے اس سے کچھ مخصو ص کام صا در ہو تے ہیں مثلاً بہا در آدمی کے اند ر ایک ملکہ ہو تا ہے یعنی اس میں ایک ایسی کیفیت را سخ ہو جا تی ہے جو اس سے کچھ کا مو ں کے انجا م دینے اور دوسرے کا مو ں کے تر ک کر نے کا تقا ضا کر تی ہے ۔ پس ملکۂ عفت اور ملکۂ سخا وت بھی ایسے ہی ہیں معمولی طور پر یہ ملکا ت جن کے متعلق اخلا ق میں بحث کی جا تی ہے اسی طرح کے ہیں جو متعا رف و معمولی حا لات و شر طو ں میں کچھ کا مو ں کے انجام دینے کا منشاء ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل نہ کرنا محال نہیں ہو تا یعنی بہا در آ دمی اس کو کہا جا تا ہے جو معمو لی حالات و شرطوں میں نہیں ڈرتا لیکن اگر کو ئی غیر معمو لی وا قعہ پیش آ جا ئے تو ممکن ہے وہ ڈرجائے ۔ہا ں اگر انسان کے اندر یہ ملکہ بہت زیا دہ راسخ ہو جا ئے اور در جۂ کما ل تک پہنچ جا ئے تو غیر معمو لی اور استثنا ئی حو ا دث بھی اس پر اثر اندا ز نہیں ہو سکتے ۔ مثا ل کے طور پر ملکۂ عفت اتنا مستحکم و قوی ہو جا ئے کہ اگر وہ حالات جو حضرت یوسف علیہ السلام کو پیش آئے اس کے سامنے آجا ئیں تو بھی گنا ہ نہیں کر تا، اسی طرح دو سرے تمام ملکا ت اس قدر قو ی ہو ں کہ کسی بھی حال میں گنا ہ سر زد نہ ہو اگر چہ غیر معمولی حا لات ہی کیو ں نہ پیدا ہوجائیں۔ اگر کسی انسان کے اندر ایسا ملکہ پیدا ہو جا ئے تو اس کو معصو م کہاجا تا ہے ۔
عصمت کی تعریف یوںکر سکتے ہیں ''عصمت انسا ن میں پا یا جا نے وا لاوہ ملکہ ہے جو انسان کو ہر حا ل میں گناہ سے محفو ظ رکھتا ہے ''البتہ ہما را یہ کہنا کہ یہ ملکہ انسا ن کی حفا ظت کر تا ہے اس بات سے منا فات نہیں رکھتا کہ خدا انسان کی حفا ظت کر تا ہے اس لئے کہ تو حید افعا لی تقا ضا کر تی ہے کہ کسی بھی مو جو د کے پاس جو کچھ ہے اور جوکام بھی وہ انجام دیتا ہے اس کی انتہا ء اور بنیادی با زگشت خدا کی طرف ہے ۔ خدا ہی اس کے اندر موجود ملکہ عصمت کے ذریعہ اس کی حفا ظت کر تا ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھناہے کہ کیا یہ ملکہ صر ف انبیا ء علیہم السلام سے مخصو ص ہے یا غیر ا نبیا ء علیہم السلام میں بھی اس کے پا ئے جا نے کا امکان ہے، اس کے بھی دو مر حلے ہیں ایک مر حلۂ ثبو ت دوسرا مر حلۂ اثبات ،یعنی پہلے یہ ثابت ہو نا چا ہئے کہ ایک شخص میں اس طرح کا ملکہ پا یا جا نا کیاممکن ہے؟ اور دوسرے مر حلے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا غیر انبیاء میں اس طرح کا ملکہ ثابت کر نے کی ہما رے پا س کو ئی دلیل ہے یا نہیں ؟ جہاں تک ایک انسان کے اندر اس طرح کاملکہ پائے جانے کی بات ہے تو ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے اور نہ ہی اس مفروضہ میں کوئی محا ل عقلی لا زم آ تا ہے ۔ ہما رے پا س ایسی دلیلیں اور ثبوت مو جو د ہیں جن سے یہ ظا ہر ہو تا ہے کہ یہ ملکہ انبیا ء سے مخصو ص نہیں ہے مثال کے طور پر آ یۂ کر یمہ (الّا عِبَا دَ اﷲِ الْمُخْلَصِیْنَ )یعنی ''شیطا ن اﷲ کے مخلص بندوں کو گمرا ہ کرنے کی ہوس نہیں کر سکتا'' عام ہے اورمخلصین میں غیر انبیا ء بھی شامل ہو سکتے ہیں اس اخلا ص اور عصمت کوصرف انبیاء میں مخصو ص کر دینے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے ۔ جو شخص بھی مخلَص ہو اس آ یۂ کریمہ کے مطابق معصوم ہو گا چونکہ شیطان اس کو فریب نہیں دے سکتا ۔رہی یہ بات کہ معصو مین کو ن لو گ ہیں ؟ اورکیا صرف انبیا ء علیہم السلام ہی معصوم ہیںیا نہیں ؟ اس کے لئے الگ سے دلیل کی ضر و رت ہے خود آ یۂ کریمہ اس با ت کا انکا ر نہیں کر تی کہ غیر انبیاء بھی معصوم ہو سکتے ہیں حتی ذہن کو مطمئن اور ما نوس کر نے کے لئے ہم نمو نہ کے طو ر پر کچھ ایسے مقامات بیان کر رہے ہیں کہ جن میں قرآن کریم نے غیر انبیا ء کے معصو م ہو نے کی طرف اشا رہ کیا ہے :
مثال کے طو ر پر خدا وند عا لم حضر ت مریم سلا م اﷲ علیہا کے با رے میں فر ما تا ہے:
( وَاِذْقَالَتِ الْمَلَا ئِکَةُ یَامَرْیَمُ اِنَّ اللَّہَ اصْطَفٰیکِ وَطَھَّرَکِ وَاصْطَفٰیکِ عَلَیٰ نِسَآئِ الْعَالَمِیْنَ )(١)
''اور جب فرشتو ں نے کہا اے مر یم بیشک اﷲ نے آپ کو منتخب کیاہے اور آپ کوپا ک و پا کیزہ بنا یا ہے اور عا لمین کی تمام عو رتوں پر آپ کو بر تری عطا کی ہے ''۔
ہما ری بحث کلمۂ (طَھَّرَکِ )سے ہے کہ لفظ تطہیر تقا ضا کر تا ہے کہ کسی طرح کی آ لو دگی ان کے قریب نہیں آسکتی وہ گناہان صغیرہ اور کبیرہ کی ہر برائی سے پاک ہیں پس یہ ثابت ہے کہ غیر انبیا ء بھی عصمت و طہا رت کے اس در جہ پر فا ئز ہو تے ہیں کہ تمام عمر ان سے کو ئی بھی گنا ہ صغیرہ اور کبیرہ سر زد نہیں ہو سکتا ۔
..............
١۔سورئہ آل عمران آیت ٤٢۔

اَئمہ علیہم السلام کی عصمت
اہلِ تشیّع کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت محمد مصطفےٰ ۖاوربا رہ اما م علیہم السلام اور اسی طرح حضرت فا طمہ زہرا سلا م اﷲ علیہا پیغمبریا امام نہ ہو نے کے با وجود معصو م ہیں معلوم ہو ا کہ عصمت انبیا ء سے مخصو ص نہیں ہے بلکہ غیر انبیاء بھی معصوم ہو سکتے ہیں یہاں اس بات کی طرف دھیان رہے کہ جس عصمت سے ان تیرہ شخصیتو ں کو منسو ب کیا جا تا ہے وہی عصمت ہے جو پیغمبر اکرمۖ کے لئے ثابت ہے، یعنی شیعہ حضرات کے مشہو ر قو ل کے مطابق ( گناہ سے بھی معصوم ہیں اور خطا اور سہو و نسیا ن سے بھی معصوم ہیں )اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس امت میں چو دہ معصو مو ں کے علا وہ کوئی او ر گنا ہو ں سے محفو ظ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے دو سرے افرا د کے ہو نے کا بھی امکا ن ہے جو اس طرح کے ما حول میں زند گی بسر کر رہے ہو ں کہ تمام حالات میںملکۂ تقو یٰ و عدالت ان کو گنا ہ سے اس طرح محفو ظ رکھے کہ انھو ں نے کبھی کو ئی گنا ہ نہ کیا ہو حتی یہ بھی ممکن ہے کہ ان چو دہ ہستیو ں کے علا وہ کچھ لوگ ملکۂ تقو یٰ کے ان اعلیٰ مرا تب پر فا ئز ہو ں کہ حتی غیر معمو لی حا لات بھی اگرپیش آ ئیں تو ان سے کو ئی گنا ہ سرزد نہ ہو ۔ ان چو دہ ہستیو ں کے لئے عصمت کا مخصو ص ہونا اس معنی میںہے جو پیغمبر اسلا م ۖکے لئے ثابت ہے اورجس کا لا زمہ خطا اور نسیان سے بھی محفو ظ ہونا ہے ۔ پس یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ حضر ت سلما ن بھی ملکۂ عصمت پر فا ئز ہوں اور مختلف حالات میں ان سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو اہو اور اگر اس سے بھی زیا دہ سخت حا لات ان کے لئے پیش آ جا تے تب بھی ان سے کو ئی گنا ہ سرزد نہ ہو تا لیکن ممکن ہے کہ کسی مقام پر اپنے فیصلے میں غلطی کر گئے ہو ں کیونکہ اپنے تمام فیصلوں میں خطا سے محفو ظ رہنے کا چو دہ معصو مو ں کے علا وہ کسی اور کے لئے اثبا ت نہیں کیا جا سکتا اگرچہ ممکن ہے وہ ملکۂ عدالت کے ایک ایسے بلند مر تبہ پر فا ئز ہو ں کہ اس کو بھی عصمت کا نام دیا جاسکے اور اس کی نفی کے لئے بھی ہمارے پاس کو ئی دلیل نہیں ہے اور شاید پیغبر اسلام ۖ کا یہ قول (سَلْمَا نُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْت) اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ بعض خصو صیا ت جو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت ہیں ان کے لئے بھی ثابت ہو ں ، اورشاید علما ء ، فقہا ء اور شیعوں کی عظیم شخصیتو ں کے درمیا ن ایسے افرا د مو جو د رہے ہو ں اور اب بھی مو جو د ہو ں جو عدالت اور تقوےٰ کے اس بلند درجہ پر فا ئز ہو ں کہ کسی بھی طرح کے حالات میںہوں معصیتِ خدا سے پر ہیز کر تے ہو ں ۔ مرحوم سید رضی اور سید مر تضیٰ کا مشہو ر و معرو ف واقعہ ہے ( البتہ یہ داستا ن سوفیصدی صحیح ہے میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ) لیکن ان دو بزرگوں کا شما ر ان افراد میں ہو تا ہے جو عدالت اور تقویٰ کے اعتبا ر سے غیر معمولی مرتبہ پر فا ئز تھے واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن طے پایا یہ دو نوں متقی عا لمو ں میں سے ایک نما ز جما عت میں امام بنے اور دوسرا ما مو م، اب یہ کہ گھر میں تھے اور ان کی ما در گرا می کی پیشکش تھی یا کچھ اور ،میں نے جزئیات قلمبند نہیں کی ہیں اور یقین سے نہیں کہہ سکتا) مر حوم سید مرتضیٰ نے امامت کے لئے اشا رتاً او لو یت کا اظہا ر کر تے ہو ئے فر مایا : ٹھیک ہے وہ شخص پیش امام بنے جس نے اب تک کو ئی گنا ہ نہ کیا ہوتواس وقت سید رضی نے فر مایا : بلکہ بہتر ہے وہ شخص پیش امام ہو جس نے گنا ہ کا خیا ل تک نہ کیاہو، یہ اس بات کی طرف اشا رہ تھا کہ انھو ں نے اپنی عمر بھی گناہ کا تصو ر تک نہیں کیا ہے، اور یہ بعید بھی نہیں ہے خدا کے بہت سے ایسے لا ئق بندے ہیں اگر ہم اس کے اہل نہیں ہیں تو ہمیں اس کا انکا ر بھی نہیں کر نا چاہۓ۔ پس وہ عصمت کہ جس کی ہم ان چو دہ معصو مو ں کی طرف نسبت دیتے ہیں وہی عصمت ہے جو خو د پیغمبر اکرم ۖمیں پا ئی جا تی ہے جس کی وجہ سے وہ ہرطرح کی غلطی اور سہوو نسیان سے بھی محفوظ تھے ۔ اسی طرح ہما ری مراد اس عصمت سے ہے جو مقامِ اثبا ت میں دلیل رکھتی ہو ممکن ہے کو ئی شخص اپنی زند گی میں گنا ہ کاخیال تک نہ کرے لیکن اس کے پاس اس کی کو ئی ضمانت نہ ہو اور وہ دوسروں کے سامنے یہ ثابت نہ کر سکے کہ اس کے دل میں کبھی گنا ہ کا تصورآیاہے یا نہیں ؟ آیا کسی کے حق میںسو ء ظن کیا ہے یا نہیں ؟ لیکن چو دہ معصو مو ں کے سلسلے میں عصمت ثابت کرنے کی دلیل مو جو د ہے۔
بہت سی روا یات اس بات کو ثا بت کر تی ہیںپس معلوم ہوا چو دہ معصو موں کی عصمت اور ان افرادکے درمیان کہ جن سے کو ئی گنا ہ سرزد نہ ہوا ہوحتی انھوں نے گنا ہ کا تصور بھی نہ کیا ہو دو فر ق ہے :
١۔ائمہ علیہم السلام کی عصمت اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ وہ خطاا ورسہوو نسیان سے بھی محفو ظ ہیں ۔
٢۔ ان کی عصمت پر ہما رے پاس دلیلیں مو جو د ہیں ۔

اَئمہ علیہم السلام کی عصمت پر قر آ نی دلیل
کیاقرآن کریم کی آیات سے ان ذواتِ مقدسہ کی عصمت پر کو ئی دلیل مو جو د ہے یا نہیں ؟
اس کے جواب میں متعدد آیات مو جو د ہیںلیکن ہم ان میں سے نمو نہ کے طور پرصرف دو آ یتیں پیش کررہے ہیں ارشاد ہو تا ہے:
( یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنَوُااَطِیْعُوْااللَّہَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الْاَمْرِمِنْکُمْ ۔۔۔)(١)
''اے ایما ن لا نے وا لو اﷲ کی اطاعت کر واور اپنے رسول اور اولی الا مر کی اطا عت کرو ''۔
اہل تشیّع اور اہل سنّت دونوں کی معتبر روایات کے مطا بق او لی الامر سے مراد با رہ امام ہیں حتی برادران اہلسنّت نے کچھ ایسی روا یتیں نقل کی ہیں کہ جن میں پیغمبر اسلام ۖنے اولی الا مر کے عنوان سے بارہ اما موں کا تعا رف
..............
١۔سو رۂ نسا ء آیت٥٩۔
کرا یا ہے۔ شیعہ حضرات سے تو اس سلسلہ میں بہت سی روا یتیں نقل ہو ئی ہیں ہم روا یا ت کے قطع نظرپہلے یہ جا ئزہ لیتے ہیں کہ کیا خوداس آیت سے اولی الامر کے لئے عصمت ثا بت کی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ پھر مقام تطبیق میں ہم یہ دیکھیں کہ او لی الامر کو ن لوگ ہیں ؟
آیۂ کریمہ میں یہ بیا ن کہاگیا ہے کہ اے ایما ن لا نے وا لو خدا، رسو ل اور او لی الا مر کی اطاعت کرو ۔ آیت کے آغاز میں ''اَ طِیْعُوْا اﷲ'' اس کے بعد ''اَطِیْعُوْا الرَّ سُوْل ''اور اس کے بعد ''وَاُوْ لِیْ الاَمْرِمِنْکُمْ '' آ یا ہے۔ خدا کی اطا عت کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے نا زل کر دہ احکام پر عمل کر ے اور ہر گز مخا لفت نہ کرے لیکن اطا عتِ رسول اور او لی لامر کا جہاں تک سوال ہے تورسول کی اطا عت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک یہ کہ لو گو ں تک رسالتِ الٰہیہ کے عنوان سے جو کچھ پہنچا یا ہے یعنی وہ احکام جو خدا نے اس کے ذریعہ نا زل کئے ہیں اُن پر عمل کریںدر حقیقت خدا کے ان اوا مر و نوا ہی پر عمل کر نا اطا عتِ رسول بھی ہے کیو نکہ پیغمبر ، خدا اور لو گو ں کے درمیا ن ابلاغ کا ذریعہ ہیں ۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکر م ۖکی ایک اور حیثیت ا ور منزلت بھی ہے جس کی وجہ سے ان کی اطا عت وا جب ہے اور وہ مقامِ ولا یت و حکو مت ہے۔ ہم پر صرف اس چیز کا حکم نہیں ہے کہ پیغمبر کی بس انھیں احکام میں اطاعت کریں جو اس نے خدا کی جانب سے احکام کلی کے طور پر بیان کئے ہیں بلکہ ان کے علاوہ ہما را فریضہ ہے کہ اپنی زندگی کے دوران جو بھی اوامرو نوا ہی پیغمبر ۖنے مولویت اور ولا یت کے عنوان سے دیئے ہیںہم ان کی بھی اطاعت اور پیر وی کریں ۔ مزیدوضا حت کے لئے عرض کروںکہ ایک دفعہ پیغمبر اکرم ۖایک آیت کی تلا وت فر ما تے جوکسی حکمِ الٰہی پر دلالت کر تی ہے تو ہم اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً نماز وروزہ وغیر ہ وا جب ہیں اور اس واجب پر عمل ضروری ہے پس ان احکام پر عمل کر نا خدا کی اطا عت بھی ہے اور اس کے رسو ل کی بھی اطاعت ہے ۔
خدا کی اطا عت اس لئے ہے کہ وہ حکم نا زل کر نے والا ہے اور پیغمبر کی اطا عت اس لئے ہے کہ وہ اس حکم کو پہنچا نے والے ہیں ۔بنیادی طور پر نبوّ ت اور رسالت اس سے زیا دہ کا تقاضا نہیں کر تی، جب ہم یہ سمجھ گئے کہ ایک شخص اﷲ کا رسو ل ہے تو اس کے رسو ل ہو نے تقا ضا یہ ہے کہ وہ جو کچھ رسا لتِ الٰہی کے عنوا ن سے ہما رے لئے لے کر آ ئے اسے قبول کریں لیکن اس کے ہر حکم کی اطا عت ضروری ہے یا نہیں ؟ خود رسا لت اس کا تقاضانہیں کر تی اس کے لئے ایک اوردلیل کی ضرو رت ہے ایک مرتبہ وحی کے ذریعہ حکم ہو تا ہے کہ ر سول جو کچھ دے یاکہے اس کی اطاعت کر و،تو اب اس حکم سے رسول کے لئے ایک دو سرا مقام ثا بت ہو تا ہے کہ عا م امو ر میں بھی اس کی اطا عت ضروری ہے ۔ کبھی خود وحی کے الفاظ میں یہ بات نہیں ملتی بعد میں جب نبی اکرم ۖ کی رسا لت ہما رے لئے ثابت ہوگئی آ نحضر ت ۖ کی رسا لت میںہی یہ بات کہی جاتی ہے:
( وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّالِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللَّہِ ۔۔۔)(١)
''اور ہم نے کسی پیغمبر کو نہیںبھیجا مگر یہ کہ لو گ اذنِ خدا سے ان کی اطا عت کریں ''۔
ہم اس قرآنی دلیل کے تحت چونکہ ہر رسو ل کی اطا عت کر نا وا جب سمجھتے ہیں اگر یہ آیت نا زل نہ ہو ئی ہوتی تو صرف عقلی دلیل کے تحت چونکہ یہ پیغمبر ہے اور پیغمبر کی تمام مسا ئل میں اطا عت ہو نی چاہئے ہم نہ سمجھ پا تے لیکن چونکہ یہ آیت نازل ہوئی لہٰذا اس دلیل نقل پر اعتما د کر تے ہو ئے کہتے ہیں کہ رسو ل کی اطاعت ضروری ہے ۔ لہٰذا پیغمبر حکو مت سے متعلق معا ملات اور لو گو ں کی زندگی سے متعلق امو ر میں جو امر و نہی کرتا ہے '' ولیِ امر '' کی حیثیت سے اس کی اطا عت واجب ہے ۔ یہ رسالت کے علاوہ ایک دوسرا مقام ہے ۔ اسی طرح اگر وہ کسی معا ملہ کا فیصلہ کریں تو ان کے فیصلہ کو بھی تسلیم کر نا چا ہئے کیونکہ وہ خدا وند عا لم کی طرف سے قا ضی بن کر آ ئے ہیں ۔
معلوم ہوا مندر جہ با لاجا ئزے کی روشنی میں تین مقام ثابت ہو تے ہیں :
ایک مقا مِ حکومت :یعنی نبی اکرم ۖولیِّ امر ، مد بّر اورمعا شرہ کی عنان ہاتھ میں رکھنے والے سائس رہبر ( ساسة العباد )ہیں ۔یعنی حاکم ہیں۔دو سرا مقا مِ قضا وت : یعنی دو فریقوں کے مابین فیصلہ کر نا ،قاضی و منصف ،اورتیسرا مقام، رسالت اور الٰہی پیغام رسانی،یعنی رسول ہیں اور ان تینو ں مقا ما ت کے لئے قرآن کریم میں آ یات موجو د ہیں :پہلے مقام و مرتبہ سے متعلق خدا وند عالم قرآ ن کریم میں ارشاد فر ماتا ہے :
( اِ نَّآاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآاَرَٰکَ اللَّہُ۔۔۔) (٢)
''(اے رسو ل )ہم نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتا ب اس لئے نا زل کی ہے کہ جس طرح خدا نے تمہا ری رہنمائی کی ہے لو گو ں کے در میا ن فیصلہ کرو ''۔
اور اسی سو رئہ نساء کی دوسری آیت میں ارشا د ہو تا ہے :
(فَلَا وَرَبِّکَ لَایُوْمِنُوْنَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَبَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْافِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجاًمِمَّاقَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْاتَسْلِیْماً )(١)
'' پس (اے رسول ) آ پ کے پر ور دگا ر کی قسم یہ لوگ صاحبِ ایمان نہ ہو ں گے جب تک اپنے با ہمی جھگڑو ں میں آپ کو اپنا حا کم (نہ) بنا ئیں اور جو کچھ آپ فیصلہ کردیں اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ہوں اور آپ
..............
١۔سورئہ نساء آیت ٦٤ ۔
٢۔سو رئہ نساء آیت١٠٥۔
٣۔سورئہ نساء آیت ٦٥۔
کے فیصلے کے سا منے سرا پا تسلیم ہو جا ئیں '' ۔
اسی طرح ولا یتِ امر ، تد بیر اور حا کمیت کے مسئلے میں کہ وہ مسلما نو ں کو جس چیز کا بھی حکم دیں سب کو تسلیم کرلینا چا ہئے ۔ خدا وند عا لم ارشاد فرما تا ہے :
(اَ لنَّبِیُّ اَوْلَیٰ بِالْمَوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ )(١)
''نبی تو مو منین پر خود اُن سے بڑھکر حق رکھتے ہیں '' ۔
اس سلسلہ میں دو سری آ یتیں بھی ہیں منجملہ وہ آیت جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں: (اَطِیْعُوْااللَّہَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الْاَمْرِمِنْکُمْ )(٢)
''خدا کی اطاعت کرو اور رسو ل کی اور تم میں سے جو صا حبانِ امر ہیں اُن کی اطاعت کرو ''۔
اس آیۂ شریفہ میں کلمۂ(اَطِیْعُوْ ا ) دو مر تبہ استعما ل ہو ا ہے ایک مرتبہ اس کو خدا سے منسو ب کیا گیا ہے اور دوسری مر تبہ اسکی رسو ل اور او لی الامر سے نسبت دی گئی ہے اور رسو ل اور او لی الا مر کی اطاعت کا ایک(اَطِیْعُوْا)کے تحت ایک ساتھ حکم ہوا ہے ۔ خدا وند عا لم نے (اَطِیْعُوْااﷲَ وَالرَّسُوْلَ وَاَطِیْعُوْااُولِی الاَمْرِمِنْکُمْ)نہیں فر ما یا ہے ۔ خدا کو ایک (اَطِیْعُوْا)کے ساتھ بیا ن فر مایا اور رسو ل اور اولی الامر کو ایک ساتھ ایک ہی امر کامتعلق قرار دیا ہے، اس سے یہ ظا ہر ہو تا ہے کہ دوسرا (اَطِیْعُوْا)رسول اور اولی الا مر کے درمیان مشترک ہے ۔

اولی الامر کی شان کیا ہے ؟
اولی الامر یعنی وہ افراد جو لو گو ں کے امو ر کو چلا تے ہیں اور لو گو ں پرحکومت کا حق رکھتے ہیں ظا ہر ہے کہ رسول اور اولی الا مر سے یکساں طورپر متعلق ہو نے والا یہ امر پیغمبر اکرم ۖکی رسا لت کے اس پہلو سے تعلق رکھتا ہے جو ولا یتِ امر ، تدبیر اور معا شرہ کے امور سے مر بوط ہے لہٰذارسو ل اور او لی الا مردو نو ں خدا کی طرف سے واجب الاطا عت ہو نے کے امر میں مشترک ہیںتو کیا،اس اطاعت کا واجب ہو نا کسی قید وشرط کے ساتھ ہے یا نہیں ؟ آیت مطلق ہے جس طرح (اَطِیْعُوْ ا اﷲ)َحکم ہے اسی طرح '' اَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْ لِیْ ا لْامْرِمِنْکُمْ '' حکم ہے ؟! دو اعتبا ر سے آ یۂ شریفہ اس بات پر دلالت کر تی ہے کہ آیۂ شریفہ میں جن اولی الا مرکا ذکر ہے ان کی مطلق طو رپراطاعت
..............
١۔سو رئہ احزاب آیت ٦۔
٢۔سورئہ نساء آیت ٥٩۔
وا جب ہے :ایک تو اس لحاظ سے کہ ''اَطِیْعُوْ ا '' مطلق طو ر پرکہا ہے اور دوسرے اس لحا ظ سے کہ اولی الا مر کی اطاعت کا حکم ،رسو ل کی اطا عت سے جڑی ہوئی ہے اور دونو ں کی اطا عت خدا وند متعا ل کی اطاعت سے وابستہ ہے۔ تو معلو م ہو ا کہ ان او لی الامر کے اوامر و نوا ہی کی مطلق طو ر پر اطا عت ہو نا چا ہئے ۔ اگر یہ افراد معصیت سے محفوظ نہ ہو تے اور ان افراد کے با رے میں معصیت کا احتمال پایا جا تا تو ممکن تھا کہ ان کے اوا مر و نوا ہی بھی معصیت سے مربو ط ہو ں اور خدا وند عا لم کے امر و نہی کی مخالفت کا با عث بنیں تو اس صورت میں یہ صحیح نہیں تھا کہ خدا کی اطا عت بھی واجب ہو اور ان کی اطاعت بھی وا جب ہو۔'' اَطِیْعُوْا اﷲَ '' کا تقاضاء یہ ہے کہ جس چیز کا خدا نے حکم دیا ہے اس کی اطا عت کرو اگر چہ دوسرے اس کے خلاف کیوں نہ حکم دیں اور ''اطیعوا الرسول واولی الامر''کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی مطلق طو ر پر اطا عت واجب ہو اب اگر خدا وند عالم کے حکم کے خلاف ہوتوبھی اس کے مطلق ہو نے کا مقتضی یہ ہے کہ ان کی اطاعت وا جب ہے توایسی صورت میں لا زم آئیگا کہ ہمارے لئے ایک ہی وقت میںدومتناقض امرواجب ہوںمثال کے طو رپراگر(العیاذ با للہ) پیغمبر اکرم ۖکسی گنا ہ کا حکم صا در فر ما تے تو ''اطیعو ااﷲ''کا تقاضاتھاکہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کریں اور ''اطیعو االرسول ''کا تقاضا ہوتاکہ نبی کی بات مانیں یعنی ایک ہی مسئلہ میں دو متضاد فرائض ہوجاتے !پتہ چلا کہ آیت میں اس چیز کی ضمانت ہے کہ رسول اور اولی الامر کے اوامر کبھی بھی خداوندعالم کے اوامر کے خلاف نہیں ہوسکتے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوںمعصوم ہیں اور یہ خود اس چیز کی ضمانت ہے کہ یہ بزرگان کبھی بھی حکم الٰہی کے خلاف امرو نہی نہیں کرسکتے ممکن ہے کوئی یہ فکر کر بیٹھے کہ اس اطلاق کو بھی مقید کیا جاسکتا ہے ۔یعنی ''اَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ وَ اُوْلیَ الامْرِمِنْکُمْ'' اس معنی میں مقید یا تخصیص کے قابل ہے کہ ''اطیعواالرسول الافیما خالف اﷲ''اور یہ اسی طرح ہے کہ جیسے قرآن میں بہت سے مطلق اور عام احکام ہیں جن کی دوسری عقلی یانقلی دلیلوں کے ذریعہ تخصیص یا تقیید کی گئی ہے،ہمارے پاس دلیل نقلی ہے ''لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق ''جو تخصیص کا کام کرتی ہے دلیل عقلی بھی ،وہ محکم قرینہ ہے کہ کسی بھی صورت میں خداوند عالم کی مخالفت جائز نہیں ہے معلوم ہواکہ یہ عقلی اور نقلی دلیل آیت کے اطلاق کو مقیدکرتی ہے ان کے معصوم ہونے پر دلالت نہیں کرتی ۔
لیکن یہ بات ذہن کی پیداوار ہے یعنی کبھی کبھی ہم اپنے ذہن میں اس طرح کاقاعدہ فرض کرلیتے ہیں کہ ہاں عام قابل تخصیص ہے اور مطلق قابل تقییدہے لیکن جب ہم الگ سے بعض عام اور خاص پر نگاہ ڈالتے ہیںتو دیکھتے ہیں کہ وہ تخصیص اور تقید کو قبول نہیں کرتے اور اگر ان پر تخصیص یا تقیید کا حکم جاری کیاجائے تووہ عرف عام میں قبیح اور مستہجن ہے ۔علم فقہ میںایسے بہت سے موارد ہیں جہاں ہمارے فقہا ء یہ فرماتے ہیں کہ''مامن عام الاوقد خص''لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ بعض عام کے لئے تخصیص کی گنجائش نہیں ہے یعنی عرف عام میں کلام کا مفہوم ایسی عمومیت رکھتا ہے کہ اگر اس پر تخصیص لگا ئی جا ئے تو اس کو متناقض خیال کرتے ہیں مخصّص نہیںمانتے اور یہاں اسی طرح کی صورت ہے مثال کے طور پر آیہ شریفہ میں خدافرماتاہے :
(وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَسُولٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاذْنِ اللَّہِ)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی پیغمبر فرمائیں اسکی اطاعت کرنی چاہئے بعد میں اگرکہاجا ئے کہ (لا تطع الر سول فیھاخالف امراللَّہ)''یعنی اﷲ کے حکم کے خلاف جو حکم دے اس میں رسول کی اطاعت نہ کرو '' تو عرف عام میں ان دو نوں بیانوں میں تناقص ہے یعنی آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی امر میں رسول کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے ۔ اسکے علاوہ قرآن کریم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اہم موارد میں جہاںشک و شبہ کا اندیشہ ہو اگر ان میں تخصیص و تقیید کی ضرورت ہو تو صاف طور پر بیان کردیتا ہے ۔ اس طرح کے بہت سے مقامات جہاں اس سے کم اہمیت کے مسائل ہیں جب قرآن کریم دیکھتا ہے کہ ممکن ہے حکم عام سے غلط مطلب نکال لیا جائے تو وضاحت کے لئے تقیید کردیتا ہے ۔ مثال کے طور پر والدین سے نیکی کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :
( وَقَضَیٰ رَبُّکَ اَلَّاتَعْبُدُوااِلَّااِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً۔۔۔)(١)
''اور تمہارے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔۔۔''۔
یہاں چونکہ یہ شبہہ ہو تا ہے کہ اگر والدین کہیں کہ فلا ں کام انجام نہ دو یا فلا ں گنا ہ کر و تو اس صو رت میں ہمارا کیا فریضہ ہے ؟تو خدا وند عالم فر ماتا ہے :
(وَاِنْ جَاھَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَالَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْم فَلاَ تُطِعْھُمَا۔۔۔) (٢)
''اوراگروہ کسی کو میرا شریک بنانے پرمجبور کریں جسکا تمھیں علم نہیں ہے تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا۔۔۔'' اب ایک ایسے مسئلہ میں جہاںیہ احتمال ہو کہ اولی الا مر ہو نے کے اعتبار سے کہیں کوئی غلط فا ئدہ نہ اٹھا ئے اور
..............
١۔ سورئہ اسراء آیت٢٣۔
٢۔سورئہ عنکبو ت آیت ٨۔
اپنے ذاتی نظریات لو گو ں پر نہ لاد دے(کیو نکہ یہ عام سی چیز ہے کہ جب بھی کسی نا اہل کے ہاتھ میں حکو مت آجاتی ہے وہ اپنے نظر یا ت لو گو ں پر لاد دیتا ہے اور اپنے مفادات حا صل کر نے کے چکر میں لگا رہتا ہے ) اس طرح کے حالات میں قر آ ن کریم مطلق طو ر پر فر ماتا ہے : (اَطِیْعُوْاالر سول و اُوْلِی الْاَ مْرِ مِنْکُمْ )اور اس میں کوئی قیدو شرط بیان نہیں فرمائی یہ طریقہ قرآن کریم کے اندازبیان سے بالکل بعیدہے مطلب اتنا واضح و روشن ہے کہ ''فخر رازی''(جن کو بعض نے''امام المشککین'' کے لقب سے یاد کیا ہے )اعتراف کرتے ہیں کہ یہ آیت اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے البتہ اولی الامر کی مطابقت اور مصادیق معین کرنے میں غلطی کر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں : ''اولی الامر سے مراد کسی بھی اسلامی معاشرہ کے اہل حل و عقد ہیں اوریہ بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اجماع حجت ہے اور جہاں بھی اہل حل وعقد کسی بات پر اجماع کر لیں تو ان کی نظرغلطی و خطا سے محفوظ ہے (١) بہر حال قرآن کریم نے اس امت کے جن افراد کو اولی الامر کہا ہے ان کی عصمت پراس آیہ کریمہ کو دلیل کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے مصادیق معین کرنے کے سلسلے میںتمام احکام کی تفصیل کی طرح پیغمبر اکر م ۖ سے پوچھناچاہئے ۔
ائمہ اطہار علیہم السلام کے زمانہ میں کبھی کبھی مخالفین اس طرح کے شبہے ایجاد کیا کرتے تھے کہ اگر تم یہ عقیدہ رکھتے ہوکہ بارہ امام خداکی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں اوران کی اطاعت واجب ہے اور ان کا مقام تمام لوگوں سے بلند و بالا ہے تو ان میں سے کسی کا نام قرآن کریم میں کیوں نہیں آیا؟ ہمارے آج کے دور میں بھی اس طرح کے عا میانہ شبہے پیدا کئے جاتے ہیں متعدد روایتیں اس چیز کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس طرح کے شبہات رائج تھے۔ حضرات نے اس کے جواب کا طریقہ بتایا ہے: قرآن کریم میں نماز قائم کرنے کا حکم ہے لیکن کیا نماز کی رکعتوں کی تعداد بھی معین کی گئی ہے ؟ تو اس بارے میں عوام کا فریضہ کیا ہے ؟رکعتوں کی تعداد کس سے پو چھیں گے ؟کیا پیغمبر اکرم ۖسے سوال کرنے کے علاوہ ان کا کوئی اور فریضہ تھا ؟!اس بار ے میں قرآن کریم فرماتا ہے:
(وَاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ )(٢)
''اور آپ کی طرف بھی ذکر کو(قرآن )نازل کیا ہے تاکہ وہ احکام واضح کردیں جو لوگوں کے لئے نازل کئے گئے ہیں اور شاید وہ غور وفکر کریں ''۔
..............
١۔مزید تفصیل کے لئے ملا حظہ فر مائیں ''تفسیر المیزان ''علامہ طبا طبائی نیز الامامت والولایت فی القرآن الکریم' '۔
٢۔ سورئہ نحل آیت٤٤۔
پیغمبر اکرم ۖ کا کام احکام کی تفصیل بیان کرنا ہے اسی طرح زکوٰةدینے کا حکم نازل ہواکیا قرآن کریم میں ہے کہ ہرچالیس درہم میں سے ایک درہم زکوٰة ادا کرنی چاہئے ؟یہ حکم روایت میں آیاہے اور پیغمبر اکرم ۖ نے بیان فرمایا ہے ،حج کا حکم نازل ہواتو کیا قرآن کریم میں طواف کے بارے میں بیان ہواہے کہ طواف میں سات چکّر لگانا چاہئے ؟ لوگوں نے کہاں سے سیکھا؟کیا پیغمبر اکرم ۖ کے فرمان کے علاوہ کہیں اورسے ملا ہے ؟
اس آیت کے با رے میں بھی سب سے اولیٰ اور سب سے زیادہ جاننے والے مفسراور حامل قرآن ،یعنی حضرت رسول اکرم ۖنے اولی الامر کا تعین کر دیا ہے جب آپ سے سوال کیا گیا توحضور ۖنے بارہ اماموں کا تعین فرمادیااور میں عرض کر چکا ہوںکہ اہل سنت کی روایات میں بھی آیاہے؛ انھوں نے ''جابربن عبداﷲانصاری ''سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ حضور ۖنے بارہ اماموں کو معین و مشخصّ فرمایا ہے ۔
اس بناء پر اولی الامر کومعین ومشخّص کرنے کے سلسلے میں پیغمبر اکرم ۖکے قول کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ہم کو ان کی بات ماننا چا ہئے اور اس کے مطابق روایتیں بھی موجودہیں اور اس بارے میں ہمارے لئے ذرہ
بھی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔
اہل بیت علیہم السلام کی عصمت کے ثبوت میںیہ آیت پیش کی جاتی ہے :
(اِنَّمَایُرِیْدُاللَّہُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا)(١)
''(اے اہل بیت )خدا تو بس یہ چا ہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح کی )برا ئی سے دور رکھے اور جو پا ک و پا کیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پا کیزہ رکھے ''۔
اس آیہ شریفہ سے یہ استدلال کیاجاتاہے کہ خداوندعالم نے اس آیت میں ''اہل بیت '' کے نام سے ایک گروہ کو خطاب فرمایاہے اورحصر کے طورپر کہاہے کہ خدانے تو بس تم کو پاک رکھنے کا ارادہ کرلیاہے ۔یقیناًیہ ارادہ اور فیصلہ اس گروہ سے مخصوص ہے اور خداوندعالم نے جوعام انسانوں کے پاک کرنے کااعلان کیا ہے اس سے مختلف ہے وہ تشریعی ارادہ ہے جس کا واقع ہونا لازم نہیں ہے خداوند عالم غسل اوروضو کے حکم کے ساتھ فرماتا ہے :(یُرِیْدُ اﷲِ لِیُطَھِّرَکُمْ)خداوند عالم تم کو وضو اور غسل کے ذریعہ سے پاک کرناچاہتاہے یہ تشریعی ارادہ ہے اور متحقق ہونے کی ضمانت نہیں رکھتا ۔
اب اگر جو طہارت اس آیت میں بیان کی گئی وہی طہارت ہو جو ارادۂ تشریعی کے تحت ہے تووہ ایک خاص
..............
١۔سورئہ احزاب آیت ٣٣۔
گروہ سے مخصوص نہیں ہے ،خداوندعالم کا تشریعی ارادہ تمام انسانوں کی طہارت سے تعلق رکھتا ہے لیکن یہ ارادہ جو ایک خاص گروہ سے مخصوص ہے تکوینی ارادہ ہے جو متحقق ہونے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ معلوم ہواکہ خداوندعالم نے اس امت میں وہ لوگ کہ جن کو ''اہل بیت علیہم السلام''ہونے کا شرف حاصل ہے ان کی نسبت تکوینی ارادہ فرمایا ہے کہ یہ افراد طاہرر ہیں اور مطلق طور پر ان میں یقیناًطہارت متحقّق ہوگی اور ''یطھرکم تطھیرا ''کی تکراراُن کی تطہیر میں مبالغہ پر دلالت کرتی ہے ۔

اہل بیت علیہم السلام کون ہیں ؟
بعض برادران اہل سنّت اور شیعہ کے نام سے منسوب ایک گروہ جس نے اُن ہی کی پیروی کی ہے آیة تطہیر سے قبل کے جملوں کو قرینہ قرار دیکر یہ خیال کیا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام سے مراد پیغمبر اکر م ۖ کی ازواج ہیں چونکہ اس آیت سے پہلے کی آیات میں نبی اکرم ۖ کی ازواج سے خطاب ہے ، اسی کو قرینہ مان کر انھوں نے کہاہے کہ اس ارادہ سے تشریعی ارادہ مرادہے کیونکہ کوئی بھی ازواج نبی کی عصمت کا مدعی نہیں ہے یہاں تک کہ اہل سنت بھی مانتے ہیں کہ وہ معصوم نہیں تھیں ۔ قرآ ن نے بھی صاف طور پر بیان کیا ہے کہ وہ معصوم نہیں تھیں انھوں نے حتی پیغمبر اکر م ۖکو تکلیفیں بھی دی ہیں اور قرآن نے ان کی سرزنش کی ہے معلوم ہوا کہ یہ آیت ان کی عصمت پر دلالت نہیں کرتی ۔
اس غلط فہمی کا جواب یہ ہے کہ خودآیت کاسیاق اس بات کا شاہد ہے کہ اس میں ''ازواج نبی '' سے خطاب نہیں ہے اس لئے کہ آیت سے پہلے کے جملوںمیں تمام ضمیریں مؤنث کی ضمیریں ہیں جبکہ اس آیت میں خدا فرماتاہے (لِیُذْھِبَ عَنْکُمْ) اور بظاہر اس کی کوئی وجہ نظر نہیںآتی کہ اگر اُن ہی سے خطاب تھا تو ضمیر اور آیت کاسیاق و لہجہ کیوںبدل دیا گیا ۔اس کے علاوہ شیعہ اور اہلسنّت کی ستّر سے زیادہ صحیح اور غیر صحیح طریقہ سے نقل ہونے والی روایتیں ہیں (جن میں بیشتر (روایتیں بہ ظاہراہلسنّت سے نقل ہوئی ہیں )اور ان سبھی میں کہا گیاہے کہ یہ آیت ''خمسہ طیّبہ ''یا ''پنجتن پاک'' سے مخصوص ہے اور یہ جملۂ شریفہ تمام جملوں سے جدا اور مستقل طور پر خمسۂ طیبّہ کی شان میں نازل ہواہے ۔
اگر ہم اس بارے میں فریقین کے طریقہ سے نقل ہونے والی ستّر روایتوں پر اعتماد نہ کریں تو پھر کس چیز پر اعتماد کریںگے ؟!اس بناء پر کسی بھی با انصاف محقق کیلئے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ یہ آیت، خمسۂ طیبّہ کی شأن میں نازل ہوئی ہے اور ان کی مخصوص طہارت پر دلالت کرتی ہے جس کوہم ''عصمت''کہتے ہیں اور جودلیل کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے یعنی گناہان صغیرہ اور کبیرہ سے پاک ہونا اور یہ ارادۂ تکوینی الٰہی کا مقتضی ہے ۔
خداوند عالم کے ارادۂ تکوینی کا مطلب یہ ہے کہ عصمت و طہارت یقیناً متحقق ہوگی اور ہوئی ہے البتہ اسکامطلب جبر نہیں ہے اور ہم نے الٰہی ارادہ کی بحث میں یہ واضح کردیا ہے کہ خداوندعالم کا تکوینی ارادہ ،چاہے وہ عالم میں پوراہوچکاہویا پوراہونے والا ہو،فاعل مختار کے اختیار سے ہوچاہے نظام جبرکے تحت قدرتی کا رندوں کے ذریعہ پورا ہوبہ ہر صورت پورا ہوتاہے لیکن الٰہی ارادہ فاعل مختار کے ارادہ کے طول میںہے نہ کہ عرض میں ۔ یہاں پر جب خدا فرماتاہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی طہارت یقینی اور خداوند عالم کے ارادۂ تکوینی کے تحت ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مجبورہیںبلکہ ان کے لئے ضمانت لی گئی ہے کہ وہ خود اپنے اختیار سے گناہ نہیں کرتے اور وہ طاہر خلق ہوئے ہیں ۔
لیکن نبی کی ازواج کا واقعہ بھی دلچسپ ہے جن روایتوں کو اہلسنّت نے نقل کیاہے ان میں قابل توجہ مطالب موجود ہیں مثال کے طورپر ''تفسیر ثعلبی ''میں عائشہ سے نقل ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تومیں نے پیغمبر اکرمۖ سے سوال کیا : أ انا مِنْ اَھلَ بَیْتِکَ ؟کیا میں آپ کے اہل بیت علیہم السلام میں سے ہوں ؟ آنحضرت نے فرمایا:(تنحی انت علی خیر)نہیں ، الگ ہی رہو، ام سلمہ سے نقل ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تومیں نے عرض کی کیا میں آپ کے اہل بیت علیہم السلا م میں سے ہوں تو آنحضرت ۖنے فرمایا : (انت علی خیر ) تم خیرپرہو،لیکن یہ نہیں فرمایا کہ تم میرے اہل بیت علیہم السلام میں ہو ۔
ان روایتوں کو خود ازواج نے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ازواج نبی شامل نہیں ہیں لیکن دیگ سے زیادہ گرم چمچے پیدا ہوگئے اور کہتے ہیں کہ یہ آیت ازواج نبی کی شان میں نازل ہوئی ہے اور عصمت پر دلالت نہیں کرتی، خداوند عالم جو قابل ہدایت ہیں ان کی ہدایت فرمائے(انشاء اﷲ)اور جو ہدایت کے قابل نہیںہیں مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔

ادیان کا اشتراک اور امتیاز
قرآن کریم سے پتہ چلتاہے کہ نبوت کا سلسلہ اول سے لیکر آخر تک ایک ہی سلسلہ ہے اس لحاظ سے بھی کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو خدائے وحدہ لاشریک نے ہی مبعوث کیاہے اور اس اعتبار سے بھی کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی بنیاد بھی ایک ہی ہے ،نبوت کے پیغامات جن کو دین کہاجاتا ہے اسی اصول پر مبنی ہیں کہ خدائے وحدہ لاشریک کی ہی عبادت کرنی اور اسکی اطاعت کرنی چاہئے دوسرے لفظوں میں انسان کوخدائے واحد کے حضور مطلق طورپر بغیر کسی قیدو شرط کے اپنے کو تسلیم کردینا چاہئے۔

اسلام ،دعوت انبیاء علیہم السلام کی روح
ہم مندرجہ بالا مطلب کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام آسمانی ادیان کی اسا س و بنیاد ایک چیز سے زیادہ نہیں ہے اور وہ یہ کہ اپنے کو خداوندعالم کے سامنے تسلیم کردیں، دوسرے لفظو ں میں تمام آسمانی ادیان ایک ہی دین ہیں وروہ ''اسلام'' ہے ۔
البتّہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وحی کے مطالب میں جوتمام انبیاء علیہم السلام پر کسی بھی زمان و مکان میں نازل ہو ئے ہیں کسی طرح کاکوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ،بلکہ بعض احکام کے جزئیات کامختلف زمانوں اور جگہوں یا مختلف اقوام کے اعتبار سے الگ ہوناممکن ہے لیکن سب کی اساس و بنیاد ایک ہی ہے اوروہ خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت ہے۔
(اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللَّہِ الْاِسْلَاٰمُ وَمَااخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوتُوْاالْکِتَابَ اِلَّامِنْ بَعْدِ مَاجَائَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیاًبَیْنَہُمْ وَمَنْ یَکْفُرْ بِآیَاتِ اللَّہِ فَاِنَّ اللَّہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔فَاِنْ حَآجُّوْکَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ لِلَّہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ وَقُلْ لِلَّذِیْنَ اُوتُواالْکِتَابَ وَالْاُمِّیِّیْنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْاوَاِنْ تَوَلَّوْافَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلاَغُ وَاللَّہُ بَصِیْربِالْعِبَادِ)(١)
''دین، اﷲ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے آپس میں اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ علم آنے کے بعد، صرف آپس کی شرارتوں کی بناء پر اور جوبھی آیات الٰہی کا انکار کرے (سن لے)کہ خدا بہت جلد حساب کرلینے والا ہے ۔(اے پیغمبر) اگر یہ لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں تو کہہ دیجئے کہ میرا رخ تمام تر اﷲ کی طرف ہے اور میرے پیرو بھی ایسے ہی ہیں اور پھر اہل کتاب اور جاہل مشرکین سے پوچھئے کیا تم بھی اسلام لے آئے ہو؟ اگر وہ اسلام لے آئے ہیں توگویا ہدایت پاگئے اور اگر منھ پھیر لیں تو آپ کا فرض صرف تبلیغ ہے اور بس اور اﷲ اپنے بندوں کو خوب پہچانتاہے''۔
معلوم ہوا دعوت انبیاء علیہم السلام کی روح وجان یہی اسلام ہے قرآن کریم کی آیات سے بھی اس بات کا اثبات ہوتا ہے ۔خداوند عالم فرماتاہے :
(وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ اِبْرَاھِیْمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنَٰہُ فِی الدُّنْیَاوَ اِنَّہُ فِی الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ)( ٢)
''اور کون ہے جو ملت ابراہیم سے منھ مو ڑے مگر یہ کہ اپنے کو بیوقوف اور نا سمجھ ثابت کرے؟
اور ہم نے ابراہیم کو دنیا میں منتخب قرار دیا ہے اور وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں ''۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انتخاب اس طرح عمل میںآیاکہ:
(اِذْقَالَ لَہُ رَبُّہُ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَٰالَمِیْنَ)(٣)
''جب ان سے ان کے پروردگار نے کہا کہ اپنے کو میرے حوالے کردو تو انھوں نے کہا کہ میں رب العالمین کے سامنے سرا پا تسلیم ہوں''۔
معلوم ہوا الٰہی انتخاب کا معیار یہی اسلام اور خود سپر دگی ہے ۔
صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کاہی دین اسلام نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنے فرزند کو بھی اسی دین اسلام کی وصیّت فرمائی تھی:
(وَوَصَّیٰ بِہَا اِبْرَاھِیْمُ بَنِیْہِ)(٤)
..............
١۔آل عمران آیت ١٩۔٢٠۔
٢۔سورئہ بقرہ آیت١٣٠۔
٣۔سورئہ بقرہ آیت ١٣١۔
٤۔سورئہ بقرہ آیت١٣٢۔
''اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنی اولاد کو وصیت کی ''۔
اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو اسی دین اسلام کے بارے میں وصیّت فرمائی تھی :
(یَابَنِیَّ اِنَّ اللَّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَموتُنَّ اِلَّاوَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ)(١)
''اے میرے فرزند اﷲ نے تمہارے لئے دین کو منتخب کردیا ہے اب اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہوجائو''۔
ایک اور آیت میں بھی حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو اسی دین اسلام کے بارے میں وصیّت فرمائی ہے:
(اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَآئَ اِذْ حَضَرَیَعْقوبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِی قَالُوْانَعْبُدُ الٰھَکَ وَاِلَٰہَ اٰبَائِ کَ اِبْرَاھِیْمَ وَاِسْمَٰعِیْلَ وَاِسْحَٰقَ اِلَٰھاً وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَ) (٢)
''کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کا وقت موت آیا اور انھوں نے اپنی اولاد سے پوچھا کہ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے تو انھوں نے کہا کہ آپ کے اور آپ کے آباء و اجدادابرہیم و اسماعیل و اسحاق کے پروردگار، خدائے وحدئہ لا شریک کی، اور ہم اس کے مسلمان اور اور سراپا تسلیم ہیں ''۔
حقیقت اسلام وہی فرمان خدا کو قبول کرناہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے تمام فرمان ہمیشہ یکساں رہے ہیںیا فرق کرتے رہے ہیں ؟ایک الگ مسئلہ ہے یہاں تک کہ ایک ہی دین میں بھی احکام خداکا ایک زمانہ سے دوسرے زمانہ میں الگ ہونا ممکن ہے دین اسلام میں بھی شروع میں تمام مسلمان بیت المقد س کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اس وقت بھی یہی اسلام تھا اورجب خداوند عالم نے فرمایا کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو توبھی اسلام کا تقاضا تھا کہ اس دوسرے حکم کو قبول کریں۔
اگر ادیان سابق میں بھی اس طرح کی چیزیں تھیں یعنی ایک دین میں ایک چیز حلال تھی اور دوسرے دین میں حرام تو یہ بھی اسی طرح کا نسخ ہے جو بعض وقت ایک ہی دین میں واقع ہوتاہے ۔
اس بناپرکہہ سکتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی روح وجان یہی خداوندعالم کے سامنے تسلیم ہوناہے
..............
١۔سورئہ بقرہ ١٣٣۔
٢۔سورئہ بقرہ آیت١٣٣۔
اور یہی وہ چیز ہے جسکا انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے یعنی فطرت انسانی تقاضا کرتی ہے کہ اپنے اختیارسے خداوندعالم کے سامنے تسلیم ہو ں،دین اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
(فَأَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَتَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْہَالَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَٰلِکَ الدِّیْنُ القَیِّمُ)( ١)
''آپ اپنا رخ کسی انحراف کے بغیر دین کی طرف رکھیں یہ دین و فطرت الٰہی کہ جس پر اس نے تمام انسانوں کو پیدا کیاہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور یہی پا ئدار دین ہے''۔
اس آیت سے صاف طور پرپتہ چلتا ہے کہ انسانی فطرت تقاضا کر تی ہے کہ اﷲکی طرف جھکا ؤاور خود کو اس کے مقابل تسلیم کردیں اور اسی سورہ میںایک دوسری جگہ پھر خداوند عالم فرماتاہے :
(فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنَ القَیِّمِ۔۔۔)(٢)
''اور آپ اپنے رخ کو مستقیم اور مستحکم دین کی طرف رکھیں ''۔

تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان ضروری ہے
ایک مسلمان کوتمام انبیاء علیہم السلام کے احکام و قوانین کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اوران میں سے کسی کے درمیان اور نیز ان کی کتابوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرنا چاہئے اسلئے کہ وہ سب خداوندعالم کی طرف سے مبعوث کئے گئے ہیں اور جس شخص نے اپنے کو خداوندعالم کے سامنے تسلیم کردیا ہواس کو اس کی نازل کردہ چیز بھی قبول کرنا چاہئے اور اس بات کو قرآن کریم میں اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ خداوند عالم نے انبیاء علیہم السلام سے بھی فرمایا اور عہد لیاہے کہ وہ ایک دوسر ے کی تائید کریں اورہر نبی کو اپنے پہلے کے نبی پر ایمان رکھنا چاہیے مومنین کو بھی گزشتہ انبیاء علیہم السلام اور ان پر وحی کئے جانے والے تمام قوانین پر ایمان رکھنا چاہئے ۔خداوند عالم فرماتاہے :
(وَاِذْاَخَذَاللَّہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَآئَ اتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَٰبٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَائَکُمْ رَسُوْل مُصَدِّق لِمَا
مَعَکُمْ لِتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنْصُرُنَّہُ قَالَ ئَ أَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلَیٰ ذَٰلِکُمْ أِصْرِیْ قَالُوأَقْرَرْنَاقَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَاْمَعَکُمْ مِنَ الشَّاھِدِیْنَ۔ فَمَنَّ تَوَلَّیٰ بَعْدَ ذَٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ)(٣)
..............
١۔سورئہ روم آیت٣٠ ۔
٢۔ سورئہ روم آیت ٤٣۔
٣۔سورئہ آل عمران آیت ٨١و٨٢۔
''اور جب خدانے تمام انبیاء سے عہدلیا کہ ہم تم کو جو کتاب و حکمت دے رہے ہیں اس کے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمھاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے تو تم سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا اور پھر پوچھا کیا تم ان باتوں کا اقرار کرتے ہو اور ہمارے عہد کو قبول کرتے ہو سب نے کہاہم اقرار کرتے ہیں۔ارشاد ہوا:بس تم سب گواہ رہنااورمیں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔اس کے بعد جو انحراف کرے گا وہ فاسقین میں ہوگا''۔
یہ دین خدا ہے جو تمام انبیاء علیہم السلام کو عطاکیا گیا اور ان سب سے عہد لیاگیاہے کہ اس سلسلہ کو قبول کریں اور ان کی تصدیق اور تأئیدکریں۔کسی مخصوص نبی کی اتباع کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو سب کو ایک خداکی طرف دعوت دیتارہا ہے اسکے بعد خداوندعالم فرماتاہے:
(اَفَغَیْرَدِیْنِ اللَّہِ یَبْغُوْنَ وَلَہُ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمَٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ طَوْعَاًوَکَرْھاًوَ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ)(١)
''کیا لوگ دین خدا کے علاوہ کچھ اور تلاش کر رہے ہیں جب کہ زمین ا ور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اپنے اختیار سے یا غیر اختیاری طور پر اسی کی با رگاہ میں سر خم کئے ہو ئے ہیں اور سب کو اسی کی بارگا ہ میں وا پس جا نا ہے ''۔
اس آیت کے بعد فرماتاہے :
(قُلْ ئَ امَنَّا بِاللَّہِ وَمَااُنْزِلَ عَلَیْنَاوَمَااُنْزِلَ عَلَیٰ اِ بْرَٰھِیْمَ وَاِسْمَٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَالْاَ سْبَاطِ وَمَااُوْتِیَ مُوْسیَٰ وَعِیْسَیٰ وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّ بِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَ )(٢)
'' ان سے کہہ دیجئے کہ ہما را اﷲ پر ،اور اس پرجو ہم پر نا زل ہو ا ہے اور(اسی طرح) جو ابرا ہیم اسما عیل، اسحاق ،یعقو ب اور اسباط پر نا زل ہو ا ہے اور جو مو سیٰ اور عیسیٰ اور انبیاء کو خدا کی طرف سے دیا گیا ہے ان سب پر ہمارا ایمان ہے ہم انکے درمیان کوئی تفر یق نہیں رکھتے اور ہم سب خدا کے اطا عت گذاربند ے ہیں ''۔
اور اسکے بعد خداوندعالم فرماتا ہے :
(وَمَنْ یَبْتَغِ غیْرَالْاِسْلَامِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَفِیْ الْأَخِرَةِ مِنَ الْخَٰسِرِیْنَ)َ(٣)
''اور جو اسلا م کے علا وہ کو ئی بھی دین اختیار کر ے گا وہ دین اس سے قبو ل نہ کیا جا ئیگا اور وہ قیا مت کے دن خسا رہ اٹھا نے والو ں میں ہو گا ''۔
دوسری آیتوںسے بھی ادیان اور انبیاء علیہم السلام کی ایک دوسرے سے وابستگی کا پتہ چلتا ہے ایک جگہ خدا
..............
١۔ سورئہ آل عمران آیت٨٣۔
٢۔سورۂ آل عمران آیت٨٤۔
٣۔سورئہ آل عمران آیت٨٥۔
فرماتاہے :
(شَرَعَ لَکُم مِنَ الدِّ یْنَِ مَاوَصَّیٰ بِہِ نُوْحاًوَّالَّذِ یْ اَوْحَیْنَآاِلَیْکَ وَمَاوَصَّیْنَابِہِ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسَیٰ وَعِیْسَیٰ اَنْ اَقِیْمُوْاالدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْافِیْہِ کَبُرَعَلَیٰ الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ اللَّہُ یَجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَیَھْدِیْ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ۔وَمَاتَفَرَّقُوْا اِلَّامِنْ بَعْدِ مَاجَا ئَھُمُ الْعِلْمُ بَغْیاًبَیْنَھُمْ ۔۔۔)(١)
'' اس نے آپ کے لئے وہ آئین بنا یاہے جس کی نو ح کو نصیحت کی تھی اور جس کی (اے نبی) آپ کی طرف وحی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم ، مو سیٰ اور عیسیٰ کو بھی کی ہے کہ دین کو قا ئم کریں اور اس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے پا ئے مشر کین کو وہ بات گراں گذر تی ہے جس کی آپ انھیں دعوت دے رہیںاﷲ جس کو چا ہتا ہے اپنی رسالت کے لئے چُن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجو ع کر تا ہے اس کی اپنی طرف ہدا یت کر دیتا ہے اور لو گو ں نے آپس میں تفر قہ نہیں کیا مگر یہ کہ جب ان کو علم و دانش ہاتھ آگیااور ایک دوسرے پر تسلط مل گیا''۔
اوراس کے بعد آخر میں خداوندعالم ارشاد فرماتاہے :
(۔۔۔وَقُلْ ئَ امَنْتُ بِمَآاَنْزَلَ اللَّہُ مِنْ کِتَٰبٍ )(٢)
''اور کہہ دیجئے کہ میرا ایمان ہر اس کتاب پر ہے جو خدا نے نا زل کی ہے ''۔
یعنی الٰہی کتابوںاور وحی کے مطالب میں کوئی تعارض اور ٹکراؤنہیں ہے سب ایک ہی راہ کی نشاندہی کرتے ہیں اور ایک ہی چیز کی دعوت دیتے ہیں اور تمام لوگوں کو انھیں قبول کرنا چاہئے۔
خداوندعالم، متّقین کی تعریف کر تے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
(وَالَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِمَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ۔۔۔)(٣)
''وہ لوگ ان تمام با توں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو (اے رسول ) آپ پر نا زل ہوئی ہیں اور جو آپ سے پہلے نا زل کی گئی ہیں '' ۔
ایک اور آیت میں فرماتاہے :
(قُوْلُوْائَ امَنَّابِاللَّہِ وَمَآاُنْزِلَ اِلَیْنَاوَمَآاُنْزِلَ اِلَیٰ اِبْرَٰھِیْمَ وَاِسْمَٰعِیْلَ وَ اِسْحَٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَااُوْتِیَ مُوْسَیٰ وَعِیْسَیٰ وَمآاُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّ بِّھِمْ لَاْنُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَہُ
..............
١۔ سورئہ شوریٰ آیت۔٣ا۔١٤۔
٢۔سور ئہ شوریٰ آیت ١٥۔
٣۔سورئہ بقرہ آیت٤۔
مُسْلِمُوْنَ۔فَاِنْ ئَ امَنُوْابِمِثْلِ مَآئَ امَنْتُمْ بِہِ فَقَدِاھْتَدَوْاوَاِنْ تَوَلَّوْافَاِنَّمَاھُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللَّہُ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ)(١)
''اور (مسلمانو) تم ان سے کہو کہ ہم اﷲ پر اور جو اس نے ہما ری طرف بھیجا ہے اور جو ابر ا ہیم ، اسما عیل ، اسحٰق ، یعقوب ،اولادِ یعقوب کی طرف نا زل کیا ہے اور جو مو سیٰ ،عیسیٰ اور انبیاء کو پر ور دگار کی طرف سے دیا گیا ہے ان سب پر ایمان لے آئے ہیں ہم پیغمبروں میں تفریق نہیں کر تے اور ہم سب خدا کے سچے مسلمان ہیں ۔اب اگر یہ لوگ بھی ان سب پر تمہاری طرح ایمان لے آئیں تو ہدایت یا فتہ ہو جا ئیں گے لیکن اگر منھ مو ڑلیں تو یہ صرف تمہاری ہی مخالفت ہے پس اُ ن کے خلاف تمہا رے لئے خدا کا فی ہے وہ بڑا سننے والا بھی ہے اور جا ننے والا بھی ''۔
(اٰ مَنَ الرَّ سُوْلُ بِمَااُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہِ وَالْمُوْ مِنُوْنَ کُلّ اٰمَنَ بِاﷲِ وَمَلٰئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ ۔۔۔)
''رسول خود بھی ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتا ہے جوکچھ اُن پر ان کے پر ور دگا رکی طرف سے نا زل کیا گیا ہے ا ورتمام مو منین بھی اﷲ،اس کے ملا ئکہ اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں '' ۔
(یَاَاَیُّھَاالَّذِیْن ئَ امَنُوْا ئَ امِنُوْا بِاللَّہِ وَرَسُوْلِہِ وَالْکِتَٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُوْلِہِ وَالْکِتَٰبِ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ۔۔۔)(٢)
''اے ایمان وا لو خدا اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (محمد )پر نا زل کی ہے اور اس کتا ب پر جو اس نے پہلے نا زل کی ہے ایمان لا ؤ''۔
بنابرین، جولوگ اس طرح کا ایمان نہیں رکھتے اور مطلق طور پر کسی قید وشرط کے بغیر خدا کے سا منے تسلیم نہیں ہوسکتے ان کا ایمان قابل قبول نہیں ہوگا ۔
ہم نے اس سے پہلے توحیدکی بحث میں کہاتھا کہ ایک خدا پرست مومن کے لئے اس بات پر ایمان ضروری ہے کہ پوری کا ئنات کا خالق ایک ہی ہے (خالقیت میں توحید )اور وہی پوری کا ئنات کے تخلیقی نظام اور شرعی نظام کا پرور دگار بھی ہے (ربوبیت میں توحید )؛اب اگر کوئی توحید خا لقیت پر ایمان رکھتا ہو اور ربوبیت میں توحید کا انکار کرے تو گو یا وہ اصل توحید کا ہی منکر ہے ۔ مو من کا ان دونوں پر ایمان ضروری ہے اور تجزیہ کریں تو اسی حقیقت کا پتہ چلے گا توحید ،خدا کے سا منے خود کو تسلیم کر دینے کا نام ہے ''ایمان با للہ ''کی تو ضیح کریںتو یہ تمام مطالب
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت ١٣٦و١٣٧۔
٢۔سورئہ نساء آیت ١٣٦۔
سا منے آتے ہیں ورنہ ہم نے عرض کیا تھا کہ شیطان خدا پر ایمان کے با وجود تمام کفار و مشرکین سے بد تر تھا کیوں اس کا ایمان مطلق نہیں تھا ایسا نہیں ہے کہ ایمان کے متعلقات ایمان کے مدارج طے کر تے ہوں یعنی جو خدا کی خالقیت مانتا ہو اس نے ایک حد تک سعادت پا لی ہو جی نہیں ،وہ ایمان کے کسی درجہ پر نہیں ہے اس کا ایمان زیرو ہے خدا وند عالم ارشا د فر ماتا ہے :
(اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُ وْنَ بِاﷲِ وَرُسُلِہِ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْابَیْنَ اﷲِ وَرُسُلِہِ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ)(١)
''بیشک کچھ لوگ ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں اور خدا اور رسول کے درمیان جدا ئی ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کو نہیںما نیں گے ''۔
(وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَتَّخِذُوا بَیْنَ ذَٰلِکَ سَبِیْلاً )(٢)
''اور وہ چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے درمیان، کوئی نیا راستہ نکال لیں''۔
(أُولَٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقًّاوَاَعْتَدْنَالِلْکَافِرِیْنَ عَذَ اباًمُھِیْناً)(٣)
''اس طرح کے لوگ در حقیقت کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے بڑا رسوا کرنے والا عذاب تیار کررکھاہے ''۔
(وَالَّذینَ ئَ امَنُوابِاﷲِ وَرُسُلِہِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ اَحَدٍ مِنْہُمْ أُولَٰئِکَ سَوْفَ یُؤتِیْہِمْ اُجُوْرَھُمْ وَکَانَ اﷲُ غَفُورَاًرَحِیْماً)(٤)
''اور جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں اوراس کے رسولوں کے درمیان جدائی کے قائل نہیں ہیںخدا عنقریب انھیں ان کا اجر عطا کرے گا اور وہ بہت زیادہ بخشنے والااور مہربانی کرنے والاہے ''۔
معلوم ہواجس طرح مقام تو حید میں اُس کے تمام ضروری مراتب کا تسلیم کر نا ،ضروری ہے نبو ت میںبھی جو کچھ اللہ کی طرف سے نا زل ہو ان سب کا قبو ل کر نا ضروری ہے، اس لئے کہ بعض کا انکار گو یاکل کا انکار ہے اور جن لوگوں نے خدا وند عالم کے تمام احکام کو قبول نہیں کیا خدا وند عالم نے ان کی سر زنش کی ہے :
..............
١۔سورئہ نساء آیت١٤٩۔
٢۔سورۂ نساء آیت١٥٠۔
٣۔سورۂ نساء آیت ١٥١۔
٤۔سورۂ نساء آیت ١٥٢۔
( قُلْ یَااَھْلَ الْکِتَٰبِ ھَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّااِلَّااَنْ ئَ امَنَّابِاللَّہِ وَمَآاُنْزِلَ اِلَیْنَاوَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَاَنَّ اَکْثَرَکُمْ فَٰسِقُوْنَ)(١)
''(پیغمبر آپ) کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب کیا تم ہم سے صرف اس بات پر ناراض ہوکہ ہم اﷲاور اس نے جوکچھ ہم پر یا ہم سے پہلے نازل کیا ہے ان سب پر ایمان لائے ہیں اور تمہاری(تو) اکثریت فاسق اور نافرمان ہے''۔
قر آن نے اسی پر اکتفاء نہیں کی ہے ،بلکہ جو لوگ دین میں یا اس کی کتا بوں اور رسولوں کے درمیان جدائی کے قائل ہوئے ہیں انہیں مشر کین میں شمار کیاہے :
(وَلَاتَکُوْنُوْامِنَ الْمُشْرِکِیْنَ)(٢)
''اورخبردار مشرکین میں نہ ہوجانا''۔
اس کے بعد تفسیرو تشریح کر تا ہے:
(مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَہُمْ وَکَانُواشِیَعاًکُلُّ حِزْبٍ بِمَالَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ)(٣)
''وہ لوگ کہ جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں پھرہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی میں مست اور مگن ہے''۔
یہ بھی ایک قسم کا شرک ہی ہے کہ انسان دین کے بعض احکام کو تو قبول کر تا ہو اور بعض احکام کا انکار کر دے، اس نے بعض احکام کو کس اساس و بنیاد پر ترک کیاہے ؟اگر بعض احکام کو قبول کر نا اللہ کی تشریعی ربوبیت پر ایمان رکھنا ہے تو بعض احکام کا انکار اور ان کی جگہ کسی دو سری چیز کے تسلیم کرنے کا مطلب کسی دو سرے کو معبود تسلیم کر لینا ہے ۔ پس جو لوگ دین میں تفر قہ اندازی کے قائل ہیں وہ گویا حقیقت میں مشرک ہیں ۔
(وَ اَنَّ ھَذَاصِرَٰاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاَتَّبِعُوْہُ۔۔۔)(٤)
''اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کا اتباع کرو ۔۔۔''۔
..............
١۔سورئہ ما ئدہ آیت٥٩۔
٢۔سورئہ روم آیت ٣١۔
٣۔سورئہ روم آیت ٣٢۔
٤۔سورئہ انعام آیت١٥٣۔
ایک دو سرے مقام پر خدا ئے یکتا و یگانہ کی پر ستش کو''سیدھا راستہ''کہا گیا ہے ۔
(وَاَنِ اعْبُدُونِیْ ھَذَٰا صِرَٰاط مُسْتَقِیْم)(١)
''اور میری ہی عبادت کرنا یہی صراط مستقیم اورسیدھا راستہ ہے ''۔
(وَلَا تَّتَبِعُّواالسُبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیِْلِہِ)
''اورمختلف راستوں پر نہ چلوکیونکہ اس طرح راہ خداسے بھٹک کر بکھر جاؤ گے''۔
(ذَٰلِکُم وَصَّٰکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ)(٢)
''اس لئے پروردگار نے ہدایت کی ہے کہ تم اس طرح شاید متقی اور پرہیز گار بن جاؤ''
یہا ں سے ہم پر اُس آیت کا مفہوم با لکل واضح ہو جا تا ہے کہ جس میں خد وند عالم فر ماتا ہے:
(وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعاً وَلَا تَفَرَّقُوْا۔۔۔)(٣)
''اور اﷲکی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو ''۔
یہاں پر تفر قہ سے مراد اللہ کے دین اور اللہ کی راہ سے تفر قہ کر نا ہے ۔خدا کے راستے سے منحر ف نہ ہونا اس لئے کہ یہ اختلاف اور جدائی کا با عث ہے ۔
تمہا ری وحدت اور یکجہتی کاوسیلہ یہی ہے کہ تم سب کے سب خدا کی راہ میں،ایک راستہ اور ایک مقصد کی طرف حر کت کرو ۔دو سرے وسائل تمہا رے متفرق ہو نے کا با عث نہ بنیں۔
(اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُواشِیَعاً لَسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْ ئٍ)(٤)
''جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے''۔
اس بنا پر اسلام کا تقاضا ہے کہ جو کچھ بھی خدا نے بھیجا ہے کسی بھی دور میں کسی بھی نبی پر کیوں نہ بھیجا ہوان کو تسلیم کیا جا ئے ۔یہ بات اس بات کی نشا ندہی کر تی ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی تعلیمات میں کو ئی تنا قض و تضاد نہیں پایا جاتا ، اس لئے کہ اگر ان میں تضاد ہوتا اور ایک کا قبول کر نا دوسرے کے قبول نہ کر نے کا سبب بنتا تو انسان کے لئے ہرایک
..............
١۔سورئہ یس آیت٦١۔
٢۔سورئہ انعام آیت١٥٣۔
٣۔سورئہ آل عمران آیت ١٠٣۔
٤۔سورئہ انعام آیت ١٥٩۔
کا قبول کر نا ممکن نہیں تھا جب ہم خدا کی نازل کی ہوئی تمام چیزوں کو قبول کر تے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان کو ئی اختلاف نہیں ہے اگر جزئی احکام میں بعض اختلاف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم اُس زمانہ تک معتبر تھا یا کسی خاص شخص اورگروہ کے لئے خدا وند عالم کی طرف سے ایک مخصوص حکم یا دستور آیا تھااور دوسرے افراد بھی ان قوانین کا ان کے لئے صحیح اور بجا ہونا قبول کر تے ہیں ۔ تورات پر ایمان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم اس زمانہ میں بھی تو رات کے حکم پر عمل کر یں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بنی اسرائیل اور اُن کے زمانہ سے مخصوص تھا اور توریت میں بغیر کسی تحریف کے آیا ہے اس کو صحیح اور حق سمجھیں لیکن اس زمانہ میں خدا وند عالم کے قوانین پر عمل کر نے کے متعلق ہم کو یہ دیکھنا چا ہئے کہ اس دور میں خداوندعالم ہم سے کیا چا ہتا ہے ۔
پس کسی پیغمبر پر ایمان لاناتمام انبیا ء علیہم السلام پر ایمان رکھنے کا بھی متقاضی ہے ،کیونکہ سب کا ایک ہی راستہ ہے ۔
اگر حقیقت میں کو ئی حضرت مو سیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام یاحضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے تو اس کو تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لا نا چا ہئے ۔کیا حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد آنے والے نبی کی لوگوں کو بشارت نہیں دی تھی ؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت محمد ۖکے آنے کی بشارت نہیں دی تھی ؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر تو ایمان رکھتا ہو لیکن جس نبی کاخود حضرت عیسیٰ علیہ السلام تعارف کرائیں ان پر ایمان نہ لا ئے یہ انکار،حقیقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعو ت کا انکار ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ جنھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو قبول کیا ہے اور ان کے دین پر عمل کر تے ہیں حقیقت میں وہ مومن ہیں یا یہ کہ وہ جا نتے ہیں کہ یہ پیغمبروہی پیغمبر ہے کہ جس کے آ نے کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی تھی اور ان پر ایمان لا نے کی سفارش کی تھی اور یہ ان کے مومن ہو نے کے لئے کا فی ہے ۔
بلکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس کی بنیاد پر جو لوگ اس زمانہ میں اپنے کو کسی گزشتہ نبی کا پیروسمجھتے ہیں اگر ان پر حجت تمام ہو گئی ہو اور حضرت محمد خا تم النبیین ۖ کی نبو ت ان کے لئے ثابت ہوتو ان کا خود اپنے نبی پر ایمان لا نا تقاضا کر تا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام ۖپر بھی ایمان لا ئیں، آج کے دور میں حضرت مو سیٰ علیہ السلام کاپیرو حقیقی یہو دی وہی ہے جو مسلمان ہو ،اس لئے کہ یہو دیت کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فر مایا ہے اس کو تسلیم کریں ،حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فر ما یا تھا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں تو ان کی مدد کرنا اور ان کی دعوت پر لبیک کہنا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایاتھا :
(وَ مُبَشِّراً بِرَسُوْ لٍ یَا تِیْ مِنْ بَعْدِیْ اِسْمُہُ اَحْمَد)

پس حقیقی نصرانی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کر نے والا وہ ہی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد پیغمبر اسلا م ۖکی نبوت کو تسلیم کر تا ہو ۔
کو ئی فرق نہیں ہے چا ہے یہودی ہو ،نصرانی ہو یا مسلمان سب کو اسلام اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کر نا ہے۔حقیقی یہو دی وہی ہے جو پیغمبر اسلام ۖ پر ایمان رکھتا ہو ،اور حقیقی مسلمان وہی ہے جو حضرت مو سیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا اقرار کر تا ہو لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس دور میں جو چا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تابع ہو جا ئے اور جو چا ہے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا تابع ہو جا ئے ۔حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا پیرو وہ ہے جو حقیقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور پیغمبر اسلام ۖ کی نبوت اگر اس کے لئے ثابت ہو گئی ہو تو اس پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اس نے حضرت موسیٰ کی نبوت کے بعض حصہ کو قبول نہیں کیا ہے ،اور جب ایک حصہ کو قبول نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے پوری نبوت ِمو سیٰ علیہ السلام کو تسلیم نہیں کیا ہے ،اس لئے ہم عرض کر چکے ہیں کہ کسی چون و چرا اور کسی قید و شرط کے بغیر قبول کرنا چا ہئے۔اگرایساہو تو پھر کو ئی اختلاف ہی با قی نہیں رہ جاتا ۔ حضرت مو سیٰ پیغمبر ہیں اور جب تک آپ کی نبوت کے لئے کو ئی نا سخ نہ آجا ئے اس وقت تک آ پ کے لا ئے ہو ئے احکام کی اطاعت وا جب ہے۔اگر ہم بھی اس زمانہ میں ہو تے تو تو رات کے قوانین پر عمل کر تے ۔بعد کے زمانہ میں اگر بعض احکام تبدیل ہو چکے ہوں تو جدید احکام پرہی عمل کر نا چاہئے ویسے ہی کہ جیسے خود حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہو کہ اب اس کے بعد اس طرح عمل کرنا ۔
پس معلوم ہوا کہ دین ایک ہے اور دین کے کچھ احکام میں جزئی قسم کا اختلاف دین کو دو نہیں کرد یتا ،ہمیشہ سے یہی دین تھا اور ہمیشہ یہی دین رہے گا ۔