|
حضرت محمد مصطفےٰ ۖ
کچھ اور آیتیں پیغمبر اسلام ۖ کے با رے میں ہیں جن میں سے بعض میں پیغمبراکر م ۖ کی طرف علی الظاہر گناہ اور استغفار کی نسبت یہا ں تک کہ گذشتہ آ یتو ں سے بھی زیا دہ صاف الفاظ میں نظر آتی ہے ۔
پہلی آیت
( اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُبِیْناً۔لِیَغْفِرَلَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَ نْبِکَ وَمَاتَاَخَّرَ)(١)
..............
١۔سو رئہ فتح آیت ا۔
''ہم نے حقیقتاً تم کو کھلم کھلا فتح عطا کی تا کہ خدا تمہا رے اگلے اور پچھلے گنا ہ معاف کر دے''۔
یہ آیت سے اس بات پر دلالت کر تی ہے کہ پیغمبر اکر م ۖ بھی(نعوذ با ﷲ ) گنا ہ کے مر تکب ہو ئے وہ بھی ایک مر تبہ نہیںبلکہ آپ نے کم سے کم دو مر تبہ ،ایک گناہ ما تقد م (یعنی زما نۂ گذشتہ سے اور دو سرا ما تا خر(یعنی آنے وا لے زمانہ سے تعلق رکھتاہے )اور خدا نے ان کو بخش دیا ہے۔
جو آ یتیںذنب (گنا ہ ) اور استغفار پر دلالت کر تی ہیں ان کا مجمو عی طور پرایک جواب ہے اور سو رئہ فتح کی پہلی آ یت کا ایک مخصو ص جوا ب ہے ۔
جن آ یا ت میں مطلق طور پر استغفارکا حکم دیا گیا ہے یا ان میں'' ذنب ''یعنی گناہ کی لفظ استعمال ہو ئی ہے وہ بھی پہلے بیان شدہ مقد مہ کی رو شنی میں اس بات پر دلا لت نہیں کر تیں کہ پیغمبر نے ( العیاذ باﷲ ) حرام شر عی کا ارتکاب کیا ہو ۔ہاں ،فی الجملہ ظا ہرِ آیت سے گنا ہ کا اثبات ہو تا ہے اور اس گنا ہ کی بہ نسبت خدا وند عا لم کی طرف سے مغفرت بھی ثابت ہے ۔
پہلی نظر میں ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ یہ گنا ہ تر کِ اولیٰ یا کسی مکروہ فعل کے ارتکاب سے تعلق رکھتا ہے لیکن ذرا غور و فکر کے بعد یہ کہا جا سکتاہے کہ یہ آ یتیں حتی پیغمبراکر م ۖ سے کسی مکروہ فعل کے ارتکاب کو بھی ثابت نہیں کرتیں ۔اس بات کی وضاحت کے لئے ایک مقد مہ کی ضرو رت ہے : کبھی لفظ ذنب (گناہ ) خدا وند عا لم کے کسی ایسے قا نون کی مخالفت کے معنی میں استعما ل ہو تا ہے کہ جس پر عمل لازم ہے،جس پر ممکن ہے دنیا میں سزا ملے، اور اگر دنیا میں سزا نہیں ملی تو آ خرت میں بہر حا ل اس کی جزا ء سزا دی جا ئیگی لیکن کبھی لفظ '' ذنب ''کامعنوی مدارج کے لحا ظ سے استعمال ہو تا ہے۔
مر حوم علا مہ طبا طبا ئی '' تفسیر میزا ن ''میں فر ما تے ہیں '' ذنب '' تین طرح کا قابل تصور ہے :
١۔ ذنبِ قا نو نی (وضعی) یعنی ایک قا نون بنا دیا گیا اور اس کی مخا لفت کی جا ئے جو حرام ہے ۔
٢۔ذنبِ اخلا قی :یعنی انسا ن ایک ایسے عمل کا ارتکاب کرے جو مکا رمِ اخلا ق سے منا فات رکھتا ہو اگر چہ وہ شرعی اعتبا ر سے حرا م نہ ہو یعنی وہ عمل جو نا پسند آثا ر انسان کی روح پرمر تب کرے اور ان دونو ں سے الگ ایک تیسری صورت ہے یعنی :
٣۔مقا م محبت میں کسی عمل کا انجام دینا درست نہ ہو جو قا نو نی مخا لفت نہیں ہے اور نہ ہی اخلا قی رذا یل کا سبب ہے لیکن مقام محبت اس کا متقاضی نہیں ہے ۔ محبت تقا ضا کر تی ہے کہ محب، محبو ب کے تئیں پوری طرح مطیع و منقاد ہو اس کی پو ری تو جہ اپنے محبوب کی طرف ہو اور کسی حا ل میں بھی وہ اپنے محبو ب سے غافل نہ ہو اسکا تمام رنج و غم اس لئے ہو کہ اس کا محبوب کیا چا ہتا ہے تاکہ وہی کام انجام دے اور اپنے محبوب کے سواکسی اور کی فکرنہ کرے ۔
مقام محبت کے بھی خا ص آ داب ہو تے ہیں جن کا حساب و کتاب قانون اور اخلاقیات سے جدا ہے محب اور محبوب کے درمیان ایک خاص رابطہ ہو تا ہے ۔ او لیا ئے خدا اور انبیا ئے عظام چونکہ خدا کی محبت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔ تو ا س مقا م محبت کا تقا ضا ہے کہ ان کی پو ری تو جہ اپنے معبو د کی طرف ہو ،خدا وند عالم کے علا وہ کسی اور کی بالکل فکر نہ کریں اور خدا وند عا لم کی رضا کے سواکسی اورچیز کی خواہش نہ ہو ۔ اگر اس مقا م محبت کے خلاف کو ئی فعل انجام پایا اور اپنے محبو ب حقیقی کے علا وہ کسی اور کی طرف متو جہ ہو ئے تو اس کو اپنے لئے گنا ہ تصو ر کر تے ہیں اور مقام استغفا رمیں وہ اس گنا ہ سے استغفا ر کر تے ہیں ۔
البتہ تما م اولیا ء و انبیا ء علیہم السلام کا ایک مقام اورایک ہی منز لت نہیں ہے بلکہ ان کے مرا تب جدا جدا ہیں اور ہر ایک اپنے مقا م کی منا سبت سے گنا ہ کا احساس کر سکتا ہے ۔ ایک در جہ کے افراد کیلئے ممکن ہے ایک کام گناہ نہ ہو لیکن اس سے بلند مرتبہ والے نبی یا ولی کی نظر میں اس کام کا ارتکاب گناہ شمار ہوتا ہو بہر حال جتنا بھی خداوند عالم سے قریب ہوتاجائیگا اتناہی احساس گنا ہ بھی لطیف لیکن اس کے ساتھ ہی عظیم ہوتاجائیگامثال کے طورپرذہن کو قریب کرنے کے لئے فرض کیجئے کہ عام طور پر رائج امورمیں اگر ایک بڑی شخصیت مثلاً ایک مجتہدمرجع تقلید یا کسی دنیاوی منصب پر فا ئز شخص کو نظر میں رکھ لیجئے تو جتنے لوگ ان سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کے تعلقات ایک طرح کے نہیں ہوتے تعلق کا ایک عام درجہ ہے جس کے تحت تمام افراد کا ایک ہی فریضہ ہے اس درجہ میں ان کی توہین کرنا یا مثال کے طورپربرا بھلا کہنا یا گالی دینا حرام ہے اور اگر کوئی شخص توہین نہ کرے تووہ کسی گناہ کا مرتکب نہیں کہا جائے گا ۔فرض کیجئے کہ اگر ایک بے معرفت شخص ان کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھ جائے تو کوئی اس کو گنا ہگار نہیں کہے گا لیکن جو افراداس اعلیٰ مر تبہ شخص سے قریب ہیںان کے فرائض بھی اُس کے تئیں زیادہ ہیں اگر وہ ان فرائض کو انجام نہ دیں تو ممکن ہے قانونی خلاف ورزی نہ کہی جائے لیکن انھوں نے اپنے مقام و مر تبہ کے تقا ضے کو پورا نہیں کیاہے جو شخص بھی اس اعلیٰ مرتبہ شخصیت سے جتنا زیادہ قریب ہوگااُتنا ہی اس کا فریضہ بھی زیادہ ہوگا جس کا دوسرے کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ یہ بھی کوئی فریضہ ہوسکتا ہے اور اُن کویہ کام انجام دینا چاہئے اصل میں جو لوگ اس سطح کے افراد نہیں ہیں وہ یہ محسوس نہیں کر سکتے کہ اس طرح کا بھی کوئی فریضہ ہے لیکن وہ ایسا مخصوص مقام ہے کہ اس کے فرائض بھی مخصوص ہیںوہ لوگ جو اس عظیم شخصیت کے مقرب ہیںآمدورفت کے وقت بھی ان کا فریضہ ہے کہ اُن کی طرف پیٹھ نہ کریںاور اگر کبھی خلاف ادب کوئی عمل ان سے سرزد ہوجاتا ہے تووہ اس کو اپنے لئے گنا ہ شمار کرتے ہیں ۔
پس اس طرح کے اشخاص کی طرف گناہ کی نسبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان محرمات کے مرتکب ہوئے ہیں جن سے عام لوگوں کو منع کیا گیا ہے وہ اس درجہ اور اس مقام پر فا ئز افراد سے مخصوص ایک چیز ہے ا ن کے لئے جو معرفت و بصیرت کے لحاظ سے ایک اعلیٰ درجہ پر فا ئز ہیں ممکن ہے ان کی نظر میں گناہ اتنا بڑا ہو جو عام لوگوں کے محرمات کے ارتکاب سے بھی کہیں زیادہ عظیم ہو اور اگر ایسا کوئی فعل سر زد ہو جا ئے تووہ ایک عام آدمی کے مقابل کہ جس سے کوئی حرام فعل سر زد ہوگیا ہو کہیں زیادہ گناہ کا احساس کرتاہے اور یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے : (حسنات الابرارسیئات المقرّبین )
مقربین کے اپنے تقرب کے اعتبار سے ہی مخصوص فرائض ہوتے ہیں جن کی خلاف ورزی وہ اپنے لئے گناہ شمار کرتے ہیں اور اس گنا ہ کا لازمہ اپنے محبوب سے دور ی ہے نہ یہ کہ ان گناہوں کالازمہ عذاب جہنّم اور بہشت سے محرومی ہو ان کوسب سے زیادہ یہ خوف رہتاہے کہ کہیں ان کے محبوب کا لطف کم نہ ہوجائے اور وہ اس کی بے تو جہی کا مرکز قرار پاجائیں، ان کیلئے ایسا ہوجانا جہنَم کے ہر عذاب سے زیادہ سخت اور عظیم ہے اور چو نکہ ان کو یہ ڈرلگا رہتاہے کہ کہیں ان سے کوئی ایسا فعل سرزدنہ ہوجائے کہ وہ اس کی آنکھوں سے گرجائیں اور ہم پر اسکالطف کم نہ ہوجائے لہٰذا ان کوخوف بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے اور اگر ان سے کوئی ایسا فعل سرزدہ ہوگیاہوجو اس سے دوری کا باعث ہو تووہ دو سروں سے زیادہ خائف ہوجاتے ہیں اور توبہ و استغفار کرنے لگتے ہیں ۔
پیغمبر اکرم ۖتمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تھے بلا شبہ آپ پروردگار عالم سے تقرب کے اعلیٰ ترین درجہ پر فا ئز تھے اور سب سے بلند مرتبے پر فا ئز ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ آ پ کی ذمہ داریاں بھی سب سے سخت ہوںلہٰذا آپ کو فرائض کے پورا نہ کرنے کی بھی سب سے زیا دہ فکر رہتی تھی کہ فریضہ میں کو تا ہی نہ ہو نے پا ئے بہرحال دنیا وی زندگی کے بھی کچھ ضروریات ہیں حتیٰ ممکن ہے یہ ضروریات شرعی طور پر واجب بھی ہوں لیکن وہی چیز جوقانونی طور پر واجب ہے ممکن ہے مقام محبت میں وہی کام گناہ شمار ہو ۔محبت کا لازمہ یہ ہے کہ محب کی توجہ صرف اور صرف اپنے محبوب کی طرف ہو لیکن خود محبوب کا حکم ہے کہ جائو شادی کرو، زندگی بسرکرو،کھانا کھائو اور لوگوں کے ساتھ معاشرت کرو یہ تمام واجب فریضے ہیں جن کو انجام دینا چاہئے لیکن انسان اپنی جگہ احساس گناہ کرتاہے ۔فکر یہ ہے کہ کہیںتوجہ کا ایک حصہ بھی غیر خدا کی طرف مر کوز نہ ہو جا ئے اس کے بعد بھی یقیناً ایسا نہیں ہے کہ دنیوی زندگی کی ضروریات کی طرف توجہ ان کو خدا سے غا فل کر دے لیکن ڈرتے ہیں کہ کہیں اس میں معمو لی ترین کمی یا کمزوری نہ آجائے اسی لئے اس حد تک بھی دنیوی امور کی طرف توجہ وہ اپنے لئے گنا ہ تصور کر تے ہیں ۔
بنا بریں پیغمبر اسلام ۖجیسے کی طرف گناہ اور استغفار کی نسبت دنیا ان کے اس مقام و مر تبہ کے اعتبارسے ہے کہ جس پر وہ فا ئز تھے اور اس کی یہی تو جیہ کی جاتی ہے۔ ائمہ اطہار سے مروی یا منسوب مناجات اور دعائو ں میں جو مطالب بیان ہو ئے ہیں کہ جن میں ائمہ نے اپنے لئے سب سے بڑے گناہگا ر ہو نے کی بات کی ہے ۔مثلاً یہ کہنا کہ : ''کو ن ہے جس نے میر ے طرح یوں گنا ہ کئے ہوں '' ان سب کی بھی تو جیہ یہی ہے کہ وہ اپنے مقام و مر تبہ کے اعتبار سے کہ جس پر وہ فا ئز تھے خدا کے علا وہ کسی اور طرف اپنی معمولی ترین توجہ کو بھی اپنے لئے سب سے بڑا گنا ہ سمجھتے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ اپنے کو سب سے بڑا گنا ہ گار کیو ں سمجھتے تھے ؟اس لئے کہ وہ اس چیز سے آگا ہ تھے کہ اور لو گ اُس فریضہ کے حا مل نہیں ہیں اس لئے کہ وہ ان کی ما نندمعرفت اور محبت نہیں رکھتے ۔ پس معلوم ہوا کہ ان کی طرف گنا ہ کی نسبت قطعی طورپر حرا م شر عی کے ارتکاب کے معنی میں نہیں ہے لیکن سورئہ فتح کی آیت میں :
(اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاًمُبِیْنًا۔لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ)
''ہم نے تم کو حقیقتاً کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے تا کہ خدا تمہا رے اگلے اور پچھلے گنا ہ معا ف کر دے ''
اگر غو ر و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ اس آ یت میں ایک اور خصو صیت پا ئی جا تی ہے، خو د آ یت اس با ت کی گواہ ہے کہ یہ گنا ہ ان مسا ئل سے کو ئی ربط نہیںرکھتا یہ کو نسا گنا ہ ہے کہ جب پیغمبر ِ اکر م کو فتح ملتی ہے تو آپ کا گنا ہ بخش دیا جاتا ہے یہ پیغمبر اکرم ۖ کی قیا دت میں مسلما نو ں کو فتح نصیب ہو ئی ہے جس میں کفا ر و مشر کین کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ خدا وند عا لم فر ما تا ہے : ہم نے تم کو یہ کھلی فتح عطا کی تا کہ تمہا رے گنا ہ معا ف کر دیں ۔ اس کا گنا ہ سے کیا تعلق ہے ؟اتفا ق سے یہی سوال ما مو ن نے امام رضا علیہ السلام سے پو چھا تھاتو آ پ نے فر ما یاتھا:یہ وہ گنا ہ تھاجس کی مشرکین نے پیغمبراکرم ۖ کی طرف نسبت دی تھی ۔ یعنی مشر کین کے عقیدہ کے مطا بق پیغمبر ِ اکرم ۖنے سب سے بڑ ے گنا ہ کا ارتکاب کیا تھا کیونکہ آ پ نے ان کے بتو ں کو برا کہا تھا اور ان کے دین کے خلاف جنگ کی تھی اور یہ وہ گناہ ہے جو فتحِ مبین کے ذریعہ مٹا دیا گیااور ختم کر دیا گیا ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ نے ( العیا ذ باﷲ ) خدا کی نسبت کو ئی گنا ہ انجا م دیا ہو ۔سوال یہ ہے کہ خدا نے کیو ں بخشا ؟ تو یہ قر آ ن کے ان ہی توحیدی بیا نوں میں سے ہے ۔جس کا بار بار قر آن میں ذکر ہوا ہے کسی بھی نا پسند چیز کا اثرجب محو ہو تا ہے تو خدا اس کو محو کر دیتا ہے ویسے ہی ہے کہ جس طرح خداوندعالم نے پیغمبر اکر م ۖکو یہ فتح عنا یت فر ما ئی ہے پس تو جو کچھ بھی اس فتح کے آثار متر تب ہوں گے وہ خدا کے ذریعہ مر تب ہوں گے منجملہ یہ کہ مشر کین کی نظر میں جو آ ثا رِ گنا ہ تھے وہ مٹ گئے اور اب اُن میں اس طرح کا کو ئی احسا س با قی نہیں رہے گا ۔معلوم ہوا کہ اس کا بھی شر عی گنا ہ سے قطعی کوئی رابطہ نہیںہے ۔
دو سری آیت
(عَفَااللَّہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْاوَتَعْلمَ الْکَا ذِبِیْنَ )(١)
..............
١۔سورئہ تو بہ آیت ٤٣۔
''(اے ہما رے رسو ل )خدا آ پ کو معاف فر ما ئے آپ نے کس لئے انھیں ( پیچھے رکنے کی) اجا زت دے دی ؟ چا ہئے تھاکہ سچ بو لنے وا لے آشکار ہو جا ئیں اور آپ جھو ٹو ں کوبھی پہچان لیں ''
آیۂ کر یمہ کے آ غاز میں جملہ ہے(عَفَا اﷲُ عنْکَ)(اللہ آپ کو معاف کرے ) ممکن ہے کو ئی اس جملہ سے خیال کر بیٹھے کہ پیغمبراکرم ۖ نے (العیا ذ با ﷲ )کسی گنا ہ کا ارتکاب کیا تھا اور خدا وند عا لم نے ان کو معا ف فرمادیا ۔لہٰذا خود یہی جملہ عدم عصمت کے غلط تصور کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ دو سرے جملہ میں خدا وند عا لم فر ما تا ہے کہ (لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ ) ''آپ نے کس لئے انھیں رکنے کی اجا زت دیدی ''خود یہ سوالیہ جملہ بھی جواب طلبی کی نشاندہی کر رہا ہے اور پیغمبر اکرم ۖکے معصو م نہ ہو نے کے توہّم کا سر چشمہ ہو سکتا ہے ۔چنا نچہ اس آیت کا مفہو م وا ضح کر نے اور اس طرح کے شبہہ کو دور کر نے کے لئے آیت کے شانِ نزول اور اس کے مفا د کے با رے میں کچھ عرض کر نا ضروری ہے : یہ آیت ان منا فقو ں یا اُن (ضعیف الا یما ن ) افرا د کے سلسلہ میں نا زل ہو ئی ہے جوجنگ و جہا دسے فرار اختیار کر نے کے لئے بہانہ پر بہا نہ تلاش کیا کر تے تھے اوربا وجو دیکہ ایک مر تبہ پیغمبراکرم ۖ نے ایک جنگ میںرضا کا رانہ طور پر تمام لو گوں کی شرکت کا اعلان فر ما یا تھا کچھ لو گو ں نے آ پ کے اس فرمان کی خلاف ورزی کی اور جنگ کر نے کے لئے نہیں گئے ۔ تو آیت نا زل ہو ئی جس میں ان کی بہت سختی سے سرزنش کی گئی ۔ کچھ اور افراد تھے جو آپ کی خد مت میں حا ضر ہو تے اورآپ کے سا منے طرح طرح کی با تیں بناکرجنگ سے فرار کی اجا زت طلب کرتے تھے مثال کے طور پر کہتے کہ ہم کو کچھ ضروری کام ہے یا ہم سخت مشکلو ں سے دو چا ر ہیں لہٰذا ہم کو شہر میں رہنے کی اجا زت دیدیں ۔ در حقیقت کو ئی معقو ل عذر نہیں تھا لیکن اپنے عمل پرپر دہ ڈالنے کے لئے کہ کوئی اگر ان پر اعتراض کرے تو اس کو جوا ب دے سکیں کہ ہم نے رسول اللہ سے اجا زت لے لی ہے آنحضرت ۖ کی خد مت میں حا ضر ہو تے اور جہاد میں شریک نہ ہو نے اجا زت طلب کر تے تھے۔ آنحضرت بھی ان کو پہچا نتے اور ان کے انداز گفتگو سے ہی سمجھ لیتے تھے کہ یہ منا فقین یا'' ضعیف الا یمان'' ہیں (وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحَنِ الْقَوْلِ )(١)
''اور تم انھیں ان کے اندازِ گفتگو سے ہی ضرورپہچا ن لو گے ''
لیکن ان کی ظا ہر ی شان باقی رکھنے کے لئے آپ ان کو شہر میں رہنے کی اجا زت مر حمت فر ما دیتے اور یہ پیغمبر اکر م ۖکے نہا یت ہی کریم او رمہر با ن ہو نے کی وجہ سے تھا ایک طرف تو آپ کو یہ خیا ل تھا کہ لو گو ںکے راز
..............
١۔سورئہ محمد آیت ٣٠۔
فاش نہ ہو جا ئیں اور دو سری طرف یہ فکر تھی کہ جب کما نڈر یہ اعلان کر دے کہ سب جنگ میں شریک ہوں اور کچھ افراد کما نڈر کے اس اعلان کی صاف طو ر پرمخالفت کر یں توخود یہ مخا لفت دو سرے افراد میں بھی جرأ ت کا سبب بن جاتی ہے اور کما نڈر کے فرمان کی اہمیت کو کم کر تی ہے ان ہی دو وجہو ں کی بنا ء پر پیغمبراکرم ۖ ان کو شہر میں رہنے کی اجازت مرحمت فر ما دیتے کہ تم شہر میں رہ سکتے ہو ۔ آیۂ کریمہ اسی مو قع پر نا زل ہو ئی اور (عَفَا اﷲُ عَنْک) کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ سے ایک ان چا ہا امر صا در ہوا ہے ۔ چنا نچہ انبیا ء علیہم السلام کی عصمت کا عقیدہ رکھنے وا لے بعض مفسّر ین اس کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ یہ در گذر تر کِ اولیٰ پر تھی نہ کہ معصیت پر ۔ یعنی خداوند عا لم نے پیغمبر اکرم ۖ کو اختیا ر دے رکھا تھا کہ وہ جس کو منا سب سمجھیں شہر میں ر ہنے کی اجازت دے سکتے ہیں اور آنحضرت ۖ کا انھیں اجا زت دینا حرام نہیں تھا اس لئے آ پ نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ یہا ں زیا دہ سے زیا دہ آیت اس بات پر دلالت کر تی ہے کہ ان کو اجا زت نہ دینا بہتر تھا اور (عَفَا اﷲ ُعَنْکَ) کا مطلب یہ ہے کہ خدا آپ کے اس تر کِ اولیٰ کو معا ف فرمائے لیکن علا مہ طبا طبا ئی [ فر ما تے ہیں کہ یہ حتی تر کِ اولیٰ بھی نہیں تھا اور آیت کا مقصود بھی یہ بیان کرنا نہیں ہے کہ یہ کام جو آپ نے کیا ہے انجا م نہ دیتے تو اولیٰ تھا ۔بلکہ نا راضگی کی زبان میں مدح کی گئی ہے ۔ کبھی تو ایک شخص کی برا ہ راست مدح کی جا تی ہے مثا ل کے طو ر پر کہا جاتا ہے کہ فلا ں شخص بہت مہر با ن اور ہمدردہے اور کبھی ممکن ہے اس طور پرکہ بہ ظاہر نا راضگی کا اظہارہو مدح کی جا تی ہے اور مدح کر نے کا زیادہ بلیغ طریقہ بھی یہی ہے ۔ مثال کے طور پر کہتے ہیں: کہ تم کتنے ہمدرد ہو ، ہمدردی کی بھی کو ئی حد ہو تی ہے! یہ آیت اسی طرح کامطلب بیا ن کر رہی ہے ۔ اس لئے کہ خداوندعالم اس آیت کے ذیل میں ہی فر ما تا ہے :
(وَلَوْاَرَادُوْاالْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہُ عُدَّةً) (١)
''اور اگر یہ لوگ (جنگ کے لئے )نکلنے کاارادہ رکھتے تواپنے لئے کچھ سازوسامان تو تیار کئے ہو تے ''۔
وہ سرے سے نکلنے کا قصد ہی نہیں رکھتے تھے اور خدا وندعا لم چو نکہ ان کے دلو ں کے حا ل سے با خبر تھا وہ کسی لائق نہیں ہیں فر ماتا ہے :
(وَلٰکِنْ کَرِہَ اللَّہُ انْبِعَا ثَھُمْ فَثَبَّطَھُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْامَعَ الْقَاعِدِیْنَ)(٢)
..............
١۔سورئہ توبہ آیت ٤٦۔
٢۔سورئہ تو بہ آیت ٤٦۔
''لیکن خدا نے ان کی (جنگ کے لئے )رضا کا رانہ شمو لیت کو نا پسند کیا تو ان کو کا ہل بنا دیا اور (گو یا )ان سے کہد یا کہ تم (جنگ سے)گریز کر نے وا لو ں کے ساتھ بیٹھے رہو ''۔
ان کے اندر جہا د میں شریک ہو نے کی لیا قت نہ ہو نے کی وجہ سے ہی خدا وند عا لم خود نہیں چا ہتا تھا کہ وہ جنگ میں شریک ہوںاوریہ عذابِ الٰہی تھا جس کے تحت ان میں سستی اور بہا نے با زی کی حالت پیدا ہو گئی تھی ، خداوند عالم تو یہاں تک فر ما تا ہے:(لَوْخَرَجُوْافِیْکُمْ مَّازَادُوْکُمْ اِلَّاخَبَا لاً ) (١)
''اگر یہ لو گ تمہا رے ساتھ( جنگ کے لئے ) نکلتے بھی تو تم میں فسا د بر پا کر نے کے سوا کچھ نہ کرتے ''
معلوم ہوا ان کا جہا د میںشریک نہ ہو نا ہی الٰہی مصلحت تھی۔لہٰذاآیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اولیٰ یہ تھا کہ آپ ان کو جہا د میں شریک ہو نے کی اجا زت نہ دیتے حتی خود اسی آیت میں اس لہجہ کی وجہ بھی مو جودہے کہ اگر آپ ان کو اجا زت دیدیتے تو (یتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاوَتَعْلَمَ الْکَاذِ بِیْنَ)''آپ پر سچ بو لنے وا لے ظا ہر ہوجاتے اور آپ جھو ٹوں کو بھی پہچان لیتے '' معلو م ہو جاتا کون سچ بو لنے وا لے ہیں اور کون جھو ٹ بولنے وا لے ہیں اگر آپ ان کو اجا زت نہ دیتے تو جو سچے تھے وہ جہا د میں شر کت کر تے اور جو جھو ٹے تھے معلوم ہو جا تا وہ جھوٹے ہیں دل سے اطا عت گذار نہیں ہیں ۔پس ایسا نہیںہے کہ واقعا مصلحت یہ تھی کہ پیغمبر ان کو اجا زت نہ دیں بلکہ آیت میں پیغمبر اکرم ۖ کی مدح کی جا رہی ہے کہ آنحضرت ۖ نہا یت ہی ہمدرد و مہر با ن ہیں اور یہ ناراضگی کے پیرائے میںمدح کا بلیغ انداز ہے ، اور آیت میں (عَفَا اﷲُ عَنْکَ) خبریہ جملہ نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے گنا ہ یا تر کِ اولیٰ کیاتھا اور خدا وند عالم نے اس کو معاف کر دیا بلکہ یہ انشا ء اور دعا ہے ۔بات کو ذہن سے قریب کر نے کے لئے ہم اپنی روز مرّہ کی زبان میں عمو ماً کہا کر تے ہیں کہ (خدا آپ کے باپ کی مغفرت کرے )اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آپ کے باپ کو گنا ہگار ثابت کر نا چا ہتے ہیں ۔ معلوم ہو ا کہ آیۂ شر یفہ میں نا راضگی کا لہجہ نا راضگی کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ محبوب نے ناراضگی والے لہجہ میں مدحِ لطیف کی ہے جو اس ظا ہری نا راضگی میں مخفی ہے لیکن ہاں (اِیَّاکَ اَعْنِیْ وَاسْمَعِیْ یَا جَا رّة)کے عنوان سے اس
..............
١۔سو رئہ تو بہ آیت ٤٧۔
میں منا فقین اور ضعیف الا یمان افراد کی نسبت عتا ب ہے ۔یہی بات المیزان میں علامہ طبا طبا ئی نے اس آیت کے ذیل میں بیان کی ہے ۔ بہر حال یہ آیت پیغمبر اکرم ۖسے حتی تر کِ اولیٰ صا در ہو نے پر بھی دلالت نہیں کرتی۔
تیسری آیت
( وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ اَنْعَمَ اﷲُعَلَیْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ علیکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اﷲَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا ﷲُ مُبْدِ یْہِ وَتَخْشَیْ النَّا سَ وَاﷲُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ)(١)
''اور (اے رسول ) آپ نے جب اس شخص (زید بن حا رثہ) سے کہ جس کوخدا نے نعمت سے نوازاتھا اور آپ نے خود بھی اس پر انعام کیا تھاکہا: کہ اپنی بیوی کو اپنی زو جیت سے الگ نہ کرو اور خدا سے ڈرتے رہو حا لانکہ آ پ اس بات کو اپنے دل میں چھپا ئے ہو ئے تھے کہ جس کو خدا نے ظا ہر کر دیا آپ لو گو ں سے ڈر تے تھے حا لانکہ خدا اس کا زیا دہ حقدار تھا کہ آپ اس سے ڈرتے ''۔
یہ (روا یتو ں اور خود آیۂ شریفہ کی روشنی میں مو جود قرینہ کے مطابق ) پیغمبر اکر م ۖ کے منھ بو لے بیٹے زیدبن حا ر ثہ تھے ، وہ بہت با کما ل جوا ن تھے جن کو اس زما نہ کے معمو ل کے مطابق پیغمبراکرم ۖنے اپنا منھ بو لا بیٹا قرار دید یا تھا اس زما نہ میں دستو ر تھا کہ بعض افراد کسی جو ان ( خا ص طو ر سے غلام ) کو اپنابیٹا بنا لیا کر تے تھے اور اس زما نہ کے رسم و رواج کے مطابق اس پرنسلی اور واقعی فر زند کے جیسے احکام جا ری ہوتے تھے اور اس کو میراث بھی دی جاتی تھی جس طرح حقیقی فر زند کی شا دی کے بعد اس کی بیوی با پ کی بہو شما ر کی جا تی ہے اور اس کی محرم ہو جا تی ہے اور باپ کا اس سے شادی کر نا حرام ہے اگر چہ بیٹا اسے طلا ق ہی کیو ں نہ دیدے ۔اس زما نہ میں یہی احکا م منھ بولے بیٹے پر بھی جا ری کئے جا تے تھے ۔ دینِ اسلا م میں اس رسم کو ختم ہو نا چا ہئے تھا کیونکہ کہ یہ ایک غلط رسم تھی ۔
سورئہ احزاب کے آغاز میں خدا وند عا لم ارشاد فر ما تا ہے :
( اُدْعُوْھُمْ لِآ بَائِھِمْ ھو اَقْسَطُ عِنْدَ اﷲِ )(٢)
''لے پا لکو ں کو ان کے( اصل)با پ کی طرف نسبت دو کیونکہ یہی خدا کے نز دیک انصا ف سے قریب ہے''
..............
١۔سورئہ احزاب آیت٣٧۔
٢۔سورئہ احزاب آیت ٥۔
اسی سنت کو تو ڑنے کے لئے حکمتِ الٰہی کا تقاضا ہو ا کہ خود پیغمبر ِ اکرم ۖ اس رسم کو اپنے منھ بو لے بیٹے کے ذریعہ توڑیں تا کہ لو گو ں کو یقین ہو جا ئے اور دورِ جا ہلیت کی اس رسم کا اختتام ہو جا ئے۔
زید شا دی شدہ تھے اور اﷲ نے پیغمبر اکرم ۖپر وحی کی کہ آپ زید کی زو جہ سے عقد کرلیں یعنی زید اپنی زو جہ کو طلاق دید یں اور آپ اس سے عقد کر لیں تا کہ دورِ جا ہلیت کی اس رسم کا خاتمہ ہو جا ئے پیغمبر اکرم ۖپر یہ وحی نا زل ہو چکی تھی کہ اس طرح کا وا قعہ پیش آ ئیگا ۔ ایک دن زید نے آ نحضرت ۖکی خد مت میں حا ضر ہو کر عرض کی کہ میں اپنی زو جہ کو طلا ق دینا چا ہتا ہو ںآ نحضرت ۖ نے فر مایا :نہیں اپنی زو جہ کوالگ نہ کر و ، تقو یٰ اختیا ر کرو اور عدل و انصاف کی رعا یت کرو ۔
یہ آیت اسی مو قع پر نا زل ہو ئی :( وَاِذْ تَقُوْ لُ لِلَّذِیْ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہ)وہ شخص جس پر خدا نے انعام کیا تھا اور آپ نے بھی انعام سے نوازاتھا ۔آپ نے اس سے کہا ( اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْ جَکَ وَ اتَّقِ اﷲَ )''اپنی بیوی کو اپنی زو جیت میں رہنے دو ۔ یہ اس وقت تھا کہ(وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اﷲُ مُبْد یْہِ)''آپ اس بات کو اپنے دل میں چھپا رہے تھے کہ جس کو آشکار کر نے کا خدا فیصلہ کر چکا تھا (وَ تَخْشی النَّا سَ)اور آپ لو گو ں سے ڈر رہے تھے ''(وَاﷲُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ )'' جبکہ خدا سے ڈرنا زیا دہ سزا وار ہے ''
اسلام دشمنو ں نے اس آیۂ شریفہ کے متعلق ایک داستان گڑھ ڈالی اور افسوس بعض مسلمانوں میں بھی اس کا چر چا ہو نے لگا اور اس کو کتا بو ں میں بھی لکھ ماراجس سے وہ اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک دستا ویز بن گئی یہاں تک کہ اس دور میں بھی اس کو پیغمبر کی ایک کمزوری شما ر کر تے ہیں ۔ دشمنان اسلام نے (معا ذاللہ کہا اور لکھا ہے کہ ایک روز پیغمبراکرم ۖکی نظرمبا رک زید کی خو بصو رت بیوی پر پڑ گئی تو آپ کا دل اس پر آ گیا اور آپ اس کے عا شق ہوگئے آپ اس سے شا دی کے خو اہشمند تھے لیکن اس سے عقد کر نے کی کوئی راہ نہ تھی آپ کو یہ خو ف تھا کہ کہیں لو گ اس بات سے مطلع ہو کر یہ نہ کہنے لگیں کہ پیغمبر اس جوان عو رت پر فریفتہ ہو گئے ہیں اﷲ نے بھی پیغمبر کی دلی آ رزو کو پو را کر نے کے اسباب فر ا ہم کئے کہ زید اپنی زو جہ کو طلاق دیدیں اور پیغمبر اس سے عقد کر لیں لیکن دشمنانِ اسلام تو یہا ں تک کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ۖنے اپنی دلی آرزو کو پورا کرنے کے لئے یہ آیات خود بنائی ہیں انھو ں نے یہ تمام مقد مات فرا ہم کر نے کے بعد فر ما دیا کہ : آیۂ شریفہ نا زل ہو ئی ہے اور خدا وند عالم نے فر ما یا ہے کہ۔۔۔
بالکل اسی طرح کی داستان کہ جس کی حضر ت دا ؤد علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ آپ اپنے ایک صحا بی کی بیوی پر فریفتہ ہو گئے تھے وغیرہ وغیرہ اور دشمنانِ اسلام ثبوت میں آیت کا یہ ٹکڑا پیش کر تے ہیں کہ ''تم لوگوں سے ڈرتے ہو '' اور کہتے ہیں کہ انسا ن اسی وقت ڈرتا ہے جب وہ خدا وند عالم کی مر ضی کے خلاف کو ئی کام انجام دے ۔یہ ایک جھو ٹی داستان ہے جو اسلام کے دشمنوں نے گڑھی ہے در اصل، پیغمبر اکرم ۖ کو خوف یہ تھا کہ لو گ اپنے درمیا ن رائج اس مستحکم رسم کا توڑا جانا قبول نہیں کر سکیں گے کیو نکہ ان کے نقطۂ نظر سے یہ کام ایسا تھا کہ گو یا کسی نے اپنے حقیقی فرزند کی زو جہ سے عقدکر لیاہو، آپ کو لو گو ں کے درمیان اپنی آبرو ریزی کا ڈر نہیںتھا بلکہ آپ اس لئے ڈر رہے تھے کہ کہیں خداکے اس حکم کو لوگ قبو ل نہ کریں آپ کسی منا سب وقت کی تلاش میںتھے اور آپ خدا وند عا لم کی طرف سے کسی ایسے واقعہ کے پیش آنے کے منتظر تھے جس کے ذریعہ لو گو ں کی مصلحتیں بھی پو ری ہوجا ئیں او ر حکمتِ الٰہی بھی محقّق ہوجا ئے اور لوگ بھی اس کو تسلیم کر لیںاور نا فر ما نی نہ کریں ۔ با لکل اسی سے ملتا جلتا مسئلہ غدیر کی ولا یت کاہے ارشاد ہو تا ہے :
( یَااَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّا سِ )(١)
''اے رسول جو حکم تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے تم پر نا زل کیا گیا ہے لو گوں تک پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گو یارسالت کا کو ئی پیغام نہیں پہنچایا اور خدا تم کو لو گو ں کے شر سے محفو ظ رکھے گا''
اس منزل میں بھی پیغمبراکرم ۖکو یہ خو ف تھا کہ کہیں لو گ امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کی ولا یت کو تسلیم نہ کریں۔یہ خوف در حقیقت امر الٰہی کی جہت میں تھا ۔آپ کو یہ خوف اس لئے تھا کہ کہیں لوگ حکمِ خدا کو تسلیم نہ کریں آپ اس لئے نہیں ڈر رہے تھے کہ میری عزّت چلی جائے گی جیسا کہ دشمنا نِ اسلام نے خیال کیا ہے اسی مقام پرخدا فر ماتا ہے :تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَااﷲُ مُبْدِیہِ)جس چیز کو آنحضر ت ۖ لوگوں سے چھپا رہے تھے یہ وہی چیز تھی جس کی آپ پر وحی ہوچکی تھی کہ یہ کام ہو نا ضروری ہے آپ لو گو ں پر آشکار نہیں کر رہے تھے اور لو گو ں سے اس طرح کا انداز اختیار کئے ہو ئے تھے کہ لوگ متوجہ ہو ں کہ پیغمبر نتیجہ سے با خبر ہیں ۔ لہٰذا جب زید نے آپ کی خد مت میں حا ضر ہو کر یہ عرض کی کہ میں اپنی زو جہ کو طلا ق دینا چا ہتا ہو ں تو آنحضرت ۖنے فرمایا ''نہیں طلاق نہ دو بلکہ اپنی ازدواجی زندگی جا ری رکھو ''۔ آپ نے یہ (العیاذ با ﷲ ) اپنے عشق کو مخفی رکھنے کے لئے نہیں فر ما یا تھا بلکہ آپ کو یہ خو ف تھا کہ کہیں لوگ اس امر کو قبول نہ کریں اور امرخدا کی اطا عت سے انکار نہ کردیں ۔
بنا بر ایں آیت کا مفہوم یہ نکلتا ہے :آ پ نے اپنے منھ بو لے بیٹے سے کہ جس پر آپ کے خدا نے اور خود آپ نے بھی انعام و احسا ن کیا تھاسفارش کی کہ تم اپنی زو جہ کو اپنی زو جیت میں رکھو حا لانکہ وہ بات کہ جس کی آپ پر
..............
١۔سورئہ ما ئدہ آیت ٦٧۔
وحی ہو چکی تھی کہ اس کو آپ کی زوجیت میں لا نا مقصود ہے آپ نے لو گو ں سے مخفی رکھی آپ لو گو ں سے خو ف زدہ تھے کہ کہیں وہ حکمِ خدا کی خلا ف ور زی نہ کریں، (وَاﷲِ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَاہُ) کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ'' لو گو ں سے خو ف'' اور'' خدا سے خوف ''کے در میا ن مقا ئسہ کیا گیا ہو یعنی لو گوںسے خو ف خداوندعا لم سے خو ف کے ساتھ منافات رکھتا ہو کہ آپ کو خدا سے خو ف کر نا چا ہئے لو گو ں سے نہیں ، یہاں دو نو ں باتوںمیں کو ئی ٹکرا ؤ نہیں ہے بلکہ پیغمبراکرم ۖ کو تسلی دینے اور اس بات کی طرف متو جّہ کر نے کے لئے ہے کہ آپ اپنی تو جہ کا مر کز خدا وند عا لم کو قرار دیں، خدا بھی آپ کی حفا ظت کر ے گا آپ پر یشان نہ ہو ں ۔یقینا پیغمبراکر م ۖ معصو م ہیں اور آپ تمام صفاتِ کما ل کے آخری درجہ پر فا ئز ہیں لیکن اِن کما لات کا لا زمہ یہ نہیں ہے کہ آپ خداوندعا لم سے بے نیا ز ہوجائیںبلکہ آ پ خدا وند عا لم کی عطا کر دہ تعلیم و تر بیت کے ذریعہ ہی معصو م خلق ہو ئے ہیں اور آ پ کے پا س سب کچھ خدا وند عا لم کا ہی دیا ہو ا عطیہ ہے ۔
بہر حا ل پیغمبر اکر م ۖکے با رے میں قرآنی آیا ت نے یہ بتا یا ہے کہ خدا وند عا لم کا لطف و کرم جو آپ کے شا مل حال ہے ہر مقا م پر آپ کا محا فظ ہے ،آپ کی تر بیت اور آپ کو متو جہ کر تے رہنا اس چیز کو ثابت کر تا ہے کہ خدا وند عا لم کی طرف سے اس طرح کا لطف پیغمبرکے شا مل حال ہے۔چنا نچہ ''وَاﷲ اَ حَقُُّ اَنْ تَخْشاَہُ''کا مطلب بھی پیغمبر کو اس حقیقت کی طرف متو جہ کر نا ہے کہ آپ کو صرف اور صر ف خدا سے ڈرنا چا ہئے ۔دوسرے لو گ آپ کا کچھ نہیں بگا ڑ سکتے اور خدا نے جب کسی امر کو متحقّق کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کو متحقّق ہو نا ہی ہے اور خدا اس امر میں آ پ کی خود حفا ظت کر ے گا اس طرف سے آپ با لکل مطمئن رہیں ۔ اوراس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ پیغمبر کی طرف سے تشویش تھی بلکہ اس کا مطلب حالات کا فرا ہم ہو جا نا تھا حالات اس چیز کے متقا ضی تھے کہ ایک انسان کو اس طرح کی تشویش ہو ۔ اور خدا نے وحی ،الہام اور اپنی خا ص تر بیت کے ذریعہ ان تمام پریشا نیوں سے (جو عام طور پر جو ایک انسا ن کو پیش آ تی ہیں ) پیغمبر کی حفا ظت فر ما ئی ۔
معلوم ہوا یہ آیت بھی عصمت کے منا فی کسی چیزپر دلالت نہیں کر تی ۔اور وہ داستان بھی گڑھی ہو ئی ہے ۔
چو تھی آیت :
(یَااَیُّھَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَااَحَلَّ اللَّہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَاللَّہُ غَفُوْررَحِیْمُ )(١)
''اے رسو ل جو چیز خدا نے حلا ل کی ہے تم اس سے اپنی بیویو ں کی خو شنو دی کے لئے کیو ں خود پر حرام کر رہے
..............
١۔سورئہ تحریم آ یت ١۔
ہو اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہر با ن ہے ''۔
یہ اسلام دشمن عنا صر کا ایک بہت تیزحر بہ ہے اور دین ِ اسلا م کی مخا لفت میں لکھی جا نے وا لی کتابو ں میں خاص طو ر سے اس آ یت کاسہا را لیاگیا ہے ان کا کہنا ہے کہ خود قرآن کریم نے کہاہے کہ پیغمبر (العیا ذ باﷲ ) امور شرعی میں مد اخلت کیا کر تے تھے حلا ل کو حرام کر دیتے تھے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ آیت نا زل ہو ئی کہ آپ اس طرح کے کا م کیو ں انجا م دیتے ہیں ؟!
جی ہاں اسلام دشمنو ں نے اس مسئلہ کو یہ رنگ دیاہے کہ وحی اور قرآنی مطالب سے بلکہ اس سے بھی پہلے درجہ میں نبی کی سنّت سے لو گوں کا اعتمادسلب کر لیں۔
اس مقام پر بھی شبہ کو دور کرنے کیلئے آیت کے مطلب اور اسکے شأن نزول کو مد نظر رکھنا چاہئے یہ آیت ایک ایسی داستان سے متعلق ہے جس کو روایتوں میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے علاوہ ازیں پیغمبر اکر م ۖ کی بعض ازواج سے متعلق بھی ایسے مطالب ہیں جن میں خداوندعالم نے اُن پر عتاب کیا ہے اور ان پر شدید حملے کئے گئے ہیں اور بعید نہیںہے کہ اس طرح کے واقعات میں پیغمبر اکرم ۖکی بعض ازواج (عائشہ اور حفصہ جو ابوبکر اور عمر کی بیٹیاں تھیں)سے متعلق شبہے پیدا ہو جا ئیںا ور اصل قضیہ روشن و واضح نہ ہو چونکہ اہلسنّت حضرات پیغمبر اکرم ۖکی تمام ازواج کوتقدس کے سب سے بلند مرتبہ پر فائز سمجھتے ہیں اورکسی طریقہ سے بھی ان کی شان میں کوئی کمی نہیں چا ہتے لہٰذا مطلب کو حتّیٰ الا مکان اس طرح بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو بالکل بری قرار دیاجاسکے لیکن ان آیتوں کالہجہ اتنا سخت اور واضح ہے کہ کسی شخص کیلئے کوئی عذر باقی نہیں رہتا خداوندعالم فرماتا ہے :
(وَاِذْاَسَرَّالنَّبِیُّ اِلَیٰ بَعْضِ اَزْوَاجِہِ حَدِیْثاً )
پیغمبر اکرم ۖنے اپنی بعض بیو یوں سے راز کی بات کہی اور تا کید کر دی کہ کسی سے اس کا ذکر نہ کریں انھوں نے مخالفت کی اورکچھ با تیں دوسروں سے کہہ دیں اور راز فاش کر دیا خدانے وحی کے ذریعہ اس امر کو رسول پر ظاہر کردیا کہ ایک یا دو بیویوں نے آپ کے راز کو فاش کردیا ہے جب رسول نے اُن سے باز پُرس کی توکہنے لگیں آپ سے کس نے کہا کہ ہم نے خبر دی ہے؟پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا :(قَالَ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ)اس نے خبر دی ہے جو ہر بات سے آگاہ ہے اس کے بعد خداوند عالم ان سے خطاب فرماتا ہے کہ تم یہ خیال نہ کرنا کہ( ہماری اپنی زبان میں ) تم میں سرخاب کے کو ئی پر لگے ہیں ۔ اگر رسول تم کو طلاق دیدیں تواُن کو اُن کا پروردگار تم سے اچھی بیویاں عطا کردے گا اور اگر تم پیغمبر اکر م ۖ سے دشمنی پر اتر آئیںتو یہ خیال نہ کرنا کہ تم ان کوشکست دے دوگی کیونکہ خدا، جبرئیل اور تمام ایماندار اشخاص ان کے دو ست و مدد گارہیں کبھی بھی یہ خیال نہ کرنا کہ تم اپنی سا زشوں کے ذریعہ ان کو شکست دیدوگی ۔
ظا ہر ہے بات بہت اہم تھی گو یا پیغمبر اکرم ۖکے خلاف سا زش تھی اسی لئے خدا وند عا لم نے ان کو اس انداز سے با خبر کیا ہے کہ تم کچھ نہیں ہو ۔ خدا ،ایما ندا ر افراد اور جبر ئیل ان کے ساتھ ہیںاور تم ان کا کچھ نہیںبگا ڑ سکتی ہو ۔ مسئلہ بہت ہی اہم تھا، اسی وجہ سے قر آ ن کریم نے ان کی سخت طریقہ سے سر زنش کی ہے۔
صرف اس خیال سے کہ کہیںوہ مطا لب و مقا صد قا رئین پر واضح نہ ہوں عرض ہے کہ اس سلسلہ میں عجیب و غریب واقعا ت نقل کیے گئے ہیں ۔ منجملہ عا مہ کی روایت ہے کہ ایک روز پیغمبر ا کرم ۖ اپنی بیوی ''سودہ'' کے یہاں تشریف فر ما تھے انھوںنے آ پ کے لئے شہد کا شر بت تیا ر کیا جس سے ایک خا ص قسم کی بو آ رہی تھی ۔ جب آنحضرت ۖ وہ شربت نو ش فر ما کر عا ئشہ کے پاس گئے تو انھوںنے منھ مو ڑ تے ہو ئے کہا :او نہہ یہ کیسی بوہے ؟ کچھ دیر بعد آ نحضرت ۖحفصہ کے پا س تشر یف لے گئے تو انھوںنے بھی اسی طرح کے الفا ظ ادا کئے تو آنحضرت ۖ سمجھ گئے کہ ان لوگوں کو اس شربت کی بو پسند نہیں ہے اس وقت آپ نے قسم کھا ئی کہ اب اس کا شربت نہیں پیئیں گے اس وقت آیت نا زل ہو ئی :
( یَااَیُّھَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآأَحَلَّ اللَّہُ لَکَ )
شہد کا شر بت حلال ہے آپ اس کو اپنے اوپرکیو ں حرا م قرار دے رہے ہیں ؟اس آیت کے شا ن نزول میں جو داستانیں نقل کی گئی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے ۔
شیعی منقول روا یات میں یہ بات دوسری طرح نقل ہو ئی ہے کہ ایک دن حضرت رسو ل خد ا ۖاپنے بیت الشرف میں تشریف فر ما تھے اور آپ کی بیوی ما ریۂ قبطیہ جو پہلے کنیز تھیں آ پ کے حجرہ میں مو جو د تھیں اور بعض روایات کے مطابق آ نحضرت ۖ کا سرِ مبا رک ما ریہ قبطیہ کے زانو پر تھا اور آپ آرام فر ما تھے اسی دوران عائشہ اور حفصہ دو نوں حجرے میں دا خل ہو ئیں تو انھیںیہ حا لت دیکھ کرتعجب ہو اکہ ان کی مو جو د گی میں پیغمبر اکرم اپنا سر مبارک ایک کنیز ( زوجہ ) کی گو د میں کیوں رکھتے ہیں ۔ انھوں نے آپ سے جنگ و جدل شرو ع کر دی اور آپ کے خلاف محاذ آرائی کا فیصلہ کر لیا ،اور نا راضگی کے انداز میں کہاکہ اب ہم دو نو ں آپ کے پاس نہیں آ ئینگے وغیرہ وغیرہ پیغمبر اکرم ۖنے ان کو خاموش کرنے کے لئے کہ گھر میں ہنگا مہ نہ کریں قسم کھائی کہ میں اب ماریہ کے پاس نہیں جائو ںگاانھوں نے بھی پیغمبر اکرم ۖ کی اس قسم کے بعد راحت کی سانس لی اور قصّہ تمام ہوگیا ۔
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر چہ آپ بعض کی ازواج چا ہتی ہیں کہ آپ اپنی دوسری (بیوی) پر نظر نہ اٹھا ئیں لیکن آپ کو ان کی خوشی کا اتنا خیال نہیں کرنا چاہیے :(لِمَ تُحَرِّمُ مَااَحَلَّ اﷲ ُ لَکَ)خداوند عالم نے پیغمبر اکرم ۖ پر کنیزکو حلال قرار دیا تھا اوران کی خو شی کے لئے پیغمبر اکرم ۖنے یہ قسم کھالی تھی کہ اب اس کنیز کے نزدیک نہیں جا ئیں گے خداوند عالم فرماتاہے کہ آپ نے اس طرح کی قسم کیوں کھائی ؟!(قَدْ فَرَضَ اللَّہُ لَکُمْ تَحِلَّةَ أَیْمَانِکُمْ۔۔۔)''خدانے اس طرح کی قسموں کاتوڑدینا آ پ پرلازم قراردیا ہے '' روایات کے مطابق مسئلہ اس موضوع سے مربوط ہے اور اہلسنّت کی روایات میں دوسری باتیں بیان کی گئی ہیں ۔
بہر حال پیغمبر اکر م ۖنے جو چیز خود پر حرام قرار دی تھی کو ئی بد عت نہیں کی تھی اس کو تشریع کا نام بھی نہیں دیاجا سکتا یعنی جس چیز کو خداوند عالم نے حلال قرار دیا تھا آنحضرت ۖنے اس کے حرام ہو نے کا حکم نہیں دیا تھا۔ کیونکہ بعدکی آیت میں تا ئید ہو تی ہے :(قَد ْفَرَضَ اﷲُ لَکُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَٰنَکُمْ۔۔۔)میں ''خدانے اس طرح قسموں کو توڑڈالناآپ پر لازم کردیا ہے ''یہ (تَحِلَّةَ)اُسی تحریم کے مقابل میں ہے اور دونوں کا مصدر باب تفعیل ہے۔ یعنی اس تحریم کے مقابلہ میں جوتم نے کی ہے خدانے تمہارے لئے اس کو حلال قرار دینا لازم قرار دیا ہے یعنی جس چیز کو تم نے اپنے لئے ممنوع قرار دیا ہے اس کی ممنوعیت ختم کردو ۔ '' اَیْمَان''(تَحِلَّہ )کی ایمان کے ذریعہ بتایاہے کہ اس چیز کو قسم کے ذریعہ حرام قرار دیا گیاتھا پیغمبر اکرم ۖ نے قسم کے ذریعہ ایک چیز اپنے اوپر حرام قرار دی تھی قانون وضع نہیں کیا تھا اور کیسے ممکن ہے کہ جس کے لئے خداوندقدوس فرماتاہے :
(وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۔ لَاَخَذْنَامِنْہُ بِالْیَمِیْن)(١)
''اگر رسول ہماری طرف کسی جھوٹی بات کی نسبت دیتے تو ہم پوری قوت سے ان کوروک دیتے''۔
وہ اس (رسول )کو اپنے خلاف قانون بنانے کی اجازت دیدے ؟اس طرح کی چیز تمام انبیاء علیہم السلام کیلئے محال ہے چہ جائیکہ پیغمبر اسلام ۖجو تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں اور خود آیت بھی اس چیز کی شھادت دیتی ہے کہ یہ تحریم قا نو نی یا شر عی نہیں تھی کو ئی بھی شخص ایک مباح کام انجام نہ دینے کی قسم کھا سکتاہے ۔آنحضرت نے بھی اپنی ازواج کے مطالبات کو حتّیٰ الامکان پورا کرنے کی کوشش فرمائی اور ایک کام جو حلال تھا اس کے انجام نہ دینے کی قسم کھالی اور یہ آپ کا نہایت ہی لطف تھاجو آپ نے دوسروں کے آرام کیلئے اپنے کو زحمت میں ڈالنا گوارا کیا لیکن خداوند عالم آنحضرت سے خطاب فرماتاہے چو نکہ اس مسئلہ میں مصلحتیں ہیں تو آپ اپنی قسم توڑدیں اور قسم کے ذریعہ جو چیز اپنے لئے حرام قرار دی ہے حلال کیجئے ۔
پس حقیقت میں یہ (لِمْ تُحَرِّم)سورئہ توبہ میں (لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ)کی مانند ہے یہ بھی محبت بھری ناراضگی
..............
١۔سورئہ الحا قة آیت٤٤۔٤٥۔
کے لہجے میں ایک قسم کی مدح ہے یعنی صحیح ہے کہ آپ کو دوسروں کی خوا ہش کا خیال کرنا چاہئے لیکن کس قدر؟ کیا اس حد تک کہ خود کو زحمت میں ڈال دیں ؟ہم یہ نہیںچاہتے کہ آپ بذات خود اپنے کو اتنی زحمت میں ڈال دیں کہ دوسروں کی خو ا ہشوں پر حلال چیزوں کو بھی اپنے لئے حرام قرار دیدیں یہ خداوندعالم کا امر ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کام پیغمبر اکرم ۖنے انجام دیا ہے وہ برا کام ہے بلکہ یہ پیغمبر اکرم ۖکی طرف سے دوسروں کی نسبت ہمدردی ، محبت، مہر بانی اور ایثارکے مقابلہ میں آنحضرت ۖ پر خداوند عالم کا لطف و کرم ہے اس لئے کہ آپ نے اپنی ازواج کے لئے اپنی خوا ہشات کو قربان کردیا خداوند عالم نے اس ایثار و قر بانی کے جواب میں کہاہے کہ اے رسول اپنی قسم سے صرف نظر کرومیں اپنے حق سے در گذر کر تا ہوں اس بناء پر یہ لہجہ اگرچہ ظاہر میں جواب طلب کر نے کا ہے لیکن حقیقت میں ایک طرح کی مدح ہے جس میں پیغمبر اکر م ۖ کی دوسروں کی نسبت کمال ہمدردی اور ایثار کی تعریف ہے ۔
بہر حال یہ آیت بھی ان دوسری آیات میں سے ہے جو اس چیز پردلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ اپنی زندگی اور گھر یلوما حول میں کتنی مشکلوں کو برداشت کیا کرتے تھے ، اس مسئلہ کی اہمیّت اس وقت اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے جب ہم بقیہ سورئہ تحریم کا آخر تک مطالعہ کریں اس لئے کہ خداوندعالم نے سورہ کے آخرمیں مومنوں اور کافروں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی ازواج اور ان کے مقابلہ میں فرعون کی زوجہ اور حضرت مریم کی مثالیں بیان کی ہیں ،سورہ کا لہجہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖکو تسلی دی گئی ہے کہ اگر آپ کو اس طرح کی ازواج کا سامنا ہے تو حضرت نوح اور حضرت لوط بھی اس طرح کی ازواج کا سامنا رہا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کو نہ توکوئی شخص چھپا سکتا ہے اورنہ ہی اس کے لئے کوئی بہانہ تلاش کرسکتا ہے ان ازواج کے سلسلے میں آیہ شریفہ کا لہجہ اتنا سخت ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ۔
پانچویں آیت
یہ آیت شک و شبہ ایجاد کر نے کے اعتبار سے دوسری تمام آیتوں سے زیادہ محکم ہے یعنی اس آیت سے پیغمبر اکر م ۖ کی عصمت میں یہاں تک کہ مقام تبلیغ رسالت میں بھی شبہ پیدا ہو جاتا ہے گذشتہ آیات ایک شخص کے عمل سے متعلق تھیں لیکن اس آیت کا شبہ اصل تبلیغ رسالت سے متعلق ہے سورئہ حج میںخداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :
(وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ وَ لَا نَبِیٍّ اِ لَّا اِذَا تَمَنَّیٰ اَلْقَی الشَّیْطَٰنُ فِیْ اُمْنِیَّتِہِ فَیَنْسَخُ اللَّہُ مَا یُلْقِیْ الشَّیْطَٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللَّہُ آیَاتِہِ وَاللَّہُ عَلِیْمُ حَکِیْم۔ لِیَجْعَلَ مَایُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِ یْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضوَالْقَاسِیَةِقُلُوْبُھُمْ وَاِنَّ الظَّالِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ۔وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَیُؤْمِنُوْابِہِ۔۔۔ )(١)
''اور (اے رسو ل ) ہم نے تم سے پہلے کو ئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجامگر یہ کہ جس وقت اس نے کو ئی آرزو کی تو شیطان نے اس کی آ رزو میں (اپنی طرف سے ) خلل ڈالا تو خدا نے جو وسوسہ شیطا ن نے پیدا کیا تھا اسے مٹادیا پھر اپنی آیات (احکام ) کواستحکام بخشا اور خدا تو بڑا دا نا اور حکیم ہے ایسا اس لئے ہے کہ ان کی با توں میں جو کچھ شیطان نے خلل ڈالا ہے اس کو ان لو گو ں کی آ زما ئش (کا ذریعہ )قرار دے کہ جن کے دلو ں میں (کفرکا مرض ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور ظا لمین یقیناً بہت سخت اختلاف میں پڑ ے ہو ئے ہیں اوریہ اس لئے بھی ہے کہ صا حبا نِ علم جان لیں کہ بیشک یہ قر آن تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے بر حق ہے اور اس پر وہ ایمان لا ئیں ''۔
اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق اہل سنت کی تفسیرو ں اور احا دیث کی کتا بو ں میں ایک عجیب و غر یب داستان نقل کی گئی ہے جس نے تبلیغِ رسالت میں پیغمبراکر م ۖکی عصمت سے متعلق ایک بہت بڑا شبہہ ایجا د کردیا ہے اور اس با رے میں انھو ں نے سعیداور ابن عباس سے متعدد روا یتیں بھی نقل کی ہیں اور سیو طی اورابن حجر جیسے کئی دو سرے افراد نے صراحت کے ساتھ کہاہے کہ ان روایتوں کی سند بھی صحیح ہے ۔
داستان کچھ اس طرح ہے : جب سورئہ نجم نا زل ہوا تو پیغمبرۖ مکہ میں اس کی قرا ئت فر ما رہے تھے ۔یہاں تک کہ آ پ اس آیت:
( اَفَرَأیْتُمْ اللَّا تَ وَالْعُزَّیٰ وَمَنَوٰ ةَ الثَّا لِثَةَ الْاُ خْرَیٰ )پر پہنچے ' 'کیا تم لو گو ں نے لا ت و عزّیٰ کو دیکھا ہے اور منا ت کو جو ان کا تیسرا ہے؟ ''
اس وقت شیطان نے آ پ کی زبا نِ اقدس پر یہ دو جملے جا ری کردیئے :
'' تِلْکَ الْغَرَانِیْقَ الْعُلَیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْ تَجَیٰ '' اس کے بعد آ نحضرت سجدہ ریز ہو ئے اور لو گو ں نے بھی سجد ہ ادا کیا پھر جبر ئیل نا زل ہو ئے اور سوا ل کیا کہ آ پ نے یہ کیا پڑھ دیا ؟ نبی نے فر ما یا کہ میں نے اپنی زبا ن پر یہ دو جملے جا ری کئے ہیں جبر ئیل نے کہا کہ میں نے آ پ پر یہ وحی نہیں کی تھی ۔ یہ جملے شیطان نے القا ء کئے ہیں اس وقت پیغمبراکر م ۖنے لو گو ں کے سا منے یہ اعلان فر ما یا کہ یہ دو جملے قر آنی جملے نہیں ہیں ۔
بعض اہلِ سنّت نے اس دا ستان کے صحیح السند ہو نے کی تا ئید کے بعد اس داستان کو مند رجہ بالابات کامصداق
..............
١۔ سورئہ حج آیت٥٢سے ٥٤۔
قرار دیا ہے ان کی نظر میں سے آیت کا مضمو ن کچھ اس طرح سے ہے : کہ جب بھی کو ئی پیغمبر آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرنا چا ہتاشیطان اس میں کوئی چیز القاء کر دیتا۔ اس اعتبا رسے تمنّیٰ کے معنی تلا وت اور قر ائت کے ہیں اور انھو ں نے شاہد مثال کے لئے شعرا ئے عرب میں سے کسی ایک شا عر کا شعر بھی نقل کیا ہے جس میں تمنّیٰ قرا ئت کے معنی میں استعما ل ہو ا ہے پس ''اِذَا تَمَنّیٰ''یعنی جس وقت وہ تلا وت کر نا چا ہتے تھے تو ''اُلْقِیَ الشَّیْطَان فِی اُمْنِیَّتِہِ ''یعنی فِیْ قَرَائَتِہِ''شیطا ن ان کی قرا ئت میں کچھ چیز وں کا القا ء کر دیتا تھا ۔ منجملہ اس داستان میں شیطان نے دو جملے القا ء کر دیئے اورچو نکہ شیطان یہ کام انجام دیتا ہے لہٰذا :(فَیَنْسَخَ اﷲُ مَایُلْقِیْ الشّیَطَان) ''خدا شیطان کے القا ء کئے ہو ئے جملو ں کو نسخ کر دیتا ہے ''
جیسا کہ یہا ں پر جبر ئیل آ ئے اور اُس کے جملو ں کو نسخ کیا اور یہ کو ئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس میں تمام انبیاء مبتلا ء ہو ئے ہیں شیطان اپنی بات القاء کر تااوراس کے بعدخداوندعالم اس کومنسوخ کردیاکرتا ۔
یہ بات قطع نظر اس سے کہ پیغمبر اکر م ۖکی عصمت میں شبہ ایجاد کر تی ہے اس سے تو بنیادی طور پروحی اور قرآن کریم پر اعتماد ختم ہوجاتاہے یعنی دشمنان اسلام کے لئے ایک بہت بڑی دستا ویز ہے جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ خود قرآن کریم میں یہ کہاگیاہے کہ وحی کے وقت شیطان کچھ مطالب پیغمبر اکرم ۖ پر القاء کرد یتا تھا اس بناء پریہ کیسے معلوم ہوکہ جن آیات کو قرآن کریم کا جزء کہاجاتا ہے وہ شیطانی القائات کا حصہ نہ ہو اور اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ بعدمیں جبرئیل نازل ہوئے اور انھوں نے یہ فرمایا کہ وہ آیات نسخ ہوگئی ہیں تو بھی ممکن ہے وہ نسخ تو ہوگئی ہوں لیکن قرآن کریم سے نکا لی نہ گئی ہوں ۔
قرآن کے اعتبارو اعتماد پر سب سے بڑی ضرب جو لگا ئی جا سکتی تھی یہی ہے اور ا فسوس! وہ بات کہ جس کو ہم حقیقی معنی میں (القی الشیطان فی اُ مْنِیَّتِہِ )کہہ سکتے ہیں یہی روایت اور داستان ہے جو ہمارے برادران اہلسنّت نے اپنی کتابوں میں لکھ دی ہے بلا شبہ یہ وہی شیطانی القائات ہیں ۔
یہ روایت اوّل سے آخر تک اپنے جھوٹے ہونے کی خود گواہی دیتی ہے، ایسا فرض کرلیجئے کہ پیغمبر ۖنہ ہوتے بلکہ کوئی عام شخص ہوتا جو عوام الناس کو توحید کی دعوت دیتا تو کیاایک عام موحّد بھی تین بتوں کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے :''اِنََّ شَفَاعَتَھُنّ تَرْتَجِیْ ؟!''وہی شخص جو (ھٰؤُلََائِ شُفَعَائُ نَاعِنْدَ اﷲِ)کے دعوے کی مذمت کر رہاہے کہ ان کی حیثیت کیا ہے؟! یہ شفاعت کے کیا کام آئیں گے؟! کیا ان میں شعور و عقل ہے ؟ کیا خدا نے ان کو شفاعت کرنے کی اجازت دیدی ہے ؟ کیا شفاعت کاکوئی قاعدہ و قانون نہیں ہے کہ جس کا دل چاہے وہ شفاعت کرے ؟اس وقت یہی شخص کہہ رہاہے کہ ہم ان بتوں سے شفاعت کے امید وار ہیں اور پھر ان کے سامنے سجدہ ریز بھی ہوجاتا ہے؟ کیا ایک عام شخص سے بھی اس طرح کا فعل سرزد ہونا معقول ہے ؟چہ جائیکہ ہم اس فعل کو پیغمبر اکرم سے منسوب کریں !بعض نے عذر تراشا ہے کہتے ہیں کہ یہ سبقت لسانی تھی زبا ن پھسل گئی تھی، پیغمبر اکرم ۖنے دل سے یہ جملے زبان پر جاری کئے ہوں،ایسا نہیں ہے لیکن یہ عذر گناہ سے بد ترہے ۔
ایک تو یہ کہ سبقت لسانی ایک حرف یا ایک جملہ میں ہوتاہے نہ کہ دو طویل جملے کہ ان کا مطلب ہی بنیادی طورپر دعوت پیغمبر کے مخالف ہو۔
دوسرے یہ کہ سبقت لسانی کے بعدبات کر نے والا سجدہ ریز نہیں ہوتا !
بہر حال کسی شک و شبہ کے بغیر یہ داستان دشمنان اسلام کی گڑھی ہوئی ہے اور ان کے گڑھنے کی علامتیں بھی اس میں آشکار و ظاہر ہیں ۔
لیکن آیۂ شریفہ کی تلاوت اورتلاوت میں شیطانی خلل سے کوئی ربط نہیںہے ۔اگر کسی شعر میں لفظ ِ تمنّیٰ پڑھنے کے معنی میں استعما ل بھی ہوا ہو (جو خود بھی قابل غور ہے ) توشا ید ا س کی وجہ یہ ہوکہ جب انسان کسی چیز کی آرزو کر تا ہے تو عموماً زبا ن پر جا ری کر تا ہے اور یہ زبا ن پر جا ری ہو نا ہی تمنّا کی حکا یت کر تا ہے شاید اسی وجہ سے اس کو تمنّا کہا گیا ہو ورنہ کلمۂ تمنّا کا اصل مطلب پڑ ھنا اور تلا وت کر نا نہیں ہے ۔ سب جا نتے ہیں کہ تمنّا یعنی آ رزو کرنا اور آ رزو کرناکسے کہتے ہیں ؟ آ رزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن میں ایک خا کہ اور منصوبہ تیا ر کر ے اور دل اس کو عملی جا مہ پہنانا چا ہے ۔ ایک پیغمبر، پیغمبر ہو نے کی حیثیت سے کس چیز کی تمنّا کرتاہے ؟ ظاہرہے وہ پیغمبر اپنی رسالت کے محقق ہو نے کی آرزو کر تا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کو ئی پیغمبر کو ئی آرزو کرے وہ محقق ہوجائے ۔ بلکہ شیطان اس آ رزو کے متحقّق ہو نے میں خلل اورمشکلیں ایجا د کر تا ہے وہ کیسے ان مشکلوں کو ایجا د کر تا ہے ؟ شیطان کا کام وسو سہ کر نا ہے ، وہ لو گو ں کے اذہا ن میں وسو سہ کر تا ہے ، ان کو ایمان نہیں لا نے دیتا کہ پیغمبر کی آرزو پوری ہو اور خدا وند عا لم ان شیطانی وسو سو ں کو نیست و نا بود کردیتا ہے اور اس شبہہ کی بنیاد پر آیت کا یہ فقرہ ہے '' فَیَنْسَخَ اﷲُ مَا یُلْقِیْ الشّیْطَانُ '' چو نکہ لفظ نسخ کے اصطلا ح میں ایک خاص معنی ہیں اور اس کا متعلّق کلام یا حکمِ الٰہی ہے جبکہ نسخ کے لغوی معنی زائل کر نا اور محو کر نا ہیں ۔ نسخ کے دو معنی ہیں :
١۔ایک چیز کو دو سری جگہ نقل کر نا ، نسخہ کر نایا فو ٹو کا پی کر نا ۔
٢۔کسی چیز کا محو کر نا
جملہ ''فَیَنْسَخَ اﷲُ ''یعنی خدا وند عا لم ان شیطا نی وسوسوں کو نیست و نا بود اور اس کے با لمقا بل آ یاتِ الٰہی کو محکم و مضبو ط کردیتا ہے ۔ آخر کا ر انبیاء علیہم السلام غا لب ہو ں گے ''لَاَ غْلَبَنَّ اَنَاوَرُسُلِیْ ''''میں اور میرے رسول غالب آ نے وا لے ہیں '' لیکن آیت کے ذیل میں جو یہ فر مایا ہے:
(لِیَجْعَلَ مَایُلْقِیْ الشّیْطَا نُ فِتْنَةً لِلَّذِ یْنَ فِیْ قُلُوْ بِھِمْ مَرَض)
''اور شیطان جو (وسوسہ) ڈ التا( بھی) ہے اس لئے ہے کہ خدا اسے ان لو کو ں کی آ زما ئش (کا ذریعہ ) قرار دے کہ جن کے دلو ں میں( کفر کا )مرض ہے ''
شا ید اس بات کی طرف اشا رہ ہو کہ ٹھیک ہے با لآ خر، کار خدا وند ی کو ہی کا میاب و کا مران ہو ناہے اور انبیا ء علیہم السلام غالب آئیں گے لیکن بنیادی طورپر شیطان کا وجو د عا لَم کے کلی مصا لح کا جزاور انسا ن کی آ زما ئش و امتحان کا وسیلہ و ذریعہ ہے تا کہ ایک طرف جن لو گو ں کے دلو ں میں کفر کا مر ض ہے اور قسی القلب ہیں شیطا نی وسوسوں سے دو چا ر ہو ں اور دوسری طرف :
(وَلِیَعْلَمَ الَّذِ یْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ )
'' جن لو گو ں کو کتب سما وی کا علم عطا ہو ا ہے وہ جا ن لیں کہ یہ وحی بیشک تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے برحق ہے '' ۔
مو منین شیطا نی وسوسو ں کا مقا بلہ کر یں ،گمراہ انسانو ں اور جنو ں کی کا ر شکنی ان کو متز لزل نہ کرے اور جو کچھ پیغمبر پر نا زل ہو ا ہے اس کے بر حق ہو نے پر علم یقینی کے ساتھ پختہ و راسخ رہیں ۔
معلوم ہوا کہ جو کچھ ان لو گو ں نے تصورکیا ہے اس پر یہ آیۂ شریفہ ہر گزدلا لت نہیں کر تی اور وہ داستان تو بالکل گڑھی ہو ئی ہے ۔
|
|