راہ اور رہنما کی پہچان
 

عصمت انبیاء علیہم السلام سے متعلق شبہات
ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ شیعہ حضرات کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام اپنی خلقت سے لے کر اپنی زندگی کی آخری سانس تک معصوم ہوتے ہیںا ور صرف یہ کہ وحی سمجھنے اور اسکی تبلیغ کرنے میں غلطی نہیں کر تے بلکہ اپنے شخصی افعال و کر دارمیں بھی غلطی یاخطا نہیں کرتے لیکن اہلسنت کے درمیان خاص طور سے اس مسئلہ میں ، متعدد اقوال موجود ہیں جس میں انھو ں نے عصمت کے بعض در جا ت کا انکار کیا ہے ،ان میں سے بعض علماء کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا نبوت ملنے سے پہلے معصوم ہونا لازمی نہیں ہے اور بعض کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام نبوت ملنے کے بعدبھی ممکن ہے گناہان صغیرہ کے مرتکب ہوں۔ انھوں نے اپنے اقوال کے لئے قرآن کریم کی آیات بھی سند میں پیش کر تے ہوئے کہا ہے کہ بعض آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام فی الجملہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں بہر حا ل یہ بحث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان صدر اسلام سے ہی مو جو د ہے اور عصمت انبیاء علیہم السلام کی دلیل میں انبیاء علیہم السلام کی عصمت کا انکار کرنے والوںکے شکو ک و شبہات کے جواب کے بار ے میں ا ہل بیت علیہم السلام سے بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیںیہاں تک کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام کے دور میں مامون نے جو سوالات آپ سے کیے تھے ان میں سے بعض سوالات عصمت انبیاء علیہم السلام اور ا س کے با رے میں بعض شبہات کے سلسلے میںتھے جو ہماری حد یث کی کتابو ں میں نقل ہوئے ہیں۔
ہم اس بحث میں بعض ان آیات کو نقل کر رہے ہیں جن میں انبیاء کے معصوم نہ ہونے کے بارے میںوہم پیدا ہو اہے ۔

حضرت آدم علیہ السلام
بعض آیات میں یہ مطلب پیش کیا گیا ہے کہ خداوند عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک مخصوص درخت کے پاس جانے سے منع کردیا شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کو وسوسہ دلایا اور آپ نے اس درخت سے پھل کھالیا جوآپ کے بہشت سے نکلنے کا با عث بنا ۔
قرآن کریم میں یہ واقعہ کئی جگہ پربیان ہواہے اور سب سے زیا دہ صاف طور پر ان آیات میں بیان ہواہے :
(وَعَصَیٰ آدَمُ رَبَّہُ فَغَوَیٰ۔ثُمَّ اجْتَبَٰہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدَیٰ)(١)
''اور آدم نے اپنے پروردگار کا گناہ کیا اور راہ گم کر دی اس کے بعد ان کے پروردگار نے ان کو منتخب کیا اور ان کی توبہ قبول کی اور ا ن کی ہدا یت کر دی ''۔
دوسری آیتوں سے بھی یہ مطلب نکلتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے اس ترکِ اولیٰ کے بعد استغفار کیا :
(فَتَلَقَّیٰ آدَمُ مِنْ رَبِّہِ کَلَمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ۔۔۔)(٢)
''پھرآدم نے پروردگار سے چند الفاظ سیکھے پس خدا نے ان(الفاظ کی برکت سے) ان کی توبہ قبول کرلی ''۔
قر آ ن کریم میں اس وا قعہ کے ذیل میں''عصیا ن استغفار اور توبہ '' کے ما نند الفاظ استعمال ہو ئے ہیں ۔ دوسرے انبیا ء کے با رے میں بھی ایسے ہی الفاظ آئے ہیں کہ جن سے اس با ت کا وہم پیدا ہو تا ہے ۔ مقد مہ کے طور پر ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چا ہئے کہ عصیان ، استغفاراور توبہ کی مانند الفاظ جہاں کہیں بھی استعمال ہوںہر جگہ یہ اُس عصمت کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ، جس کے ہم قائل ہیں چنانچہ جس عصمت کے ہم معتقد ہیں اس کا مطلب حرام چیزوں کے ارتکاب سے معصوم ہونا ہے ۔یعنی اگر شارع مقدس کی طرف سے کسی حرام کام سے منع کیا گیا ہو تو انبیاء علیہم السلام اس کام کے مرتکب نہیں ہوتے لیکن اگر نہی اور مخالفت تنز یہی یا ارشاد ی ممانعت ہو (یعنی تقدس اور پاکیزگی کی شان باقی رکھنے کے لئے نصیحت کے طور پر کسی چیز سے روکاگیا ہوتو ) اگرچہ اس پر عصیان کا ا طلاق ہی کیوں نہ ہو تاہو تو یہ عصیان عصمت کے منافی نہیں ہے ۔
..............
١۔سورۂ طہ آیت ١٢١و١٢٢۔
٢۔سورئہ بقرہ آیت٣٧۔
اسی آیۂ شریفہ کے با رے میں کہ جس میں حضرت آدم علیہ السلام کی طرف عصیان اور توبہ کی نسبت دی گئی ہے ایک غلط فہمی ہے کہ جس کے جواب میں شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ یہ عصیان کسی فعل حرام کی مما نعت کی نسبت نہیں ہے ۔ در اصل، خداوند عالم کسی بندہ کو کسی کام سے اس لئے منع کرے کہ اس کام کا کر نا آخرت کے عذاب کا باعث ہوگا یعنی اگریہ کام کیا تو آخرت میں شقاوت اور خداوند عالم سے دوری کا باعث ہوگا اور یہ کہ کسی کام سے اس لئے روکا جا ئے کہ یہ کام دنیا میں نا مطلوب نتا ئج کا با عث بنے گا اگر چہ یہ شقاوت اور عذاب آخرت یا خداوند عالم سے دور ی کا باعث نہ ہو ۔ ان دونوں با توں میں بڑا فرق ہے درخت کاپھل کھا نے کی مما نعت ،نہی تحریمی یعنی فعل حرام کی مما نعت نہ تھی کہ اس کا نہ کرنا لازم و ضروری ہو، اس کی دلیل اور گواہ اسی سورئہ طہٰ کی وہ آیات ہیں کہ جن میں خداوندعالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو جہاں اس امر سے رو کا ہے خود ہی اس نہی کی علت بھی بیان کردی ہے :
( فَلَایُخْرِجَنَّکُمَامِنَ الجَنَّةِ فَتَشْقَیٰ۔اِ نَّ لَکَ اَلَّاتَجُوْعَ فِیْھَاوَلَاتَعْرَیٰ۔ وَاَنَّکَ لَا تَظمَؤُا فِیْھاوَ لَا تَضْحَیٰ )(١)
''ہم نے آدم سے کہدیا:شیطان تم دو نوں کو بہشت سے نکال نہ دے ورنہ تم ( دنیا کی مصیبت میں پھنس جائو گے) ( بہشت میں ) تمھیں یہ ( آرام ) ہے کہ نہ تم یہاں بھو کے رہو گے اور نہ برہنہ اور نہ یہاں پیاسے رہو گے اور نہ دھوپ میں جلوگے '' ۔
اس ممانعت کی وجہ خداوند عالم کا یہ فرمان ہے : تم مو جو د ہ آرام و آسائش سے محروم ہو جا ئو گے۔
اس مقام پر بہت سی بحثیں وجود میں آتی ہیں یہ کہ جس دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام سے یہ خطاب ہوا ہے۔ آیا وہ دنیا عالم تکلیف تھی اور بندوں پر احکام عائد ہو چکے تھے یا نہیں ؟ فرائض اورتکلیف اِس دار دنیا اور اس عالم خاکی سے تعلق رکھتے ہیں اور جب آدم علیہ السلام اس عالَم میں بھیج دئے گئے تو آپ سے خطاب ہوا :
( فَاِمَّایَا تِیَنَّکُمْ مِنِّی ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَاخَوْفعَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ)(٢)
''اگر تمہارے پاس میری طرف سے کو ئی رہنما ئی کی جا ئے تو جو میری ہدایت پر چلیں گے اُن پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ ر نجیدہ ہو ں گے ''۔
اس سے پہلے سرے سے کو ئی فریضہ تھا ہی نہیں ، یہ اوا مر و نوا ہی ایک امر تکوینی کی حکا یت کر تے ہیں یا یہ کہئے
..............
١۔سورئہ طہ آیت ١١٧۔١١٩۔
٢۔سورئہ بقرہ آیت ٣٨۔
کہ عقل کی رہنما ئی کی گئی ہے ان زحمتو ں کی طرف رہنما ئی ہے جو اس نہی کی مخا لفت پر مر تب ہو تی ہیں ۔ اس مقام پر شیعہ علما ء نے جو وضا حتیں دی ہیں مختلف ہیں بعض علماء کا کہنا ہے کہ وہ عالَم عا لَمِ تکلیف نہیں تھا اور بعض علما ء کا کہنا ہے کہ یہ فریضہ تحر یمی نہیں تھابلکہ تنز یہی تھا اور عام طور پر یہ ا صطلا ح رائج ہے کہ حضر ت آ دم علیہ السلام نے ترک اولیٰ کیا تھا یعنی ایک تنز یہی تکلیف نہ کھا نے کے سلسلہ میں تھی اور حضرت آ دم علیہ السلام نے اس تنز یہی تکلیف کے خلاف کیا۔ اس دلیل کا مطلب یہ ہو ا کہ اس زما نہ میں بھی شرعی تکلیف یا (فریضہ) اگر چہ تنز یہی صو رت میں ہی سہی مو جو د تھا لیکن دوسری تو ضیح یہ ہے کہ اس زما نہ میں سرے سے فریضہ مرتب ہی نہیں ہوتا تھااور اس حکم اور ممانعت کی کو ئی دوسری صورت بیان کر نے کی ضرورت ہے ۔
بہر حال اس غلط فہمی کا ہم یہ جواب دے سکتے ہیں کہ عصیا ن یا ''گناہ '' کی اصطلاح چو نکہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ عصیان ایک شر عی فریضے کی ادا ئیگی سے متعلق تھا اور اس کی تا ئید اس بات سے ہو تی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو اس درخت کے پا س جا نے سے منع کیا گیا تواس مما نعت کی علت بھی بیان کر دی گئی کہ اگر تم نے اس کا م کو انجام دیا تو زحمت میں پڑ جا ؤ گے اور تم سے(بہشت کی) یہ آ رام و آ سا ئش چھن جا ئے گی اوریہ زبان کسی فعل حرام سے منع کرنے کی زبان نہیں ہے اور ائمہ علیہم السلام سے عصمت کے متعلق نقل ہو نے وا لی روا یا ت کے منا فی نہیںہیں۔

حضرت ابر اہیم اور حضرت یو سف علیہما السلا م
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قو م سے چا ند ،سورج اور ستا روں کی پر ستش کے متعلق مبا حثہ کیا اور بت پر ستی کے خلاف جنگ کا فیصلہ کر لیا اور مو قع کی تلاش میں تھے کہ بتوں کے خلاف آواز بلند کریںاور ایک توحیدی تحریک کی بنیا د رکھیں۔ لہٰذا آپ کے ذہن میں یہ با ت آ ئی کہ اہل شہر جس دن مخصوص رسو ما ت انجام دینے کیلئے شہر سے با ہرجاتے ہیں اسی دن یہ کام کیا جا سکتا ہے اور پھر خود کو اس کے لئے آمادہ کرلیا کہ جب شہر والے شہر سے باہر نکل جائیںگے تو وہ بت خانہ میں جاکر بتوں کو توڑڈالیں گے۔ اہل شہر باہر جاتے وقت ظا ہر ہے آپ سے بھی کہتے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلئے۔چونکہ آپ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے کہ جس کے سر پرست (آزر)بت تراش تھے اس طرح کے پیشہ کا یہی تقاضا تھا کہ جب خاندان والے شہر سے باہر جائیں تو تمام افراد منجملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی (جو اس خاندان کی ایک فرد تھے) اپنے ہمراہ لے جائیں ۔حضرت ابراہیم نے شہر سے باہر نہ جانے اور اپنے منصو بے پر عمل کرنے کی غرض سے اپنے کو مریض ظا ہرکیا قرآن کریم فرماتا ہے:
(فَنَظَرَنَظْرَةً فِی النُّجُوْمِ۔فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْم)(١)
''تو ابراہیم نے ستاروں کی طرف ایک نظر دیکھا ا ور کہا کہ میں بیمار ہوں '' ۔
اس آیت سے کچھ مفسرین نے یہ استفادہ کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حقیقت کے بر خلاف بات کی تھی کیونکہ آپ مریض نہیں تھے اور فرمایا تھا(اِنِّیْ سَقِیْمُ)(میں بیمار ہوں) پس معلوم ہواکہ پیغمبر کا نبوت سے پہلے کذب بیانی سے کام لینا ممکن ہے اب یا تو نبوت سے پہلے گناہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،یا یہ کہ پھروہ گناہ صغیرہ تھا جس کے ارتکاب سے نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
اسی طرح کی گفتگو حضرت یو سف علیہ السلام کے با رے میںبھی ہے ۔ وہ مشہور و معروف واقعہ ہے کہ جب (قحط میںگرفتار)حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپ کے پاس کھانے پینے کی اشیاء لینے کیلئے آئے اور دو سری مرتبہ ا پنے ساتھ اشیائے خو ردو نوش لینے کے لئے بنیا مین کو بھی لے آئے توحضرت یو سف علیہ السلام نے کا رندوں کو حکم دیا کہ چپ کے سے وزن کر نے والا پیمانہ ان کے سا مان میں رکھ دیا جائے تا کہ اس کے بہا نے ان کے بھائی ''بنیا مین '' کو وہاں روکاجاسکے چنا نچہ چپکے سے ایک پیمانہ ان کے سامان میں رکھ دیا گیا ۔ جب وہ جانے لگے تو کا رندوں نے کہا کہ تم لوگ یہاں سے نہیں جاسکتے اس لئے کہ تم نے چوری کی ہے اور تم کو عدالت میں پیش کیا جا ئے گاخداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے:
(فَلَمَّاجَھَّزَھْم بِجَھَازِھِم جَعْلَ الِسّقَا یَةَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ ثْمَّ اَ ذَّنَ مُؤَذِّن اَ یََّتُھَاالْعِیْرُ اِ نَّکُمْ لَسَارِقُوْنَ )(٢)
'' پھر جب یو سف نے ان کا سازو سامان (سفر غلّہ و غیرہ ) درست کرادیا تو(اشارے سے) اپنے بھائی کے اسباب میںایک پیمانہ رکھوادیا پھر ایک شخص للکار کے بولا کہ اے قافلہ والو تم لوگوں نے چور ی کی ہے ''۔
انھو ں نے کہا نہیںہم چوری کرنے نہیں آئے ہیں آخر کار ان کے سامان کی تلاشی لی گئی تو وہ پیمانہ ان ہی کے سامان سے نکلا اور اس طرح بنیامین کو آپ نے اپنے پاس روک لیا ۔
گویاحضرت یوسف علیہ السلام کے حکم سے ان کے بھا ئیوں پر چوری کی تہمت لگائی گئی حالانکہ تہمت لگا نا جائز
..............
١۔سورئہ صافات آیت ٨٨و ٨٩۔
٢۔سور ئہ یو سف آیت ٧٠ ۔
نہیں ہے ۔ پتہ چلا کہ ایسے فعل کا انبیاء علیہم السلام سے سرز د ہو نا ممکن ہے ۔
ان غلط فہمیوں کے مختلف انداز سے جواب دیئے گئے ہیں :
بعض کہتے ہیں کہ یہ '' تو ریہ '' تھا ۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو فرمایا '' اِنِی سقیم'' اس سے آپ نے واقعاً بیمار ہونامراد نہیںلیا تھا بلکہ آپ نے توریہ کیا تھا ۔ اسی طرح جب حضرت یو سف علیہ السلام کے ملازموں نے یہ اعلان کیا کہ '' اِ نَّکْم سَاَرِقُوْنَ '' ( یقیناً تم لوگوں نے چور ی کی ہے ) تو اس سے مراد یہ تھی کہ(مثلاً) ''تم نے حضر ت یو سف علیہ السلام کو چْرا یا ہے'' ۔ تو یہ تو ریہ تھا لیکن اس کا اور زیادہ مد لّل و قاطع جواب دیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام جگہوں پر جھوٹ بو لنا حرام نہیں ہے بلکہ بعض مو قعوں پر حتّیٰ جھوٹ بو لنا واجب بھی ہو سکتاہے اور بعض مو قعوں پر جھوٹ بولنا مباح بھی ہے اور یہ خیال کہ ''مطلق طور پر جھوٹ بولنا حرام ہے'' ایک با طل تصور ہے ۔ ان تمام واقعوں میں ایک ضروری مصلحت تھی جو اگر جھوٹ نہ بولا جاتاتو مصلحت فوت ہوجاتی ۔ مثال کے طور پر اگر ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا دقیق نظر وں سے مطالعہ کریں تو یہ دیکھیں گے کہ آپ ایک انقلاب اور تحریک کے ذریعہ لوگوں کو اس بات کی طر ف متو جّہ کرنا چاہتے تھے کہ بت پر ستش کے لایق نہیں ہیں اور اس کی راہ یہی تھی کہ بیماری کے بہانے شہر میں رک کر بتوں کو تو ڑ دیں اور شرعی طور پر بیماری کا یہ بہانہ حرام نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں اگر آپ کے بھائیوںکی سمجھ میںیہ آجاتا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ان کے بھائی ہیں تو شرمندگی اور شر مساری یا سزا کی وجہ سے فرار کرجاتے اور پھر آپ کے پاس نہ آتے اور اگر وہ اپنے ساتھ بنیامین کو لیجاتے تو پھر آپ کے پاس حضرت یعقوب کے آنے کی کوئی راہ نہ ر ہتی اور اس کام میں جو مصلحتیں مضمر تھیں حا صل نہ ہوپاتیں ۔فرض کیجئے یہ صاف جھوٹ بھی ہو تو بنیامین کواپنے پاس رو کنے کے لئے آپ نے جو چال چلی اس لئے تھی کہ حضرت یعقوب کے مصر آنے کی راہ ہموارہوسکے اور آپ کے بھائی اپنے کئے پر توبہ کریں وغیرہ وغیرہ ۔
بنا بر ایں ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ جس کے تحت اس طرح کا جھوٹ بھی حرام ہو۔ اس کے علاوہ یہ جملہ''انکم لسارقون'' بھی حضرت یو سف علیہ السلام کا جملہ نہیں ہے بلکہ یہ اعلان کرنے والے کا جملہ ہے شاید اس نے یہ خیال کیا ہو کہ حقیقت میں انھوں نے چوری کی ہے اگرقابل اعتراض بات ہے تو اس کے مقدمات میں ہے کہ جنا ب یوسف علیہ السلام نے یہ حیلہ کیوں کیا یعنی آپ نے یہ حکم کیوںصادر کیاکہ ناپ کا پیمانہ ان کے سامان میں رکھ دیا جائے کہ وہ شخص ''انکم لسارقون''کہنے پر مجبور ہو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام حالات الٰہی تدبیرکے تحت بعض مصلحتوں کو پورا کرنے کی غرض سے طے پا ئے تھے کہ جن کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: (کَذَلِکَ کِدْنَا لِیِوْسُفْ)''یوسف کو بھائی کے روکنے کی یہ تدبیرہم نے بتائی تھی ''۔

حضرت یونس علیہ السلام
دوسری آیت حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میںہے کہ جب آپ اپنی قوم سے الگ ہونے کے بعد دریا میں گرے اور مچھلی کے شکم میںچلے گئے تو دعاء کی :
(فَنَادَیٰ فِی الظُّلُمَاتِ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّااَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ)(١)
''پھر تاریکیوں میں جاکر آوازدی کہ پروردگار تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو (ہر عیب سے)پاک و پاکیزہ ہے بیشگ میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میںسے تھا ''۔
جناب یونس نے اپنے قصورکا اقرار کرتے ہوئے فرمایا :''میںہی ظالم ہوں ''توگویاانبیاء کیلئے بھی ظلم اور گناہ کا ارتکاب کرنا جائز ہے اور اتفّاق سے یہ واقعہ بھی رسالت کے بعد کاہے لہٰذا یہ آیت ان دلیلوں میں سے ہے جن سے انبیاء علیہم السلام کی طرف سے یہاں تک کہ نبوت کے بعد بھی صغیرہ کے ارتکاب کے جائز ہو نے کا استدلال کیاگیا ہے۔
اس شبہہ کا جواب بھی واضح ہے اس لئے کہ جس عصمت کا ہم دعویٰ کر تے ہیں وہ ارتکاب محرمات سے معصوم ہوناہے لیکن غیر محرمات کا ارتکاب (اس پر عصیان اور ظلم کا اطلاق کیوںنہ ہو) انبیاء علیہم السلام کی عصمت سے منافات نہیں رکھتا ہے حضرت یونس علیہ السلام کے لئے بہتر تھا کہ اپنی قوم کے درمیان رہتے اور ان کو ترک نہ کرتے لیکن انھو ں نے جلدی کی اور یہ جلدی کرناترک اولیٰ تھا'' ترک واجب'' نہیں تھا اور اس کام پر ظلم کا اطلاق بھی اسی مناسبت سے ہوا کہ انھوں نے وہ کام ترک کر دیا تھا جس کا انجام دینا (یعنی قوم کے ساتھ ہی رہنا )اولیٰ تھا۔ یہی سبب بنا کہ آپ مچھلی کے منھ میں جا پڑے اور مشکلات میں مبتلا ہوگئے ۔
اسی طرح لفظ مغفرت یا ''بخشنا'' وغیرہ کی تعبیر اس چیز پر دلالت نہیں کرتا کہ خداوند عالم نے کسی فعل حرام کے گنا ہ کو مغفرت کا مو رد قرار دیاہے ۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم نے ترک اولیٰ پر مترتّب ہونے والے آثار کو دور کردیا ہر چیز کابخشنا خود اسی چیز کی مناسبت سے ہے حرام گناہ کے بخشنے کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے عذاب سے نجات دی ہے لیکن ترک اولیٰ کے بخشنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پرجو معمولی اثرات مترتب ہوسکتے تھے رفع
..............
١۔سورئہ انبیاء آیت ٨٧۔
ہوجائیں۔چنا نچہ حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو مچھلی کے شکم سے نجات مل گئی اوروہ دوبارہ اپنی قوم میں واپس آکر ان کی رہنمائی میں مشغول ہوگئے ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام
اسی طرح کا ایک اور مقام حضرت موسی علیہ السلام کی اس مشہور ومعروف داستان سے متعلق ہے کہ ایک روز جب آپ فرعون کے محل سے باہر نکلے آپ نے دیکھا ایک فرعونی بنی اسرائیل کے ایک شخص سے لڑرہاہے ۔توحضرت مو سیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے ایک شخص پر ہو نے والے ظلم کودو ر کرنے کی غرض سے فرعونی کوایک گھونسا مارا اور وہ شخص گرااور دنیا سے رخصت ہوگیا :
(فَوَکَزَہُ مُوْسَیٰ فَقَضَیٰ عَلَیْہِ)
''پس موسیٰ نے ایک گھو نسا ماراتو اسکا کام تمام ہوگیا ''۔
یہ خبر فرعون کو ملی تو لوگ ان کی تلاش میں نکل پڑے اور حضر ت مو سیٰ علیہ السلام نے بھی وہاں سے نکل جانا بہترسمجھا ۔۔۔اور با لآخر مدین چلے گئے ۔شہر مدین سے واپس پلٹتے وقت جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خداوندعالم نے خطاب فرمایاکہ اے موسیٰ تم فرعون کے پاس جائو اورفر عو نیوں کو (توحید کی) دعوت دو تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :
(وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْب فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ)(١)
''اور میں نے ان کے خیال میں ایک جرم کیاہے پس مجھے ڈرہے کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں ''۔
خداوند عالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ یقین دلایاکہ میں تمہاری حفاظت کرونگا جب حضرت موسیٰ حضرت ہارون کے ہمراہ فرعون کے پاس آئے تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا:
(قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَاوَلِیْداًوَلَبِثْتَ فِیْنَامِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ)(٢)
''فرعون نے کہا کیا ہم نے بچپنے میں تمہاری پرورش نہیں کی اور تم نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے درمیان نہیں گذارے '' ۔
اور اس کے بعد اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :
..............
١۔سورئہ شعراآیت ١٤۔
٢۔سورئہ شعراآیت١٨۔
(وَفَعَلْتَ فَعَلْتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ)
''اور تم نے وہ کام جو کیا ہے (ایک مردقبطی کا خون )کیا نہیں کیا؟پس تم (میری نعمتوں کے) منکر اور ناشکرے ہو'' ۔
سابقہ تو تمہارا یہ ہے اور آئے ہو مجھکو یہ دعوت دینے کہ میں اپنے ملک و سلطنت سے دست بر دار ہو جا ئوں ؟ !
حضر ت مو سیٰ علیہ السلام نے اس کے جوا ب میں فر ما یا :
(قَالَ فَعَلْتُہَآ اِذاًوَاَنَاْمِنَ الضَّآلِّیْنَ )
''مو سیٰ نے کہا (ہا ں ) میں نے اس وقت اس کام کوکیا(اور سمجھ لو کہ) میں اس وقت راہ گم کر دینے والوں میں سے تھا ''۔
اس آیت کے جملہ ''وَاَنَامِنَ الضَّا لِّیْنّ''اور اسی طرح''وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْب''سے بعض نے استد لال کیا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کے لئے نبوت سے پہلے گنا ہ کر نا اور گمرا ہ ہو نا ممکن ہے ۔
اس شبہ کے بھی متعدد جو ا ب دیئے گئے ہیں ۔ بعض جوا بات لفظ ''ضلال''کے با رے میں ہیں جس کے ''گمراہ ''کے بجا ئے دو سرے معنی بیان کئے ہیں کہ ان کا لا زمہ گنا ہ نہیں ہے ۔ منجملہ انھو ں نے کہا ہے کہ ضلال کا مطلب ''عدم عمد ''(یاجان بو جھ کر کام نہ کرنا )اور ''جہل ''یا بھول ہے ۔ چنا نچہ'' جہل'' کبھی علم کے مقا بل استعمال کیا جا تا ہے اور کبھی عمد(یعنی با لا رادہ کام کرنے ) کے مقا بل میں استعمال کیا جا تا ہے ۔چنا نچہ حضر ت مو سیٰ علیہ السلام یہ فر ما نا چا ہتے تھے کہ میں نے اس مرد قبطی کو قتل کر نا نہیں چا ہا تھا بلکہ میں تو مرد بنی اسرا ئیل کو (اس کے ظلم سے) نجات دلا نا چا ہتا تھالہٰذا اس کا بھولے سے مجھ سے قتل ہو گیا ۔گو یا آپ نے یہ فر ما یا (وَاَ نَامِن َالْمُخْطِئِینَ) یعنی یہ قتل خطا کے تحت ہو گیا تھا ۔
کچھ دو سرے افراد نے ''ضلال ''کے معنی ''محبت ''بتا ئے ہیں ( یہ ان عجیب با توں میں سے ہے جو کبھی کبھی بیان کی جا تی ہیں )اور وہ ستد لال میں وہ آیت پیش کر تے ہیں کہ جس میں حضرت یعقو ب علیہ السلام کے بیٹو ں نے ان سے کہا تھا ''اِ نَّکَ فِیْ ضَلَا لِکَ الْقَدِیْمِ''''یقینا آپ اپنے پر ا نی( محبت) میں (پڑے ہو ئے )ہیں ''
یہاں لفظ ''ضلالت'' سے ان کی مراد حضرت یعقو ب کی حضر ت یو سف سے محبت تھی ۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ضلال کے ایک معنی محبت بھی ہیں ۔ ''اَنَامِنَ الضَّا لِّیْنَ '' یعنی ''اَنَامِنَ الْمُحِبِّیْنَ ''محبین للٰہ۔
اس با رے میں دو سری وجہیں بھی بیان کی گئیں ہیں ۔ جن میں سے اگر بعض بیا ن نہ کر تے تو بہتر تھا ۔ مرحو م علا مہ طبا طبا ئی نے اس کی وجہ یہ بیا ن فر ما ئی ہے کہ میں اس وقت نہیں سمجھ سکا کہ اس جھگڑ ے کو کس طرح ختم کیا جا ئے اور اس جھگڑ ے کو حل کر نے کی بہترصورت سے نا واقف تھا ۔لہٰذا میں نے ایک گھو نسا ما ردیا جس سے یہ حادثہ رو نما ہو گیا ۔ معلوم ہو ا کہ ضلال سے مراد جہل ہے اور جہل سے مراد اس کام کو احسن طریقہ سے انجام دینے سے جاہل ہو نا ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ حقیقت میں یہ فر عون کی دل جوئی کا ایک طریقہ تھا ۔فر عون نے کہا تم اس وقت گمرا ہ تھے ۔ حضرت مو سیٰ علیہ السلام بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا کرکہنا چا ہتے تھے کہ اس زما نہ کی گمرا ہی کا آ ج کی دعوت حق سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ اصل مسئلہ کو بیا ن کر نے کے لئے دلجو ئی کا انداز اپنا یا تھا کہ اس گفتگو کو ختم کیا جا سکے۔
بہر حال ان آ یات میں (کا فر) اور (ضالّ ) کی لفظیںاصطلا حی معنی میں استعمال نہیں ہو ئی ہیںاورکسی حرام کے ارتکاب پر دلالت نہیں کر تیں ۔

حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما ا لسلام
خدا وند عالم حضرت سلیما ن علیہ السلام کے با رے میں فر ما تا ہے :
(وَاَلْقَیْنَا عَلَیٰ کُرْسِیِّہِ جَسَداً ثُمَّ اَنَابَ )(١)
''اور ہم نے ان کے تخت پر ایک بے جان جسم لا کر گرا دیا تو پھر انھو ں نے خدا کی طرف تو جہ کی'' ۔
اور حضر ت داؤد علیہ السلام کے با رے میں ہے کہ جب آپ کی خد مت میں دو آدمی آئے ایک نے کہا:
(اِ نَّ ھَٰذَااَخِیْ لَہُ تِسْع وَ تِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَلِیَ نَعْجَة وَاحِدَ ة فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَاوَعَزَّ نِیْ فِیْ الْخِطَابِ )(٢)
''یہ (شخص) میرا بھا ئی ہے اور اس کے پا س ننا نو ے دُنبیاں ہیںاور میر ے پاس صرف ایک ہے اس پر بھی یہ مجھ سے کہتا ہے کہ وہ ایک دُنبی مجھے دیدو اور زبان درازی میں مجھ پر حا وی ہوجاتا ہے'' ۔
( لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَا لِ نَعْجَتِکَ اِلَیٰ نِعَاجِہِ)
''داؤ د نے ''بغیر اس کے کہ دو سرے فریق سے کچھ پو چھیں '' کہد یا کہ یہ جو تیر ی دنبی لے کر اپنی دُنبیو ں میں اضافہ کر نا چا ہتا ہے ظلم کا مر تکب ہوا ہے '' ۔
..............
١۔سور ئہ ص آیت ٣٤۔
٢۔سو رئہ ص آیت ٢٣۔ ٢٤۔
حضرت دا ؤد علیہ السلام نے فیصلہ کر نے میں جلد ی دکھا ئی دلیل ما نگنے اور عدالتی کا ر روائی کے مقد مات فراہم ہو نے سے پہلے ہی صر ف مدّعا کے بیان پر ہی فیصلہ کر تے ہو ئے کہد یا (لَقَدْ ظَلَمَکَ)یہ درست نہیں ہے!!
اس اعتراض کا بھی یہ جوا ب د یاجا سکتاہے کہ با قا عدہ قسم کی کو ئی عدالتی کا ر روائی نہیں تھی۔ یعنی حقیقت میں حضرت داؤ د ایک کی چیز دو سرے کو نہیں دینا چا ہتے تھے فیصلہ تو اس وقت ہو تا جب اس کی بنیا د پرایک سے لیکر دوسرے کو دے دیتے اور جس ملکیت کے با رے میںجھگڑا ہے وہ ایک کے حق میں ثابت ہو جا ئے ۔ یہا ں ایسا نہیں ہوادو افرادکے درمیان صرف ایک عام سی گفتگو ہو رہی تھی : ان میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ وہ ایک گو سفند جو اس کے پاس ہے وہ بھی مجھے دید و دوسرا کہہ رہا تھا نہیں دو نگا اور پھردو نوں حضرت داؤ د علیہ السلام کی خد مت میں حاضر ہو ئے اور اپنی بات دہرائی۔ معلوم ہوا یہ کوئی باقا عدہ عدالتی کا ر روائی نہ تھی کہ جس میں دو طرفہ بیان اور دلیل کی ضرورت پڑتی لہٰذا جناب داؤد نے کوئی خلاف شر ع کام انجا م نہیں دیا تھا ۔ ہاں بہتر یہی تھا کہ آ پ فیصلہ میں جلد ی نہ کر تے اور دقّتِ نظر سے کام لیتے ۔
حضرت دا ؤد علیہ السلام اسی بات پر چا لیس دن تک اشک ندامت بہاتے اور استغفار کر تے رہے اس وقت خطاب ہو ا :( یَادَاؤُدُ اِنّا جَعَلْنَا کَ خَلِیْفَةً فِیْ الْاَرْضِ )
''اے داؤ د ہم نے تم کو زمین میں (اپنا ) نا ئب قرار دیا ''۔
تم جو محض تر کِ اولیٰ کی وجہ سے چا لیس دن سے گر یہ کر رہے ہو یقیناًتم لو گو ں کے در میان ہما رے خلیفہ اور قا ضی ہو نے کی صلا حیت اور لیا قت رکھتے ہو ۔نتیجہ کے طو ر پر یہ آ یات بھی ایک نبی کے ذریعہ کسی حرا م شر عی کے ارتکاب پر دلالت نہیں کر تیں ۔